Blog
Books
Search Hadith

اس زمانے کے تعین کا بیان، جس میں توبہ قبول ہوتی ہے

1110 Hadiths Found
۔ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ قبول کرتا ہے، یا اس کو بخش دیتا ہے، جبکہ تک پردہ واقع نہ ہو جائے۔ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! پردے سے کیا مراد ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کسی جان کا شرک کی حالت میں مرنا۔

Haidth Number: 10172
۔ ام المومنین سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ایک انصاری بچے کی طرف بلایا گیا، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس کے لیے خوشخبری ہے، یہ جنت کی چڑیوں میں سے ایک چڑیا ہے، اس نے نہ شرّ کو پایا اور نہ اس پر عمل کیا۔آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عائشہ! اس کے علاوہ کوئی اور بات بھی کرنی ہے؟ بیشک اللہ تعالیٰ نے جنت کے لیے لوگوں کو اس وقت پیدا کیا، جب وہ اپنے باپوں کی پشتوں میں تھے، اسی طرح جہنم کے لیے لوگوں کا اس وقت تعین کر دیا، جب وہ اپنے باپوں کی پشتوں میں تھے۔

Haidth Number: 10213

۔ (۱۰۲۱۴)۔ عَنْ جَابِرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: بَیْنَمَا نَحْنُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ صُفُوْفِنَا فِیْ الصَّلَاۃِ صَلَاۃِ الظُّھْرِ، اَوِ الْعَصْرِ، فَاِذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَتَنَاوَلُ شَیْئًا، ثُمَّ تَاَخَّرَ، فَتَاَخَّرَ النَّاسُ، فَلَمَّا قَضَی الصَّلَاۃَ قَالَ لَہُ اُبَیُّ بْنُ کَعْبٍ: شَیْئًا صَنَعْتَہُ فِیْ الصَّلَاۃِ لَمْ تَکُنْ تَصْنَعُہ؟ قَالَ: ((عُرِضَتْ عَلَیَّ الْجَنَّۃُ بِمَا فِیْھَا مِنَ الزَّھْرَۃِ النَّضْرَۃِ، فَتَنَاوَلْتُ مِنْھَـا قِطْفًا مِنْ عِنَبٍ، لِآتِیَکُمْ بِہٖفَحِیْلَ بَیْنِیْ وَبَیْنَہُ، وَلَوْ اَتَیْتُکُمْ بِہٖلَاَکَلَمِنْہُمَنْبَیْنَ السَّمَائِ وَالْاَرْضِ لَا یَنْقُصُوْنَہُ شَیْئًا، ثُمَّ عُرِضَتْ عَلَیَّ النَارُ، فَلَمَّا وَجَدْتُ سَفْعَہَا تَاَخَّرْتُ عَنْھَا، وَاَکْثَرُ مَنْ رَاَیْتُ فِیْھَا النِّسَائُ اللَّاتِیْ اِنِ ائْتُمِنَّ اَفْشَیْنَ، وَاِنْ یُسْاَلْنَ بَخِلْنَ، وَاِنْ سَاَلْنَ اَلْحَفْنَ (قَالَ حُسَیْنٌ: وَاِنْ اُعْطِیْنَ لَمْ یَشْکُرْنَ) وَرَاَیْتُ فِیْھَا لُحَیَّ بْنَ عَمْروٍ یَجُرُّ قُصْبَہُ فِیْ النَّارِ، وَاَشْبَہُ مَارَاَیْتُ بِہٖمَعَبْدُبْنُاَکْثَمَالْکَعْبِیُّ۔)) قَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اَیَخْشَی عَلَیَّ مِنْ شِبْھِہِ وَھُوَ وَالِدٌ؟ فَقَالَ: ((لَا، اَنْتَ مُؤْمِنٌ وَھُوَ کَافِرٌ۔)) وَکَانَ اَوَّلُ مَنْ حَمَلَ الْعَرْبَ عَلَی عِبَادَۃِ الْآوْثَانِ۔ (مسند احمد: ۱۴۸۶۰)

۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اقتدا میں صفوں میں کھڑے تھے، یہ ظہر یا عصر کی نماز تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز کے اندر ہی کوئی چیز پکڑنا چاہی اور پھر اس قدر پیچھے ہٹے کہ لوگ بھی پیچھے ہٹنے لگ گئے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: آج آپ نے نماز میں ایسی کاروائی کی ہے، جو پہلے نہیں کرتے تھے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت کو پوری چمک دمک اور تروتازگی کے ساتھ مجھ پر پیش کیا گیا، میں نے تمہارے پاس لانے کے لیے اس کا انگوروں کا گچھا پکڑنا چاہا، لیکن پھر بیچ میں رکاوٹ ڈال دی گئی اور اگر میں وہ لے آتا تو زمین وآسمان میں موجود تمام مخلوقات اس سے کھاتی، لیکن اس میں کوئی کمی واقع نہ ہوتی، پھر مجھ پر آگ پیش کی گئی، جب میں نے اس کی تپش محسوس کی تو میں پیچھے ہٹ آیا، اس میں اکثریت ان عورتوں کی تھی کہ جب ان کے پاس راز رکھا جائے تو وہ اس کو فاش کر دیتی ہیں، جب ان سے سوال کیا جائے تو وہ بخل کرتی ہیں، جب وہ سوال کرتی ہیں تو چمٹ جاتی ہیں اور جب ان کو دیا جائے تو شکر نہیں کرتیں، اور میں نے لحی بن عمرو کو جہنم میں دیکھا، وہ اپنی انتڑیاں کھینچ رہا تھا، میرے دیکھنے کے مطابق اس کی زیادہ مشابہت معبد بن اکثم کعبی سے تھی۔ سیدنا معبد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا اس مشابہت کی وجہ سے میرے بارے میں کوئی خطرہ ہے، جبکہ وہ والد بھی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، تم مؤمن ہو اور وہ کافر تھا۔ یہ وہ پہلا شخص تھا جس نے عربوں کو بتوں کی عبادت پر اکسایا تھا۔ عرب میں سب سے پہلے بتوں کی عبادت کو رائح کرنے والے شخص کا نام اس روایت میں لحی بن عمرو آیا ہے جبکہ صحیح عمرو بن لحی ہے۔ (دیکھیں بلوغ اللعانی) (عبداللہ رفیق)

Haidth Number: 10214
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اسراء والی حدیث بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پھر ہم کو چوتھے آسمان کی طرف چڑھایا گیا، جب جبریل علیہ السلام نے دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا، تو ان سے پوچھا گیا: تم کون ہو؟ انھوں نے کہا: میں جبریل ہوں، پھر پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ انھوں نے کہا: محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں، پس کہا گیا: کیا ان کی طرف پیغام بھیجا گیا ہے؟ انھوں نے کہا: جی ان کو بلایا گیا ہے، سو دروازہ کھول دیا گیا، پس اچانک میں نے ادریس علیہ السلام کو دیکھا، انھوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے حق میں خیر و بھلائی کی دعا کی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: {وَرَفَعْنَاہُ مَکَانًا عَلِیًّا} اور ہم نے اس کو بلند و بالا مقام تک بلند کر دیا۔

Haidth Number: 10321
۔ سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم یہ باتیں کیا کرتے تھے کہ بدر والے دن صحابہ کرام کی تعداد اتنی تھی، جتنی جالوت والے دن طالوت کے ساتھیوں کی تھی،یعنی تین سو اور چودہ پندرہ افراد تھے،، جنہوں نے طالوت کے ساتھ نہرکو عبور کیا تھا اور نہر سے گزر جانے والے صرف مؤمن تھے۔

Haidth Number: 10396
۔ سیدنا ابو نملہ انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب اہل کتاب تم سے بیان کریں تو نہ ان کی تصدیق کرو اور نہ تکذیب، بلکہ کہو: ہم اللہ تعالی، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں، پس اگر ان کی بات حق ہو گی تو تم نے اس کی تکذیب نہیں کی اور اگر وہ باطل ہو گی تو تم نے اس کی تصدیق نہیں کی۔

Haidth Number: 10429
۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اہل کتاب سے کسی چیز کے بارے میں سوال نہ کیا کرو، کیونکہ وہ تمہاری رہنمائی نہیں کریں گے، وہ تو خود گمراہ ہو چکے ہیں، اس طرح تم یا تو باطل کی تصدیق کرو گے یا حق کی تکذیب، پس بیشک شان یہ ہے کہ اگر موسی علیہ السلام بھی تمہارے ما بین زندہ ہو جائیں تو ان کے لیے کوئی چیز حلال نہیں ہو گی، مگر یہ کہ وہ میری پیروی کریں۔

