ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں فتنے اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح ڈھانپ لیں گے، نجات پانے والا وہ شخص ہوگا جو ریوڑ چراتا ہوگا اور اس سے خوراک حاصل کرتا ہوگا، یا وہ آدمی جو اپنے گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھا اس کی لگام تھامے ہوئے ہو اور اپنی تلوار کے ذریعے خوراک حاصل کرتا ہوگا (جہاد کرتا ہوگا
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج یاجوج ماجوج کی دیوار میں اتنا سوراخ ہوگیا ہے اور وہیب نے نوے کی گرہ لگائی(اور اسے ملالیا)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے فتنوں کا تذکرہ کر رہے تھے ۔ آپ نے بہت زیادہ فتنوں کا تذکرہ کیا حتی کہ احلاس کے فتنے کا ذکر کیا۔ کسی کہنے والے نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ فتنۃ الاحلاس کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فتنۃ الاحلاس جنگ اور فرار کا فتنہ ہوگا۔ پھر فتنہ سراء ہوگا اس کی ابتداء یا اس کی حرارت میرے اہل بیت کے ایک فرد کے قدموں کے نیچے سے ہوگی جو سمجھتا ہوگا کہ وہ مجھ سے تعلق رکھتا ہے حالانکہ وہ مجھ سے تعلق نہیں رکھتا ہوگا۔ میرے دوست تو متقی لوگ ہیں، پھر لوگ ایک شخص پر صلح کر لیں گے،جس طرح پسلیوں پر سرین ہو(یعنی وہ آدمی اس قابل نہیں ہوگا)، پھر دھیماءبھیانک کا فتنہ ہوگا، اس امت کے ہر شخص کو جھنجوڑ کر رکھ دے گا۔ جب کہا جائے گا کہ یہ ختم ہوگیا ہے تو وہ اور طویل ہوجائے گا۔ آدمی اس میں صبح ایمان کی حالت میں ہوگا اور شام کو کفر کی حالت میں،حتی کہ لوگ دو گروہوں میں تقسیم ہو جائیں گے۔ ایمان کا گروہ جس میں کوئی نفاق نہیں ہوگا۔ اور نفاق کا گروہ جس میں کوئی ایمان نہیں ہوگا۔ جب تم ایسی صورتحال دیکھو تو اس دن یا دوسرے دن دجال کا انتظار کرو
حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت میں ستائیس (۲۷) کذاب اور دجال ہوں گے،ان میں چار عورتیں ہوں گی،میں خاتم النبیین ہوں،میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے بارے میں سوال کیا کرتے تھے اور میں شر کے بارے میں سوال کیا کرتا تھا اس ڈر سے کہ کہیں میں شر میں مبتلا نہ ہو جاؤں،میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم جاہلیت اور شر میں مبتلا تھے،تب اللہ تعالیٰ ہمارے پاس یہ خیر لے آیا(جس پر ہم ہیں) (اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے آیا) کیا اس خیر کے بعد کوئی شر ہے(جس طرح پہلے تھا؟) (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حذیفہ! اللہ کی کتاب سیکھو اور جواس میں لکھا ہے اس کی پیروی کرو، (تین مرتبہ فرمایا) میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا اس شر کے بعد کوئی خیر ہوگی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں( میں نے کہا: اس سے بچاؤ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تلوار) میں نے کہا: کیا اس شر کے بعد کوئی خیر ہوگی؟( اور ایک روایت میں ہے: میں نے کہا، کیا تلوار کے بعد کچھ باقی بچے گا؟) آپ نے فرمایا: ہاں، اور اس میں( اور ایک روایت میں ہے: امارت ہوگی، ( اور ایک روایت میں ہے:جماعت ہوگی)۔عیب پر اور مکرو فساد پر صلح ہو گی میں نے کہا: اس کا مکرو فساد کیا ہو گا؟ آپ نے فرمایا: ایسے لوگ ہوں گے( اور ایک روایت میں ہے: میرے بعد ایسے حکمران ہوں گے (جو میرے طریقے کے علاوہ طریقہ اختیار کریں گے)۔اور میرے راستے کے علاوہ کوئی اور راستہ چنیں گے، تم ان میں بھلائی بھی دیکھو گے اور برائی بھی، (اور ان میں ایسے آدمی کھڑے ہوں گے جن کے دل انسانوں کے جسموں میں شیاطین کے دل ہوں گے) (اور دوسری روایت میں ہےمکرو فساد پر صلح کا کیا مطلب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں کے دل اس بات کی طرف نہیں لوٹیں گے جس پر وہ ہوں گے ) میں نے کہا: کیا اس خیر کے بعد کوئی شر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، (اندھا، بہرا فتنہ ہوگا) جہنم کے دروازوں پر بلانے والے کھڑے ہوں گے،جو ان کی بات قبول کرے گا اسے اس جہنم میں پھینک دیں گے، میں نے کہا: اے الہا کے رسول! ان کی وضاحت کیجئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ ہم میں سے ہوں گے،اور ہماری زبان بولتے ہوں گے۔ میں نے کہا:( اے اللہ کے رسول!) اگر مجھے وہ دور مل جائے تو آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کے ساتھ چمٹ جاؤ(تم امیر کی بات سنو اور اطاعت کرو، اگرچہ وہ تمہاری پیٹھ پر کوڑے برسائے، اور تمہارا مال ہتھیالے تب بھی اس کی بات سنو اور اطاعت کرو) میں نے کہا: اگر ان کا کوئی امیر اور جماعت نہ ہو تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تب تم ان تمام فرقوں سے الگ ہو جانا، اگرچہ تمہیں کسی درخت کی جڑیں کھا کر گزارہ کرنا پڑے، حتی کہ تمہیں موت آئے تو تم اسی حالت میں ہو( اور ایک روایت میں ہے) اے حذیفہ! اگرچہ تم مر جاؤ اور تم کسی درخت کی جڑیں پکڑے ہوئے ہو تو یہ تمہارے لئے اس بات سے بہتر ہے کہ تم ان میں سے کسی کی پیروی کرو،(اور دوسری روایت میں ہے) اگر تم اس دن زمین میں اللہ کا کوئی خلیفہ دیکھو تو اس سے مل جاؤ اگرچہ وہ تمہاری پیٹھ پر کوڑے برسائے اور تمہارا مال چھین لے،اگر تمہیں کوئی خلیفہ نظر نہ آئے تو(زمین میں)بھاگ جاؤ حتی کہ تمہیں اس حال میں موت آئے کہ تم کسی درخت کی جڑیں منہ میں دبائے ہوئے ہو( میں نے کہا: پھر کیا ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر دجال نکلے گا، میں نے کہا: وہ کیا لائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہر، یا فرمایا: پانی اور آگ۔ جو اس کی نہر میں داخل ہوگیا اس کا اجر ختم ہوگیا اور گناہ لازم ہوگیا، اور جو اس کی آگ میں داخل ہوا اس کا اجر واجب ہوگیا اور گناہ ختم ہوگیا( میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! دجال کے بعد کیا ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عیسی بن مریم علیہ السلام) میں نے کہا: پھر کیا ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کوئی گھوڑے کا بچہ پیدا ہوگا تو ابھی وہ سواری کے قابل بھی نہ ہوگا کہ قیامت قائم ہو جائے گی
