Blog
Books
Search Hadith

باب سوم: قریش کے خصالٔص اور ان کے حق میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دعا کا بیان

227 Hadiths Found
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ ام ہانی بنت ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو نکاح کا پیغام بھیجا، لیکن انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں عمر رسیدہ ہوچکی ہوں اور میری کفالت میں بچے بھی ہیں، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بہترین عورتیں جو اونٹ کی سواری کرتی ہیں، وہ قریشی خواتین ہیں، یہ اولاد پر ان کے بچپنے میں ازحد مہربان اور خاوندوں کے اموال کی بہت زیادہ حفاظت کرتی ہیں۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: سیدہ مریم بنت عمران نے اونٹ پر کبھی سواری نہیں کی۔

Haidth Number: 12552
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بہترین عورتیں جو اونٹوں پر سوار ہوتی ہیں، وہ قریش کی نیک خواتین ہیں، جو اپنی اولاد کے بچپنے میں اس کا بہت خیال رکھنے والی اور اپنے خاوندوں کے مال و منال کی حفاظت کرنے والی ہیں۔

Haidth Number: 12553
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر قوم کے کچھ معاون ہوتے ہیں، قریش کے معاون ان کے حلیف (یا غلام) ہیں۔

Haidth Number: 12554
دوسری سند) نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ’ہر قوم کا ایک معاون ہوتا ہے، قریش کے معاون ان کے حلیف (یا غلام) ہیں۔

Haidth Number: 12555
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے ،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی، جب تک لوگ مساجد کے سلسلے میں ایک دوسرے پر فخر کا اظہار نہیں کرنے لگیں گے۔

Haidth Number: 12900
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے ،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی، جب تک اس طرح نہ ہو جائے کہ علم اٹھ جائے گا،جہالت عام ہوجائے گی، مردوں کی تعداد کم اور عورتوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہوجائے گی کہ پچاس پچاس عورتوں پر ایک ایک مرد نگران ہوگا۔

Haidth Number: 12901
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی، جب تک کہ لوگوں پر بھرپور اور عام بارش نہیں برسے گی، لیکن زمین کوئی چیز نہیں اگائے گی۔

Haidth Number: 12902
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی، جب تک زمین میں اللہ، اللہ کہنا ختم نہ ہو جائے۔

