Blog
Books
Search Hadith

فرشتوں کی تخلیق کا بیان

506 Hadiths Found

۔ (۱۰۲۶۷)۔ عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّ الْعَبْدَ اِذَا کَانَ فِیْ اِنْقِطَاعٍ مِنَ الدُّنْیَا وَ اِقْبَالٍ مِنَ الْآخِرَۃِ نَزَلَ اِلَیْہِ مَلَائِکَۃُ مِنَ السَّمَائِ بِیْضُ الْوُجُوْہِ کَاَنَّ وُجُوْھَھُمُ الشَّمْسُ مَعَھُمْ کَفْنٌ مِنْ اَکْفَانِ الْجَنَّۃِ وَحُنُوْطٌ مِنْ حُنُوْطِ الْجَنَّۃِ، حَتّٰییَجْلِسُوْا مِنْہُ مَدَّ الْبَصَرِ، ثُمَّ یَجِیْئُ مَلَکُ الْمَوْتِ عَلَیْہِ السَّلَامُ حَتّٰییَجْلِسَ عِنْدَ رَاْسِہِ فَیَقُوْلُ : اَیَّتُھَا النَّفْسُ الطَّیِّبَۃُ اخْرُجِیْ اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانٍ، قَالَ: فَتَخْرُجُ تَسِیْلُ کَمَا تَسِیْلُ الْقَطْرَۃُ مِنْ فِیْ السِّقَائِ، فَیَاْخُذُ ھَا فَاِذَا اَخَذَھَا لَمْ یَدَعُوْھَا فِیْیَدِہِ طَرْفَۃَ عَیْنٍ حَتّٰییَاْخُذُوْھَا فَیَجْعَلُوْھَا فِیْ ذٰلِکَ الْکَفْنِ وَفِیْ ذٰلِکَ الْحُنُوْطِ وَیَخْرُجُ مِنْھَا کَاَطْیَبِ نَفْخَۃِ مِسْکٍ وُجِدَتْ عَلٰی وَجْہِ الْاَرْضِ، قَالَ: فَیَصْعَدُوْنَ بِھَا فَـلَا یَمُرُّوْنَیَعْنِیْ بِھَا عَلٰی مَلَاٍ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ اِلَّا قَالُوْا : مَا ھٰذَا الرُّوْحُ الطَّیِّبُ؟ فَیَقُوْلُوْنَ فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ بِاَحْسَنِ اَسْمَائِہِ الَّتِیْ کَانُوْا یُسَمُّوْنَہُ بِھَا فِیْ الدُّنْیَا حَتّٰییَنْتَھُوْا بِھَا اِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا فَیَسْتَفْتِحُوْنَ لَہُ فَیُفْتَحُ لَھُمْ، فَیُشَیِّعُہُ مِنْ کُلِّ سَمَائٍ مُقَرَّبُوْھَا اِلَی السَّمَائِ الَّتِیْ تَلِیْھَا حَتّٰییُنْتَھٰی بِھَا اِلَی السَّمَائِ السَّابِعَۃِ، فَیَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: اکْتُبُوْا کِتَابَ عَبْدِیْ فِیْ عِلِّیِّیْنَ وَاَعِیْدُوْہُ اِلَی الْاَرْضِ فَاِنِّیْ مِنْھَا خَلَقْتُھُمْ وَفِیْھَا اُعِیْدُ ھُمْ وِ مِنْھَا اُخْرِجُھُمْ تَارَۃً اُخْرٰی، قَالَ: فَتُعَادَ رُوْحُہُ فِیْ جَسَدِہِ فَیَاْتِیْہِ مَلَکَانِ فَیُجْلِسَانِہِ فَیَقُوْلَانِ لَہُ: مَنْ رَبُّکَ؟ فَیَقُوْلُ : رَبِّیَ اللّٰہُ، فَیَقُوْلَانِ: مَا دِیْنُکَ؟ فَیَقُوْلُ: دِیْنِیَ الْاِسْلَامُ۔)) الحدیث (مسند احمد: ۱۸۷۳۳)

۔ سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک بندہ جب دنیا سے آخرت کی طرف جانے کی حالت میں ہوتا ہے تو اس کی طرف آسمان سے فرشتے نازل ہوتے ہیں، ان کے چہرے سورج کی طرح سفید ہوتے ہیں، ان کے پاس جنت کے کفنوں میں سے ایک کفن اور جنت کی خوشبوؤں میں سے خوشبو ہوتی ہے، وہ تاحد نگاہ اس آدمی کے پاس بیٹھ جاتے ہیں، پھر ملک الموت علیہ السلام آتا ہے اور اس کے سر کے پاس بیٹھ کر کہتا ہے: اے پاکیزہ نفس! نکل اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور خوشنودی کی طرف، پس اس طرح بہہ کر نکلتی ہے، جیسے مشکیزے سے پانی کا قطرہ بہتا ہے، پس وہ اس کو پکڑ لیتا ہے، جب وہ اس کو پکڑتا ہے تو دوسرے فرشتے آنکھ جھپکنے کے بقدر بھی اس کو اس کے ہاتھ میں نہیں رہنے دیتے، وہ خود اس کو پکڑ لیتے ہیں اور اس کفن اور خوشبو میں رکھ دیتے ہیں، اس سے روئے زمین پر پائی جانے والی سب سے بہترین کستوری کے جھونکے کی طرح خوشبو آتی ہے، پس وہ فرشتے اس روح کو لے کر چڑھتے ہیں اور فرشتوں کے جس گروہ کے پاس سے گزرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: یہ پاکیزہ روح کون سی ہے؟ وہ کہتے ہیں: یہ فلاں بن فلاں ہے، وہ اس کو بہترین نام کے ساتھ یاد کرتے ہیں، جس کے ساتھ وہ دنیا میں اس کو موسوم کرتے تھے، یہاں تک کہ وہ اس کو آسمان دنیا تک لے جاتے ہیں اور دروازہ کھولنے کا مطالبہ کرتے ہیں، پس ان کے لیے دروزہ کھول دیا جاتا ہے، ہر آسمان کے مقرب فرشتے اس کو الوداع کرنے کے لیے اگلے آسمان تک اس کے ساتھ چلتے ہیں،یہاں تک کہ اس روح کو ساتویں آسمان تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: میرے بندے کی کتاب کو علیین میں لکھ دو اور اس کو زمین کی طرف لوٹا دو، کیونکہ میں نے ان کو زمین سے پیدا کیا، اسی میں ان کو لوٹاؤں گا اور اسی سے دوبارہ ان کو نکالوں گا، پس اس کی روح اس کے جسم میں لوٹا دیجاتی ہے، اس کے پس دو فرشتے آتے ہیں اور اس کو بٹھا کر کہتے ہیں: تیرا ربّ کون ہے؟ وہ کہتا ہے: میرا ربّ اللہ ہے، وہ کہتے ہیں: تیرا دین کیا ہے ؟ وہ کہتا ہے: میرا دین اسلام ہے۔

Haidth Number: 10267
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: رات اور دن کے فرشتے نمازِ فجر اور نمازِ عصر میں جمع ہوتے ہیں، جب وہ نماز ِ فجر میں جمع ہوتے ہیں تو رات کے فرشتے چڑھ جاتے ہیں اور دن کے فرشتے ٹھہر جاتے ہیں، پھر جب عصر کی نماز میںجمع ہوتے ہیں تو دن کے فرشتے چڑھ جاتے ہیں اور رات کے فرشتے ٹھہر جاتے ہیں، پس ان کا ربّ ان سے پوچھتا ہے: تم نے میرے بندوں کو کیسے چھوڑا؟ وہ کہتے ہیں: جب ہم ان کے پاس گئے تھے تو وہ نماز پڑھ رہے تھے اور اب جب ہم ان کو چھوڑ کر آئے تو پھر بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے، پس تو ان کو جزا کے دن بخش دینا۔

Haidth Number: 10268
۔ سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی آدمی نہیں ہے، مگر اس کے ساتھ جنوں میں سے ایک ساتھی اور فرشتوں میں سے ایک ساتھی مقرر کیا گیا ہے۔ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اور آپ کے ساتھ بھی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے ساتھ بھی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے میری نصرت کی، پس وہ مجھے صرف حق کا ہی حکم دیتا ہے۔

