Blog
Books
Search Hadith

باب سوم: دور اول، دورِ دوم اور دورِ سوم کی فضیلت کا بیان

506 Hadiths Found
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: لوگوں کے لیے کونسا زمانہ سب سے افضل ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس میں میں ہوں پھر اس کے بعد والا دوسرا زمانہ اور پھر اس کے بعد والا تیسرا۔

Haidth Number: 12527
سیدناابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگ جنگ میں شامل ہوں گے، اسی دوران پوچھا جائے گا کیا تمہارے اندر کوئی صحابی ہے؟ جواباً کہا جائے گا جی ہاں! سو وہ فتح یاب ہو جائیں گے، اس کے بعد پھر جنگ ہو گی، اسی دوران پوچھا جائے گا کہ کیا تمہارے اندر کوئی تابعی ہے؟ وہ کہیں گے: جی ہاں! چنانچہ وہ بھی فتح یاب ہو جائیں گے، اس کے بعد پھر لوگوں میں جنگ ہو گی، اسی دوران پوچھا جائے گا: کیا تمہارے اندر کوئی تبع تابعی ہے؟ وہ کہیں گے: جی ہاں! تو وہ بھی فتح یاب ہوں گے۔

Haidth Number: 12528

۔ (۱۲۸۳۵)۔ عَنْ عَبْدِاللَّہِ بْنِ عُمَرَ یَقُوْلُ: کُنَّا عِنْدَ رَسُوْلِ اللِّہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قُعُوْدًا نَذْکُرُ الْفِتَنَ، فَاَکْثَرَ ذِکْرَھَا حَتّٰی ذَکَرَ فِتْنَۃَ اْلاَحْلاَسِ،فَقَالَ قِائِلٌ: یَا رَسُوْلَ اللَّہِ! وَمَا فِتْنَۃُ اْلاَحْلَاسِ؟ قَالَ: ((فِتْنَۃُالْاَحْلاَسِ ھِيَ فِتْنَۃُ ھَرْبٍ وَحَرْبٍ، ثُمَّ فِتْنَۃُ السَّرَّائِ دَخَلُھَا اَوْ دَفَنُھَا مِنْ تَحْتِ قَدَمَيْ رَجُلٍ مِنْ اَھْلِ بَیْتِيیَزْعُمُ اَنَّہُ مِنِّي، وَلَیْسَ مِنِّي، اِنَّمَا وَلِیِّيَ الْمُتَّقُوْنَ، ثُمَّ یَصْطَلِحُ النَّاسُ عَلٰی رَجُلٍ کَوَرِکٍ عَلٰی ضِلَعٍ، ثُمَّ فِتْنَۃُ الدُّھَیْمَائِ لَا تَدَعُ اَحَدًا مِنْ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ اِلَّا لَطَمَتْہُ لَطْمَۃً، فَاِذَا قِیْلَ : اِنْقَطَعَتْ، تَمَادَّتْ، یُصْبِحُ الرَّجُلُ فِیْھَا مُؤْمِنًا وَیُمْسِيْ کَافِرًا، حَتّٰییَصِیْرَ النَّاسُ اِلٰی فُسْطَاطَیْنِ: فُسْطَاطِ اِیْمَانٍ لَا نِفَاقَ فِیْہِ، وَفُسْطَاطِ نِفَاقٍ لاَ اِیْمَانَ فِیْہِ، اِذَا کَانَ ذَاکُمْ فَانْتَظِرُوا الدَّجَّالَ مِنَ الْیَوْمِ اَوْغَدٍ۔)) (مسند احمد: ۶۱۶۸)

سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بیٹھے فتنوں کا تذکرہ کر رہے تھے‘ آپ نے بھی فتنۂ احلاس سمیت بہت سے فتنوں کا ذکر کیا۔ ایک آدمی نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! فتنۂ احلاس سے کیا مراد ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: فتنۂ احلاس سے مرادجنگ و جدل اور شکست و ریخت کا زمانہ ہے‘ پھر خوشحالی و آسودگی کا فتنہ ابھرے گا‘ اس کی ابتداء و انتہاء اور سرپرستی و ذمہ داری ایسے آدمی کے ہاتھ میں ہو گی‘ جو اپنے گمان کے مطابق مجھ سے ہو گا‘ حالانکہ وہ مجھ سے نہیں ہو گا‘ میرے دوست تو پرہیز گار لوگ ہیں‘ پھر لوگ ایسے شخص پر صلح کریں گے، جو مستقل طور پربادشاہت کے لائق اوراس کا اہل نہیں ہو گا، اس کے بعد بھیانک آفت و مصیبت پر مشتمل فتنہ نمودار ہو گا‘ وہ اس امت کے ہر فرد کو ہلا کر رکھ دے گا۔ جب کہا جائے گا کہ فتنہ ختم ہو چکا ہے‘ تو وہ حد سے بڑھ کر سامنے آئے گا۔ بندہ بوقت ِ صبح مومن ہو گا اور شام کو کافر، لوگ دو جماعتوں میں بٹ جائیں گے: ایک جماعت صاحبِ ایمان ہو گی‘ اس میں کوئی نفاق نہیں ہو گا اور دوسری جماعت صاحبِ نفاق ہو گی‘ اس میں کوئی ایمان نہیں ہو گا‘ جب معاملہ یہاں تک پہنچ جائے گا تو دجال کا انتظار کرنا‘ وہ اسی دن آسکتا ہے، یا پھر اگلے دن آ جائے گا۔

