Blog
Books
Search Hadith

اِلٰی قَوْلِہِ {وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُلٰئِکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْنَ} کی تفسیر

16 Hadiths Found

۔ (۸۵۸۱)۔ عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: مُرَّ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِیَہُوْدِیٍّ مُحَمَّمٍ مَجْلُودٍ فَدَعَاہُمْ فَقَالَ: ((أَ ہٰکَذَا تَجِدُوْنَ حَدَّ الزَّانِی فِی کِتَابِکُمْ؟۔)) فَقَالُوْا: نَعَمْ، قَالَ: فَدَعَا رَجُلًا مِنْ عُلَمَائِہِمْ فَقَالَ: ((أَنْشُدُکَ بِاللّٰہِ الَّذِی أَ نْزَلَ التَّوْرَاۃَ عَلٰی مُوسٰی أَ ہٰکَذَا تَجِدُوْنَ حَدَّ الزَّانِی فِی کِتَابِکُمْ۔)) فَقَالَ: لَا، وَاللّٰہِ! وَلَوْلَا أَ نَّکَ أَنْشَدْتَنِی بِہٰذَا لَمْ أُخْبِرْکَ نَجِدُ حَدَّ الزَّانِی فِی کِتَابِنَا الرَّجْمَ، وَلٰکِنَّہُ کَثُرَ فِی أَ شْرَافِنَا فَکُنَّا إِذَا أَ خَذْنَا الشَّرِیفَ تَرَکْنَاہُ وَإِذَا أَ خَذْنَا الضَّعِیفَ أَ قَمْنَا عَلَیْہِ الْحَدَّ، فَقُلْنَا: تَعَالَوْا حَتّٰی نَجْعَلَ شَیْئًا نُقِیمُہُ عَلَی الشَّرِیفِ وَالْوَضِیعِ، فَاجْتَمَعْنَا عَلَی التَّحْمِیمِ وَالْجَلْدِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اللّٰہُمَّ إِنِّی أَ وَّلُ مَنْ أَ حْیَا أَ مْرَکَ إِذْ أَ مَاتُوہُ۔)) قَالَ: فَأَ مَرَ بِہِ فَرُجِمَ فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {یَا أَ یُّہَا الرَّسُولُ لَا یَحْزُنْکَ الَّذِینَیُسَارِعُوْنَ فِی الْکُفْرِ} إِلٰی قَوْلِہِ: {یَقُولُونَ إِنْ أُوتِیتُمْ ہٰذَا فَخُذُوْہُ} یَقُولُونَ: ائْتُوْا مُحَمَّدًا فَإِنْ أَ فْتَاکُمْ بِالتَّحْمِیمِ وَالْجَلْدِ فَخُذُوہُ، وَإِنْ أَ فْتَاکُمْ بِالرَّجْمِ فَاحْذَرُوا إِلَی قَوْلِہِ: {وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَ نْزَلَ اللّٰہُ فَأُولَئِکَ ہُمُ الْکَافِرُوْنَ} قَالَ فِی الْیَہُودِ إِلٰی قَوْلِہِ: {وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللّٰہُ فَأُولَئِکَ ہُمُ الظَّالِمُوْنَ} {وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللّٰہُ فَأُولَئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُونَ} [المائدۃ: ۴۴، ۴۵، ۴۷] قَالَ: ہِیَ فِی الْکُفَّارِ۔ (مسند احمد: ۱۸۷۲۴)

