Blog
Books
Search Hadith

اللہ تعالیٰ کی عظمت، بڑائی اور کمال قدرت اور مخلوق کا اس کا محتاج ہونے کا بیان

1110 Hadiths Found
سیدنا ابو موسی اشعریؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ چار چیزیں بتلانے کے لیے ہمارے اندر کھڑے ہوئے اور فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ نہیں سوتا اور سونا اسے زیب بھی نہیں دیتا، وہ ترازو کوپست بھی کرتا ہے اور بلند بھی کرتا ہے، رات کے عمل دن کو اور دن کے عمل رات کو اس کی طرف بلند کر دیئے جاتے ہیں۔

Haidth Number: 11
۔ (دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ نہیں سوتا اور اس کے شایان شان بھی نہیں ہے کہ وہ سوئے، وہ ترازو کو پست بھی کرتا ہے اور بلند بھی کرتا ہے، اس کا پردہ آگ ہے، اگر وہ اس پردے کو ہٹا دے تو اس کے چہرے کی انوار و تجلیات ان تمام چیزوں کو جلا دیں، جن کو اس کی نظر پاتی ہے، اللہ کی نظر تمام مخلوق پر ہے۔ اس لیے مفہوم یہ ہے کہ پردہ دور ہونے سے تمام مخلوق جل کر راکھ ہو جائے۔ پھر ابو عبیدہ نے یہ آیت تلاوت کی: جب وہاں پہنچے تو آواز دی گئی کہ بابرکت ہے وہ جو اس آگ میں ہے اور برکت دیا گیا ہے وہ جو اس کے آس پاس ہے اور پاک ہے اللہ جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ (سورۂ نمل: ۸)

Haidth Number: 12
سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے، دن رات کا متواتر خرچ اس میں کمی نہیں کر سکتا، کیا تم نے غور کیا ہے کہ اس نے زمین و آسمان کی تخلیق کے وقت سے لے کر (آج تک) کیا کچھ خرچ کیا ہے، لیکن یہ خرچ بھی اس چیز میں کوئی کمی نہ کر سکا، جو اس کے دائیں ہاتھ میں ہے، اس کا عرش پانی پر ہے اور اس کے دوسرے ہاتھ میں ترازو ہے، کسی کے حق میں اس کو پست کر دیتا ہے اور کسی کے حق میں بلند کر دیتا ہے۔

Haidth Number: 13
سیدنا ابوہریرہؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت والے دن زمین و آسمان دائیں ہاتھ میں پکڑ کر اور لپیٹ کر کہے گا: میں ہی بادشاہ ہوں، کہاں ہیں زمین والے بادشاہ؟

Haidth Number: 14
سیدنا ابو ذرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: میں وہ چیزیں دیکھتا ہوں، جو تم نہیں دیکھ سکتے اور میں وہ چیزیں سنتا ہوں جو تم نہیں سن سکتے، آسمان چرچراتا ہے اور اسے یہی زیب دیتا ہے کہ وہ آواز نکالے، کیونکہ اس میں ہر چار انگشت کے بقدر جگہ پر فرشتہ سجدہ کیے ہوئے ہے، اگر تم کو ان امور کا علم ہو جائے جو میں جانتا ہوں تو تم کم ہنسو اور زیادہ روؤ اور تم بستروں پر اپنی بیویوں سے لذتیں حاصل کرنا ترک کر دو، بلکہ تم (ویران) راستوں (اور صحراؤں) کی طرف نکل جاؤ، تاکہ اللہ تعالیٰ کی طرف گڑگڑا سکو۔ سیدنا ابو ذرؓ نے یہ حدیث سنا کر کہا (ظاہر ہے کہ ابو ذر کے شاگرد ان کے بارے یہ بیان کر رہے ہیں): للہ کی قسم! میں تو چاہتا ہوں کہ میں درخت ہوتا، جسے کاٹ دیا جاتا ہے۔

