Blog
Books
Search Hadith

تکبر اور بڑائی سے ترہیب کا بیان

550 Hadiths Found
۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ آدمی آگ میں داخل نہیں ہو گا، جس کے دل میں دانے کے برابر ایمان ہو گا اور وہ آدمی جنت میں داخل نہیں ہو گا، جس کے دل میں دانے کے برابر تکبر ہو گا۔ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے یہ بات پسند ہے کہ میرے کپڑے دھلے ہوئے ہوں ، سر پر تیل لگا ہوا ہو، میرے جوتے کا تسمہ نیاہو، پھر اس نے مزید کچھ اشیا کا ذکر بھی کیا،یہاں تک کہ کوڑا لٹکانے کے حلقے کی بات کی، تو کیایہ چیزیں تکبر سے ہیں، اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں،یہ تو جمال ہے، بیشک اللہ تعالیٰ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے، تکبر یہ ہے کہ حق کو ٹھکرا دیا جائے اور لوگوں کو بنظر حقارت دیکھا جائے۔

Haidth Number: 9717
۔ سیدنا عقبہ بن عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی اس حال میں مرا ہو کہ اس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہو تو جنت اس کے لیے اس قدر بھی حلال نہیں ہو گی کہ وہ اس کی خوشبو پا سکے یا اس کو دیکھ سکے۔ قریش کے ابو ریحانہ نامی آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میں تو حسن و جمال کو پسند کرتا ہوں، …۔ پھر سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی حدیث کی طرح کی روایت بیان کی۔

Haidth Number: 9718
۔ سیدنا ابو ریحانہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تکبر میں سے کوئی چیز جنت میں داخل نہیں ہو گی۔ ایک کہنے والے نے کہا: اے اللہ کے نبی! میں تو پسند کرتا ہوں کہ اپنے کوڑے کے دھاگے یا چمڑے اور اپنے جوتے کے تسمے کے ساتھ جمال حاصل کروں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ تکبر نہیں ہے، بیشک اللہ تعالیٰ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتاہے، تکبر یہ ہے کہ حق کو ٹھکرا دیا جائے اور لوگوں کو بنظرِ حقارت دیکھا جائے۔ حَبْلَان سے مراد کوڑے کا چمڑا یا دھاگہ ہے اور جوتے کا تسمہ ہے۔