Haidth Number: 10269

۔ (۱۰۲۷۰)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، اَنَّہُ سَمِعَ نَبِیَّ اللّٰہِ یَقُوْلُ : ((اِنَّ آدَمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ لَمَّا اَھْبَطَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی اِلَی الْاَرْضِ، قَالَتِ الْمَلَائِکَۃُ: اَیْ رَبِّ! {اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُفْسِدُ فِیْھَا وَیَسْفِکُ الدِّمَائَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ اِنِّیْ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ} قَالُوْا: رَبَّنَا نَحْنُ اَطْوَعُ لَکَ مِنْ بَنِیْ آدَمَ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی لِلْمَلَائِکَۃِ: ھَلُمُّوْا مَلَکَیْنِ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ، حَتَّییُھْبَطَ بِھِمَا اِلَی الْاَرْضِ، فَنَنْظُرُ کَیْفَیَعْمَلَانِ، قَالُوْا: رَبَّنَا ھَارُوْتُ وَمَارُوْتُ، فَاُھْبِطَا اِلَی الْاَرْضِ، وَمُثِّلَتْ لَھُمَا الزُّھَرَۃُ بِاِمْرَاَۃٍ مِنْ اَحْسَنِ الْبَشَرِ، فَجَائَ تْھُمَا، فَسَاَلَاھَا نَفْسَھَا، فَقَالَتْ: لَا وَاللّٰہِ، حَتّٰی تَکَلَّمَا بِھٰذِہِ الْکَلِمَۃِ مِنَ الْاِشْرَاکِ، فَقَالَا: وَاللّٰہِ! لَا نُشْرِکُ بِاللّٰہِ اَبَدًا، فَذَھَبَتْ عَنْھُمَا، ثُمَّ رَجَعَتْ بِصَبِیٍّ تَحْمِلُہُ، فَسَاَلَاھَا نَفْسَھَا، قَالَتْ: لَا، وَاللّٰہِ، حَتّٰی تَقْتُلَا ھٰذَا الصَّبِیَّ، فَقَالَا: وَاللّٰہِ! لَا نَقْتُلُہُ اَبَدًا، فَذَھَبَتْ، ثُمَّ رَجَعَتْ بِقَدَحِ خَمْرٍ تَحْمِلُہُ، فَسَاَلَاھَا نَفْسَھَا، قَالَتْ: لَا، وَاللّٰہِ! حَتّٰی تَشْرَبَا ھٰذَا الْخَمْرَ، فَشَرِبَا فَسَکِرَا، فَوَقَعَا عَلَیْھَا، وَقَتَلَا الصَّبِیَّ، فَلَمَّا اَفَاقَا قَالَتِ الْمَرْاَۃُ: وَاللّٰہِ! مَاتَرَکْتُمَا شَیْئًا مِمَّا اَبَیْتُمَا عَلَیَّ اِلَّا قَدْ فَعَلْتُمَا حِیْنَ سَکَرْتُمَا، فَخُیِّرَا بَیْنَ عَذَابِ الدُّنْیَا وَ الْآخِرَۃِ، فَاخْتَارَا عَذَابَ الدُّنْیَا۔)) (مسند احمد: ۶۱۷۸)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو زمین کی طرف اتارا تو فرشتوں نے کہا: کیا تو اس زمین میں اس کوآباد کرے گا جو اس میں فساد برپا کرے گا اور خون بہائے گا، جبکہ ہم تیری حمد کے ساتھ تیری تعریف کرتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے کہا: بیشک میں وہ کچھ جانتا ہوں، جو تم نہیں جانتے۔ فرشتوں نے کہا: اے ہمارے ربّ! ہم بنو آدمی کی بہ نسبت تیری زیادہ اطاعت کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا: تم دو فرشتے پیش کرو، تاکہ ان کو زمین پر اتار کر دیکھا جا سکے کہ وہ کیسے عمل کرتے ہیں، انھوں نے کہا: اے ہمارے ربّ! یہ ہاروت اور ماروت ہیں، پس ان دو فرشتوں کو زمین کی طرف اتارا گیا اور انسانیت میں سے ایک انتہائی خوبصورت عورت کی شبیہ ان کے سامنے پیش کی گئی، انھوںنے اس سے اس کے نفس کا مطالبہ کیا، لیکن اس نے کہا: نہیں،اللہ کی قسم! یہ کام اس وقت تک نہیں ہو سکتا، جب تک تم شرکیہ بات نہیں کرو گے، انھوں نے کہا: اللہ کی قسم ہے، ہم کبھی بھی شرک تو نہیں کریں گے، پس وہ چلی گئی اور ایک بچہ لے کر پھر آگئی، انھوں نے پھر اس سے بدکاری کا مطالبہ کیا، اس نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! جب تک تم اس بچے کو قتل نہیں کرو گے، انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم اس کو قتل تو نہیں کریں گے، پس وہ چلی گئی اور شراب کا ایک پیالہ لے کر دوبارہ آ گئی، ان فرشتوں نے پھر اس سے اس کے نفس کا سوال کیا، لیکن اس نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! جب تک تم یہ شراب نہیں پیو گے، پس انھوں نے وہ شراب پی لی، جب اس سے ان کو نشہ آیا تو انھوں نے اس خاتون سے زنا بھی کر لیا اور بچے کو بھی قتل کر دیا، پھر جب ان کو افاقہ ہوا، تو اس عورت نے کہا: اللہ کی قسم ہے، جس جس چیز کا تم نے انکار کیا تھا، نشے کی حالت میں تم نے ان کا ارتکاب کر لیا، پھر اس جرم کی سزا میں ان کو دنیا اور آخرت کے عذاب میں اختیار دیا گیا، پس انھوں نے دنیا کا عذاب پسند کر لیا۔

Haidth Number: 10270

۔ (۱۰۲۷۱)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ اَوْ اَبِیْ سَعیْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ لِلّٰہِ مَلَائِکَۃً سَیَّاحِیْنَ فِیْ الْاَرْضِ فُضُلًا عَنْ کُتَّابِ النَّاسِ، فَاِذَا وَجَدُوْا قَوْمًا یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ تَنَادَوْا: ھَلُمُّوْا اِلٰی بُغْیَتِکُمْ، فَیَجِیْئُوْنَ فَیَحُفُّوْنَ بِھِمْ اِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا، فَیَقُوْلُ اللّٰہُ: اَیَّ شَیْئٍ تَرَکْتُمْ عِبَادِیْیَصْنَعُوْنَ؟ فیَقُوْلُوْنَ: تَرَکْنَاھُمْ یَحْمَدُوْنَکَ وَیُمَجِّدُوْنَکَ وَ یَذْکُرُوْنَکَ، فَیَقُوْلُ: ھَلْ رَاَوْنِیْ؟ فَیَقُوْلُوْنَ: لَا، فَیَقُوْلُ : فَکَیْفَ لَوْ رَاَوْنِیْ؟ فَیَقُوْلُوْنَ: لَوْ رَاَوْکَ لَکَانُوْا اَشَدَّ تَحْمِیْدًا وَتَمْجِیْدًا وَ ذِکْرًا، فَیَقُوْلُ: فَاَیَّ شَیْئٍیَطْلُبُوْنَ؟ فَیَقُوْلُوْنَ: یَطْلُبُوْنَ الْجَنَّۃَ، فَیَقُوْلُ: وَ ھَلْ رَاَوْھَا؟ فَیَقُوْلُوْنَ: لَا، فَیَقُوْلُ: فَکَیْفَ لَوْ رَاَوْھَا؟ فَیَقُوْلُوْنَ: لَوْ رَاَوْھَا کَانُوْا اَشَدَّ عَلَیْھَا حِرْصًا وَ اَشَدَّ لَھَا طَلَبًا، قَالَ: فَیَقُوْلُ: وَمِنْ اَیِّ شَیْئٍیَتَعَوَّذُوْنَ؟ فَیَقُوْلُوْنَ: مِنَ النَّارِ، فَیَقُوْلُ: وَ ھَلْ رَاَوْھَا؟ فَیَقُوْلُوْنَ: لَا، قَالَ: فیَقُوْلُ: فَکَیْفَ لَوْ رَاَوْھَا؟ فَیَقُوْلُوْنَ: لَوْ رَاَوْھَا کَانُوْا اَشَدَّ مِنْھَا ھَرَبًا وَاَشَدَّ مِنْھَا خَوْفًا، قَالَ: فَیَقُوْلُ: اِنِّیْ اُشْھِدُکُمْ اَنِّیْ قَدْ غَفَرْتُ لَھُمْ، قَالَ: فَیَقُوْلُوْنَ: فَاِنَّ فِیْھِمْ فُلَانًا الْخَطَّائَ لَمْ یُرِدْھُمْ، اِنّمَا جَائَ لِحَاجَۃٍ، فیَقُوْلُ: ھُمُ الْقَوْمُ لَا یَشْقٰی جَلِیْسُھُمْ۔)) (مسند احمد: ۷۴۱۸)

۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک لوگوں کے اعمال لکھنے والے فرشتوں کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کے زمین میں چلنے پھرنے والے فرشتے ہوتے ہیں، جب وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہوئے پاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں: آؤ اپنے مقصود کی طرف، پس وہ آ جاتے ہیں اور ان لوگوں کو آسمانِ دنیا تک گھیر لیتے ہیں، پھر جب وہ اللہ تعالیٰ کے پاس جاتے ہیں تو وہ ان سے پوچھتا ہے: تم میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑکر آئے؟ وہ کہتے ہیں: ہم ان کو اس حال میں چھوڑ کر آئے کہ وہ تیری تعریف کر رہے تھے، تیری بزرگی بیان کر رہے تھے اور تیرا ذکر کر رہے تھے، وہ کہتا ہے: کیا انھوں نے مجھے دیکھا ہے؟ وہ کہتے ہیں: جی نہیں، وہ کہتا ہے: اگر وہ مجھے دیکھ لیں تو کیسا ہو گا؟ وہ کہتے ہیں: اگر وہ تجھے دیکھ لیں تو کثرت سے تیری تعریف اور بزرگی بیان کریں گے اور زیادہ ذکر کریں گے، وہ کہتا ہے: اچھا یہ بتاؤ کہ وہ کس چیز کا سوال کرتے تھے؟ وہ کہتے ہیں: جی وہ جنت کا سوال کرتے تھے، وہ کہتا ہے: کیا انھوں نے جنت کو دیکھا ہے؟ وہ کہتے ہیں: جی نہیں دیکھا، وہ کہتا ہے: اگر وہ دیکھ لیں تو؟ وہ کہتے ہیں: اگر وہ دیکھ لیں تو ان کی حرص بڑھ جائے گی اور وہ اس کازیادہ مطالبہ کریں گے، وہ کہتا ہے: وہ کس چیز سے پناہ مانگتے تھے؟ وہ کہتے ہیں: جی آگ سے، وہ کہتا ہے: کیا انھوں نے آگ کو دیکھا ہے؟ وہ کہتے ہیں: جی نہیں، وہ کہتا ہے: اگر وہ اس کودیکھ لیں تو؟ وہ کہتے ہیں: اگر وہ آگ کودیکھ لیں تو وہ اس سے دور بھاگنے میں اور اس سے ڈرنے میںزیادہ ہو جائیں گے، پھر اللہ تعالیٰ کہتا ہے: بیشک میں تم کوگواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کو بخش دیا ہے، وہ کہتے ہیں: ان میں فلاں آدمی تو خطاکار تھا، اس کاارادہ ان کے ساتھ بیٹھنا نہیں تھا، وہ تو اپنے کسی کام کی غرض سے آیا تھا، وہ کہتا ہے: یہ (ایک جگہ پر بیٹھنے والے) وہ لوگ ہیں، ان کے ساتھ بیٹھنے والا بدبخت نہیں ہو سکتا۔

Haidth Number: 10271

۔ (۱۰۳۴۲)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَمْ یَکْذِبُ اِبْرَاھِیْمُ اِلَّا ثَلَاثَ کَذِبَاتٍ، قَوْلُہُ حِیْنَ دُعِیَ اِلٰی آلِھَتِھِمْ : {اِنِّیْ سَقِیْمٌ} وَ قَوْلُہُ: {فَعَلَہُ کَبِیْرُھُمْ ھٰذَا} وَقَوْلُہُ لِسَارَۃَ: اِنَّھَا اُخْتِیْ، قَالَ: وَدَخَلَ اِبْرَاھِیْمُ قَرْیَۃً فِیْھَا مَلِکٌ مِنَ الْمُلُوْکِ اَوْ جَبَّارٌ مِنَ الْجَبَابِرَۃِ، فَقِیْلَ: دَخَلَ اِبْرَاھِیْمُ اللَّیْلَۃَ بِاِمْرَاَۃٍ مِنْ اَحْسَنِ النَّاسِ قَالَ: فَاَرْسَلَ اِلَیْہِ الْمَلِکُ اَوِ الْجَبَّارُ: مَنْ ھٰذِہِ مَعَکَ؟ قَالَ: اُخْتِیْ قَالَ: اَرْسِلْ بِھَا، قَالَ: فَاَرْسَلَ بِھَا اِلَیْہِ قَالَ لَھَا: لَا تُکَذِّبِیْ قَوْلِیْ فَاِنِّیْ اَخْبَرْتُہُ اَنَّکِ اُخْتِیْ اِنْ عَلَی الْاَرْضِ مُؤْمِنٌ غَیْرِیْ وَغَیْرُکِ، قَالَ: فَلَمَّا دَخَلَتْ اِلَیْہِ قَامَ اِلَیْھا، قَالَ: فَاَقْبَلَتْ تَوَضَّاُ وَتُصَلِّیْ وَتَقُوْلُ: اَللّٰھُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنِّیْ آمَنْتُ بِکَ وَبِرَسُوْلِکَ وَاَحْصَنْتُ فَرْجِیْ اِلَّا عَلٰی زَوْجِیْ فَـلَا تُسَلِّطْ عَلَیَّ الْکَافِرَ، قَالَ: فَغُطَّ حَتّٰی رَکَضَ بِرِجْلِہِ، قَالَ اَبُوْالزِّنَادِ: قَالَ اَبُوْ سَلَمَۃَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ: عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ اَنَّھَا قَالَتْ: اَللّٰھُمَّ اِنْ یَمُتْیُقَلْ ھِیَ قَتَلَتْہُ، قَالَ: فَاُرْسِلَ ثُمَّ قَامَ اِلَیْھا، فَقَامَتْ تَوَضَّاُ وَتُصَلِّیْ وَ تَقُوْلُ: اَللّٰھُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنِّیْ آمَنْتُ بِکَ وَ بِرَسُوْلِکَ وَ اَحْصَنْتُ فَرْجِیْ اِلَّا عَلٰی زَوْجِیْ فَـلَا تُسَلِّطْ عَلَیَّ الْکَافِرَ، قَالَ: فَغُطَّ حَتّٰی رَکَضَ بِرِجْلِہِ، قَالَ اَبُوْ الزِّنَادِ: قَالَ اَبُوْ سَلَمَۃَ : عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَانھا قَالَتْ: اَللّٰھُمَّ اِنْ یَمُتْیُقَلْ اِنَّھَا قَتَلَتْہُ، قَالَ: فَاَرْسَلَ، فَقَالَ: فِیْ الثَّالِثَۃِ وَ الرَّابِعَۃِ مَا اَرْسَلْتُمْ اِلَیَّ اِلَّا شَیْطَانًا اِرْجَعُوْھَا اِلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَ اَعْطُوْھَا ھَاجَرَ، قَالَ: فَرَجَعَتْ فَقَالَت لِاِبْرَاھِیْمَ: اَشَعَرْتَ اَنْ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ، رَدَّ کَیْدَ الْکَافِرِ وَ اَخْدَمَ وَلِیْدَۃً۔)) (مسند احمد: ۹۲۳۰)

۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابراہیم علیہ السلام نے صرف تین جھوٹ بولے تھے، (۱) جب ان کو ان کی قوم کے باطل معبودوں کی طرف بلایا گیا تو انھوں نے کہا: میں بیمار ہوں، (۲) انھوں نے بتوں کو توڑنے کے بعد کہا: یہ کام تو ان کے بڑے نے کیا ہے اور (۳) انھوں نے اپنی بیوی سیدہ سارہ ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ کے بارے میں کہا: بیشکیہ تو میری بہن ہے، آخری بات کی تفصیلیہ ہے: ابراہیم علیہ السلام ایک بستی میں داخل ہوئے، اس میں ایک بادشاہ یا کوئی جابر حکمران تھا، اس کو بتلایا گیا کہ آج رات ابراہیم انتہائی خوبصورت عورت کے ساتھ ہماری بستی میں داخل ہوا ہے، اس نے آپ علیہ السلام کو بلا بھیجا اور پھر پوچھا کہ یہ تمہارے ساتھ کون ہے؟ آپ نے کہا: یہ میرے بہن ہے، اس نے کہا: اس کو میری طرف بھیج، پس آپ نے ان کو اس طرف بھیجا اور کہا: میری بات کو جھوٹا نہ کرنا، میں اس کو بتلا چکا ہوں کہ تم میری بہن ہو (لہٰذا تم نے بھی اپنے آپ کو میری بہن ظاہر کرنا ہے)، کیونکہ زمین پر میرے اور تیرے علاوہ کوئی مؤمن نہیں ہے، پس جب سیدہ ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ اس پر داخل ہوئیں تو وہ ان کی طرف اٹھا، انھوں نے وضو کر کے نماز ادا کی اور کہا: اے اللہ! اگر تو میرے بارے میں جانتا ہے کہ میں تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان لائی ہوں اور اپنے خاوند کے علاوہ اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی ہے تو اس کافر کو مجھ پر مسلط نہ کر۔ پس اس دعا کے اثر سے اس سے دم گھٹنے کی آواز آنے لگی اور وہ پاؤں کو زمین پر مارنے لگ گیا،یہ صورتحال دیکھ کر سیدہ نے کہا: اے اللہ! اگر یہ مرگیا تو کہا جائے گا کہ اس خاتون نے اس کو قتل کر دیا ہے، پس اس کی وہ کیفیت چھٹ گئی اور وہ پھر ان کی طرف کھڑا ہوا، سیدہ نے اس بار پھر وضو کر کے نماز ادا کی اور کہا: اے اللہ! اگر تو میرے بارے میں جانتا ہے کہ میں تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان لائی ہوں اور اپنے خاوند کے علاوہ اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی ہے تو اس کافر کو مجھ پر مسلط نہ کر۔ اس بادشاہ کی پھر دم گھٹنے کی آواز آنے لگی اور وہ زمین پر پاؤں مارنے لگا، سیدہ نے کہا: اے اللہ! اگر یہ مر گیا تو کہا جائے گا کہ اس خاتون نے اس کو قتل کیا ہے، پس اس کیوہ کیفیت چھٹ گئی، اس نے تیسرییا چوتھی بار کہا: تم لوگوں نے تو میری طرف کوئی شیطان بھیجا ہے، اس کو ابراہیم کی طرف لوٹا دو اور اس کو ہاجر دے دو، پس وہ لوٹ آئیں اور ابراہیم علیہ السلام سے کہا: کیا آپ کو پتہ چل گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کافر کے مکر کو ردّ کر دیا ہے اور اس نے خدمت کے لیے ایک لونڈی بھی دی ہے۔