Haidth Number: 15

۔ (۱۶)۔عَنْ أَبِیْ ذَرٍّؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : یَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: یَا عِبَادِیْ! کُلُّکُمْ مُذْنِبٌ إِلَّا مَنْ عَافَیْتُ فَاسْتَغْفِرُوْنِیْ أَغْفِرْلَکُمْ، وَمَنْ عَلِمَ أَنِّی أَقْدِرُ عَلَی الْمَغْفِرَۃِ فَاسْتَغْفَرَنِیْ بِقُدْرَتِیْ غَفَرْتُ لَہُ وَلَا أُبَالِیْ، وَکُلُّکُمْ ضَالٌّ إِلَّا مَنْ ہَدَیْتُ، فَاسْتَہْدُوْنِی أَہْدِکُمْ،وَکُلُّکُمْ فَقِیْرٌ إِلَّا مَنْ أَغْنَیْتُ، فَاسْأَلُوْنِیْ أُغْنِکُمْ،وَلَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَ آخِرَکُمْ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ۔ وَ إِنْسَکُمْ وَ جِنَّکُمْ وَ صَغِیْرَکُمْ وَ کَبِیْرَکُمْ وَ ذَکَرَکُمْ وَ أُنْثَاکُمْ) وَ حَیَّکُمْ وَ مَیِّتَکُمْ وَ رَطْبَکُمْ وَ یَابِسَکُمْ اِجْتَمَعُوْا عَلٰی أَشْقٰی قَلْبٍ مِنْ قُلُوْبِ عِبَادِیْ مَا نَقَصَ فِی مُلْکِیْ مِنْ جَنَاحِ بَعُوْضَۃٍ، وَ لَوِ اجْتَمَعُوْا عَلَی أَتْقٰی قَلْبِ عَبْدٍ مِنْ عِبَادِیْ مَا زَادَ فِی مُلْکِیْ مِنْ جَنَاحِ بَعُوْضَۃٍ،وَلَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَ آخِرَکُمْ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: وَ إِنْسَکُمْ وَ جِنَّکُمْ وَ صَغِیْرَکُمْ وَ کَبِیْرَکُمْ وَ ذَکَرَکُمْ وَ أُنْثَاکُمْ) وَ حَیَّکُمْ وَ مَیِّتَکُمْ وَ رَطْبَکُمْ وَ یَابِسَکُمْ اِجْتَمَعُوْا فَسَأَلَنِیْ کُلُّ سَائِلٍ مِنْہُمْ مَا بَلَغَتْ أُمْنِیَّتُہُ فَأَعْطَیْتُ کُلَّ سَائِلٍ مِنْہُمْ مَا سَأَلَ مَا نَقَصَنِیْ، کَمَا لَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ مَرَّ بِشَفَۃِ الْبَحْرِ فَغَمَسَ فِیْہَا إِبْرَۃً ثُمَّ انْتَزَعَہَا کَذَالِکَ لَا یَنْقُصُ مِنْ مُلْکِیْ، ذَالِکَ بِأَنِّیْ جَوَّادٌ مَاجِدٌ صَمَدٌ،عَطَائِی کَلَامٌ وَ عَذَابِی کَلَامٌ (وَ فِی رِوَایَۃٍ: عَطَائِی کَلَامِیْ وَ عَذَابِی کَلَامِیْ)، إِذَا أَرَدْتُّ شَیْئًا فَإِنَّمَا أَقُوْلُ لَہُ: کُنْ! فَیَکُوْنُ۔)) (مسند أحمد: ۲۱۶۹۴)

سیدنا ابو ذرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اے میرے بندو! تم سارے گنہگار ہو، مگر جس کو میں عافیت دے دو، لہٰذا مجھ سے بخشش طلب کیا کرو، میں تمہیں معاف کر دیا کروں گا، اور جس نے یہ جان لیا کہ میں (اللہ) بخشنے کی قدرت رکھتا ہوں، پھر اس نے مجھ سے میری قدرت کی وجہ سے بخشش طلب کی تو میں اسے بخش دوں گا اور اس سلسلے میں کوئی پروا نہیں کروں گا۔ تم سارے گمراہ ہو، مگر جس کو میں ہدایت دے دوں، پس مجھ سے ہدایت طلب کرو، میں تم کو ہدایت دوں گا، تم سارے کے سارے فقیر ہو، مگر جس کو میں غنی کر دوں، پس مجھ سے سوال کیا کرو، میں تم کو غنی کر دوں گا، یا درکھو کہ اگر تمہارے پہلے اور پچھلے، انسان اور جن، چھوٹے اور بڑے، مذکر اور مؤنث، زندہ اور مردہ اور تر اور خشک میرے بندوں میں سے بدبخت ترین بندے کے دل کی مانند ہو جائیں، تو میری بادشاہت میں سے تو مچھر کے پر کے برابر بھی کمی نہیں آ ئے گی، اور اگر یہی مخلوق میرے بندوں میں سب سے بڑے متقی کے دل کی مانند نیک ہو جائیں تو میری بادشاہت میں مچھر کے پر کے برابر اضافہ بھی نہیں ہو گا، اور اگر تمہارے پہلے اور پچھلے، انسان اور جن، چھوٹے اور بڑے، مذکر اور مؤنث، زندہ اور مردہ اور تر اور خشک جمع ہو جائیں اور ہر سائل مجھ سے سوال کرے، جہاں تک اس کی خواہش کا تقاضا ہو اور میں سائل کو اس کے مطالبے کے مطابق دے دوں تو اس سے مجھ میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی، (اس مثال سے سمجھ لیں کہ) ایک آدمی سمندر کے کنارے سے گزرے اور اس میں سوئی ڈبو کر واپس لائے اور (دیکھے کہ اس میں کتنا پانی لگا ہوا ہے اور اس سے سمندر میں کیا کمی ہے)، اسی طرح میری بادشاہت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی، اس کی وجہ یہ ہے میں انتہائی سخی ہوں، بزرگی والا ہوں، بے نیاز ہوں، میرا دینا کلام ہے، میرا عذاب کلام ہے، ایک روایت میں ہے میری عطا میرا کلام ہے، میری سزا میرا کلام ہے، جب میں کسی چیز کا ارادہ کرتا ہوں تو اسے صرف اتنا کہتا ہوں کہ ہو جا ، پس ہو جاتی ہے۔

