اَلشِّبْہُ وَالشَّبَہُ وَالشَّبِیْہُ کے اصل معنیٰ مماثلب بلحاظ کیف کے ہیں مثلاً لون اور طعم میں مماثل ہونا یا عدل و ظلم میں اور دو چیزوں کا حسِّی یا معنوی لحاظ سے اس قدر مماثل ہونا کہ ایک دوسرے سے ممتاز نہ ہوسکیں شُبْھۃ کہلاتا ہے پس آیت کریمہ: (وَ اُتُوۡا بِہٖ مُتَشَابِہًا) (۲:۲۵) اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دئیے جائیں گے۔ میں مُتَشَابِھَا کے معنیٰ یہ ہیں کہ وہ میوے اصل اور مزہ میں مختلف ہونے کے باوجود رنگت میں ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہوں گے۔ بعض کے نزدیک کمال اور عمدگی میں ایک دوسرے کے مشابہ ہونا مراد ہے اور آیت کریمہ: (مُشۡتَبِہًا وَّ غَیۡرَ مُتَشَابِہٍ) (۶:۹۹) جو ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں اور نہیں بھی۔ میں ایک قرأت مُتَشَابِھًا ہے مگر دونوں کے معنیٰ قریب قریب ایک ہی ہیں اور آیت کریمہ: (اِنَّ الۡبَقَرَ تَشٰبَہَ عَلَیۡنَا) (۲:۷۰) کیونکہ بہت سے بیل ہمیں ایک دوسرے کے مشابہ معلوم ہوتے ہیں۔ میں تَشَابَہَ فعل ماضی مذکر کا صیغہ بھی ہوسکتا ہے اور تَشَابَہَ فعل مضارع مؤنث بھی جو اصل میں تَتَشَابَہُ ہے اور تاء شین میں مدغم ہے۔ اور آیت: (تَشَابَہَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ) (۲:۱۱۸) ان لوگوں کے دل آپس میں ملتے جلتے ہیں۔ میں ان کے قلوب کا گمراہی اور جہالت میں ایک دوسرے کے مشابہ ہونا مراد ہے۔ اور آیت: (وَ اُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ) (۳:۷) اور بعض متشابہ ہیں۔ میں مُتَشَابِھَاتٌ سے مراد وہ آیات ہیں جن کی لفظی یا معنوی مماثلت کی وجہ سے تفسیر بیان کرنا مشکل ہو۔ عام فقہاء کے نزدیک متشابہات سے مراد وہ آیات ہیں جن کے ظاہری معنیٰ سے مقصود کا علم نہ ہوسکے۔ اصل میں آیات تین قسم پر ہیں۔ (۱) بعض علی الاطلاق محکم ہیں۔ (۲) بعض علی الاطلاق متشابہ ہیں۔ (۳) اور بعض من وجہ محکم اور من وجہ متشابہ ہیں۔ پھر متشابھات بھی تین قسم پر ہیں۔ متشابہ بلحاظ لفظ، متشابہ بلحاظ معنیٰ اور متشابہ بلحاظ لفظ و معنیٰ اور متشابہ بلحاظ لفط پھر دو قسم پر ہے ایک وہ تشابہ جو الفاظ مفردہ میں ہوتا ہے۔ دوم وہ جو کلام مرکب میں پایا جاتا ہے۔ الفاظ مفردہ میں تشابہ یا تو بوجہ غرابت الفاظ کے ہوگا جیسے اَبٌّ وَیَزِفُّوْنَ کے دونوں غریب معنیٰ ہیں اور یا بوجہ لفظ کے مشترک ہونے کے، جیسے یَدٌ وَعَیْنٌ کہ یہ دونوں مختلف معانی کے لئے موضوع ہیں اور کلام مرکب میں تشابہ تین قسم پر ہے۔ بوجہ اختصار، جیساکہ آیت: (وَ اِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تُقۡسِطُوۡا فِی الۡیَتٰمٰی فَانۡکِحُوۡا مَا طَابَ لَکُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ ) (۴:۳) اور اگر تم کو اس بات کا خوف ہو کہ (یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کرسکوگے تو ان کے سوا جو عورتیں تم کو پسند ہوں … ان سے نکاح کرلو۔ دوسرے بوجہ بسط کلام کے، جیسے فرمایا: (لَیۡسَ کَمِثۡلِہٖ شَیۡءٌ) (۴۲:۱۱) اس جیسی کوئی بھی چیز نہیں۔ کیونکہ اگر یہاں کاف نہ بڑھایا جاتا اور لَیْسَ مِثْلَہَ شَیْئٌ کہا جاتا تو مطلب زیادہ صاف اور واضح ہوجاتا۔ تیسرے وہ اشتباہ جو ترتیب کلام میں تغیر کی وجہ سے پیدا ہوجاتا ہے جیساکہ آیت: (اَنۡزَلَ عَلٰی عَبۡدِہِ الۡکِتٰبَ وَ لَمۡ یَجۡعَلۡ لَّہٗ عِوَجًا … قَیِّمًا) (۱۸:۱،۲) جس نے اپنے بندے (محمد ﷺ) پر اپنی کتاب نازل کی اور اس میں کسی طرح کی پیچیدگی نہیں رکھی (بلکہ) سیدھی (اور سلیس اتاری) یہ اصل ترتیب کے لحاظ سے قَیِّمًا وَّلَمْ یَجْعَلْ لَّہٗ عِوَجًا تھا۔ نیز فرمایا: (وَ لَوۡ لَا رِجَالٌ مُّؤۡمِنُوۡنَ … الی قولہ … لَوۡ تَزَیَّلُوۡا) (۴۸:۲۵) اور اگر ایسے مرد اور (عورتیں) نہ ہوتیں … اگر دونوں فریق الگ الگ ہوجاتے۔ متشابہ بلحاظ معنیٰ جیسے صفات باری تعالیٰ اور احوال قیامت کہ یہ اوصاف نہ محسوس ہیں اور نہ محسوسات کی جنس سے ہیں اور چیز محسوس یا اس کی جنس سے نہ ہو اس کا تصور ہمارے لئے ناممکن ہوتا ہے۔ اور متشابہ من حیث اللفظ والمعنیٰ کی پانچ قسمیں ہیں اوّل تشابہ بلحاظ کمیت کے مثلاً کسی حکم کے عام یا خاص ہونے کے متعلق شبہ پیدا ہوجائے چنانچہ فرمایا: (فَاقۡتُلُوا الۡمُشۡرِکِیۡنَ ) (۹:۵) تو مشرکوں کو … قتل کردو۔ دوم: بلحاظ کیفیت کے مثلاً کسی حکم کے واجب یا مندوب ہونے میں شک و شبہ پایا جاتا ہو چنانچہ فرمایا: (فَانۡکِحُوۡا مَا طَابَ لَکُمۡ ) (۴:۳) تو جو عورتیں تمہیں پسند ہوں ان سے نکاح کرو۔ سوم: بلحاظ زمانہ کے یعنی کسی آیت کے ناسخ یا منسوخ ہونے میں تشابہ پایا جاتا ہو جیسے فرمایا: (اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ) (۳:۱۰۲) خدا سے ڈرو جیساکہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ چہارم: تشابہ بلحاظ مکان اور اسباب نزول کے جیسے فرمایا: (لَیۡسَ الۡبِرُّ بِاَنۡ تَاۡتُوا الۡبُیُوۡتَ مِنۡ ظُہُوۡرِہَا) (۲:۱۸۹) اور نیکی اس بات میں نہیں ہے کہ تم (احرام کی حالت) میں گھروں میں ان کے پچھواڑے کی طرف سے آؤ۔ (انما النسیء زیادۃ فی الکفر) (۹:۳۷) مہینے کو پیچھے کردینا کفر میں اضافہ کرتا ہے۔ تو ظاہر ہے کہ جو شخص ان کے رسم و رواج اور جاہلی عادات سے واقف نہ ہو وہ اس آیت کی تفسیر کو نہیں سمجھ سکتا۔ پنجم: وہ تشابہ جو کسی فعل کے صحت و فساد کی شروط کو نہ جاننے کی وجہ سے پیدا ہوجاتا ہے جیساکہ نماز اور نکاح کی شروط نہ جاننے سے اشتباہ ہوجاتا ہے۔ الغرض تشابہ کے یہ چند اقسام ہیں جن کا تصور کرلینے سے معلوم ہوجائے گا کہ مفسرین نے تشابہ کی جتنی بھی تشریحات بیان کی ہیں ان میں سے کوئی بھی مندرجہ بالا اقسام سے خارج نہیں ہے۔ مثلاً بعض کا قول ہے کہ الم (حروف مقطعات) متشابہات سے ہے اور قتادہ نے کہا ہے کہ ناسخ محکم ہیں اور منسوخ متشابہ میں داخل ہیں اور الاصَمَّ کا قول ہے کہ جس آیت کی تفسیر متفق علیہ ہو وہ محکم اور جس کی تفسیر میں اختلاف ہو وہ متشابہ ہے پھر جملہ متشابہات تین قسم پر ہیں۔ ایک وہ جن کا علم ہمارے لئے ناممکن ہے جیسے قیامت کا وقت اور دابۃ الارض کا خروج اور اس کی کیفیت وغیرہ۔ دوم وہ جن کا علم ہمیں ہوسکتا یہ۔ جیسے الفاظ غریبہ اور احکام مشکلہ۔ سوم وہ جو ان دونوں کے بین بین ہیں۔ جن کا علم صرف راسخین فی العلم کو ہی ہوسکتا ہے ہر ایک کے لئے ان تک رسائی ممکن نہیں۔ اسی قسم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے متعلق فرمایا: (۱۸۷) (اَللّٰھُمَّ فَقِّھْہُ فِی الدِّیْنِ وَعَلِّمْہُ التَّأوِیْلَ) کہ اے اﷲ! اسے دین میں سمجھ دے اور تاویل کا علم عطا فرما یہی دعا حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ کے متعلق بھی مروی ہے۔(1) (۱۸۸) پس اس بحث کے پیش نظر رکھ لینے سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ آیت کریمہ: (وَ مَا یَعۡلَمُ تَاۡوِیۡلَہٗۤ اِلَّا اللّٰہُ وَ الرّٰسِخُوۡنَ فِی الۡعِلۡمِ) (۳:۷) حالانکہ مراد، اصلی خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا اور جو لوگ علم میں دستگاہ کامل رکھتے ہیں۔ میں اِلَّا اﷲُ پر بھی وقف صحیح ہے اور اَلرَّاسِخُوْنَ کے ساتھ ملاکر پڑھنا بھی جائز ہے اور ہر ایک یعنی وقف اور وصل کی ایک خاص وجہ ہے جو مندرجہ بالا تفصیل سے معلوم ہوسکتی ہے۔ اور آیت کریمہ: (اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحۡسَنَ الۡحَدِیۡثِ کِتٰبًا مُّتَشَابِہًا) (۳۹:۲۳) خدا نے نہایت اچھی باتیں نازل فرمائی ہیں (یعنی کتاب (جس کی آیتیں) ملی جُلی ہیں۔ میں مُتَشَابِھًا کے معنیٰ یہ ہیں کہ احکامِ حکمت اور استقامت نظم کے لحاظ سے قرآن مجید کی تمام آیات ایک جیسی ہیں اور آیت کریمہ: (وَ لٰکِنۡ شُبِّہَ لَہُمۡ) (۴:۱۵۷) بلکہ ان کو ان کی سی صورت معلوم ہوئی۔ میں شُبِّہَ کے معنیٰ یہ ہیں کہ ان کے سامنے کوئی دوسرا شخص مسیح علیہ السلام کے مشابہ بنادیا گیا تھا جسے انہوں نے مسیح سمجھ (کر قتل کردیا تھا)۔ اَلشَّبَہُ: (پیتل) جواہر میں سے اسے کہا جاتا ہے جس کا رنگ سونے کے مشابہ ہوتا ہے۔
Words | Surah_No | Verse_No |
تَشَابَهَ | سورة آل عمران(3) | 7 |
تَشَابَهَتْ | سورة البقرة(2) | 118 |
تَشٰبَهَ | سورة البقرة(2) | 70 |
شُبِّهَ | سورة النساء(4) | 157 |
فَتَشَابَهَ | سورة الرعد(13) | 16 |
مُتَشَابِهًا | سورة البقرة(2) | 25 |
مُتَشَابِهًا | سورة الأنعام(6) | 141 |
مُتَشَابِهٍ | سورة الأنعام(6) | 99 |
مُتَشَابِهٍ | سورة الأنعام(6) | 141 |
مُتَشٰبِهٰتٌ | سورة آل عمران(3) | 7 |
مُشْتَبِهًا | سورة الأنعام(6) | 99 |
مُّتَشَابِهًا | سورة الزمر(39) | 23 |