Blog
Books
Search Hadith

مذاق کا بیان، نیزاس میں جھوٹ بولنے سے ترہیب کا بیان

506 Hadiths Found
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس آدمی نے بچے سے کہا: اِدھر آ اور یہ چیز لے لے، پھر اس کو وہ چیز نہیں دی تو یہ جھوٹ ہو گا۔

Haidth Number: 9911
۔ سیدنا عبد اللہ بن عامر بن ربیعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے پاس ہمارے گھر میں تشریف لائے، میں اس وقت بچہ تھا، جب میں کھیلنے کے لیے جانے لگا تو میری ماں نے کہا: اے عبد اللہ! ادھر آ، میں تجھے کچھ دینا چاہتی ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو نے اس کو کیا دینے کا ارادہ کیا ہے؟ انھوں نے کہا: میں اس کو کھجور دوں گی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تو نے اس کو کچھ نہ دینا ہوتا تو یہ تیرا ایک جھوٹ لکھ لیا جاتا۔

Haidth Number: 9912
۔ سیدنا معاویہ بن حیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس شخص کے لیے ہلاکت ہے، جو لوگوں سے بات کرتا ہے اور ان کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے، اس کے لیے ہلاکت ہے، اس کے لیے ہلاکت ہے۔

Haidth Number: 9913
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک ایک آدمی اپنے ہم مجلسوں کو ہنسانے کے لیے ایسی بات کرتا ہے کہ اس کی وجہ سے ثریا ستارے سے بھی دور تک جا گرتا ہے۔

Haidth Number: 9914
۔ (دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک ایک آدمی ایسی بات کرتا ہے، جبکہ وہ اس میں حرج بھی محسوس نہیں کرتا، لیکن اس کی وجہ سے آگ میں ستر سال کی مسافت تک گر جاتا ہے۔

Haidth Number: 9915
۔ (تیسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک آدمی ایسی بات کر جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے پھسل کر آگ میں اتنی دوری تک چلا جاتا ہے، جتنی مشرق و مغرب کے درمیان دوری ہے۔

Haidth Number: 9916
۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک ایک آدمی ایک بات کرتا ہے،وہ اس میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتا، اس کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو ہنسائے، پس وہ اس کی وجہ سے آسمان تک کی مسافت سے بھی دور تک جا گرتا ہے۔

Haidth Number: 9917
۔ سیدنا عبد اللہ بن زمعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خطبہ دیا اور پھر لوگوں کو گوز مار کر ہنسنے کے بارے میں وعظ کیا اور فرمایا: تم میں سے ایک آدمی اس چیز پر کیوں ہنستا ہے ، جو وہ خود بھی کرتا ہے۔

Haidth Number: 9918
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک میں صرف حق ہی کہتا ہوں۔ بعض صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! بیشک آپ بھی ہمارے ساتھ ہنسی مذاق کرتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں صرف حق ہی کہتا ہوں۔

Haidth Number: 9919
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سواری طلب کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہم تجھے اونٹنی کے بچے پر سوار کریں گے۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اونٹنی کے بچے کو کیا کروں گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اوہو، اونٹوں کو اونٹنیاں ہی جنم دیتی ہیں۔

