Blog
Books
Search Hadith

اس چیز کی ترغیب کا بیان کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابہ کے پاس دنیا کی بقدر ضرورت قلیل مقدار تھی

1110 Hadiths Found
۔ سیدنا عامر بن ربیعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، جو کہ بدری صحابی تھے، سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: اے میرے پیارے بیٹے عبد اللہ! رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں لشکر میں بھیجتے تھے، ہمارا زادِ راہ صرف چمڑے کے تھیلوں میں ہوتا تھا، وہ اس طرح تقسیم کیا جاتا کہ ہر ایک کو ایک ایک لپ آتی تھی، پھر ایک ایک کھجور تک نوبت جا پہنچی۔ بیٹے نے کہا: اے ابا جان! وہ ایک کھجور تم سے کیا کفایت کرتی ہو گی؟ انھوں نے کہا: بچو! یہ بات نہ کرو، جب وہ بھی نہیں ملتی تھی تو ہمیں اس کی بھی ضرورت محسوس ہوتی تھی۔

Haidth Number: 9282
۔ عبد اللہ بن شقیق کہتے ہیں: میں نے سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ مدینہ منورہ میں ایک سال تک سکونت اختیار کی، ایک دن انھوں نے مجھے کہا، جبکہ ہم سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے حجرے کے پاس تھے: میں نے دیکھا کہ ہمارے پاس پھٹ جانے والی پرانی چادریں ہوتی تھیں اور ایسے دن بھی آ جاتے تھے کہ ہم کھانے کی کوئی ایسی چیز نہیں پاتے تھے، جس کے ذریعے اپنے کمر کو کھڑا کر لیتے،یہاں تک کہ اس چیز کی نوبت آ جاتی کہ لوگ اپنی کمر کو سیدھا رکھنے کے لیے پتھر اٹھا کر اپنے بھوکے پیٹ پر رکھ کر اس کو کپڑے سے کس دیتے تھے، ایک دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمارے مابین کھجوریں تقسیم کیں، ہر انسان کو سات سات کھجوریں ملیں، ان میں خشک اور ردّی کھجوریں بھی تھیں، اور مجھے یہ بات خوش نہیں لگتی تھی کہ اس ردّی کھجور کی بجائے مجھے عمدہ کھجور ملتی، میں نے کہا: وہ کیوں؟ انھوں نے کہا: اس کو سختی سے چبانا پڑتا تھا۔

Haidth Number: 9283
۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے اپنے آپ کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ اس حالت میں دیکھا تھا کہ بھوک کی وجہ سے اپنے پیٹ پر پتھر باندھتا تھا، لیکن آج میرے مال کی زکوۃ کی مقدار چالیس ہزار ہے۔

Haidth Number: 9284
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ہمارا کھانا دو سیاہ چیزیں کھجور اور پانی ہوتی تھیں، اللہ کی قسم! ہم نے نہ تو تمہاری اس گندم کو دیکھا تھا اور نہ جانتے تھے کہ یہ کیا ہوتی ہے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ہمارا لباس بدوؤں والی چھوٹیچھوٹی چادریں ہوا کرتی تھیں۔

Haidth Number: 9285

۔ (۹۲۸۶)۔ عَنْ اَبِی حِسْبَۃَ مُسْلِمِ بْنِ اُکَیْسٍ مَوْلَی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَامِرٍ، عَنْ اَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ الْجَرَاحِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: ذَکَرَ مَنْ دَخَلَ عَلَیْہِ، فَوَجَدَہُ یَبْکِی، فَقَالَ: مَا یُبْکِیْکَیَا اَبَا عُبَیْدَۃَ؟ فَقَالَ: نَبْکِی اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذَکَرَ یَوْمًا مَا یَفْتَحُ اللّٰہُ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ وَیُفِيْئُ عَلَیْھِمْ حَتّٰی ذَکَرَ الشَّامَ، فقَالَ: ((اِنْ یُنْسَاْ فِی اَجَلِکَ یَا اَبَا عُبَیْدَۃَ فَحَسْبُکَ مِنَ الْخَدَمِ ثَلَاثَۃٌ: خَادِمٌ یَخْدُمُکَ، وَخَادِمٌ یُسَافِرُ مَعَکَ، وَخَادِمٌ یَخْدُمُ اَھْلَکَ وَیَرِدُ عَلَیْھِمْ، وَحَسْبُکُ مِنَ الدَّوَابِ ثَلَاثَۃٌ، دَابَّۃٌ لِرَحْلِکَ، وَدَابَّۃٌ لِثَقَلِکَ، وَدَابَّۃٌ لِغُلامِکَ۔)) ثُمَّ ھَا اَنَا اَنْظُرُ اِلَی بَیْتِی قَدِ امْتَلَائَ رَقِیْقًا وَاَنْظُرُ اِلَی مَرْبَطِی قَدِ امْتَلَا دَوَابَّ وَخَیْلًا، فَکَیْفَ اَلْقٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعْدَ ھٰذَا! وَقَدْ اَوْصَانَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ اَحَبَّکُمْ اِلَیَّ وَاَقْرَبَکُمْ مِنِّی مَنْ لَقِیَنِی عَلٰی مِثْلِ الْحَالِ الَّذِیْ فَارَقَنِی عَلَیْھَا۔)) (مسند احمد: ۱۶۹۶)