Haidth Number: 16

۔ (۱۷) (وَعَنْہُ فِی أُخْرٰی)۔ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْمَا یَرْوِیْہِ عَنْ رَبِّہِ عَزَّوَجَلَّ: ((إِنِّی حَرَّمْتُ عَلٰی نَفْسِیَ الظُّلْمَ وَ عَلٰی عِبَادِیْ، أَ لَا فَـلَا تَظَالَمُوْا، کُلُّ بَنِیْ آ دَمَ یُخْطِیئُ بِاللَّیْلِ وَ النَّہَارِ ثُمَّ یَسْتَغْفِرُنِیْ فَأَغْفِرُ لَہُ فَـلَا أُبَالِیْ، وَقَالَ: یَا بَنِیْ آدَمَ! کُلُّکُمْ کَانَ ضَالًّا إِلَّا مَنْ ہَدَیْتُ، وَکُلُّکُمْ کَانَ عَارِیًا إِلَّا مَنْ کَسَوْتُ،وَکُلُّکُمْ کَانَ جَائِعًا إِلَّا مَنْ أَطْعَمْتُ، وَکُلُّکُمْ کَانَ ظَمْآنًا إِلَّا مَنْ سَقَیْتُ، فَاسْتَہْدُوْنِیْ أَہْدِکُمْ، وَاسْتَکْسُوْنِیْ أَکْسُکُمْ، وَاسْتَطْعِمُوْنِیْ أُطْعِمْکُمْ، وَاسْتَسْقُوْنِیْ أَسْقِکُمْ،یَا عِبَادِی! لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَ آخِرَکُمْ ( فَذَکَرَ نَحْوَ الْحَدِیْثِ الْمُتَقَدِّمِ وَ فِیْہِ۔ لَمْ یَنْقُصُوْا مِن مُلْکِی شَیْئًا إِلَّا کَمَا یَنْقُصُ رَأْسُ الْمِخْیَطِ مِنَ الْبَحْرِ)۔)) (مسند أحمد: ۲۱۷۵۰)

۔ (دوسری سند) نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌، اللہ تعالیٰ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں نے ظلم کو اپنے آپ پر اور اپنے بندوں پر حرام قرار دیا ہے، خبردار! پس ایک دوسرے پر ظلم نہ کرنا، ساری اولادِ آدم دن رات غلطیاں کر تی ہے، پھر جب مجھ سے بخشش طلب کرتی ہے تو میں بخش دیتا ہوں اور کوئی پروا نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا: اے بنو آدم! تم سارے گمراہ تھے، مگر جس کو میں نے ہدایت دی، تم سارے ننگے تھے، مگر جس کو میں نے لباس دیا، تم سارے بھوکے تھے، مگر جس کو میں نے کھانا کھلایا، تم سارے پیاسے تھے، مگر جس کو میں نے پانی پلایا، پس تم مجھ سے ہدایت طلب کرو، میں تم کو ہدایت دوں گا، تم مجھ سے لباس طلب کرو، میں تم کو لباس دوں گا، تم مجھ سے کھانا طلب کرو، میں تم کو کھلاؤں گا اور مجھ سے پانی طلب کرو، میں تم کو پلاؤں گا۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے اورپچھلے… سابقہ حدیث کی طرح ذکر کیا اور اس میں ہے تو وہ میری بادشاہت میں کوئی کمی نہ کر سکیں گے، مگر اتنی جیسے سوئی کا نکہ سمندر میں کمی کا باعث بنتا ہے۔

Haidth Number: 17

۔ (۱۸)۔عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍؓ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ إِذَا قَامَ إِلَی الصَّلَاۃِ مِنْ جَوْفِ اللَّیْلِ یَقُوْلُ: ((أَللّٰہُمََّ لَکَ الْحَمْدُ، أَنْتَ نُوْرُ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ وَمَنْ فِیْہِنَّ، وَلَکَ الْحَمْدُ، أَنْتَ قَیَّامُ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ وَمَنْ فِیْہِنَّ، وَ لَکَ الْحَمْدُ، أَنْتَ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِیْہِنَّ وَلَکَ الْحَمْدُ،أَنْتَ الْحَقُّ، وَ قَوْلُکَ الْحَقُّ، وَوَعْدُکَ الْحَقُّ، وَ لِقَاؤُکَ حَقٌّ، وَ الْجَنَّۃُ حَقٌّ، وَ النَّارُ حَقٌّ، وَ السَّاعَۃُ حَقٌّ، أَللّٰہُمَّ لَکَ أَسْلَمْتُ، وَ بِکَ آمَنْتُ، وَ عَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ، وَ إِلَیْکَ أَنَبْتُ، وَ بِکَ خَاصَمْتُ، وَ إِلَیْکَ حَاکَمْتُ، فَاغْفِرْلِیْ مَا قَدَّمْتُ وَ أَخَّرْتُ وَ أَسْرَرْتُ وَ أَعْلَنْتُ، أَنْتَ إِلٰہِیْ لَا إِلٰہَ إِلاَّ أَنْتَ۔)) (مسند أحمد: ۲۷۱۰)

سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ جب رات کو نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو یہ دعا پڑھتے: أَللّٰہُمََّ لَکَ الْحَمْدُ، أَنْتَ نُوْرُ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ وَمَنْ فِیْہِنَّ، وَلَکَ الْحَمْدُ، أَنْتَ قَیَّامُ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ وَمَنْ فِیْہِنَّ، وَ لَکَ الْحَمْدُ، أَنْتَ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِیْہِنَّ وَلَکَ الْحَمْدُ،أَنْتَ الْحَقُّ، وَ قَوْلُکَ الْحَقُّ، وَوَعْدُکَ الْحَقُّ، وَ لِقَاؤُکَ حَقٌّ، وَ الْجَنَّۃُ حَقٌّ، وَ النَّارُ حَقٌّ، وَ السَّاعَۃُ حَقٌّ، أَللّٰہُمَّ لَکَ أَسْلَمْتُ، وَ بِکَ آمَنْتُ، وَ عَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ، وَ إِلَیْکَ أَنَبْتُ، وَ بِکَ خَاصَمْتُ، وَ إِلَیْکَ حَاکَمْتُ، فَاغْفِرْلِیْ مَا قَدَّمْتُ وَ أَخَّرْتُ وَ أَسْرَرْتُ وَ أَعْلَنْتُ، أَنْتَ إِلٰہِیْ لَا إِلٰہَ إِلاَّ أَنْتَ۔ (اے اللہ! تیرے لیے ہی تعریف ہے، تو آسمانوں، زمین اور ان کے درمیان والوں کا نور ہے، اور تیرے لیے ہی تعریف ہے، تو آسمانوں، زمین اور ان میں موجود کو قائم رکھنے والا ہے اور تیرے لیے ہی تعریف ہے، تو آسمانوں، زمین اور ان کے درمیان والوں کا ربّ ہے اور تیرے لیے ہی تعریف ہے، تو حق ہے، تیری بات حق ہے، تیرا وعدہ حق ہے، تیری ملاقات حق ہے، جنت حق ہے، جہنم حق ہے، قیامت حق ہے، اے اللہ! میں تیرے لیے مسلمان ہوا، تجھ پر ایمان لایا، تجھ پر بھروسہ کیا، تیری طرف رجوع کیا، تیرے ساتھ جھگڑا کیا اور تیری طرف فیصلہ لے کر آیا، پس تو میرے لیے میرے وہ وہ گناہ بخش دے، جو پہلے کیے،، جو بعد میں کیے، جو مخفی طور پر کیے اور جو اعلانیہ طور پر کیے، تو میرا معبود ہے، تیرے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں ہے۔)