۔ سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس سے ایکیہودی کو گزارا گیا، جس کا چہرہ کالا کیا گیا تھا اور اسے کوڑے لگائے گئے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو بلایا اور فرمایا: کیا تم اپنی کتاب میں زانی کییہی حد پاتے ہو؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے علماء میں سے ایک آدمی کو بلایا اور اس سے فرمایا: میں تجھے اس اللہ کا واسطہ دیتا ہوں، جس نے موسیٰ علیہ السلام پر تورات نازل کی، کیا تم اپنی کتاب میں زانی کی حد اسی طرح پاتے ہو؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! نہیں، اور اگر آپ نے مجھے یہ واسطہ نہ دیا ہوتا تو میں آپ کو نہ بتلاتا، ہم اپنی کتاب میں زنا کی حد رجم ہی پاتے ہیں، لیکن جب ہمارے اونچے طبقے والے لوگوں میں زنا عام ہو گیا تھا، تو جب ہم کسی اونچے آدمی کو پکڑتے تو اسے چھوڑ دیتے اور جب ہم کسی کمزور کو پکڑتے تو اس پر یہی حد قائم کردیتے، پھر ہم نے اجلاس کیا اور یہ قانون پاس کیا کہ ہم ایسی حد تجویز کر لیں جو ہم بلند مرتبہ اور کم مرتبہ دونوں قسم کے لوگوں پر نافذ کر سکیں، پس ہم نے اس پر اتفاق کیا کہ کوڑے مار دئیے جائیں اور منہ کالا کر دیا جائے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! میں تیرا وہ بندہ ہوں، جس نے سب سے پہلے تیرے حکم کو زندہ کیا ہے، جبکہ یہودیوں نے اس کو چھوڑ رکھا ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حکم دیا اور اسے رجم کر دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: {یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ لَا یَحْزُنْکَ الَّذِیْنَیُسَارِعُوْنَ فِی الْکُفْرِ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِاَفْوَاہِہِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُہُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا سَمّٰعُوْنَ لِلْکَذِبِ سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِیْنَ لَمْ یَاْتُوْکَیُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَوَاضِعِہٖیَقُوْلُوْنَ اِنْ اُوْتِیْتُمْ ہٰذَا فَخُذُوْہُ وَاِنْ لَّمْ تُؤْتَوْہُ فَاحْذَرُوْا۔}… اے رسول! تجھے وہ لوگ غمگین نہ کریں جو کفر میں دوڑ کر جاتے ہیں، ان لوگوں میں سے جنھوں نے اپنے مونہوں سے کہا ہم ایمان لائے، حالانکہ ان کے دل ایمان نہیں لائے اور ان لوگوں میں سے جو یہودی بنے۔ بہت سننے والے ہیں جھوٹ کو، بہت سننے والے ہیں دوسرے لوگوں کے لیے جو تیرے پاس نہیںآئے، وہ کلام کو اس کی جگہوں کے بعد پھیر دیتے ہیں۔ کہتے ہیں اگر تمھیںیہ دیا جائے تو لے لو اور اگر تمھیںیہ نہ دیا جائے تو بچ جاؤ۔ یہیہودی آپس میں کہتے ہیں:تم محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کے پاس جاؤ،اگر وہ تمہیںیہ فتویٰ دیں کہ زانی کا منہ کالا کرو اور اسے کوڑے لگائو تو پھر ان کی بات مان لینا اور اگر و ہ رجم کا فتویٰ دیں تو پھر بچ کر رہنا، اللہ تعالی کے اس فرمان تک: {وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللّٰہُ فَأُولَئِکَ ہُمُ الْکَافِرُوْنَ} یہیہودیوں کے بارے میں ہے اور {وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَ نْزَلَ اللّٰہُ فَأُولَئِکَ ہُمُ الظَّالِمُوْنَ} اور {وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَ نْزَلَ اللّٰہُ فَأُولَئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُونَ} یہ دو آیتیں کافروں کے بارے میں ہیں۔

Haidth Number: 8581
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: اللہ تعالی نے فرمایا: {فَإِنْ جَائُ وْکَ فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ أَ وْ أَ عْرِضْ عَنْہُمْ، وَإِنْ تُعْرِضْ عَنْہُمْ فَلَنْ یَضُرُّوکَ شَیْئًا، وَإِنْ حَکَمْتَ فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ بِالْقِسْطِ، إِنَّ اللّٰہَیُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ}… پھر اگر وہ تیرے پاس آئیں تو ان کے درمیان فیصلہ کر، یا ان سے منہ پھیر لے اور اگر تو ان سے منہ پھیر لے تو ہرگز تجھے کچھ نقصان نہ پہنچائیں گے اور اگر تو فیصلہ کرے تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ تفصیلیہ ہے کہ جب بنو نضیر، بنو قریظہ کا بندہ قتل کر دیتے تو وہ نصف دیت دیتے اور جب بنو قریظہ، بنو نضیر میں سے کسی کو قتل کر دیتے تو یہ پوری دیت دیتے تھے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دیت کے معاملے میں ان کے مابین برابری کر دی۔

