Blog
Books
Search Hadith

{اِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَاِنَّہُمْ عِبَادُکَ…} کی تفسیر

11 Hadiths Found

۔ (۸۵۹۱)۔ حَدَّثَتْنِی جَسْرَۃُ بِنْتُ دَجَاجَۃَ: أَنَّہَا انْطَلَقَتْ مُعْتَمِرَۃً فَانْتَہَتْ إِلَی الرَّبَذَۃِ فَسَمِعَتْ أَ بَا ذَرٍّ یَقُولُ: قَامَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَیْلَۃً مِنْ اللَّیَالِی فِی صَلَاۃِ الْعِشَائِ فَصَلّٰی بِالْقَوْمِ ثُمَّ تَخَلَّفَ أَ صْحَابٌ لَہُ یُصَلُّونَ، فَلَمَّا رَأٰی قِیَامَہُمْ وَتَخَلُّفَہُمْ انْصَرَفَ إِلٰی رَحْلِہِ، فَلَمَّا رَأَ ی الْقَوْمَ قَدْ أَ خْلَوُا الْمَکَانَ رَجَعَ إِلٰی مَکَانِہِ فَصَلّٰی، فَجِئْتُ فَقُمْتُ خَلْفَہُ، فَأَ وْمَأَ إِلَیَّ بِیَمِینِہِ فَقُمْتُ عَنْ یَمِینِہِ، ثُمَّ جَائَ ابْنُ مَسْعُودٍ فَقَامَ خَلْفِی وَخَلْفَہُ، فَأَ وْمَأَ إِلَیْہِ بِشِمَالِہِ فَقَامَ عَنْ شِمَالِہِ، فَقُمْنَا ثَلَاثَتُنَا، یُصَلِّی کُلُّ رَجُلٍ مِنَّا بِنَفْسِہِ وَیَتْلُو مِنَ الْقُرْآنِ مَا شَائَ اللّٰہُ أَ نْ یَتْلُوَ، فَقَامَ بِآیَۃٍ مِنْ الْقُرْآنِ یُرَدِّدُہَا حَتّٰی صَلَّی الْغَدَاۃَ، فَبَعْدَ أَ نْ أَ صْبَحْنَا أَ وْمَأْتُ إِلٰی عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُودٍ أَ نْ سَلْہُ مَا أَ رَادَ إِلٰی مَا صَنَعَ الْبَارِحَۃَ؟ فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ بِیَدِہِ لَا أَ سْأَ لُہُ عَنْ شَیْئٍ حَتّٰییُحَدِّثَ إِلَیَّ، فَقُلْتُ: بِأَ بِی أَ نْتَ وَأُمِّی قُمْتَ بِآیَۃٍ مِنْ الْقُرْآنِ وَمَعَکَ الْقُرْآنُ لَوْ فَعَلَ ہٰذَا بَعْضُنَا وَجَدْنَا عَلَیْہِ، قَالَ: ((دَعَوْتُ لِأُمَّتِی۔)) قَالَ: فَمَاذَا أُجِبْتَ أَ وْ مَاذَا رُدَّ عَلَیْکَ؟ قَالَ: ((أُجِبْتُ بِالَّذِی لَوِ اطَّلَعَ عَلَیْہِ کَثِیرٌ مِنْہُمْ طَلْعَۃً تَرَکُوا الصَّلَاۃَ۔)) قَالَ: أَفَلَا أُبَشِّرُ النَّاسَ؟ قَالَ: ((بَلٰی)) فَانْطَلَقْتُ مُعْنِقًا قَرِیبًا مِنْ قَذْفَۃٍ بِحَجَرٍ، فَقَالَ عُمَرُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّکَ إِنْ تَبْعَثْ إِلَی النَّاسِ بِہٰذَا نَکَلُوا عَنِ الْعِبَادَۃِ، فَنَادٰی أَ نْ ارْجِعْ فَرَجَعَ وَتِلْکَ الْآیَۃُ: {إِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْلَہُمْ فَإِنَّکَ أَ نْتَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ} [المائدۃ: ۱۱۸]۔ (مسند احمد: ۲۱۸۲۷)