Haidth Number: 18

۔ (۵۵)۔عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ؓ قَالَ: بَیْنَمَا نَحْنُ ذَاتَ یَوْمٍ عِنْدَ نَبِیِّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذْ طَلَعَ عَلَیْنَا رَجُلٌ شَدِیْدُ بَیَاضِ الثِّیَابِ شَدِیْدُ سَوَادِ الشَّعَرِ لَا یُرَی(وَفِی رِوَایَۃٍ لَا نَرَی) عَلَیْہِ أَثَرُ السَّفَرِ وَلَا یَعْرِفُہُ مِنَّا أَحَدٌ حَتَّی جَلَسَ إِلَی نَبِیِّ اللّّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَسْنَدَ رُکْبَتَیْہِ إِلَی رُکْبَتَیْہِ وَوَضَعَ کَفَّیْہِ عَلٰی فَخِذَیْہِ ثُمَّ قَالَ: یَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِیْ عَنِ الْإِسْلَامِ مَا الْاِسْلَامُ؟ فَقَالَ: (( الْاِسْلَامُ أَنْ تَشْہَدَ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ وَ تُقِیْمَ الصَّلَاۃَ وَ تُؤْتِیَ الزَّکٰوۃَ وَ تَصُوْمَ رَمَضَانَ وَ تَحُجَّ الْبَیْتَ إِنِِِِِِِِِِ اسْتَطَعْتَ إِلَیْہِ سَبِیْلًا۔))، قَالَ: صَدَقْتَ، فَعَجِبْنَا لَہُ یَسْأَلُہُ وَ یُصَدِّقُہُ ،قَالَ: ثُمَّ قَالَ: أَخْبِرْنِیْ عَنِ الْإِیْمَانِ، قَالَ: ((الْإِیْمَانُ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللّٰہِ وَ مَلَائِکَتِہِ وَ کُتُبِہِ وَ رُسُلِہِ وَ الْیَوْمِ الْآخِرِ وَ الْقَدْرِ کُلِّہِ خَیْرِہِ وَ شَرِّہِ۔))، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِیْ عَنِ الْإِحْسَانِ مَا الْإِحْسَانُ؟ قَالَ: ((أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ فَإِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَإِنَّہُ یَرَاکَ۔))، قَالَ: فَأَخْبِرْنِیْ عَنِ السَّاعَۃِ، قَالَ: ((مَا الْمَسْئُولُ عَنْہَا بِأَعْلَمَ بِہَا مِنَ السَّائِلِ۔))، قَالَ: فَأَخْبِرْنِیْ عَنِ أَمَارَاتِہَا، قَالَ: ((أَنْ تَلِدَ الْأَمَۃُ رَبَّتَہَا وَ أَنْ تَرَی الْحُفَاۃَ الْعُرَاۃَ رِعَائَ الشَّائِ یَتَطَاوَلُوْنَ فِی الْبِنَائِ۔))، قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ، قَالَ: فَلَبِثَ مَلِیًّا، (وَفِی رِوَایَۃٍ فَلَبِثَ ثَلَاثًا) فَقَالَ لِی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَا عُمَرُ! أَتَدْرِیْ مَنِ السَّائِلُ؟)) قُلْتُ: اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہُ أَعْلَمُ، قَالَ: ((فَإِنَّہُ جِبْرِیْلُ أَتَاکُمْ یُعَلِّمُکُمْ دِیْنَکُمْ۔)) (مسند أحمد: ۳۶۷)