Haidth Number: 9719

۔ (۹۷۲۰)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْروٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نُوْحًا لَمَّا حَضَرَتْہُ الْوَفَاۃُ قَالَ لِاِبْنِہِ: اِنِّیْ قَاصٌّ عَلَیْکَ الْوَصِیَّۃَ، آمُرُکَ بِاثْنَتَیْنِ، وَاَنْھَاکَ عَنِ اثْنَیْنِ، آمُرُکَ بِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ (فَذَکَرَ فَضْلَھَا) وَسُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ (فَذَکَرَ فَضْلَھَا) ثُمَّ قَالَ: وَاَنْھَاکَ عَنِ الشِّرْکِ وَالْکِبْرِ۔)) قَالَ: قُلْتُ اَوْ قِیْلَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! ھٰذَا الشِّرْکُ قَدْ عَرَفْنَاہُ، فَمَا الْکِبْرُ؟ قَالَ: اَنْیَکُوْنَ لِاَحَدِنَا نَعْلَانِ حَسَنَتَانِ لَھُمَا شِرَاکَانِ حَسَنَانِ؟ قَالَ: ((لَا۔)) قَالَ: ھُوَ اَنْ یَکُوْنَ لِاَحَدِنَا حُلَّۃٌیَلْبَسُھَا؟ قَالَ: ((لَا۔)) قَالَ:الْکِبْرُ ھُوَ اَنْ یَکُوْنَ لِاَحَدِنَا دَابَّۃٌیَرْکَبُھَا؟ قَالَ: ((لا۔)) قَالَ: اَفَھُوَ اَنْ یَکُوْنَ لِاَحَدِنَا اَصْحَابٌ یَجْلِسُوْنَ اِلَیْہِ؟ قَالَ: ((لَا۔)) قِیَلَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! فَمَا الْکِبْرُ؟ قَالَ: ((سَفْہُ الْحَقِّ، وَغَمْصُ النَّاسِ۔)) (مسند احمد: ۶۵۸۳)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب اللہ کے نبی نوح علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب آیا تو انھوں نے اپنے بیٹے سے کہا: بیشک میں تجھے ایک وصیت کرنے لگا ہوں، میں تجھے دو باتوں کا حکم دیتا ہوں اور دو سے منع کرتا ہوں، میں تجھے لَا اِلَہَ اِلَّا اللّٰہُ کا حکم دیتا ہوں، پھر اس کلمہ کی فضیلت بیان کی اور میں تجھے سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ کی وصیت کرتا ہوں، پھر اس کی فضیلت کا ذکر کیا اور میں تجھے شرک اور تکبر سے منع کرتا ہوں۔ کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! شرک کو تو ہم پہچانتے ہیں،یہ تکبر کیا ہے؟ کیایہ ہے کہ بندے کے اچھے جوتے ہوں اور ان کے اچھے تسمے ہوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں۔ اس نے کہا: کیایہ ہے کہ بندے کی پوشاک ہو، جس کو وہ زیب ِ تن کرے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی نہیں۔ اس نے کہا: تو پھر کیا تکبر یہ ہے کہ بندے کے پاس چوپایہ ہو، جس پر سوار ہو؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی نہیں۔ اس نے کہا: کیا پھر تکبر یہ ہے کہ بندے کے ساتھی ہوں، جو اس کے ساتھ بیٹھا کریں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! تو پھر تکبر کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: حق کو ٹھکرا دینا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا۔

Haidth Number: 9720
۔ ابو حیان کے باپ ابو سلمہ بن عبد الرحمن کہتے ہے: سیدنا عبد اللہ بن عمرو اور سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کی ملاقات ہوئی، پھر سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما متوجہ ہوئے اور رونے لگ گئے، لوگوں نے کہا: اے ابو عبد الرحمن! تم کیوں روتے ہو؟ انھوں نے کہا: اس چیز کی وجہ سے، جو انھوں نے مجھے بیان کی ہے، یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ آدمی جنت میں داخل نہیں ہو گا، جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہو گا۔

Haidth Number: 9721
۔ ابو سلمہ بن عبد الرحمن کہتے ہیں: مروہ پر سیدنا عبد اللہ بن عمر اور سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کی ملاقات ہوئی، ان دونوں نے باتیں کیں، پھر سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ چلے گئے اور پیچھے سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ رونے لگ گئے، ایک بندے نے ان سے کہا: اے ابو عبد الرحمن! تم کیوں روتے ہو؟ انھوں نے کہا: یہ سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یہ کہہ گئے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہو گا، اللہ تعالیٰ اس کو چہرے کے بل جہنم میں گرائے گا۔

Haidth Number: 9722
۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: مجھے نہ سرگوشی سے منع کیا جاتا تھا اور نہ فلاں فلاں چیز سے، ابن عون کہتے ہیں: ایک چیز وہ بھول گئے اور ایک مجھے یاد نہ رہی، پھر میں ان کے پاس آیا، جبکہ ان کے پاس مالک بن مرارہ رہاوی بیٹھے ہوئے تھے اور وہ کوئی حدیث بیان کر رہے تھے، اس حدیث کا آخری حصہ، جو میں نے پایا، وہ یہ تھا: انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے حسن و جمال میں سے خاصا حصہ دیا گیا ہے، آپ کو معلوم ہی ہے، اب میں چاہتا ہوں کہ کوئی آدمی دو تسموں کے معاملے میں بھی مجھ سے برتری نہ لے جائے، کیایہ سرکشی تو نہیں ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کہا: نہیں،یہ سرکشی نہیں ہے، سرکشی تو یہ ہے کہ حق کو ٹھکرا دیا جائے اور لوگوں کو حقیر سمجھا جائے۔