۔ جسرہ بنت دجاجہ سے مروی ہے کہ وہ عمرہ کے لئے گئی، جب راستے میں ربذہ مقام پر پہنچی، تو سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا: انہوں نے کہا: ایک رات عشاء کی نماز میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قیام کیا اور لوگوں کو یہ نماز پڑھائی، جب فارغ ہوئے تو صحابہ کرام پیچھے ہٹ کر نماز پڑھنے لگے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دیکھا کہ وہ نماز پڑھنے کے لئے پیچھے ہٹ گئے ہیں تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے گھر چلے گئے، پھر جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دیکھا کہ جگہ لوگوں سے خالی ہو گئی ہے تو آپ اپنی جگہ پر پھر لوٹ آئے اور نماز پڑھنا شروع کر دی۔ سیدنا ابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے کھڑا ہوگیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے دائیں جانب کھڑا ہونے کا اشارہ کیا، پس میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دائیں جانب کھڑا ہو گیا، اتنے میں سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آ گئے اور وہ ہم دونوں کے پیچھے کھڑے ہو گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو بائیں جانب کھڑا ہونے کا اشارہ کیا، سو وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بائیں جانب کھڑے ہوگئے، ہم تینوں اس انداز پر نماز پڑھتے رہے کہ ہر کوئی اپنی اپنی نماز پڑھ رہا تھا اور قرآن مجید میں سے حسب منشا تلاوت کرتا رہا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قرآن مجید کی صرف ایک آیت کے ساتھ قیام کیا، صبح کی نماز تک اسے ہی دہراتے رہے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نمازِ فجر سے فارغ ہو گئے تو میں (ابو ذر) نے سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے اشارۃً کہا کہ وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گزشتہ رات کے عمل کی بابت پوچھیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا کیا مقصد تھا کہ ایک آیت ہی دوہراتے رہے، لیکن انہوں نے کہا: میں تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے نہیں پوچھوں گا، الا یہ کہ آپ مجھ سے گفتگو کریں، پھر میں نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! آپ نے ایک ہی آیت میں ساری رات گزار دی، جبکہ سارا قرآن مجید آپ کو یاد ہے، اگر ہم سے کوئی ایسا کرتا تو ہم اس سے تو ناراض ہو جاتے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے اپنی امت کے لئے دعا کی ہے۔ میں نے کہا: تو پھر آپ کو اس دعا کا کیا جواب دیاگیا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے اس کا ایسا جواب دیا گیا ہے کہ اگر زیادہ تر لوگوں کو اس کا پتہ چل جائے تو وہ اس پر تکیہ کر کے نماز بھی چھوڑ دیں گے۔ میں نے کہا: کیا میں لوگوں کو اس کی بشارت نہ دے دوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں، ضرور دو۔ میں تیز چلا اور ابھی تک ایک پتھر کی پھینک پر تھا کہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے ابوذر کو لوگوں کی طرف بھیج دیا ہے کہ وہ ان کو خوشخبری دیں، اس سے یہ لوگ عبادت میں سست روی اختیار کریں گے، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے آواز دی کہ ابو ذر واپس آ جائو، سو میں واپس آ گیا۔ وہ آیتیہ تھی: {إِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّکَ أَ نْتَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ}…

