Blog
Books
Search Hadith

سورۂ ہود سورۂ ہود میں قیامت اور اس کی ہولناکیوں کا بیان

16 Hadiths Found
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو قیامت کے دن کو بالکل آنکھوں کے سامنے دیکھنا چاہتا ہے، وہ ان سورتوں کی تلاوت کرے: سورۂ تکویر، سورۂ انفطار اور سورۂ انشقاق۔ راوی کہتے ہیں: میں گمان ہے کہ سورۂ ہود کا بھی ذکر کیا۔

Haidth Number: 8634
سیدنا عثمان بن ابی العاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ بنو ثقیف کا وفد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو مسجد میں ٹھہرایا، تاکہ اس طرح ان کے دل اسلام کے لیے مزید نرم ہو جائیں، ان لوگوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے یہ شرط پیش کی کہ جب سرکاری اہل کار ان کے پاس زکوۃ کی وصولی کے لیے آئیں تو وہ ان کو اس بات پرمجبور نہیں کریں گے کہ ہم اپنے اموال وہاں لے جائیں جہاں وہ بیٹھا ہو ا ہو بلکہ وہ ہماری قیام گاہوں پر آکر زکوۃ وصول کرے، اور ان سے مال کا عشر(دسواں حصہ) بھی نہ لیا جائے اور ان کو نماز کی پابندی سے مستثنیٰ کیا جائے اور یہ کہ ان پر باہر کا کوئی آدمی عامل یا امیر مقرر نہ کیا جائے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وصولی زکوۃ کے لیے عامل تمہاری اقامت گاہوں پر پہنچے گا اور تمہیں اپنے اموال اس کے پاس نہیں لے جانا ہوں گے اور تم سے اموال کا دسواں حصہ بھی نہیں لیا جائے گا اور تمہارے اوپر تمہارے قبیلے کے علاوہ کسی دوسرے قبیلے کے آدمی کو عامل یا امیر مقرر نہیں کیا جائے گا۔ لیکن جس دین میں رکوع (یعنی نماز) نہ ہو، اس میں کوئی خیر نہیں۔ سیدنا عثمان بن ابی العاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے درخواست کی کہ اللہ کے رسول ! مجھے قرآن سکھائیں اور مجھے میری قوم کا امام مقرر کر دیں۔

Haidth Number: 10948

۔ (۱۰۹۴۹)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: بَعَثَتْ بَنُوْ سَعْدِ بْنِ بَکْرٍ ضِمَامَ بْنَ ثَعْلَبَۃَ وَافِدًا إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَدِمَ عَلَیْہِ وَأَنَاخَ بَعِیرَہُ عَلٰی بَابِ الْمَسْجِدِ، ثُمَّ عَقَلَہُ ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ، وَرَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جَالِسٌ فِی أَصْحَابِہِ، وَکَانَ ضِمَامٌ رَجُلًا جَلْدًا أَشْعَرَ ذَا غَدِیرَتَیْنِ فَأَقْبَلَ حَتّٰی وَقَفَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی أَصْحَابِہِ، فَقَالَ: أَیُّکُمْ ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ۔)) قَالَ: مُحَمَّدٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَقَالَ: ابْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ إِنِّی سَائِلُکَ وَمُغَلِّظٌ فِی الْمَسْأَلَۃِ فَلَا تَجِدَنَّ فِی نَفْسِکَ، قَالَ: ((لَا أَجِدُ فِی نَفْسِی فَسَلْ عَمَّا بَدَا لَکَ۔)) قَالَ: أَنْشُدُکَ اللّٰہَ إِلٰہَکَ وَإِلٰہَ مَنْ کَانَ قَبْلَکَ وَإِلٰہَ مَنْ ہُوَ کَائِنٌ بَعْدَکَ، آللَّہُ بَعَثَکَ إِلَیْنَا رَسُولًا؟ فَقَالَ: ((اللّٰہُمَّ نَعَمْ۔)) قَالَ فَأَنْشُدُکَ اللّٰہَ إِلٰہَکَ وَإِلٰہَ مَنْ کَانَ قَبْلَکَ وَإِلٰہَ مَنْ ہُوَ کَائِنٌ بَعْدَکَ، آللَّہُ أَمَرَکَ أَنْ تَأْمُرَنَا أَنْ نَعْبُدَہُ وَحْدَہُ لَا نُشْرِکُ بِہِ شَیْئًا، وَأَنْ نَخْلَعَ ہٰذِہِ الْأَنْدَادَ الَّتِی کَانَتْ آبَاؤُنَا یَعْبُدُونَ مَعَہُ؟ قَالَ: ((اللّٰہُمَّ نَعَمْ۔)) قَالَ: فَأَنْشُدُکَ اللّٰہَ إِلٰہَکَ وَإِلٰہَ مَنْ کَانَ قَبْلَکَ وَإِلٰہَ مَنْ ہُوَ کَائِنٌ بَعْدَکَ، آللّٰہُ أَمَرَکَ أَنْ نُصَلِّیَ ہٰذِہِ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ؟ قَالَ: ((اللَّہُمَّ نَعَمْ۔)) قَالَ: ثُمَّ جَعَلَ یَذْکُرُ فَرَائِضَ الْإِسْلَامِ فَرِیضَۃً فَرِیضَۃً الزَّکَاۃَ وَالصِّیَامَ وَالْحَجَّ وَشَرَائِعَ الْإِسْلَامِ کُلَّہَا، یُنَاشِدُہُ عِنْدَ کُلِّ فَرِیضَۃٍ کَمَا یُنَاشِدُہُ فِی الَّتِی قَبْلَہَا حَتّٰی إِذَا فَرَغَ، قَالَ: فَإِنِّی أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ سَیِّدَنَا مُحَمَّدًا رَسُولُ اللّٰہِ، وَسَأُؤَدِّی ہٰذِہِ الْفَرَائِضَ وَأَجْتَنِبُ مَا نَہَیْتَنِی عَنْہُ، ثُمَّ لَا أَزِیدُ وَلَا أَنْقُصُ، قَالَ: ثُمَّ انْصَرَفَ رَاجِعًا إِلٰی بَعِیرِہِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِینَ وَلّٰی: ((إِنْیَصْدُقْ ذُو الْعَقِیصَتَیْنِیَدْخُلِ الْجَنَّۃ۔)) قَالَ: فَأَتٰی إِلٰی بَعِیرِہِ فَأَطْلَقَ عِقَالَہُ، ثُمَّ خَرَجَ حَتّٰی قَدِمَ عَلٰی قَوْمِہِ فَاجْتَمَعُوا إِلَیْہِ، فَکَانَ أَوَّلَ مَا تَکَلَّمَ بِہِ أَنْ قَالَ: بِئْسَتِ اللَّاتُ وَالْعُزّٰی، قَالُوا: مَہْ یَا ضِمَامُ! اتَّقِ الْبَرَصَ وَالْجُذَامَ اتَّقِ الْجُنُونَ، قَالَ: وَیْلَکُمْ إِنَّہُمَا وَاللّٰہِ! لَا یَضُرَّانِ وَلَا یَنْفَعَانِ، إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ بَعَثَ رَسُولًا، وَأَنْزَلَ عَلَیْہِ کِتَابًا اسْتَنْقَذَکُمْ بِہِ مِمَّا کُنْتُمْ فِیہِ، وَإِنِّی أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ، إِنِّی قَدْ جِئْتُکُمْ مِنْ عِنْدِہِ بِمَا أَمَرَکُمْ بِہِ وَنَہَاکُمْ عَنْہُ، قَالَ: فَوَاللّٰہِ مَا أَمْسٰی مِنْ ذٰلِکَ الْیَوْمِ وَفِی حَاضِرِہِ رَجُلٌ وَلَا امْرَأَۃٌ إِلَّا مُسْلِمًا، قَالَ یَقُولُ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَمَا سَمِعْنَا بِوَافِدِ قَوْمٍ کَانَ أَفْضَلَ مِنْ ضِمَامِ بْنِ ثَعْلَبَۃ۔ (مسند احمد: ۲۳۸۰)

سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ بنو سعد بن بکر نے سیدنا ضمام بن ثعلبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اپنا نمائندہ بنا کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں روانہ کیا، وہ آیا اور اس نے اپنے اونٹ کو مسجد کے دروازہ کے قریب باندھ دیا اور پھر مسجد کے اندر آگیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صحابہ کے ساتھ تشریف فرما تھے، سیدنا ضمام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ قوی الجثہ، لمبے بالوں والے تھے اور انھوںنے بالوں کی لٹیں بنا رکھی تھی، وہ صحابہ کے قریب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے آکر کھڑے ہو گئے اور دریافت کیا کہ تم میں ابن عبدالمطلب کون ہیں؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں ابن عبدالمطلب ہوں۔ انھوں نے پوچھا: محمد آپ ہی ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔ وہ کہنے لگا: اے ابن عبدالمطلب! میں آپ سے کچھ باتیں پوچھنے والا ہوں، کچھ سختی بھی کروں گا، آپ میری باتوں کو محسوس نہیں کریں گے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں کسی بات کو محسوس نہیں کروں گا، تم جو چاہو پوچھو۔ اس نے کہا: میں آپ کو اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں جو آپ کا اور آپ سے پہلے لوگوں کا اور آپ کے بعد میں آنے والوں کا معبود ہے، کیا اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ ہمیں اکیلے اللہ کی عبادت کا حکم دیں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہمارے آباء واجداد اللہ کے ساتھ ساتھ جن بتوں کی پوجا کیا کرتے تھے، ہم ان کو بالکل چھوڑ کر ان سے لا تعلق ہو جائیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں، اللہ تعالیٰ اس پرگواہ ہے۔ اس نے کہا: میں آپ کو اس اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں جو آپ کا اور آپ سے پہلے والے لوگوں کا اور آپ کے بعد والے لوگوں کا معبو د ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ ہم یہ پنجگانہ نمازیں ادا کریں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں! اس پر بھی اللہ گواہ ہے۔ اس کے بعد اس نے فرائضِ اسلام زکوۃ، روزہ اور حج کا ایک ایک کر کے اور باقی احکام اسلام کے متعلق دریافت کیا اور پہلے کی طرح ہر فریضہ کے متعلق پوچھنے سے پہلے حسب سابق اللہ کا واسطہ دیتا رہا۔ سوال وجواب سے فارغ ہونے کے بعد اس نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اللہ کے رسول ہیں، میں ان تمام فرائض کو بجا لاؤں گا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جن باتوں سے منع فرمایا ہے، ان سے اجتناب کروں گا۔ پھر میں نہ اس میں کچھ اضافہ کروں گا اور نہ کمی کروں گا، اس کے بعد وہ اپنے اونٹ کی طرف واپس چلا گیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ لٹوں والا شخص اگر اپنی بات پر ثابت رہا تو جنت میں جائے گا، وہ اپنے اونٹ کے پاس گیا اور اسے کھول کر چل دیا، جب وہ اپنی قوم کے پاس پہنچا تو سب لوگ اس کے اردگرد اکٹھے ہو گئے، اس نے سب سے پہلے یہ کہا کہ لات و عزی بہت برے ہیں۔ قوم کے لوگوں نے کہا: ضمام ! ذرا رکو، برص، کوڑھ اور پاگل بن سے ڈرو، کہیںیہ بت تمہیں ایسی بری بیماریوں میں مبتلا نہ کر دیں۔ وہ کہنے لگا: اللہ کی قسم یہ دونوں نہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان، بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنا رسول مبعوث کیا ہے، اس نے اس پر ایسی کتاب نازل کی ہے، جس کے ذریعے اللہ نے تمہیں اس گمراہی سے بچا لیا، جس میں تم مبتلا تھے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ اکیلے کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ملاقات کرنے کے بعد تمہارے پاس آیا ہوں اور اس نے تمہیں جن باتوں کا حکم دیا اور جن باتوں سے روکا ہے، وہ احکام تمہارے پاس لایا ہوں۔ سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ اللہ کی قسم اسی روز شام تک اس کی قوم کے تمام خواتین و حضرات اسلام قبول کر چکے تھے۔ سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہا کرتے تھے کہ ہم نے کسی قوم کے نمائندے کے متعلق نہیں سنا کہ وہ ضمام بن ثعلبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے زیادہ فضیلت والا ہو۔