Haidth Number: 9723
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو شخص بڑا بنایا اکڑ کر چلا، وہ اللہ کو اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر غضبناک ہوگا۔

Haidth Number: 9724
۔ سیدنا عبد الرحمن بن غنم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت میں یہ افراد داخل نہیں ہوں گے: اکڑ کر چلنے والا، بدمزاج و بدخلق، روکھا اکھڑ مزاج آدمی، کمینہ جو دناء ت و بدی میں مشہور ہو۔

Haidth Number: 9725
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تکبر کرنے والوں کو لوگوں کی صورت میں چھوٹی چیونٹیوں کی طرح جمع کیا جائے گا، ذلت و حقارت ان پر ہر طرف سے چھا رہی ہو گی،یہاں تک کہ وہ جہنم کے بولس نامی قیدخانے میں داخل ہو جائیں گے، وہاں ان پر آگوں کی آگ چڑھ آئے گی اور ان کو طینۃ الخبال یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔

Haidth Number: 9726
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک آدمی ایک پوشاک میں اترا کر چل رہا تھا، اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں زمین کو حکم دیا، زمین نے اس کو پکڑ لیا، وہ قیامت کے دن تک اسی میں دھنستا جائے گا۔

Haidth Number: 9727
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک دفعہ کی بات ہے کہ ایک نوجوان ایک پوشاک پہنے ہوئے اترا کر چل رہا تھا اور اس نے اپنا تہبند ٹخنوں سے نیچے تک لٹکا رکھا تھا، اتنے میں زمین اس کو نگل گئی اور وہ روزِقیامت تک اس میں دھنستا چلا جائے گا۔

Haidth Number: 9728
۔ سیدہ اسماء بنت یزید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے ایمان والو! تم لوگوں کو کون سی چیز اس طرح لگاتار جھوٹ بولنے پر آمادہ کرتی ہے، جیسے پتنگے لگاتار آگ میں گرنا شروع ہو جاتے ہیں، ابن آدم پر اس کے ہر جھوٹ کو لکھ لیا جاتا ہے، ما سوائے تین امور کے، (۱) وہ خاوند جو اپنی بیوی سے جھوٹ بولتا ہے، تاکہ اس کو راضی رکھے، (۲) وہ آدمی جو جنگ میں دشمن کو دھوکہ دینے کے لیے جھوٹ بولتا ہے اور (۳) وہ آدمی جو دو مسلمانوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے۔

Haidth Number: 9897
۔ سیدہ ام کلثوم بنت عقبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ جھوٹا نہیں ہے ، جو لوگوں کے درمیان صلح کراتا ہے اور خیر کو آگے پہنچاتا ہے یا اچھی بات کرتا ہے۔ سیدہ ام کلثوم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو نہیں سنا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں کو گفتگو میں جھوٹ بولنے کی رخصت دی ہو، ما سوائے تین امور کے، جنگ میں، لوگوں کے ما بین اصلاح کرتے وقت اور خاوند کااپنی بیوی اور بیوی کا اپنے خاوند سے گفتگو کرتے وقت۔ سیدہ ام کلثوم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ان مہاجر خواتین میں سے تھیں، جنہوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیعت کی تھی۔