Haidth Number: 10342
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: انبیاء میں ایک نبی ایک درخت کے نیچے اترے، ایک چیونٹی نے ان کو ڈسا، پس انھوں نے سامان کو ہٹانے اور نیچے سے چیونٹیوں کو نکالنے اور ان کو جلانے کا حکم دیا، سو ان کو جلا دیا گیا، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی کہ ایک چیونٹی کو کیوں نہیں جلایا تھا۔

Haidth Number: 10406
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سبا کے بارے میں سوال کیا کہ وہ مرد تھا یا عورت یا زمین کانام ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:وہ مرد تھا، اس کے دس بچے تھے، ان میں چھ یمن میں اور چار شام میں آباد ہوئے، پس یمنییہ ہیں: مذحج، کندہ، ازد، اشعری، انمار اور حمیر،یہ سارے کے سارے عرب تھے اور شامییہ ہیں: لخم، جذام، عاملہ اور غسان۔

Haidth Number: 10441

۔ (۱۰۴۴۲)۔ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ مُسَیْکٍ قَالَ: أَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ: یَارَسُوْل َاللّٰہِ! أُقَاتِلُ بِمُقْبِلِ قَوْمِیْ مُدْبِرَھُمْ؟ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((نَعَمْ، فَقَاتِلْ بِمُقْبِلِ قَوْمِکَ مُدْبِرَھُمْ۔)) فَلَمَّا وَلَّیْتُ دَعَانِیْ فَقَالَ: ((لَا تُقَاتِلْھُمْ حَتّٰی تَدْعُوَھُمْ اِلَی الْإِسْلَامِ۔)) فَقُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! أَ رَأَیْتَ سَبَأً، أ وَادٍ ھُوَ أَوْ جَبَلٌ، مَا ھُوَ؟ قَالَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : (( لَا بَلْ ھُوَ رَجُلٌ مِنَ الْعَرْبِ وُلِدَ لَہُ عَشْرَۃٌ، فَتَیَامَنَ سِتَّۃٌ وَتَشَائَ مَ أَرْبَعَۃٌ، تَیَامَنَ الْأَزْدُ وَالْأَشْعَرِیُّوْنَ وَحِمْیَرٌ وَکِنْدَۃُ وَمذْحِجٌ وَأَنْمَارٌ الَّذِیْنَیُقَالُ لَھُمْ بَجَیْلَۃُ وَخَثْعَمُ، وَتَشَائَمَ لَخْمٌ وَجُذَامٌ وَعَامِلَۃُ وَغَسَّانُ۔)) (مسند احمد: ۲۴۳۰۶)

۔ سیدنا عروہ بن مسیک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! کیا میں اپنی قوم کے مسلمان ہونے والے افراد کو لے کر اس کے اسلام قبول نہ کرنے والے افراد سے جہاد کر سکتا ہوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی بالکل، تو اپنی قوم کے مسلمانوں کو لے کر اپنی قوم کے کافروں سے لڑائی کر۔ پھر جب میں جانے لگا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بلایا اور فرمایا: تو نے اس وقت تک ان سے قتال نہیں کرنا، جب تک ان کو اسلام کی دعوت نہ دے دے۔ پھر میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! سبأ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، یہ وادی کا نام ہے یا کوئی پہاڑ ہے؟ یہ کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ یہ تو ایک آدمی تھا، اس کے دس بچے پیدا ہوئے، ان میں سے چھ یمن میں اور چار شام میں بسے، یمن میں آباد ہونے والے ازد، اشعری، حمیر، کندہ، مذحج اور انمار ہیں، مؤخر الذکرکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بجیلہ اور خثعم بھی ان میں سے ہیں، اور شام میں آباد ہونے والے لخم، جذام، عاملہ اور غسان ہیں۔

Haidth Number: 10442
۔ سیدنا ذو مخمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ (خلافت و ملوکیت والا) معاملہ حمیر قبیلے میں تھا، اللہ تعالیٰ نے ان سے سلب کر کے قریش کے سپرد کر دیا، عنقریبیہ معاملہ ان ہی کی طرف لوٹ جائے گا۔ عبد اللہ راوی کہتے ہیں: میرے باپ کی کتاب میں آخریالفاظ مقطّعات شکل میں تھے، البتہ انھوں نے ہم کو بیان کرتے وقت ان کو برابر ہی پڑھا تھا، (جیسے باقی حدیث پڑھی)۔

Haidth Number: 10443

۔ (۱۰۴۷۴)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذَکَرَ خَدِیْجَۃَ وَکَانَ أَبُوْھَا یَرْغَبُ عَنْ أَنْ یُّزَوِّجَہُ فَصَنَعَتْ طَعَامًا وَشَرَابًا فَدَعَتْ أَبَاھَا وَزُمَرًا مِنْ قُرَیْشٍ فَطَعِمُوْا وَشَرِبُوْا حَتّٰی ثَمَلُوْا، فَقَالَتْ خَدِیْجَۃُ لِأَبِیْھَا: اِنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِاللّٰہِ یَخْطُبُنِیْ فَزَوِّجْنِیْ إِیَّاہُ، فَزَوَّجَھَا إِیَّاہُ، فَخَلَّقَتْہُ وَأَلْبَسَتْہُ حُلَّۃً وَکَذٰلِکَ کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ بِالْآبَائِ، فَلَمَّا سُرِّیَ عَنْہُ سُکْرُہُ نَظَرَ فَإِذَا ھُوَ مُخَلَّقٌ وَعَلَیْہِ حُلَّۃٌ، فَقَالَ: مَا شَأْنِیْ! مَا ھٰذَا؟ قَالَتْ: زَوَّجْتَنِیْ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِاللّٰہِ، قَالَ: أُزَوِّجُ یَتِیْمَ أَبِیْ طَالِبٍ! لَا، لَعَمْرِیْ! فَقَالَتْ خَدِیْجَۃُ: أَمَا تَسْتَحِْیْ؟ تُرِیْدُ أْنْ تُسَفِّہَ نَفْسَکَ عِنْدَ قُرَیْشٍ! تُخْبِرُ النَّاسَ أَنَّکَ کُنْتَ سَکْرَانَ؟ فَلَمْ تَزَلْ بِہٖحَتّٰی رَضِیَ۔ (مسند احمد: ۲۸۵۰)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ خدیجہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا ذکر کیا، ان کا باپ ان کی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے شادی کرنے کی رغبت نہیں کرتا تھا، پس سیدہ نے کھانا پینا تیار کیا اور اپنے باپ اور قریشیوںکے ایک گروہ کو دعوت دی، پس انھوں نے کھانا کھایا اور مشروب پیا،یہاںتک کہ ان کو نشہ آ گیا، پھر سیدہ خدیجہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے اپنے باپ سے کہا: بیشک محمد بن عبداللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے منگنی کا پیغام بھیجا ہے، لہٰذا آپ ان سے میری شادی کر دیں، پس اس نے نشے کی حالت میں شادی کر دی، سیدہ نے اپنے باپ کو خلوق خوشبو لگائی اور اس کو ایک پوشاک بھی پہنا دی، وہ لوگ جاہلیت میں دلہن کے باپ کے ساتھ ایسا ہی کرتے تھے، جب اس کانشہ ختم ہوا تو اس نے دیکھا کہ اس نے خلوق خوشبو لگائی ہوئی ہے اور ایک پوشاک زیب ِ تن کی ہوئی ہے، اس نے کہا: میری کیا صورتحال ہے، یہ کیا ہے؟ سیدہ نے کہا: آپ نے محمد بن عبد اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے میری شادی کر دی ہے، اس نے کہا: میں ابو طالب کے یتیم سے شادی کروں، نہیں، میری عمر کی قسم! نہیں، سیدہ خدیجہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: کیا آپ کو شرم نہیں آتی؟ اب قریشیوں کے ہاں اپنے آپ کو بیوقوف ثابت کرنا چاہتے ہو، تم لوگوں کو یہ بتلانا چاہتے ہو کہ تم نشے کی حالت میں تھے؟ پس وہ اس کے ساتھ چمٹی رہیں،یہاں تک کہ وہ راضی ہوگیا۔