Haidth Number: 10949

۔ (۱۱۸۶۴)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ مِنْ فِیْہِ قَالَ: لَمَّا اِنْصَرَفْنَا مِنَ الْأَحْزَابِ عَنِ الْخَنْدَقِ جَمَعْتُ رِجَالًا مِنْ قُرَیْشٍ، کَانُوا یَرَوْنَ مَکَانِی وَیَسْمَعُونَ مِنِّی، فَقُلْتُ لَہُمْ: تَعْلَمُونَ وَاللّٰہِ! إِنِّی لَأَرٰی أَمْرَ مُحَمَّدٍ یَعْلُو الْأُمُورَ عُلُوًّا کَبِیرًا مُنْکَرًا، وَإِنِّی قَدْ رَأَیْتُ رَأْیًا فَمَا تَرَوْنَ فِیہِ؟ قَالُوا: وَمَا رَأَیْتَ؟ قَالَ: رَأَیْتُ أَنْ نَلْحَقَ بِالنَّجَاشِیِّ فَنَکُونَ عِنْدَہُ فَإِنْ ظَہَرَ مُحَمَّدٌ عَلٰی قَوْمِنَا کُنَّا عِنْدَ النَّجَاشِیِّ فَإِنَّا أَنْ نَکُونَ تَحْتَ یَدَیْہِ أَحَبُّ إِلَیْنَا مِنْ أَنْ نَکُونَ تَحْتَ یَدَیْ مُحَمَّدٍ، وَإِنْ ظَہَرَ قَوْمُنَا فَنَحْنُ مَنْ قَدْ عُرِفَ فَلَنْ یَأْتِیَنَا مِنْہُمْ إِلَّا خَیْرٌ، فَقَالُوا: إِنَّ ہٰذَا الرَّأْیُ، قَالَ: فَقُلْتُ لَہُمْ: فَاجْمَعُوا لَہُ مَا نُہْدِی لَہُ، وَکَانَ أَحَبَّ مَا یُہْدَی إِلَیْہِ مِنْ أَرْضِنَا الْأَدَمُ، فَجَمَعْنَا لَہُ أُدْمًا کَثِیرًا، فَخَرَجْنَا حَتّٰی قَدِمْنَا عَلَیْہِ، فَوَاللّٰہِ! إِنَّا لَعِنْدَہُ إِذْ جَائَ عَمْرُو بْنُ أُمَیَّۃَ الضَّمْرِیُّ، وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدْ بَعَثَہُ إِلَیْہِ فِی شَأْنِ جَعْفَرٍ وَأَصْحَابِہِ، قَالَ: فَدَخَلَ عَلَیْہِ ثُمَّ خَرَجَ مِنْ عِنْدِہِ، قَالَ: فَقُلْتُ لِأَصْحَابِی: ہٰذَا عَمْرُو بْنُ أُمَیَّۃَ الضَّمْرِیُّ، لَوْ قَدْ دَخَلْتُ عَلَی النَّجَاشِیِّ فَسَأَلْتُہُ إِیَّاہُ فَأَعْطَانِیہِ فَضَرَبْتُ عُنُقَہُ، فَإِذَا فَعَلْتُ ذٰلِکَ رَأَتْ قُرَیْشٌ أَنِّی قَدْ أَجْزَأْتُ عَنْہَا حِینَ قَتَلْتُ رَسُولَ مُحَمَّدٍ، قَالَ: فَدَخَلْتُ عَلَیْہِ فَسَجَدْتُ لَہُ کَمَا کُنْتُ أَصْنَعُ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِصَدِیقِی أَہْدَیْتَ لِی مِنْ بِلَادِکَ شَیْئًا؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، أَیُّہَا الْمَلِکُ، قَدْ أَہْدَیْتُ لَکَ أُدْمًا کَثِیرًا، قَالَ: ثُمَّ قَدَّمْتُہُ إِلَیْہِ فَأَعْجَبَہُ وَاشْتَہَاہُ ثُمَّ قُلْتُ لَہُ: أَیُّہَا الْمَلِکُ! إِنِّی قَدْ رَأَیْتُ رَجُلًا خَرَجَ مِنْ عِنْدِکَ وَہُوَ رَسُولُ رَجُلٍ عَدُوٍّ لَنَا فَأَعْطِنِیہِ لِأَقْتُلَہُ فَإِنَّہُ قَدْ أَصَابَ مِنْ أَشْرَافِنَا وَخِیَارِنَا، قَالَ: فَغَضِبَ ثُمَّ مَدَّ یَدَہُ فَضَرَبَ بِہَا أَنْفَہُ ضَرْبَۃً، ظَنَنْتُ أَنْ قَدْ کَسَرَہُ، فَلَوِ انْشَقَّتْ لِی الْأَرْضُ لَدَخَلْتُ فِیہَا فَرَقًا مِنْہُ ثُمَّ قُلْتُ: أَیُّہَا الْمَلِکُ وَاللّٰہِ! لَوْ ظَنَنْتُ أَنَّکَ تَکْرَہُ ہٰذَا مَا سَأَلْتُکَہُ، فَقَالَ لَہُ: أَتَسْأَلُنِی أَنْ أُعْطِیَکَ رَسُولَ رَجُلٍ یَأْتِیہِ النَّامُوسُ الْأَکْبَرُ الَّذِی کَانَ یَأْتِی مُوسٰی لِتَقْتُلَہُ؟ قَالَ: قُلْتُ، أَیُّہَا الْمَلِکُ أَکَذَاکَ ہُوَ؟ فَقَالَ: وَیْحَکَ یَا عَمْرُو! أَطِعْنِی وَاتَّبِعْہُ فَإِنَّہُ وَاللّٰہِ لَعَلَی الْحَقِّ وَلَیَظْہَرَنَّ عَلٰی مَنْ خَالَفَہُ کَمَا ظَہَرَ مُوسٰی عَلٰی فِرْعَوْنَ وَجُنُودِہِ، قَالَ: قُلْتُ: فَبَایِعْنِی لَہُ عَلَی الْإِسْلَامِ، قَالَ: نَعَمْ فَبَسَطَ یَدَہُ وَبَایَعْتُہُ عَلَی الْإِسْلَامِ ثُمَّ خَرَجْتُ إِلٰی أَصْحَابِی، وَقَدْ حَالَ رَأْیِی عَمَّا کَانَ عَلَیْہِ وَکَتَمْتُ أَصْحَابِی إِسْلَامِی، ثُمَّ خَرَجْتُ عَامِدًا لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِأُسْلِمَ، فَلَقِیتُ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ وَذٰلِکَ قُبَیْلَ الْفَتْحِ وَہُوَ مُقْبِلٌ مِنْ مَکَّۃَ، فَقُلْتُ: أَیْنَ یَا أَبَا سُلَیْمَانَ؟ وَاللّٰہِ! لَقَدْ اسْتَقَامَ الْمَنْسِمُ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَنَبِیٌّ أَذْہَبُ وَاللّٰہِ أُسْلِمُ فَحَتّٰی مَتَی؟ قَالَ: قُلْتُ: وَاللّٰہِ! مَا جِئْتُ إِلَّا لِأُسْلِمَ، قَالَ: فَقَدِمْنَا عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَدِمَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ فَأَسْلَمَ وَبَایَعَ، ثُمَّ دَنَوْتُ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنِّی أُبَایِعُکَ عَلٰی أَنْ تَغْفِرَ لِی مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِی وَلَا أَذْکُرُ وَمَا تَأَخَّرَ، قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا عَمْرُو بَایِعْ فَإِنَّ الْإِسْلَامَ یَجُبُّ مَا کَانَ قَبْلَہُ، وَإِنَّ الْہِجْرَۃَ تَجُبُّ مَا کَانَ قَبْلَہَا)) قَالَ: فَبَایَعْتُہُ ثُمَّ انْصَرَفْتُ، قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: وَقَدْ حَدَّثَنِی مَنْ لَا أَتَّہِمُ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ طَلْحَۃَ بْنِ أَبِی طَلْحَۃَ کَانَ مَعَہُمَا أَسْلَمَ حِینَ أَسْلَمَا۔ (مسند احمد: ۱۷۹۳۰)