سلمہ بن نفیل کندیرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا، ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! لوگوں نے گھوڑوں کی زینیں اتار لی ہیں، اور ہتھیار رکھ دیئے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اب کوئی جہاد نہیں، جنگ نے اپنے ہتھیار رکھ دیئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا رخ اس کی طرف کر کے متوجہ ہوئے اور فرمانے لگے: وہ جھوٹ بولتے ہیں ابھی ابھی تو قتال کا حکم آیاہے، اور میری امت کا ایک گروہ حق پر ہمیشہ قتال کرتا رہے گا، اللہ تعالیٰ ان کے لئے لوگوں کے دل ٹیڑھا کرتا رہے گا۔ اور ان سے انہیں قیامت تک رزق دے گا۔ حتی کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ آجائے،اور گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک خیر رکھ دی گئی ہے اور میری طرف وحی کی گئی ہے کہ میں جلد ہی دنیا چھوڑ جاؤں گا ٹھہرنے والا نہیں ہوں۔ اور تم ٹولیوں کی صورت میں میری پیروی کرو گے،ایک دوسرے کی گردنیں مارو گے مومنین کا ٹھکانہ شام ہو گا۔
ابو قبیل رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ ہم عبداللہ بن عمرو بن عاصرضی اللہ عنہما کے پاس تھے ان سے سوال کیا گیا: کون سا شہر پہلے فتح ہوگا؟ قسطنطنیہ یا رومیہ؟ عبداللہرضی اللہ عنہ نے ایک صندوق منگوایا جس میں کڑے لگے ہوئے تھے، انہوں نے اس میں سے ایک کتاب نکالی، عبداللہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد بیٹھے ہوئے لکھ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا: کون سا شہر پہلے فتح ہوگا؟ قسطنطنیہ یا رومیہ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر قل کا شہر پہلے فتح ہوگا، یعنی قسطنطنیہ۔( )
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ان سے کسی نے سوال کیا: ابو العباس !کیا قاتل کے لئے توبہ کی گنجائش ہے؟ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اس پر تعجب کرتے ہوئے کہا: تم کیا کہہ رہے ہو؟ اس نے دوبارا س بات کو دوہرایا، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: تم کیاکہہ رہے ہو؟ دو یا تین مرتبہ کہا، پھر ابن عباسرضی اللہ عنہما نے کہا: اس کے لئے توبہ کس طرح ہو سکتی ہے؟ میں نے آپ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرما رہے تھے:مقتول اس حال میں آئے گا کہ اس کا سر اس کے ایک ہاتھ میں لٹکا ہوا ہوگا، دوسرا ہاتھ قاتل کے گریبان پر ہوگا، اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا، حتی کہ وہ عرش کے نیچے پہنچ جائے گا۔ مقتول رب العالمین سے کہے گا: اس شخص نے مجھے قتل کیا تھا، اللہ تعالیٰ قاتل سے کہے گا: تو ہلاک ہوگیا اور پھر قاتل کو آگ میں داخل کر دیا جائے گا
شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے شداد بن اوس! جب تم دیکھو کہ لوگ سونے اور چاندی کو جمع کر رہے ہیں تو یہ کلمات زیادہ کہو: ”اے اللہ! میں دین میں تجھ سے ثابت قدمی کا سوال کرتا ہوں،ہدایت پر پختگی کا سوال کرتا ہوں، تیری رحمت کو واجب کرنے والے، تیری مغفرت کے اسباب کا سوال کرتا ہوں، تیری نعمت کے شکر اور تیری اچھی عبادت کرنے کا سوال کرتا ہوں، تجھ سے قلبِ سلیم اور سچی زبان کا سوال کرتا ہوں، جو تو جانتا ہے اس کی بھلائی کا سوال کرتا ہوں اور جو تو جانتا ہے اس کی برائی سے تیری پناہ میں آتا ہوں(میرے جو گناہ )تو جانتا ہے ان کی بخشش طلب کرتا ہوں کیوں کہ تو علام الغیوب ہے“
عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ جب اپنا عذاب اہل زمین پر نازل کرتا ہے تو ان میں نیک لوگ بھی ہوتے ہیں اور تو بھی ان کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! اللہ تعالیٰ جب اپنے دشمنوں پر اپنا عذاب نازل کرتا ہے اور ان میں نیک لوگ بھی ہوں تو انہیں بھی عذاب جکڑ لیتا ہے، پھر وہ اپنی نیتوں (اور اپنے اعمال) پر اٹھائے جاتے ہیں