Haidth Number: 9920

۔ (۹۹۲۱)۔ عَنْ اُمِّ سَلَمَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، اَنَّ اَبَا بَکْرٍ خَرَجَ تَاجِرًا اِلٰی بُصْرٰی، وَمَعَہُ نُعَیْْمَانُ وَسُوَیْبِطُ بْنُ حَرْمَلَۃَ، وَکِلَاھُمَا بَدْرِیٌّ، وَکَانَ سُوَیْبِطُ عَلَی الزَّادِ، فَجَائَ ہُ نُعَیْمَانُ فَقَالَ: اَطْعِمْنِیْ، فَقَالَ: لَا، حَتّٰییَاْتِیَ اَبُوْبَکْرٍ، وَ کَانَ نُعَیْمَانُ رَجُلًا مِضْحَاکًا مَزَّاحًا، فَقَالَ: لَاُغِیْظَنَّکَ، فَجَائَ اِلَی اُنَاسٍ جَلَبُوْا ظَھْرًا، فَقَالَ: ابْتَاعُوْا مِنِّیْ غُلَامًا عَرَبِیًّا فَارِھًا، وَھُوَ ذُوْ لِسَانٍ، وَلَعَلَّہُ یَقُوْلُ : اَنَا حُرٌّ، فَاِنْ کُنْتُمْ تَارِکِیْہِ لِذٰلِکَ فَدَعُوْنِیْ، لَا تُفْسِدُوْا عَلَیَّ غُلَامِیْ، فَقَالُوْا: بَلْ نَبْتَاعُہُ مِنْکَ بِعَشْرِ قَلَائِصَ، فَاَقْبَلَ بِھَا یَسُوْقُھَا، وَاَقْبَلَ بِالْقَوْمِ حَتَّی عَقَلَھَا، ثُمَّ قَالَ لِلْقَوْمِ: دُوْنَکُمْ ھُوَ ھٰذَا، فَجَائَ الْقَوْمُ، فَقَالُوْا: قَدِ اشْتَرَینَاکَ، قَالَ سُوَیْبِطُ: ھُوَ کَاذِبٌ اَنَا رَجُلٌ حُرٌّ، فَقَالُوْا: قَدْ اَخْبَرَنَا خَبْرَکَ وَطَرَحُوْا الْحَبْلَ فِیْ رَقَبَتِہِ، فَذَھَبُوْا بِہٖفَجَائَاَبُوْبَکْرٍفَاَخْبَرَ، فَذَھَبَ ھُوَ وَاَصْحَابٌ لَہُ، فَرَدُّوْا الْقَلَائِصَ وَاَخَذُوْہُ، فَضَحِکَ مِنْھَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاَصْحَابُہُ حَوْلًا۔ (مسند احمد: ۲۷۲۲۲)

۔ سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تجارت کی غرض سے بصری کی طرف نکلے، سیدنا نعیمان اور سیدنا سویبط ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما بھی ان کے ساتھ تھے، یہ دونوں بدری صحابی تھے، زادِ سفر سیدنا سویبط ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس تھے، سیدنا نعیمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان کے پاس آئے اور کہا: مجھے کھانا کھلاؤ، انھوں نے کہا: جی نہیں،یہاں تک کہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آجائیں۔ سیدنا نعیمان بہت زیادہ ہنسانے والے اور مذاق کرنے والے آدمی تھے، پس انھوں نے کہا: میں تجھے ضرور ضرور غصہ دلاؤں گا، پس وہ ایسے لوگوں کے پاس گئے جو سواریاں لے کر جا رہے تھے اور ان سے کہا: تم لوگ مجھ سے ایک پھرتیلا اور چست عربی غلام خرید لو، البتہ وہ زبان دراز ہے، ممکن ہے کہ وہ یہ کہے کہ وہ تو آزاد شخص ہے، اگر اس کی اس بات کی وجہ سے تم نے اس کو چھوڑ دینا ہے تو پھر سودا ہی رہنے دو اور مجھ پر میرے غلام کو خراب نہ کرو، انھوں نے کہا: نہیں، بلکہ ہم تجھ سے دس اونٹنیوں کے عوض خریدیں گے، پس سیدنا نعیمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس ساتھی کو کھینچ کر لے آئے اور اس کو لوگوں کے سامنے لا کر باندھ دیا اور ان کو کہا: یہ لو، وہ غلام یہ ہے، پس لوگ آئے اور انھوں نے اس سے کہا: ہم نے تجھے خرید لیا ہے، سیدنا سویبط ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: وہ جھوٹا ہے، میں تو آزاد آدمی ہوں، انھوں نے کہا: اس نے ہمیں تیری ساری بات بتلا دی ہے، پھر انھوں نے اس کی گردن میں رسی ڈالی اور اس کو لے گئے، اتنے میں اُدھر سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آ گئے اور انھوں نے ان کو واقعہ کی خبر دی، پس وہ اور ان کے ساتھی گئے اور ان کی اونٹنیاں واپس کر کے اس کو واپس لے آئے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور صحابہ ایک سال تک اس واقعہ سے ہنستے رہے۔

Haidth Number: 9921
۔ عبد الحمید بن صیفی اپنے باپ اور وہ ان کے دادے سے بیان کرتے ہیں کہ سیدنا صہیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے خشک کھجوراور روٹی پڑی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قریب ہو جا اور کھا۔ پس اس نے کھانا شروع کر دیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے کہا: بیشک تیری آنکھ بیمار ہے۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں دوسرے کنارے سے کھا لیتا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ بات سن کر مسکرا پڑے۔