Haidth Number: 8591

۔ (۱۰۸۴۸)۔ عَنْ جَابِرٍ قَالَ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَمَّرَ عَلَیْنَا أَبَا عُبَیْدَۃَ نَتَلَقّٰی عِیرًا لِقُرَیْشٍ، وَزَوَّدَنَا جِرَابًا مِنْ تَمْرٍ لَمْ یَجِدْ لَنَا غَیْرَہُ، قَالَ: فَکَانَ أَبُو عُبَیْدَۃَیُعْطِینَا تَمْرَۃً تَمْرَۃً، قَالَ: قُلْتُ: کَیْفَ کُنْتُمْ تَصْنَعُونَ بِہَا؟ قَالَ: نَمَصُّہَا کَمَا یَمَصُّ الصَّبِیُّ ثُمَّ نَشْرَبُ عَلَیْہَا مِنَ الْمَائِ فَیَکْفِینَایَوْمَنَا إِلَی اللَّیْلِ، قَالَ: وَکُنَّا نَضْرِبُ بِعِصِیِّنَا الْخَبَطَ ثُمَّ نَبُلُّہُ بِالْمَائِ فَنَأْکُلُہُ، قَالَ: وَانْطَلَقْنَا عَلٰی سَاحِلِ الْبَحْرِ فَرُفِعَ لَنَا عَلٰی سَاحِلِ الْبَحْرِ کَہَیْئَۃِ الْکَثِیبِ الضَّخْمِ فَأَتَیْنَاہُ فَإِذَا ہُوَ دَابَّۃٌیُدْعَی الْعَنْبَرُ، قَالَ أَبُو عُبَیْدَۃَ، مَیْتَۃٌ، قَالَ حَسَنُ بْنُ مُوسٰی: ثُمَّ قَالَ: لَا بَلْ نَحْنُ رُسُلُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَالَ ہَاشِمٌ فِی حَدِیثِہِ: قَالَ: لَا بَلْ نَحْنُ رُسُلُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَفِی سَبِیلِ اللّٰہِ، وَقَدْ اضْطُرِرْتُمْ فَکُلُوا، وَأَقَمْنَا عَلَیْہِ شَہْرًا، وَنَحْنُ ثَلَاثُ مِائَۃٍ حَتّٰی سَمِنَّا، وَلَقَدْ رَأَیْتُنَا نَغْتَرِفُ مِنْ وَقْبِ عَیْنَیْہِ بِالْقِلَالِ الدُّہْنَ، وَنَقْتَطِعُ مِنْہُ الْفِدَرَ کَالثَّوْرِ أَوْ کَقَدْرِ الثَّوْرِ، قَالَ: وَلَقَدْ أَخَذَ مِنَّا أَبُو عُبَیْدَۃَ ثَلَاثَۃَ عَشَرَ رَجُلًا فَأَقْعَدَہُمْ فِی وَقْبِ عَیْنِہِ وَأَخَذَ ضِلَعًا مِنْ أَضْلَاعِہِ فَأَقَامَہَا ثُمَّ رَحَلَ أَعْظَمَ بَعِیرٍ مَعَنَا، قَالَ حَسَنٌ: ثُمَّ رَحَلَ أَعْظَمَ بَعِیرٍ کَانَ مَعَنَا فَمَرَّ مِنْ تَحْتِہَا، وَتَزَوَّدْنَا مِنْ لَحْمِہِ وَشَائِقَ،فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِینَۃَ أَتَیْنَا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَذَکَرْنَا ذَلِکَ لَہُ، فَقَالَ: ((ہُوَ رِزْقٌ أَخْرَجَہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لَکُمْ، فَہَلْ مَعَکُمْ مِنْ لَحْمِہِ شَیْئٌ؟ فَتُطْعِمُونَا۔)) قَالَ: فَأَرْسَلْنَا إِلَی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْہُ فَأَکَلَہُ۔ (مسند احمد: ۱۴۳۹۰)

جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمیں تین سو آدمیوں کے ایک دستہ کی صورت میں روانہ کیا اور ابو عبیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ہمارے اوپر مقرر فرمایا۔ تاکہ ہم قریش کے ایک قافلہ کا مقابلہ کریں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں کھجوروں کی ایک تھیلی عنایت فرمائی۔ آپ کے پاس ہمیں دینے کے لیے اس علاوہ کے او رکچھ نہ تھا۔ سیدنا ابو عبیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہمیں روزانہ ایک ایک کھجور دیا کرتے تھے۔ ابوالزبیر کہتے ہیں میں نے پوچھا آپ اس کا کیا کرتے تھے؟ فرمایا ہم اسے چوستے رہتے تھے جیسے بچے کسی چیز کو چوستے رہتے ہیں۔ اور اس کے بعد ہم پانی نوش کر لیتے۔ سارا دن ہمارییہی خوراک ہوتی۔ اور ہم لاٹھیوں سے درختوں کے پتے جھاڑ تے اور انہیں پانی میں بھگو بھگو کر کھاتے۔ ہم ساحلِ سمندر پر چلے، ہمیں سمندر کے ساحل پر ایک بہت بڑا ٹیلہ سا دکھائی دیا۔ ہم وہاں پہنچے تو وہ عنبر نامی ایک جانور تھا۔ ابو عبیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا کہ یہ تو مردہ ہے۔ ( یعنی مردہ ہونے کی وجہ سے ہمارے لیے اس کو کھانا حلال نہیں) امام احمد کے شیخ حسن بن موسیٰ کہتے ہیں۔ ابو عبیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے پھر کہا، یہ حرام نہیں بلکہ ہم تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے نمائندے ہیں۔ امام احمد کے دوسرے شیخ ھاشم نے اپنی حدیث میںیوں بیان کیا کہ بلکہ ہم تو اللہ کے نمائندے ہیں اور اللہ کی راہ میں نکلے ہوئے ہیں۔ اور تم اس وقت اضطرار کی کیفیت میں ہو پس اسے کھالو۔ ہم تین سو آدمی تھے۔ ہم نے وہاں ایک ماہ قیام کیا۔ ہم نے وہ اس قدر کھایا کہ ہم خوب موٹے تازے ہو گئے۔ ہم اس کی آنکھ کے گڑھے سے مٹکوں کے ذریعے چربی نکالتے تھے۔ اور اونٹو ں کے برابر برابر اس سے گوشت کے ٹکڑے کاٹتے تھے۔ ابو عبیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ہم میں سے تیرہ آدمیوں کو لے کر اس کی آنکھ کے گڑھے میں بٹھا دیا۔ اور اس کی ایک پسلی کو سیّدھا کھڑا کیا۔ پھر لشکر میں سے سب سے بڑے اونٹ پر پالان کسا تو اس کے نیچے سے گزر گئے۔ اور ہم اس کے گوشت کے ٹکرے نیم پختہ کر کے ساتھ لے گئے۔ مدینہ منورہ پہنچ کر ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ خصوصی رزق تھا جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے بھیجا تھا۔ تمہارے پاس اس کے گوشت میں سے کچھ بچا ہوا موجود ہو تو ہمیں بھی کھلاؤ گے؟ چنانچہ ہم نے اس میں سے کچھ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں بھجوادیا۔

