Blog
Books
Search Hadith

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

227 Hadiths Found

۔ (۲۰۱)۔عَنْ یَحْیَی بْنِ یَعْمَرَ قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ(ؓ): اِنَّا نُسَافِرُ فِی الْآفَاقِ فَنَلْقٰی قَوْمًا یَقُوْلُوْنَ لَا قَدَرَ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: اِذَا لَقِیْتُمُوْہُمْ فَأَخْبِرُوْہُمْ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ مِنْہُمْ بِرِیْئٌ وَأَنَّہُمْ مِنْہُ بُرَائُ ثَـلَاثًا، ثُمَّ أَنْشَأَ یُحَدِّثُ، بَیْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَجَائَ رَجُلٌ، فَذَکَرَ مِنْ ہَیْئَتِہِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: ((أُدْنُہُ۔)) فَدَنَا، فَقَالَ: ((أدْنُہُ۔)) فَدَنَا، فَقَالَ: ((أدْنُہُ۔)) فَدَنَا حَتَّی کَادَ رُکْبَتَاہُ تَمَسَّانِ رُکْبَتَیْہِ، فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَخْبِرْنِیْ مَا الْاِیْمَانُ أَوْ عَنِ الْاِیْمَانِ؟ قَالَ: ((تُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَمَلَائِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَ تُؤْمِنُ بِالْقَدْرِ۔)) قَالَ سُفْیَانُ: أَرَاہُ قَالَ: ((بِخَیْرِہِ وَ شَرِّہِ۔)) قَالَ: فَمَا الْاِسْلَامُ؟ قَالَ: ((اِقَامُ الصَّلٰوۃِ وَ اِیْتَائُ الزَّکَاۃِ وَحَجُّ الْبَیْتِ وَصِیَامُ شَہْرِ رَمَضَانَ وَ غُسْلٌ مِنَ الْجَنَابَۃِ۔)) کُلَّ ذٰلِکَ قََالَ: صَدَقْتَ صَدَقْتَ، قَالَ الْقَوْمُ: مَا رَأَیْنَا رَجُلًا أَشَدَّ تَوْقِیْرًا لِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ ہٰذَا، کَأَنَّہُ یُعْلِّمُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم، ثُمَّ قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِحْسَانِ، قَالَ: ((أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ۔)) أَوْ ((تَعْبُدُہُ کَأَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَا تَرَاہُ فَاِنَّہُ یَرَاکَ۔)) کُلَّ ذٰلِکَ نَقُوْلُ: مَا رَاَیْنَا رَجُلًا أَشَدَّ تَوْقِیْرًا لِرُسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ ہٰذَا، فَیَقُوْلُ: صَدَقْتَ صَدَقْتَ،قَالَ: أَخْبِرْنِیْ عَنِ السَّاعَۃِ، قَالَ: ((مَا الْمَسْئُوْلُ عَنْہَا بِأَعْلَمَ بِہَامِنَ السَّائِلِ۔))، قَالَ: فَقَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ ذَاکَ مِرَارًا، مَا رَأَیْنَا رَجُلًا أَشَدَّ تَوْقِیْرًا لِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ ہٰذَا، ثُمَّ وَلّٰی، قَالَ سُفْیَانُ: فَبَلَغَنِیْ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((الْتَمِسُوْہُ۔)) فَلَمْ یَجِدُوْہُ،قَالَ: ((ہٰذَا جِبْرِیْلُ جَائَکُمْ یُعَلِّمُکُمْ دِیْنَکُمْ، مَا أَتَانِیْ فِیْ صُوْرَۃٍ اِلَّا عَرَفْتُہُ غَیْرَ ہٰذِہِ الصُّوْرَۃِ۔)) (مسند أحمد: ۳۷۴)