Haidth Number: 12835

۔ (۱۲۸۳۶)۔ وَعَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ قَالَ سَمِعْتُ: عَبْدَاللّٰہِ بْنِ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌یَقُوْلُ: لَقَدْ رَاَیْتُنَا وَمَاصَاحِبُ الدِّیْنَارِ وَالدِّرْھَمِ بِاَحَقَّ مِنْ اَخِیْہِ الْمُسْلِمِ ثُمَّ لَقَدْ رَاَیْتُنَا بِآخِرَۃٍ الآْنَ وَالدِّیْنَارُ وَالدِّرْھَمُ اَحَبُّ اِلٰی اَحَدِنَا مِنْ اَخِیْہِ الْمُسْلِمِ، وَلَقَدْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ :((لَئِنْ اَنْتُمُ اتَّبَعْتُمْ اَذْنَابَ الْبَقَرِ وَتَبَایَعْتُمْ بِالْعِیْنَۃِ وَتَرَکْتُمُ الْجِہَادَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَیَلْزِمَنَّکُمُ اللّٰہُ مَذَلَّۃً فِیْ اَعْنَاقِکُمْ ثُمَّ لَا تُنْزَعُ مِنْکُمْ حَتّٰی تَرْجِعُوْنَ اِلٰی مَا کُنْتُمْ عَلَیْہِ وَتَتُوْبُوْنَ اِلَی اللّٰہِ۔)) وَسَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((لَتَکُوْنَنَّ ھِجْرَۃٌ بَعْدَ ھِجْرَۃٍ اِلٰی مُہَاجَرِ اَبِیْکُمْ اِبْرَاہِیْمَ علیہ السلام حَتّٰی لَایَبْقٰی فِی الْاَرْضِیْنَ اِلَّا شِرَارُ اَھْلِہَا وَتَلْفِظُہُمْ اَرْضُوْھُمْ وَتَقْذَرُھُمْ رُوْحُ الرَّحْمٰنِ عَزَّوَجَلَّ وَتَحْشُرُھُمُ النَّارُ مَعَ الْقِرَدَۃِ وَالْخَنَازِیْرِ تَقِیْلُ حَیْثُیَقِیْلُوْنَ وَتَبِیْتُ حَیْثُیَبِیْتُوْنَ وَمَاسَقَطَ مِنْہُمْ فَلَہَا۔)) وَلَقَدْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((یَخْرُجُ مِنْ اُمَّتِیْ قَوْمٌ یُسِیْئُوْنَ الْاَعْمَالَ یَقْرَؤُوْنَ الْقُرْآنَ لَایُجْاوِزُ حَنَاجِرَھُمْ۔)) قَالَ یَزِیْدُ (اَحَدُ الرُّوَاۃِ) لَااَعْلَمُہٗاِلَّاقَالَ: ((یَحْقِرُاَحَدُکُمْ عَمَلَہٗمَعَعَمَلِہِمْ یَقْتُلُوْنَ اَھْلَ الْاِسْلَامِ فَاِذَا خَرَجُوْا فَاقْتُلُوْھُمْ ثُمَّ اِذَا خَرَجُوْا فَاقْتُلُوْھُمْ ثُمَّ اِذَا خَرَجُوْا فَاقْتُلُوْھُمْ، فَطُوْبٰی لِمَنْ قَتَلَہُمْ وَطُوْبٰی لِمَنْ قَتَلُوْہٗکُلَّمَاطَلَعَ مِنْہُمْ قَرْنٌ قَطَعَہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ۔)) فَرَدَّدَ ذٰلِکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عِشْرِیْنَ مَرَّۃً اَوْ اَکْثَرَ وَاَنَا اَسْمَعُ۔ (مسند احمد: ۵۵۶۲)

سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: میں نے وہ دن بھی دیکھے ہیں جب انسان اپنے مسلمان بھائی کو صاحب ِ ثروت اور مال دار کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دیتا تھا، لیکن اب میں دیکھتا ہوں کہ ہمیں مسلم بھائی کی بہ نسبت دینار اوردرہم زیادہ محبوب ہیں۔ میں نے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: اگر تم نے جہاد کو چھوڑ دیا اور گائیوں کی دموں کے پیچھے لگ گئے اور بیع عِینہ کرنے لگ گئے تو اللہ تعالیٰ تم پر ذلت مسلط کر دے گا،اور جب تک تم اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ نہیں کرو گے اور اپنے اصل دین کی طرف نہیں لوٹو گے تو وہ ذلت بھی تم سے جدا نہیں ہو گی۔ اور میں نے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے بھی سنا تھا کہ : تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت گاہ کی طرف ہجرت ہوتی رہے گی، یہاں تک کہ باقی روئے زمین پر صرف بد ترین لوگ ہی رہ جائیں گے۔ ان کی زمین ان کو اگل دے گی اور اللہ تعالیٰ کی روح بھی ان سے نفرت کرے گی اور آگ ان لوگوں کو بندروں اور خنزیروں کے ساتھ گھیر کر ایک جگہ جمع کرے گی، جہاں وہ قیلولہ کریں گے، آگ بھی وہیں قیلولہ کرے گی اور جہاں وہ رات گزاریں گے، آگ بھی وہیں رات گزارے گی اور ان میں سے جو آدمی گر جائے، وہ آگ اسے جلا دے گی۔ اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ : میری امت میں ایک ایسی بد عمل قوم پیدا ہو گی، کہ وہ قرآن کی تلاوت تو کریں گے، لیکن وہ ان کے حلقوں سے آگے نہیں جائے گا، (بظاہر ان کے عمل اتنے اچھے ہوں گے کہ) تم اپنے اعمال کو ان کے اعمال کے مقابلے میں کم تر سمجھو گے، وہ اہل اسلام کو قتل کریں گے، جب ایسے لوگ نمودار ہوں تو تم انہیں قتل کر دینا، اس کے بعد پھر جب ان کا ظہور ہوتو ان کو قتل کر دینا، پھر جب وہ ظاہر ہوں تو ان کو مار ڈالنا، ان کو قتل کرنے والے کے لیے بھی بشارت ہے اور ان کے ہاتھوں قتل ہو جانے والے کے لیے بھی خوشخبری ہے، جب ان کی نسل نمودار ہوگی تو اللہ تعالیٰ اسے نیست و نابود کر دے گا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس بات کو بیس یا اس سے بھی زائد مرتبہ دہرایا اور میں سنتا رہا۔

Haidth Number: 12836
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس قسم کی ایک حدیث بیان کی ہے۔