Haidth Number: 8582

۔ (۸۵۸۳)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قاَلَ: إِنَّ اللَّٰہَ عَزَّوَجَلَّ أَ نْزَلَ: {وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَ نْزَلَ اللّٰہُ فَأُوْلٰئِکَ ھُمُ الْکَافِرُوْنَ} وَ {أُوْلٰئِکَ ھُمُ الظَّالِمُوْنَ} وَ{أُوْلٰئِکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْنَ} قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَ نْزَلَھَا اللّٰہُ فِی الطَّائِفَتَیْنِ مِنَ الْیَھُوْدِ، وَکَانَتْ إِحْدَاھُمَا قَدْ قَھَرَتِ اْلأُخْرٰی فِی الْجَاھِلِیَّۃِ حَتّٰی ارْتَضَوْا وَاصْطَلَحُوْا عَلٰی أَ نَّ کُلَّ قَتِیْلٍ قَتَلَہُ (الْعَزِیْزَۃُ) مِنَ الذَّلِیْلَۃِ فَدِیَتُہٗ خَمْسُوْنَ وَسْقاً، وَکُلُّ قَتِیْلٍ قَتَلَہُ (الذَّلِیْلَۃُ) مِنَ (الْعَزِیْزَۃِ) فَدِیَتُہُ مِئَۃُ وَسْقٍ، فَکَانُوْا عَلٰی ذٰلِکَ حَتّٰی قَدِمَ النَّبِیُّ الْمَدِیْنَۃَ، فَذَلَّتِ الطَّائِفَتَانِ کِلْتَاھُمَا لِمَقْدَمِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَیَوْمَئِذٍ لَّمْ یَظْھَرْ وَلَمْ یُوَطِّئْھُمَا عَلَیْہِ وَھُوَ فِی الصُّلْحِ، فَقَتَلَتِ (الذَّلِیْلَۃُ) مِنَ (الْعَزِیْزَۃِ) قَتِیْلاً فَأَ رْسَلَتِ (الْعَزِیْزَۃُ) إِلٰی (الذَّلِیْلَۃِ) أَ نِ ابْعَثُوْا إِلَیْنَا بِمِئَۃِ وَسْقٍ، فَقَالَتِ( الذَّلِیْلَۃُ) وَھَلْ کَانَ ھٰذَا فِی حَیَّیْنِ قَطُّ دِ یْنُھُمَا وَاحِدٌ، وَنَسَبُھُمَا وَاحِدٌ، وَبَلَدُھُمَا وَاحِدٌ، دِیَۃُ بَعْضِھِمْ نِصْفُ دِیَۃِ بَعْضٍ؟ إِنَّا إِنَّمَا أَ عْطَیْنَاکُمْ ھٰذَا ضَیْماً مِنْکُمْ لَنَا، وَفَرَقًا مِنْکُمْ فَأَ مَّا إِذْ قَدِمَ مُحَمَّدٌ فَلَا نُعْطِیْکُمْ ذٰلِکَ، فَکَادَتِ الْحَرْبُ تَھِیْجُ بَیْنَھُمَا، ثُمَّ ارْتَضَوْا عَلٰی أَ ن یَّجْعَلُوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَیْنَھُمْ، ثُمَّ ذَکَرَتِ (الْعَزِیْزَۃُ) فَقَالَتْ: وَاللّٰہِ مَامُحَمَّدٌ بِمُعْطِیْکُمْ مِنْھُمْ ضِعْفَ مَایُعْطِیْھِمْ مِنْکُمْ، وَلَقَدْ صَدَقُوْا، مَا أَ عْطَوْنَا ھٰذَا إِلاَّ ضَیْمًا مِنَّا، وَقَھْراً لَّھُمْ، فَدُسُّوْا إِلٰی مُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَنْ یُخْبِرُ لَکُمْ رَأْیَہُ، إِنْ أَ عْطَاکُمْ مَاتُرِیْدُوْنَ حَکَّمْتُوْہُ، وَاِنْ لَّمْ یُعْطِکُمْ حَذِرْتُمْ فَلَمْ تُحَکِّمُوْہُ، فَدَسُّوْا إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَاساً مِنَ الْمُنَافِقِیْنَ لِیُخْبِرُوْا لَھُمْ رَأْیَ رَسُوْلِ اللّٰہِ فَلَمَّا جَائَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَخْبَرَ اللّٰہُ رَسُوْلَہٗبِأَمْرِھِمْکُلِّہٖوَمَاأَرَادُوْا،فَأَنْزَلَاللّٰہُعَزَّوَجَلَّ: {یَأَیُّھَا الرَّسُوْلُ لَایَحْزُنْکَ الَّذِیْیُسَارِعُوْنَ فِی الْکُفْرِ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوَا آمَنَّا} إلی قولہ: {وَمَنْ لَّمْ یَحْکُم بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَأُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْنَ۔} ثُمَّ قَالَ: فِیْھِمَا وَاللّٰہِ نَزَلَتْ، وَإِیَّاھُمَا عَنَی اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ۔ (مسند احمد: ۲۲۱۲)

۔ سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: اللہ تعالی نے یہ آیات نازل کیں: اور جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے ساتھ فیصلہ نہ کریں وہ کافر ہیں اور وہ لوگ ظالم ہیں اور وہ لوگ فاسق ہیں انھوں نے کہا: اللہ تعالی نے یہ آیاتیہودیوں کے دو گروہوں کے بارے میں نازل کیں، ان میں سے ایک نے دورِ جاہلیت میں دوسرے کو زیر کر لیا تھا، حتی کہ وہ راضی ہو گئے اور اس بات پر صلح کر لی کہ عزیزہ قبیلے نے ذلیلہ قبیلے کا جو آدمی قتل کیا، اس کی دیت پچاس وسق ہو گی اور ذلیلہ نے عزیزہ کا جو آدمی قتل کیا اس کی دیت سو (۱۰۰) وسق ہو گی، وہ اسی معاہدے پر برقرار تھے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ میں تشریف لائے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے آنے سے وہ دونوں قبیلے بے وقعت ہو گئے، حالانکہ ابھی تک آپ ان پر غالب نہیں آئے تھے اور نہ آپ نے ان کی موافقت کی تھی اور ان کے ساتھ صلح و صفائی کا زمانہ تھا۔ اُدھر ذلیلہ نے عزیزہ کا بندہ قتل کر دیا، عزیزہ نے ذلیلہ کی طرف پیغام بھیجا کہ سو وسق ادا کرو۔ ذلیلہ والوں نے کہا: جن قبائل کا دین ایک ہو، نسب ایک ہو اور شہر ایک ہو، تو کیایہ ہو سکتا ہے کہ ایک کی دیت دوسرے کی بہ نسبت نصف ہو؟ ہم تمھارے ظلم و ستم کی وجہ سے تمھیں (سو وسق) دیتے رہے، اب جبکہ محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) آ چکے ہیں، ہم تمھیں نہیں دیں گے۔ ان کے مابین جنگ کے شعلے بھڑکنے والے ہی تھے کہ وہ آپس میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر بحیثیت ِ فیصل راضی ہو گئے۔ عزیزہ کے ورثاء آپس میں کہنے لگے: اللہ کی قسم! محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) تمھارے حق میں دو گنا کا فیصلہ نہیں کرے گا، ذلیلہ والے ہیں بھی سچے کہ وہ ہمارے ظلم و ستم اور قہر و جبر کی وجہ سے دو گناہ دیتے رہے، اب محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کے پاس کسی آدمی کو بطورِ جاسوس بھیجو جو تمھیں اس کے فیصلے سے آگاہ کر سکے، اگر وہ تمھارے ارادے کے مطابق فیصلہ کر دے تو تم اسے حاکم تسلیم کر لینا اور اگر اس نے ایسے نہ کیا تو محتاط رہنا اور اسے فیصل تسلیم نہ کرنا۔ سو انھوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس کچھ منافق لوگوں کو بطورِ جاسوس بھیجا، جب وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچے تو اللہ تعالی نے اپنے رسول کو ان کی تمام سازشوں اور ارادوں سے آگاہ کر دیا اور یہ آیات نازل فرمائیں: اے رسول! آپ ان لوگوں کے پیچھے نہ کڑھیے جو کفر میں سبقت کر رہے ہیں خواہ وہ ان میں سے ہوں جو زبانی تو ایمان کا دعوی کرتے لیکن حقیقت میں ان کے دل باایمان نہیں … … اور جو اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے ساتھ فیصلہ نہ کریں وہ کافر ہیں۔ (سورۂ مائدہ: ۴۱۔ ۴۴) پھر کہا: اللہ کی قسم! یہ آیتیں انہی دونوں کے بارے میں نازل ہوئیں اور اللہ تعالی کی مراد یہی لوگ تھے۔