یحییٰ بن یعمر کہتے ہیں: میں نے سیدنا ابن عمر ؓ سے کہا: ہم لوگ مختلف علاقوں کا سفر کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کو ملتے ہیں جو کہتے ہیں کہ کوئی تقدیر نہیں ہے، سیدنا ابن عمر ؓ نے کہا: اب جب تم ان کو ملو تو ان کو یہ بتلا دینا کہ عبد اللہ بن عمر ان سے اور وہ اِن سے بری ہیں، انھوں نے تین دفعہ یہ بات کہی، پھر انھوں نے یہ حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی آیا، پھر اس کی حالت بیان کی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اس سے فرمایا: قریب ہو جا۔ پس وہ قریب ہوا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے پھر فرمایا: مزید قریب ہو جا۔ وہ اور قریب ہو گیا، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اور قریب ہو جاؤ۔ پس وہ اتنا قریب ہو گیا کہ اس کے گھٹنے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے گھٹنوں کو مسّ کرنے لگے، پھر اس بندے نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے بتلائیں کہ ایمان کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تم اللہ تعالی، فرشتوں، کتابوں، رسولوں، آخرت کے دن اور تقدیر، وہ خیر والی ہو یا شرّ والی، پر ایمان لاؤ۔ اس نے کہا: اسلام کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا، رمضان کے روزے رکھنا اور غسلِ جنابت کرنا اسلام ہے۔ ہر دفعہ اس نے جواب میں کہا: آپ سچ فرما رہے ہیں، آپ سچ فرما رہے ہیں۔ لوگوں نے کہا: ہم نے کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا کہ جو اس سے زیادہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی توقیر کرنے والا ہو، لیکن ایسے لگتا ہے کہ یہ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کو تعلیم دے رہا ہے، بہرحال اس نے پھر کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے احسان کے بارے میں بتلائیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کر گویا کہ تو اس کو دیکھ رہا ہے اور اگر تو اس کو نہیں دیکھ رہا تو وہ تو تجھے دیکھ رہا ہے۔ ہر دفعہ ہم کہتے: ہم نے ایسا آدمی نہیں دیکھا جو اس سے زیادہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی توقیر کرنے والا ہو، پھر اس نے کہا: آپ سچ فرما رہے ہیں، آپ سچ فرما رہے ہیں، اچھا اب مجھے قیامت کے بارے میں بتلائیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اس کے بارے میں تو مسئول، سائل سے زیادہ جاننے والا نہیں ہے۔ اس نے کہا: آپ سچ کہہ رہے ہیں، اس نے کئی دفعہ یہ بات کہی، ہم نے اس شخص کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی سب سے زیادہ عزت کرنے والا پایا، پھر وہ چلا گیا۔ سفیان کہتے ہیں: مجھے یہ بات بھی موصول ہوئی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اس کو تلاش کرو۔ لیکن صحابہ اس کو تلاش نہ کر سکے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: یہ جبریلؑ تھے، وہ تم لوگوں کو دین کی تعلیم دینے کے لیے آئے تھے، پہلے تو جس صورت میں آتے تھے، میں اِن کو پہچان لیتا تھا، ما سوائے اس صورت کے، (آج میں اِن کو نہیں پہچان سکا)۔

Haidth Number: 201

۔ (۲۰۲)(وَ عَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ)۔ قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ: اِنَّ عِنْدَنَا رِجَالًا یَزْعُمُوْنَ أَنَّ الْأَمْرَ بِأَیْدِیْہِمْ فَاِنْ شَائُ وْا عَمِلُوْا وَاِنْ شَائُ وْا لَمْ یَعْمَلُوْا، فَقَالَ: أَخْبِرْہُمْ أَنِّیْ مِنْہُمْ بَرِیْئٌ وَأَنَّہُمْ مِنِّیْ بُرَائُ، ثُمَّ قَالَ: جَائَ جِبْرِیْلُ اِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فقَالَ: یَا مُحَمَّدُ! مَاالْاِسْلَامُ؟ فقَالَ: ((تَعْبُدُ اللّٰہَ لَا تُشْرِکُ بِہِ شَیْئًا وَتُقِیْمُ الصَّلَاۃَ وَ تُؤْتِی الزَّکَاۃَ وَتَصُوْمُ رَمَضَانَ وَتَحُجُّ الْبَیْتَ۔)) قَالَ: فَاِذَا فَعَلْتُ ذٰلِکَ فَأَنَا مُسْلِمٌ؟ قَالَ: ((نَعَمْ۔)) قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَمَا الْاِحْسَانُ؟ قَالَ: ((تَخْشَی اللّٰہَ تَعَالٰی کَأَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَا تَکُ تَرَاہُ فَاِنَّہُ یَرَاکَ۔))، قَالَ: فَاِذَا فَعَلْتُ ذٰلِکَ فَأَنَا مُحْسِنٌ؟ قَالَ: ((نَعَمْ۔)) قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَمَا الْاِیْمَانُ؟ قَالَ: ((تُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَ مَـلَائِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ وَالْبَعْثِ مِنْ بَعْدِ الَمَوْتِ وَالْجَنَّۃِ وَالنَّارِ وَالْقَدْرِ کُلِّہِ۔)) قَالَ: فَاِذَا فَعَلْتُ ذٰلِکَ فَأَنَا مُؤْمِنٌ؟ قَالَ: ((نَعَمْ۔)) قَالَ: صَدَقْتَ۔(مسند أحمد: ۵۸۵۶)

۔ (دوسری سند)یحییٰ بن یعمر کہتے ہیں: میں نے سیدنا عبد اللہ بن عمر ؓ سے کہا: ہمارے ہاں ایسے لوگ بھی ہیں، جن کا خیال یہ ہے کہ معاملہ ان کے اختیار میں ہے، پس اگر وہ چاہیں تو عمل کرلیں اور چاہیں تو نہ کریں، آگے سے سیدنا ابن عمرؓ نے کہا: ان کو یہ اطلاع دے دوکہ میں ان سے بری ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں۔ پھر انھوں نے کہا: جبرائیلؑ، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس آئے اور کہا: اے محمد! اسلام کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو، زکاۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو۔ انھوں نے کہا: جب میں یہ امور سر انجام دوں گا تو میں مسلمان ہو جاؤں گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جی ہاں۔ انھوں نے کہا: آپ سچ فرما رہے ہیں۔ پھر انھوں نے پوچھا: احسان کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے اس طرح ڈرو کہ گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو، پس اگر تم نہیں دیکھ رہے تو وہ تو تم کو دیکھ رہا ہے۔ انھوں نے کہا: پس جب میں اس طرح کروں گا، تو کیا میں صاحب ِ احسان ہو جاؤں گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جی ہاں۔ انھوں نے کہا: آپ سچ فرما رہے ہیں، پھر انھوں نے کہا: اچھا یہ بتائیں کہ ایمان کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: تم اللہ تعالی، اس کے فرشتوں، کتابوں، رسولوں، موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے، جنت، جہنم اور ساری تقدیر پر ایمان لاؤ۔ انھوں نے کہا: پس جب میں اس طرح کروں گا تو میں مؤمن بن جاؤں گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جی ہاں۔ انھوں نے کہا: آپ سچ فرما رہے ہیں۔