Haidth Number: 12837

۔ (۱۲۸۳۸)۔ وَعَنْہُ اَیْضًا قَالَ: دَخَلْتُ عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : وَھُوَ یَتَوَضَّاُ وُضُوْائً مَکِیْثًا فَرَفَعَ رَاْسَہُ فَنَظَرَ اِلَیَّ فَقَالَ:((سِتٌّ فِیْکُمْ اَیَّتُھَا الْاُمَّۃُ، مَوْتُ نَبِیِّکُمْ۔)) فَکَاَنَّمَا اِنْتَزَعَ قَلْبِیْ مِنْ مَکَانِہٖقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((وَاحِدَۃً۔))، قَالَ: ((وَیَفِیْضُ الْمَالُ فِیْکُمْ حَتّٰی اِنَّ الرَّجُلَ لَیُعْطٰیْ عَشْرَۃَ آلَافٍ فَیَظِلُّیَتَسَخَّطُہَا۔)) قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((ثِنْتَیْنِ۔)) قَالَ: ((وَفِتْنَۃٌ تَدْخُلُ بَیْتَ کُلِّ رَجُلٍ مِنْکُمْ۔)) قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((ثَلَاثٌ۔)) قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم :((وَمَوْتٌ کَقُعَاصِ الْغَنَمِ۔)) قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَرْبعٌ، وَھُْدْنَۃٌ تَکُوْنُ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَ بَنِیْ الْاَصْفَرِ لَیَجْمَعُوْنَ لَکُمْ تِسْعَۃَ اَشْھُرٍ کَقَدْرِحَمْلِ الْمَرْاَۃِ، ثُمَّ یَکُوْنُوْنَ اَوْلٰی بِالْغَدْرِ مُنْکُمْ۔)) قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم :((خَمْسٌ۔)) قَالَ: ((وَفَتْحُ مَدِیْنَۃٍ۔)) قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((سِتٌّ۔)) قُلْتُ : یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اَیُّ مَدِیْنَۃٍ؟ قَالَ:((قُسْطُنْطِیْنَۃُ۔)) (مسند ۶۶۲۳)

سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گیا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس وقت ٹھہر ٹھہر کر وضو کر رہے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سر اٹھایا اور مجھے دیکھ کر فرمایا: اے میری امت! (قیامت سے پہلے) تمہارے اندر چھ بڑے بڑے امور رونما ہوں گے، پہلی چیز تمہارے نبی کی موت ہے۔ یہ بات سن کر مجھے یوں لگا کہ میرا دل اپنی جگہ سے اڑ گیا ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ ایک ہے۔ پھر فرمایا: اور تمہارے اندر دولت کی اس قدر ریل پیل ہوجائے گی کہ کسی کو دس ہزار بھی دئیے جائیں گے تو وہ اسے قلیل سمجھتے ہوئے ناگواری کا اظہار کرے گا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : یہ دوسری علامت ہو گئی۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک ایسا فتنہ رونما ہوگا جو تم میں سے ہر ایک کے گھر میں داخل ہو جائے گا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ تیسری علامت ہو گئی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس طرح کثرت سے موتیں واقع ہوں، جیسے بکریاں ایک خاص بیماری کی وجہ سے مرنے لگتی ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : یہ چوتھی علامت ہے اور تمہارے اور بنو اصفر کے درمیان صلح ہوگی، وہ عورت کے حمل کی مدت یعنی نوماہ تک تو تم سے صلح رکھیں گے، پھر وہ تم سے بے وفائی کر جائیں گے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : یہ پانچویں علامت ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : اور ایک شہر فتح ہوگا، یہ چھٹی علامت ہو گی۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کون سا شہر ؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قسطنطنیہ۔

Haidth Number: 12838
سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کابیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: چھ امور قیامت کی علامتوں میں سے ہیں: (۱)میری وفات ، (۲)بیت المقدس کی فتح، (۳)بکریوں میںموت کی وبا کی طرح انسانوں کی بکثرت اموات، (۴)وہ فتنہ جس کی لڑائی کی آگ ہر مسلمان کے گھر میں پہنچ جائے گی، (۵) (اس حدتک دولت کی کثرت ہو گی کہ) اگر ایک آدمی کو ایک ہزار دینار دئیے جائیں گے تو وہ انہیں قلیل سمجھ کر ناراضگی کا اظہار کرے گا اور (۶) رومیوں کی بد عہدی و بے وفائی، وہ اسی جھنڈوں کے نیچے چلیں گیں اور ہر جھنڈے کے نیچے بارہ ہزار افراد ہوں گے۔

Haidth Number: 12839

۔ (۱۲۸۴۰)۔ وَعَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ الْاَشْجَعِیِّ الْاَنْصَارِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: اَتَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ فَقَالَ: ((عَوْفٌ؟)) فَقُلْتُ: نَعَمْ ،فَقَالَ: ((اُدْخُلْ))قَالَ: قُلْتُ: کُلٌّ اَوْ بَعْضِیْ قَالَ: ((بَلْ کُلُّکَ۔)) قَالَ: ((اُعْدُدْ یَاعَوْفُ! سِتًّا بَیْنَیَدَیِ السَّاعَۃِ، اَوَّلُھُنَّ مَوْتِیْ۔)) قَالَ: فَاسْتَبْکَیْتُ حَتّٰی جَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُسَکِّتُنِیْ قَالَ: قُلْتُ: اِحْدٰی((وَالثَّانِیَۃُ فَتْحُ بَیْتِ الْمَقْدَسِ۔)) قُلْتُ: اِثْنَیْنِ، ((وَالثَّالِثَۃُ مُوْتَانٌ یَکُوْنُ فِیْ اُمَّتِیْیَاْخُذُھُمْ مِثْلَ قُعَاصِ الْغَنَمِ۔)) قَالَ: ((ثَلاَثًا وَالرَّابِعَۃُ فِتْنَۃٌ تَکُوْنُ فِیْ اُمَّتِیْ وَاَعْظَمُہَا۔)) قَالَ :((اَرْبَعًا وَالْخَامِسَۃُیَفِیْضُ الْمَالُ فِیْکُمْ حَتّٰی اَنَّ الرَّجُلَ لَیُعْطٰی الْمِائَۃَ دِیْنَارٍ فَیَتَسَخَّطُہَا۔)) قَالَ: ((خَمْسًا،وَالسَّادِسَۃُ ھُدْنَۃٌ تَکُوْنُ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَ بَنِیْ الْاَصْفَرِ فَیَسِیْرُوْنَ اِلَیْکُمْ عَلٰی ثَمَانِیْنَ غَایَۃً۔)) قُلْتُ: وَمَا الْغَایَۃُ؟ قَالَ: ((اَلرَّایَۃُ تَحْتَ کُلِّ رَاْیَۃٍ اِثْنَا عَشَرَ اَلْفًا، فُسْطَاطُ الْمُسْلِمِیْنَیَوْمَئِذٍ فِیْ اَرْضٍ یُقَالُ لَھَا الْغُوْطَۃُ فِیْ مَدِیْنَۃٍیُقَالُ لَھَا دِمَشْقُ۔)) (مسند احمد: ۲۴۴۸۵)