Haidth Number: 10848
سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، یہ صحابی ان افراد میں سے تھے جن کو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیعت عقبہ اولیٰ میں مدینہ منورہ میں لوگوں پر نقیب (اور نگران) مقرر فرمایا تھا، ان سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے بیعت عقبہ اولیٰ کے موقع پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ پر لڑائی کی بیعت کی تھی کہ ہمیں اگر اسلام اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے دفاع کے لیے کسی سے جنگ بھی کرنا پڑی تو ہم اس سے دریغ نہیں کریںگے اور سیدنا عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان بارہ نقباء میں سے تھے، جنہوںنے بیعت عقبہ اولیٰ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ پر موافق اور ناموافق حالات میں پسندیدہ و ناپسندیدہ احوال میںیعنیہر حال میں آپ کا حکم سننے اور ماننے کی بیعت کی اور اس امر کا اقرار کیا کہ ہم حکومت و اقتدار کے بارے میںاہل اقتدار سے مقابلہ نہیں کریں گے اور ہم جہاں بھی ہوں گے ہم کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا کئے بغیر حق کہیں گے۔ نیز ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ پر عورتوں والے امور کی طرح بیعت کی تھی۔ (ان امور کا ذکر سورۂ ممتحنہ میں ہے)۔

Haidth Number: 11758
Haidth Number: 11759
امام سفیان بن عیینہ نقباء کا نام لیتے تھے، اس ضمن میں انھوں نے سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا نام بھی ان میں ذکر کیا اور انھوں نے کہا: عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ عقبی، احدی، بدری، شجری اور نقیب ہیں۔

Haidth Number: 11760

۔ (۱۱۷۶۱)۔ وَعَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الْوَلِیْدِ بْنِ عُبَادَۃَ، حَدَّثَنِی أَبِیْ قَالَ: دَخَلْتُ عَلٰی عُبَادَۃَ وَہُوَ مَرِیضٌ أَتَخَایَلُ فِیہِ الْمَوْتَ، فَقُلْتُ: یَا أَبَتَاہُ أَوْصِنِی وَاجْتَہِدْ لِی؟ فَقَالَ: أَجْلِسُونِی، قَالَ: یَا بُنَیَّ إِنَّکَ لَنْ تَطْعَمَ طَعْمَ الْإِیمَانِ، وَلَنْ تَبْلُغَ حَقَّ حَقِیقَۃِ الْعِلْمِ بِاللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی حَتّٰی تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَیْرِہِ وَشَرِّہِ، قَالَ: قُلْتُ: یَا أَبَتَاہُ فَکَیْفَ لِی أَنْ أَعْلَمَ مَا خَیْرُ الْقَدَرِ وَشَرُّہُ؟ قَالَ: تَعْلَمُ أَنَّ مَا أَخْطَأَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُصِیبَکَ، وَمَا أَصَابَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُخْطِئَکَ، یَا بُنَیَّ! إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی الْقَلَمُ، ثُمَّ قَالَ: اکْتُبْ، فَجَرٰی فِی تِلْکَ السَّاعَۃِ بِمَا ہُوَ کَائِنٌ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔)) یَا بُنَیَّ! إِنْ مِتَّ وَلَسْتَ عَلٰی ذَلِکَ دَخَلْتَ النَّارَ، وَفِیْ رِوَایَۃٍ مَا اَکْتُبُ قَالَ: فَاکْتُبْ مَا یَکُوْنُ وَمَا ہُوَ کَائِنٌ اِلٰی اَنْ تَقُوْمَ السَّاعَۃُ۔ (مسند احمد: ۲۳۰۸۱)