Haidth Number: 9922
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ مدینہ منورہ کے ایک راستے میں جا رہا تھا، راستے میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کچی اینٹوں کا ایک گنبد دیکھا اور پوچھا: یہ کس کا ہے؟ میں نے کہا: جی،یہ فلاں آدمی کا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خبردار! ہر عمارت کو قیامت والے دن اس کے مالک پر گرا دیا جائے گا، مگر وہ جو مسجد کی تعمیر میں لگا دیا جائے، یا پھر فلاں فلاں امور میں۔ بعد میں جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا اسی راستے سے گزر ہوا تو وہ گنبد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو نظر نہ آیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: اس گنبد کا کیا بنا؟ میں نے کہا: جب آپ کی بات اس کے مالک تک پہنچی تو اس نے اس کو گرا دیا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ اس پر رحم کرے۔

Haidth Number: 10086
۔ قیس کہتے ہیں: ہم سیدنا خباب بن ارت کی تیمار داری کرنے کے لیے ان کے پاس گئے، جبکہ وہ ایک دیوار بنا رہے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مسلمان کو ہر چیز میں اجر دیا جاتا ہے، ماسوائے اس سرمائے کے، جس کو اس مٹی پر خرچ کرتا ہے۔سیدنا خباب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ان کے پیٹ پر سات مقامات پر داغا گیا تھا، انھوں نے کہا: اگر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں موت کی دعا کرنے سے منع نہ کیا ہوتا تو میں ضرور موت کی دعا کرتا، پھر انھوں نے کہا: ہمارے بعض ساتھی ایسے تھے کہ وہ دنیا سے چلے گئے، لیکن دنیا ان کے کسی اجر میں کمی نہ کر سکی، جبکہ ہم نے تو ان کے بعد اتنا مال و متاع حاصل کر لیاہے کہ ہم اس کے لیے مٹی کے علاوہ کوئی جگہ ہی نہیں پاتے۔

Haidth Number: 10087
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے پاس سے گزرے، جبکہ ہم اپنی ایک جھونپڑی کو مرمت کر رہے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: کیا کر رہے ہو؟ ہم نے کہا: جییہ ہماری چھونپڑی کمزور ہو گئی تھی، اس کی مرمت کر رہے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک موت کا معاملہ اس سے جلدی آنے والا ہے۔

Haidth Number: 10088
۔ سیدہ ام مسلم اشجعی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے پاس تشریف لائے، جبکہ وہ اپنے ایک گنبد میں تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ کتنا خوبصورت ہے، بشرطیکہ اس میں موت نہ ہوتی۔ وہ کہتی ہیں: پھر میں نے اس کی تلاش شروع کر دی۔

Haidth Number: 10089
۔ سیدنا ابو رزین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہمارا ربّ اس بات پر ہنستا ہے کہ اس کا بندہ ناامید ہو رہا ہوتا ہے، جبکہ اس کے حالات کی تبدیلی قریب ہوتی ہے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا ربّ تعالیٰ بھی ہنستا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں، ہم ہنسنے والے ربّ کے ہاں خیر کو مفقود نہیں پائیں گے۔