Haidth Number: 10430
Haidth Number: 10431
۔ سیدنا عرباض بن ساریہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں اللہ تعالیٰ کا وہ بندہ ہوں، جس کو ام الکتاب میں اس وقت خاتم النبین لکھ دیا گیا تھا، جب آدم علیہ السلام ابھی تک اپنی مٹی میں پڑے ہوئے تھے، اور میں عنقریب تم کو اس کی تأویل کے بارے میں بتلاؤں گا، میں اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی دعا، عیسی علیہ السلام کی بشارت اور اپنی ماں کا خواب ہوں، میری ماں نے خواب دیکھا تھا کہ اس سے ایک ایسا نور نکلا، جس نے اس کے لیے شام کے محلات روشن کر دیئے اور نبیوں کی مائیں اسی طرح کے خواب دیکھتی رہی ہیں، اللہ تعالیٰ کی ان پررحمتیں ہوں۔

Haidth Number: 10457
۔ سیدنا میسرہ فجر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کو کب نبی بنایا گیا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں اس وقت نبی بنا دیا گیا تھا کہ ابھی تک آدم علیہ السلام روح اور جسم کے درمیان تھے۔

Haidth Number: 10458
۔ سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری امت میں ستائیس کذاب اور جھوٹے ہوں گے، ان میں سے چار خواتین ہوں گی، جبکہ میں خاتم النبین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔

Haidth Number: 10459
۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں قیامت کے دن اولادِ آدم کا سردار ہوں گا اور مجھے اس پر فخر نہیں ہے، میں وہ پہلا شخص ہوں گا کہ جس سے قیامت کے روزے زمین پھٹے گی اور مجھے اس پر فخر نہیں ہے اور میں بروز قیامت سب سے پہلا سفارشی ہوں گا اور مجھے اس پر بھی فخر نہیں ہے۔

Haidth Number: 10460
۔ سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب قیامت کا دن ہو گا تو میں انبیاء کا امام اور خطیب ہوں گا اور میں سفارش کرنے والا ہوں گا، جبکہ مجھے اس پر فخر نہیں ہے۔

Haidth Number: 10461

۔ (۱۰۶۵۳)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: فَنَزَلَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جَانِبَ الْحَرَّۃِ، ثُمَّ بَعَثَ إِلَی الْأَنْصَارِ فَجَاؤُوا نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَسَلَّمُوا عَلَیْہِمَا وَقَالُوا: ارْکَبَا آمِنَیْنِ مُطْمَئِنَّیْنِ، قَالَ: فَرَکِبَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَبُو بَکْرٍ وَحَفُّوا حَوْلَہُمَا بِالسِّلَاحِ، قَالَ: فَقِیلَ بِالْمَدِینَۃِ: جَائَ نَبِیُّ اللّٰہِ، فَاسْتَشْرَفُوا نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَنْظُرُونَ إِلَیْہِ وَیَقُولُونَ: جَائَ نَبِیُّ اللّٰہِ، فَأَقْبَلَ یَسِیرُ حَتَّی جَائَ إِلَی جَانِبِ دَارِ أَبِی أَیُّوبَ، قَالُوا: فَإِنَّہُ لَیُحَدِّثُ أَہْلَہَا إِذْ سَمِعَ بِہِ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ سَلَامٍ، وَہُوَ فِی نَخْلٍ لِأَہْلِہِ یَخْتَرِفُ لَہُمْ مِنْہُ، فَعَجِلَ أَنْ یَضَعَ الَّذِییَخْتَرِفُ فِیہَا، فَجَائَ وَہِیَ مَعَہُ، فَسَمِعَ مِنْ نَبِیِّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَرَجَعَ إِلٰی أَہْلِہِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَیُّ بُیُوتِ أَہْلِنَا أَقْرَبُ؟)) قَالَ: فَقَالَ أَبُو أَیُّوبَ: أَنَا یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! ہٰذِہِ دَارِی وَہٰذَا بَابِی، قَالَ: ((فَانْطَلِقْ فَہَیِّئْ لَنَا مَقِیلًا۔)) قَالَ: فَذَہَبَ فَہَیَّأَ لَہُمَا مَقِیلًا، ثُمَّ جَائَ فَقَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! قَدْ ہَیَّأْتُ لَکُمَا مَقِیلًا، فَقُومَا عَلٰی بَرَکَۃِ اللّٰہِ فَقِیلَا، فَلَمَّا جَاء َ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جَائَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ سَلَامٍ فَقَالَ: أَشْہَدُ أَنَّکَ رَسُولُ اللّٰہِ حَقًّا، وَأَنَّکَ جِئْتَ بِحَقٍّ، وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْیَہُودُ أَنِّی سَیِّدُہُمْ وَابْنُ سَیِّدِہِمْ وَأَعْلَمُہُمْ وَابْنُ أَعْلَمِہِمْ، فَادْعُہُمْ فَاسْأَلْہُمْ، فَدَخَلُوا عَلَیْہِ فَقَالَ لَہُمْ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا مَعْشَرَ الْیَہُودِ! وَیْلَکُمْ اتَّقُوا اللّٰہَ، فَوَالَّذِی لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، إِنَّکُمْ لَتَعْلَمُونَ أَنِّی رَسُولُ اللّٰہِ حَقًّا وَأَنِّی جِئْتُکُمْ بِحَقٍّ، أَسْلِمُوا۔)) قَالُوا: مَا نَعْلَمُہُ ثَلَاثًا۔ (مسند احمد: ۱۳۲۳۷)

سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو حرہ کی ایک جانب میں تشریف فرما ہوئے اور انصار کو اپنی آمد کی اطلاع بھجوائی۔ وہ لوگ نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آئے اور انہوں نے آپ دونوں کو سلام کہا اور عرض کیا آپ امن اور اطمینان کے ساتھ سوار ہو کر شہر میں تشریف لائیں۔ چناں چہ اللہ کے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور سیدناابو بکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنی اپنی سواری پر سوار ہوئے اور لوگوں نے اسلحہ تان کر آپ کے گرد گھیرا ڈال لیا۔ مدینہ منورہ میں خبر پھیل گئی کہ اللہ کے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لے آئے ہیں۔ چناں چہ لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف امڈکر آئے، تاکہ آپ کی زیارت کرلیں، اور وہ خوشی سے کہتے جاتے اللہ کے نبی تشریف لائے ہیں۔ آپ چلتے چلتے سیدناابو ایوب انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے گھر کے قریب آپہنچے۔ لوگوں نے کہا کہ آپ سیدنا ابو ایوب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے اہلِ خانہ سے باتیں کرنے لگیں گے۔ تو عبداللہ بن سلام اپنے اہلِ خانہ کے نخلستان میں اہلِ خانہ کے لیے کھجوریں چن رہے تھے انہوں نے بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آمد کی خبر سنی، وہ اس قدر تیزی اور جلدی سے آپ کی خدمت میں آئے کہ وہ کھجوریں اٹھائے ہوئے تھے۔ اور انہوں نے آکر آپ کی گفتگو سنی۔اس کے بعد وہ اپنے گھر تشریف لے گئے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہمارے رشتہ داروں کے گھروں میں سے کس کا گھر یہاں سے قریب ترین ہے۔ توسیدنا ابو ایوب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا اللہ کے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ! یہ میرا گھر اور میرا دروازہ ہے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اچھا آپ جا کر ہمارے لئے جگہ بنائیں۔سیدناانس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیںیہ سن کرسیدنا ابو ایوب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جا کر آپ کے لئے اور سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے لیے جگہ تیار کی۔ اور آ کر عرض کیا اللہ کے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ! میں آپ دونوں کے لئے جگہ تیار کر آیا ہوں۔ اللہ کے نام کی برکت سے اٹھ کر تشریف لائیں اور آرام فرمائیں۔ جب اللہ کے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے گھر آئے تو عبداللہ بن سلام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آگئے۔ اور کہنے لگے میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں اور دعوتِ حق اور دینِ حق لے کر مبعوث ہوئے ہیں۔ یہودی جانتے ہیں کہ میں ان کا سردار اور ابنِ سراد ہوں، اور میں ان کا سب سے بڑا عالم اور ان کے سب سے بڑے عالم کا بیٹا ہوں۔آپ ان یہودیوں کو بلوائیں۔ اور ان سے میری بابت دریافت فرمائیں۔ یہودی آئے تو اللہ کے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: اے یہودیو! اللہ سے ڈرو اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں تم یقینا جانتے ہو کہ میں واقعی اللہ کا رسول ہوں۔ اور میں تمہارے پاس دینِ حق اور دعوتِ حق لے کر آیا ہوں۔ تم اسلام قبول کر لو۔ تو وہ بولے، ہم اس بات کو نہیں جانتے۔

Haidth Number: 10653
سیدنا ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منبر پر تشریف فرما تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم انصار کے حق میں فرمایا: عام لوگوں کے میرے ساتھ تعلق کی مثال ایسے ہے جیسے اوپر اوڑھا ہوا کپڑا ہو اور انصار کا میرے ساتھ یوں تعلق ہے جیسے کوئی کپڑا جسم کے ساتھ متصل ہو (یعنی انصاری آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے خاص لوگ ہیں)۔ اگر عام لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار دوسری پہاڑی گھاٹی میں تو میں انصار والی گھاٹی میں چلنا پسند کروں گا اور اگر ہجرت والی فضیلت نہ ہوتی تو میں بھی انصار کا ایک فرد ہوتا۔ کسی کو انصار پر امارت و حکومت حاصل ہو تو وہ ان کے نیکوکاروں کے ساتھ حسن سلوک کا برتائو کرے، اور اگر ان میں سے کوئی کوتاہی ہو جائے تو وہ اس سے در گزر کرے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی طرف اشارہ کرکے فرمایا: جس کسی نے ان کو خوف زدہ کیا تو گویا اس نے مجھے خوف زدہ کیا ۔