۔ سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، ایک آدمی ان کے پاس گیا اور ان کو روتا ہوا پایا، اس نے کہا: اے ابو عبیدہ! تم کیوں رو رہے ہو؟ انھوں نے کہا: میرے رونے کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک دن ان چیزوں کا ذکر کیا، جو اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو فتوحات اور غنیمتوں کی صورت میں عطا کرے گا، یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے شام کا ذکر بھی کیا اور مزید فرمایا: ابو عبیدہ! اگر تیری زندگی لمبی ہو جائے تو تین خادم تجھے کفایت کرنے چاہئیں، ایک خادم تیری خدمت کے لیے، ایک تیرے ساتھ سفر کرے کے لیے اور ایک خادم تیرے اہل خانہ کی خدمت کرنے کے لیے، جو ان کے پاس آتا جاتا رہے، اور تجھے تین سواریاں کافی ہو جانی چاہئیں، ایک تیری سواری کے لیے، ایک تیرے سامان کے لیے اور ایک سواری تیرے غلام کے لیے۔ اب توجہ کر، میں اپنے گھر کی طرف دیکھ رہا ہوں، وہ غلاموں سے بھرا ہوا ہے اور اصطبل جانوروں اور گھوڑوں سے بھرا ہوا، ان چیزوں کے ہوتے ہوئے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کس منہ سے ملوں گا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں وصیت کرتے ہوئے فرمایا تھا: تم میں مجھے سب سے زیادہ محبوب اور سب سے زیادہ میرے قریب وہ ہے، جو مجھے اسی حالت میں ملے، جس پر میں اس کو چھوڑ کر جا رہا ہوں۔

Haidth Number: 9286
۔ شقیق کہتے ہیں: سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنے ماموں سیدنا ابو ہاشم بن عتبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی تیماری داری کرنے کے لیے ان کے پاس گئے، وہ رونے لگ گئے، سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ماموں جان! کیوں رو رہے ہو، کوئی تکلیف پریشان کر رہی ہے یا دنیوی حرص رونے کا سبب بن رہی ہے؟ انھوں نے کہا: ان میںسے کوئی وجہ بھی نہیں ہے، بات یہ ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں یہ وصیت کرتے ہوئے فرمایا تھا: اے ابو ہاشم! ممکن ہے کہ تم ایسے اموال پا لو، جو لوگوںکے مابین تقسیم ہونا ہوں گے، بس صرف تیرے لیے مال میں سے ایک خادم اور اللہ تعالیٰ کے راستے کے لیے ایک سواری کافی ہو گی۔ لیکن اب میں اپنے آپ کو دیکھتا ہوں کہ میں نے مال جمع کیا ہے۔

Haidth Number: 9287
۔ (دوسری سند) سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا ابو ہاشم بن عتبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس گئے، جبکہ وہ بیمار تھے اور رو رہے تھے۔

Haidth Number: 9288
۔ حارثہ بن مضرب کہتے ہیں: میں سیدنا خباب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس گیا، جبکہ ان کو جسم کے سات مقامات پر داغا گیا تھا، انھوں نے کہا: میرے علم کے مطابق جو تکلیف مجھے ہے، وہ کسی اور کو نہیں ہے، اگر میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا کہ کوئی آدمی موت کی تمنا نہ کرے میں موت کی تمنا کرتا۔ جب میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھا، تو میرے پاس ایک درہم بھی نہیں تھا اور اب تو میرے گھر کے ایک کونے چالیس ہزار درہم پڑے ہوئے ہیں، پھر ان کا کفن لایا گیا اور انھوں نے اس کو دیکھ کر رونا شروع کر دیا اور کہا: لیکن سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے لیے کفن نہیں تھا، ما سوائے سفید و سیاہ رنگ کی ایک چادر کے، جب وہ ان کے سر پر رکھی جاتی تو پاؤں سے سکڑ جاتی اور جب پاؤں پر رکھی جاتی تو سر سے ہٹ جاتی، پھر اس کو ان کے سر پر ڈالا گیا اور پاؤں پر اذخر گھاس رکھ دی گئی۔

Haidth Number: 9289
۔ سیدنا خباب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ہجرت کی، ہم میں بعض ایسے افراد تھے کہ وہ دنیا میں اپنے اجر کی کوئی چیز کھائے بغیر فوت ہو گئے، ان میں سے ایک سیدنا مصعب بن عمیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے کہ جنھوں نے صرف اپنے ترکہ میں ایک دھاری دارچادر چھوڑی تھی، جب لوگ اس سے ان کے سر کو ڈھانپتے تو ان کی ٹانگیں ننگی ہو جاتیں اور جب ٹانگوں پر ڈالتے تو سر ننگا ہو جاتا تھا، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں فرمایا: اس کے سر کو ڈھانپ دو۔ اور ہم نے ان پاؤں پر اذخر گھاس ڈال دی تھی، لیکن بعض ایسے لوگ بھی تھے کہ ان کا پھل پکا اور وہ اسے چن رہا ہے۔

