Blog
Books
Search Quran
Lughaat

شروع کلمہ میں قسم کے معنوں میں آتا ہے۔ جیسے فرمایا: (وَ تَاللّٰہِ لَاَکِیۡدَنَّ اَصۡنَامَکُمۡ ) (۲۱:۵۷) اور اﷲ کی قسم … میں تمہارے بتوں سے ایک چال چلوں گا۔ (۲) فعل مستقبل کے شروع میں مخاطب پر دلالت کرتا ہے۔ جیسے فرمایا: (اَفَاَنۡتَ تُکۡرِہُ النَّاسَ ) (۱۰:۹۹) تو کیا تم لوگوں پر زبردستی کرنا چاہتے ہو۔ نیز صیغہ تانیث ہونا ظاہر کرتا ہے، جیسے فرمایا: (تَتَنَزَّلُ عَلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ ) (۴۱:۳۰) ان پر فرشتے اتریں گے۔ (۳) اور آخر کلمہ میں یا تو زائدہ علامت تانیث کے طور پر آتا ہے۔ اور یہ کبھی تو حالت وقف میں ھا بن جاتا ہے۔ جیسے ’’قَائِمۃ‘‘ اور کبھی وقف اور وصل دونوں حالتوں میں ثابت رہتا ہے۔ جیسے اُخْستٌ وَبِنْتٌ اور (۲) یا جمع مؤنث سالم کے آخر میں الف کے بعد آتی ہے، جیسے مُسْلِمَاتٌ وَمُؤْمِنَاتٌ۔ (۴) فعل ماضی کے آخر میں جب مضموم ہو تو ضمیر متکلم کہلاتی ہے۔ جیسے فرمایا: (وَّ جَعَلۡتُ لَہٗ مَالًا مَّمۡدُوۡدًا ) (۷۴:۱۲) اور جس کو ہم نے مال کثیر دیا۔ اور مفتوح ہونے کی صورت میں ضمیر مذکر مخاطب ہوتی ہے، جیسے فرمایا: (اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ) (۱:۶) جن پر تو اپنا فضل و کرم کرتا رہا۔ اور مکسور ہو تو واحد مؤنث حاضر کی ضمیر پر دلالت کرتا ہے۔ جیسے (لَقَدۡ جِئۡتِ شَیۡئًا فَرِیًّا) (۱۹:۲۷) یہ تو تم نے برا کام کیا۔

Words
Words Surah_No Verse_No
يٰٓاَبَتِ سورة يوسف(12) 4
يٰٓاَبَتِ سورة يوسف(12) 100
يٰٓاَبَتِ سورة مريم(19) 42
يٰٓاَبَتِ سورة مريم(19) 43
يٰٓاَبَتِ سورة مريم(19) 44
يٰٓاَبَتِ سورة مريم(19) 45
يٰٓاَبَتِ سورة القصص(28) 26
يٰٓاَبَتِ سورة الصافات(37) 102