Blog
Books
Search Hadith

موسی علیہ السلام کا خضر علیہ السلام کے ساتھ واقعہ

88 Hadiths Found

۔ (۱۰۳۸۳)۔ حَدَّثَنِیْ اَبُوْ عُثْمَانَ، عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ بُکَیْرٍ النَّاقِدُ ثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ، عَنْ عَمْروٍ یَعْنِیْ ابْنَ دِیْنَارٍ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالَ: قُلْتُ لِاِبْنِ عَبَّاسٍ: اِنَّ نَوْفًا الشَّامِیَّیَزْعَمُ اَوْ یَقُوْلُ: لَیْسَ مُوْسٰی صَاحِبُ خَضِرٍ مُوْسٰی بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ، قَالَ: کَذَبَ نَوْفٌ عَدُوُّ اللّٰہِ، حَدَّثَنِیْ اُبَیُّ بْنُ کَعْبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِنَّ مُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ قَامَ فِیْ بَنِیْ اِسْرَئِیْلَ خَطِیْبًا فَقَالُوْا لَہُ: مَنْ اَعْلَمُ النَّاسِ؟ قَالَ: اَنَا، فَاَوْحَی اللّٰہُ تَبَارَکَ وَ تَعَاَلٰی اِلَیْہِ اِنَّ لِیْ عَبْدًا اَعْلَمَ مِنْکَ، قَالَ: رَبِّ فَاَرِنِیْہِ؟ قَالَ: قِیْلَ تَاْخُذْ حُوْتًا فَتَجْعَلُہُ فِیْ مِکْتَلٍ فَحَیْثُمَا فَقَدْتَہُ فَھُوَ ثَمَّ، قَالَ: فَاَخَذَ حُوْتًا فَجَعَلَہُ فِیْ مِکْتَلٍ وَ جَعَلَ ھُوَ وَ صَاحِبُہُ یَمْشِیَانِ عَلَی السَّاحِلِ حَتّٰی اَتَیَا الصَّخْرَۃَ رَقَدَ مُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ وَ اضْطَرَبَ الْحُوْتُ فِیْ الْمِکْتَلِ فَوَقَعَ فِیْ الْبَحْرِ، فَحَبَسَ اللّٰہُ جِرْیَۃَ الْمَائِ فَاضْطَرَبَ الْمَائُ فَاسْتَیْقَظَ مُوْسٰی فَقَالَ: {لِفَتَاہُ آتِنَا غَدَائَ نَا لَقَدَ لَقِیْنَا مِنْ سَفَرِنَا ھٰذَا نَصَبًا} وَ لَمْ یُصِبِ النَّصَبَ حَتّٰیجَاوَزَ الَّذِیْ اَمَرَہُ اللّٰہُ تَباَرَکَ وَ تَعَالٰی فَقَالَ: {اَرَاَیْتَ اِذْ اَوَیْنَا اِلَی الصَّخْرِۃِ فَاِنِّیْ نَسِیْتُ الْحُوْتَ وَ مَا اَنْسَانِیْہِ اِلَّا الشَّیْطَانُ} { فَارْتَدَّا عَلَیَّ آثَارِھِمَا قَصَصًا} فَجَعَلَا یَقُصَّانِ آثَارَھُمَا {وَاتَّخَذَ سَبِیْلََہُ فِیْ الْبَحْرِ سَرَبًا} قَالَ: اَمْسَکَ عَنْہُ جِرْیَۃَ الْمَائِ فَصَارَ عَلَیْہِ مِثْلُ الطَّاقِ فَکَانَ لِلْحُوْتِ سَرَبًا وَ کَانَ لِمُوْسٰی عَلَیْہِ عَجَبًا حَتَّی انْتَھَیَا اِلَی الصَّخْرَۃِ فَاِذَا رَجُلٌ مُسَجِّیٌ عَلَیْہِ ثَوْبٌ، فَسَلَّمَ مُوْسٰی علیہ السلام ، فَقَالَ: وَ اَنّٰی بِاَرْضِکَ السَّلَامُ، قَالَ: اَنَا مُوْسٰی، قَالَ: مُوْسٰی بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ؟ قَالَ: نَعَمْ، {اَتَّبِعُکَ عَلَی اَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا} قَالَ: یَا مُوْسٰی! اِنِّیْ عَلٰی عِلْمٍ مِنَ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی لَا تَعْلَمُہُ، وَ اَنْتَ عَلٰی عِلْمٍ مِنَ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَّمَکَہُ اللّٰہُ، فَانْطَلَقَا یَمْشِیَانِ عَلَی السَّاحِلِ فَمَرَّتْ سَفِیْنَۃٌ فَعَرَفُوْا الْخَضِرَ فَحُمِلَ بِغَیْرِ نَوْلٍ فَلَمْ یُعْجِبْہُ، وَ نَظَرَ فِیْ السَّفِیْنَۃِ فَاَخَذَ الْقَدُوْمَ یُرِیْدُ اَنْ یَکْسِرَ مِنْھَا لَوْحًا، فَقَالَ: حُمِلْنَا بِغَیْرِ نَوْلٍ وَ تُرِیْدُ اَنْ تَخْرُقَھَا لِتُغْرِقَ اَھْلَھَا {قَالَ اَ لَمْ اَقُلْ اِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا} قَالَ: اِنِّیْ نَسِیْتُ، وَ جَائَ عُصْفُوْرٌ فَنَقَرَ فِیْ الْبَحْرِ قَالَ الْحَضِرُ: مَا یُنْقِصُ عِلْمِیْ وَ لَا عِلْمُکَ مِنْ عِلْمِ اللّٰہِ تَعَالَی اِلَّا کَمَا یُنْقِصُ ھٰذَا الْعُصْفُوْرُ مِنْ ھٰذَا الْبَحْرِ {فَانْطَلَقَا حَتّٰی اِذَا اَتَیَا اَھْلَ قِرْیَۃٍ اسْْتَطْعَمَا اَھْلَھَا فَاَبَوْا اَنْ یُضَیِّفُوْھُمَا} فَرَاٰی غُلَامًا فَاَخَذَ رَاْسَہُ فَانْتَزَعَہُ فَقَالَ: {اَقَتَلْتَ نَفْسًا زَکِیَّۃً بِغَیْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَیْئًا نُکْرًا، قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَکَ اِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا} قَالَ: سُفْیَانُ: قَالَ عَمْرٌو: وَ ھٰذِہِ اَشَدُّ مِنَ الْاُوْلٰی، قَالَ: فَانْطَلَقَا فَاِذَا جِدَارٌ یُرِیْدُ اَنْ یَنْقَضَّ فَاَقَامَہُ، اَرَانَا سُفْیَانُ بِیَدِہِ فَرَفَعَ یَدَہُ ھٰکَذَا رَفَعًا فَوَضَعَ رَاحَتَیْہِ فَرَفَعَھُمَا لِبَطْنِ کَفَّیْہِ رَفْعًا فَقَالَ: {لَوْ شِئْتَ لَا تَّخَذْتَ عَلَیْہِ اَجْرًا قَالَ ھٰذَا فِرَاقُ بَیْنِیْ وَ بَیْنِکَ} قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: کَانَتِ الْاَوْلیٰ نِسْیَانًا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَرْحَمُ اللّٰہُ مُوْسٰی لَوْ کَانَ صَبَرَ حَتّٰییَقُصَّ عَلَیْنَا مِنْ اَمْرِہِ۔)) (مسند احمد: ۲۱۴۳۱)

۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں: میں نے سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے کہا: نوف شامی کا خیال ہے کہ جس موسی کی خضر سے ملاقات ہوئی تھی، وہ بنی اسرائیل والے موسی نہیں ہیں، انھوں نے کہا: اللہ کے دشمن نوف نے جھوٹ بولا ہے، سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک موسی علیہ السلام بنی اسرائیل میں خطاب کرنے کے لیے کھڑے ہوئے، لوگوں نے ان سے پوچھا: لوگوں میں سب سے زیادہ علم رکھنے والا کون ہے؟ انھوں نے کہا: میں ہوں، اُدھر سے اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کر دی کہ میرا ایک بندا تجھ سے زیادہ علم والا ہے، انھوں نے کہا: اے میرے ربّ! تو پھر وہ مجھے دکھاؤ، ان سے کہا گیا کہ تم ایک مچھلی پکڑو اور اس کو ایک ٹوکرے میں ڈالو، جہاں تم اس کو گم پاؤ گے، تو وہ وہاں ہو گا، پس انھوں نے مچھلی پکڑی اور اس کو ایک ٹوکرے میں رکھا اور انھوں نے اور ان کے ایک ساتھی نے ساحل کی طرف چلنا شروع کر دیا،یہاں تک کہ وہ ایک چٹان کے پاس پہنچ گئے، موسی علیہ السلام وہاں سو گئے، مچھلی نے ٹوکرے میں حرکت کی اور سمندر میں کود گئی، اللہ تعالیٰ نے مچھلی کے داخل ہونے والی جگہ کا پانی روک لیا (اور یوں ایک غار سی نظر آنے لگی)، جب پانی مضطرب ہوا تو موسی علیہ السلام بیدار ہو گئے (اور کہیں آگے جا کراپنے نوجوان سے) کہا: لا ہمارا کھانا دے، ہمیں تو اپنے اس سفر سے تھکاوٹ اٹھانی پڑی۔ موسی علیہ السلام نے اس مقام سے آگے گزر کر تھکاوٹ محسوس کی، جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا، آگے سے اس نوجوان نے جواب دیا کہ کیا آپ نے دیکھا بھی؟ جب کہ ہم چٹان پر ٹیک لگا کر آرام کر رہے تھے، وہیں میں مچھلی بھول گیا تھا ، دراصل شیطان نے مجھے بھلا دیا۔ چنانچہ وہیں سے وہ اپنے قدموں کے نشان ڈھونڈتے ہوئے واپس لوٹے۔ پس انھوں نے اپنے قدموں کے نشانات کو ڈھونڈنا شروع کر دیا، اور اس مچھلی نے انوکھے طریقہ سے دریا میں اپنا راستہ بنا لیا۔ اور وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے پانی کا چلاؤ روک لیا اور وہ جگہ طاق کی طرح نظر آنے لگی،یہ مچھلی کے لیے انوکھا اور موسی علیہ السلام کے لیےعجیب کام تھا، بہرحال وہ دونوں بالآخر اس چٹان تک پہنچ گئے، مطلوبہ مقام پر پہنچ کر انھوں نے دیکھا کہ ایک آدمی ہے، اس نے کپڑا ڈھانپا ہوا ہے، موسی علیہ السلام نے اس کو سلام کہا، اس نے آگے سے کہا: تیری علاقے میں سلام کیسے آ گیا؟ انھوں نے کہا: میں موسی ہوں، خضر علیہ السلام نے کہا: بنو اسرائیل کا موسی؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، میں آپ کی تابعداری کروں کہ آپ مجھے اس نیک علم کو سکھا دیں۔ خضر علیہ السلام نے کہا: اے موسی! بیشک مجھے اللہ کی طرف سے ایسا علم دیا گیا ہے کہ تم اس کو نہیں جانتے اور تم کو اسی کی طرف سے ایسا علم دیا گیا ہے کہ میں اس کیمعرفت نہیں رکھتا، پھر وہ دونوں ساحل پر چل پڑے (اور خضر علیہ السلام نے موسی علیہ السلام پر پابندی لگا دی کہ انھوں نے اس سے کسی چیز کے بارے میں سوال نہیں کرنا)، وہاں سے ایک کشتی گزری، انھوں نے خضر علیہ السلام کو پہچان لیے، اس لیے ان کو بغیر کسی اجرت کے سوار کر لیا گیا، لیکن اس چیز نے ان کو تعجب میں ڈالا، پھر خضر علیہ السلام نے کشتی کو دیکھا اور کلہاڑا لے کر اس کی ایک تختی کو توڑنا چاہا، موسی علیہ السلام نے کہا: ان لوگوں نے ہمیں اجرت کے بغیر سوار کر لیا اور اب تم اس کشتی کو توڑ کر سب سواروں کو غرق کرنا چاہتے ہو؟ انھوں نے کہا: میں نے تو پہلے ہی تجھ سے کہہ دیا تھا کہ تو میرے ساتھ ہر گز صبر نہ کر سکے گا۔ موسی علیہ السلام نے کہا: بیشک میں بھول گیا تھا، پھر ایک پرندہ آیا اور اس نے سمندر سے اپنی چونچ بھری، خضر علیہ السلام نے اس کو دیکھ کر کہا: اے موسی! میرے اور تیرے علم نے اللہ تعالیٰ کے علم میں اتنی کمی کی ہے، جتنی کہ اس پرندے نے اس سمندر میں کی ہے، پھر وہ دونوں چلے، یہاں تک کہ وہ دونوں ایک گاؤں والوں کے پاس آ کر ان سے کھانا طلب کیا، لیکن انھوں نے ان کی مہمان داری سے صاف انکار کر دیا۔ نیز خضر علیہ السلام نے وہاں ایک لڑکا دیکھا اور اس کو پکڑ کر اس کا سر اکھاڑ دیا، موسی علیہ السلام نے کہا: کیا تو نے ایک پاک جان کو بغیر کسی جان کے عوض مار ڈالا، بیشک تو نے تو بڑی ناپسندیدہ حرکت کی، انھوں نے کہا: کیا میں نے تم کو نہیں کہا تھا کہ تم میرے ہمراہ رہ کر ہر گز صبر نہیں کر سکتے۔ عمرو نے اپنی روایت میں کہا: یہ پہلے کام سے زیادہ سخت کام تھا، پھر وہ دونوں چل پڑے، جب خضر علیہ السلام نے دیوار کو گرتے ہوئے دیکھا تو انھوں نے اس کو سیدھا کر دیا، سفیان راوی نے اس کیفیت کو بیان کرتے ہوئے اپنے ہاتھ کو اس طرح بلند کیا، پھر اپنی ہتھیلیوں کو رکھا اور پھر ان کو ہتھیلیوں کی اندرونی سمت کی طرف سے بلند کیا، موسی علیہ السلام نے کہا: اگر آپ چاہتے تو اس پر اجرت لے لیتے، اس نے کہا: بس یہ جدائی ہے میرے اور تیرے درمیان۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا: پہلی بار تو موسی علیہ السلام بھول گئے تھے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ موسی علیہ السلام پر رحم کرے، کاش وہ صبر کرتے تاکہ وہ ہم پر اپنے مزید معاملات بیان کرتے۔

