اَللَّطِیْفِ : جب یہ کسی جسم کی صفت واقع ہوتو یہ جَثْلٌ کی ضد ہوتا ہے جس کے معنی بھاری اور ثقیل کے ہیں کہتے ہیں شَعْرٌ جَثْلٌ.... (یعنی زیادہ اور بھاری بال ) اور کبھی لَطَافَۃٌ یا لُطْفٌ سے حرکت خفیہ اور دقیق امور کا سرانجام دینا مراد ہوتا ہے اور لَطَائفٌ سے وہ باتیں مراد لی جاتی ہیں جن کا ادراک انسانی حواس نہ کرسکتے ہوں اور اﷲ تعالیٰ کے لَطِیْفٌ ہونے کے معنی یا تو یہ ہیں کہ وہ انسانی حواس کے ادراک سے مافوق اور بالاتر ہے اور یا اسے اس لیے لطیف کہا جاتا ہے کہ وہ دقیق امور ہے اور یا اسے اس لیے لطیف کہا جاتا ہے کہ وہ دقیق امور تک سے واقف ہے اور یہ کہ وہ انسانوں کی ہدایت دینے میں نہایت نرم انداز اختیار کرتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے: (اَلﷲ لَطِیفٌ بِعِبَادِہ) (۴۲۔۱۹) خدا اپنے بندوں پر مہربان ہے اور آیت کریمہ: (اِنَّ رَبِّیۡ لَطِیۡفٌ لِّمَا یَشَآءُ) (۱۲۔۱۰۰) بے شک میرا پروردگار جو کچھ چاہتا ہے حسن تدبیر سے سرانجام دیتا ہے۔ چنانچہ دیکھیے کہ یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں نے کنویں میں ڈال دیا تھا مگر اﷲ تعالیٰ نے اپنے لطف و کرم سے انہیں اس مرتبہ تک پہنچادیا اور کبھی ان تحائف کو بھی لطف کہا جاتا ہے جو دوستی بڑھانے کے لیے ایک دوسرے کو دیئے جاتے ہیں۔ اسی لیے آنحضرت ﷺ نے فرمایا (1) (۱۱۰) تَھَادُوْ اتَحَابُّوْا کہ ایک دوسرے کو تحفے بھیجا کرو۔ تو تمہاری آپس میں محبت بڑھ جائے گی۔ اَلْطَفَ فُلَانٌ اَخَاہُ بِکَذَا : فلاں نے اپنے بھائی کے ساتھ کسی چیز کے ذریعہ حسن سلوک کیا۔ (2)
Words | Surah_No | Verse_No |
اللَّطِيْفُ | سورة الأنعام(6) | 103 |
اللَّطِيْفُ | سورة الملك(67) | 14 |
لَطِيْفًا | سورة الأحزاب(33) | 34 |
لَطِيْفٌ | سورة يوسف(12) | 100 |
لَطِيْفٌ | سورة الحج(22) | 63 |
لَطِيْفٌ | سورة لقمان(31) | 16 |
لَطِيْفٌۢ | سورة الشورى(42) | 19 |
وَلْيَتَلَطَّفْ | سورة الكهف(18) | 19 |