Haidth Number: 8583
عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عمرہ کے ارادہ سے روانہ ہوئے تو کفار قریش آپ کے اور بیت اللہ کے درمیان حائل ہو گئے آپ نے وہیں حدیبیہ کے مقام پر اپنے قربانی کے اونٹوں کو نحر کیا۔ سر منڈوایا اور ان سے معاہدہ کیا جس میں طے ہوا کہ آپ آئندہ سال آکر عمرہ کریں گے اور قریش مکہ کے خلاف ہتھیار نہ اُٹھائیں گے۔ مسلمانوں کے پاس صرف تلواریں ہو گی اور وہ مکہ میں صرف اتنے دن گزار سکیں گے جن کی قریش اجازت دیں گے چنانچہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اگلے سال آکر عمرہ اداکیا۔ اور حسبِ معاہدہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ جب تین دن گزر گئے تو قریش نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی روانگی کا مطالبہ کیا، سو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہاں سے چلے آئے۔

Haidth Number: 10833
عبداللہ بن ابی اوفی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب عمرہ ادا کیا تو ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے طواف کیا تو ہم نے بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ طواف کیا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نمازادا کی تو ہم نے بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نماز پڑھی اور جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صفا اور مروہ کے مابین سعی کی تو ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ سعی کی، ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ارد گردرہ کر اہل مکہ سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا دفاع کر رہے تھے، تاکہ اہل مکہ میں سے کوئی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو تکلیف نہ پہنچا دے، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اسلام دشمن جماعتوں کے خلاف یہ دعا کرتے سنا: اَللّٰھُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ سَرِیْعَ الْحِسَابِ ھَازِمَ الْاَحْزَابِ، اَللّٰہُمَّ اھْزِمْہُمْ وَزَلْزِلْھُمْ ( اے اللہ! کتاب نازل کرنے والے، جلد حساب لینے والے، تمام جماعتوں کو شکست سے دو چار کرنے والے، یا اللہ انہیں شکست سے دو چار کر اور ان کو جھنجھوڑ کر رکھ دے۔ )

Haidth Number: 10834
سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ عمرۂ قضاء کے موقع پر جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مکہ مکرمہ تشریف لائے تو ( مقرر وقت گزرنے پر ) قریشِ مکہ نے سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو آکر کہا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے ساتھی سے کہیں کہ مقرر وقت ختم ہو چکا ہے، لہٰذا وہ یہاں سے روانہ ہو جائیں، پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مکہ مکرمہ سے روانہ ہو گئے۔