Haidth Number: 202
ایک روایت میں یہ زائد بات ہے: اور جبریل، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس سیدنا دحیہؓکی شکل میں آتے تھے۔

Haidth Number: 203
۔ (تیسری سند) سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ جبریلؑ نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے کہا: ایمان کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اللہ تعالی، اس کے فرشتوں، کتابوں، رسولوں، آخرت کے دن اور اچھی اور بری تقدیر پر تمہارا ایمان لانا۔ یہ سن کر حضرت جبریل ؑنے کہا: آپ سچ کہہ رہے ہیں، ہمیں اس بات پر بڑا تعجب ہوا کہ یہ سوال بھی کرتا ہے اور تصدیق بھی کرتا ہے، پھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: یہ جبرائیلؑ تھے جو تم کو دین کی نشانیوں کی تعلیم دینے آئے تھے۔

Haidth Number: 204

۔ (۲۰۵) (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ رَابِعٍ)۔أَیْ عَنْ یَحْیٰی بْنِ یَعْمَرَ وَ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمٰنِ الْحِمْیَرِیِّ قَالَ: لَقِیْنَا عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ (ؓ) فَذَکَرْنَا الْقَدْرَ وَمَا یَقُوْلُوْنَ فِیْہِ، فَقَالَ لَنَا: اِذَا رَجَعْتُمْ اِلَیْھِمْ فَقُوْلُوْا: اِنَّ ابْنَ عُمَرَ بَرِیْئٌ وَأَنْتُمْ مِنْہُ بُرَائُ ثَلَاثَ مِرَارٍ، ثُمَّ قَالَ: أَخْبَرَنِیْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِؓ أَنَّہُمْ بَیْنَمَاہُمْ جُلُوْسٌ أَوْ قُعُوْدٌ عِنْدَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جَائَ ہُ رَجُلٌ یَمْشِیْ حَسَنُ الْوَجْہِ حَسَنُ الشَّعْرِ عَلَیْہِ ثِیَابٌ بِیْضٌ، فَنَظَرَ الْقَوْمُ بَعْضُہُمْ اِلٰی بَعْضٍ مَا نَعْرِفُ ہٰذَا وَ مَا ہٰذَا بِصَاحِبِ سَفَرٍ، ثُمَّ قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! آتِیْکَ؟ قَالَ: ((نَعَمْ۔)) فَجَائَ فَوَضَعَ رُکْبَتَیْہِ عِنْدَ رُکْبَتَیْہِ وَ یَدَیْہِ عَلَی فَخَذَیْہِ،(وَسَاقَ الْحَدِیْثَ بِنَحْوِ مَا تَقَدَّمَ فِی الْبَابِ الثَّانِیْ مِنْ کِتَابِ الْاِیْمَانِ وَ فِیْہِ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ بَعْدَ أَنْ ذَہَبَ السَّائِلُ) عَلَیَّ بِالرَّجُلِ، فَطَلَبُوْہُ فَلَمْ یَرَوْا شَیْئًا، فَمَکَثَ یَوْمَیْنِ أَوْ ثَلَاثَۃً، ثُمَّ قَالَ: ((یَا ابْنَ الْخَطَّابِ! أَتَدْرِیْ مَنِ السَّائِلُ عَنْ کَذَا وَ کَذَا؟۔)) قَالَ: اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہُ أَعْلَمُ، قَالَ: ((ذَاکَ جِبْرِیْلُ جَائَ کُمْ یُعَلِّمُکُمْ دِیْنَکُمْ۔)) قَالَ: وَسَأَلَہُ رَجُلٌ مِنْ جُہَیْنَۃَ أَوْ مُزَیْنَۃَ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فِیْمَا نَعْمَلُ، أَفِیْ شَیْئٍ قَدْ خَلَا أَوْ مَضٰی أَوْ فِیْ شَیْئٍ یُسْتَأْنَفُ الْآنَ؟ قَالَ: ((فِیْ شَیْئٍ قَدْ خَلَا أَوْ مَضٰی۔)) فَقَالَ رَجُلٌ أَوْ بَعْضُ الْقَوْمِ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فِیْمَا نَعْمَلُ؟ قَالَ: ((أَھْلُ الْجَنَّۃِ مُیَسَّرُوْنَ لِعَمَلِ أَھْلِ الْجَنَّۃِ وَ أَہْلُ النَّارِ مُیَسَّرُوْنَ لِعَمَلِ أَہْلِ النَّارِ۔)) قَالَ یَحْیٰی: قَالَ ہُوَ ہٰکَذَا یَعْنِیْ کَمَا قَرَأْتَ عَلَیَّ۔ (مسند أحمد: ۱۸۴)