Haidth Number: 10474
۔ سیدنا ابو طفیل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ جاہلیت میں کعبہ کی تعمیر کا ذکر کر رہے تھے، انھوں نے کہا: قریش نے کعبہ کو گرایا اور پھر اس کو وادی کے پتھروں سے بنانا شروع کیا، وہ اپنی گردنوں پر پتھر اٹھا کر لاتے، انھوں نے عمارت کو بیس ہاتھ بلند کیا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی اجیاد سے پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک دھاری دار چادر باندھی ہوئی تھی، وہ چادر تنگ تھی، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو اپنے کندھے پر رکھنا چاہا تو اس کے چھوٹا ہونے کی وجہ سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پردے کے مقامات نظر آنے لگے، کسی نے آواز دی: اے محمد! اپنی شرمگاہ پر پردہ کرو، ایک روایت میں ہے: پس آپ کو آواز دی گئی: اپنی شرمگاہ کو ننگا نہ کرو، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پتھر پھینک دیا اور چادر باندھ لی، اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ننگی حالت میں نہیں دیکھا گیا۔

Haidth Number: 10475
۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لوگوں کے ساتھ کعبہ کے پتھر اٹھا کر لا رہے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تہبند باندھا ہوا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چچا سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: بھتیجے! اگر تم اپنا ازار کھول کر اس کو اپنے کندھے پر پتھروں کے نیچے رکھ لو تو اچھا ہو گا، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جونہی ازار کھول کراپنے کندھے پر رکھا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بے ہوش ہو کر گر پڑے، اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ننگا نہیں دیکھا گیا۔

Haidth Number: 10476

۔ (۱۰۴۷۷)۔ عَنْ مُجَاھِدٍ عَنْ مُوْلَاہُ یَعْنِی السَّائِبَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّہُ حَدَّثُہُ أَنَّہُ کَانَ فِیْمَنْیَبْنِی الْکَعْبَۃَ فِی الْجَاھِلِیَّۃِ، قَالَ: وَ لِی حَجَرٌ أَنَا نَحَتُّہُ بِیَدَیَّ أَعْبُدُہُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ، فَاَجِیْئُ بِاللَّبَنِ الْخَائِرِ الَّذِیْ اَنْفِسُہُ عَلَی نَفْسِیْ فَأَصُبُّہُ عَلَیْہِ فَیَجِیْئُ الْکَلْبُ فَیَلْحَسُہُ ثُمَّّ یَشْغَرُ فَیَبُوْلُ، فَبَنَیْنَا حَتّٰی بَلَغْنَا مَوْضِعَ الْحَجَرِ وَمَا یَرَی الْحَجَرَ أَحَدٌ، فَاِذَا ھُوَ وَسْطَ حِجَارَتِنَا مِثْلَ رَأْسِ الرَّجُلِ یَکَادُیَتَرَائٰی مِنْہُ وَجْہُ الرَّجُلِ فَقَالَ بَطْنٌ مِنْ قُرَیْشٍ: نَحْنُ نَضَعُہُ، وَقَالَ آخَرُوْنَ: نَحْنُ نَضَعُہُ، فَقَالُوْا: اجْعَلُوْا بَیْنَکُمْ حَکَمًا، فَقَالُوْا: اَوَّلُ رَجُلٍ یَطْلُعُ مِنَ الْفَجِّ، فَجَائَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالُوْا: أَتَاکُمُ الْأَمِیْنُ، فَقَالُوْا لَہُ: فَوَضَعَہُ فِیْ ثَوْبٍ ثُمَّّ دَعَا بُطُوْنَھُمْ فَأَخَذُوْا بِنَوْاحِیْہِ مَعَہُ فَوَضَعَہُ ھُوَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (مسند احمد: ۱۵۵۸۹)

۔ سیدنا سائب بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ بھی دورِ جاہلیت میں کعبہ کو تعمیر کرنے والوں میں تھے، وہ کہتے ہیں: میرا ایک پتھر تھا، میں اپنے ہاتھوں سے اس کو تراشتا تھا اور پھر اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اس کی عبادت کرتا تھا، میں اپنے نفس پر جس جمے ہوئے دودھ کا بخل کرتا تھا، وہ لا کر اس بت پر بہا دیتا تھا، پھر کتا آ کر اس کو چاٹتا اور پھر ایک ٹانگ اٹھا کر اس پر پیشاب کر دیتا۔ پس جب ہم بیت اللہ کی تعمیر کے دوران حجرِ اسود کے مقام تک پہنچے اور کوئی آدمی حجرِ اسود کو نہیں دیکھ رہا تھا، جبکہ وہ پتھروں کے درمیان میںآدمی کے سر کی طرح پڑا ہوا تھا اور (اتنا چمکدار تھا کہ) اس میں آدمی کا چہرہ نظر آ جاتا تھا، قریش کے ایک بطن (چھوٹے قبیلے) نے کہا: ہم اس پتھر کو اپنی جگہ پر نصب کریں گے، دوسرے لوگوں نے کہا: ہم رکھیں گے، پھر انھوں نے کہا: تم آپس میں ایک آدمی کو بطورِ فیصل منتخب کر لو، پھر انھوں نے کہا: جو پہلا اس کھلے راستے کی طرف سے آئے گا، وہ فیصلہ کرے گا، اتنے میں وہاں سے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نمودار ہوئے، سب نے کہا: امین آ گیا، لوگوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو تفصیل بتائی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس پتھر کو ایک کپڑے میں رکھا اور پھر ان کے قبیلوں کو بلایا، انھوں نے اس کپڑے کے کونے پکڑ کر اس کو اٹھایا اور پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو اس کی جگہ پر نصب کر دیا۔

Haidth Number: 10477
۔ سیدنا عبد اللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میری خالہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے مجھے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: اگر تمہاری قوم کا شرک یا جاہلیت کا زمانہ قریب قریب نہ ہوتا تو میں کعبہ کو گرا دیتا، دروازے کو زمین سے ملا دیتا اور دو دروازے بناتا، ایک مشرقی اور ایک مغربی اور حطیم کی طرف سے چھ ہاتھ اس میں اضافہ کر دیتا، کیونکہ قریش نے جب اس کی تعمیر کی تھی تو انھوں نے اس کو کم کر دیا تھا۔

Haidth Number: 10478
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تمہاری قوم کا کفر کا زمانہ قریب قریب نہ ہوتا تو میں کعبہ کو گرا کر اس کو ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد پر تعمیر کرتا، قریش نے جب اس کی تعمیر کی تھی تو انھوں نے اس کو کم کر دیا تھا اور میں اس کا پیچھے سے بھی ایک دروازہ رکھ دیتا۔