Haidth Number: 9290

۔ (۹۲۹۱)۔ عَنْ خَالِدِ بْنِ عُمَیْرٍ، قَالَ: خَطَبَ عُتْبَۃُ بْنُ غَزْوَانَ فَحَمِدَ اللّٰہَ وَاَثْنٰی عَلَیْہِ، ثُمَّ قَالَ: اَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّ الدُّنْیَا قَدْ آذَنَتْ بِصُرْمٍ وَوَلَّتْ حَذَّائَ وَلَمْ یَبْقَ مِنْھَا اِلَّا صُبَابَۃٌ کَصُبَابَۃِ الْاِنَائِیَتَصَابُّھَا صَاحِبُھَا، وَاِنَّکُمْ مُنْتَقِلُوْنَ مِنْھَا اِلَی دَارٍ لَا زَوَالَ لَھَا، فَانْتَقِلُوْا بِخَیْرِ مَا بِحَضْرَتِکُمْ، فَاِنَّہُ قَدْ ذُکِرَ لَنَا اَنَّ الْحَجَرَ یُلْقٰی مِنْ شَفِیْرِ جَھَنَّمَ فَیَھْوِیْ فِیْھَا سَبْعِیْنَ عَامًا مَایُدْرِکَ لَھَا قَعْرًا، وَاللّٰہِ! لَتُمْلَؤَنَّہْ اَفَعَجِبْتُمْ؟ وَاللّٰہِ! لَقَدْ ذُکِرَ لَنَا اَنَّ مَا بَیْنَ مِصْرَاعَیْ الْجَنَّۃِ مَسِیْرَۃَ اَرْبَعِیْنَ عَامًا وَلَیَاْتِیَنَّ عَلَیْہِیَوْمٌ کَظِیْظُ الزِّحَامِ، وَلَقَدْ رَاَیْتُنِیْ سَابِعَ سَبْعَۃٍ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَالَنَا طَعَامٌ اِلَّا وَرَقَ الشَّجَرِ حَتّٰی قَرِحَتْ اَشْدَاقُنَا، وَاِنِّی الْتَقَطْتُ بُرْدَۃً فَشَقَّقْتُھَا بَیْنِی وَبَیْنَ سَعْدٍ، فَاْتَّزَرَ بِنِصْفِھَا، فَمَا اَصْبَحَ مِنَّا اَحَدٌ الْیَوْمَ اِلاَّ اَصْبَحَ اَمِیْرَ مِصْرٍ مِّنَ الْاَمْصَارِ، اِنِّی اَعُوْذُ بِاللّٰہِ اَنْ اَکُوْنَ فِی نَفْسِی عَظِیْمًا وَعِنْدَا للّٰہِ صَغِیْرًا، وَاِنَّھَا لَمْ تَکُنْ نَبُوَّۃٌ قَطُّ اِلَّا تَنَاسَخَتْ حَتّٰییَکُونَ عَاقِبَتُھَا مُلْکًا، وَسَتَبْلُوْنَ، اَوْ سَتَخْبُرُوْنَ الْاُمَرَائَ بَعْدَنَا۔ (مسند احمد: ۱۷۷۱۸)

۔ خالد بن عمیر کہتے ہیں: سیدنا عتبہ بن غزوان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے خطاب کیا، اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی اور پھر کہا: اَمَّا بَعْدُ! پس دنیا نے اپنے ختم ہونے کی خبر دے دی ہے اور یہ جلدی پھرنے والی ہے، اب یہ اتنی ہی باقی رہ گئی، جتنا کہ برتن میںتھوڑا سا پانی باقی رہ جاتا ہے، جس کو اس کا مالک پی لیتا ہے، اور تم لوگ ختم نہ ہونے والے گھر کی طرف منتقل ہونے والے ہو، پس اپنے پاس موجود بھلائی کے ساتھ منتقل ہو جاؤ، ہمیں یہ بات بتلائی گئی کہ ایک پتھر کو جہنم کے کنارے سے اس میں پھینکا جاتا ہے اور وہ ستر سال گرتے رہنے کے باوجود اس کی تہہ تک نہیں پہنچ پاتا، اللہ کی قسم! اتنی وسیع جہنم کو بھر دیا جائے گا، کیا تم لوگوں کو تعجب ہو رہا ہے؟ اللہ کی قسم! ہمیں بتلایا گیا کہ جنت کے ایک دروازے کے دو پٹوں کے درمیان چالیس سال کی مسافت کا فاصلہ ہے، لیکن اس پر بھی ایک ایسا دن آئے گا کہ یہ ہجوم سے بھرا ہوا ہو گا، میں نے خود دیکھا کہ ہم سات افراد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھے، ہمارا کھانا صرف درخت کے پتے تھے،جس کہ وجہ سے گوشۂ دہن پر زخم ظاہر ہونے لگتے تھے اور میں نے ایک چادر اٹھائی اور اس کو اپنے اور سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے مابین دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا، نصف سے انھوں نے ازار باندھ لیا، لیکن اب ہم میں سے ہر کوئی ایک ایک شہر کا امیر بن بیٹھا ہے، میں اس چیز سے پناہ مانگتا ہوں کہ میں اپنے آپ کو اپنے نفس میں تو عظیم سمجھوں، لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں کم قدرا ہوں، نبوت جب بھی ختم ہوتی تھی تو اس کا انجام بادشاہت کی صورت میں نکلتا تھا، اور ہمارے بعد عنقریب تم بھی بادشاہوں کا تجربہ کرو گے۔

