اَلسَّوَادُ: (ضد بیاض) سیاہ رنگ کو کہتے ہیں۔اور اِسْوَدَّ (افعال) وَاِسْوَادَّ (افعیلال) کے معنیٰ کسی چیز کے سیاہ ہونے کے ہیں۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے: (یَّوۡمَ تَبۡیَضُّ وُجُوۡہٌ وَّ تَسۡوَدُّ وُجُوۡہٌ ) (۳:۱۰۶) جس دن بہت سے منہ سفید ہوں گے اور بہت سے سیاہ۔ تو چہروں کے سفید ہونے سے اظہار مسرت اور سیاہ ہونے سے مراد اظہار غم ہے اسی طرح آیت: (وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمۡ بِالۡاُنۡثٰی ظَلَّ وَجۡہُہٗ مُسۡوَدًّا وَّ ہُوَ کَظِیۡمٌ ) (۱۶:۵۸) حالانکہ جب ان میں سے کسی کو بیٹی (کے پیدا ہونے) کی خوشخبری ملتی ہے تو اس کا منہ (غم کے سبب) کالا پڑ جاتا ہے اور (اس کے دل کو دیکھو تو) وہ اندوہناک ہوجاتا ہے۔ میں بھی مُسْوَدًّا سے بھی مغموم ہونا مراد ہے۔ بعض نے آیت: (تَبْیَضُّ) میں حسِّیْ سفیدی اور سیاہی کے معنیٰ مراد لئے ہیں۔ لیکن پہلا معنیٰ زیادہ بہتر ہے۔ کیونکہ یہ چیز تو قیامت کے دن اعمال کے اعتبار سے حاصل ہوگی عام اس سے کہ وہ دنیا میں سیاہ فام ہوں یا سفید فام اور اسی سفیدی اور سیاہی کو دوسری آیات میں یوں فرمایا: (وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ ) (۷۵:۲۲) اس دن بہت سے منہ رونق دار ہوں گے۔ (وَ وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍۭ بَاسِرَۃٌ ) (۷۵:۲۴) اور بہت سے منہ اس روز اداس ہوں گے۔ (وَ وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍ عَلَیۡہَا غَبَرَۃٌ … تَرۡہَقُہَا قَتَرَۃٌ ) (۸۰:۴۰،۴۱) اور کتنے منہ ہوں گے جن پر گرد پڑرہی ہوگی (اور سیاہی چڑھ رہی ہوگی) ۔ (وَ تَرۡہَقُہُمۡ ذِلَّۃٌ ؕ مَا لَہُمۡ مِّنَ اللّٰہِ مِنۡ عَاصِمٍ ۚ کَاَنَّمَاۤ اُغۡشِیَتۡ وُجُوۡہُہُمۡ قِطَعًا مِّنَ الَّیۡلِ مُظۡلِمًا) (۱۰:۲۷) اور ان کے منہ پر ذلت چھا جائے گی اور کوئی ان کو خدا سے بچانے والا نہ ہوگا ان کے مونہوں (کی سیاہی) کا یہ عالم ہوگا کہ ان پر گویا اندھیری رات کے ٹکڑے اوڑھا دئیے گئے ہیں۔ اسی طرح مومنین کے متعلق حدیث میں آیا ہے۔ (1) (۱۸۰) یُحْشَرُوْنَ غُرًّا مُّحَجَّلِیْنَ مِنْ اٰثَارِ الْوُضُوئِ کہ قیامت کے دن آثار وضو سے ان کے ہاتھ پاؤں اور چہرے چمک رہے ہوں گے۔ اور دور سے جو چیز نظر پڑے اسے بھی سَواَد کہا جاتا ہے اسی طرح آنکھ کی سیاہی کو بھی سَوادُ الْعَیْنِ سے تعبیر کرلیتے ہیں۔ جیساکہ کسی نے کہا ہے لَایُفَارِقُ سَوادِیْ سوَادَہٗ میری آنکھ اس کے شخص سے جدا نہیں ہوتی اور بڑی جماعت کو بھی سَوادٌ کہا جاتا ہے۔ جیساکہ مروی ہے۔ (2) عَلَیْکُمْ بِالسَّوَادِ الْاَعْظَمِ: مسلمانوں کی بڑی جماعت کا ساتھ نہ چھوڑو (نہ اس سے علیحدگی اختیار کرو) اور سَیِّدٌ کے معنیٰ بڑی جماعت کا سردار کے ہیں چنانچہ اضافت کے وقت سَیِّدُ الْقَوْمِ تو کہا جاتا ہے۔ مگر سَیِّدُ الثَّوبِ یَا سَیّدُ الْفَرَسِ نہیں بولا جاتا اور اسی سے سَادَ الْقَومَ یَسُوْدُھُمْ کا محاورہ ہے چونکہ قوم کے رئیس کا مہذب ہونا شرط ہے اس اعتبار سے ہر فاضل النفس آدمی کو سَیِّدٌ کہا جاتا ہے چنانچہ آیت: (وَ سَیِّدًا وَّ حَصُوۡرًا) (۳:۳۹) اور سردار ہوں گے اور عورت سے رغبت نہ رکھنے والے۔ میں بھی سَیِّدٌ کا لفظ اسی معنیٰ پر محمول ہے۔ اور آیت (وَّ اَلۡفَیَا سَیِّدَہَا) (۱۲:۲۵) اور دونوں کو … عورت کا خاوند مل گیا۔ میں خاوند کو سید کہا گیا ہے کیونکہ وہ بیوی کا نگران اور منتظم ہوتا ہے۔ اور آیت: (رَبَّنَاۤ اِنَّاۤ اَطَعۡنَا سَادَتَنَا وَ کُبَرَآءَنَا) (۳۳:۶۷) اے ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑے لوگوں کا کہا مانا۔ میں سَدَتَنَا سے ولاۃ اور حکام مراد ہیں۔
Words | Surah_No | Verse_No |
اسْوَدَّتْ | سورة آل عمران(3) | 106 |
الْاَسْوَدِ | سورة البقرة(2) | 187 |
سَادَتَنَا | سورة الأحزاب(33) | 67 |
سَيِّدَهَا | سورة يوسف(12) | 25 |
سُوْدٌ | سورة فاطر(35) | 27 |
مُسْوَدًّا | سورة النحل(16) | 58 |
مُسْوَدًّا | سورة الزخرف(43) | 17 |
مُّسْوَدَّةٌ | سورة الزمر(39) | 60 |
وَسَيِّدًا | سورة آل عمران(3) | 39 |
وَّتَسْوَدُّ | سورة آل عمران(3) | 106 |