Haidth Number: 10201

۔ (۱۰۲۰۲)۔ حَدَّثَنِیْ اِبْرَاھِیْمُ بْنُ الْحَجَّاجِ النَّاجِیُّ قَالَ: ثَنَا عَبْدُ الْقَاھِرُ بْنُ السَّرِیِّ قَالَ: حَدَّثَنِیْ ابْنٌ لِکَنَانَۃَ بْنِ عَبَّاسِ بْنِ مِرْدَاسٍ عَنْ اَبِیْہِ اَنَّ اَبَاہُ الْعَبَّاسَ بْنَ مِرْدَاسٍ حَدَّثَہُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دَعَا عَشِیَّۃَ عَرَفَۃَ لِاُمَّتِہِ بِالْمَغْفِرَۃِ وَالرَّحْمَۃِ، فَاَکْثَرَ الدُّعَائَ فَاَجَابَہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اَنْ قَدْ فَعَلْتُ وَغَفَرْتُ لِاُمَّتِکَ اِلَّا مَنْ ظَلَمَ بَعْضُھُمْ بَعْضًا، فَقَالَ: یَارَبِّ! اِنَّکَ قَادِرٌ اَنْ تَغْفِرَ لِلظَّالِمِ، وَتُثِیْبَ الْمَظْلُوْمَ خَیْرًا مِنْ مَظْلَمَتِہِ۔)) فَلَمْ یَکُنْ فِیْ تِلْکَ الْعَشِیَّۃِ اِلَّا ذَا، یَعْنِیْ فَلَمْ یُجِبْہُ تِلْکَ الْعَشِیَّۃَ کَمَا فِیْ بَعْضِ الرَّوَایَاتِ، فَلَمَّا کَانَ مِنَ الْغَدِ دَعَا غَدَاۃَ الْمُزْدَلِفَۃِ فَعَادَ یَدْعُوْ لِاُمَّتِہِ فَلَمْ یَلْبَثِ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنْ تَبَسَّمَ فَقَالَ بَعْضُ اَصْحَابِہٖ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! بِاَبِیْ اَنْتَ وَاُمِّیْ ضَحِکْتَ فِیْ سَاعَۃٍ لَمْ تَکُنْ تَضْحَکُ فِیْھَا، فَمَا اَضْحَکَکَ؟ اَضْحَکَ اللّٰہُ سِنَّکَ۔ قَالَ: ((تَبَسَّمْتُ مِنْ عَدُوِّ اللّٰہِ اِبْلَیْسَ حِیْنَ عَلِمَ اَنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ قَدِ اسْتَجَابَ لِیْ فِیْ اُمَّتِیْ وَغَفَرَ لِلظَّالِمِ اَھْوٰییَدْعُوْ بِالثُّبُوْرِ وَالْوَیْلِ وَیَحْثُوْا التُّرَابَ عَلٰی رَاْسِہِ فَتَبَسَّمْتُ مِمَّا یَصْنَعُ جَزْعُہُ۔)) (مسند احمد: ۱۶۳۰۸)

۔ سیدنا عباس بن مرداس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عرفہ کی شام کو اپنی امت کے لیے کثرت کے ساتھ مغفرت اور رحمت کی دعا، پس اللہ تعالیٰ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دعا قبول کی اور فرمایا: بے شک تحقیق میں نے کر دیا ہے اور تیری امت کو بخش دیا ہے، مگر وہ جو یہ خود ایک دوسرے پر ظلم کریں گے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے میرے ربّ! تو اس چیز پر قادر ہے کہ تو ظالم کو بخش دے اور مظلوم کو اس پر کے گئے ظلم سے بہتر اجر و ثواب عطا کر دے۔ اس شام کو تو یہی کچھ ہوا تھا، یعنی عرفہ کی شام کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کییہ دعا قبول نہیں ہوئی تھی، جیسا کہ بعض روایاتمیں ہے، جب اگلا دن ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مزدلفہ کی صبح کو اپنی امت کے لیے دعا مانگنا شروع کی، جلد ہی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسکرانے لگ گئے، ایک صحابی نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ ایسی گھڑی میں مسکرائے ہیں، جس میں مسکرانا آپ کی عادت نہیں تھی، پس کس چیز نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ہنسایا ہے؟ اللہ تعالیٰ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے دانت مبارک کو مسکراتا رکھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں اللہ کے دشمن ابلیس کی وجہ سے مسکرایا ہوں، جب اس کو علم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کے حق میں میری دعا قبول کر لی ہے اور ظالم کو بھی بخش دیا ہے تو اس نے ہلاکت کو پکارا اور اپنے سر پر مٹی ڈالنے لگا، پس میں اس جزع و فزع کو دیکھ کر مسکرانے لگا۔

Haidth Number: 10202
۔ سیدنا فضالہ بن عبادہ اور سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب قیامت کا دن ہو گا اور اللہ تعالیٰ مخلوق کے فیصلے سے فارغ ہو جائے گا، تو دو بندے ابھی تک باقی کھڑے ہوں گے، ان کے بارے میں جہنم کا حکم دیا جائے گا، جب ان میں سے ایک پلٹ کر دیکھے گا تو جبّار تعالیٰ کہے گا: اس کو واپس لاؤ، پس فرشتے اس کو واپس لائیں گے، اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا: تو نے پلٹ کر کیوں دیکھا ہے؟ وہ کہے گا: مجھے تو یہ امید تھی کہ تو مجھے جنت میں داخل کرے گا، پس اس کے لیے جنت کا حکم دے دیا جائے گا، پھر وہ کہے گا: تحقیق اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ کچھ عطا کر دیا ہے کہ اگر میں جنتیوں کو کھانا کھلا دوں، تو اس سے میرے پاس جو کچھ ہے، اس میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب یہ بات ذکر کی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرے پر سرور نظر آ رہا تھا۔