سیدنا عوف بن مالک اشجعی انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور سلام کہا، آپ نے پوچھا : عوف ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: اندر آجاؤ۔ میں نے کہا: سارا آجاؤں یا کچھ؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : پورے کے پورے ہی آجاؤ۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عوف! قیامت سے پہلے وقوع پذیر ہونے والے چھ بڑی بڑی علامتوں کو شمار کرو، پہلی علامت میری موت ہے۔ یہ سن کر میں رونے لگ گیا، پھر اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے چپ کرانے لگ گئے، میںنے کہا: یہ ایک ہو گئی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دوسری بیت المقدس کی فتح ہے۔ میں نے کہا: یہ دوسری ہو گئی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تیسری علامت یہ ہے کہ میری امت میں اس قدر زیادہ موتیں ہوں، جیسے بکریاں موت کی وباء میںمرنے لگتی ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : یہ تیسری ہو گئی، اور چوتھی علامت یہ ہے کہ ایک بڑا فتنہ ہو گا، یہ چوتھی ہو گئی اور پانچواں یہ کہ دولت اس قدر عام ہوجائے گی کہ جب کسی کو ایک سو دینار دئیے جائیں گے تو وہ ان کو قلیل سمجھتے ہوئے غصے کا اظہار کرے گا۔ آپ نے فرمایا : یہ پانچویں ہوئی اور چھٹی علامت یہ ہو گی کہ تمہارے اور بنو الاصفر کے درمیان صلح ہوگی،لیکن وہ (عہد توڑ کر) اسی جھنڈوں کے نیچے چل کر آئیں گے۔ میں نے کہا: غایہ سے کیا مراد ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس سے مراد جھنڈا ہے، ہر جھندے کے نیچے بارہ ہزار افراد ہوں گے، ان دنوں مسلمانوں کا مرکز دمشق میں غوطہ نامی مقام پر ہوگا۔

Haidth Number: 12840

۔ (۱۲۸۴۱)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ حَدَّثَنِیْ اَبِیْ ثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ اَنَا مَعْمَرُ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ اللَّیْثِیِّ عَنْ خَالِدِ بْنِ خَالِدِ نِ الْیَشْکَرِیِّ قَالَ: خَرَجْتُ زَمَانَ فُتِحَتْ تُسْتَرُ حَتّٰی قَدِمْتُ الْکُوْفَۃَ، فَدَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَاِذَا اَنَا بِحَلْقَۃٍ فِیْہَا رَجُلٌ صَدَعٌ مِنَ الرِّجَالِ، حَسَنَ الثَّغْرِ، یُعْرَفُ فِیْہِ اَنَّہٗمِنْرِجَالِاَھْلِالْحِجَازِقَالَ: فَقُلْتُ مَنِ الرَّجُلُ؟ فَقَالَ الْقَوْمُ: اَوَمَا تَعْرِفُہٗ؟فَقُلْتُ: لَا،فَقَالُوْا :ہٰذَا حُذَیْفَۃُ بْنُ الْیَمَانِ ( ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌) صَاحِبُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: فَقَعَدْتُّ وَحَدَّثَ الْقَوْمَ فَقَالَ: اِنَّ النَّاسَ کَانُوْا یَسْاَلُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ الخَیْرِ وَکُنْتُ اَسْاَلُہٗعَنِالشَّرِّ،فَاَنْکَرَذٰلِکَالْقَوْمُعَلَیْہِ فَقَالَ :لَھُمْ اِنِّیْ سَاُخْبِرُکُمْ بِمَا اَنْکَرْتُمْ مِنْ ذٰلِکَ، جَائَ الْاِسْلَامُ حِیْنَ جَائَ فَجَائَ اَمْرٌ لَیْسَ کَأَمْرِ الْجَاھِلِیَّۃِ وَکُنْتُ قَدْ اُعْطِیْتُ فِی الْقُرْآنِ فَہْمًا، فَکَانَ رِجَالٌ یَجِیْئُوْنَ فَیَسْاَلُوْنَ عَنِ الْخَیْرِ فَکُنْتُ اَسْاَلُہٗعَنِالشََّرِّ،فَقُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اَیَکُوْنُ بَعْدَ ہٰذَا الْخَیْرِ شَرٌّ کَمَا کَانَ قَبْلَہُ شَرٌّ؟ فَقَالَ: ((نَعَمْ۔)) قَالَ: قُلْتُ: فَمَا الْعِصْمَۃُیَارَسُوْلَ اللّٰہِ!؟ قَالَ: ((اَلسَّیْفُ۔)) قَالَ: قُلْتُ: وَھَلْ بَعْدَ ہٰذَا السَّیْفِ بَقِیِّۃٌ؟ قَالَ: ((نَعَمْ تَکُوْنُ اَمَارَۃٌ عَلٰی اَقْذَائٍ وَھُدْنَۃٌ عَلٰی دَخَنٍ۔)) قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ مَاذَا ؟ قَالَ: ((ثُمَّ تَنْشَاُ دُعَاۃُ الضَّلاَلَۃِ فَاِنْ کَانَ لِلّٰہِ یَوْمَئِذٍ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃٌ جَلَدَ ظَہْرَکَ وَاَخَذَ مَالَکَ فَالْزَمْہٗوَاِلَّافَمُتْوَاَنْتَعَاضٌّعَلٰی جَذْلِ َشَجَرَۃٍ۔)) قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: ((یَخْرُجُ الدَّجَّالُ بَعْدَ ذٰلِکَ مَعَہٗنَہْرٌوَنَارٌمَنْوَقَعَفِیْ نَارِہٖٖوَجَبَاَجْرُہٗوَحَطَّوِزْرُہٗ،وَمَنْوَقَعَفِیْ نَہْرِہٖوَجَبَوِزْرُہٗوَحَطَّاَجْرُہٗ۔)) قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّمَاذَا؟قَالَ: ((ثُمَّ نُتِجَ الْمَہْرُ فَلَا یُرْکَبُ حَتّٰی تَقُوْمَ السَّاعَۃُ۔)) اَلصَّدَعُ مِنَ الرَّجَالِ الضَّرْبُ، وَقَوْلُہُ: فَمَا الْعِصْمَۃُ مِنْہُ قَالَ: اَلسَّیْفُ، کَانَ قَتَادَۃُیَضَعُہُ عَلَی الرِّدَۃِ الَّتِیْ کَانَتْ فِیْ زَمَنِ اَبِیْ بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، وَقَوْلُہُ اَمَارَۃٌ عَلٰی اَقْذَائٍ وَھُدْنَۃٍ یَقُوْلُ صُلْحٌ وَقُوْلُہُ عَلٰی دَخَنٍ یَقُوْلُ عَلٰی ضَغَائِنَ، قِیْلَ لِعَبْدِ الرَّزَّاقِ مِمَّنْ التَّفْسِیْرُ قَالَ: عَنْ قَتَادَۃَ زَعَمَ۔ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ) قَالَ: قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ: ((مَاھُدْنَۃُ عَلٰی دَخَنٍ قَالَ: قُلُوْبٌ لَاتَعُوْدُ عَلٰی مَاکَانَتْ۔ (مسند احمد:۲۳۸۲۲ )