Haidth Number: 10383
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے سے دو یا تین سال پہلے مجھ سے نکاح کیا تھا، اس وقت میری عمر سات برس تھی،یہ سیدہ خدیجہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی وفات کے دنوں کی بات ہے۔

Haidth Number: 10551

۔ (۱۰۵۵۲)۔ حَدَّثَنَا أَبُوْ سَلَمَۃَ وَیَحْیٰی قَالَ: لَمَّا ھَلَکَتْ خَدِیْجَۃُ جَائَ تْ خَوْلَۃُ بِنْتُ حَکِیْمٍ، اِمَرَأَۃُ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُوْنٍ قَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَلَا تَزَوَّجُ؟ قَالَ: ((مَنْ؟)) قَالَتْ: اِنْ شِئْتَ بِکْرًا وَاِنْ شِئْتَ ثَیِّبًا، قَالَ: ((فَمَنِ الْبِکْرُ؟)) قَالَتْ: اِبْنَۃُ أَحَبِّ خَلْقِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ اِلَیْکَ عَائِشَۃُ بِنْتُ أَبِیْ بَکْرٍ، قَالَ: ((وَمَنْ ثَیِّبٌ؟)) قَالَتْ: سَوْدَۃُ ابْنَۃُ زَمْعَۃَ، قَدْ آمَنَتْ بِکَ وَاتْبَعَتْکَ عَلٰی مَا تَقُوْلُ، قَالَ: ((اذْھَبِیْ فَاذْکُرِیْھِمَا عَلَیَّ۔)) فَدَخَلَتْ بَیْتَ أَبِیْ بَکْرٍ فَقَالَتْ: یَا أُمَّ رُوْمَانَ! مَاذَا أَدْخَلَ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ مِنَ الْخَیْرِ وَالْبَرَکَۃِ، قَالَتْ: وَمَا ذَاکِ؟ قَالَتْ: أَرْسَلَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَخْطُبُ عَلَیْہِ عَائِشَۃَ، قَالَتِ: انْتَظِرِیْ أَبَابَکْرٍ حَتّٰییَأْتِیَ فَجَائَ أَبُوْبَکْرٍ فَقَالَتْ: یَا أَبَابَکْرٍ مَاذَا أَدْخَلَ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ مِنَ الْخَیْرِ وَالْبَرَکَۃِ؟ قَالَ: وَمَا ذَاکِ؟ قَالَتْ: أَرْسَلَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَخْطُبُ عَلَیْہِ عَائِشَۃَ، قَالَ: وَھَلْ تَصْلُحُ لَہُ اِنَّمَا ھِیْ ابْنَۃُ أَخِیْہِ، فَرَجَعْتْ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَذَکَرَتْ ذٰلِکَ لَہُ، قَالَ: ((ارْجَعِیْ اِلَیْہِفَقُوْلِیْ لَہُ: أَنَا أَخُوْکَ وَأَنْتَ أَخِیْ فِی الْاِسْلَامِ، وَابْنَتُکَ تَصْلُحُ لِیْ۔)) فَرَجَعَتْ فَذَکَرَتْ لَہُ ذٰلِکَ لَہُ، قَالَ: انْتَظِرِیْ وَخَرَجَ، قَالَتْ أُمُّ رُوْمَانَ: اِنَّ مُطْعِمَ بْنَ عَدِیٍ قَدْ کَانَ ذَکَرَھَا عَلَی اِبْنِہِ فَوَاللّٰہِ! مَا وَعَدَ وَعْدًا قُطُّ فَأَخْلَفَہُ لِأَبِیْ بَکْرٍ، فَدَخَل أَبُوْبَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَلٰی مُطْعِمِ بْنِ عَدِیٍّ وَعِنْدَہُ امْرَأَتُہُ أُمُّ الْفَتٰی، فَقَالَتْ: یَاابْنَ أَبِیْ قُحَافَۃَ! لَعَلَّکَ مُصْبٍ صَاحِبَنَا مُدْخِلُہُ فِیْ دِیْنِکَ الَّذِیْ أَنْتَ عَلَیْہِ اِنْ تَزَوَّجَ اِلَیْکَ؟ قَالَ أَبُوْ بَکْرٍ لِلْمُطْعِمِ بْنِ عَدِیٍّ: اَقَوْلَ ھٰذِہِ تَقُوْلُ، قَالَ: اِنَّھَا تَقُوْلُ ذٰلِکَ، فَخَرَجَ مِنْ عِنْدِہِ وَقَدْ اَذْھَبَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ مَا کَانَ فِیْ نَفْسِہِ مِنْ عِدَتِہِ الَّتِیْ وَعَدَہُ فَرَجَعَ، فَقَالَ: اِدَعِیْ لِیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَدَعَتْہُ فَزَوَّجَھَا اِیَّاہُ، وَعَائِشَۃُیَوْمَئِذٍ بِنْتُ سِتِّ سِنِیْنَ، ثُمَّّ خَرَجَتْ فَدَخَلَتْ عَلَی سَوْدَۃَ بِنْتِ زَمْعَۃَ فَقَالَتْ: مَاذَا أَدْخَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَیْکَ مِنَ الْخَیْرِ وَالْبَرَکَۃِ! قَالَتْ: وَمَا ذَاکِ؟ قَالَتْ: أَرْسَلَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَخْطُبُکَ عَلَیْہِ، قَالَتْ: قَالَتْ: وَدِدْتُ، ادْخُلِیْ اِلٰی أَبِیْ فَاذْکُرِیْ ذَاکِ لَہُ، وَکَانَ شَیْخًا کَبِیْرًا قَدْ اَدْرَکَہُ السِّنُّ قَدْ تَخَلَّفَ عَنِ الْحَجِّ، فَدَخَلَتْ عَلَیْہِ فَحَیَّتْہُ بِتَحِیَّۃِ الْجَاھِلِیَّۃِ، فَقَالَ: مَنْ ھٰذِہِ؟ فَقَالَتْ: خَوْلَۃُ بِنْتُ حَکِیْمٍ، قَالَ: فَمَا شَأْنُکِ؟ قَالَتْ: أَرْسَلَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَخْطُبُ عَلَیْہِ سَوْدَۃَ، قَالَ: کُفْئٌ کَرِیْمٌ، مَاذَا تَقُوْلُ صَاحِبَتُکِ؟ قَالَتْ: تُحِبُّ ذَاکَ، قَالَ: ادْعُھَا اِلَیَّ فَدَعَیْتُھَا قَالَ: أَیْ بُنَیَّۃُ! اِنَّ ھٰذِہِ تَزْعَمُ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ قَدْ أَرْسَلَ یَخْطُبُکِ، وَھُوَ کُفْئٌ کَرِیْمٌ، أَ تُحِبِّیْنَ أَنْ أُزَوِّجَکِ بِہٖ؟قَالَتْ: نَعَمْ،قَالَ: ادْعِیْہِ لِیْ، فَجَائَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِلَیْہِ فَزَوَّجَھَا اِیَّاہُ، فَجَائَ ھَا أَخُوْھَا عَبْدُ بْنُ زَمْعَۃَ مِنَ الْحَجِّ فَجَعَلَ یَحْثِیْ فِیْ رَأْسِہِ التُّرَابَ، فَقَالَ بَعْدَ أَنْ أَسْلَمَ: لَعَمْرُکَ! اِنِّیْ لَسَفِیْہٌیَوْمَ أَحْثِیْ فِیْ رَأْسِیَ التُّرَابَ اَنْ تَزَوَّجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَوْدَۃَ بِنْتَ زَمْعَۃَ، قَالَتْ عَائِشَۃُ: فَقَدِمْنَا الْمَدِیْنَۃَ فَنَزَلْنَا فِیْ بَنِی الْحَارِثِ بْنِ الخَزْرَجِ فِی السُّنْحِ، قَالَتْ: فَجَائَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَدَخَلَ بَیْتَنَا وَاجْتَمَعَ اِلَیْہِ رِجَالٌ مِنَ الْأَنْصَارِ وَنِسَائٌ، فَجَائَ تْنِیْ أُمِّیْ وَاِنِّیْ لَفِیْ اَُرْجُوْحَۃٍ بَیْنَ عَذْقَیْنِ تَرْجَحُ بِیْ، فَاَنْزَلَتْنِیْ مِنَ الْأُرْجُوْحَۃِ وَلِیَ جُمَیْمََۃٌ فَفَرَقَتْھَا وَمَسَحَتْ وَجْھِیْ بِشَیْئٍ مِنْ مَائٍ ثُمَّّ أَقْبَلَتْ تَقُوْدُنِیْحَتّٰی وَقَفَتْ بِیْ عِنْدَ الْبَابِ وَاِنِّیْ لَاَنْھَجُ حَتّٰی سَکَنَ مِنْ نَفْسِیْ، ثُمَّّ دَخَلَتْ بِیْ فَاِذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ جَالِسٌ عِنْدَ سَرِیْرٍ فِیْ بَیْتِنَا، وَعِنْدَہُ رِجَالٌ وَنِسَائٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَاَجْلَسَتْنِیْ فِیْ حِجْرِہِ، ثُمَّّ قَالَتْ: ھٰؤُلَائِ أَھْلُکَ فَبَارَکَ اللّٰہُ لَکَ فِیْھِمْ وَبَارَکَ لَھُمْ فِیْکَ، فَوَثَبَ الرِّجَالُ وَالنِّسَائُ فَخَرَجُوْا، وَبَنٰی بِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ بَیْتِنَا مَا نُحِرَتْ عَلَیَّ جَزُوْرٌ وَلَاذُبِحَتْ عَلَیَّ شَاۃٌ حَتّٰی أَرْسَلَ اِلَیْنَا سَعْدُ بْنُ عُبَادَۃَ بِجَفْنَۃٍ کَانَ یُرْسِلُ بِھَا اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ اِذَا دَارَ اِلٰی نِسَائِہِ، وَأَنَا یَوْمَئِذٍ بِنْتُ تِسْعِ سِنِیْنَ۔ (مسند احمد: ۲۶۲۸۸)