Haidth Number: 9291
۔ (دوسری سند) سیدنا عتبہ بن غزوان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ہمیں منبر پر چڑھ کر خطبہ دیا اور کہا: میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ ہم سات افراد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھے اور ہمارا کھانا صرف اور صرف لوبیے جیسی ترکاری کے پتے تھے، اس سے ہمارے گوشۂ دہن زخمی ہونے لگتے تھے۔

Haidth Number: 9292
۔ موسیٰ کے باپ علی بن رباح سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں اسکندریہ میں سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس تھا، لوگوں نے اپنی خوشحالی کا ذکر کیا، اس موقع پر ایک صحابی نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس حال میں فوت ہوئے تھے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اہل و عیال نے جَو اور سَلْت کی مکس روٹی نہیں کھائی۔

Haidth Number: 9293

۔ (۹۲۹۴)۔ عَنْ اَبِی حَرْبٍ اَنَّ طَلْحَۃَ حَدَّثَہُ وَکَانَ مِنْ اَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: اَتَیْتُ الْمَدِیْنَۃَ وَلَیْسَ لِی بِھَا مَعْرِفَۃٌ، فَنَزَلْتُ فِی الصُّفَّۃِ مَعَ رَجُلٍ، فَکَانَ بَیْنِی وَبَیْنَہُ کُلَّ یَوْمٍ مُدٌّ مِّنْ تَمْرٍ، فَصَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذَاتَ یَوْمٍ، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ رَجُلٌ مِّنْ اَصْحَابِ الصُّفَّۃِ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اَحْرَقَ بُطُونَنَا التَّمْرُ، وَتَخَرَّقَتْ عَنَّا الْخُنُفُ، فَصَعِدَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَخَطَبَ ثُمَّ قَالَ: ((وَاللّٰہِ لَوْ وَجَدْتُ خُبْزًا، اَوْ لَحْمًا لَاَطْعَمْتُکُمُوْہُ، اَمَا اِنَّکُمْ تُوْشِکُوْنَ اَنْ تُدْرِکُوْا، وَمَنْ اَدْرَکَ ذَلِکَ مِنْکُمْ اَنْ یُّرَاحَ عَلَیْکُمْ بِالْجِفَانِ، وَتَلْبَسُوْنَ مِثْلَ اَسْتَارِالْکَعْبَۃِ۔)) قَالَ: فَمَکَثْتُ اَنَا وَصَاحِبِی ثَمَانِیَۃَعَشَرََیَوْمًا وَلَیْلَۃً مَالَنَا طَعَامٌ اِلَّا الْبَرِیْرَ، حَتّٰی جِئْنَا اِلَی اِخْوَانِنَا مِنَ الْاَنْصَارِ فَوَاسَوْنَا، وَکَانَ خَیْرَ مَا اَصَبْنَا ھٰذَا التَّمْرُ ۔ (مسند احمد: ۱۶۰۸۴)

۔ سیدنا طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، جو کہ اصحاب ِ رسول میں سے ہیں، سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں مدینہ منورہ آیا، جبکہ میری کسی سے معرفت نہیں تھی، میں صفہ میں ایک آدمی کے ساتھ ٹھہرا، مجھے اور اس کو روزانہ ایک مُدّ کھجوروں کا ملتا تھا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک دن نماز پڑھائی، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو اصحاب ِ صفہ میں سے ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! کھجور نے ہمارے پیٹ جلا دیئے ہیں اور گھٹیا روئی کے سخت کپڑے ہمارے جسم کو کھا گئے ہیں،یہ سن کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا: اللہ کی قسم! اگر میرے پاس روٹییا گوشت ہوتا تو میں تم کو ضرور کھلاتا، خبردار! قریب ہے کہ تم ان نعمتوں کو پا لو، تم میں سے جس نے اس چیز کو پا لیا کہ تم پر بڑی بڑی دیگیں لائی جائیں، (تو پھر تو اس کو کفایت کرے گا) اور تم کعبہ کے پردوں کی طرح کپڑے پہنو گے۔ پھر اٹھارہ دنوں تک میرے اور میرے ساتھی کا کھانا پیلو کے درخت کا کالا پھل رہا، پھر ہم اپنے انصاری بھائیوں کے پاس گئے، پس انھوں نے ہمارے ساتھ اچھا سلوک کیا، بہرحال ہم کو وہاں سے بھی کھجور ہی ملی، البتہ وہ بہترین قسم کی تھی۔

Haidth Number: 9294
۔ سیدنا عتبہ بن عمر اور سیدنا ابو مسعود بدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صدقے کا حکم دیتے تھے، پس ہم میں سے ایک آدمی جاتا اور بوجھ اٹھانے کا کام کر کے ایک مد لے کر آتا، جبکہ آج بعض کے پاس ایک ایک لاکھ درہم موجود ہے۔ شقیق کہتے ہیں: میرا خیال ہے وہ ایک لاکھ والے سے اپنے آپ کو مراد لیتے تھے۔