Haidth Number: 9898

۔ (۱۰۰۶۹)۔ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وھُوَ عَلَی الْمِنْبَرِ: ((اِنَّ اَخْوَفَ مَااَخَافُ عَلَیْکُمْ مَا یُخْرِجُ اللّٰہُ مِنْ نَبَاتِ الْاَرْضِ وَزَھْرَۃِ الدُّنْیَا۔)) فَقَالَ رَجُلٌ: اَیْ رَسُوْلَ اللّٰہ! اَوَ یَاْتِی الْخَیْرُ بِالشَّرِّ؟ فَسَکَتَ حَتّٰی رَاَیْنَا اَنَّہُ یَنْزِلُ عَلَیْہِ قَالَ: وَغَشِیَہُ بُھْرٌ وَعَرِقَ فَقَالَ: ((اَیْنَ السَّائِلُ؟)) فَقَالَ: ھَا اَنَا وَلَمْ اُرِدْ اِلَّا خَیْرًا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ الْخَیْرَ لَا یَاْتِیْ اِلَّا بِالْخَیْرِ، اِنَّ الْخَیْرَ لَایَاْتِیْ اِلَّا بِالْخَیْرِ، اِنَّ الْخَیْرَ لَا یَاْتِیْ اِلَّا بِالْخَیْرِ، وَلٰکِنَّ الدُّنْیَا خَضِرَۃٌ حُلْوَۃٌ وَکُلُّ مَا یُنْبِتُ الرَّبِیْعُیَقْتُلُ حَبَطًا اَوْ یُلِمُّ اِلَّا آکِلَۃَ الْخَضِرِ فَاِنَّھَا اَکَلَتْ حَتَّی امْتَدَّتْ خَاصِرَتَاھَا وَاسْتَقْبَلَتِ الشَّمْسَ فَثَلَطَتْ وَبَالَتْ ثُمَّ عَادَتْ فَاَکَلَتْ فَمَنْ اَخَذَھَا بِحَقِّھَا بُوْرِکَ لَہُ فِیْہِ، وَمَنْ اَخَذَھَا بِغَیْرِ حَقِّھَا لَمْ یُبَارَکْ لَہُ۔)) وَکَانَ کَالَّذِیْیَاْ کُلُ وَلَا یَشْبَعُ۔)) قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ (یَعْنِیْ ابْنَ الْاِمَامِ اَحْمَدِ بْنِ حَنَّبَلٍL ): قَالَ اَبِیْ: قَالَ سُفْیَانُ: وَکَانَ الْاَعْمَشُ یَسْاَلُنِیْ عَنْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ۔ (مسند احمد: ۱۱۰۴۹)

۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے منبر پر فرمایا: بیشک مجھے سب سے زیادہ ڈر اس چیز کے بارے میں ہے، جو اللہ تعالیٰ زمین کی انگوریوں اور دنیا کے مال و متاع کی صورت میں نکالے گا۔ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا خیر بھی شرّ کو لاتی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاموش ہو گئے، یہاں تک کہ ہم نے دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر وحی نازل ہونے لگی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا سانس پھولنے لگا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بہت زیادہ پسینہ آ گیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: سائل کہاں ہے؟ اس نے کہا: جی میں ہوں اور میرا ارادہ صرف خیر کا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک خیر صرف خیر لاتی ہے، بیشک خیر صرف خیر کو لاتی ہے، بیشک خیر صرف خیر کو ہی لاتی ہے، اصل بات یہ ہے کہ یہ دنیا سر سبزو شادات اور میٹھی ہے، موسم بہار جو کچھ اگاتا ہے، وہ سوجن کی وجہ سے یا تو قتل کر دیتا ہے، یا قتل کے قریب کر دیتا ہے، ایک جانور چارہ کھاتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اس کی کوکھیں بھر جاتی ہیں، پھر وہ سورج کے سامنے لیٹ جاتا ہے اورپتلا پاخانہ اور پیشاب کر کے پھر کھانا شروع کر دیتا ہے، بات یہ ہے کہ جو آدمی دنیا کو اس کے حق کے ساتھ حاصل کرے گا، اس کے لیے اس میں برکت کی جائے گی اور جو بغیر حق کے لے گا، اس کے لیے اس میں برکت نہیں کی جائے گی، بلکہ وہ اس آدمی کی طرح ہو گا جو کھاتا ہے اور سیر نہیں ہوتا۔