ولید بن عبادہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں گیا، جبکہ وہ مریض تھے اور موت کی کش مکش میںمبتلا تھے، میں نے ان سے گزارش کی کہ اے ابا جان! مجھے کوئی اچھی سی وصیت ہی کر دیں۔ انھوں نے کہا: مجھے بٹھائو۔ پھر کہا: بیٹا! تم اس وقت تک ایمان کا ذائقہ نہیں چکھ سکتے اور نہ اللہ تعالیٰ پر ایمان کی اصل حقیقت تک پہنچ سکتے ہو، جب تک کہ تم ہر اچھی اور بری تقدیر پر ایمان نہیں لاؤ گے۔ میں نے عرض: ابا جان!اچھی اور بری تقدیر کا علم مجھے کیسے ہوگا؟ انھوں نے کہا: تم اس بات کا یقین رکھو کہ جو چیز تمہیں نہیں ملی، وہ تمہیں کسی بھی صورت مل نہیں سکتی تھی اور تمہیں جو کچھ مل گیا ہے وہ تم سے چھوٹ نہیں سکتا تھا، بیٹے! میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا، اس کے بعد اس سے فرمایا کہ لکھ، چنانچہ وہ قلم اسی وقت لکھنے لگا اور اس نے قیامت تک ہونے والے ہر امر کو لکھ دیا۔ بیٹے! اگر تمہیں اس حال میں موت آئی کہ تمہارا یہ ایمان نہ ہوا تو تم جہنم میں جائو گے۔ دوسری روایت کے الفاظ یوں ہیں: قلم نے عرض کیا: میں کیا لکھو؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قیامت کے بپا ہونے تک جو کچھ بھی ہونے والا ہے ہر امر کو لکھ دے۔

Haidth Number: 11761
صنا بحی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس گیا، جبکہ وہ مرض الموت میںمبتلا تھے، ان کی حالت دیکھ کر میںرونے لگا، انہوںنے کہا: رک جاؤ، تم کیوں روتے ہو؟ اللہ کی قسم! اگر مجھ سے تمہارے بارے میں گواہی لی گئی تو میں تمہارے مومن ہونے کی گواہی دوں گا، اگر مجھے شفاعت کی اجازت دی گئی تو میں تمہارے حق میںشفاعت کروں گا اور اگر مجھ سے ہو سکا تو تمہیں نفع پہنچائوں گا۔ ‘ پھر کہا: اللہ کی قسم میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے جو بھی کوئی ایسی حدیث سنی ہے جس میں تمہارے لیے بہتری ہے تو میں وہ حدیث تمہیں سنا چکا ہوں، البتہ ایک حدیث ہے، جو میں تمہیں نہیں سنا سکا، وہ تمہیں آج ابھی سناتا ہوں اور اب صورت حال یہ ہے کہ میری روح قبض کی جانے والی ہے۔ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو آدمییہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی معبودِ برحق ہے اور محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے رسول ہیں، اس پر جہنم حرام کر دی جائے گییایوں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس پر جہنم کو حرا م کر دے گا۔

Haidth Number: 11762
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں ابھی تک نو عمر ہی تھاکہ رسول اللہ نے مجھے یمن کی طرف بھیج دیا، میں نے کہا: آپ مجھے ایسے لوگوں کی طرف روانہ کر رہے ہیں، جن کے مابین جھگڑے ہوں گے اور میں تو فیصلے کرنے کا علم نہیں رکھتا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہاری زبان کو درست اور دل کو مضبوط رکھے گا۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: اس کے بعد مجھے دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کرنے میں کبھی تردد نہیں ہوا۔