خالد بن خالد یشکری کہتے ہیں:جس زمانے میں تُسْتَر فتح ہوا تھا، میں ان دنوں کوفہ میں گیا، میں ایک مسجد میں داخل ہوا اور دیکھا کہ لوگ وہاں ایک حلقہ کی صورت میں بیٹھے ہیں، اس میں ایک چھریرے بدن کا آدمی تھا، اس کے اگلے دانت یا منہ بہت خوبصورت تھا، ایسے معلوم ہوتا تھا کہ وہ حجاز کا رہنے والا ہے۔ میںنے پوچھا: یہ کون صاحب ہیں؟ لوگوں نے کہا: کیا آپ ان کو نہیں جانتے؟ میں نے کہا: جی نہیں، انہوںنے بتایا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابی سیدنا حذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں، یہ سن کر میں بھی بیٹھ گیا، وہ لوگوں سے باتیں کرتے رہے، انہوں نے یہ بھی بیان کیا کہ لوگ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے خیر کے بارے میں پوچھتے تھے اور میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے شرّ کے متعلق پوچھا کرتا تھا۔ لوگوں کو اس بات پر حیرت ہوئی، لیکن انھوں نے کہا: تم جس بات پر تعجب کر رہے ہو، میں تمہیں بتلاتا ہوں۔ جب اسلام آیا تو ایسا ماحول پیدا ہوگیا کہ جو جاہلیت کے دور سے مختلف تھا، جبکہ مجھے فہمِ قرآن کا کافی ملکہ حاصل تھا، لوگ آکر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے خیر کی بات پوچھا کر تے، جبکہ میں شرکے بارے میں پوچھا کرتا تھا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا اس خیر (یعنی ہدایت اور اسلام) کے بعد شر (اورفتنوں) کا دور آئے گا، جیسا کہ اس سے پہلے تھا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔ میں نے کہا: اس سے بچنے کا کیا طریقہ ہو گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تلوار۔ میں نے کہا: کیا تلوار کے چلنے کے بعد اسلام کا کوئی حصہ باقی رہے گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں، لیکن بباطن لڑائی ہو گی اور ظاہری صلح ہو گی‘ اس کے بعد ضلالت و گمراہی کی طرف پکارنے والے منظرِ عام پر آئیں گے‘ اگر ان دنوں میں تجھے کوئی خلیفہ نظر آ جائے تو اسے لازم پکڑ لینا‘ اگرچہ وہ تیرے جسم کو اذیت پہنچائے اور تیرا مال سلب کر لے، وگرنہ اس حال میں مر جانا کہ تو درخت کے تنے کے ساتھ چمٹا ہوا ہو۔ میںنے کہا: پھر کیا ہو گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پھر دجال نمودار ہو گا، اس کے پاس پانی کی نہر ہوگی اور آگ بھی ہوگی، جو آدمی اس کی آگ میں گیا، اس کے لیے اللہ کے ہاں اجر (اور نجات) لازمی ہوگی، اور اس کے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے، لیکن جو کوئی اس کی نہر میں چلا گیا، وہ گنہگار ہوگا اور اس کا تمام اجر و ثواب ضائع ہوجائے گا۔ میں نے کہا: پھر اس کے بعد کیا ہوگا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے بعد اس قدر جلد قیامت آجائے گی کہ ان دنوں جو گھوڑی بچہ جنم دے گی، ابھی تک اس پر سواری نہ کی جائے گی کہ قیامت برپا ہوجائے گی۔ اَلصَّدَعُ مِنَ الرَّجَالِ سے مراد الضرب یعنی کم گوشت والا آدمی ہے، سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا یہ سوال کہ اس فتنے سے بچنے کی کیا صورت ہوگی؟ اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا جواب کہ تلوار ہو گی، امام قتادہ اس کو سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے دور میں ہونے والے ارتداد پر محمول کرتے تھے، اَمَارَۃٌ عَلٰی اَقْذَائٍ وَھُدْنَۃٍ سے مراد صلح ہے، اور الدخن سے مراد دلی نفرت اور کھوٹ ہے۔ جب حدیث کے راوی عبدالرزاق سے پوچھا گیا کہ ان الفاظ کی یہ وضاحت کس نے کی ہے تو انھوں نے کہا کہ امام قتادۃ نے کی۔

Haidth Number: 12841
۔ (دوسری سند) سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا اس خیر (یعنی ہدایت اور اسلام) کے بعدپھر شر (اور فتنے) کا دور آئے گا، جیسا کہ پہلے تھا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: حذیفہ! اللہ کی کتاب پڑھتے رہنا اور اس پر عمل کرتے رہنا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے اعراض کر لیا، لیکن میں نے اپنی بات تین مرتبہ دہرا دی، مجھے معلوم تھا کہ اگر خیر ہو گی تو اس کی پیروی کروں گا اور شرّ ہونے کی صورت میں اس سے اجتناب کروں گا، اس لیے میں نے پھر کہہ دیا کہ آیا اس خیر کے بعد پھر شرّ کا دور ہو گا؟آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں‘ اندھا دھند فتنہ ہو گا‘ اور اس میں ایسے لوگ ہوں گے جو جہنم کے دروازوں پر کھڑے داعی ہوں گے، جو آدمی ان کی بات مانے گا، وہ اس کو جہنم میں پھینک دیں گے۔