Haidth Number: 10069
۔ سیدہ عقبہ بن عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آٹھ برسوں کے بعد غزوۂ احد کے مقتولین کی نماز جنازہ پڑھی، ایسے لگ رہا تھا کہ آپ زندوں اور مردوں کو الوداع کہہ رہے ہیں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا: میں تمہارا پیش رو ہوں گا اور تمہارے حق میں گواہی دوں گا، بیشک تمہارے وعدے کی جگہ حوض ہے اور میں اس حوض کی طرف دیکھ رہا ہوں، مجھے تمہارے بارے میں شرک کا ڈر نہیں ہے، بلکہ دنیا کا ڈر ہے کہ تم اس میں پڑ جاؤ گے۔ ایک روایت میں شرک کے بجائے کفر کے الفاظ ہیں۔

Haidth Number: 10070
۔ سیدنا ابو موسی اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے اپنی دنیا سے محبت کی، اس کی آخرت کو نقصان پہنچا اور جس نے اپنی آخرت کو پسند کیا، اس کی دنیا کو نقصان پہنچا، پس تم باقی رہنے والی چیز کو فنا ہونے والی چیز پر ترجیح دو۔

Haidth Number: 10071
۔ سیدنا زید بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس آدمی کی فکر آخرت ہو، اللہ تعالیٰ اس کے امور کی شیرازہ بندی کر دیتا ہے، اس کے دل کو غنی کر دیتا ہے اور دنیا ذلیل ہو کر (اس کے مقدر کے مطابق) اس کے پاس پہنچ جاتی ہے، لیکن جس آدمی کا رنج و غم دنیا ہی دنیا ہو، اللہ تعالیٰ اس پر اس کے معاملات کو منتشر کر دیتا ہے، اس کی فقیری و محتاجی کو اس کی آنکھوں کے درمیان رکھ دیتا ہے اور اسے دنیا سے بھی وہی کچھ ملتا ہے جو اس کے مقدر میں لکھا جا چکا ہوتا ہے۔

Haidth Number: 10072
۔ عبید حضرمی سے روایت ہے کہ جب سیدنا ابو مالک اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انھوں نے کہا: اے اشعریوں کی جماعت! موجودہ لوگ، غائب لوگوں تک میری بات پہنچا دیں۔ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا: دنیا کی لذت آخرت کی کڑواہٹ ہے اور دنیا کی تلخی آخرت کی لذت و شیری ہے۔

Haidth Number: 10073
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ثوبان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: اے ثوبان! اس وقت تمہارا کیا بنے گا، جب دوسری امتوں کے لوگ تم پر یوں ٹوٹ پڑیں گے، جیسے تم کھانے کے پیالے پر ٹوٹ پڑتے ہیںَ سیدنا ثوبان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، تمھاری بہت زیادہ تعداد ہو گی، دراصل تمھارے دلوں میں وہنڈال دیا جائے گا۔ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہن کیا ہوتا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دنیا کی محبت اور جہاد کی کراہیت کو وہن کہتے ہیں۔

Haidth Number: 10074
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دنیا مؤمن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے۔

Haidth Number: 10075
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دنیا مؤمن کے لیے قیدخانہ اور قحط سالی ہے، جب وہ دنیا سے جدا ہوتا ہے تو وہ قید خانے اور قحط سالی سے الگ ہو جاتا ہے۔

Haidth Number: 10076
۔ سیدنا عوف بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے صحابہ میں کھڑے ہوئے اور فرمایا: کیا تمہیں غربت و افلاس کا ڈر ہے، کیا تمہاری پریشانی دنیا ہے، پس بیشک اللہ تعالیٰ تم پر فارس اور روم کی سلطنتیں تمہارے لیے فتح کروانے والا ہے، دنیا تم پر اس طرح بہہ پڑے گیکہ کوئی چیز تم کو گمراہ کرنے والی نہیں ہو گی، مگر یہی دنیا۔