حبیب بن اوس سے مروی ہے کہ سیدنا عمرو بن العاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے براہ راست بیان کیا کہ جب ہم غزوۂ احزاب میں خندق سے واپس ہوئے، تو میں نے چند قریشی لوگوں کو جمع کیا، وہ جو میرا مقام سمجھتے اور میری بات کو توجہ سے سنتے تھے، میں نے ان سے کہا: اللہ کی قسم! تم جانتے ہو کہ میری نظر میں محمد کی دعوت سب پر غالب ہو کر رہے گی اور ہم لوگ اسے پسند بھی نہیں کرتے، میری ایک رائے ہے، اب تم بتاؤ کہ اس بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ انہوں نے کہا: جی آپ کی رائے کیا ہے؟ میں نے کہا: میرا خیال ہے کہ ہم نجاشی کے پاس چلے جائیں اور وہیں رہیں، اگر محمد ہماری قوم پر غالب آ گئے، تو ہم نجاشی کے ہاں ہوں گے اور محمد کے ماتحت رہنے کی نسبت نجاشی کے ماتحت رہنا ہمیں زیادہ پسند ہے اور اگر ہماری قوم غالب ہوئی تو ہم معروف ہیں،ہمیں ان کے ہاں خیر ہی خیر ملے گی۔ لوگوں نے کہا: واقعی آپ کی رائے مناسب ہے۔پھر میں نے ان سے کہا: تم اس کو تحائف دینے کے لیے مال جمع کرو، اسے ہمارے علاقے کا چمڑا بطور ہدیہ بہت پسند تھا، پس ہم نے اسے دینے کے لیے بہت سے چمڑے جمع کر لئے اور ہم روانہ ہو گئے اور اس کے ہاں پہنچ گئے، اللہ کی قسم !ہم اس کے پاس موجود تھے کہ عمرو بن امیہ ضمری بھی وہاں آگئے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو جعفر اور ان کے ساتھیوںکے سلسلہ میں بات چیت کے لیے وہاں بھیجا تھا، وہ اس کے پاس آئے اور اس کے ہاں سے چلے گئے، اب میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا: یہ عمرو بن امیہ ضمری ہے، اگر میں نجاشی کے ہاں جا کر اس سے اس کا مطالبہ کروں کہ اسے میرے حوالے کر دے تو وہ اسے میرے حوالے کر دے گا اور میں اسے قتل کر دوں گا تو قریش اعتراف کریں گے کہ میں نے محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سفیر کو قتل کر کے ان کی نیابت کا حق ادا کر دیا۔ چنانچہ میں اس کے دربار میں گیا اور جاتے ہی اسے تعظیمی سجدہ کیا، جیسا کہ میں اس سے پہلے بھی کیا کرتا تھا،اس نے کہا: دوست کی آمد مبارک، تم اپنے وطن سے میرے لیے کچھ تحفہ لائے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں ! بادشاہ سلامت! میں آپ کے لیے کثیر مقدار میں چمڑے لے کر حاضر ہوا ہوں۔ پھر میں نے وہ اس کی خدمت میں پیش کئے، اس نے ان کو خوب پسند کیا اور یہ بھی اظہار کیا کہ اس کو ان کی ضرورت تھی، اس کے بعد میں نے کہا: بادشاہ سلامت! میں نے یہاں ایک آدمی کو دیکھا ہے، جو آپ کے ہاں سے باہر گیا ہے، وہ تو ہمارے دشمن کا قاصد ہے، آپ اسے میرے حوالے کر دیں تاکہ میں اسے قتل کر سکوں، وہ تو ہمارے معزز اور بہترین لوگوں کا قاتل ہے، یہ سن کر نجاشی غضبناک ہو گیا۔ اس نے اپنا ہاتھ لمبا کر کے اپنے ہی ناک پر اس قدر زور سے مارا کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ اس نے اپنے ناک کی ہڈی توڑ دی ہو گی، اس کے خوف کی وجہ سے میرییہ حالت ہوئی کہ اگر زمین پھٹ جاتی تو میں اس میں داخل ہو جاتا۔ پھر میں نے کہا: بادشاہ سلامت! اللہ کی قسم اگر مجھے علم ہوتا کہ یہ بات آپ کو اس قدر ناگوار گزرے گی تو میں آپ سے اس کا مطالبہ ہی نہ کرتا۔ نجاشی نے کہا: جو فرشتہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا کرتا تھا، اب وہ جس آدمی کے پاس آتا ہے، کیا میں اس کے قاصد کو تمہارے حوالے کر دوں تاکہ تم اسے قتل کر سکو؟ میں نے کہا: بادشاہ سلامت! کیا وہ واقعی ایسا ہی ہے؟ وہ بولا: اے عمرو! تجھ پر افسوس ہے، تم میری بات مان لو اور اس کی اتباع کر لو، اللہ کی قسم وہ یقینا حق پر ہے اور وہ ضرور بالضرور اپنے مخالفین پر غالب آئے گا، جیسے موسیٰ علیہ السلام ، فرعون اور اس کے لشکروں پر غالب آئے تھے۔ میں نے کہا: آپ مجھ سے اس کے حق میں قبولِ اسلام کی بیعت لے لیں۔ نجاشی نے کہا: ٹھیک ہے۔ چنانچہ اس نے اپنا ہاتھ پھیلا دیا اور میں نے اس کے ہاتھ پر قبولِ اسلام کی بیعت کر لی۔ پھر میں اپنے ساتھیوں کی طرف گیا، جبکہ میری رائے سابقہ رائے سے یکسر بدل چکی تھی، لیکن میں نے اپنے ساتھیوں سے اپنے قبولِ اسلام کو چھپائے رکھا، پھر میں مسلمان ہونے کے لیے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف چل دیا، خالد بن ولید سے میری ملاقات ہوئی، وہ مکہ مکرمہ سے آرہے تھے، یہ فتح مکہ سے پہلے کی بات ہے اور میں نے ان سے دریافت کیا: ابو سلیمان! کہاں سے آرہے ہو؟ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! راستہ خوب واضح ہو چکا ہے، وہ محمد یقینا نبی ہے، اللہ کی قسم میں تو جا کر مسلمان ہوتا ہوں۔ کب تک یوں ہی ادھر ادھربھٹکتا رہوں گا، میں نے کہا: اللہ کی قسم میں بھی اسلام قبول کرنے کے لیے ہی آیاہوں۔ ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پہنچے۔ خالد بن ولید آگے بڑھے۔ انہوں نے اسلام قبول کیا اوربیعت کی، ان کے بعد میں بھی قریب ہوا اور میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں آپ سے اس شرط پر بیعتکرتا ہوں کہ میرے سابقہ سارے گناہ معاف ہو جائیں اور مجھے بعد میں سرزد ہونے والے گناہوں کانام لینایاد نہ رہا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے عمرو! تم بیعت کرو، بے شک اسلام پہلے کے سارے گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور ہجرت سابقہ تمام گناہوں کو ختم کر دیتی ہے، پس میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیعت کر لی اور پھر میں واپس آگیا۔ ابن اسحاق کہتے ہیں: مجھ سے ایک ایسے آدمی نے بیان کیا جومیرے نزدیک قابلِ اعتماد ہے، اس نے کہا کہ سیدنا عثمان بن طلحہ بن ابی طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی ان دونوں کے ہم راہ تھے، جب یہ دونوں اسلام میں داخل ہوئے تو وہ بھی ان کے ساتھ ہی مسلمان ہوئے۔