سیدنا عمر بن خطابؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم ایک دن اللہ کے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اچانک ہمارے پاس ایک آدمی آیا، اس کے کپڑے بہت زیادہ سفید اور بال بہت زیادہ سیاہ تھے، نہ تو اس پر سفر کی کوئی علامت نظر آ رہی تھی اور نہ ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا تھا، بہرحال وہ آیا اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس اس طرح بیٹھ گیا کہ اپنے گھٹنے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے گھٹنوں کے ساتھ ملا دیئے اور اپنے ہاتھ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی رانوں پر رکھ دیئے اور کہا: اے محمد! مجھے اسلام کے بارے میں بتاؤ کہ اسلام کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تو گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ ہی معبودِ برحق ہے اور حضرت محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ اللہ کے رسول ہیں اور تو نماز قائم کرے، زکوۃ ادا کرے، رمضان کے روزے رکھے اور اگر طاقت ہو تو بیت اللہ کا حج کرے۔ اس نے آگے سے کہا: آپ نے سچ کہا ہے۔ ہمیں بڑا تعجب ہوا کہ یہ شخص سوال بھی کرتا ہے اور تصدیق بھی کرتا ہے۔ بہرحال اس نے پھر سوال کیا اور کہا: آپ مجھے ایمان کے بارے میں بتلائیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تو اللہ تعالی، فرشتوں، کتابوں، رسولوں، آخرت کے دن اور ساری کی ساری تقدیر، وہ اچھی ہو یا بری، پر ایمان لائے۔ اس نے کہا: جی، آپ نے سچ کہا ہے۔ اس نے تیسرا سوال کرتے ہوئے کہا: اب آپ مجھے احسان کے بارے میں بتائیں، احسان کیا ہوتا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کر کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے، اور اگر تو نہیں دیکھ رہا تو وہ تو تجھے دیکھ رہا ہے۔ اس نے پھر سوال کیا: آپ مجھے قیامت کے بارے میں بتائیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: مسئول، قیامت کے بارے میں سائل سے زیادہ علم نہیں رکھتا۔ اس نے کہا: تو پھر آپ مجھے اس کی علامتوں کے بارے میں بتا دیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: وہ یہ ہیں: لونڈی اپنی مالکہ کو جنم دے گی، تو دیکھے گا کہ ننگے پاؤں اور ننگے جسموں والے بکریوں کے چرواہے عمارتوں پر غرور کریں گے۔ سیدنا عمرؓ کہتے ہیں: پھر وہ بندہ چلا گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کچھ زمانے، ایک روایت کے مطابق تین دنوں تک اس کے بارے میں خاموش رہے اور پھر مجھ سے فرمایا: عمر! کیا تم جانتے ہو کہ یہ سائل کون تھا؟ میں نے کہا: جی اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: یہ حضرت جبریلؑتھے، وہ تم لوگوں کو دین کی تعلیم دینے کے لیے آئے تھے۔

Haidth Number: 55
سیدنا ابو عامر اشعریؓ نے بھی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے اسی طرح کی حدیث بیان کی ہے، البتہ اس میں ہے: پھر وہ سوال کرنے والا آدمی چلا گیا، جب ہمیں اس کا کوئی راستہ نظر نہ آیا، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: سبحان اللہ! سبحان اللہ! سبحان اللہ! (یعنی بڑا تعجب ہے) یہ جبرائیل ؑتھے جو لوگوں کو دین سکھلانے کے لیے آئے تھے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یہ جب بھی میرے پاس آتے تھے تو میں ان کو پہچانتا ہوتا تھا، ماسوائے اس دفعہ کے۔

Haidth Number: 56

۔ (۵۷)۔عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍؓ قَالَ: جَلَسَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَجْلِسًا لَہُ فَجَائَ جِبْرِیْلُؑ فَجَلَسَ بَیْنَ یَدَیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاضِعًا کَفَّیْہِ عَلٰی رُکْبَتَیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! حَدِّثْنِی بِالْاِسْلَامِ، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: ((الْاِسْلَامُ أَنْ تُسْلِمَ وَجْہَکَ لِلّٰہِ وَ تَشْہَدَ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ۔))، قَالَ: إِذَا فَعَلْتُ ذَالِکَ فَأَنَا مُسْلِمٌ؟ قَالَ: ((إِذَا فَعَلْتَ ذَالِکَ فَقَدْ أَسْلَمْتَ۔))، قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! ! فَحَدِّثْنِی مَا الْاِیْمَانُ؟ قَالَ: ((الْاِیْمَانُ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَ الْمَلَائِکَۃِ وَ الْکِتَابِ وَ النَّبِیِّیْنَ وَ تُؤْمِنَ بِالْمَوْتِ وَ بِالْحَیَاۃِ بَعْدَ الْمَوْتِ وَ تُؤْمِنَ بِالْجَنَّۃِ وَالنَّارِ وَ الْحِسَابِ وَالْمِیْزَانِ وَ تُوْمِنَ بِالْقَدْرِ کُلِّہِ خَیْرِہِ وَ شَرِّہِ۔))قَالَ: فَإِذَا فَعَلْتُ ذَالِکَ فَقَدْ آمَنْتُ؟ قَالَ: ((إِذَا فَعَلْتَ ذَالِکَ فَقَدْ آمَنْتَ۔))، قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! حَدِّثْنِی مَا الْاِحْسَانُ؟ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((الْاِحْسَانُ أَنْ تَعْمَلَ لِلّٰہِ کَأَنَّکَ تَرَاہُ فَإِنَّکَ إِنْ لَمْ تَرَہُ فَإِنَّہُ یَرَاکَ۔))، قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فَحَدِّثْنِی مَتَی السَّاعَۃُ؟ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((سُبْحَانَ اللّٰہِ! فِی خَمْسٍ مِنَ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُہُنَّ إِلَّا ہُوَ {إِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہُ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَ یُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْأَرْحَامِ وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَاذَا تَکْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ بِأَیِّ أَرْضٍ تَمُوْتُ إِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ } وَلٰکِنْ إِنْ شِئْتَ حَدَّثْتُکَ بِمَعَالِمَ لَہَا دُوْنَ ذَالِکَ۔))، قَالَ: أَجَلْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہَ فَحَدِّثْنِیْ، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِذَا رَأَیْتَ الْأَمَۃَ وَلَدَتْ رَبَّتَہَا أَوْ رَبَّہَا وَ رَأَیْتَ أَصْحَابَ الشَّائِ تَطَاوَلُوْا بِالْبُنْیَانِ وَ رَأَیْتَ الْحُفَاۃَ الْجِیَاعَ الْعَالَۃَ کَانُوْا رُئُ وْسَ النَّاسِ فَذَالِکَ مِنْ مَعَالِمِ السَّاعَۃِ وَ أَشْرَاطِہَا۔)) قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!وَمَنْ أَصْحَابُ الشَّائِ وَالْحُفَاۃُ الْجِیَاعُ الْعَالَۃُ؟ قَالَ: (( الْعَرَبُ۔)) (مسند أحمد: ۲۹۲۴)

سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ ایک مجلس میں تشریف فرما تھے، اتنے میں جبرائیلؑآ گئے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے سامنے اس طرح بیٹھ گئے کہ اپنی ہتھیلیاں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے گھٹنوں پر رکھ دیں اور کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اسلام کے بارے میں بیان کرو کہ وہ کیا ہے؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تو اپنے چہرے کو اللہ تعالیٰ کے لیے مطیع کر دے اور یہ شہادت دے کہ اللہ تعالیٰ ہی معبودِ برحق ہے، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ انھوں نے کہا: جب میں یہ امور سرانجام دے دوں گا تو میں مسلمان ہو جاؤں گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جی ہاں، جب تو یہ اعمال کرے گا تو تو مسلمان ہو جائے گا۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے ایمان کے بارے میں بتلائیں کہ ایمان کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تو ایمان لائے اللہ تعالیٰ پر، آخرت کے دن پر، فرشتوں پر، کِتَابُ پر، نبیوں پر، موت اور موت کے بعددوبارہ زندہ ہونے پر، جنت و جہنم پر، حساب اور میزان پر اور ساری کی ساری تقدیر پر، وہ اچھی ہو یا بری۔ انھوں نے کہا: جب میں یہ اعمال کروں گا تو مؤمن ہو جاؤں گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جی ہاں، جب تو ایسا کرے گا تو مؤمن ہو جائے گا۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے یہ تو بتلا د و کہ احسان کیا ہے؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کے لیے اس طرح عمل کرے کہ گویا کہ تو اس کو دیکھ رہا ہے، پس اگر تو اس کو نہیں دیکھ رہا تو بیشک وہ تو تجھے دیکھ رہا ہے۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ بیان کرو کہ قیامت کب آئے گی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: سبحان اللہ! بڑا تعجب ہے، اس کا تعلق تو غیب والی ان پانچ چیزوں سے ہے، جن کو صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {إِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہُ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَ یُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْأَرْحَامِ وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَاذَا تَکْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ بِأَیِّ أَرْضٍ تَمُوْتُ إِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ } (بیشک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، وہی بارش نازل فرماتا ہے اور ماں کے پیٹ میں جو ہے اسے جانتا ہے، کوئی بھی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کچھ کرے گا، نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ کس زمین میںمرے گا، بیشک اللہ تعالیٰ ہی پورے علم والا اور صحیح خبروں والا ہے۔) (سورۂ لقمان: ۳۴)، البتہ اگر تو چاہتا ہے تو میں تجھے اس کی علامتیں بیان کر دیتا ہوں۔ انھوں نے کہا: جی بالکل، اے اللہ کے رسول! آپ مجھے بیان کریں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جب تو دیکھے گا کہ لونڈی اپنی مالکہ یا آقا کو جنم دے گی اور بکریوں کے چرواہے عمارتوں میں فخر کرنے لگیں گے اور ننگے پاؤں والے بھوکے اور فقیر لوگوں کے سردار بن جائیں گے، یہ قیامت کی علامتیں ہیں۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! بکریوں کے چرواہوں اور ننگے پاؤں والے بھوکوں اور فقیروں سے کون لوگ مراد ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: عرب۔

Haidth Number: 57
سیدنا ابوہریرہؓ نے بھی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے اسی قسم کی حدیث بیان کی ہے، البتہ اس میں ہے: جب ننگے جسموں اور ننگے پاؤں والے اکھڑ مزاج اور سنگ دل لوگ… اس میں مزید یہ الفاظ ہیں: جب چھوٹی چھوٹی بھیڑ بکریوں کے چرواہے عمارتوں میں فخر کریں گے۔ آیت کے بعد یہ الفاظ بھی اس روایت میں ہیں: پھر وہ آدمی چلا گیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اس آدمی کو دوبارہ میرے پاس بلاؤ۔ لوگوں نے اسے تلاش کر کے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس لانا چاہا، لیکن وہ سرے سے اسے دیکھ ہی نہ سکے (کہ کہاں گیا ہے)۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: یہ جبرائیلؑ تھے، جو لوگوں کو دین کی تعلیم دینے کے لیے آئے تھے۔

Haidth Number: 58
سیدنا انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اسلام (اعضاء سے متعلقہ) علانیہ چیز ہے اور ایمان دل سے متعلقہ مخفی چیز ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اپنے سینے کی طرف تین دفعہ اشارہ کیا اور پھر فرمایا: تقوی یہاں ہوتا ہے۔

Haidth Number: 59
سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں: ایک آدمی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس دنیوی چیز کے لیے آتا تھا اور وہ اسے دے دی جاتی تھی، لیکن ابھی تک شام نہیں ہوتی تھی کہ دنیا و ما فیہا کی بہ نسبت اسے اسلام سب سے زیادہ محبوب اور پیارا بن چکا ہوتا تھا۔