Haidth Number: 12322
حضرت علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول!جب آپ مجھے بھیج ہی رہے ہیں تو اب میں (آپ کے حکم پر عمل کرنے کے لیے) گرم سکّہ کی طرح بن جاؤں یا ایسا حاضر جو کہ وہ کچھ دیکھ رہا ہے جسے غائب نہیں دیکھ سکتا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایسا حاضر جو کہ وہ کچھ دیکھ رہا ہے جسے غائب نہیں دیکھ سکتا۔

Haidth Number: 12323
سیدنا معقل بن یسار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں: میں نے ایک دن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو وضو کرایا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم فاطمہ کے ہاں جا کر ان کی عیادت کرو گے؟ میںنے کہا: جی ہاں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرا سہارا لے کر اٹھے اور فرمایا: اس کے بوجھ کو تیرے سوا کوئی دوسرا اٹھالے گا اور تجھے اس کا اجر ملے گا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا یہ ارشاد سننے کے بعد گویا اب مجھ پر کوئی بوجھ نہ رہا، یہاں تک کہ ہم سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ہاں پہنچے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: تم اپنے آپ کو کیسی پاتی ہو؟ انہوں نے جواب دیا: اللہ کی قسم! میر ا غم زیادہ ہو چکا ہے اور شدید فاقوں سے دوچار ہوں اور میری بیماری بھی طویل ہو چکی ہے۔ ابو عبدالرحمن کہتے ہیں: میں نے اپنے والد کی کتاب میں ان کے ہاتھوں سے اس حدیث میں یہ بھی لکھاپایا تھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم اس بات سے راضی ہو کہ میں تمہارا نکاح ایسے آدمی سے کردوں، جو میرے امت میں سب (یعنی اکثر) سے پہلے مسلمان ہونے والا اور سب سے زیادہ صاحب علم اور حوصلہ مند ہے؟

Haidth Number: 12324

۔ (۱۲۷۷۵)۔ عَنْ سِمَاکٍ، أَنَّہُ سَمِعَ مُوسَی بْنَ طَلْحَۃَیُحَدِّثُ عَنْ أَبِیہِ، قَالَ: مَرَرْتُ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی نَخْلِ الْمَدِینَۃِ، فَرَأٰی أَقْوَامًا فِی رُئُ وْسِ النَّخْلِ یُلَقِّحُونَ النَّخْلَ، فَقَالَ: ((مَایَصْنَعُ ہٰؤُلَائِ؟)) قَالَ: یَأْخُذُونَ مِنَ الذَّکَرِ فَیَحُطُّونَ فِی الْأُنْثٰییُلَقِّحُونَ بِہِ، فَقَالَ: ((مَا أَظُنُّ ذٰلِکَ یُغْنِی شَیْئًا۔)) فَبَلَغَہُمْ فَتَرَکُوْہُ وَنَزَلُوْا عَنْہَا، فَلَمْ تَحْمِلْ تِلْکَ السَّنَۃَ شَیْئًا، فَبَلَغَ ذٰلِکَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((إِنَّمَا ہُوَ ظَنٌّ ظَنَنْتُہُ إِنْ کَانَ یُغْنِی شَیْئًا فَاصْنَعُوْا، فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُکُمْ، وَالظَّنُّ یُخْطِیئُ وَیُصِیبُ،وَلٰکِنْ مَا قُلْتُ لَکُمْ: قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فَلَنْ أَکْذِبَ عَلَی اللّٰہِ۔)) (مسند احمد: ۱۳۹۹)

سیدنا طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ مدینہ منورہ کے ایک نخلستان سے گزرا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دیکھا کہ لوگ ایک کجھور کا بور دوسری کھجور پر ڈال رہے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: یہ نر کھجور کا بور مادہ کھجور پر ڈال کر اس کی افزائش کر رہے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرا خیال ہے کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہو گا۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی یہ بات ان لوگوں تک پہنچی تو انہوں نے اس عمل کو چھوڑ دیا اور وہ درختوں سے نیچے اتر آئے، اس سال کھجور کے درخت ثمر آور نہ ہوئے، جب اس کی اطلاع نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ہوئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ تو میرا محض اپنا خیال تھا، اگر اس عمل سے تمہیں فائدہ ہوتا ہے، تو یہ کام کر لیا کرو، میںتو تم جیسا ہی انسان ہوں اور خیال غلط بھی ہوسکتا ہے اور درست بھی، البتہ میں تم سے جو بات اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیان کروں تو اس میں اللہ پر جھوٹ ہرگز نہ باندھوں گا۔

Haidth Number: 12775