Haidth Number: 11864
سیدناعمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے پیغام بھیجا کہ تم لباس اور اسلحہ زیب ِ تن کر کے میرے پاس آجائو، میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آیا تو آپ وضو کر رہے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میری طرف نظر اٹھائی اور سر کو نیچے کی طرف جھکایا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تمہیں ایک لشکر پر امیر بنا کر روانہ کرناچاہتا ہوں، اللہ تمہیں سلامت رکھے گا اور تمہیں غنیمت سے نوازے گا یا تمہیں مال کی صالح رغبت دے گا۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں مال و دولت کے لالچ میں نہیں، بلکہ اسلام کی رغبت کی بنا پر مسلمان ہوا ہوں،میں تو اس لیے مسلمان ہوا کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت حاصل رہے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عمرو! صالح آدمی کے لیے اچھا مال اچھی چیز ہے۔

Haidth Number: 11865
سیدنا طلحہ بن عبید اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے صرف وہی بات بیان کرتا ہوں، جو میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہوتی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عمرو بن عاص قریش کے صالح افراد میں سے ہے۔ عبدالجبار بن ورد نے مزید بیان کیا کہ ابن ابی ملیکہ نے طلحہ سے بیان کیا کہ سیدنا طلحہ بن عبید اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: عبداللہ، ان کے والد اور ان کی والدہ، یہ بہترین گھرانہ ہیں۔

Haidth Number: 11866
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عاص کے دونوں بیٹے عمرو اور ہشام اہل ایمان ہیں۔