Haidth Number: 11530
علی بن زید سے مروی ہے کہ سیدنا مصعب بن زبیر تک انصار کے ایک نمائندے کی کوئی شکایت پہنچی تو انہوںنے اس کے متعلق (برا بھلا یا سزا دینے کا) ارادہ کیا، سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا مصعب کے ہاں جا کر ان سے کہا:میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یوں فرماتے ہوئے سنا کہ میں تمہیں انصار کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی وصیت کرتا ہوں، ان میں سے جو آدمی نیکوکار ہو تم اس کی بات کو قبول کرو اور جس سے کوئی کوتاہی سرزد ہو جائے تم اس سے در گزر کرو۔ یہ سن کر سیدنا مصعب نے اپنے آپ کو چارپائی سے نیچے گرا دیا اور اپنا رخسار چٹائی پر رکھ کر کہا:اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا حکم سر آنکھوں پر، پھر اس انصاری کو چھوڑ دیا اور کچھ نہ کہا۔

Haidth Number: 11531
سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم (مرض الموت کے دنوں میں) سر اور منہ پر کپڑا لپیٹے باہر تشریف لائے اور فرمایا: لوگو! عام لوگ تعداد میںبڑھتے جا رہے ہیں اور انصار کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے، پس تم میں سے جو آدمی امور خلافت پر متمکن ہو اور کسی کو فائدہ پہنچا سکتا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ انصار کے نیکوکاروں کی بات کو قبول کر لے اور ان میں سے کسی سے کوئی کوتاہی ہو تو اس سے در گزر کرے۔

Haidth Number: 11532

۔ (۱۱۵۳۳)۔ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ زِیَادٍ السَّاعِدِیِّ الْأَنْصَارِیِّ، أَنَّہُ أَتٰی رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ الْخَنْدَقِ وَہُوَ یُبَایِعُ النَّاسَ عَلَی الْہِجْرَۃِ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! بَایِعْ ہٰذَا، قَالَ: ((وَمَنْ ہٰذَا؟)) قَالَ ابْنُ عَمِّی حَوْطُ بْنُ یَزِیدَ أَوْ یَزِیدُ بْنُ حَوْطٍ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَا أُبَایِعُکَ، إِنَّ النَّاسَ یُہَاجِرُونَ إِلَیْکُمْ وَلَا تُہَاجِرُونَ إِلَیْہِمْ، وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِیَدِہِ لَا یُحِبُّ رَجُلٌ الْأَنْصَارَ حَتّٰی یَلْقَی اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی إِلَّا لَقِیَ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی وَہُوَ یُحِبُّہُ، وَلَا یَبْغُضُ رَجُلٌ الْأَنْصَارَ حَتّٰی یَلْقَی اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی إِلَّا لَقِیَ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی وَہُوَ یَبْغُضُہُ۔)) (مسند احمد: ۱۵۶۲۵)

سیدنا حارث بن زیاد ساعدی انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ وہ خندق کے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پہنچے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لوگوں سے ہجرت کرنے کی بیعت لے رہے تھے، حارث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اس آدمی سے بھی بیعت لے لیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: یہ کون ہے؟ انھوں نے کہا: یہ میرا چچا زاد حوط بن یزیدیایزید بن حوط ہے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تم سے بیعت نہیں لیتا، لوگ تمہاری طرف ہجرت کرکے آئیں گے، تم ان کی طرف ہجرت کرکے نہیں جائو گے ۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! جو آدمی انصار سے محبت کرتا رہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے جا ملے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس آدمی سے محبت کرتا ہوگا، لیکن جو آدمی انصار سے بغض رکھے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے جا ملے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس آدمی سے بغض رکھتا ہو گا۔