Haidth Number: 10835

۔ (۱۰۸۳۶)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمَّا نَزَلَ مَرَّ الظَّہْرَانِ فِی عُمْرَتِہِ، بَلَغَ أَصْحَابَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّ قُرَیْشًا تَقُولُ: مَا یَتَبَاعَثُونَ مِنَ الْعَجَفِ، فَقَالَ أَصْحَابُہُ: لَوِ انْتَحَرْنَا مِنْ ظَہْرِنَا، فَأَکَلْنَا مِنْ لَحْمِہِ، وَحَسَوْنَا مِنْ مَرَقِہِ، أَصْبَحْنَا غَدًا حِینَ نَدْخُلُ عَلَی الْقَوْمِ، وَبِنَا جَمَامَۃٌ، قَالَ: ((لَا تَفْعَلُوا وَلٰکِنْ اجْمَعُوا لِی مِنْ أَزْوَادِکُمْ۔)) فَجَمَعُوا لَہُ وَبَسَطُوا الْأَنْطَاعَ، فَأَکَلُوا حَتّٰی تَوَلَّوْا وَحَثَا کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمْ فِی جِرَابِہِ، ثُمَّ أَقْبَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَقَعَدَتْ قُرَیْشٌ نَحْوَ الْحِجْرِ، فَاضْطَبَعَ بِرِدَائِہِ ثُمَّ قَالَ: ((لَا یَرَی الْقَوْمُ فِیکُمْ غَمِیزَۃً۔)) فَاسْتَلَمَ الرُّکْنَ ثُمَّ دَخَلَ حَتّٰی إِذَا تَغَیَّبَ بِالرُّکْنِ الْیَمَانِی مَشٰی إِلَی الرُّکْنِ الْأَسْوَدِ، فَقَالَتْ قُرَیْشٌ: مَا یَرْضَوْنَ بِالْمَشْیِ أَنَّہُمْ لَیَنْقُزُونَ نَقْزَ الظِّبَائِ فَفَعَلَ ذٰلِکَ ثَلَاثَۃَ أَطْوَافٍ، فَکَانَتْ سُنَّۃً، قَالَ أَبُو الطُّفَیْلِ: وَأَخْبَرَنِی ابْنُ عَبَّاسٍ: أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَعَلَ ذٰلِکَ فِی حَجَّۃِ الْوَدَاعِ۔ (مسند احمد: ۲۷۸۲)

ابو طفیل سے مروی ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ عمرۂ قضا ء کے موقع پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب مرالظہران کے مقام پر پہنچے تو صحابہ کو یہ بات پہنچی کہ قریش مسلمانوں کے جسموں کے نحیف ہونے کی باتیں کر رہے ہیں، پس صحابہ نے گزارش کی اگر ہم اپنے کچھ اونٹوں کو ذبح کر کے ان کا گوشت کھائیں اور شوربا یعنییخنی بنا کر پئیں تو جب ہم ان کے سامنے جائیں تو ہم خوب سیراب اور سیر نظر آئیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم ایسے نہ کرو بلکہ تم اپنا زادِ راہ ایک جگہ میں جمع کرو۔ صحابہ نے کھانے کا سارا سامان ایک جگہ جمع کر دیا اور چمڑے کے دستر خوان بچھا دئیے اور سب نے کھانا کھایا،یہاں تک کہ کھا کھا کر وہ اُٹھ گئے اور ہر ایک نے اپنے اپنے تھیلے بھی کھانے سے بھر لیے، اس کے بعد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسجد حرام میں آئے، جبکہ قریشی حجر یعنی حطیم کی جانب بیٹھے ہوئے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی چادر سے اضطباع کیا۔ (یعنی طواف کے وقت چادر کا درمیا ن والا حصہ دائیں کندھے کے نیچے بغل سے نکال کر چادر کے دونوں سروں کو بائیں کندھے پر ڈال دیا اور اس طرح دایاں کندھا ننگا ہو گیا، اس عمل کو اضطباع کہتے ہیں) آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ قریشی لوگ تمہارے اندر کمزوری محسوس نہ کریں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حجر اسود کا استلام کیا اور (رمل کرتے ہوئے) طواف شروع کیا،یہاں تک کہ جب آپ رکن یمانی کی جانب قریش کی آنکھوں سے اوجھل ہوئے تو حجرِاسود تک عام رفتار سے چل کر گئے، قریش نے ان کی کیفیات دیکھ کر کہا کہ یہ لوگ طواف کرتے ہوئے عام رفتار سے چلنے پر مطمئن نہیں، بلکہ اچھل اچھل کر اور کود کود کر طواف کرتے ہیں، جیسے ہرن اچھلتے کودتے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تین چکروں میں ایسے ہی رمل کیا، (رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان عام چال چلے)، پس یہ عمل سنت ٹھہرا، ابو طفیل کہتے ہیں: سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے بتلایا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ عمل حجۃ الوداع میں (بھی) کیا تھا۔

Haidth Number: 10836

۔ (۱۰۸۳۷)۔ عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَدِمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَصْحَابُہُ وَقَدْ وَہَنَتْہُمْ حُمّٰییَثْرِبَ، قَالَ: فَقَالَ الْمُشْرِکُونَ: إِنَّہُ یَقْدُمُ عَلَیْکُمْ قَوْمٌ قَدْ وَہَنَتْہُمُ الْحُمّٰی، قَالَ: فَأَطْلَعَ اللّٰہُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی ذٰلِکَ، فَأَمَرَ أَصْحَابَہُ أَنْ یَرْمُلُوْا، وَقَعَدَ الْمُشْرِکُونَ نَاحِیَۃَ الْحَجَرِ یَنْظُرُونَ إِلَیْہِمْ فَرَمَلُوا وَمَشَوْا مَا بَیْنَ الرُّکْنَیْنِ، قَالَ: فَقَالَ الْمُشْرِکُونَ: ہٰؤُلَائِ الَّذِینَ تَزْعُمُونَ أَنَّ الْحُمّٰی وَہَنَتْہُمْ، ہٰؤُلَائِ أَقْوٰی مِنْ کَذَا وَکَذَا ذَکَرُوا قَوْلَہُمْ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَلَمْ یَمْنَعْہُ أَنْ یَأْمُرَہُمْ أَنْ یَرْمُلُوا الْأَشْوَاطَ کُلَّہَا إِلَّا إِبْقَائٌ عَلَیْہِمْ، وَقَدْ سَمِعْتُ حَمَادًا یُحَدِّثُہُ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَنْ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ، لا شَکَّ فِیْہِ عَنْہُ۔ (مسند احمد: ۲۶۳۹)

سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور صحابۂ کرام عمرۂ قضا کے موقع پر مکہ مکرمہ تشریف لائے تو مسلمانوں کی حالت یہ تھی کہ یثرب کے بخار نے ان کو کمزور کر رکھا تھا، اسی وجہ سے مشرکوںنے کہا: ایسے لوگ تمہارے پاس آرہے ہیں جنہیںیثرب کے بخار نے کمزور کر دیا ہے، اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس بات کی اطلاع دے دی، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صحابہ کو طواف کے دوران رمل کرنے کا حکم دیا، مشرکین حطیم کی جانب بیٹھے مسلمانوں کو دیکھ رہے تھے۔ مسلمانوں نے رمل کیا، البتہ رکن یمانی اور حجراسود کے درمیان عام رفتار سے چلتے رہے، یہ صورتحال دیکھ کر مشرکین نے کہا: یہی وہ لوگ ہیں جن کی بابت تم کہہ رہے تھے کہ ان کو بخار نے کمزور کر رکھا ہے، یہ تو انتہائی طاقت ور ہیں، سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صرف ابتدائی تین چکروں میں رمل کیا اور بعد میں نہیں کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مسلمانوں پر ترس کھاتے ہوئے تمام چکروں میں دوڑنے کا حکم نہیں فرمایا تھا۔

Haidth Number: 10837

۔ (۱۱۷۵۰)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَدِمَ ضِمَادٌ الْأَزْدِیُّ مَکَّۃَ فَرَأٰی رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَغِلْمَانٌ یَتْبَعُونَہُ، فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ إِنِّی أُعَالِجُ مِنَ الْجُنُونِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰہِ نَسْتَعِینُہُ وَنَسْتَغْفِرُہُ، وَنَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا، مَنْ یَہْدِہِ اللّٰہُ فَلَا مُضِلَّ لَہُ، وَمَنْ یُضْلِلْ فَلَا ہَادِیَ لَہُ، وَأَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ، وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ۔)) قَالَ: فَقَالَ: رُدَّ عَلَیَّ ہٰذِہِ الْکَلِمَاتِ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: لَقَدْ سَمِعْتُ الشِّعْرَ وَالْعِیَافَۃَ وَالْکَہَانَۃَ فَمَا سَمِعْتُ مِثْلَ ہٰذِہِ الْکَلِمَاتِ، لَقَدْ بَلَغْنَ قَامُوسَ الْبَحْرِ، وَإِنِّی أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللَّہُ، وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ فَأَسْلَمَ، فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِینَ أَسْلَمَ: ((عَلَیْکَ وَعَلٰی قَوْمِکَ۔)) قَالَ: فَقَالَ: نَعَمْ، عَلَیَّ وَعَلٰی قَوْمِی، قَالَ: فَمَرَّتْ سَرِیَّۃٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعْدَ ذٰلِکَ بِقَوْمِہِ فَأَصَابَ بَعْضُہُمْ مِنْہُمْ شَیْئًا إِدَاوَۃً أَوْ غَیْرَہَا، فَقَالُوْا ہَذِہِ مِنْ قَوْمِ ضِمَادٍ رُدُّوہَا، قَالَ: فَرَدُّوہَا۔ (مسند احمد: ۲۷۴۹)

سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا ضماد ازدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مکہ مکرمہ آئے اور انھوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ لڑکے آپ کو تنگ کرتے ہوئے آپ کا پیچھا کر رہے تھے۔ انھوں نے کہا: اے محمد! میں پاگل پن کا علاج کرتا ہوں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جوابا یہ خطبہ پڑھا: إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّہِ نَسْتَعِینُہُ وَنَسْتَغْفِرُہُ، وَنَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا، مَنْ یَہْدِہِ اللّٰہُ فَلَا مُضِلَّ لَہُ، وَمَنْ یُضْلِلْ فَلَا ہَادِیَ لَہُ، وَأَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ، وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہ۔ یہ الفاظ سن کر ضماد نے عرض کیا کہ (براہِ کرم) آپ یہ کلمات مجھے دوبارہ سنا دیں، اس نے دوبارہ یہ کلمات سن کر کہا:میں شعر،فال بازی، جادو اور نجامت وغیرہ سن چکا ہوں اور جانتا بھی ہوں، میں نے (محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ادا کیے ہوئے) ان کلمات جیسے با مقصد اور جامع کلمات آج تک نہیں سنے، یہ تو سمندر کی تہ تک پہنچنے والے کلمات ہیں، میں بھی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میںگواہی دیتا ہوں کہ محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ یہ کلمہ پڑھ کر وہ دائرۂ اسلام میں داخل ہو گیا۔ وہ مسلمان ہوا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ قبول اسلام اور اعتراف تمہاری اور تمہاری قوم کی طرف سے ہے۔ اس نے کہا: جی ہاں یہ میری اور میری قوم کی طرف سے ہے اس کے بعد نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابہ کا ایک دستہ ضماد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی قوم کے پاس سے گزرا اور انہوں نے اس قوم کا کچھ سامان برتن وغیرہ لو ٹ لیا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ ضماد کی قوم ہے، ان کو ان کا سامان وا پس کر دو۔ پس صحابۂ کرام نے ان لوگوں کو ان سے لوٹا ہوا سامان واپس کر دیا۔