۔ (چوتھی سند)یحییٰ بن یعمر اور حمید حِمْیری کہتے ہیں: ہم سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ کو ملے اور تقدیر کے موضوع پر بات کی اور لوگوں کا نظریہ بھی ذکر کیا، انھوں نے ہمیںکہا: جب تم ان لوگوںکی طرف لوٹو تو ان کو تین بار کہنا کہ ابن عمر تم سے اور تم اس سے بری ہو پھر انھوں نے کہا: سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے مجھے بیان کیا کہ وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اسی اثناء میں ایک آدمی پیدل چلتے ہوئے آ گیا، وہ خوبصورت چہرے والا اور خوبصورت بالوں والا تھا، اس نے سفید کپڑے پہن رکھے تھے، لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر کہنے لگے کہ نہ تو ہم اس آدمی کو جانتے ہیں اور نہ یہ مسافر لگ رہا ہے، پھر اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں آپ کے پاس آ سکتا ہوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جی ہاں۔ پس وہ آیا اور اپنے گھٹنے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے گھٹنوںکے پاس رکھ دیئے اور اپنے ہاتھ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی رانوں پر رکھ دیئے، (پھر کتاب الایمان کے دوسرے باب میں مذکورہ حدیث کی طرح حدیث بیان کی اور اس میں ہے کہ سائل کے چلے جانے کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اس بندے کو میرے پاس لاؤ۔ لوگ اس کو تلاش کرنے کے لیے نکلے، لیکن ان کو کوئی چیز نظر ہی نہ آئی، پھر وہ دو یا تین دن ٹھہرے رہے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اے ابن خطاب! کیا تم جانتے ہو کہ فلاں فلاں چیز کے بارے میں سوال کرنے والا کون تھا؟ انھوں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: یہ جبریلؑ تھے، جو تم کو دین کی تعلیم دینے آئے تھے۔ پھر جہینہ یا مزینہ قبیلے کے ایک آدمی نے سوال کرتے ہوئے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم کس چیز کے مطابق عمل کر رہے ہیں؟ کیا اس چیز کے مطابق جو گزر چکی ہے، یا اس چیز کے مطابق جو از سرِ نو ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اس چیز کے مطابق جو گزر چکی ہے۔ اس آدمی نے یا کسی اور شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! تو پھر عمل کس چیز میں ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جنتیوں کے لیے اہلِ جنت کے عمل کو آسان کر دیا جاتا ہے اور جہنمیوں کے لیے اہلِ جہنم کے عمل کو آسان کر دیا جاتا ہے۔ یحییٰ نے کہا: وہ اسی طرح ہی ہے، یعنی جس طرح تم نے مجھے بیان کیا ہے۔

Haidth Number: 205

۔ (۲۰۶)۔عَنِ ابْنِ الدَّیْلَمِیِّ قَالَ: لَقِیْتُ أُبَیَّ بْنَ کَعْبٍؓ فَقُلْتُ: یَا أَبَا الْمُنْذِرِ! اِنَّہُ قَدْ وَقَعَ فِیْ نَفْسِیْ شَیْئٌ مِنْ ہٰذَا الْقَدْرِ فَحَدِّثْنِیْ بِشَیْئٍ لَعَلَّہُ یَذْہَبُ مِنْ قَلْبِیْ، قَالَ: لَوْ أَنَّ اللّٰہَ عَذَّبَ أَہْلَ سَمٰوَاتِہِ وَ أَہْلَ أَرْضِہِ لَعَذَّبَھُمْ وَھُوَ غَیْرُ ظَالِمٍ لَہُمْ، وَلَوْ رَحِمَہُمْ کَانَتْ رَحْمَتُہُ لَہُمْ خَیْرًا مِنْ أَعْمَالِہِمْ، وَلَوْ أَنْفَقْتَ جَبَلَ أُحُدٍ ذَہَبًا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ مَا قَبِلَہُ اللّٰہُ مِنْکَ حَتَّی تُؤْمِنَ بِالْقَدْرِ وَ تَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُخْطِئَکَ، وَمَا أَخْطَأَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُصِیْبَکَ وَلَوْ مِتَّ عَلٰی غَیْرِ ذٰلِکَ لَدَخَلْتَ النَّارَ، قَالَ: فَأَتَیْتُ حُذَیْفَۃَ فَقَالَ لِیْ مِثْلَ ذٰلِکَ، وَأَتَیْتُ ابْنَ مَسْعُوْدٍ فقَالَ لِیْ مِثْلَ ذٰلِکَ وَ اَتَیْتُ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ فَحَدَّثَنِیْ عَنِ النَّبِیِّ مِثْلَ ذٰلِکَ۔ (مسند أحمد: ۲۱۹۲۲)