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال سے پہلے شدید مشقت (قحط) کا تذکرہ کیا، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس دن عرب کہاں ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ! اس دن عرب قلیل ہوں گے ۔میں نے کہا: اس دن مومنین کو کونسا کھانا کفایت کرے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو فرشتوں کو کفایت کرتا ہے، تسبیح، تکبیر، تحمید اور تہلیل ۔میں نے کہا: اس دن کونسا مال بہتر ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سخت جان غلام جو اپنے مالکوں کو پانی پلائے جب کہ کھانا تو ہوگا نہیں
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہتے ہیں کہ مجھے قرآن کی ایک آیت کے بارے میں معلوم ہے جس کے بارے میں کسی شخص نے کبھی بھی مجھ سے سوال نہیں کیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ لوگوں کو اس کا علم ہے اس لئے سوال نہیں کیا، یا وہ اسے سمجھے ہی نہیں اس لئے سوال نہیں کیا؟ پھر ہمیں حدیث بیان کرنے لگے۔ جب آپ اٹھ گئے تو ہم نے ایک دوسرے کو ملامت کی کہ ہم نے ان سے اس آیت کے بارے میں پوچھا نہیں ۔میں (راوی) نے کہا کل جب وہ (ابن عباس رضی اللہ عنہ) آئیں گے تو میں ان سے سوال کروں گا ۔ دوسرے دن جب وہ آئے تو میں نے کہا: اے ابن عباس رضی اللہ عنہما! کل آپ نے ذکر کیا تھا کہ قرآن کی ایک آیت کے بارے میں کبھی کسی نے آپ سے سوال نہیں کیا، آپ کو یہ بھی نہیں معلوم کہ لوگوں کو اس کا علم ہے اس لئے سوال نہیں کیا یا اسے سمجھے ہی نہیں ؟ مجھے اس آیت اور اس سے پہلے والی آیتوں کے بارے میں بتلایئے جو آپ نے پڑھی ہیں؟ انہوں نے کہا: ٹھیک ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش سے کہا: اے قریش کی جماعت! اللہ کے علاوہ جس کی بھی عبادت کی جائے اس میں خیر نہیں۔قریش کو معلوم تھا کہ عیسائی عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی عبادت کرتے تھے، اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )کے بارے میں باتیں کرتے تھے۔ قریش کہنے لگے:اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )! کیا آپ کو یقین نہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے نبی اور اس کے نیک صالح بندے تھے؟ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل کیں:(الزخرف:۵۷) ترجمہ :”اورجب ابن مریم کی مثال بیان کی گئی تو اس سے تیری قوم(خوشی سے)چیخنے لگی“۔میں نے کہا: ﯞ کاکیامطلب ہے؟کہنےلگے:چیخ وپکارکرتےہیں۔ (الزخرف:۶۱) ”اور یقیناً(عیسی)قیامت کی علامت ہیں“۔یہ قیامت سے پہلے عیسی کا نکلنا ہے(اور ایک روایت میں ہے:اترنا ہے)
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ ،ابو قتادہرضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:رکن اور مقام ابراہیم کے درمیان ایک آدمی کی بیعت کی جائے گی، اور بیت اللہ کو صرف اسی کے اہل ساتھی حلال کریں گے۔ جب وہ اسے حلال کریں گے (اس کی حرمت کا پاس نہیں کریں گے )تو عرب کے ہلاک ہونے والے لوگوں کے بارے میں مت پوچھو،پھر حبشی آئیں گے اور بیت اللہ کو برباد کر دیں گے ۔اس کے بعد کوئی اسے تعمیر نہیں کرے گا، یہی وہ لوگ ہیں جو اس کا خزانہ نکالیں گے