Haidth Number: 12903

۔ (۱۳۱۰۵)۔ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((اِنِّیْ لَاَوَّلُ النَّاسِ تَنْشَقُّ الْاَرْضُ عَنْ جُمْجُمَتِیْیَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا فَخْرَ وَاُعْطٰی لِوَائَ الْحَمْدِ وَلَافَخْرَ، وَاَنَا سَیِّدُ النَّاسِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَافَخْرَ، وَاَنَا اَوَّلُ مَنْ یَّدْخُلُ الْجَنَّۃَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَافَخْرَ، وَاِنِّیْ آتِیْ بَابَ الْجَنَّۃِ فَآخُذُ بِحَلْقَتِہَا، فَیَقُوْلُوْنَ: مَنْ ھٰذَا؟ فَاَقُوْلُ: اَنَا مُحَمَّدٌ، فَیَفْتَحُوْنَ لِیْ، فَاَدْخُلُ فَاِذَا الْجَبَّارُ عَزَّوَجَلَّ مُسْتَقْبِلِیْ، فَاَسْجُدُ لَہُ، فَیَقُوْلُ: اِرْفَعْ رَاْسَکَ یَامُحَمَّدُ! وَتَکَلَّمْ یُسْمَعْ مِنْکَ وَقُلْ یُقْبَلُ مِنْکَ وَاشْفَعْ تُشَفَّعُ، فَاَرْفَعُ رَاْسِیْ، فَاَقُوْلُ: اُمَّتِیْ اُمَّتِیْیَارَبِّ! فَیَقُوْلُ: اِذْھَبْ اِلٰی اُمَّتِکَ فَمَنْ وَجَدْتَّ فِیْ قَلْبِہِ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِنْ شَعِیْرٍ مِنَ الْاِیْمَانِ، فَاَدْخِلْہُ الْجَنَّۃَ فَاُقْبِلُ فَمَنْ وَجَدْتُّ فِیْ قَلْبِہِ ذٰلِکَ، فَاُدْخِلُہُ الْجَنَّۃَ فَاِذَا الْجَبَّارُ عَزَّوَجَلَّ مُسْتَقْبِلِیْ فَاَسْجُدُ لَہُ، فَیَقُوْلُ: اِرْفَعْ رَاْسَکَ یَامُحَمَّدُ! وَتَکَلَّمْ یُسْمَعْ مِنْکَ وَقُلْ یُقْبَلْ مِنْکَ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ فَاَرْفَعُ رَاْسِیْ، فَاَقُوْلُ: اُمَّتِیْ اُمَّتِیْ اَیْ رَبِّ! فَیَقُوْلُ اِذْھَبْ اِلٰی اُمَّتِکَ فَمَنْ وَجَدْتَّ فِیْ قَلْبِہٖنِصْفَحَبَّۃٍ مِّنْ شَعِیْرٍ مِّنَ الْاِیْمَانِ فَاَدْخِلْہُمُ الْجَنَّۃَ، فَاَذْھَبُ فَمَنْ وَجَدْتُّ فِیْ قَلْبِہِ مِثْقَالَ ذٰلِکَ اُدْخِلُہُمُ الْجَنَّۃَ، فَاِذَا الْجَبَّارُ عَزَّوَجَلَّ مُسْتَقْبِلِیْ فَاَسْجُدُ لَہُ فَیَقُوْلُ: اِرْفَعْ رَاْسَکَ یَامُحَمَّدُ! وَتَکَلَّّمْ یُسْمَعْ مِنْکَ وَقُلْ یُقْبَلْ مِنْکَ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَاَرْفَعُ رَاْسِیْ، فَاَقُوْلُ: اُمَّتِیْ اُمَّتِیْ فَیَقُوْلُ اِذْھَبْ اِلٰی اُمَّتِکَ، فَمَنْ وَجَدْتَّ فِیْ قَلْبِہِ مِثَقْالَ حَبَّۃٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِّنَ الْاِیْمَانِ فَاَدْخِلْہُ الْجَنَّۃَ، فَاَذْھَبُ فَمَنْ وَجَدْتُّ فِیْ قَلْبِہِ مِثْقَالَ ذٰلِکَ اَدْخَلْتُہُمُ الْجَنَّۃَ وَفَرَغَ اللّٰہُ مِنْ حِسَابِ النَّاسِ وَاَدْخَلَ مَنْ بَقِیَ مِنْ اُمَّتِیَ النَّارَ مَعَ اَھْلِ النَّارِ فَیَقُوْلُ اَھْلُ النَّارِ: مَا اَغْنٰی عَنْکُمْ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ، لَاتُشْرِکُوْنَ بِہٖشَیْئًا، فَیَقُوْلُ الْجَبَّارُعَزَّوَجَلَّ: فَبِعِزَّتِیْ لَاُعْتِقَنَّھُمْ مِنَ النَّارِ، فَیُرْسِلُ اِلَیْہِمْ فَیَخْرُجُوْنَ وَقَدِ امْتُحِشُوْا فَیُدْخَلُوْنَ فِیْ نَہْرِ الْحَیَاۃِ فَیَنْبُتُوْنَ فِیْہِ کَمَا تَنْبُتُ الْحَبَّۃُ فِیْ غُثَائِ السَّیْلِ وَیُکْتَبُ بَیْنَ اَعْیُنِہِمْ ہٰؤُلَائِ عُتَقَائُ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فَیُذْھَبُ بِہِمْ فَیَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ فَیَقُوْلُ لَھُمْ اَھْلُ الْجَنَّۃِ: ھٰؤُلَائِ الْجَہَنَّمِیُّوْنَ، فَیَقُوْلُ الْجَبَّارُ: بَلْ ھٰؤُلَائِ عُتَقَائُ الْجَبَّارِ عَزَّوَجَلَّ۔)) (مسند احمد: ۱۲۴۹۶)