Haidth Number: 9295
۔ حسن بصری کہتے ہیں: جب سیدنا سلمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی وفات کاوقت قریب ہوا تو وہ رونے لگ گئے اور انھوں نے کہا: بیشک رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں ایک نصیحت کی تھی، لیکن ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وصیت کو چھوڑ دیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نصیحتیہ تھی کہ سوار کے زادِ راہ کی طرح ہماری روزی بقدر ضرورت ہونی چاہیے۔ پھر سیدنا سلمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جو ترکہ چھوڑ کر فوت ہوئے، جب ہم نے اس کو دیکھا تو وہ پچیس چھبیسیا پینتیس چھتیس درہموں کی قیمت کا تھا۔

Haidth Number: 9296
۔ سیدنا بریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم کو دنیا سے ایک خادم اور ایک سواری کافی ہونی چاہیے۔

Haidth Number: 9297
۔ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: بیشک میں روزِ قیامت سب سے زیادہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قریب ہوں گا، اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک قیامت کے دن وہ شخص سب سے زیادہ میرے قریب ہو گا، جو دنیا سے اسی حالت پر جائے گا، جس حالت میں میں اس کو چھوڑ رہا ہوں۔ اور اللہ کی قسم ہے کہ تم میں سے ہر آدمی کسی نہ کسی طرح دنیا میں ملوث ہوا ہے، ما سوائے میرے۔

Haidth Number: 9298

۔ (۹۳۱۲)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذَاتَ یَوْمٍ وَنحْنُ عِنْدَہُ: ((طُوْبٰی لِلْغُرَبَائِ۔)) فَقِیْلَ: مَنِ الْغُرَبَائُ؟ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((اُنَاسٌ صَالِحُوْنَ فِی اُنَاسٍ سُوئٍ کَثِیْرٍ، مَنْیَعْصِیْھِمْ اَکْثَرُ مِمَّنْ یُطِیْعُھُمْ۔)) قَالَ: وَکُنَّا عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمًا آخَرَ حِیْنَ طَلَعَتِ الشَّمْسُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((سَیَاْتِی اُنَاسٌ مِنْ اُمَّتِییَوْمَ الْقَیَامَۃِ نُوْرُھُمْ کَضَوْئِ الشَّمْسِ۔)) قُلْنَا: مَنْ اُولٰئِکَ؟ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! (وَفِی رَوَایَۃٍ) فَقَالَ: اَبُوْبَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ نَحْنُ ھُمْ یاَرَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((لَاَ، وَلَکُمْ خَیْرٌ کَثِیْرٌ۔)) فَقَالَ: ((فُقَرَائُ الْمُھَاجِرِیْنَ الَّذِیْنَ تُتَّقَی بِھِمُ الْمَکَارِہُ، یَمُوْتُ اَحَدُھُمْ وَحَاجَتُہُ فِی صَدْرِہِ، یُحْشَرُوْنَ مِنْ اَقْطَارِ الْاَرْضِ۔)) (مسند احمد: ۶۶۵۰)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ایک دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا، جبکہ ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس موجود تھے: غُرَباء کے لیے خوشخبری ہے۔ کسی نے کہا: غرباء کون لوگ ہیں؟ اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ بہت زیادہ برے لوگوں کے اندر پائے جانے والے نیک لوگ ہوتے ہیں، ان کی بات نہ ماننے والوں کی تعداد بات ماننے والوں کی بہ نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں: ایک اور دن کی بات ہے، سورج طلوع ہو رہا تھا، جبکہ ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس موجود تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن میرے امت میں سے ایسے لوگ آئیں گے کہ ان کا نور سورج کی روشنی کی طرح ہو گا۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ کون لوگ ہوں گے؟ ایک روایت میں ہے: سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ان سے مراد ہم لوگ ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی نہیں، اور تم لوگوں میں بھی بڑی خیر ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ فقراء مہاجرین ہیں، جن کے ذریعے ناپسندیدہ چیزوں سے بچا جاتا ہے اور ان میں جب کوئی فوت ہوتا ہے تو اس کی ضرورت اس کے سینے میں ہوتی ہے، ان لوگوں کو زمین کے مختلف خطوں سے جمع کیا جائے گا۔

Haidth Number: 9312
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک فقراء مہاجرین بروز قیامت مالدار لوگوں سے چالیس سال پہلے سبقت لے جائیں گے۔ سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اگر تم لوگ چاہتے ہو تو ہم تمہیں اپنے مال میں سے دے دیتے ہیں اور اگر چاہتے ہو تو ہم تمہارا معاملہ سلطان کے سامنے ذکر کر دیتے ہیں، انھوں نے کہا: ہم صبر کریں گے اور کسی سے کسی چیز کا سوال نہیں کریں گے۔

