اَلْیَأْسُ: (مصدر س) کے معنی ناامید ہونے کے ہیں۔ اور یَئِسَ (مجرد) وَاِسْتَیْئَاسَ (استفعال) دونوں ہم معنی ہیں جیسے عَجَبَ فَاسْتَعْجَبَ وَسَخِرَ وَاسْتَسْخَرَ قرآن پاک میں ہے: (فَلَمَّا اسۡتَیۡـَٔسُوۡا مِنۡہُ خَلَصُوۡا نَجِیًّا) (۱۲:۸۰) جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے۔ (حَتّٰۤی اِذَا اسۡتَیۡـَٔسَ الرُّسُلُ ) (۱۲:۱۱۰) یہاں تک کہ جب پیغمبر ناامید ہوگئے۔ (قَدۡ یَئِسُوۡا مِنَ الۡاٰخِرَۃِ کَمَا یَئِسَ الۡکُفَّارُ مِنۡ اَصۡحٰبِ الۡقُبُوۡرِ) (۶۰:۱۳) جس طرح کافروں کو مُردوں (کے جی اٹھنے) کی امید نہیں اسی طرح ان لوگوں کو بھی آخرت (کے آنے) کی امید نہیں۔ اِنَّہٗ لَیَئُوْسٌ کَفُوْرٌ: تو ناامید (اور) ناشکرا (ہوجاتا) ہے۔ اور آیت کریمہ: (اَفَلَمۡ یَایۡـَٔسِ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا) (۱۳:۳۱) تو کیا مومنوں کو اس سے اطمینان نہیں ہے۔ کی تفسیر میں بعض نے لکھا ہے کہ یہاں اس کے معنی اَفَلَمْ یَعْلَمْ کے ہیں یعنی کیا انہوں نے اس بات کو جان نہیں لیا مگر اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ یہ اس کے حقیقی معنی ہیں بلکہ یہ اس کے لازم معنی ہیں کیونکہ کسی چیز کے انتفاء کا علم اس سے ناامید ہونے کو مستلزم ہوتا ہے لہٰذا یہاں بھی (بلحظ قرائن) یہ کہہ سکتے ہیں۔ کہ یَیْئَسُ بمعنی یَعْلَمُ ہے۔
Words | Surah_No | Verse_No |
اسْتَيْــــَٔـسَ | سورة يوسف(12) | 110 |
اسْتَيْـــَٔـسُوْا | سورة يوسف(12) | 80 |
تَايْـــــَٔـسُوْا | سورة يوسف(12) | 87 |
فَيَــــُٔـــوْسٌ | سورة حم السجدہ(41) | 49 |
لَيَـــُٔــوْسٌ | سورة هود(11) | 9 |
يَايْــــــَٔـسِ | سورة الرعد(13) | 31 |
يَايْـــــَٔـسُ | سورة يوسف(12) | 87 |
يَـــــُٔوْسًا | سورة بنی اسراءیل(17) | 83 |
يَىِٕسَ | سورة المائدة(5) | 3 |
يَىِٕسَ | سورة الممتحنة(60) | 13 |
يَىِٕسُوْا | سورة العنكبوت(29) | 23 |
يَىِٕسُوْا | سورة الممتحنة(60) | 13 |
يَىِٕسْنَ | سورة الطلاق(65) | 4 |