Haidth Number: 11867
سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ایک ہزار ضرب الامثال سنی اور سیکھی ہیں۔

Haidth Number: 11868

۔ (۱۱۸۶۹)۔ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ شِمَاسَۃَ حَدَّثَہُ قَالَ: لَمَّا حَضَرَتْ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ الْوَفَاۃُ بَکٰی، فَقَالَ لَہُ ابْنُہُ عَبْدُ اللّٰہِ: لِمَ تَبْکِی أَجَزَعًا عَلَی الْمَوْتِ؟ فَقَالَ: لَا، وَاللّٰہِ! وَلٰکِنْ مِمَّا بَعْدُ، فَقَالَ لَہُ: قَدْ کُنْتَ عَلٰی خَیْرٍ، فَجَعَلَ یُذَکِّرُہُ صُحْبَۃَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَفُتُوحَہُ الشَّامَ، فَقَالَ عَمْرٌو: تَرَکْتَ أَفْضَلَ مِنْ ذٰلِکَ کُلِّہِ شَہَادَۃَ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ إِنِّی کُنْتُ عَلٰی ثَلَاثَۃِ أَطْبَاقٍ لَیْسَ فِیہَا طَبَقٌ إِلَّا قَدْ عَرَفْتُ نَفْسِی فِیہِ، کُنْتُ أَوَّلَ شَیْئٍ کَافِرًا فَکُنْتُ أَشَدَّ النَّاسِ عَلٗی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَوْ مِتُّ حِینَئِذٍ وَجَبَتْ لِی النَّارُ، فَلَمَّا بَایَعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کُنْتُ أَشَدَّ النَّاسِ حَیَائً مِنْہُ، فَمَا مَلَأْتُ عَیْنِی مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلَا رَاجَعْتُہُ فِیمَا أُرِیدُ حَتّٗی لَحِقَ بِاللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ حَیَائً مِنْہُ، فَلَوْ مِتُّ یَوْمَئِذٍ قَالَ النَّاسُ: ہَنِیئًا لِعَمْرٍو أَسْلَمَ وَکَانَ عَلٰی خَیْرٍ فَمَاتَ فَرُجِیَ لَہُ الْجَنَّۃُ، ثُمَّ تَلَبَّسْتُ بَعْدَ ذٰلِکَ بِالسُّلْطَانِ وَأَشْیَائَ فَلَا أَدْرِی عَلَیَّ أَمْ لِی، فَإِذَا مِتُّ فَلَا تَبْکِیَنَّ عَلَیَّ، وَلَا تُتْبِعْنِی مَادِحًا وَلَا نَارًا، وَشُدُّوْا عَلَیَّ إِزَارِی فَإِنِّی مُخَاصِمٌ، وَسُنُّوا عَلَیَّ التُّرَابَ سَنًّا، فَإِنَّ جَنْبِیَ الْأَیْمَنَ لَیْسَ بِأَحَقَّ بِالتُّرَابِ مِنْ جَنْبِی الْأَیْسَرِ، وَلَا تَجْعَلَنَّ فِی قَبْرِی خَشَبَۃً وَلَا حَجَرًا، فَإِذَا وَارَیْتُمُونِیْ فَاقْعُدُوْا عِنْدِی قَدْرَ نَحْرِ جَزُورٍ وَتَقْطِیعِہَا أَسْتَأْنِسْ بِکُمْ۔ (مسند احمد: ۱۷۹۳۳)

عبدالرحمن بن شماسہ سے مروی ہے کہ جب سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو ان پر گریہ طاری ہوگیا، ان کے فرزند عبداللہ نے ان سے کہا: آپ کیوں روتے ہیں؟ کیا موت کے ڈر کی وجہ سے؟ انہوںنے کہا: نہیں، اللہ کی قسم موت سے نہیں، بلکہ موت کے بعد والے مراحل کا خوف ہے۔ عبداللہ نے کہا: آپ تو بہت اچھے اچھے اعمال کرتے رہے ہیں، پھر وہ انہیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی صحبت میں گزارے ہوئے لمحات اور ان کی فتوحات شام یاد کرانے لگے۔ سیدنا عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم ان سب سے افضل بات تو چھوڑ ہی گئے کہ میں کلمۂ شہادت کا اقرار و اعتراف کر چکا ہوں، میری زندگی کے تین مراحل ہیں اور مجھے ہر مرحلہ میں اپنی ذات کی معرفت حاصل ہے، میں پہلے مرحلے میں کافر تھا اور میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا سخت دشمن تھا، اگر مجھے اسی حال میں موت آجاتی تو مجھ پر جہنم واجب ہوتی ۔ جب میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی تو مجھے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سب سے زیادہ جھجک آتی تھی، میں نے کبھی نظر بھر کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو نہیں دیکھا اور میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے جو کچھ دریافت کرنا چاہتا ہوتا کبھی دوسری مرتبہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے دریافت نہ کرتا، یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اللہ کے ہاں تشریف لے گئے، یہ میری طرف سے آپ کے حیاء کی وجہ تھی، اگر انہی دنوں مجھے موت آجاتی تو لوگ کہتے کہ عمرو کو مبارک ہو، وہ مسلمان ہوا اور اس نے بہترین زندگی بسر کی، اس کے لیے جنت کی امید ہے۔اس کے بعد میں حکمران اور بہت سے معاملات میں مشغول رہا، میں نہیں جانتا کہ وہ امور میرے حق میں ثابت ہوں گے یا میرے خلاف، میں فوت ہو جائوں تو تم میرے اوپر ہرگز گر یہ نہ کرنا اور میرے جنازہ کے ساتھ کسی مدح کرنے والے کو یا آگ لے کر نہ جانا اور میرے اوپر چادر باندھ دینا، کیونکہ اللہ کے فرشتے مجھ سے سخت حساب لیں گے اور تم میرے اوپر اچھی طرح مٹی ڈال دینا ، بے شک میرادایاں پہلو میرے بائیں پہلو سے زیادہ مٹی کا حق دار نہیں۔ اور تم میری قبر پر لکڑییا پتھر نہ رکھنا، جب تم میری تدفین سے فارغ ہو جائو تو تم میری قبر کے پاس اتنی دیر بیٹھے رہنا جتنی دیر میں ایک اونٹ کو نحر کرکے اس کا گوشت تیار کیا جاتا ہے، تاکہ تمہاری موجودگی سے مجھے کچھ انس حاصل ہو۔

