اَلْاَکْلُ کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں او رمجازاً اَکَلَتِ النَّارُ الْحَطَبَ کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا دالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اُکُلٌ (بضم کاف و سکون) کہا جاتا ہے ارشاد ہے: (اُکُلُہَا دَآئِمٌ ) (۱۳:۳۵) اس کے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں۔ اَلْاَکْلَۃُ : مرۃ کا صیغہ ہے یعنی ایک مرتبہ کھانا اور اَلْاُکْلۃُ بمعنی لُقْمَۃ ہے۔ اَکِیْلَۃُ الْاَسَدِ شیر کا شکار کیا ہوا جانور جسے وہ کھا جاتا ہے۔ اَلْاَکُوْلَۃُ بکری جو کھانے کے لیے موٹی کی گئی ہو۔ اَلْاَکِیلُْ : ہم پیالہ کو کہتے ہیں اور استعارہ کے طور پر کہا جاتا ہے : فَلَانٌ مؤْکَلٌ وُمُطْعَمٌ (کنایہ مالدار تو نگر) ثَوْبٌ ذُوْ اُکلٍ : سخت بنا ہوا کپڑا، گھنی بناوٹ کا کپڑا۔ التَّمْرُ مَأَکُلَۃٌ لِلْفَمِ : کھجور خوردنی چیز ہے۔ قرآن پاک میں ہے : (ذَوَاتَیۡ اُکُلٍ خَمۡطٍ ) (۳۴:۱۶) او رکبھی اُکُلٌ کا لفظ نصیبہ پر بھی بولا جاتا ہے۔ جیسے فُلَانٌ ذُو اُکُلٍ مِنَ الدُّنْیَا یعنی وہ دنیا سے بہرہ یاب ہے۔ اِسْتَوْفٰی فُلَانٌ اُکُلَہُ کنایہ از موت یعنی رزق پورا لے لیا۔ اَکَلَ فُلَانٌ فُلَانًا اس نے فلاں کی غیبت کی اور یہی معنی اَکَلَ لَحْمَہٗ کے ہیں چنانچہ قرآن میں ہے : (اَیُحِبُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحۡمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا ) (۴۹:۱۲) کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے۔ شاعر نے کہا ہے(1) (طویل) (۲۱) فَاِنْ کُنْتُ مَاکُوْلًا فَکُنْ اَنْتَ اٰکِلِیْ اگر مجھے کھایا جانا ہے تو تم خود ہی کھالو۔ مَاذُقْتُ اُکُلًا میں نے کوئی چیز نہیں کھائی اور چونکہ کھانے کے لیے سب سے زیادہ ضرورت مال کی ہوتی ہے اس لیے اَلْاُکُلٌ کے معنی مال خرچ کرنا بھی آجاتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا : ( لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالۡبَاطِلِ ) (۴:۲۹) ایک دوسرے کا مال ناحق صرف نہ کرو۔ او رآیت (اِنَّ الَّذِیۡنَ یَاۡکُلُوۡنَ اَمۡوَالَ الۡیَتٰمٰی ظُلۡمًا ) (۴:۱۰) میں یتامیٰ کا مال کھانے سے اس کو ناجائز طور پر صرف کرنا مراد ہے اور پھر بعد میں (اِنَّمَا یَاۡکُلُوۡنَ فِیۡ بُطُوۡنِہِمۡ نَارًا ) (۴:۱۰) کہہ کر تنبیہ کی ہے کہ یہ انہیں جہنم میں لے جائے گا۔ اَلْاَکُوْلُ وَاَلْاَکَّالُ (مبالغہ) زیادہ کھانے والا۔ قرآن پاک میں ہے : (اَکّٰلُوۡنَ لِلسُّحۡتِ ) (۵:۴۲) اور (رشوت کا) حرام مال بہت زیادہ کھانے والے ہیں۔ اٰکِلٌ کی جمع اَکَلَۃٌ ہے محاورہ ہے : ھُمْ اَکَلَۃُ رَأسٍ۔ یعنی وہ تعداد میں اتنے کم ہیں کہ (بکری کا) ایک سر ہی انہیں کافی ہے(2) کبھی اَکْلٌ کے معنی خراب کرنا بھی آجاتے ہیں (یعنی کھانے کے بعد جو خراب سارہ جاتا ہے) جیسے فرمایا : کَعَصْفٍ مَّاْکُوْلٍ : یعنی کھایا ہوا بھس۔ تَاَکَّلَ کَذَا : کسی چیز کا خراب ہوجانا اَصَابَہٗ اُکَالٌ فِیْ رَاْسِہٖ وَفِیْ اَسْنَانِہٖ سر کا کھجلی اور دانتوں کا خوردہ سے خراب ہوجانا واکلنی رأسی یعنی میرے سر کے بال جھڑ گئے میکائیل ایک فرشتے کا نام ہے اور وہ عربی لفظ نہیں ہے۔
Words | Surah_No | Verse_No |
يَاْكُلُوْنَ | سورة يس(36) | 33 |
يَاْكُلُوْنَ | سورة يس(36) | 72 |
يَاْكُلٰنِ | سورة المائدة(5) | 75 |
يَّاْكُلُهُنَّ | سورة يوسف(12) | 43 |
يَّاْكُلُهُنَّ | سورة يوسف(12) | 46 |
يَّاْكُلْنَ | سورة يوسف(12) | 48 |
يَّاْكُلَ | سورة الحجرات(49) | 12 |
يَّاْكُلَهُ | سورة يوسف(12) | 13 |
يَّاْكُلُ | سورة الفرقان(25) | 8 |