Haidth Number: 10479

۔ (۱۰۶۷۷)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَقْبَلَتْ یَہُودُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالُوْا: یَا أَبَا الْقَاسِمِ! إِنَّا نَسْأَلُکَ عَنْ خَمْسَۃِ أَشْیَائَ، فَإِنْ أَنْبَأْتَنَا بِہِنَّ عَرَفْنَا أَنَّکَ نَبِیٌّ وَاتَّبَعْنَاکَ، فَأَخَذَ عَلَیْہِمْ مَا أَخَذَ إِسْرَائِیلُ عَلٰی بَنِیہِ إِذْ قَالُوْا: {اللّٰہُ عَلٰی مَا نَقُولُ وَکِیلٌ} قَالَ: ((ہَاتُوْا۔)) قَالُوْا: أَخْبِرْنَا عَنْ عَلَامَۃِ النَّبِیِّ، قَالَ: ((تَنَامُ عَیْنَاہُ وَلَا یَنَامُ قَلْبُہُ۔))، قَالُوْا: أَخْبِرْنَا کَیْفَ تُؤَنِّثُ الْمَرْأَۃُ وَکَیْفَ تُذْکِرُ؟ قَالَ: ((یَلْتَقِی الْمَائَ انِِ فَإِذَا عَلَا مَائُ الرَّجُلِ مَائَ الْمَرْأَۃِ أَذْکَرَتْ، وَإِذَا عَلَا مَائُ الْمَرْأَۃِ آنَثَتْ۔))، قَالُوْا: أَخْبِرْنَا مَا حَرَّمَ إِسْرَائِیلُ عَلٰی نَفْسِہِ، قَالَ: ((کَانَ یَشْتَکِی عِرْقَ النَّسَا فَلَمْ یَجِدْ شَیْئًایُلَائِمُہُ إِلَّا أَلْبَانَ کَذَا وَکَذَا۔)) قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْن أَحْمَد: قَالَ أَبِی: قَالَ بَعْضُہُمْ: یَعْنِی الْإِبِلَ فَحَرَّمَ لُحُومَہَا، قَالُوْا: صَدَقْتَ، قَالُوْا: أَخْبِرْنَا مَا ہٰذَا الرَّعْدُ؟ قَالَ: ((مَلَکٌ مِنْ مَلَائِکَۃِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ مُوَکَّلٌ بِالسَّحَابِ بِیَدِہِ، أَوْ فِییَدِہِ مِخْرَاقٌ مِنْ نَارٍ، یَزْجُرُ بِہِ السَّحَابَ، یَسُوقُہُ حَیْثُ أَمَرَ اللّٰہُ۔)) قَالُوْا: فَمَا ہٰذَا الصَّوْتُ الَّذِییُسْمَعُ؟ قَالَ: ((صَوْتُہُ۔))، قَالُوْا: صَدَقْتَ، إِنَّمَا بَقِیَتْ وَاحِدَۃٌ وَہِیَ الَّتِی نُبَایِعُکَ إِنْ أَخْبَرْتَنَا بِہَا، فَإِنَّہُ لَیْسَ مِنْ نَبِیٍّ إِلَّا لَہُ مَلَکٌ یَأْتِیہِ بِالْخَبَرِ، فَأَخْبِرْنَا مَنْ صَاحِبُکَ؟ قَالَ: ((جِبْرِیلُ عَلَیْہِ السَّلَام۔)) قَالُوْا: جِبْرِیلُ؟ ذَاکَ الَّذِییَنْزِلُ بِالْحَرْبِ وَالْقِتَالِ وَالْعَذَابِ عَدُوُّنَا۔ لَوْ قُلْتَ: مِیکَائِیلَ الَّذِییَنْزِلُ بِالرَّحْمَۃِ وَالنَّبَاتِ وَالْقَطْرِ لَکَانَ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِیلَ} إِلَی آخِرِ الْآیَۃَ۔ (مسند احمد: ۲۴۸۳)

سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما بیان کرتے ہیں کہ یہودی لوگ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور انھوں نے کہا: اے ابوالقاسم! ہم آپ سے پانچ چیزوں کے بارے میں سوال کریں گے، اگر آپ ان کے جوابات دیں گے تو ہم پہچان جائیں گے کہ آپ برحق نبی ہیں اور ہم آپ کی اتباع بھی کریں گے، آپ نے ان سے اس طرح عہد لیا، جس طرح یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے عہد لیا تھا، جب انھوں نے کہا تھا ہم جو بات کر رہے ہیں، اس پر اللہ تعالیٰ وکیل ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: و ہ سوال پیش کرو۔ (۱) انہوں نے کہا: ہمیں نبی کی نشانی بتائیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نبی کی آنکھیں سوتی ہیں اور اس کا دل نہیں سوتا۔ (۲) انھوں نے کہا: یہ بتائیں کہ نر اورمادہ کیسے پیدا ہوتے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مردوزن کا آب جو ہر دونوں ملتے ہیں، جب آدمی کا پانی عورت کے پانی پر غالب آتا ہے، تو نر پیدا ہوتا ہے اور جب عورت کا آب جو ہر غالب آتا ہے تو مادہ پیدا ہوتی ہے۔ (۳) انہوں نے کہا: ہمیں بتائو کہیعقوب علیہ السلام نے خود پر کیا حرام قرار دیا تھا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: انہیں عرق نسا کی بیماری تھی، انہیں صرف اونٹنیوں کا دودھ موافق آیا، تو صحت ہونے پر اونٹوں کا گوشت خود پر حرام قرار دے دیا۔ انہوں نے کہا: آپ سچ کہتے ہیں، (۴) اچھا یہ بتائیں کہ یہ گرج کیا ہے؟آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ اللہ تعالیٰ کے فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہے، جس کے سپرد بادل ہیں۔ اس فرشتہ کے ہاتھ میں آگ کا ہنٹرہے، جس کے ساتھ وہ اس جگہ بادلوں کو چلاتا ہے، جہاں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا: یہ آواز کیا ہے جو سنی جاتی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ اسی ہنٹر کی آواز ہے۔ انہوں نے کہا: آپ نے سچ کہا ہے۔ (۵) انہوں نے کہا: ایک بات رہ گئی ہے، اگر آپ اس کا جواب دیں گے تو ہم آپ کی بیعت کریں گے، وہ یہ ہے کہ ہر نبی کے لئے ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے، جواس کے پاس بھلائییعنی وحی لے کر آتا ہے، آپ بتائیں آپ کا فرشتہ ساتھی کون سا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جبریل علیہ السلام ہیں۔ اب کی بار انھوں نے کہا: جبریل،یہ تو جنگ، لڑائی اور عذاب لے کر آتا ہے، یہ تو ہمارا دشمن ہے، اگر آپ میکائیل کہتے جو کہ رحمت، نباتات اور بارش کے ساتھ نازل ہوتا ہے، تو پھر بات بنتی، اللہ تعالیٰ نے اس وقت یہ آیت نازل کی: {قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّہ نَزَّلَہ عَلٰی قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللّٰہِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَیَدَیْہِ وَھُدًی وَّبُشْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ۔} … کہہ دے جو کوئی جبریل کا دشمن ہو تو بے شک اس نے یہ کتاب تیرے دل پر اللہ کے حکم سے اتاری ہے، اس کی تصدیق کرنے والی ہے جو اس سے پہلے ہے اور مومنوں کے لیے سرا سر ہدایت اور خوشخبری ہے۔ (سورۂ بقرہ: ۹۷)

Haidth Number: 10677
سیدناعبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بندروں اور خنزیروں کے متعلق دریافت کیا کہ کیایہیہودیوں کی مسخ شدہ نسل سے ہیں؟ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایسا کبھی نہیں ہو اکہ کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم پرلعنت کرتے ہوئے انہیں مسخ کر دے اور انہیں ہلاک کر دے اور پھر ان کی نسل چلے، در حقیقتیہ مخلوق ان کے مسخ کئے جانے سے پہلے کی ہے، اللہ تعالیٰ جب یہود پر غضب ناک ہوا تو اس نے ان کو ان مخلوقات کی مانند بنا دیا تھا۔