سعید بن سمعان رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ میں نے ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے سنا وہ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کو بتا رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:رکن اور مقام ابراہیم کے درمیان ایک آدمی کی بیعت کی جائے گی اور بیت اللہ کو اس کے ساتھی ہی حلال کریں گے۔ جب وہ اسے حلال کریں گے تو عرب کے ہلاک ہونے والوں کے بارے میں سوال نہ کرو (یعنی بہت زیادہ ہلاک ہوں گے)، پھر حبشی آئیں گے اور اسے تباہ وبرباد کر دیں گے کوئی شخص اسے کبھی بھی آباد نہیں کرے گا، یہی وہ لوگ ہیں جو اس کا خزانہ نکالیں گے
ام المومنین سودہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں کو ننگے پاؤں، ننگے بدن غیر مختون اٹھایا جائے گا، پسینے نے انہیں لگام دے رکھی ہوگی، اور ان کی کانوں کی لو تک پہنچ رہا ہوگا، سودہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے اللہ کے رسول! کتنا برا منظر ہوگا، لوگ ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگ اس بات سے بے پرواہ ہوں گے،اور یہ آیت تلاوت کی:(سورۃ عبس: ۳۴ تا ۳۷ ) اس دن آدمی اپنے بھائی سے بھاگے گا، اپنی ماں اور باپ سےبھاگے گا،اپنی بیوی اور بچوں سے بھاگے گا، اس دن ہر شخص کی اپنی ایک کیفیت ہوگی جو اسے دوسروں سے بے پرواہ کردے گی
کعب بن مالکرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ: قیامت کے دن لوگ اٹھائے جائیں گے تو میں اور میری امت کے لوگ ایک ٹیلے پر ہوں گے، میرا رب مجھے سبز جبہ پہنائے گا،پھر مجھے اجازت دی جائے گی تو جو اللہ چاہے گا میں کہوں گا،یہی مقام محمود ہوگا۔ (
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اصبہان کے ستر ہزار یہودی دجال کی پیروی کریں گے ان پرطیالسی چادریں ہوں گی
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگ مدینے کو اسی خیر پر چھوڑ دیں گے جس پر یہ ہوگا، اسے عوافی (پرندوں اور درندوں کےوحشی جانوروں)کے علاوہ کوئی نہیں ڈھانپےگا،آخر میں جمع کئے جانے والے مزینہ کےدوچرواہے ہوں گے ۔جو مدینے آ رہے ہوں گے ۔وہ اپنی بکریوں کو ہانک رہے ہوں گے وہ اسے اجاڑ اور ویران پائیں گے۔ حتی کہ جب وہ ثنیۃالوداع پر پہنچیں گے تو چہروں کے بل گر جائیں گے۔
ابو سعید رضی اللہ عنہ سےمرفوعا مروی ہے کہ: کوئی نبی آئے گا اس کے ساتھ دو آدمی ہوں گے،کوئی نبی آئے گا اس کے ساتھ تین آدمی ہوں گے،کسی کے ساتھ اس سے زیادہ یا کم،اس سے کہا جائے گا:کیا تم نے اپنی قوم کو پیغام پہنچا دیا تھا ؟وہ کہے گا: جی ہاں۔ اس کی قوم کو بلایا کر پوچھا جائے گا کہ: کیا اس نے تمہیں پیغام پہنچا دیا تھا؟ وہ کہیں گے: نہیں۔ اس نبی سے کہا جائے گا: تمہاری گواہی کون دے گا؟ وہ کہے گا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی امت،امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا:کیا اس نبی نے پیغام پہنچا دیا تھا؟ وہ کہیں گے: جی ہاں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تمہیں اس بارے میں کس نے بتلایا؟ وہ کہیں گے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں ہمیں بتلایا تھا کہ رسولوں نے پیغام پہنچا دیا اور ہم نےاس کی تصدیق کی، یہی اللہ تعالیٰ کے فرمان (کا معنیٰ) ہے: (البقرة:۱۴۳) اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بن جاؤ اور رسول تم پر گواہ بن جائے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں کو تین صورتوں پر جمع کیا جائے گا۔ رغبت رکھنے والے اور ڈرنے والے، دو آدمی ایک اونٹ پر ہوں گے،تین آدمی ایک اونٹ پر ہوں گے،چار آدمی ایک اونٹ پر ہوں گے اور دس آدمی ایک اونٹ پر ہوں گے،باقی لوگوں کو آگ جمع کرے گی، جہاں قیلولہ کریں گے وہیں آگ بھی قیلولہ کرے گی، ان کے ساتھ رات گزارے گی۔ جہاں وہ رات گزاریں گے،جہاں صبح کریں گے وہاں صبح کرے گی،جہاں شام کریں گے وہاں شام کرے گی
سعید بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہما ، ابن زبیررضی اللہ عنہما کے پاس آئے،وہ حطیم میں بیٹھے ہوئے تھے،کہنے لگے: اے ابن زبیر ! اللہ کے حرم میں الحاد سے بچو،میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرما رہے تھے اسے(یعنی مکہ)اور اسے (یعنی حرم مکی)کو قریش کا ایک آدمی حلال کرے گا ۔ اگر اس کے گناہوں کا وزن جن و انس کے گناہوں سے کیا جائے تب بھی اس کے گناہ بھاری ہو جائیں گے ۔ خیال کرنا وہ شخص تم نہ ہو جانا ۔ (عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے فرمایا) اے ابن عمرو! تم نے کتب پڑھی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے ہو میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ یہ دیکھو میرا رخ شام کی طرف جہاد کی غرض سے ہوگیا ہے۔
ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے آخری زمانے میں مہدی علیہ السلام نکلیں گے،اللہ تعالیٰ انہیں بادلوں سے پانی پلائے گا اور زمین سبزہ اگائے گی وہ صحیح حالت میں مال دے گا، مویشی زیادہ ہو جائیں گے، امت بڑھ جائے گی وہ سات یا آٹھ سال رہیں گے۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عدن ابین سے بارہ ہزار کا لشکر نکلے گا، وہ اللہ اور اس کے رسول کی مدد کریں گے،وہ میرے اور ان کے درمیان پیدا ہونے والے لوگوں سے بہتر ہوں گے ۔
حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہما سے مرفوعا مروی ہے کہ: اسلام اس طرح مٹ جائے گا جس طرح کپڑے کے نقش و نگار مٹ جاتے ہیں، حتی کہ معلوم نہیں ہوگا،روزہ کیا ہے،نماز کیا ہے، قربانی کیا ہے اور صدقہ(زکاة) کیا ہے ۔ایک رات اللہ کی کتاب پر ایسی آئے گی کہ زمین میں ایک آیت بھی نہیں بچے گی۔ اور لوگوں کے یہ گروہ بچیں گے،بوڑھے مرد اور عورتیں،وہ کہیں گے: ہم نے اپنے آباء کو اس کلمہ( لا الہ الا اللہ) پر پایا، اس لئے ہم بھی یہی کہتے ہیں ۔صلہ بن زفر رضی اللہ عنہما نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کہا: (لا الہ الا اللہ) تو کیا کفایت کرے گا، کیوں کہ انہیں معلوم نہیں ہوگا کہ نماز، روزہ،قربانی اور زکاة(صدقہ) کیا ہے؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے منہ موڑ لیا۔ صلہ نے تین مرتبہ یہ بات کہی،ہر مرتبہ حذیفہرضی اللہ عنہ نے اس سے منہ موڑ لیا، پھر تیسری مرتبہ اس کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگے: اے صلہ! یہ کلمہ انہیں جہنم سے نجات دلا دے گا۔ تین مرتبہ کہا۔
مرد اس اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نیک لوگ ایک ایک کر کے ختم ہو جائیں گےاور جَو اور کھجور کے میل کی طرح ردی لوگ بچیں گے،اللہ کو ان کی ذرہ بھر بھی پرواہ نہیں ہوگی