ابن دیلمی کہتے ہیں: میں سیدنا ابی بن کعب ؓ کو ملا اور کہا: اے ابو منذر! تقدیر کے بارے میں میرے دل میں وسوسہ سا پیدا ہونے لگا ہے، کوئی ایسی چیز بیان کرو کہ جس سے میرے دل کی یہ کیفیت ختم ہو جائے۔ انھوںنے کہا: اگر اللہ تعالیٰ آسمان اور زمین والوںکو عذاب دینا چاہے تو وہ عذاب دے دے، جبکہ وہ ان کے حق میں ظالم نہیں ہو گا اور ان سب پر رحم کر دے تو اس کی رحمت ان کے لیے ان کے اعمال سے بہتر ہو گی اور اگر تو احد پہاڑ کے بقدر سونا اللہ کے راستے میں خرچ کر دے تو وہ اس کو تجھ سے اس وقت تک قبول نہیں کرے گا، جب تک تو تقدیر پر ایمان نہیں لائے گا اور یہ نہیں جان لے گا کہ جس چیز کے بارے میں یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ وہ تجھے پہنچ کر رہے گی تو وہ تجھ سے تجاوز نہیں کرے گی اور جس چیز کے بارے میں یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ وہ تجھ سے تجاوز کر جائے گی تو وہ تجھ تک نہیں پہنچ پائے گی، اگر تو (تقدیر کے بارے میں) اس عقیدے پر نہ مرا تو تو جہنم میں داخل ہو گا۔ پھر میں سیدنا حذیفہ ؓ کے پاس آیا، انھوں نے بھی مجھے اسی قسم کی بات بیان کر دی، پھر میں سیدنا عبد اللہ بن مسعود ؓ کے پاس آیا، انھوں نے بھی اسی قسم کی بات کہہ دی، پھر میں سیدنا زید بن ثابت ؓ کے پاس آیا اور انھوں نے بھی مجھے اس قسم کی بات نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے حوالے سے بیان کر دی۔

Haidth Number: 206
سیدنا ابو درداءؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌نے فرمایا: ہر چیز کی ایک حقیقت ہوتی ہے اور آدمی ایمان کی حقیقت کو اس وقت تک نہیں پا سکتا جب تک اسے اس چیز کا (پختہ) علم نہ ہو جائے کہ جو چیز (اللہ کی تقدیر کے فیصلے کے مطابق) اسے لاحق ہونی ہے وہ اس سے تجاوز نہیں کر سکتی اور جس چیز نے اس سے تجاوز کرنا ہے وہ اسے لاحق نہیں ہو سکتی۔

Haidth Number: 207

۔ (۲۰۸)۔عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الْوَلِیْدِ بْنِ عُبَادَۃَ حَدَّثَنِیْ أَبِیْ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَی عُبَادَۃَ (یَعْنِی بْنَ الصَّامِتِؓ) وَھُوَ مَرِیْضٌ أَتَخَایَلُ فِیْہِ الْمَوْتَ فَقُلْتُ: یَا أَبَتَاہُ! أَوْصِنِیْ وَاجْتَہِدْ لِیْ فَقَالَ: أَجْلِسُوْنِیْ، قَالَ: یَا بُنَیَّ! اِنَّکَ لَنْ تَطْعَمَ طَعْمَ الْاِیْمَانِ وَلَمْ تَبْلُغْ حَقِیْقَۃَ الْعِلْمِ بِاللّٰہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی حَتَّی تُؤْمِنَ بِالْقَدْرِ خَیْرِہِ وَ شَرِّہِ، قَالَ: قُلْتُ: یَا أَبَتَاہُ! فَکَیْفَ لِیْ أَنْ أَعْلَمَ مَا خَیْرُ الْقَدْرِ وَ شَرُّہُ؟ قَالَ: تَعْلَمُ أَنَّ مَا أَخْطَأَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُصِیْبَکَ وَمَا أَصَابَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُخْطِئَکَ، یَا بُنَیَّ! اِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((اِنَّ اَوَّلَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی الْقَلْمُ، ثُمَّ قَالَ: اکْتُبْ! فَجَرَی فِیْ تِلْکَ السَّاعَۃِ بِمَا ہُوَ کَائِنٌ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔)) یَا بُنَیَّ! اِنْ مِتَّ وَلَسْتَ عَلَی ذٰلِکَ دَخَلْتَ النَّارَ۔ (مسند أحمد: ۲۳۰۸۱)