سیدنا انس بن مالک سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن سب سے پہلے میرے وجود سے زمین پھٹے گی اور اس بات پر مجھے فخر نہیں ہے، قیامت کے دن مجھے حمد کا جھنڈا دیا جائے گا اور میں اس پر فخر نہیں کرتا، قیامت کے دن میں سب لوگوں کا سردار ہوں گا، اس پر بھی فخر نہیں کرتا اور قیامت کے دن میں ہی سب سے پہلے جنت میں جاؤں گا اور اس پر بھی مجھے فخر نہیں ہے، میںجنت کے دروازے پر جا کر اس کے کڑے کو پکڑوں گا، وہ پوچھیں گے کہ کون ہے؟ میں کہوں گا: میں محمد ہوں، پس وہ میرے لیے جنت کا دروازہ کھول دیں گے، جب میںجنت کے اندر داخل ہوں گا تو اللہ تعالیٰ میرے سامنے ہوگا، میں اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجاؤں گا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا:اے محمد! اپنا سر اٹھاؤ، کہو تمہاری بات سنی جائے گی، کہو تمہاری بات قبول کی جائے گی، سفارش کرو تمہاری سفارش قبول کی جائے گی،چنانچہ میں سجدہ سے اپنا سر اٹھا کر کہوں گا:اے رب! میری امت، میری امت۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تم اپنی امت کی طرف جاؤ اور جس آدمی کے دل میں جو کے برابر بھی ایمان ہو، اسے جنت میں لے آؤ، میں آکر جس جس آدمی کے دل میں اتنا ایمان پاؤں گا اسے جنت میں داخل کردوں گا، پھر جب اللہ تعالیٰ میرے سامنے آئے گا تو میں اس کے سامنے سجدے میں گر پڑوں گا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے محمد! سر اٹھاؤ،کہوتمہاری بات سنی جائے گی،بات کرو، تمہاری بات مقبول ہوگی، سفارش کرو، تمہاری سفارش قبول ہوگی، سو میں سجدہ سے سر اٹھا کر کہوں گا: اے رب! میری امت، میری امت، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تم اپنی امت کی طرف جاؤ اورجس کے دل میں نصف جو کے برابر بھی ایمان پاؤ، اسے جنت میں لے آؤ، چنانچہ میں جا ؤں گا اور جن لوگوں کے دلوں میں اتنا ایمان پاؤں گا، ان کو جنت میں لے آؤں گا۔ پھر اللہ تعالیٰ میرے سامنے ہوگا اور میں پھر اس کے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤں گا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھاؤ، کہو تمہاری بات سنی جائے گی، کہو تمہاری بات مقبول ہو گی،سفارش کرو، تمہاری قبول کی جائے گی،میں سجدہ سے سر اٹھا کر عرض کروں گا: اے رب! میری امت، میری امت۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تم اپنی امت کی طرف جاؤ اورجس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان پاؤ، اسے جنت میں لے آؤ۔ پس میں جس جس کے دل میں اتنا ایمان پاؤں گا، اسے جنت میں لے آؤں گا، اُدھر اللہ تعالیٰ لوگوں کے محاسبہ سے فارغ ہوکر میری امت کے باقی لوگوں کو جہنمیوں کے ساتھ جہنم میں داخل کر چکا ہوگا، لیکن اہل جہنم ان سے کہیں گے: تم تو صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کرتے تھے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے، لیکن تمہیں اس بات کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ تب اللہ تعالیٰ فرمائے گا: مجھے اپنی عزت کی قسم: میں ان لوگوں کو ضرور بالضرور جہنم سے آزاد کروں گا، پھر اللہ تعالیٰ فرشتوں کو ان کی طرف بھیجے گا، چنانچہ ان کو جہنم سے نکالا جائے گا، جبکہ وہ جل جل کر سیاہ ہو چکے ہوں گے، پھر ان کو نہر حیات میں ڈالا جائے گا، وہ وہاں اس طرح اگ آئیں گے، جیسے سیلاب کے پتے تنکوں اور جھاگ وغیرہ میں دانے اگتے ہیں، ان کی آنکھیں کے درمیان یعنی ان کی پیشانیوں پر لکھا ہوا ہوگا کہ یہ بندے اللہ تعالیٰ کے آزاد کیے ہوئے ہیں، پھر انہیں جنت میں داخل کردیا جائے گا، اہل جنت ان جہنم والے کہیں گے، لیکن اللہ تعالیٰ فرمائے گا:نہیں، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے آزاد کردہ ہیں۔