عباس بن عبدالمطلبرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دین غالب ہوگا حتی کہ سمندروں سے تجاوز کر جائے گا اور یہاں تک کہ اللہ کے راستے میں لوگ گھوڑے لے کر پانی میں داخل ہوجائیں گے۔ پھر ایسے لوگ آئیں گے جو قرآن پڑھیں گے، جب وہ قرآن پڑھیں گے تو کہیں گے، ہم نے قرآن پڑھا ہے ہم سے زیادہ کون پڑھنے والا ہے؟ اور ہم سے زیادہ کون جاننے والا ہے؟پھر اپنے صحابہ کی طرف دیکھا اور فرمایا: کیا تم ان میں کوئی خیر دیکھتے ہو؟ صحابہ نے کہا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تم میں سے ہوں گے، اس امت میں سے ہوں گے اور یہ آگ کا ایندھن ہوں گے
ابو سعید خدریرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یا جوج اور ماجوج کی دیوار ہٹادی جائے گی وہ لوگوں میں آئیں گے جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مِّنۡ کُلِّ حَدَبٍ یَّنۡسِلُوۡنَ ﴿۹۶﴾ ہر اونچی جگہ سے پھسلے ہوئے آئیں گے۔ مسلمان ان سے بچنے کے لئے اپنے شہروں اور قلعوں میں بند ہو جائیں گے، اپنے مویشی اپنے ساتھ لے جائیں گے یا جوج ماجوج زمین کا پانی پی جائیں گے،حتی کہ اگر ان میں سے کوئی دریا کے پاس سے گزرے گا تو وہ سارا پانی پی کر اسے خشک کر دے گا، اور جو اس کے بعد آنے والاآئے گا وہ اس دریا کے پاس آئے گا تو کہے گا، یہاں پر کبھی پانی ہوا کرتا تھا، حتی کہ جب قلعوں یا شہروں میں پناہ گزین لوگوں کے علاوہ کوئی باقی نہیں بچے گا تو ان میں سے کوئی کہے گا:یہ زمین والے تھے ان سے تو تم فارغ ہوگےی باقی آسمان والے بچے ہیں،پھر ان میں سے کوئی ایک اپنے نیزے کو حرکت دے گا پھر اسے آسمان کی طرف پھینکے گا تو وہ خون میں لت پت،مصیبت اور فتنہ لے کر آئے گا،وہ اسی حالت میں ہوں گے کہ اچانک اللہ تعالیٰ ان کی گردنوں میں ایسا کیڑا پیدا کر دےگاجیسے ٹڈیاں ہو تی ہیں،جس سے وہ مرجائیں گے اور ان کی آواز تک نہ سنی جائے گی۔ مسلمان کہیں گے:کیا کوئی شخص ہے جو خطرہ مول لے کر دیکھے کہ اللہ نے اس دشمن کے ساتھ کیا کیا ہے؟ ان میں سے ایک شخص ثواب کی نیت سے علیحدہ ہو گا اور اس کا خیال ہوگا کہ وہ قتل کر دیا جائے گا۔ وہ نیچے اترے گا تو انہیں مردہ حالت میں پائے گا، ایک دوسرے پر گرے پڑے ہوں گے،وہ پکارے گا: اے مسلمانوں کی جماعت! خوش ہو جاؤ، اللہ تعالیٰ تمہارے لئے تمہارے دشمن کے لیے مقابلے میں کافی ہوگیا ہے ۔ تب مسلمان اپنے شہروں اور قلعوں سے نکلیں گے اور اپنے مویشی چرائیں گے، ان کے لئے ان کے گوشت کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا، وہ اس سے اس قدر موٹے تازے ہوجائیں گے جتنا کہ بہترین چارہ کھا کر وہ ہوسکتے تھے
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مخلوق ایک دوسرے سے اپنا بدلہ لے گی حتی کہ بغیر سینگوں والا جانور، سینگوں والے سے اور چیونٹی چیونٹی سے بدلہ لے گی ۔
)ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہےکہ: اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق جن، انس اور جانوروں کے درمیان فیصلہ کرے گا،اس دن بغیر سینگوں والا جانور، سینگوں والے سے بدلہ لے گا۔ حتی کہ جب کوئی جانور کسی دوسرے سے بدلہ لینے والا نہیں بچے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا :مٹی ہو جاؤ۔ اس وقت کافر کہے گا: (النساء:۴۰) اے کاش میں مٹی ہو جاتا