ولید بن عبادہ کہتے ہیں: میں سیدنا عبادہ بن صامت ؓ کے پاس گیا، جبکہ وہ بیمار تھے اور میرا خیال تھا کہ اس بیماری میں ان کی موت واقع ہو جائے گی، پس میں نے کہا: ابا جان! کوئی وصیت کر دو اور میرے لیے کوشش کرو۔ انھوں نے کہا: مجھے بٹھاؤ، پھر انھوں نے کہا: میرے پیارے بیٹے! تو اس وقت تک نہ ایمان کا ذائقہ نہیں چکھ سکتا ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کی حقیقت کو پہنچ سکتا ہے، جب تک تو اچھی اور بری تقدیر پر ایمان نہیںلائے گا۔ میں نے کہا: ابا جان! میں یہ کیسے جان سکتا ہوں کہ اچھی اور بری تقدیر کیا ہے؟ انھوں نے کہا: جان لے کہ جو چیز تجھ سے تجاوز کر جانے والی ہے، وہ تجھے لاحق نہیں ہو سکتی اور جو چیز تجھے لاحق ہونے والی ہے، وہ تجھ سے تجاوز نہیں کر سکتی۔ اے میرے پیارے بیٹے! میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا: بیشک اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو سب سے پہلے پیدا کیا، وہ قلم ہے، پھر اس نے اسے کہا: تو لکھ، پس وہ چل پڑی اور قیامت تک وقوع پذیر ہونے والے امور لکھ دیئے۔ اے میرے بیٹے! اگر تو اس عقیدے کے بغیر مر گیا تو تو جہنم میں داخل ہو گا۔

Haidth Number: 208
سیدنا عبادہ بن صامت ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے نبی! کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا، اس کی تصدیق کرنا اور اس کے راستے میں جہاد کرنا۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرا ارادہ تو اس سے آسان عمل کا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: صبر وسماحت۔ لیکن اس نے پھر کہا: اے اللہ کے رسول! میرا ارادہ تو اس سے ہلکے عمل کا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: تو پھر اللہ تعالیٰ تیرے بارے میں جو فیصلہ کر دے، اس میں اس کو متّہم نہ ٹھہرانا، (یعنی اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر راضی ہو جانا)۔

Haidth Number: 209
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: بندہ اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا، جب تک اچھی اور بری تقدیر پر ایمان نہیں لاتا۔ ابو حازم نے کہا: اللہ تعالیٰ اس دین پر لعنت کرے کہ میں جس سے بڑا ہوں، ان کی مراد تقدیر کو جھٹلانے پر (ردّ کرنا ہے)۔

Haidth Number: 210
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے جو چیز سنتا تھا، اس کو یاد کرنے کے ارادے سے لکھ لیتا تھا، لیکن قریشیوں نے مجھے ایسا کرنے سے منع کر دیا اور کہا: تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے سنی ہوئی ہر بات لکھ لیتا ہے، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ تو ایک بشر ہیں اور غصے اور خوشی دونوں حالتوں میں گفتگو کرتے رہتے ہیں، چنانچہ میں لکھنے سے رک گیا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کو یہ بات بتلا دی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: تو لکھ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! مجھ سے صرف حق کا صدور ہوتا ہے۔

Haidth Number: 296
مجاہد اور مغیرہ بن حکیم سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے سیدناابو ہریرہ ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی احادیث کومجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا تھا، ما سوائے سیدناعبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ کے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے ہاتھ سے لکھ لیتے تھے اور دل سے یاد کر لیتے تھے، جبکہ میں دل سے یاد کر لیتا تھا اور لکھتا نہیں تھا، انھوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے لکھنے کی اجازت طلب کی تھی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے ان کو اجازت دے دی تھی۔

Haidth Number: 297
۔ (دوسری سند) سیدنا ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی احادیث کو مجھ سے زیادہ جاننے والا کوئی نہیں تھا، ما سوائے سیدنا عبد اللہ بن عمروؓ کے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لکھتے تھے اور میں نہیں لکھتا تھا۔

Haidth Number: 298
یحییٰ بن معین کہتے ہے: امام عبد الرزاق نے مجھ سے کہا: مجھ سے لکھو، اگرچہ ایک حدیث ہی ہو، لیکن میرے پاس کتاب نہیں ہے۔ میں (یحییٰ) نے کہا: جی نہیں، ایک حرف بھی نہیں لکھوں گا۔

Haidth Number: 299
سیدنا ابی بن کعب ؓ سے مروی ہے کہ لوگ یہ جو فتوی دیتے تھے کہ غسل کا پانی، منی کے پانی کے خروج سے ہی استعمال کیا جاتا ہے، یہ رخصت تھا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے ابتدائے اسلام میں اس کی رخصت دی تھی، پھر اس کے بعد ہم کو غسل کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

Haidth Number: 838
۔ (دوسری سند) اس میں ہے: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے کپڑے کم ہونے کی وجہ سے مؤمنوں کو اس چیز کی رخصت دی تھی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اس سے منع کر دیا تھا۔ رخصت سے یہ حدیث مرا د تھی: غسل کا پانی، منی کے پانی کے خروج سے ہی استعمال کیا جاتا ہے۔