Haidth Number: 13105
سیدناعمران بن حصین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کر یم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی شفاعت کی وجہ سے جہنم سے ایک قوم کو نکالا جائے گا، ان کو جہنمی کے نام سے پکارا جائے گا۔

Haidth Number: 13106
سیدنا حذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے ،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سفارش کرنے والوں کی سفارش کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ ایک گروہ کو جہنم سے نکالے گا، جو سڑچکے ہوں گے اور آگ نے انہیں جلا کر سیاہ کر دیا ہوگا، پھر ان کو جنت میں داخل کر دے گا، ان کو جہنمی کا نام دیا جائے گا۔ راویٔ حدیث حجاج نے جہنمیوں کی بجائے لفظ جہنمیین کہا ہے۔

Haidth Number: 13107
۔ (دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جہنم سے بعض لوگوں کو نکالا جائے گا، جبکہ آگ نے جلا جلا کر ان کو کالا سیاہ کر دیا ہوگا، انہیں جہنمی کہا جائے گا۔

Haidth Number: 13108

۔ (۱۳۲۳۸)۔ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنِّیْ لَاَعْرِفَ آخِرَ اَھْلِ النَّارِ خُرُوْجًا مِّنَ النَّارِ، رَجُلٌ یَخْرُجُ مِنْہَا زَحْفًا فَیُقَالُ لَہُ: اِنْطَلِقْ فَادْخُلِ الْجَنَّۃَ، قَالَ: فَیَذْھَبُیَدْخُلُ فَیَجِدُ النَّاسَ، قَدْ اَخَذُوا الْمَنَازِلَ، قَالَ: فَیَرْجِعُ، فَیَقُوْلُ: یَا رَبِّّ! قَدْ اَخَذَ النَّاسُ الْمَنَازِلَ، قَالَ: فَیُقَالُ لَہُ: اَتَذْکُرُ الزَّمَانَ الَّذِیْ کُنْتَ فِیْہِ؟ قَالَ: فَیَقُوْلُ: نَعَمْ، قَالَ: فَیُقَالُ لَہُ: تَمَنَّہْ، فَیَتَمَنّٰی فَیُقَالُ: اِنَّ لَکَ الَّذِیْ تَمَنَّیْتَ وَعَشَرَۃَ اَضْعَافِ الدُّنْیَا قَالَ: فَیَقُوْلُ: اَتَسْخَرُ وَاَنْتَ الْمَلِکُ۔)) قَالَ: فَلَقَدْ رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ضَحِکَ حَتّٰی بَدَتْ نَوَاجِذُہُ۔ (مسند احمد: ۳۵۹۵)

سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی سب سے آخر میں جہنم سے رہا ہو کر آئے گا، میں اسے پہچانتا ہوں، وہ آدمی گھسٹ کر وہاں سے نکلے گا، اس سے کہا جائے گا: جا اورجنت میں داخل ہو جا، لیکن جب وہ جنت میں داخل ہو گا تو وہ دیکھے گا کہ سب لوگ اپنے مقامات میں سکونت پذیر ہیں (اور کوئی جگہ باقی نہیں رہی)، اس لیے وہ واپس آ جائے گا اور کہے گا: اے میرے رب! جنت میں تو لوگ اپنی اپنی منزلوں میں رہ رہے ہیں۔ اس سے کہا جائے گا: کیا تجھے دنیا والا زمانہ یاد ہے، جس میں تو رہتا تھا؟ وہ کہے گا: جی ہاں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس سے کہاجائے گا: تو تمنا کر، چنانچہ وہ تمنا کرے گا پھراسے کہا جائے گا:تو نے جو تمنا کی ہے، وہ بھی تیرے لیے ہے اور دنیا کا دس گنا بھی تجھے ملے گا۔ وہ کہے گا: اے اللہ! تو توبادشاہ ہے، پھر بھی مجھ سے مذاق کرتا ہے۔ اس وقت رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس قدر مسکرائے کہ آپ کی داڑھیں نمایاں ہوگئیں۔