Haidth Number: 10678

۔ (۱۰۶۷۹)۔ عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِیدٍ أَخِی بَنِی عَبْدِ الْأَشْہَلِ عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ سَلَامَۃَ بْنِ وَقْشٍ، وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ بَدْرٍ، قَالَ: کَانَ لَنَا جَارٌ مِنْ یَہُودَ فِی بَنِی عَبْدِ الْأَشْہَلِ، قَالَ: فَخَرَجَ عَلَیْنَایَوْمًا مِنْ بَیْتِہِ قَبْلَ مَبْعَثِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِیَسِیرٍ، فَوَقَفَ عَلٰی مَجْلِسِ عَبْدِ الْأَشْہَلِ، قَالَ سَلَمَۃُ: وَأَنَا یَوْمَئِذٍ أَحْدَثُ مَنْ فِیہِ سِنًّا، عَلَیَّ بُرْدَۃٌ مُضْطَجِعًا فِیہَا بِفِنَائِ أَہْلِی، فَذَکَرَ الْبَعْثَ وَالْقِیَامَۃَ وَالْحِسَابَ وَالْمِیزَانَ وَالْجَنَّۃَ وَالنَّارَ، فَقَالَ: ذٰلِکَ لِقَوْمٍ أَہْلِ شِرْکٍ أَصْحَابِ أَوْثَانٍ لَا یَرَوْنَ أَنَّ بَعْثًا کَائِنٌ بَعْدَ الْمَوْتِ، فَقَالُوا لَہُ: وَیْحَکَیَا فُلَانُ! تَرٰی ہٰذَا کَائِنًا، إِنَّ النَّاسَ یُبْعَثُونَ بَعْدَ مَوْتِہِمْ إِلٰی دَارٍ فِیہَا جَنَّۃٌ وَنَارٌ، یُجْزَوْنَ فِیہَا بِأَعْمَالِہِمْ، قَالَ: نَعَمْ، وَالَّذِییُحْلَفُ بِہِ! لَوَدَّ أَنَّ لَہُ بِحَظِّہِ مِنْ تِلْکَ النَّارِ أَعْظَمَ تَنُّورٍ فِی الدُّنْیَایُحَمُّونَہُ، ثُمَّ یُدْخِلُونَہُ إِیَّاہُ، فَیُطْبَقُ بِہِ عَلَیْہِ، وَأَنْیَنْجُوَ مِنْ تِلْکَ النَّارِ غَدًا، قَالُوا لَہُ: وَیْحَکَ! وَمَا آیَۃُ ذٰلِکَ؟ قَالَ: نَبِیٌّیُبْعَثُ مِنْ نَحْوِ ہٰذِہِ الْبِلَادِ، وَأَشَارَ بِیَدِہِ نَحْوَ مَکَّۃَ وَالْیَمَنِ، قَالُوا: وَمَتٰی تَرَاہُ، قَالَ: فَنَظَرَ إِلَیَّ وَأَنَا مِنْ أَحْدَثِہِمْ سِنًّا، فَقَالَ: إِنْ یَسْتَنْفِدْ ہٰذَا الْغُلَامُ عُمُرَہُ یُدْرِکْہُ، قَالَ سَلَمَۃُ: فَوَاللّٰہِ! مَا ذَہَبَ اللَّیْلُ وَالنَّہَارُ حَتّٰی بَعَثَ اللّٰہُ تَعَالٰی رَسُولَہُ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ حَیٌّ بَیْنَ أَظْہُرِنَا، فَآمَنَّا بِہِ وَکَفَرَ بِہِ بَغْیًا وَحَسَدًا، فَقُلْنَا: وَیْلَکَ،یَا فُلَانُ! أَلَسْتَ بِالَّذِی قُلْتَ لَنَا فِیہِ مَا قُلْتَ؟ قَالَ: بَلٰی وَلَیْسَ بِہ۔ (مسند احمد: ۱۵۹۳۵)

قبیلہ بنو عبدالاشہل کے سیدنا محمود بن لبید سلمہ بن سلامہ بن وقش سے روایت ہے، یہ اصحاب بدر میں سے تھے، کہتے ہیں کہ قبیلہ بنو عبدالا شھل کا ایکیہودی ہمارا ہمسایہ تھا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بعثت سے کچھ دن پہلے ایک دن وہ اپنے گھر سے نکل کر قبیلہ عبدالاشھل کی ایک محفل میں آکھڑا ہوا، سلمہ کہتے ہیں کہ میں اس روز وہاں پر موجود سب سے کم سن تھا۔ میں ایک چادر اوڑھے اپنے گھر کے سامنے لیٹا ہوا تھا۔ اس یہودی نے مرنے کے بعد جی اُٹھنے قیامت، حساب وکتاب، میزان اور جنت وجہنم کا ذکر کیا۔ اس نے یہ باتیں ایسے لوگوں کے سامنے کی تھیں، جو مشرک اور بت پرست تھے، وہ مرنے کے بعد جی اُٹھنے پر ایمان واعتقاد نہ رکھتے تھے، انہوں نے اس سے کہا: ارے یہ کیا؟ تو بھی کہتا ہے کہ یہ کچھ ہو گا اور لوگ مرنے کے بعد ایک ایسے جہان میں اُٹھائے جائیں گے، جہاں جنت اور جہنم ہو گی اور لوگوں کو ان کے اعمال کی جزادی جائے گی؟ اس نے کہا: ہاں، اس ذات کی قسم جس کی قسم اُٹھائی جاتی ہے! میں تو یہ بھی پسند کرتا ہوں کہ دنیا میں آگ کا ایک بہت بڑا تنور ہو اور لوگ اس میں داخل ہو جائیں اور پھر اسے اوپر سے بند کر دیا جائے اور میں کل کو جہنم کی آگ سے بچ جاؤں۔ لوگوں نے اس سے کہا: تجھ پر افسوس، اس کی علامت کیا ہے؟ تو اس نے مکہ اور یمن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان علاقوں سے ایک نبی مبعوث ہو گا لوگوں نے اس سے پوچھا ہم اس کو کب دیکھ سکیں گے؟ اس نے میری طرف دیکھا، میں ان میں سب سے کم سن تھا اور اس نے کہا: یہ لڑکا اگر زندہ رہا تو اپنی عمر تمام ہونے سے پہلے پہلے اسے دیکھلے گا۔ سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم! کچھ دن رات ہی گزرے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بھیج دیا اور وہ ہمارے درمیان زندہ موجود تھے۔ پس ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر ایمان لے آئے اور اس نے بغض وحسد کی بنا پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا کفر کیا، ہم نے اس سے کہا: اے فلاں! تجھ پر افسوس! کیا تو ہی وہ شخص نہیں، جس نے ہم سے اس نبی کے متعلق باتیں کی تھیں اور بتلایا تھا؟ اس نے کہا! ہاں، کیوں نہیں، لیکنیہ وہ نبی نہیں ہے۔

Haidth Number: 10679
سیدنا مسور بن مخرمہ زہری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وضو کر رہے تھے اور میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے کھڑا تھا، ایکیہودی میرے پاس سے گزرا اور اس نے کہا ان کی پشت پر سے کپڑا اوپر اُٹھاؤ، تو میں آپ کا کپڑا اوپر کو اٹھانے لگا تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے چہرے پر پانیکے چھینٹے مارے۔

Haidth Number: 10680
سیدناجابر بن سمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک عجمی قوم جرامقہ کا ایک فرد صحابہ کرام کے پاس آیا اور اس نے کہا: تمہارے وہ صاحب کہاں ہیں جو نبی ہونے کے دعوے دار ہیں؟ میں ان سے کچھ دریافت کر نا چاہتا ہوں ، تاکہ جان لوں کہ وہ نبی ہیںیا نہیں ؟ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے اور اس جرمقانی نے کہا: آپ میرے سامنے کچھ تلاوت کریںیا بیان کریں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے سامنے کتاب اللہ کی چند آیات کی تلاوت کی، جرمقانی نے کہا: اللہ کی قسم! موسیٰ علیہ السلام بھی ایسی ہی تعلیم لے کر آئے تھے۔ عبداللہ بن احمد نے کہا کہ یہ حدیث منکر ہے۔

Haidth Number: 10681

۔ (۱۰۶۸۲)۔ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ أَنَّ أُسَامَۃَ بْنَ زَیْدٍ أَخْبَرَہُ: أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَکِبَ حِمَارًا، عَلَیْہِ إِکَافٌ تَحْتَہُ قَطِیفَۃٌ فَدَکِیَّۃٌ، وَأَرْدَفَ وَرَائَہُ أُسَامَۃَ بْنَ زَیْدٍ، وَہُوَ یَعُودُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَۃَ فِی بَنِی الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، وَذٰلِکَ قَبْلَ وَقْعَۃِ بَدْرٍ، حَتّٰی مَرَّ بِمَجْلِسٍ، فِیہِ أَخْلَاطٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ وَالْمُشْرِکِینَ عَبَدَۃِ الْأَوْثَانِ وَالْیَہُودِ، فِیہِمْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أُبَیٍّ، وَفِی الْمَجْلِسِ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَوَاحَۃَ، فَلَمَّا غَشِیَتِ الْمَجْلِسَ عَجَاجَۃُ الدَّابَّۃِ، خَمَّرَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أُبَیٍّ أَنْفَہُ بِرِدَائِہِ ثُمَّ قَالَ: لَا تُغَبِّرُوا عَلَیْنَا، فَسَلَّمَ عَلَیْہِمْ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ وَقَفَ فَنَزَلَ فَدَعَاہُمْ إِلَی اللّٰہِ وَقَرَأَ عَلَیْہِمْ الْقُرْآنَ، فَقَالَ لَہُ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أُبَیٍّ: أَیُّہَا الْمَرْئُ! لَا أَحْسَنَ مِنْ ہٰذَا إِنْ کَانَ مَا تَقُولُ حَقًّا، فَلَا تُؤْذِینَا فِی مَجَالِسِنَا، وَارْجِعْ إِلٰی رَحْلِکَ، فَمَنْ جَاء َکَ مِنَّا فَاقْصُصْ عَلَیْہِ، قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَوَاحَۃَ: اغْشَنَا فِی مَجَالِسِنَا فَإِنَّا نُحِبُّ ذٰلِکَ، قَالَ: فَاسْتَبَّ الْمُسْلِمُونَ وَالْمُشْرِکُونَ وَالْیَہُودُ، حَتّٰی ہَمُّوا أَنْ یَتَوَاثَبُوا، فَلَمْ یَزَلِ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُخَفِّضُہُمْ، ثُمَّ رَکِبَ دَابَّتَہُ حَتّٰی دَخَلَ عَلٰی سَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ، فَقَالَ: ((أَیْ سَعْدُ! أَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالَ أَبُو حُبَابٍ؟ (یُرِیدُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ أُبَیٍّ) قَالَ کَذَا وَکَذَا۔)) فَقَالَ: اعْفُ عَنْہُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! وَاصْفَحْ، فَوَاللّٰہِ! لَقَدْ أَعْطَاکَ اللّٰہُ الَّذِی أَعْطَاکَ، وَلَقَدْ اصْطَلَحَ أَہْلُ ہٰذِہِ الْبُحَیْرَۃِ، أَنْ یُتَوِّجُوہُ فَیُعَصِّبُونَہُ بِالْعِصَابَۃِ، فَلَمَّا رَدَّ اللّٰہُ ذٰلِکَ بِالْحَقِّ الَّذِی أَعْطَاکَہُ شَرِقَ بِذٰلِکَ فَذَاکَ فَعَلَ بِہِ مَا رَأَیْتَ، فَعَفَا عَنْہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۲۲۱۱۰)

سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک گدھے پر سوار ہوئے، اس پر کاٹھی اور اس کے نیچے فد کی کپڑا یعنی فدک مقام کا تیار شدہ کپڑا رکھا ہوا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو گدھے پر اپنے پیچھے سوار کر لیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قبیلہ بنو حارث بن خزرج میں سیدنا سعد بن عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی عیادت کے لیے تشریف لے جا رہے تھے، یہ غزوۂ بدر سے پہلے کا واقعہ ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم چلتے چلتے ایک ایسی محفل کے پاس سے گذرے جس میں مسلمان، مشرکین، بتوں کے پجاری اور یہودی ملے جلے بیٹھے تھے۔ ان میں عبداللہ ابن ابی اور عبداللہ بن رواحہ بھی تھے، گدھے کے چلنے کی وجہ سے اڑنے والا غبار محفل پر پہنچا تو عبداللہ بن ابی نے اپنی چادر سے اپنی ناک کو ڈھانپ لیا اور بولا ہم پر غبار نہ اڑاؤ، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان لوگوں کو سلام کہا اور رک کر نیچے اتر آئے اور ان لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف دعوت دی اور ان کے سامنے قرآن کی تلاوت کی، عبداللہ بن ابی نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: آپ کی بات سے بہتر کوئی بات نہیں، اگر آپ جو کچھ کہتے ہیں وہ حق ہے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہماری محافل میں آکر ہمیں تنگ نہ کیا کریں، آپ اپنے گھر جائیں ہم میں سے جو کوئی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے سامنے یہ چیزیں بیان کیا کریں۔ اس پر سیدنا عبداللہ بن رواحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہماری محافل میں تشریف لایا کریں، ہم پسند کرتے ہیں۔ یا سیدنا عبداللہ بن رواحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عبداللہ بن ابی سے مخاطب ہو کر کہا:تم اپنی محافل میں آنے سے ہمیں روک رہے ہو، تاہم ہم تمہیں اپنی محافل میں آنے کی دعوت دیتے ہیں، تم ہماری محافل میں آیا کر و ہم اسے پسند کرتے ہیں، ان باتوں سے مسلمانوں، مشرکین اور یہود میں تو تُکار شروع ہو گئی،یہاں تک کہ نوبت ہاتھا پائی تک جا پہنچی۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم انہیں خاموش کراتے رہے، اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی سواری پر سوار ہو کر تشریف لے گئے اور سعد بن عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں جا کر نزول فرما ہوئے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سعد! کیا تم نے ابو حباب یعنی عبداللہ بن ابی کی بات سنی ہے؟ اس نے یوںیوں کہا ہے۔ سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ اسے جانے دیں اور درگزر کریں، اللہ کی قسم ! اللہ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو جو عزت دینی تھی، وہ دے رکھی ہے اس بستییعنی مدینہ منورہ کے لوگ اس کی تاج پوشی اور دستار بندی کر کے اسے سردار بنانے والے تھے، جب اللہ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو عطا کئے ہوئے حق کے ذریعے اسے ناکام ونامراد کیا تو وہ آپ سے حسد کرنے لگا ہے۔ اس نے آپ کے ساتھ جو کچھ کیایہ اسی کا نتیجہ ہے،سو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے معاف کر دیا۔

Haidth Number: 10682
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کابیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری امت میں سب سے زیادہ رحم دل ابو بکر ہیں، امت میں دین کے بارے میں عمر سب سے سخت ہیں، امت میں عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سب سے زیادہ حیا دار ہیں، معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ حلال و حرام کے متعلق سب سے زیادہ جانتے ہیں، قرآن کے سب سے بڑے اور سب سے زیادہ قاری ابی بن کعب ہیں اور امت میں مسائل وراثت (یا فرائض) کے بڑے عالم زید بن ثابت ہیں اور ہر امت میں ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کے امین ابو عبیدہ بن جراح ہیں۔

Haidth Number: 11585
یزید بن عمیرہ سے مروی ہے کہ جب سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو ان سے کہا گیا: اے ابوعبدالرحمن! آپ ہمیں کوئی وصیت ہی کر دیں،انھوں نے کہا:مجھے بٹھا دو۔ پھر انھوں نے کہا: علم اور ایمان ایسی چیزیں ہیں کہ جو آدمی انہیں ان کے مرکز اور مقام سے حاصل کرنے کی کوشش کرے تو وہ انہیں حاصل کر ہی لیتا ہے۔ یہ بات انہوںنے تین مرتبہ کہی۔ تم چار آدمیوں سے علم حاصل کرو: سیدنا ابو درداء عویمر، سیدنا سلمان فارسی، سیدنا عبداللہ بن مسعود اور سیدنا عبداللہ بن سلام سے، مؤخر الذکر پہلے یہودی تھے، بعد میں انھوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا کہ وہ جنت میں جانے والے خاص دس آدمیوں سے ایک ہوں گے۔

Haidth Number: 11586
سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں بیٹھے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نہیں جانتا کہ میں کتنا عرصہ تمہارے درمیان رہوں گا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: تم میرے بعد ان دونوں کی اقتدا کرنا، عمار کے عہد کو مضبوطی سے تھامے رکھنا اور عبداللہ بن مسعود تمہیں جو کچھ بیان کریں ان کی تصدیق کرنا۔

Haidth Number: 11587
سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: میں تم سے ایک بات پوچھتا ہوں، تم نے مجھ سے کوئی بات چھپانی نہیں ہے،سیدنا کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں جو کچھ جانتا ہوں، اللہ کی قسم! اس میں سے کچھ بھی آپ سے نہیں چھپاؤں گا۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم امت محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بارے میں سب سے زیادہ کس چیز سے خوف کھاتے ہیں؟ انہوں نے کہا: گمراہ کرنے والے حکمرانوں سے، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم نے درست کہا ہے،اللہ کے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے یہ بات راز دارانہ انداز سے بتلائی تھی۔

Haidth Number: 12072
سیدنا ابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں ایک دن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پہلو بہ پہلو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گھر کی طرف جارہا تھا کہ میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: دجال کے علاوہ بھی ایک فتنہ ہے، جس کا مجھے اپنی امت پر اندیشہ ہے۔ جب میں اس بات سے ڈرا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو اپنے گھر میں داخل ہونے لگے ہیں تو میں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ اپنی امت پر دجال سے بھی زیادہ کس بات کا اندیشہ رکھتے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: گمراہ کرنے والے حکمرانوں کا۔

Haidth Number: 12073
سیدنا ابو درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہم سے تاکیداً فرمایا کہ مجھے تم پر سب سے زیادہ ڈر گمراہ حکمرانوں کا ہے۔

Haidth Number: 12074
سیدناعبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگوںکے لیے میرا زمانہ سب سے بہتر ہے، پھر اس کے بعد والا زمانہ، پھر اس کے بعد والا زمانہ اور پھر اس کے بعد والا زمانہ، بعد ازاں ایسے لوگ آجائیں گے، جن کی گواہیاں ان کی قسموں پر اور ان کی قسمیں ان کی گواہیوں پر سبقت لے جائیں گی۔

Haidth Number: 12525
سیدناعمران بن حصین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگوں کے لیے سب سے افضل میرا زمانہ ہے، اس کے بعد اس کے بعد والا زمانہ اور پھر اس کے بعد والا دور، ان کے بعد ایسے لوگ آئیں گے، جو موٹے ہوں گے اور موٹاپے کو پسند کریں گے اور وہ گواہی طلب کیے جانے سے پہلے از خود گوائیاں دیں گے۔

Haidth Number: 12526