Haidth Number: 10077
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ایک اونٹنی تھا، اس کا نام عضباء تھا، کوئی دوسرا اونٹ اس سے سبقت نہیں لے جا سکتا تھا، پس ایک دن ایک بدّو اپنے اونٹ پر سوار ہو کر آیا اور اس سے آگے گزر گیا،یہ چیز مسلمانوں پر بڑی گراں گزری، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے چہروں سے ان کی پریشانی کو محسوس کیا تو اتنے میں انھوں نے خود کہہ دیا کہ عضباء تو پیچھے رہ گئی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ وہ دنیا میں جس چیز کو بلند کرے گا، اس کو نیچے بھی کرے گا۔

Haidth Number: 10078
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دنیا اس شخص کا گھر ہے، جس کا کوئی گھر نہیں ہوتا اور وہ آدمی اس کے لیے جمع کرتا ہے، جو عقل سے خالی ہوتاہے۔

Haidth Number: 10079

۔ (۱۰۱۹۱)۔ حَدَّثَنَا رَوْحٌ وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَا حَدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: بَلَغَنِیْ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: (( لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ مِائَۃُ رَحْمَۃٍ، وَاِنَّہُ قَسَمَ رَحْمَۃً وَاحِدَۃً بَیْنَ اَھْلِ الْاَرْضِ فَوَسِعَتْھُمْ اِلٰی آجَالِھِمْ، وَذَخَرَ تِسْعَۃً وَتِسْعِیْنَ رَحْمَۃً لِاَوْلِیَائِہِ، وَاللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ قَابِضٌ تِلْکَ الرَّحْمَۃَ الَّتِیْ قَسَمَھَا بَیْنَ اَھْلَ الْاَرْضِ اِلَی التِّسْعَۃِ وَّالتِسْعِیْنَ فَیُکَمِّلُھَا مِائَۃَ رَحْمَۃٍ لِاَوْلِیَائِہیَوْمَ الْقِیَامَۃِ )) قَالَ مُحَمَّدٌ: فِیْ حَدِیْثِہِ وَحَدَّثَنِیْ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ مُحَمَّدُ بْنُ سِیْرِیْنَ وَخِلَاسٌ کِلَاھُمَا، عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِثْلُ ذٰلِکَ۔ (مسند احمد: ۱۰۶۸۰)

۔ حسن بصری کہتے ہیں: مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی سو رحمتیں ہیں، اس نے ایک رحمت کو اہل زمین کے مابین تقسیم کیا، وہ ان کے لیے ان کی موتوں تک پوری ہو گئی، اور ننانوے رحمتوں کو اپنے اولیاء کے لیے ذخیرہ کر رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ نے جس رحمت کو زمین والوںمیں تقسیم کیا ہے، وہ قیامت کے دن اس کو بھی واپس کر کے ننانوے کے ساتھ ملا کر سو پورا کر دے گا۔ محمد بن سیرین اور خلاس نے اس حدیث کو سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مرفوعا بیان کیا ہے۔