Haidth Number: 9313

۔ (۹۳۱۴)۔ حَدَّثَنَا الْھُذَیْلُ بْنُ مَیْمُوْنٍ الْکُوْفِیُّ الْجُعْفِیُّ، کَانَ یَجْلِسُ فِی مَسْجِدِ الْمَدِیْنَۃِیَعْنِی مَدِیْنَۃَ اَبِی جَعْفَرٍ، قَالَ عَبْدُاللّٰہِ: ھٰذَا شَیْخٌ قَدِیْمٌ کُوْفِیٌّ، عَنْ مُطَرِّحِ بْنِ یَزِیْدَ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ زَحْرٍ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ یَزِیْدَ، عَنِ الْقَاسِمِ (یَعْنِی ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ)، عَنْ اَبِی اُمَامَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((دَخَلْتُ الْجَنَّۃَ فَوَجَدْتُّ فِیْھَا خَشْفَۃً بَیْنَیَدَیَّ، فَقُلْتُ: مَاھٰذَا؟ قَالَ: بِلَالٌ، قَالَ: فَمَضَیْْتُ فَاِذَا اَکْثَرُ اَھْلِ الْجَنَّۃِ فُقَرَائُ الْمُھَاجِرِیْنَ وَذرَارِیُّ الْمُسْلِمِیْنَ، وَلَمْ اَرَ اَحَدًا اَقَلَّ مِنَ الْاِغْنِیَائِ وَالنِّسَائِ، فَقَیْلِ لِی: اَمَّا الْاَغْنِیَائُ فَھُمْ ھَاھُنَا بِالْبَابِ یُحَاسَبُوْنَ وَیُمَحَّصُوْنَ، وَاَمَّا النِّسَائُ فَاَلْھَاھُنَّ الْاَحْمَرَانِ الذَّھَبُ وَالْحَرِیْرُ، قَالَ: ثُمَّ خَرَجْنَا مِنْ اَحَدِ اَبْوَابِ الْجَنَّۃِ الثَّمَانِیَۃِ، فَلَمَّا کُنْتُ عِنْدَ الْبَابِ اَتَیْتُ بِکِفَّۃٍ فَوُضِعْتُ فِیْھَا وَوُضِعَتْ اُمَّتِی فِی کِفَّۃٍفَرَجَحَتُ بِھَا، ثُّمَّ اُتِیَ بِاَبِی بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَوُضِعَ فِی کِفَّۃٍ وَجِیْیئَ بِجَمِیْعِ اُمَّتِی فِی کِفَّۃٍ فَوُضِعُوْا فَرَجَحَ اَبُوْبَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، وَجِیْئَ بِعُمَرَ فَوُضِعَ فِی کِفَّۃٍ وَجِیْیئَ بِجَمِیْعِ اُمَّتِی فَوُضِعُوْا فَرَجَحَ عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، وَعُرِضَتْ اُمَّتِی رَجُلًا رَجُلًا فَجَعَلُوْا یَمرُّوْنَ فَاسْتَبْطَاْتُ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ عَوْفٍ ثُمَّ جَائَ بَعْدَ الْاِیَاسِ، فَقُلْتُ: عَبْدَ الرَّحْمٰنِ۔ فَقاَلَ: بِاَبِیْ وَاُمِّیْیَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! وَالَّذِیْ بَعَثَکَ بِالْحَقِّ مَاخَلَصْتُ اِلَیْکَ حَتّٰی ظَنَنْتُ اَنِّیْ لَا اَنْظُرُ اِلَیْکَ اَبَدًا اِلاَّ بَعْدَ الْمَشِیْبَاتِ، قَالَ: وَمَا ذَاکَ؟ قَالَ: مِنْ کَثْرَۃِ مَالِیْ، اُحَاسَبُ وَاُمَحَّصُ۔)) (مسند احمد: ۲۲۵۸۷)

۔ سیدنا ابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں جنت میں داخل ہوا اور اپنے سامنے سے آہٹ سنی، میں نے پوچھا کہ یہ کون سی آواز ہے؟ اس نے کہا: یہ سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں، پھر میں آگے کو بڑھا اور دیکھا کہ جنت میں زیادہ تر لوگ فقراء مہاجرین اور مسلمانوں کے بچے ہیں اور سب سے کم مالدار لوگ اور عورتیں ہیں، پھر مجھے بتلایا گیا کہ مالدار لوگوں کا جنت کے دروازے پر ابھی محاسبہ کیا جا رہا ہے اور ان کی مزید جانچ پڑتال کی جا رہی ہے، رہا مسئلہ خواتین کا، تو دو سرخ چیزوںیعنی سونے اور ریشم نے ان کو غافل کر دیا تھا، پھر ہم جنت کے آٹھ دروازوں میں سے کسی ایک دروازے سے باہر آئے، جب میں دروازے پر ہی تھا تو میرے پاس ایک پلڑا لایا گیا اور مجھے اس میں اور میرے امت کو دوسرے پلڑے میں رکھا گیا، پس میں بھاری ثابت ہوا، پھر سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو لا کر ایک پلڑے میں رکھا گیا اور باقی امت کو دوسرے میں، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ والا پلڑا جھک گیا، پھر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو لایا گیا اور ایک پلڑے میں رکھا اور باقی ساری امت کو دوسری پلڑے، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھاری ثابت ہوئے، پھر میری امت کے ایک ایک آدمی کو پیش کیا گیا، پس وہ آگے کو گزرتے گئے، میں نے اس معاملے میں سیدنا عبد الرحمن بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو سست اور متأخر پایا، پھر وہ ناامید ہو جانے کے بعدا ٓیا، میں نے کہا: عبد الرحمن! انھوں نے کہا: جی اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا، آپ تک پہنچنے سے پہلے مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ میں کبھی بھی آپ کو نہیں دیکھ سکوں گا، مگر بڑھاپوں کے بعد، میں نے کہا: وہ کیوں؟ انھوں نے کہا: میرے مال کی کثرت کی وجہ سے میرا محاسبہ ہوتا رہا اور مزید جانچ پڑتال کی جاتی رہی۔