Haidth Number: 13238

۔ (۱۳۲۳۹)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ) قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ آخِرَ اَھْلِ الْجَنَّۃِ دُخُوْلًا الْجَنَّۃَ وَآخِرَ اَھْلِ النَّارِ خُرُوْجًا مِنَ النَّارِ رَجُلٌ یَخْرُجُ مِنَ النَّارِ حَبْوًا، فَیَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ لَہُ: اِذْھَبْ فَادْخُلِ الْجَنَّۃَ، فَیَاْتِیْہَا فَیُخَیَّلُ اِلَیْہِ اَنَّہَا مَلْاٰی، فَیَقُوْلُ: یَا رَبِّ! وَجَدْتُّہَا مَلْاٰی، فَیَقُوْلُ: اِذْھَبْ فَادْخُلِ الْجَنَّۃَ، فَیَاْتِیْہَا فَیُخَیَّلُ اِلَیْہِ اَنَّہَا مَلْاٰی، فَیَرْجِعُ فَیَقُوْلُ: یَارَبِّ! قَدْ وَجَدْتُّہَا مَلْاٰی، فَیَقُوْلُ: اِذْھَبْ فَادْخُلِ الْجَنَّۃَ، فَیَاْتِیْہَا فَیُخَیَّلُ اِلَیْہِ اَنَّہَا مَلْاٰی، فَیَرْجِعُ اِلَیْہِ، فَیَقُوْلُ: یَارَبِّ! وَجَدْتُّہَا مَلْاٰی، ثَلَاثًا، فَیَقُوْلُ: اِذْھَبْ فَاِنَّ لَکَ مِثْلَ الدُّنْیَا وَعَشْرَۃَ اَمْثَالِھَا اَوْ وَعَشْرَۃَ اَمْثَالِ الدُّنْیَا، قَالَ: فَیَقُوْلُ: رَبِّ اَتَضْحَکُ مِنِّیْ وَاَنْتَ الْمَلِکُ۔ قَالَ: وَکَانَ یُقَالُ: ہٰذَا اَدْنٰی اَھْلِ الْجَنَّۃِ مَنْزِلَۃً۔)) (مسند احمد: ۴۳۹۱)

۔ (دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اہل جنت میں سے سب سے آخر میں جنت میں جانے والا اور سب سے آخر میں جہنم سے نکلنے والا آدمی وہ ہے جو گھسٹتا ہوا جہنم سے نکلے گا، اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: جا جنت میں چلا جا۔ وہ وہاں آکر یوں محسوس کرے گا کہ جنت تو بھری ہوئی ہے، وہ کہے گا: اے میرے ربّ! یہ تو ساری بھری ہوئی ہے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو جا جنت میں داخل ہوجا، وہ اسے پہلے کی طرح بھری ہوئی سمجھ کر واپس آجائے گا اور کہے گا: اے میرے رب! وہ تو مکمل طور پر بھری ہوئی ہے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو جا اورجنت میں داخل ہو جا، لیکن وہ آکر پھر یہی محسوس کرے گا کہ جنت تو بھری ہوئی ہے۔ وہ پھر واپس آکر عرض کرے گا:اے میرے رب! جنت تو مکمل طور پر بھری ہوئی ہے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو جا، تیرے لیے جنت میں پوری دنیا بلکہ اس سے دس گنا زیادہ جگہ موجود ہے، وہ کہے گا: اے میرے رب! کیا تو مجھ سے مذاق کرتا ہے، حالانکہ تو تو بادشاہ ہے۔ سیدنا ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ کہا جاتا تھا کہ یہ شخص سب سے کم تر جنتی ہو گا۔