Haidth Number: 10191

۔ (۱۰۱۹۲)۔ عَنْ جُنْدُبٍ الْبَجَلِیِّ ، قَالَ: جَائَ اَعْرَابِیٌ فَاَنَاخَ رَاحِتَلَہُ ثُمَّ عَقَلَھَا، ثُمَّ صَلّٰی خَلْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فلَمَّا صَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَتٰی رَاحِلَتَہَ فَاَطْلَقَ عِقَالَھَا ثُمَّ رَکِبِھَا ثُمَّ نَادٰی: اَللّٰھُمَّ ارْحَمْنِیْ وَمُحَمَّدًا وَلَا تُشْرِکْ فِیْ رَحْمَتِـنَا اَحَدًا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَتَقُوْلُوْنَ ھٰذَا اَضَلُّ اَمْ بَعِیْرُہُ؟ اَلَمْ تَسْمَعُوْا مَاقَالَ؟)) قَالُوْا: بَلٰی، قَالَ: ((لَقَدْ حَظَرْتَ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَاسِعَۃٌ، اِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ مِائَۃَ رَحْمَۃً فَاَنْزَلَ اللّٰہُ رَحْمَۃً وَاحِدَۃًیَتَعَاطَفُ بِھَا الْخَلَائِقُ جِنُّھَا وَاِنْسُھَا وَبَھَائِمُھَا، وَعِنْدَہُ تِسْعٌ وَتِسْعُوْنَ، اَتَقُوْلُوْنَ ھُوَ اَضَلُّ اَمْ بَعِیْرُہُ؟)) (مسند احمد: ۱۹۰۰۶)

۔ سیدنا جندب بجلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک بدّو آیا، اپنے اونٹ کو بٹھا کر اس کے گھٹنے کو باندھا اور پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اقتدا میں نماز پڑھی، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو وہ اپنے سواری کے پاس آیا، اس کی رسی کھولی اور اس پر سوار ہوا اور کہا: اے اللہ! مجھ پر اور محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) پر رحم فرما اور اپنی رحمت میں کسی اور کو شریک نہ کر، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کییہ دعا سن کر فرمایا: کیا تم یہ کہو گے کہ یہ زیادہ گمراہ ہے یا اس کا اونٹ؟ کیا تم لوگوں نے اس کی کہی ہوئی بات سنی نہیں ہے؟ لوگوں نے کہا: جی کیوں نہیں، سنی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو نے تنگ کر دیا ہے، اللہ تعالیٰ کی رحمت وسیع چیز ہے، بیشک اللہ تعالیٰ نے سو رحمتیں پیدا کی ہیں، ان میں سے ایک رحمت نازل کی ہے، اسی کی وجہ سے جنوں، انسان اور جانوروں سمیت تمام مخلوقات ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، ننانوے رحمتیں اس کے پاس محفوظ ہیں، اب کیا تم کہو گے کہ وہ خود زیادہ گمراہ ہے یا اس کا اونٹ؟

Haidth Number: 10192
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی سو رحمتیں ہیں، اس نے ان میں ایک رحمت انسانوں، جنوں اور کیڑوں مکوڑوں کے درمیان نازل کی ہے، اس کی وجہ وہ ایک دوسرے سے محبت اور ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں، اسی کے اثر سے وحشی جانور اپنے بچوں پر مہربانی کرتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے ننانوے رحمتوں کو قیامت کے دن تک مؤخر کر دیا ہے، وہ ان کے ذریعے اپنے بندوں پر رحم کرے گا۔

Haidth Number: 10193
۔ سیدنا سلمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ نے سو رحمتیں پیدا کی ہیں، ان میں ایک رحمت کا اثر ہے کہ مخلوقات ایک دوسرے سے محبت رکھتی ہیں، وحشی جانور اسی رحمت کی وجہ سے اپنی اولاد سے شفقت کرتے ہیں اور اس نے ننانوے رحمتیں قیامت کے دن تک مؤخر کر دی ہیں۔

Haidth Number: 10194
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر مؤمن کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کا پتہ چل جائے تو کوئی بھی جنت کی طمع نہیں رکھے گا اور اگر کافر کو اللہ تعالیٰ کی رحمت کا پتہ چل جائے تو کوئی بھی جنت سے ناامید نہیں ہو گا، اللہ تعالیٰ نے کل سو رحمتیں پیدا کی ہیں، ان میں سے ایک رحمت اپنی مخلوق کے اندر نازل کی ہے، اسی کی وجہ سے یہ ایک دوسرے پر رحیم ہے اور ننانوے رحمتیں اللہ تعالیٰ کے پاس ہی ہیں۔

Haidth Number: 10195