Haidth Number: 12842
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: علاماتِ قیامت کی مثال دھاگے میں پروئے ہوئے دانوں کی طرح ہے کہ جب دھاگہ ٹوٹ جاتا ہے تو باری باری گرنے لگ جاتے ہیں۔

Haidth Number: 12843
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت کی علامات میں سے یہ بھی ہیں کہ بکریوں کے چرواہے لوگوں کے سردار اور حکمران بن جائیں گے اور ننگے پاؤں، برہنہ جسم اور بھوکے لوگ عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے پر بازی لے جائیں گے اور لونڈیاں اپنے مالک یامالکہ کو جنم دیں گی۔

Haidth Number: 12844
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان چھ علامتوں کے ظہور سے پہلے پہلے جس قدر ہو سکے نیک عمل کر لو، (۱)مغرب سے طلوع ِ آفتاب، (۲)دجال، (۳)دھواں، (۴)زمین کا چوپایہ، (۵) نفسا نفسی کا عالم اور (۶)عام لوگوں کا معاملہ۔

Haidth Number: 12845

۔ (۱۲۸۴۶)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ حَدَّثَنِیْ اَبِیْ ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ: ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ فُرَاتٍ عَنْ اَبِیْ الطُّفَیْلِ عَنْ اَبِیْ سَرِیْحَۃَ (حُذَیْفَۃُ بْنُ اُسَیْدِ نِ الْغِفَارِیُّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌) قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی غُرْفَۃٍ وَنَحْنُ تَحْتَہَا نَتَحَدَّثُ، قَالَ: فَاَشْرَفَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((مَاتَذْکُرُوْنَ؟)) قَالُوْا: اَلسَّاعَۃَ، قَالَ: ((اِنَّ السَّاعَۃَ لَنْ تَقُوْمَ حَتّٰی تَرَوْنَ عَشْرَ آیَاتٍ، خَسْفٌ بِالْمَشْرِقِ وَخَسْفٌ بِالْمَغْرِبِ وَخَسْفٌ فِیْ جَزِیْرَۃِ الْعَرَبِ وَالدُّخَانُ وَالدَّجَّالُ وَالدَّابَۃُ وَطَلُوْعُ الشَّمْسِ مِن مَّغْرِبِہَا وَیَاجُوْجُ وَمَاجُوْجُ وَنَارٌ تَخْرُجُ مِنْ قَعْرِ عَدْنٍ تُرَحِّلُ النَّاسَ۔)) فَقَالَ شُعْبَۃُ: سَمِعْتُہُ وَاَحْسِبُہُ قَالَ: ((تَنْزِلُ مَعَہُمْ حَیْثُ نَزَلُوْا اَوْ تَقِیْلُ مَعَہُمْ حَیْثُ قَالُوا۔)): قَالَ شُعْبَۃُ: وَحَدَّثَنِیْ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ رَجُلٌ عَنْ اَبِی الطُّفَیْلِ عَنْ اَبِیْ سَرِیْحَۃَ لَمْ یَرْفَعْہُ اِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: اَحَدُ ہٰذَیْنِ الرَّجُلَیْنِ: ((نُزُوْلُ عِیْسٰی بْنِ مَرْیَمَ۔)) وَقَالَ الآْخَرُ: ((رِیْحٌ تُلْقِیْہِمْ فِی الْبَحْرِ۔)) (مسند احمد: ۱۶۲۴۲)

ابو سریحہ سیدنا حذیفہ بن اسید غفاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بالاخانے میں تشریف فرما تھے اور ہم نیچے باتیں کر رہے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہماری طرف جھانکا اور پوچھا: تم لوگ کیا باتیں کر رہے ہو؟ لوگو ں نے کہا: قیامت کے بارے میں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تک تم یہ دس علامات نہیں دیکھ لیتے، اس وقت تک قیامت قائم نہیں گی: (۱)مشرق میں لوگوں کا زمین میں دھنسنا۔ (۲)مغرب میں دھنسنا۔ (۳)جزیرۂ عرب میں دھنسنا۔ (۴)دھواں۔ (۵) دجال۔ (۶)زمین کا چوپایہ۔ (۷)مغرب کی جانب سے طلوع آفتاب۔ (۸)یاجوج ماجوج کا ظہور۔ (۹) عدن کے انتہائی مقام سے نکلنے والی آگ جو لوگوں کو دھکیل کر لے جائے گی۔ امام شعبہ کہتے ہیں: میں نے فرات سے یہ بھی سنا کہ لوگ جہاں اتریں گے، وہ آگ بھی وہیں ٹھہر جائے گی اور وہ جہاں قیلولہ کریں گے، وہ قیلولہ کرے گی۔ امام شعبہ کہتے ہیں: مجھے یہ حدیث فرات کے علاوہ ایک دوسرے آدمی نے بھی بیان کی، اس نے ابو طفیل سے روایت کی اور ابو طفیل نے سیدنا ابو سریحہ سے لی، لیکن اس نے اس حدیث کو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مرفوعاً بیان نہیں کیا، ان دو مشائخ میں سے ایک نے عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے نزول کا اور سمندر میں پھینک دینے والی ہوا کابطورِ علامتِ قیامت ذکر کیا۔

Haidth Number: 12846
سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیت المقدس کی آبادی، یثرب کی ویرانی کا، یثرب کی ویرانی، خون ریزی کا، اورخون ریزی، قسطنطنیہ کی فتح کا اور فتح ِ قسطنطنیہ، دجال کے خروج کا پیش خیمہ ہوگا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی ران یا کندھے پر ہاتھ مار کر فرمایا: یہ سب باتیں اسی طرح حق ہیں، جیسے یہاں تمہارا بیٹھنا یقینی ہے۔

Haidth Number: 12847
سیدنامعاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بڑی خون ریزی ، فتحِ قسطنطنیہ اور خروجِ دجال، یہ تینوں امور سات ماہ کے اندر اندر ظاہر ہوں گے۔