Haidth Number: 839

۔ (۸۴۰)۔حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ قَالَ: حَدَّثَنِیْ أَبِیْ قَالَ: ثَنَا یَحْیٰی بْنُ آدَمَ قَالَ: ثَنَا زُہَیْرٌوَابْنُ اِدْرِیْسَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحٰقَ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِی حَبِیْبٍ عَنْ مَعْمَرِ بْنِ أَبِیْ حَبِیبَۃَ عَنْ عُبَیْدِ بْنِ رِفَاعَۃَ بْنِ رَافِعٍ عَنْ أَبِیْہِ، قَالَ زُہَیْرٌ فِی حَدِیْثِہِ رِفَاعَۃَ بْنِ رَافِعٍ وَکَانَ عَقَبِیًّا بَدَرِیًّا، قَالَ: کُنْتُ عِنْدَ عُمَرَ فَقِیْلَ لَہُ: اِنَّ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ یُفْتِی النَّاسَ فِی الْمَسْجِدِ، قَالَ زُہَیْرٌ فِی حَدِیْثِہِ: یُفْتِی النَّاسَ بِرَأْیِہِ فِی الَّذِیْ یُجَامِعُ وَلَا یُنْزِلُ، فَقَالَ: أَعْجِلْ بِہِ، فَأَتٰی بِہِ فَقَالَ: یَا عَدُوَّ نَفْسِہِ! أَوَ قَدْ بَلَغْتَ أَنْ تُفْتِیَ النَّاسَ فِی مَسْجِدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِرَأْیِکَ، قَالَ: مَا فَعَلْتُ وَلَکِنْ حَدَّثَنِیْ عُمُومَتِیْ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم، قَالَ: أَیُّ عُمُومَتِکَ؟ قَالَ: أُبَیُّ بْنُ کَعْبٍ، قَالَ زُہَیْرٌ وَأَبُوْ أَیُّوْبَ وَرِفَاعَۃُ بْنُ رَافِعٍ: فَالْتَفَتَ اِلَیَّ وَقَالَ: مَا یَقُوْلُ ھٰذَا الْفَتٰی؟ وَقَالَ زُہَیْرٌ: مَا یَقُولُ ھٰذَا الْغُلَامُ؟ فَقُلْتُ: کُنَّا نَفْعَلُہُ فِی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم، قَالَ: فَسَأَلْتُمْ عَنْہُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ قَالَ: کُنَّا نَفْعَلُہُ عَلٰی عَہْدِہِ فَلَمْ نَغْتَسِلْ، قَالَ: فَجَمَعَ النَّاسَ وَاتَّفَقَ النَّاسُ عَلٰی أَنَّ الْمَائَ لَا یَکُونُ الِاَّ مِنَ الْمَائِ اِلَّا رَجُلَیْنِ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ وَمُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ قَالَا: اِذَا جَاوَزَ الْخِتَانُ الْخِتَانَ فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ، قَالَ: فَقَالَ عَلِیٌّ: یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ! اِنَّ أَعْلَمَ النَّاسِ بِھٰذَا أَزْوَاجُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم، فَأَرْسَلَ اِلٰی حَفْصَۃَ فَقَالَتْ: لَا عِلْمَ لِیْ، فَأَرْسَلَ اِلٰی عَائِشَۃَ فَقَالَتْ: اِذَا جَاوَزَ الْخِتَانُ الْخِتَانَ وَجَبَ الْغُسْلُ، قَالَ: فَتَحَطَّمَ عُمَرُ یَعْنِی تَغَیَّظَ ثُمَّ قَالَ: لَا یَبْلُغُنِیْ أَنَّ أَحَدًا فَعَلَہُ وَلَا یَغْتَسِلُ اِلَّا أَنْہَکْتُہُ عُقُوْبَۃً۔ (مسند أحمد: ۲۱۴۱۳)

سیدنا رفاعہ بن رافعؓ، جو کہ بیعت ِ عقبہ اور غزوۂ بدر میں شریک ہوئے تھے، سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا عمرؓ کے پاس تھا، کسی نے ان سے کہا: سیدنا زید بن ثابت مسجد میں لوگوں کو اپنے رائے کی روشنی میں اس آدمی کے بارے فتوی دیتے ہیں جو مجامعت کرتا ہے، لیکن اس کو انزال نہیں ہوتا۔ سیدنا عمر ؓ نے کہا: اس کو جلدی جلدی میرے پاس لے آؤ، پس وہ اس کو لے آئے، سیدنا عمر ؓ نے کہا: او اپنی جان کے دشمن! کیا تو اس حدتک پہنچ گیا ہے کہ تو نے لوگوں کو مسجد ِ نبوی میں اپنی رائے کی روشنی میں فتوے دینا شروع کر دیا ہے؟ انھوں نے کہا: میں نے تو ایسی کوئی کاروائی نہیں کی، البتہ میرے چچوں نے مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے بیان کیا ہے۔ سیدنا عمر ؓ نے کہا: کون سے تیرے چچے؟ انھوں نے کہا: سیدنا ابی بن کعب، سیدنا ابو ایوب اور سیدنا رفاعہ بن رافع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہم ‌۔ سیدنا عمرؓ نے کہا: یہ نوجوان کیا کہتا ہے؟ میں نے جواباً کہا: جی ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے عہد میں ایسے ہی کرتے تھے۔ سیدنا عمرؓ نے کہا: تو پھر کیا تم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے اس بارے میں پوچھا تھا؟ میں نے کہا: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے زمانے میں ایسے ہی کرتے تھے اور غسل نہیں کرتے تھے۔ پھر انھوں نے لوگوں کو جمع کر کے یہ بات پوچھی، ہوا یوں کہ سب لوگوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ غسل کا پانی منی کے پانی کے خروج سے ہی استعمال کیا جاتا تھا، ما سوائے دو آدمیوں سیدنا علی اور سیدنا معاذؓ کے، یہ دو کہتے تھے: جب ختنے والی جگہ ختنے والی جگہ کو لگ جاتی ہے تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔ سیدنا علیؓ نے سیدنا عمرؓ سے کہا: اے امیر المؤمنین! رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی بیویاں اس چیز کو زیادہ جاننے والی ہیں، تو آپ نے سیدہ حفصہؓ کی طرف اس بارے میں پیغام بھیجا۔ انھوں نے جواباً کہا: مجھے اس کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے، پھر انھوں نے سیدہ عائشہؓکی طرف پیغام بھیجا، انھوں نے کہا: جب ختنے والی جگہ ختنے والی جگہ کو لگ جاتی ہے تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔ یہ سن کر سیدنا عمر ؓ کو غصہ آ گیا اور انھوں نے کہا: مجھے یہ بات موصول نہ ہونے پائے کہ کسی نے ایسا کام کیا ہو اور پھر غسل نہ کیا ہو، وگرنہ میں اسے سخت ترین سزا دوں گا۔