Haidth Number: 11750

۔ (۱۲۲۸۶)۔ عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ قَیْسِ بْنِ عُبَادٍ، قَالَ: کُنَّا مَعَ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَکَانَ إِذَا شَہِدَ مَشْہَدًا، أَوْ أَشْرَفَ عَلَی أَکَمَۃٍ، أَوْ ہَبَطَ وَادِیًا، قَالَ: سُبْحَانَ اللّٰہِ صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ، فَقُلْتُ لِرَجُلٍ مِنْ بَنِییَشْکُرَ: انْطَلِقْ بِنَا إِلَی أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ حَتّٰی نَسْأَلَہُ عَنْ قَوْلِہِ صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا إِلَیْہِ، فَقُلْنَا: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ! رَأَیْنَاکَ إِذَا شَہِدْتَ مَشْہَدًا، أَوْ ہَبَطْتَ وَادِیًا، أَوْ أَشْرَفْتَ عَلٰی أَکَمَۃٍ، قُلْتَ صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ، فَہَلْ عَہِدَ رَسُولُ اللّٰہِ إِلَیْکَ شَیْئًا فِی ذٰلِکَ؟ قَالَ: فَأَعْرَضَ عَنَّا وَأَلْحَحْنَا عَلَیْہِ، فَلَمَّا رَأٰی ذٰلِکَ قَالَ: وَاللّٰہِ! مَا عَہِدَ إِلَیَّ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَہْدًا إِلَّا شَیْئًا عَہِدَہُ إِلَی النَّاسِ، وَلٰکِنَّ النَّاسَ وَقَعُوا عَلٰی عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَتَلُوہُ، فَکَانَ غَیْرِی فِیہِ أَسْوَأَ حَالًا وَفِعْلًا مِنِّی، ثُمَّ إِنِّی رَأَیْتُ أَنِّی أَحَقُّہُمْ بِہٰذَا الْأَمْرِ، فَوَثَبْتُ عَلَیْہِ فَاللّٰہُ أَعْلَمُ، أَصَبْنَا أَمْ أَخْطَأْنَا۔ (مسند احمد: ۱۲۰۷)

قیس بن عباد سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی معیت میں سفر کر رہے تھے، وہ جب کسی جگہ پہنچتے یا کسی ٹیلے پر چڑھتے یا کسی وادی میں اترتے تو یوں کہتے:سُبْحَانَ اللّٰہِ صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ۔ (اللہ ہر نقص سے پاک ہے، اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا ہے)۔میں نے بنی یشکر کے ایک فرد سے کہا: آؤ امیر المومنین کی خدمت میں چلتے ہیں، تاکہ ان سے اس قول کی بابت دریافت کریں، پس ہم ان کی خدمت میں گئے اور کہا: امیر المومنین! ہم نے دیکھا ہے کہ جب آپ کسی جگہ پہنچے یا کسی وادی میں اترے یا کسی ٹیلے پر چڑھے تو آپ نے یہ کلمات کہے: صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ۔ (اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا ہے)۔ کیا اس بارے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آپ کو کوئی خاص ہدایت فرمائی ہے، پس انہوں نے ہم سے اعراض کیا ، لیکن جب ہم نے اصرار کیا تو انہوںنے کہا: اللہ کی قسم! رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جو کچھ عام لوگوں سے فرمایا ہے، مجھے بھی وہی حکم دیا ہے، لیکن لوگ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بارے میں فتنہ میں مبتلا ہوگئے اور انہیں شہید کر ڈالا، میرے سوا دوسرے لوگوں کا حال اور فعل بہت برا تھا، سو میں نے دیکھا کہ دوسروں کی بہ نسبت میں اس خلافت کا زیادہ حق دار ہوں تو میں اس کی طرف لپک آیا، اب اللہ بہتر جانتا ہے کہ ہم نے صحیح کیا یا غلط کیا۔

Haidth Number: 12286
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: تم میرے بعد ہر مومن کے ساتھی اور دوست ہو۔