Haidth Number: 110
سیدنا انس ؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے اسلام پر جو چیز بھی مانگ لی جاتی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ وہ دے دیتے تھے، ایک دفعہ ایک آدمی آیا اور اس نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے کوئی سوال کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اس کو بہت ساری بھیڑ بکریاں دینے کا حکم دیا، یہ زکوۃ کی بکریاں تھیں اور دو پہاڑوں کے درمیان والی گھاٹی ان سے بھر جاتی تھی۔ وہ بندہ اپنی قوم کی طرف لوٹا اور ان سے کہا: اے میری قوم! اسلام قبول کر لو، کیونکہ محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ اس طرح کثرت سے دیتے ہیں کہ ان کو فاقے کا ڈر بھی نہیں ہوتا۔

Haidth Number: 111
سیدنا انسؓ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے ایک آدمی سے فرمایا: تو مسلمان ہو جا۔ اس نے کہا: میں اپنے آپ کو اسلام کو ناپسند کرنے والا پاتا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: تو مسلمان ہو جا، اگرچہ تو اس کو ناپسند کر رہا ہو۔

Haidth Number: 112
نصر بن علی اپنی قوم کے ایک آدمی سے بیان کرتے ہیں کہ وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس آیا اور اس شرط پر مسلمان ہوا کہ وہ صرف دو نمازیں ادا کرے گا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اس کی یہ شرط قبول کر لی۔

Haidth Number: 113
سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ خیر و بھلائی کا ارادہ کرتا ہے، اس کو دین میں سمجھ عطا کر دیتا ہے۔

Haidth Number: 240
سیدنا معاویہ بن ابو سفیان ؓ نے بھی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے اسی طرح کی حدیث بیان کی ہے۔

Haidth Number: 241
سیدنا ابو ہریرہؓ نے بھی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے اسی طرح کی حدیث بیان کی ہے، البتہ اس میں یہ زائد بات ہے: صرف اور صرف میں تو تقسیم کرنے والا ہوں اور عطا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔

Haidth Number: 242
Haidth Number: 243
عبد اللہ بن امام احمد کہتے ہیں: میں نے اس حدیث کے ساتھ متصل یہ کلام بھی اپنے باپ کی کتاب میں ان کے ہاتھ کے ساتھ لکھا ہوا پایا اور انھوں نے اس پر لکیر بھی لگائی ہے، لیکن اب میں یہ نہیں جانتا کہ کیا انھوں نے مجھ پر یہ پڑھا تھا یا نہیں، وہ کلام یہ ہے: اور بیشک سننے والے اور اطاعت کرنے والے کے خلاف کوئی حجت نہیں ہے اور سننے والے اور نافرمانی کرنے والے کے حق میں کوئی حجت نہیں ہے۔

Haidth Number: 244
سیدنا جابر بن عبد اللہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: لوگ بھی کان ہوتے ہیں، پس جو (خاندان اور قبیلے) جاہلیت کے زمانے میں بہتر شمار کیے جاتے ہیں، وہی زمانۂ اسلام میں بھی بہتر ہوتے ہیں، بشرطیکہ دین میں فقہ اور سمجھ بوجھ حاصل کر لیں۔

Haidth Number: 245
سیدنا ابو درداءؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: علم والے کو عبادت گزار پر اتنی فضیلت حاصل ہے، جیسے چاند کی بقیہ ستاروں پر ہے، بیشک اہل علم ہی انبیائے کرام کے وارث ہیں، انھوں نے ورثے میں درہم و دینار نہیں لیے، بلکہ علم وصول کیا، پس جس شخص نے علم حاصل کیا، اس نے (نبوی میراث سے) بھرپور حصہ لے لیا۔

Haidth Number: 246

۔ (۳۲۸)۔عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمٰنِ بْنُ عَمْروٍ السُّلَمِیُّ وَحُجْرُبْنُ حُجْرٍ الْکَلَاعِیُّ قَالَ: أَتَیْنَا الْعِرْبَاضَ بْنَ سَارِیَۃَ (ؓ) وَھُوَ مِمَّنْ نَزَلَ فِیْہِ: {وَلَا عَلَی الَّذِیْنَ اِذَا مَا أَتَوْکَ لِتَحْمِلَہُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُکُمْ عَلَیْہِ} فَسَلَّمْنَا وَقُلْنَا: أَتَیْنَاکَ زَائِرِیْنَ وَ عَائِدِیْنَ وَمُقْتَبِسِیْنَ، فَقَالَ عِرْبَاضٌ: صَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الصُّبْحَ ذَاتَ یَوْمٍ، ثُمَّ أقَبْلَ عَلَیْنَا فَوَعَظَنَا مَوْعِظَۃً بَلِیْغَۃً ذَرَفَتْ مِنْہَا الْعُیُوْنُ وَوَجِلَتْ مِنْہَا الْقُلُوْبُ، فَقَالَ قَائِلٌ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! کأَنَّ ہٰذِہِ مَوْعِظَۃُ مُوَدِّعٍ، فَمَاذَا تَعْہَدُ اِلَیْنَا؟ فَقَالَ: ((أُوْصِیْکُمْ بِتَقْوَی اللّٰہِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَاِنْ کَانَ حَبَشِیًّا، فَاِنَّہُ مَنْ یَعِشْ مِنْکُمْ بَعْدِیْ فَسَیَرٰی اخْتِلَافًا کَثِیْرًا، فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْنَ، فَتَمَسَّکُوْا بِہَا وَعَضُّوْا عَلَیْہَا بِالنَّوَاجِذِ وَاِیَّاکُمْ وَ مُحْدَثَاتِ الْأُمُوْرِ، فَاِنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ۔)) (مسند أحمد: ۱۷۲۷۵)