Haidth Number: 10203
۔ مولائے رسول سیدنا ثوبان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نہیں چاہتا کہ مجھے اس آیت کے بدلے دنیا ومافیہا مل جائے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے، اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ، بیشک اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے، بیشک وہ بہت بخشنے والا بہت رحم کرنے والا ہے۔ ایک بندے نے کہا: اے اللہ کے رسول! اور جو شخص شرک کرے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاموش ہو گئے اور پھر تین بار فرمایا: مگر جو شرک کرے۔

Haidth Number: 10204
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: فرشتوں کو نور سے اور جنوں کو آگ کے دہکتے ہوئے شعلے سے پیدا کیا اور آدم علیہ السلام کو اس چیز سے پیدا کیا، جس کو تمہارے لیے واضح کیا جا چکا ہے۔

Haidth Number: 10257
۔ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک جو میں دیکھتا ہوں وہ تم نہیں دیکھ سکتے اور جو میں سنتا ہوں وہ تم نہیں سن سکتے۔ (سنو!) آسمان چرچراتا ہے اور اسے چرچرانا ہی زیب دیتا ہے، کیونکہ وہاں چار انگلیوں کے بقدر بھی جگہ خالی نہیں ہے، ہر جگہ فرشتے سجدہ ریز ہیں۔ اللہ کی قسم! اگر تمھیں اس کا علم ہو جائے جو میں جانتا ہوں تو تم ہنسنا کم کر دو، رونا زیادہ کر دو، بچھونوں پر اپنی بیویوں سے لذتیں اٹھانا ترک کر دو اور (اللہ کی طرف) گڑگڑاتے ہوئے گھاٹیوں کی طرف نکل جاؤ۔ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! میں چاہتا ہوں کہ میں درخت ہوتا، جسے کاٹ دیا جاتا۔

Haidth Number: 10258
۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھ پر انبیاء پیش کیے گئے، موسی علیہ السلام معتدل وجود کے آدمی تھے، وہ شنوء ۃ قبیلے کے لوگوں کی طرح لگتے تھے، میں نے عیسی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دیکھا، وہ عروہ بن مسعود کے زیادہ مشابہ لگتے تھے، میں نے ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا، وہ تمہارے اپنے ساتھی سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے، اس سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی ذات مراد لے رہے تھے، اور میں نے جبریل علیہ السلام کو دیکھا، وہ دحیہ کے زیادہ مشابہ لگتے تھے۔

Haidth Number: 10259
۔ سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جبریل علیہ السلام کو ان کی اصلی حالت میں دیکھا، ان کے چھ سو پر تھے، ان میں سے ہر پر نے افق کو پُر کر رکھا تھا، ان کے پروں سے مختلف رنگوں کی چیزیں، موتی اوریاقوت گر رہے تھے، جن کو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں۔

Haidth Number: 10260

۔ (۱۰۲۶۱)۔ وَعَنْہُ اَیْضًا، قَالَ: اِنَّ مُحَمَّدًا ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمْ یَرَ جِبْرِیْلَ فِیْ صُوْرَتِہِ اِلَّا مَرَّتَیْنِ، (اَمَّا مَرَّۃً) فَاِنَّہُ سَاَلَہُ اَنْ یُرِیَہُ نَفْسَہُ فِیْ صُوْرَتِہِ فَاَرَاہُ صُوْرَتَہُ فَسَدَّ الْاُفُقَ،(وَ اَمَّا الْاُخْرٰی) فَاِنَّہُ صَعِدَ مَعَہُ حِیْنَ صَعِدَ بِہٖوَقَوْلُہُ: {وَھُوَبِالْاُفُقِالْاَعْلٰی ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی فَاَوْحٰی اِلٰی عَبْدِہِ مَا اَوْحٰی} قَالَ: فَلَمَّا اَحَسَّ جِبْرِیْلُ رَبَّہُ عَادَ فِیْ صُوْرَتِہِ وَسَجَدَ، فَقَوْلُہُ: {وَلَقَدْ رَآہُ نَزْلَۃً اُخْرٰی عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَھٰی عِنْدَھَا جَنَّۃُ الْمَاْوٰی اِذْ یَغْشَی السِّدْرَۃَ مَا یَغْشٰی مَازَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی لَقَدْ رَاٰی مِنْ آیَاتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی} قَالَ: خَلْقَ جِبْرِیْلَ عَلَیْہِ السَّلَامُ۔ (مسند احمد: ۳۸۶۴)