Haidth Number: 13239

۔ (۱۳۲۴۰)۔ وَعَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّ آخِرَ مَنْ یَدُخُلُ الْجَنَّۃَ رَجُلٌ یَمْشِیْ عَلٰی الصِّرَاطِ فَیَنْکِبُ مَرَّۃً وَیَمْشِیْ مَرَّۃً وَتَسْفَعُہُ النَّارُ مَرَّۃً فَاِذَا جَاوَزَ الصِّرَاطَ اِلْتَفَتَ اِلَیْہَا فَقَالَ: تَبَارَکَ الَّذِیْ نَجَّانِیْ مِنْکَ لَقَدْ اَعْطَانِی اللّٰہُ مَالَمْ یُعْطِ اَحَدًا مِنَ الْاَوَّلِیْنَ وَالْآخِرِیْنَ قَالَ: فَتُرْفَعُ لَہُ شَجَرَۃٌ فَیَنْظُرُ اِلَیْہَا، فَیَقُوْلُ: یَارَبِّ اَدْنِنِیْ مِنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ فَاَسْتَظِلَّ بِظِلِّہَا وَاَشْرَبَ مِنْ مَائِہَا، فَیَقُوْلُ: اَیْ عَبْدِیْ! فَلَعَلِّیْ اِنْ اَدْنَیْتُکَ مِنْہُمَا سَاَلْتَنِیْ غَیْرَھَا؟ فَیَقُوْلُ: لَا، یَارَبِّ وَیُعَاھِدُ اللّٰہَ اَنْ لَّا یَسْاَلَہُ غَیْرَھَا وَالرَّبُّ عَزَّوَجَلَّ یَعْلَمُ اَنَّہُ سَیَسْاَلُہُ لِاَنَّہُ یَرٰی مَالَاصَبَرْ لَہُ یَعْنِیْ عَلَیْہِ فَیُدْنِیْہِ مِنْہَا، ثُمَّ تُرْفَعُ لَہُ شَجَرَۃٌ وَھِیَ اَحْسَنُ مِنْہَا فَیَقُوْلُ: یَا رَبِّ! اَدْنِنِیْ مِنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ فَاَسْتَظِلَّ بِظِلِّہَا وَاَشْرَبَ مِنْ مَائِھَا، فَیَقُوْلُ: اَیْ عَبْدِیْ! اَلَمْ تُعَاھِدْنِیْیَعْنِیْ اَنَّکَ لَا تَسْاَلُنِیْ غَیْرَھَا فَیَقُوْلُ: یَا رَبِّ! ہٰذِہِ، لَا اَسْاَلُکَ غَیْْرَھَا وَیُعَاہِدُہُ وَالرَّبُّ یَعْلَمُ اَنَّہُ سَیَسْاَلُہُ غَیْرَھَا فَیُدْنِیْہِ مِنْہَا، فَتُرْفَعُ لَہُ شَجَرَۃٌ عِنْدَ بَابِ الْجَنَّۃِ ھِیَ اَحْسَنُ مِنْہَا، فَیَقُوْلُ: رَبِّ اَدْنِنِیْ مِنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ اَسْتَظِلُّ بِظِلِّہَا وَاَشْرَبُ مِنْ مَائِہَا، فَیَقُوْلُ: اَیْ عَبْدِیْ اَلَمْ تُعَاھِدْنِیْ اَنَّکَ لَا تَسْاَلُ غَیْرَھَا، فَیَقُوْلُ: یَارَبِّ! ہٰذِہِ الشَّجَرَۃُ، لَااَسْاَلُکَ غَیْرَھَا وَیُعَاھِدُہُ وَالرَّبُّ یَعْلَمُ اَنَّہُ سَیَسْاَلُہُ غَیْرَھَا لِاَنَّہُ یَرٰی مَالَا صَبَرْلَہُ عَلَیْہَا فَیُدْنِیْہِ مِنْہَا، فَیَسْمَعُ اَصْوَاتَ اَھْلِ الْجَنَّۃِ فَیَقُوْلُ: یَارَبِّ! الْجَنَّۃَ اَلْجَنَّۃَ، فَیَقُوْلُ: عَبْدِیْ اَلَمْ تُعَاھِدْنِیْ اَنَّکَ لاَ تَسْاَلُنِیْ غَیْرَھَا؟ فَیَقُوْلُ: یَارَبِّ اَدْخِلْنِیَ الْجَنَّۃَ، قَالَ: فَیَقُوْلُ عَزَّوَجَلَّ: مَا یَصْرِیْنِیْ مِنْکَ اَیْ عَبْدِیْ، اَیُرْضِیْکَ اَنْ اُعْطِیَکَ مِنَ الْجَنَّۃِ الدُّنْیَا وَمِثْلَہَا مَعَہَا، قَالَ: فَیَقُوْلُ: اَتَہْزَأُ بِیْ وَاَنْتَ رَبُّ الْعِزَّۃِ۔)) قَالَ: فَضِحَک عَبْدُاللّٰہِ حَتّٰی بَدَتْ نَوَاجِذُہُ، ثُمَّ قَالَ: اَلَا تَسْاَلُوْنِیْ لِمَ ضَحِکْتُ؟ قَالُوْا لَہُ: لِمَ ضَحِکْتَ؟ قَالَ: لِضِحْکِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ قَالَ لَنَا: ((اَلَا تَسْاَلُوْنِیْ لِمَ ضَحِکْتَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((لِضِحْکِ الرَّبِّ حِیْنَ قَالَ: اَتَہْزَاُ بِیْ وَاَنْتَ رَبُّ الْعِزَّۃِ۔)) (مسند احمد: ۳۷۱۴)

سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سب سے آخر میں جنت میں جانے والا پل صراط کے اوپر سے گزرے گا، وہ کبھی گرے گا اور کبھی چلے گا اور کبھی آگ اسے جھلسائے گی، بالآخر جب وہ پل صراط کو پار کر جائے گا تو جہنم کی طرف دیکھ کر کہے گا: وہ اللہ تعالیٰ برکتوں والا ہے، جس نے مجھے تجھ سے نجات دلائی، اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ایسا کرم کیا ہے کہ اس نے اگلوں پچھلوں میں سے کسی پر بھی ایسا کرم نہیں کیا، پھر اسے ایک درخت دکھائی دے گا، چنانچہ وہ اسے دیکھ کر عرض کرے گا: اے میرے ربّ! مجھے اس درخت کے قریب کر دے، تاکہ میں اس کے سایہ میں بیٹھ سکوں اور اس کا پانی پی سکوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے بندے! اگر میں تجھے اس کے قریب کر دوں تو کیا تو مجھ سے اور تو کچھ نہیں مانگے گا؟ وہ کہے گا: اے میرے ربّ! ! میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں تجھ سے اس کے علاوہ مزید کوئی چیز نہیں مانگوں گا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کو علم ہو گا کہ وہ ہر صورت میں اس سے مزید سوال کرے گا، کیونکہ وہ وہاں پہنچنے کے بعد ایسی چیزیں دیکھے گا کہ وہ صبر نہیں کر سکے گا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ اسے اس درخت کے قریب جانے کی اجازت دے دے گا، اس کے بعد اسے ایک اور درخت دکھائی دے گا، جو پہلے درخت سے زیادہ خوبصورت ہوگا، وہ کہے گا: اے میرے ربّ! مجھے اس درخت کے قریب جانے کی اجازت دے دے، تاکہ میں اس کا سایہ حاصل کر سکوں اور وہاں کا پانی پی سکوں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے میرے بندے ! کیا تو نے مجھ سے وعدہ نہیں کیا تھا کہ تو مجھ سے مزید کوئی چیز طلب نہیں کرے گا، وہ کہے گا: اے میرے رب! بس میری یہی گزارش ہے، اسے پورا کر دے، میں اس کے علاوہ تجھ سے کچھ نہیں مانگوں گا، پھر وہ اللہ تعالیٰ سے اس بات کا پختہ عہد کرے گا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کو علم ہو گا کہ وہ عنقریب مزید سوال کرے گا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ اسے اس درخت کے قریب جانے کی اجازت دے دے گا، اس کے بعد اسے جنت کے دروازے کے قریب پہلے درختوںسے زیادہ حسین درخت دکھائی دے گا، وہ کہے گا: اے میرے ربّ! مجھے اس درخت کے قریب جانے کی اجازت دے دے، تاکہ میں اس کے سائے میں آرام کر سکوں اور اس کا پانی پی سکوں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے میرے بندے! کیا تو نے مجھے سے یہ وعدہ نہیں کیا تھا کہ تو مجھ سے مزید سوال نہیں کرے گا؟ وہ کہے گا: اے میرے ربّ! مجھے اس درخت تک جانے کی اجازت دے دے، میں پختہ وعدہ کرتا ہوں کہ میں اس کے بعد تجھ سے مزید کچھ نہیں مانگوں گا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کو تو علم ہے کہ وہ عنقریب مزید سوال کرے گا، کیونکہ وہ ایسی چیزیں دیکھے گا کہ اس سے صبر نہیں ہو سکے گا، بہرحال اللہ تعالیٰ اسے اس درخت کے قریب جانے کی اجازت دے دے گا، جب وہ وہاں پہنچ کر اہل ِ جنت کی آوازیں سنے گا تو عرض کرے گا: اے میرے ربّ!مجھے جنت میں داخل کر دے، جنت میں داخل کر دے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میرے بندے! کیا تو نے مجھ سے وعدہ نہیں کیا تھا کہ تو مجھ سے مزید کوئی چیز نہیں مانگے گا؟ وہ کہے گا: اے میرے رب! بس تو مجھے جنت میں داخل کر دے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: میرے بندے ! کون سی چیز مجھے تجھ سے روک سکتی ہے،کیا تو اس بات پر راضی ہے کہ میں تجھے جنت میں پوری دنیا، بلکہ اس کی مثل ایک اور دنیا بھی دے دوں؟ وہ کہے گا: اے اللہ!تو تو ربّ العزت ہے، میرے ساتھ مذاق کیوں کرتا ہے؟ یہ بات بیان کر کے سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس قدر زور سے ہنسے کہ ان کی داڑھیں نظر آنے لگیں، پھر انھوں نے پوچھا: تم مجھ سے میرے اس قدر زور سے ہنسنے کی وجہ کیوں نہیں پوچھتے؟ ان کے شاگردوں نے کہا: جی بتلائیں کہ آپ کیوں ہنسے ہیں؟ انھوں نے کہا: بات یہ ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ حدیث بیان کر کے ہنسے تھے اور پھر ہم سے فرمایا تھا: تم مجھ سے میرے ہنسنے کی وجہ کیوں نہیں پوچھتے؟ ہم نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول! آپ کیوں ہنسے ہیں؟ تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس بندے نے جب کہا کہ اے اللہ ! تو تو ربّ العزت ہے، تو میرے ساتھ مذاق کیوں کرتا ہے؟ تو اس کی بات سن کر اللہ تعالیٰ مسکرا دیئے۔