Haidth Number: 11533

۔ (۱۱۵۳۴)۔ حَدَّثَنَا أَبُو سَعِیدٍ، حَدَّثَنَا شَدَّادٌ أَبُو طَلْحَۃَ، حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِی بَکْرٍ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ جَدِّہِ، قَالَ: أَتَتِ الْأَنْصَارُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِجَمَاعَتِہِمْ فَقَالُوْا إِلٰی مَتٰی نَنْزَعُ مِنْ ہٰذِہِ الْآبَارِ، فَلَوْ أَتَیْنَا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَدَعَا اللّٰہَ لَنَا فَفَجَّرَ لَنَا مِنْ ہٰذِہِ الْجِبَالِ عُیُونًا، فَجَائُ وْا بِجَمَاعَتِہِمْ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَمَّا رَآہُمْ قَالَ: ((مَرْحَبًا وَأَہْلًا لَقَدْ جَائَ بِکُمْ إِلَیْنَا حَاجَۃٌ)) قَالُوْا: إِی وَاللّٰہِ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ!، فَقَالَ: ((إِنَّکُمْ لَنْ تَسْأَلُونِی الْیَوْمَ شَیْئًا إِلَّا أُوتِیتُمُوہُ، وَلَا أَسْأَلُ اللّٰہَ شَیْئًا إِلَّا أَعْطَانِیہِ۔)) فَأَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ فَقَالُوْا: الدُّنْیَا تُرِیدُونَ فَاطْلُبُوا الْآخِرَۃَ، فَقَالُوْا بِجَمَاعَتِہِمْ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! ادْعُ اللّٰہَ لَنَا أَنْ یَغْفِرَ لَنَا، فَقَالَ: ((اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ، وَلِأَبْنَائِ الْأَنْصَارِ، وَلِأَبْنَائِ أَبْنَائِ الْأَنْصَارِ)) قَالُوْا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! وَأَوْلَادِنَا مِنْ غَیْرِنَا، قَالَ: ((وَأَوْلَادِ الْأَنْصَارِ)) قَالُوْا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! وَمَوَالِینَا؟ قَالَ: ((وَمَوَالِی الْأَنْصَارِ)) قَالَ: وَحَدَّثَتْنِی أُمِّی عَنْ أُمِّ الْحَکَمِ بِنْتِ النُّعْمَانِ بْنِ صُہْبَانَ: أَنَّہَا سَمِعَتْ أَنَسًا یَقُولُ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِثْلَ ہٰذَا غَیْرَ أَنَّہُ زَادَ فِیہِ: ((وَکَنَائِنِ الْأَنْصَارِ۔)) (مسند احمد: ۱۳۳۰۱)

عبید اللہ بن ابی بکر اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا (سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) سے بیان کرتے ہیں کہ انصار نے اکٹھے ہو کر شکوہ کیا کہ ہم کب تک ان کنوؤں سے پانی کھینچتے رہیں گے۔ ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں جا کر گزارش کریں اور آپ اللہ سے دعا کریں تاکہ وہ ان پہاڑوں سے ہمارے لیے چشمے جاری کر دے۔ پس وہ سب اکٹھے ہو کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں گئے، آپ نے ان کو دیکھا تو خوش آمدید کہا اور فرمایا: تمہیں کوئی خاص ضرورت ہی ہماری طرف لائی ہے۔ انہوںنے کہا: اے اللہ کے رسول! واقعی بات ایسے ہی ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آج تم جو بھی مانگو گے، وہ تمہیں دے دیا جائے گا اور میں بھی اللہ سے جو کچھ مانگوں گا وہ مجھے عنایت کر دے گا۔ یہ سن کر وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور بولے: کیا تم دنیا طلب کرنے آئے ہو؟آخرت کی کامیابی مانگ لو۔ ان سب نے بیک زبان عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے دعا فرمائیں کہ وہ ہماری مغفرت فرما دے، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یا اللہ! انصار کی، ان کے بیٹوں کی اور ان کے پوتوں کی مغفرت فرما دے۔ انصار نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اور غیر انصار سے ہونے والی ہماری اولاد کے حق میں بھی دعا فرما دیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: انصار کی سب اولاد کو بخش دے۔ انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! انصار کے غلاموں اور لونڈیوں کے حق میں بھی دعا فرما دیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یا اللہ! انصار کے غلاموں اور لونڈیوں کی بھی مغفرت فرما دے۔ عبید اللہ بن ابی بکر کا بیان ہے کہ مجھ سے میری والدہ نے ام حکم بنت نعما ن بن صہباء کی روایت سے بیان کیا انہوں نے کہا کہ میںنے سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو سنا وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اسی طرح بیان کرتے تھے، البتہ اس میں یہ بھی ہے کہ انصار نے مزید درخواست کی کہ اللہ کے رسول ہمارے بیٹوں کی بیویوں اور ہمارے بھائیوں کی بیویوں کے حق میں بھی دعائے مغفرت کر دیں۔