Haidth Number: 11869

۔ (۱۱۸۷۰)۔ حَدَّثَنَا أَبُو نَوْفَلِ بْنُ أَبِی عَقْرَبَ قَالَ: جَزِعَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ عِنْدَ الْمَوْتِ جَزَعًا شَدِیدًا، فَلَمَّا رَأٰی ذٰلِکَ ابْنُہُ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو قَالَ: یَا أَبَا عَبْدِ اللّٰہِ! مَا ہٰذَا الْجَزَعُ؟ وَقَدْ کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُدْنِیکَ وَیَسْتَعْمِلُکَ، قَالَ: أَیْ بُنَیَّ! قَدْ کَانَ ذٰلِکَ، وَسَأُخْبِرُکَ عَنْ ذٰلِکَ، إِنِّی وَاللّٰہِ مَا أَدْرِی أَحُبًّا ذٰلِکَ کَانَ أَمْ تَأَلُّفًا یَتَأَلَّفُنِی، وَلٰکِنِّی أَشْہَدُ عَلٰی رَجُلَیْنِ أَنَّہُ قَدْ فَارَقَ الدُّنْیَا وَہُوَ یُحِبُّہُمَا ابْنُ سُمَیَّۃَ وَابْنُ أُمِّ عَبْدٍ، فَلَمَّا حَدَّثَہُ وَضَعَ یَدَہُ مَوْضِعَ الْغِلَالِ مِنْ ذَقْنِہِ، وَقَالَ: اللَّہُمَّ أَمَرْتَنَا فَتَرَکْنَا، وَنَہَیْتَنَا فَرَکِبْنَا، وَلَا یَسَعُنَا إِلَّا مَغْفِرَتُکَ، وَکَانَتْ تِلْکَ ہِجِّیرَاہُ حَتّٰی مَاتَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌۔ (مسند احمد: ۱۷۹۳۴)

ابو نوفل بن ابی عقرب سے مروی ہے کہ وفات کے وقت سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر گھبراہٹ طاری ہوگئی، ان کے بیٹے عبداللہ نے ان کییہ حالت دیکھی تو کہا: اے ابو عبداللہ! یہ گھبراہٹ اور پریشانی کیسی؟ آپ کو تو یہ مقام حاصل رہا ہے کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم آپ کو اپنے قریب بٹھایا کرتے اور آپ کو مختلف علاقوں میں عامل بنا کر بھیجا کرتے تھے۔ سیدنا عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: بیٹے! یہ سب کچھ ہوتا رہا ہے، میں تمہیں اس بارے میں بتلاتا ہوں۔ اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا کہ آپ کا میرے ساتھ یہ تعلق مجھ سے محبت کی بنیاد پر تھا یا میری تالیف قلبی کے لیے تھا۔ البتہ میں گواہی دیتا ہوں کہ دو آدمی ایسے تھے کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دنیا سے روانہ ہونے تک ان سے محبت کرتے رہے۔ ایک ابن سمیہ اور ابن ام عبد (یعنی سیدنا عمار بن یاسر اور سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما )۔ سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جب اپنے بیٹے سے یہ باتیں کر رہے تھے تو انہوںنے اپنا ہاتھ اپنی ٹھوڑی کے آخری حصہ پر رکھا ہوا تھا اور کہا: یا اللہ! (ہم خطا کار ہیں) تو نے ہمیں حکم دیئے، ہم نے ان کی پروانہ کی اور تونے ہمیں بہت سے کاموں سے روکا، مگر ہم ان کا ارتکاب کرتے رہے، ہم تو تیری مغفرت ہی کے امیدوار اور طلب گار ہیں۔ یہی کہتے ہوئے اور اسی حالت میں وہ انتقال کر گئے۔

Haidth Number: 11870
سیدنا عمار بن یاسر اور سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما )۔ سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جب اپنے بیٹے سے یہ باتیں کر رہے تھے تو انہوںنے اپنا ہاتھ اپنی ٹھوڑی کے آخری حصہ پر رکھا ہوا تھا اور کہا: یا اللہ! (ہم خطا کار ہیں) تو نے ہمیں حکم دیئے، ہم نے ان کی پروانہ کی اور تونے ہمیں بہت سے کاموں سے روکا، مگر ہم ان کا ارتکاب کرتے رہے، ہم تو تیری مغفرت ہی کے امیدوار اور طلب گار ہیں۔ یہی کہتے ہوئے اور اسی حالت میں وہ انتقال کر گئے۔

Haidth Number: 11871
سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ مدینہ منورہ میں خوف و ہراس پھیل گیا تو میں سیدنا ابو حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے غلام سیدنا سالم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں گیا، وہ اپنی تلوار کے پٹے کے ساتھ گوٹھ مار کر بیٹھے تھے، میں نے ان سے تلوار لی اور اس کے پٹے سے گوٹھ مار کر بیٹھ گیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگو! تمہاری گھبراہٹ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف کیوں نہیںہوئی۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے اس طرح کیوں نہیں کیا، جیسے ان دونوں نے کیا ہے۔

Haidth Number: 11872
سیدنا عقبہ بن عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرمایا: (فتح مکہ کے موقع پر) لوگوں نے تو ظاہراً اسلام قبول کیا اور عمرو بن عاص نے (دلی طور پر ) ایمان قبول کیا۔