Haidth Number: 9314

۔ (۹۳۱۵)۔ عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ سَالِمٍ اللَّخْمِيِّ، قَالَ: بَعَثَ عُمَرُبْنُ عَبْدِ الْعَزِیْزِ اِلیٰ اَبِی سَلاَّمٍ الْحَبَشِیِّ، فَحُمِلَ اِلَیْہِ عَلَی الْبَرِیْدِیَسْاَلُہُ عَنِ الْحَوْضِ، فَقُدِّمَ بِہٖعَلَیْہِ، فَسَاَلَہُ فَقَالَ: سَمِعْتُ ثَوْبَانَ یَقُوْلُ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((اِنَّ حَوْضِیْ مِنْ عَدَنٍٍ اِلیٰ عَمَّانَ الْبَلْقَائِ، مَاؤُہُ اَشَدُّ بَیاَضًا مِنَ اللَّبَنِ وَاَحْلیٰ مِنِ الْعَسَلِ، وَاَکَاوِیْبُہُ عَدَدُ النُّجُوْمِ، مَنْ شَرِبَ مِنْہُ شَرْبَۃً لَمْ یَظْمَاْ بَعْدَھَا اَبَدًا، اَوَّلُ النَّاسِ وُرُوْدًا عَلَیْہِ فُقَرَائُ الْمُھَاجِرِیْنَ۔))، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَابِ: مَنْ ھُمْ؟ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((ھُمُ الْشُّعْثُ رُؤُوْسًا، اَلدُّنْسُ ثِیَابًا، الذین لا یَنْکِحُوْنَ الْمُتَنَعِّمَاتِ، وَلا تُفْتَحُ لَھُمْ اَبْوَابُ السُّدَدِ۔)) فَقَالَ عُمَرُبْنُ عَبْدِ الْعَزِیْزِ: لَقَدْ نَکَحْتُ الْمُتَنَعِّمَاتِ، وَفُتِحَتْ لِیَ السُّدَدُ اِلاَّ اَنْ یَّرْحَمَنِی اللّٰہُ، وَاللّٰہِ لاجَرَمَ اَنْ لا اَدْھُنَ رَاْسِیْ حَتّٰییَشْعَثَ، وَلا اَغْسِلُ ثَوْبِی الَّذِیْیَلِیْ جَسَدِیْ حَتّٰییَتَّسِخَ۔ (مسند احمد: ۲۲۷۲۵)

۔ عباس بن سالم لخمی سے مروی ہے کہ عمر بن عبد العزیز نے ابو سلام حبشی کو بلا بھیجا، اس کو پیغام رساں کے ذریعے لایا گیا، وہ ان سے حوض کے بارے میں حدیث سننا چاہتے تھے، پس ان کو ان کے پاس لایا گیا، عمر بن عبد العزیز نے ان سے سوال کیا اور انھوں نے جواباً کہا: میں نے سیدنا ثوبان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے حوض (کی وسعت) عدن سے عمان بلقاء تک ہے، اس کا پانی برف سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے، اس کے پیالے ستاروں کی تعدادجتنے ہیں،جس نے اس سے پانی پی لے، وہ اس کے بعد کبھی بھی پیاسا نہیں ہو گا، اس پر سب سے پہلے آنے والے فقراء مہاجرین ہوں گے۔ سیدنا عمربن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ کون ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ وہ ہیں جن کے بال پراگندہ ہوتے ہیں، کپڑے میلے ہوتے ہیں، جو آسودہ حال عورتوں سے شادی نہیں کر سکتے اور جن کے لیے بند دروازے نہیں کھولے جاتے۔ یہ سن کر عمر بن عبد العزیز نے کہا: میں نے تو آسودہ حال عورتوں سے شادی بھی ہے اور میرے لیے بند دراوازے بھی کھولے گئے ہیں، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھ پر رحم کر دے، اللہ کی قسم! اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ میں اپنے سر پر اس وقت تک تیل نہیں لگاتا ، جب تک وہ پراگندہ نہیں ہو جاتا اور زیب ِ تن کیے ہوئے کپڑے نہیں دھوتا، جب تک وہ میلے نہیں ہو جاتے۔

Haidth Number: 9315
۔ سیدنا ابودردا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول االلہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا: ضعفاء کو میرے لیے تلاش کر کے لاؤ،بیشک تم لوگ انہی کمزوروں کی وجہ سے رزق دیے اور مدد کئے جاتے ہو۔

Haidth Number: 9316
۔ سیدنا عائذ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا سلمان، سیدنا صہیب اور سیدنا بلال کچھ لوگوں میں بیٹھے ہوئے تھے، وہاں سید نا ابو سفیان بن حرب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا گزر ہوا، اِن لوگوں نے کہا: اللہ کے دشمن کی گردن اتارنے میں اللہ کی تلواروں نے اپنا حق ادا نہیں کیا، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: کیا تم یہ بات قریش کے بزرگ اور سردار کے بارے میں کہتے ہو؟ (کچھ خیال کرو)۔ پھر جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ ساری بات بتلائی گئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابو بکر! شاید تو نے ان کو ناراض کر دیا ہو اور اگر تو نے ان کو ناراض کر دیا تو تیرا ربّ بھی تجھ پر ناراض ہو جائے گا۔ یہ سن کر سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان کی طرف لوٹے اور کہا: اے ہمارے بھائیو! شاید تم مجھ سے ناراض ہو گئے ہو؟ انھوں نے کہا: نہیں، اے ابو بکر! اللہ تعالیٰ تجھ کو بخش دے۔