عبد الرحمن بن عمرو سلمی اور حجر بن حجر کلاعی کہتے ہے: ہم سیدنا عرباض بن ساریہ ؓ کے پاس گئے، یہ ان لوگوں میں سے تھے، جن کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی: ہاں ان پر بھی کوئی حرج نہیں جو آپ کے پاس آتے ہیں کہ آپ انہیں سواری مہیا کر دیں تو آپ جواب دیتے ہیں کہ میں تو تمہاری سواری کے لیے کچھ بھی نہیں پاتا۔ (سورۂ توبہ: ۹۲) ہم نے ان کو سلام کیا اور کہا: ہم آپ کی زیارت اور تیماری داری کرنے کے لیے اور آپ سے علمی استفادہ کرنے کے لیے آئے ہیں، سیدنا عرباض ؓ نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے ایک دن ہمیں نمازِ فجر پڑھائی، پھر ہم پر متوجہ ہوئے اور ہمیں اتنا مؤثر و بلیغ وعظ کیا کہ آنکھیں بہہ پڑیں اور دل ڈر گئے، ایک کہنے والے نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ تو الوداعی وعظ و نصیحت لگتی ہے، پس آپ ہمیں کون سی نصیحت کریں گے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: میں تم کو اللہ کے ڈر اور (امراء کی باتیں) سننے اور ان کی اطاعت کرنے کی نصیحت کرتا ہوں، اگرچہ وہ حبشی ہو، پس بیشک تم میں سے جو آدمی میرے بعد زندہ رہے گا،وہ بہت زیادہ اختلاف دیکھے گا، پس تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو، اِس پر کابند رہو اور سختی کے ساتھ اس پر قائم رہو اور نئے نئے امور سے بچو، کیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔

Haidth Number: 328
۔ (دوسری سند) اسی طرح کی روایت ہے، البتہ اس میں ہے: ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ تو الوداعی و عظ ونصیحت ہے، پس آپ ہمیںکیا نصیحت کریں گے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: تحقیق میں تم کو ایسی روشن شریعت پر چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ جس کی رات بھی دن کی طرح ہے، اب اس سے وہی گمراہ ہو گا، جو ہلاک ہونے والا ہو گا، اور جو تم میں سے زندہ رہے گا، (سابقہ حدیث کی طرح روایت کو بیان کیا)، پس تم میری جس سنت کو پہچانتے ہو گے، اس کو لازم پکڑنا، (اور اس میں یہ بھی ہے:) پس تم اس پر سختی سے قائم رہنا، پس مؤمن تو اس نکیل شدہ اونٹ کی طرح ہوتا ہے کہ جس کو جدھر کھینچا جاتا ہے، وہ اُدھر ہی پیچھے پیچھے چل پڑتاہے۔

Haidth Number: 329
سیدنا عبد اللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: مجھ سے پہلے اللہ تعالیٰ نے جس نبی کو بھی کسی امت میں مبعوث فرمایا، اس کی امت میں سے اس کے حواری ہوتے تھے، جو اس کی سنت پر عمل کرتے تھے اور اس کے حکم کی پیروی کرتے تھے، پھر ان کے بعد نالائق لوگ ان کے جانشین بنے، جو کہتے وہ تھے جو کرتے نہیں تھے اور کرتے وہ تھے جس کا انہیں حکم نہیں دیا جاتا تھا۔

Haidth Number: 330
مجاہد کہتے ہیں: ہم سیدنا عبد اللہ بن عمر ؓ کے ساتھ ایک سفر میں تھے، پس جب وہ ایک جگہ سے گزرے تو اس سے ایک طرف ہو گئے، پس ان سے سوال کیا گیا کہ انھوں نے ایسے کیوں کیا ہے؟ انھوں نے جواب دیا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کو اسی طرح کرتے دیکھا تھا، سو میں نے بھی کیا۔

Haidth Number: 331
حسن بن جابر سے مروی ہے کہ سیدنا مقدام بن معدیکربؓ نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے خیبر والے دن کچھ چیزوں کو حرام قرار دیا اور پھر فرمایا: قریب ہے کہ تم میں سے کوئی آدمی مجھے جھٹلا دے، جبکہ اس نے اپنے تخت پر ٹیک لگائی ہوئی ہو اور میری حدیث بیان کرنے کے بعد کہے: ہمارے اور تمہارے مابین اللہ کی کتاب کافی ہے، پس جس چیز کو ہم اس میں حلال پائیں، اس کو حلال سمجھیں گے اور جس چیز کو اس میں حرام پائیں، اس کو حرام سمجھیں گے، خبردار! اور بیشک رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے جن چیزوں کو حرام قرار دیا، وہ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کی طرح ہیں۔

Haidth Number: 332
سیدنا مقدام بن معدیکرب ؓ سے ہی مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: خبردار! مجھے قرآن بھی دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ اس جیسی ایک چیز بھی دی گئی ہے، خبردار! قریب ہے کہ ایک آدمی سیر و سیراب ہو کر اپنے تخت پر بیٹھ کر یہ کہے: تم صرف قرآن کو لازم پکڑو، پس جس چیز کو اس میں حلال پاؤ، اس کو حلال سمجھو اور جس چیز کو حرام پاؤ، اس کو حرام سمجھو، خبردار! تمہارے لیے گھریلو گدھا اور کچلی والے درندے حلال نہیں ہیں اور نہ ذمی کے مال میں سے گری پڑی چیز حلال ہے، الا یہ کہ اس کا مالک اس سے مستغنی ہو جائے اور جولوگ کسی قوم کے پاس اتریں تو اس قوم کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان کی ضیافت کرے، اگر وہ ان کی ضیافت نہیں کرتی تو ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان کے مالوں میں سے اپنی میزبانی کے بقدر لے لیں۔

Haidth Number: 333