Haidth Number: 11534
۔ (دوسری سند) جب انصار کے لیے اونٹوں پر پانی لاد لاد کر لانا اور کھیتوں کو سیرات کرنا شاق گزرنے لگا تو وہ اکٹھے ہو کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میںگئے، تاکہ وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے درخواست کریں کہ آپ انہیں ایک بہتی نہر کھودنے کی اجازت فرمائیں۔ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: انصار کو خوش آمدید، اللہ کی قسم! آج تم مجھ سے جو بھی طلب کرو گے، میں تمہیں عنایت کردوں گا اور میں بھی اللہ سے تمہارے لیے جو کچھ مانگوں گا، وہ مجھے دے دے گا۔ انہوںنے ایک دوسرے سے کہا: اس وقت کو غنیمت سمجھو اور مغفرت کی درخواست کرو۔ ان سب نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ اللہ سے ہمارے حق میں مغفرت کی دعا فرمائیں، تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یوں دعا کی: یا اللہ! انصار کی، ان کی اولادوں کی اور ان کی اولادوں کی اولادوں کی مغفرت فرما دے۔

Haidth Number: 11535
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بے شک انصار میرے انتہائی خاص، راز دان اور امین لوگ ہیں، ان کی طرف آکر میں نے پناہ لی، پس تم ان کے نیکو کاروں کی بات کو قبول کرو اور ان میں سے کسی سے کوتاہی ہو تو اس سے درگزر کرو، انہوںنے اپنے عہد و پیمان کو تو پورا کر دیا ہے، لیکن ان کے حقوق کی ادائیگی باقی ہے۔

Haidth Number: 11536
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک شادی سے انصار کے بچوں اور عورتوں کو آتے ہوئی دیکھاتو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے: اللہ گواہ ہے کہ تم لوگوں میں سے میرے نزدیک محبوب ترین ہو۔ اللہ گواہ ہے کہ مجھے سب سے زیادہ محبوب لوگوں میں سے ہو۔ اللہ جانتا ہے کہ تم انصار مجھے سب سے زیادہ محبوب لوگوں میں سے ہو۔ ایک روایت کے الفاظ یوں ہیں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تین بار فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم مجھے سب لوگوں سے زیادہ محبوب ہو۔

Haidth Number: 11537
نضر بن انس سے روایت ہے کہ سیدنا زید بن ارقم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو واقعۂ حرہ کے دنوں میں ان کی اولاد اور ان کی قوم کے افراد کے قتل کی تعزیت کے سلسلہ میں لکھا اور کہا: میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو ایک خوش خبری سنانا چاہتا ہوں ، میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یوں فرماتے ہوئے سنا: یا اللہ! انصارکو، ان کے بیٹوں کو اور ان کے پوتوں کو بخش دے، انصار کی خواتین کو، انصار کے بیٹوں کی بیویوں کو اور انصار کے پوتوں کی خواتین کو بخش دے۔

Haidth Number: 11538
عمر و بن مرہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے ابو حمزہ طلحہ بن یزید سے سنا، انھوں نے کہا کہ انصار نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہر نبی کے کچھ پیروکار ہوتے ہیں، ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پیروی کی ہے۔ اب آپ دعا فرمائیںکہ اللہ تعالیٰ ہمارے پیروکار ہم میں سے بنائے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے حق میں دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ ان کے پیرو انہی میں سے بنائے۔ میں نے اس حدیث کا ابن ابی لیلی سے ذکر کیا، تو انہوںنے کہا کہ زید بن ارقم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی ایسے ہی کیا ہے۔

Haidth Number: 11539
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: انصار سے محبت کرنا ایمان کی اور ان سے بغض رکھنا نفاق کی علامت ہے۔

Haidth Number: 11540
سیدنا سعد بن عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: انصار کا یہ قبیلہ لوگوں کے امتحان کا ذریعہ ہے، ان سے محبت رکھنا ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا نفاق ہے۔

Haidth Number: 11541
سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس آدمی کا اللہ اور اس کے رسول پر ایمان ہو وہ انصار سے بغض نہیں رکھتا۔ یا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یوں فرمایا کہ جو آدمی انصار سے بغض رکھتا ہو، اللہ اور اس کا رسول اس سے بغض رکھتے ہیں۔

Haidth Number: 11542
ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا جھنڈا سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس ہوتا اور انصار کا جھنڈا سیدنا سعد بن عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاتھ میں ہوتا، جب شدیدجنگ چھڑتی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم انصار کے جھنڈے کے نیچے چلے جاتے۔