Haidth Number: 13240
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: چار آدمیوں کو جہنم سے نکال کر اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کیا جائے گا، اللہ تعالیٰ پھر ان کو جہنم کی طرف واپس لے جانے کا حکم دے گا۔ ان میں سے ایک آدمی اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو کر عرض کرے گا: اے میرے ربّ ! مجھے توا مید تھی کہ جب تو مجھے جہنم سے نکال دے گا تو دوبارہ اس میں نہیں لوٹائے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ٹھیک ہے، ہم تجھے دوبارہ اس میں نہیں بھیجتے۔

Haidth Number: 13241
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک بندہ جہنم میںایک ہزار سال تک ان الفاظ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو پکارتا رہے گا: یَا حَنَّانُ! یَا مَنَّانُ!، بالآخراللہ تعالیٰ جبرائیل علیہ السلام سے فرمائے گا: جاؤ اورمیرے اس بندے کو میرے پاس لے آؤ، جب وہ وہاں جا کر دیکھیں گے کہ جہنمی تو منہ کے بل پڑے رو رہے ہوں گے، وہ واپس آجائیں گے اور آ کر اللہ تعالیٰ کو یہ صورتحال بتائیں گے، لیکن اللہ تعالیٰ فرمائے گا: فلاں جگہ میں پڑے ہوئے میرے بندے کو لے آؤ، پس وہ اسے لا کر اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا کر دیں گے، اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا: اے میرے بندے! تو نے اپنی جگہ اور ٹھکانے کو کیسا پایا؟ وہ عرض کرے گا: اے میرے ربّ! بہت بری جگہ ہے، بدترین ٹھکانہ ہے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: فرشتو! میرے بندے کو وہیں واپس لے جاؤ، وہ عرض کرے گا : اے میرے ربّ! مجھے تو یہ امید نہیں تھی کہ جب تو مجھے جہنم سے نکال لے گا تو دوبارہ اس میں بھیج دے گا، یہ سن کر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میرے بندے کو چھوڑ دو۔

Haidth Number: 13242