Haidth Number: 12848
سیدناسلمہ بن نفیل سکونی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر تھے، اچانک ایک آدمی نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: اللہ کے رسول! کیا کبھی آپ کے پاس آسمان سے کھانا آیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں اس نے پھر کہا: اس کے ساتھ کیا تھا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے ساتھ ایسا برتن تھا،جس میں کھانا گرم رہتا ہے۔ صحابہ نے پوچھا: کیا اس کھانے سے کچھ بچ بھی گیا تھا؟ آپ نے فرمایا: جی ہاں اس نے پھر پوچھا: اس کا کیا بنا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسے اوپر اٹھا لیا گیا اور میری طرف یہ وحی کی جانے لگی کہ مجھے موت آنے والی ہے اور میں تم میں اب ٹھہرنے والا نہیں ہوں، اور تم بھی میرے بعد کم عرصہ ہی رہو گے، بلکہ تم اس قدر قلیل مدت رہو گے کہ ایک دوسرے سے پوچھو گے کہ کیا ہم اتنی جلدی چلے جائیں او ر تم گروہوں کی شکل میں آؤ گے اور ایک دوسرے کو فنا کرو گے اور قیامت سے پہلے اموات بکثرت ہوں گی او ر اس کے بعد زلزلوں والے سال شروع ہو جائیں گے۔

Haidth Number: 12849

۔ (۱۲۸۵۰)۔ وَعَنْ ضَمْرَۃَ بْنِ حَبِیْبٍ اَنَّ ابْنَ زُغْبٍ الْاَیَادِیَّ حَدَّثَہُ قَالَ: نَزَلَ عَلَیَّ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ حَوَالَۃَ الْاَزْدِیُّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَقَالَ لِیْ وَاِنَّہُ لَنَازِلٌ عَلَیَّ فِیْ بَیْتِیْ: بَعَثَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَوْلَ الْمَدِیْنَۃِ عَلٰی اَقْدَامِنَا لِنَغْنَمَ فَرَجَعْنَا وَلَمْ نَغْنَمْ شَیْئًا وَعَرَفَ الْجُہْدَ فِیْ وُجُوْھِنَا فَقَامَ فَقَالَ: ((اَللّٰہُمَّ لَاتَکِلْہُمْ اِلَیَّ فَاَضْعُفَ، وَلاَتَکِلْہُمْ اِلٰی اَنْفُسِھِمْ فَیَعْجِزُوْا عَنْہَا، وَلاَتَکِلْہُمْ اِلَی النَّاسِ فَیَسْتَاْثِرُوْا عَلَیْہِمْ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((لَیُفْتَحَنَّ لَکُمُ الشَّامُ وَالرُّوْمُ وَفَارِسُ اَوِالرُّوْمُ وَفَارِسُ حَتّٰییَکُوْنَ لِاَحَدِکُمْ مِنَ الْاِبِلِ کَذَا وَکَذَا وَمِنَ الْبَقَرِ کَذَا وَکَذَا وَمِنَ الْغَنَمِ حَتّٰییُعْطٰی اَحَدُھُمْ مِائَۃَ دِیْنَارٍ فَیَسْخَطُہَا۔)) ثُمَّ وَضَعَ یَدَہُ عَلٰی رَاْسِیْ اَوْ ھَامَتِیْ فَقَالَ: ((یَا ابْنَ حَوَالَۃَ! اِذَا رَاَیْتَ الْخِلَافَۃَ قَدْ نَزَلَتِ الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ فَقَدْ دَنَتِ الزَّلَازِلُ وَالْبَلَایَا وَالْاُمُوْرُ الْعِظَامِ وَالسَّاعَۃُیَوْمَئِذٍ اَقْرَبُ اِلٰی النَّاسِ مِنْ یَدِیْ ہٰذِہِ مِنْ رَاْسِکَ۔)) (مسند احمد: ۲۲۸۵۴)

ابن زغب ایادی کہتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن حوالہ ازدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ میرے پاس میرے گھر میں آئے ہوئے تھے، انھوں نے مجھے یہ حدیث بیان کی: اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں مدینہ منورہ کے گردو نواح میں پیدل روانہ کیا، تاکہ ہم مال ِ غنیمت لے کر لائیں، لیکن ہوا یوں کہ ہم مالِ غنیمت حاصل نہ کر سکے، جب ہم لوٹے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمارے چہروں پر تھکاوٹ محسوس کی۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھڑے ہو گئے اور فرمایا: یا اللہ! انہیں میرے سپرد نہ کرنا،میں اس ذمہ داری کو پورا کرنے سے کمزور ہوں، اور نہ ان کو ان کے نفسوں کے سپرد کر، کیونکہ یہ عاجز آجائیں گے، اور نہ ہی ان کو دوسرے لوگوں کے حوالے کر، کیونکہ لوگ دوسروں کو ان پر ترجیح دیں گے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ضرور ضرور شام ، روم اور فارس (ایران) فتح ہو جائے گا، (اور اتنا مالِ غنیمت جمع ہو گا کہ) تم میں سے ہر آدمی کو کئی اونٹ ، کئی گائیں اور دوسری غنیمتیں ملیں گی، بلکہ جب کسی کو سو دینار دیا جائے گا تو وہ اسے کم سمجھ ناراضگی کا اظہار کرے گا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا ہاتھ مبارک میرے سر پر رکھ کر فرمایا: ابن حوالہ! جب تم دیکھو کہ خلافت ارضِ مقدسہ (یعنی بیت المقدس) میں قائم ہو گئی ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ زلزلے، مصائب اور بڑی بڑی علاماتِ قیامت قریب آگئیں ہیںاور اس وقت قیامت لوگوں سے اس سے بھی زیادہ قریب ہوگی، جیسے میرا ہاتھ اور تمہارا سر ہے۔