Haidth Number: 840
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اپنے بچوں کو نماز کا حکم دینا شروع کر دو، جب ان کی عمر سات سال ہو جائے اور جب ان کی عمر دس سال ہو جائے تو (نماز میں سستی کی صورت میں) اُن کو سزا بھی دو اور بستروں میں اُن کو علیحدہ علیحدہ کر دو۔

Haidth Number: 1093
سیدنا سبرہ جہنیؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جب بچے کی عمر سات سال ہو جائے تو اس کو نماز کا حکم دیا جائے اور جب دس سال ہو جائے تو (نماز چھڑنے پر) اس کی پٹائی بھی کی جائے۔

Haidth Number: 1094
سیدنا علی ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: تین افراد سے قلم اٹھا لیا گیا ہے، بچے سے حتیٰ کہ وہ بالغ ہو جائے، سونے والے سے حتیٰ کہ وہ بیدار ہو جائے اور مجنون سے حتیٰ کہ اس کی وہ کیفیت زائل ہو جائے۔

Haidth Number: 1095
سیدنا علی ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: تین افراد سے قلم اٹھا لیا گیا ہے، بچے سے حتیٰ کہ وہ بالغ ہو جائے، سونے والے سے حتیٰ کہ وہ بیدار ہو جائے اور مجنون سے حتیٰ کہ اس کی وہ کیفیت زائل ہو جائے۔

Haidth Number: 1096
دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: تین قسم کے افراد سے قلم اٹھا لیا گیا ہے، سونے والے سے حتی کہ وہ بیدار ہو جائے، پاگل سے حتی کہ وہ اس کیفیت سے بری ہو جائے اور بچے سے حتی کہ وہ عقل کرنے لگے۔

Haidth Number: 1097
سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: دو نمازیں ہیں، ان کے بعد مزید نماز نہیں پڑھی جاتی، ایک نمازِ فجر ہے، یہاں تک کہ سورج طلوع ہو جائے اور دوسری نمازِ عصر ہے، یہاں تک کہ سورج غروب ہو جائے۔

Haidth Number: 1201
Haidth Number: 1202
سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: نمازِ عصر کے بعد کوئی نماز نہیں ہے، یہاں تک کہ سورج غروب ہو جائے اور نمازِ فجر کے بعد کوئی نماز نہیں ہے، یہاں تک کہ سورج بلند ہو جائے یا چاشت کا وقت ہو جائے۔

Haidth Number: 1203
نصر بن عبد الرحمن بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے اپنے دادے سیدنا معاذ بن عفراء قرشی ؓ کے ساتھ عصر یا فجر کے بعد بیت اللہ کا طواف کیا، لیکن انھوں نے طواف کی نماز ادا نہ کی، جب نصر نے ان سے اس کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: دو نمازوں کے بعد کوئی نماز نہیں ہے، نمازِ فجر کے بعد یہاں تک کہ سورج طلوع ہو جائے او رنمازِ عصر کے بعد یہاں تک سورج غروب ہو جائے۔

Haidth Number: 1204
سیدنا عبد اللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: پسندیدہ لوگوں نے میرے پاس شہادت دی اور ان میں مجھے سب سے پسندیدہ سیدنا عمر بن خطاب ؓہیں، شہادت یہ دی کہ اللہ کے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: عصر کے بعد غروبِ آفتاب تک اور فجر کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی نماز نہیں۔

Haidth Number: 1205
سیّدناعبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے سورۃ فاتحہ نہ پڑھی اس کی کوئی نماز نہیں۔

Haidth Number: 1569
(دوسری سند )وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کی کوئی نماز نہیں،جس نے ام القرآن کی تلاوت نہ کی اور اس سے زیادہ بھی۔

Haidth Number: 1570
زوجہ ٔ رسول سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں:میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جو شخص ایسی نماز پڑھے، جس میں وہ ام القرآن کی تلاوت نہ کرے تو وہ نماز ناقص ہو گی۔

Haidth Number: 1571