۔ سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جبریل علیہ السلام کو ان کی اصلی شکل میں دو بار دیکھا، ایک بار اس وقت جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے مطالبہ کیا کہ وہ آپ کو اپنی اصلی صورت دکھائے، پس انھوں نے اپنی اصلی شکل دکھائی اور افق کو بھر دیا، دوسری مرتبہ اس وقت جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے ساتھ چڑھے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اور وہ بلند آسمان کے کناروں پر تھا، پھر نزدیک ہوا اور اتر آیا، پس وہ دو کمانوں کے بقدر فاصلہ رہ گیا، بلکہ اس سے بھی کم، پس اس نے اللہ کے بندے کو وحی پہنچائی جو بھی پہنچائی۔ پس جب حضرت جبریل علیہ السلام نے اپنے ربّ کو محسوس کیا تو اپنی اصلی شکل میں آ کر سجدہ کیا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اسے تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا، سدرۃ المنتہی کے پاس، اسی کے پاس جنۃ الماوی ہے، جب کہ سدرہ کو چھپائے لیتی تھی، وہ چیز جو اس پر چھا رہی تھی، نہ تو نگاہ بہکی نہ حد سے بڑھی،یقینا اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے بعض نشانیاں دیکھ لیں۔اس نے کہا: یہ جبریل علیہ السلام کی تخلیق ہے۔

Haidth Number: 10261
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ یہودی لوگ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور انھوں نے کہا: ہر نبی کا ایک فرشتہ ہوتا ہے، جو اس کے پاس خیر لاتا ہے، آپ ہمیں بتائیں کہ آپ کے پاس آنے والا فرشتہ کون سا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ جبریل علیہ السلام ہے۔ انھوں نے کہا: جبریل،یہ تو لڑائی، قتال اور عذاب کے ساتھ نازل ہونے والا ہمارا دشمن فرشتہ ہے، اگر آپ نے میکائیل کا نام لیا ہوتا تو تب بات بنتی، وہ رحمت، انگوری اور بارش کے ساتھ نازل ہوتا ہے، پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کر دی: {قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّہ نَزَّلَہ عَلٰی قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللّٰہِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَیَدَیْہِ وَھُدًی وَّبُشْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ } … آپ کہہ دیجئے کہ جو جبریل کا دشمن ہے تو یقینا اس نے آپ کے دل پر پیغام باری تعالیٰ اتارا ہے، جو پیغام ان کے پاس کی کتاب کی تصدیق کرنے والا اور مومنوں کو ہدایت اور خوشخبری دینے والا ہے۔ (سورۂ بقرہ: ۹۷)

Haidth Number: 10262
۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صور پھونکنے والے فرشتے کا ذکر کیا اور فرمایا: اس کی دائیں جانب جبریل علیہ السلام ہے اور بائیں جانب میکائیل علیہ السلام ۔

Haidth Number: 10263
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جبریل علیہ السلام سے فرمایا: کیا وجہ ہے کہ میں نے میکائیل کو کبھی بھی ہنستے ہوئے نہیں دیکھا؟ انھوں نے کہا: اس وقت سے میکائیل نہیںہنسے، جب سے جہنم کی آگ کو پیدا کیا گیا۔

Haidth Number: 10264
۔ سیدنا ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے فرمایا: میری بیٹھک کو درست کردے، کیونکہ زمین کی طرف وہ فرشتہ نازل ہونے والا ہے، جو پہلے کبھی نازل نہیں ہوا۔

Haidth Number: 10265
۔ ابو عالیہ کہتے ہیں: تمہارے نبی کے چچا زاد (سیدنا عبد اللہ بن عباس f) نے مجھے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کسی بندے کے لیےیہ جائز نہیں کہ وہ یہ کہے کہ وہ یونس بن متی سے بہتر ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو ان کے باپ کی طرف منسوب کیا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس چیز کا ذکر کیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اسراء کرایا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے موسی علیہ السلام کو دیکھا، وہ گندمی رنگ کے دراز قد آدمی تھے، ایسے لگ رہا تھے، جیسے وہ شنوء ہ قبیلے کے فرد تھے، پھر عیسی علیہ السلام کا ذکر کیا کہ وہ معتدل قد کے تھے، ان کا رنگ سرخی سفیدی مائل تھا، ان کا جسم بھرا ہوا تھا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بتلایا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دجال اور جہنم کے داروغے مالک کو دیکھا۔

Haidth Number: 10266