Haidth Number: 12850

۔ (۱۲۸۵۱)۔ عَنْ سَیَّارٍ عَنْ طَارِقِ بْنِ شِھَابٍ، قَالَ: کُنَّا عِنْدَ عَبْدِ اللّٰہِ جُلُوْسًا، فَجَائَ رَجُلٌ فَقَالَ: قَدْ اُقِیْمَتِ الصَّلَاۃُ۔ فَقَامَ وَقُمْنَا مَعَہٗ،فَلَمَّادَخَلْنَاالْمَسْجِدَ،رَأَیْنَا النَّاسَ رُکُوْعًا فِیْ مُقَدَّمِ الْمَسْجِدِ، فَکَبَّرَ وَرَکَعَ وَرَکَعْنَا ثُمَّ مَشَیْنَا، وَصَنَعْنَا مِثْلَ الَّذِیْ صَنَعَ فَمَرَّ رَجُلٌ یُسْرِعُ فَقَالَ: عَلَیْکَ السَّلَامُ یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ! فَقَالَ: صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ۔فَلَمَّاصَلَّیْنَا وَرَجَعْنَا دَخَلَ عَلٰی أَھْلِہٖ،جَلَسْنَا،فَقَالَبَعْضُنَالِبَعْضٍ: أَمَا سَمِعْتُمْ رَدَّہٗعَلَی الرَّجُلِ: صَدَقَ اللّٰہُ، وَبَلَّغَتْ رُسُلُہٗ۔أَیُّکُمْیَسْأَلُہٗ؟ فَقَالَ طَارِقٌ: أَنَا أَسْأَلُہٗ۔فَسَأَلَہٗحِیْنَ خَرَجَ، فَذَکَرَ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أِنَّ بَیْنَیَدَیِ السَّاعَۃِ: تَسْلِیْمَ الْخَاصَّۃِ وَفُشُوَّ التِّجَارَۃِ حَتّٰی تُعِیْنَ الْمَرْأَۃُ زَوْجَھَا عَلَی التِّجَارَۃِ وَقَطْعَ الْأَرْحَامِ وَشَھَادَۃَ الزُّوْرِ وَکِتْمَانَ شَھَادَۃِ الْحَقِّ وُظُھَوْرَ الْقَلَمِ۔)) (مسند احمد: ۳۸۷۰)

طارق بن شہاب کہتے ہیں : ہم سیدنا عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے‘ ایک آدمی آیا اور کہا: اقامت کہی جا چکی ہے‘ وہ کھڑے ہوئے اور ہم بھی کھڑے ہو گئے۔ جب ہم مسجد میں داخل ہو ئے تو ہم نے دیکھا کہ لوگ مسجد کے اگلے حصے میں رکوع کی حالت میں ہیں۔ انھوں نے اَللّٰہُ اَکْبَر کہا اور (صف تک پہنچنے سے پہلے ہی) رکوع کیا‘ ہم نے بھی رکوع کیا‘ پھر ہم رکوع کی حالت میں چلے(اور صف میں کھڑے ہو گئے) اورجیسے انھوں نے کیا ہم کرتے رہے۔ ایک آدمی جلدی میں گزرا اور کہا: ابو عبد الرحمن! عَلَیْکَ السَّلَامُ۔ یہ سن کر انھوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا۔ جب ہم نے نماز پڑھ لی اور واپس آ گئے، وہ اپنے اہل کے پاس چلے گئے۔ ہم بیٹھ گئے اور ایک دوسرے کو کہنے لگے: آیا تم لوگوں نے سنا ہے کہ انھوں نے اُس آدمی کو جواب دیتے ہوئے کہا: اللہ نے سچ کہا اور اس کے رسولوں نے (اس کا پیغام) پہنچا دیاہے؟ تم میں سے کون ہے جو ان سے ان کے کئے کے بارے میں سوال کرے گا؟ طارق نے کہا: میں سوال کروں گا۔ جب وہ باہر آئے تو انھوں نے سوال کیا۔ جوابًا انھوں نے کہا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت سے پہلے مخصوص لوگوں کو سلام کہا جائے گا اور تجارت عام ہو جائے گی ‘ حتی کہ بیوی تجارتی امور میں اپنے خاوند کی مدد کرے گی‘ نیز قطع رحمی‘ جھوٹی گواہی‘ سچی شہادت کو چھپانا اور لکھائی پڑھائی (بھی عام ہو جائے گی)۔

Haidth Number: 12851
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کہ جب تک بنو قحطان میں پیدا ہونے والا ایک آدمی لوگوں کو اپنی لاٹھی سے ہانکے گا نہیں ، اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی۔

Haidth Number: 12852
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ دن رات اس وقت تک ختم نہیں ہوں گے ،جب تک جہجاہ نامی ایک غلام لوگوں پر حکمرانی نہ کرلے۔

Haidth Number: 12853
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک مجلس میں تشریف فرما تھے اور لوگوں سے گفتگو کر رہے تھے، اتنے میں ایک بدّو نے آکر پوچھا: اے اللہ کے رسول! قیامت کب آئے گی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی بات جاری رکھی، بعض لوگوں نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی بات توسن لی ہے، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے سوال کو ناپسند کیا اور بعض نے کہا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی بات ہی نہیںسنی، اُدھر جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی بات پوری کر لی تو پوچھا: قیامت کے متعلق دریافت کرنے والا کہاں ہے؟ وہ بولا: جی میں ہوں، اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب امانتوں کو ضائع کر دیا جائے گا تو قیامت کا انتظار کرنا۔ اس نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! امانتوں کو ضائع کرنے سے کیا مراد ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب معاملات نااہل لوگوںکے سپرد کر دیئے جائیں گے، تو قیامت کا انتظار کرنا۔

Haidth Number: 12854
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دخولِ جنت کے لیے سب سے پہلا سفارشی میں ہوں گا۔

Haidth Number: 13099
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن جہنم سے ایک گردن نکلے گی، اس کی دو آنکھیں ہوں گی، جن سے وہ دیکھتی ہوگی، اس کے کان ہوں گے جن سے وہ سنتی ہو گی اور اس کی ایک زبان بھی ہوگی، جس سے وہ بولتی ہو گی، وہ کہے گی: مجھے تین قسم کے لوگوں پر مسلط کیا گیا ہے: ایک وہ جو ظالم اور سرکش ہو ، دوسرا وہ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کے معبود ہونے کا دعویٰ کرے اور تیسرا تصاویر بنانے والا۔

Haidth Number: 13214
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جہنم مزید افراد کامطالبہ کرتی رہے گی، بالآخر اللہ تعالیٰ اس میں اپنا قدم ڈالے گا، اس طرح اس کے کنارے آپس میں مل جائیں گے اور وہ کہے گی: تیری عزت کی قسم! بس بس، لیکن جنت میں تمام اہل جنت کے بعد جگہ خالی رہ جائے گی، اسے بھرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نئی مخلوق پیدا کرکے اسے جنت کے خالی حصوں میں ٹھہرائے گا۔

Haidth Number: 13215
Haidth Number: 13216