Haidth Number: 11543
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار کا ایک فرد ہوتا اور اگر لوگ ایک گھاٹییا وادی میں چلیں اور انصار دوسری گھاٹی میں ہوں تو میں انصار والی گھاٹی میں چلوں گا۔

Haidth Number: 11544

۔ (۱۱۵۴۵)۔ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ: اِجْتَمَعَ أُنَاسٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فَقَالُوْا آثَرَ عَلَیْنَا غَیْرَنَا، فَبَلَغَ ذٰلِکَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَجَمَعَہُمْ، ثُمَّ خَطَبَہُمْ فَقَالَ: ((یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ! أَلَمْ تَکُونُوا أَذِلَّۃً فَأَعَزَّکُمُ اللّٰہُ؟)) قَالُوْا: صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ، قَالَ: ((أَلَمْ تَکُونُوْا ضُلَّالًا فَہَدَاکُمُ اللّٰہُ؟)) قَالُوْا: صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ، قَالَ: ((أَلَمْ تَکُونُوْا فُقَرَائَ فَأَغْنَاکُمُ اللّٰہُ؟)) قَالُوْا: صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ، ثُمَّ قَالَ: ((أَلَا تُجِیبُونَنِی، أَلَا تَقُولُونَ!! أَتَیْتَنَا طَرِیدًا فَآوَیْنَاکَ، وَأَتَیْتَنَا خَائِفًا فَآمَنَّاکَ، أَلَا تَرْضَوْنَ! أَنْ یَذْہَبَ النَّاسُ بِالشَّائِ وَالْبُقْرَانِ (یَعْنِی الْبَقَرَ) وَتَذْہَبُونَ بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَتُدْخِلُونَہُ بُیُوتَکُمْ؟ لَوْ أَنَّ النَّاسَ سَلَکُوْا وَادِیًا أَوْ شُعْبَۃً وَسَلَکْتُمْ وَادِیًا أَوْ شُعْبَۃً سَلَکْتُ وَادِیَکُمْ أَوْ شُعْبَتَکُمْ، لَوْلَا الْہِجْرَۃُ لَکُنْتُ امْرَأً مِنَ الْأَنْصَارِ، وَإِنَّکُمْ سَتَلْقَوْنَ بَعْدِی أَثَرَۃً فَاصْبِرُوا حَتّٰی تَلْقَوْنِی عَلَی الْحَوْضِ۔)) (مسند احمد: ۱۱۵۶۸)

سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ انصار کے کچھ لوگوں نے جمع ہو کر آپس میں کچھ ایسی باتیں کیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دوسروں کوہمارے اوپر ترجیح دی ہے، جب یہ بات نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک پہنچی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انصار کو جمع کرکے ان سے خطاب فرماتے ہوئے فرمایا: اے انصار کی جماعت! کیایہ حقیقت نہیں کہ تم لوگ ذلیل اور رسورا تھے اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں عزت سے نوازا؟ انھوں نے کہا؛ اللہ اور اس کے رسول کی بات درست ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیایہ بھی حقیقت نہیں ہے کہ تم لوگ گمراہ تھے اور اللہ نے تمہیںہدایت سے نوازا؟ انھوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول کی بات بالکل ٹھیک ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیایہ بات بھی صحیح نہیں کہ تم لوگ غریب تھے اور اللہ نے تمہیں غنی اور خوشحال کیا؟ انھوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول کی بات صحیح ہے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم مجھے جوابا ً یوں کیوں نہیں کہتے کہ اے رسول! آپ کے شہر والوں نے آپ کو شہر بدر کر دیا تو ہم نے آپ کو پناہ دی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خوف زدہ ہو کر ہمار ے پاس پہنچے تو ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو امن دیا؟اے انصار! کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ لوگ بکریاں اور گائیں لے کر جائیں اور تم اللہ کے رسول کو اپنے ہمراہ لے کر جائو اور تم اس رسول کو اپنے گھروں میں داخل کرو، حقیقتیہ ہے کہ اگر لوگ کسی ایک وادییا گھاٹی میں چلیں تو میں اس گھاٹییا وادی میں چلوں گا، جس میں تم چلو گے، اگر ہجرت والی سعادت نہ ہوتی تو میں انصاری فرد ہوتا، تم عنقریب میرے بعد اس سے بھی بڑھ کر ترجیح و تفریق ملاحظہ کر و گے، مگر تم ایسی صورت میں بھی صبر کرنا یہاں تک کہ تم مجھ سے حوض کوثر پر آ ملو۔

Haidth Number: 11545