Haidth Number: 9317
۔ سیدنا ابو ہریرہ اور سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مؤمن کو جس درد و تکلیف، تعب و تکان، رنج و غم اور ملال و نقصان میں مبتلا ہوتا ہے، یہاں تک کہ وہ کانٹا ، جو اس کو چبھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی وجہ اس کی خطائیں معاف کرتا ہے۔

Haidth Number: 9358
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس مؤمن کو دنیا میں کوئی کانٹا چبھتا ہے اور وہ ثواب کی نیت سے صبر کرتا ہے تو اس وجہ سے قیامت کے دن اس کی خطائیں کم کی جائیں گی۔

Haidth Number: 9359
۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مؤمن کو تکان، تھکاوٹ، غم، بیماری، تکلیفیا پریشان کر دینے والا کوئی غم لاحق ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان آزمائشوں کو اس کی برائیوں کا کفارہ بناتا ہے۔

Haidth Number: 9360
۔ سیدنا ابو موسی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کوئی بھی نہیں ہے، جو سنی ہوئی تکلیف پر اللہ تعالیٰ کی بہ نسبت زیادہ صبر کرنے والا ہو، بندہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتا ہے اور اس کے لیے اولاد کر دعویٰ کر دیتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ پھر بھی ان کو عافیت دیتا ہے، ان کا دفاع کرتا ہے اور ان کو رزق عطا کرتا ہے۔

Haidth Number: 9361

۔ (۹۳۶۲)۔ عَنْ خَبَّابٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: اَتَیْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَھُوَ فِیْ ظِلِّ الْکَعْبَۃِ مُتَوَسِّدًا بُرْدَۃً لَّہُ، فَقُلْنَا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!، اُدْعُ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی لَنَا وَاسْتَنْصِرْہُ، قَالَ: فَاحْمَّرَ لَوْنُہُ، اَوْ تَغَیَّرَ فَقَالَ: ((لَقَدْ کَانَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ یُحْفَرُ لَہُ حُفْرَۃٌ وَیُجَائَ بِالْمِنْشَارِ فَیُوْضَعُ عَلٰی رَاْسِہِ فَیُشَقُّ مَا یَصْرِفُہُ عَنْ دِیْنِہِ، وَیُمْشَطُ بِاَمْشَاطِ الْحَدِیْدِ مَادُوْنَ عَظْمٍ مِنْ لَّحْمٍ، اَوْ عَصْبٍ، مَا یَصْرِفُہُ عَنْ دِیْنِہِ، وَلَیُتِمَّنَّ اللّٰہُ تَبَارَکَ اللّٰہُ وَتَعَالٰی ھٰذَا الْاَمْرَ حَتّٰییَسِیْرَ الرَّاکِبُ مَا بَیْنَ صَنْعَائَ اِلٰی حَضْرَمَوْتَ لا یَخْشٰی اِلاَّ اللّٰہَ تَعَالٰی وَالذِّئْبَ عَلٰی غَنَمِہِ، وَلٰکِنَّکُمْ تَعْجَلُوْنَ۔)) (مسند احمد: ۲۱۳۷۱)

۔ سیدنا خباب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گئے، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کعبہ کے سائے میں ایک چادر کو تکیہ بنا کر تشریف فرما تھے، ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے دعا کریں اور اس سے مدد طلب کریں،یہ سن کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا رنگ سرخ ہو گیایا تبدیل ہو گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: البتہ تحقیق تم سے پہلے ایسے لوگ بھی تھے کہ ان کے لیے گڑھا کھودا گیا، پھر آری لائی گئی اور ان کے سروں پر رکھ کر ان کو چیر دیا گیا، لیکنیہ تکلیف بھی ان کو دین سے باز نہ رکھ سکی اور لوہے کی کنگھیوں سے لوگوں کی ہڈیوں اور پٹھوں سے گوشت نوچ لیا گیا، لیکنیہ چیز بھی ان کو دین سے نہ پھیر سکی، اور ضرور ضرور اللہ تعالیٰ اس دین کو اس طرح مکمل کرے گا کہ ایک سوار صنعاء سے یمن تک سفر کرے گا، لیکن اس کو صرف اللہ تعالیٰ کا ڈر ہو گا، یا اپنی بکریوں پر بھیڑئیے کا ڈر ہو گا، لیکن تم جلد بازی کر رہے ہو۔

Haidth Number: 9362
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مسلمان کو جو مصیبت بھی لاحق ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ اس کو اس کے گناہوں کا کفارہ بناتا ہے، یہاں تک کہ وہ کانٹا جو اس کو چبھتا ہے۔

Haidth Number: 9363
۔ (دوسری سند) نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں ہے کوئی مسلمان جس کو کانٹا چبھے یا اس سے بڑی تکلیف پہنچے، مگر اس کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔

Haidth Number: 9364