Haidth Number: 12287

۔ (۱۲۲۸۸)۔ عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَرِیَّۃً وَأَمَّرَ عَلَیْہِمْ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالَی عَنْہُ، فَأَحْدَثَ شَیْئًا فِی سَفَرِہِ فَتَعَاہَدَ، قَالَ عَفَّانُ: فَتَعَاقَدَ أَرْبَعَۃٌ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَذْکُرُوا أَمْرَہُ لِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ عِمْرَانُ: وَکُنَّا إِذَا قَدِمْنَا مِنْ سَفَرٍ بَدَأْنَا بِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمْنَا عَلَیْہِ، قَالَ: فَدَخَلُوا عَلَیْہِ فَقَامَ رَجُلٌ مِنْہُمْ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ إِنَّ عَلِیًّا فَعَلَ کَذَا وَکَذَا فَأَعْرَضَ عَنْہُ، ثُمَّ قَامَ الثَّانِی: فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ عَلِیًّا فَعَلَ کَذَا وَکَذَا، فَأَعْرَضَ عَنْہُ، ثُمَّ قَامَ الثَّالِثُ: فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ عَلِیًّا فَعَلَ کَذَا وَکَذَا، فَأَعْرَضَ عَنْہُ، ثُمَّ قَامَ الرَّابِعُ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ عَلِیًّا فَعَلَ کَذَا وَکَذَا، قَالَ: فَاَقْبَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی الرَّابِعِ، وَقَدْ تَغَیَّرَ وَجْہُہُ فَقَالَ: ((دَعُوْا عَلِیًّا، دَعُوْا عَلِیًّا، اِنَّ عَلِیًّا مِنِّیْ وَاَنَا مِنْہُ، وَھُوَ وَلِیُّ کُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِیْ۔)) (مسند احمد: ۲۰۱۷۰)

سیدنا عمران بن حصین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک لشکر روانہ کیا اور سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ان پر امیر مقرر فرمایا،دوران سفر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کوئی ایسا کام ہوا کہ چار صحابہ نے مل کر پکا عزم کیا کہ وہ ان کی اس بات کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے ذکر کریںگے، سیدنا عمران ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ہمارا معمول تھا کہ جب ہم سفر سے واپس آتے تو سب سے پہلے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضری دیتے، آپ کو سلام کہتے۔ پس وہ کہتے ہیں: وہ چاروں آدمی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں آئے، ان میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! علی نے ایسے ایسے کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے اعراض کیا، پھر دوسرا آدمی کھڑا ہوا اور اس نے بھی یہی کہا کہ اے اللہ کے رسول! علی نے یوںیوں کیا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے بھی منہ موڑ لیا، پھر تیسراآدمی اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! علی نے ایسے ایسے کیا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ا س سے بھی اپنا رخ پھیر لیا، اتنے میں چوتھا آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! علی نے ایسے ایسے کیا ہے، بالآخر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم چوتھے آدمی کی طرف متوجہ ہوئے، جبکہ اس وقت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرہ متغیر ہوچکا تھا، اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: علی کو چھوڑ دو، علی کو چھوڑدو، علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں، میرے بعد وہ ہر مومن کا دوست اور ساتھی ہے۔

Haidth Number: 12288
سیدنا بریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اسی طرح کی حدیث ذکر کی ہے، البتہ اس میں یہ الفاظ ہیں: پس بیشک علی مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں، میرے بعد وہ تم کا دوست اور ساتھی ہے، وہ مجھ سے ہے اور میں ا س سے ہوں اور وہ میرے بعد تم سب کا دوست ہے۔

Haidth Number: 12289
سیدنا زید بن ارقم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ کچھ صحابہ کے گھروں کے دروازے مسجد میں کھلتے تھے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک دن فرمایا: علی کے دروازے کے سوا باقی سب دروازے بند کردو۔ لوگوں نے اس بارے میں باتیں کیں تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھڑے ہوئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناکی اور پھر فرمایا: أَمَّا بَعْدُ! میں نے حکم دیا ہے کہ یہ تمام دروازے بند کر دئیے جائیں، ما سواے علی کے دروازے کے، تم میں سے بعض باتیں بنانے والوں نے کچھ باتیں بنائی ہیں، اللہ کی قسم! میں نے خود کسی چیز کو نہ بند کہا ہے اور نہ کھولا ہے، مجھے تو بس جو حکم ملا ہے، میں اسی کی ابتاع کی ہے۔

Haidth Number: 12290
سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب رات کا آخری تہائی حصہ ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر تشریف لاتے ہیں اور آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ اپنا ہاتھ پھیلا کر فرماتا ہے: ہے کوئی سوالی، جو مانگے اور وہ اسے دے دیا جائے، طلوع فجر تک یہی کیفیت رہتی ہے۔

Haidth Number: 12761
سیدناعمر وبن عبسہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ مجھے آپ پر فدا کرے، ایک بات جسے آپ جانتے ہیں اور میں اس سے ناواقف ہوں، آپ بتلا دیں تو آپ کو کوئی نقصان نہیں، البتہ اللہ تعالیٰ مجھے اسے فائدہ پہنچا دے گا، آیا کوئی گھڑی دوسری گھڑی سے افضل بھی ہوتی ہے؟ اور کیا کوئی وقت ایسا بھی ہے، جس میں عبادت کرنے سے بچنا چاہیے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے مجھ سے ایسی بات دریافت کی کہ جس کے بارے میں تم سے پہلے مجھ سے کسی نے نہیںپوچھا، آدھی رات کے بعد اللہ تعالیٰ عرش سے نیچے آجاتا ہے اس وقت شرک اور بغاوت کے علاوہ باقی گناہ کرنے والے سب لوگوں کو بخش دیتا ہے، ہر نماز کے وقت فرشتے حاضر ہوتے ہیں، تم صبح کی نماز طلوع آفتاب تک پڑھ سکتے ہو، جب سورج طلوع ہوجائے تو نماز سے رک جاؤ، یہ حدیث عمر وبن عبسہ کے مناقب میں مفصل بیان ہوچکی ہے۔

Haidth Number: 12762