Haidth Number: 11873

۔ (۱۲۴۲۴)۔ عن شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ قَالَ: سَمِعْتُ أُمَّ سَلَمَۃَ زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ جَائَ نَعْیُ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ، لَعَنَتْ أَہْلَ الْعِرَاقِ، فَقَالَتْ: قَتَلُوہُ قَتَلَہُمُ اللّٰہُ، غَرُّوہُ وَذَلُّوہُ، قَتَلَہُمُ اللّٰہُ، فَإِنِّی رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَائَ تْہُ فَاطِمَۃُ غَدِیَّۃً بِبُرْمَۃٍ، قَدْ صَنَعَتْ لَہُ فِیہَا عَصِیدَۃً، تَحْمِلُہُ فِی طَبَقٍ لَہَا حَتّٰی وَضَعَتْہَا بَیْنَیَدَیْہِ، فَقَالَ لَہَا: أَیْنَ ابْنُ عَمِّکِ؟ قَالَتْ: ہُوَ فِی الْبَیْتِ، قَالَ: ((فَاذْہَبِی فَادْعِیہِ وَائْتِنِی بِابْنَیْہِ۔)) قَالَتْ: فَجَائَتْ تَقُودُ ابْنَیْہَا کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا بِیَدٍ، وَعَلِیٌّیَمْشِی فِی إِثْرِہِمَا حَتّٰی دَخَلُوا عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَجْلَسَہُمَا فِی حِجْرِہِ، وَجَلَسَ عَلِیٌّ عَنْ یَمِینِہِ، وَجَلَسَتْ فَاطِمَۃُ عَنْ یَسَارِہِ، قَالَتْ أُمُّ سَلَمَۃَ: فَاجْتَبَذَ مِنْ تَحْتِی کِسَائً خَیْبَرِیًّا، کَانَ بِسَاطًا لَنَا عَلَی الْمَنَامَۃِ فِی الْمَدِینَۃِ، فَلَفَّہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَیْہِمْ جَمِیعًا، فَأَخَذَ بِشِمَالِہِ طَرَفَیِ الْکِسَائِ وَأَلْوٰی بِیَدِہِ الْیُمْنٰی إِلٰی رَبِّہِ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ: ((اللّٰہُمَّ أَہْلِی أَذْہِبْ عَنْہُمُ الرِّجْسَ وَطَہِّرْہُمْ تَطْہِیرًا، اللَّہُمَّ أَہْلُ بَیْتِی أَذْہِبْ عَنْہُمُ الرِّجْسَ وَطَہِّرْہُمْ تَطْہِیرًا، اللَّہُمَّ أَہْلُ بَیْتِی أَذْہِبْ عَنْہُمُ الرِّجْسَ وَطَہِّرْہُمْ تَطْہِیرًا۔)) قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَلَسْتُ مِنْ أَہْلِکَ؟ قَالَ: ((بَلٰی، فَادْخُلِی فِی الْکِسَائِ۔)) قَالَتْ: فَدَخَلْتُ فِی الْکِسَائِ بَعْدَمَا قَضٰی دُعَائَہُ لِابْنِ عَمِّہِ عَلِیٍّ وَابْنَیْہِ وَابْنَتِہِ فَاطِمَۃَ ۔ (مسند احمد: ۲۷۰۸۵)

شہر بن حوشب کہتے ہیں کہ جب سیدنا حسین بن علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی شہادت کی خبر آئی تو میں نے سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو سنا کہ انہوں نے اہل عراق پر لعنت کی اور کہا: انہوں نے سیدنا حسین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو قتل کیا ہے، اللہ ان لوگوں کو قتل کرے، اللہ تعالیٰ ان پر لعنت کرے، انہوں نے ان کے ساتھ دھوکہ کیا اور بے وفائی کی، میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا صبح سویرے ایک دیگچی لے کر آئیں، جس میںانہوں نے کھانا تیار کیا تھا اور اسے ایک تھا ل میں رکھا ہوا تھا،انہوں نے اسے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے رکھ دیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہاراچچازاد کہاں ہے؟ انہوں نے کہا: وہ گھر پر ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان کو اور دونوں بچوں کو بھی بلاؤ، وہ جا کر اپنے دونوں بچوں کو لے آئیں، دونوںکو ایک ایک ہاتھ میں پکڑ کر لا رہی تھیں اور سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان کے پیچھے پیچھے تھے وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بچوں کو اپنی گود میں بٹھالیا، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ کی دائیں جانب اور سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بائیں جانب بیٹھ گئیں، سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے نیچے سے خیبری چادر کھینچ لی، وہ مدینہ میں ہمارے بچھونے کی چادر تھی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ چادر ان سب کے اوپر ڈال دی اور اپنے بائیں ہاتھ سے چادر کی دونوں اطراف کو پکڑ کر دایاں ہاتھ اللہ کی طرف اٹھا کر فرمایا: یا اللہ یہ لوگ میرے اہل خانہ ہیں، ان سے پلیدی کو دور کر اور انہیں خوب پاک کردے۔ یہ دعا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تین مرتبہ کی، میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا میں آپ کے اہل میں سے نہیں ہوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں، تم بھی چادر کے اندر آجاؤ۔ جب میں چادر کے اندر داخل ہوئی تو اس وقت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے چچا زاد سیدنا علی، اپنی بیٹی سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اور ان کے بیٹوں کے حق میں دعا کر کے فارغ ہوچکے تھے۔

Haidth Number: 12424
شعبہ کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ کسی (عراقی آدمی) نے سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ سوال کیا کہ اگر کوئی آدمی احرام کی حالت میں مکھی مارڈالے تو اس کا کیا کفارہ ہے؟ انھوں نے کہا: اہل عراق مکھی مارنے کے متعلق دریافت کرتے ہیں، حالانکہ ان لوگوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے نواسے کو قتل کر ڈالا ہے، جس کے متعلق رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا کہ یہ دونوں یعنی حسن و حسین دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔

Haidth Number: 12425
Haidth Number: 12426