۔ ابو سلمہ اور یحییٰ بیان کرتے ہیں کہ جب سیدہ خدیجہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا وفات پا گئیں تو سیدنا عثمان بن مظعون ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بیوی سیدہ خولہ بنت ِ حکیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئی اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ شادی نہیںکریں گے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: کس سے؟ انھوں نے کہا: اگر آپ کنواری کو چاہتے ہیں تو وہ بھی مل سکتی ہے اور اگربیوہ چاہتے ہے تو وہ بھی مل سکتی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: کنواری کون ہے؟ انھوں نے کہا: آپ کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے محبوب ترین شخص کی بیٹی ہے، عائشہ بنت ابی بکر ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: بیوہ کون ہے؟ انھوں نے کہا: سودہ بنت زمعہ، وہ آپ کے ساتھ ایمان لائی ہے اور آپ کے فرمان کے مطابق آپ کی پیروی کی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ٹھیک ہے، تم جاؤ اور دونوں کو میرے بارے میں یہ پیغام دو۔ پس سیدہ خولہ، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے گھر میں داخل ہوئی اور کہا: اے ام رومان! اللہ تعالیٰ نے کیا خیر و برکت تمہارے گھر میں داخل کر دی ہے! اس نے کہا: وہ کیا، سیدہ خولہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بھیجا ہے، میں عائشہ کے لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی منگنی کا پیغام لے کر آئی ہوں، اس نے کہا: ابو بکر کے آنے کا انتظار کر، اتنے میں سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آ گئے، سیدہ خولہ نے کہا: اے ابو بکر! اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں پر کیا خیر و برکت نازل کر دی ہے! انھوں نے کہا: وہ کیا، اس نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بھیجا ہے، میں عائشہ کے لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی منگنی کا پیغام لے کر آئی ہوں، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: یہ عائشہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے جائز ہے، یہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بھتیجی ہے، پس وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف لوٹیں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بات بتلائی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو لوٹ جا اور ان کو کہہ: میں تیرا اور تو میرا اسلامی بھائی ہے اور تیری بیٹی میرے لیے جائز ہے۔ پس وہ لوٹی اور ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو یہ بات بتلائی، اب کی بار انھوں نے کہا: تو پھر تو انتظار کر، پھر سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نکل پڑے، اُدھر سیدہ ام رومان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے یہ تفصیل بتائی کہ مطعم بن عدی نے عائشہ کے لیے اپنے بیٹے کا ذکر کیا تھا، پس اللہ کی قسم ہے کہ کبھی ایسے نہیں ہوا کہ وہ وعدہ کرے اور پھر ابو بکر کے لیے اس کی پاسداری نہ کرے، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مطعم بن عدی کے پاس پہنچ گئے، اس کی بیوی ام الفتی اس کے پاس ہی بیٹھی ہوئی تھی، اس کی بیوی نے کہا: اے ابن ابی قحافہ! اگر ہمارا بندہ تیری طرف شادی کر لے تو ممکن ہو گا کہ تو اس کو بے دین بنا کر اپنے دین میں داخل کردے، یہ سن کر سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مطعم بن عدی سے کہا: کیایہی بات ہے جو یہ کر رہی ہے؟ اس نے کہا: بس یہ تو یہی بات کہتی ہے، (سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سمجھا کہ مطعم اپنی بیوی سے اتفاق کر رہا ہے) لہٰذا وہ اس کے پاس سے نکل پڑے اور ان کے دل میں اس شخص کے وعدے کے بارے میں جو بات تھی، اللہ تعالیٰ نے اس کو ختم کر دیا، پس ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ واپس لوٹ آئے اور خولہ سے کہا: تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بلا، پس اس نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بلایا اور انھوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے نکاح کر دیا، اس وقت سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی عمر چھ برس تھی، پھر سیدہ خولہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا وہاں سے نکلی اور سیدہ سودہ بنت زمعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس گئی اور کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ پر کیا خیر و برکت نازل کر دی ہے! اس نے کہا: وہ کیسے؟ اس نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تجھے منگنی کا پیغام دینے کے لیے مجھے بھیجا ہے، انھوں نے کہا: میں تو یہ چاہتی ہوں، لیکن تو میرے ابو کے پاس جا اور ان سے اس چیز کا ذکر وہ عمر رسیدہ بزرگ تھے اور ادھیڑ عمری کی وجہ سے حج سے پیچھے رہ گئے تھے، پس وہ ان کے پاس گئی اور ان کو جاہلیت والا سلام کہا، اس نے کہا: یہ کون ہے؟ اس نے کہا: میں خولہ بنت حکیم ہوں، اس نے کہا: توکیسے آئی ہے؟ اس نے کہا: محمد بن عبد اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بھیجا ہے، میں سودہ کے لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی منگنی کا پیغام لے کر آئی ہوں، اس نے کہا: یہ تو بڑا بہترین کفو ہے، لیکن تیری سہیلی سودہ خود کیا چاہتی ہے؟ اس نے کہا: وہ تو اس چیز کو پسند کر رہی ہے، اس نے کہا: اس کو میری طرف بلا، پس میں اس کو بلا لائی، اس نے کہا: اے میری پیاری بیٹی! یہ خولہ بتا رہی ہے کہ محمد بن عبد اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے منگنی کے لیے تجھے پیغام بھیجا ہے، یہ بڑا بہترین کفو ہے، تو کیا تو یہ پسند کرے گی کہ میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تیری شادی کر دوں؟ سیدہ سودہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: جی ہاں، اس نے کہا: خولہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بلا کر لے آ، پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لے آئے اور اس نے سیدہ سودہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے شادی کر دی، جب سیدہ سودہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بھائی عبد بن زمعہ حج سے واپس آیا اور اسے اس شادی کا علم ہوا تو اس نے اپنے سر پر مٹی پھینکنا شروع کر دی، لیکن اس نے مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد کہا تھا: تیری عمر کی قسم! جس دن میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور سودہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی شادی کی وجہ سے اپنے سر پر مٹی ڈالی تھی، اس دن میں بیوقوف تھا۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: پس ہم لوگ ہجرت کرکے مدینہ منورہ پہنچے اور سُنْح مقام پر بنو حارث بن خزرج کے ہاں اترے، پھر جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے گھر میں داخل ہوئے اور انصاریوں کے خواتین و حضرات آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس جمع ہو گئے، میری ماںمیرے پاس آئی، جبکہ میں کھجور کے دو درختوں کے درمیان بندھے ہوئے پنگھوڑے میں تھی، انھوں نے مجھے پنگھوڑے سے اتارا، میرے سر کے بال کندھوں تک تھے، انھوں نے ان میں کنگھی کی اور میرےچہرے کو پانی سے دھویا اور پھروہ مجھے چلاتی ہوئی آگے بڑھیں،یہاں تک کہ دروازے پر کھڑی ہو گئیں، مجھے سانس چڑھا ہوا تھا، پھر جب میرا سانس تھما تو وہ مجھے لے کر گھر میں داخل ہوئیں وہاں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم چارپائی پر تشریف فرما تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس انصاری خواتین و حضرات بھی موجود تھے، میری ماں نے مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بٹھا کر کہا: یہ تیرے اہل ہیں، اللہ تعالیٰ ان میں تیری لیے اور تجھ میں ان کے لیے برکت نازل فرمائے، پھر خواتین و حضرات اٹھے اور گھر سے باہر چلے گئے، وہیں ہمارے گھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے ساتھ خلوت اختیار کی، میری شادی پر نہ اونٹ ذبح کیے گئے اور نہ بکریاں، سیدنا سعد بن عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ہماری طرف کھانے کا ایک برتن بھیجا تھا، عام طور پر جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شادی کے موقع پر اپنی بیوی سے خلوت اختیار کرتے تھے تو وہ یہ کھانا بھیجا کرتے تھے، اس وقت میری عمر نو برس تھی۔

Haidth Number: 10552

۔ (۱۰۷۲۹)۔ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ أَنَّ الْبَرَاء َ بْنَ عَازِبٍ قَالَ: جَعَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی الرُّمَاۃِیَوْمَ أُحُدٍ وَکَانُوا خَمْسِینَ رَجُلًا عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ جُبَیْرٍ، قَالَ: وَوَضَعَہُمْ مَوْضِعًا، وَقَالَ: ((إِنْ رَأَیْتُمُونَا تَخْطَفُنَا الطَّیْرُ فَلَا تَبْرَحُوا حَتّٰی أُرْسِلَ إِلَیْکُمْ، وَإِنْ رَأَیْتُمُونَا ظَہَرْنَا عَلَی الْعَدُوِّ وَأَوْطَأْنَاہُمْ فَلَا تَبْرَحُوا حَتّٰی أُرْسِلَ إِلَیْکُمْ۔)) قَالَ: فَہَزَمُوہُمْ، قَالَ: فَأَنَا وَاللّٰہِ! رَأَیْتُ النِّسَائَ یَشْتَدِدْنَ عَلَی الْجَبَلِ، وَقَدْ بَدَتْ سُوْقُہُنَّ وَخَلَاخِلُہُنَّ رَافِعَاتٍ ثِیَابَہُنَّ، فَقَالَ أَصْحَابُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ جُبَیْرٍ: الْغَنِیمَۃَ أَیْ قَوْمُ الْغَنِیمَۃَ، ظَہَرَ أَصْحَابُکُمْ فَمَا تَنْظُرُونَ؟ قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ جُبَیْرٍ: أَنَسِیتُمْ، مَا قَالَ لَکُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالُوا: إِنَّا وَاللّٰہِ لَنَأْتِیَنَّ النَّاسَ فَلَنُصِیبَنَّ مِنَ الْغَنِیمَۃِ، فَلَمَّا أَتَوْہُمْ صُرِفَتْ وُجُوہُہُمْ، فَأَقْبَلُوا مُنْہَزِمِینَ، فَذٰلِکَ الَّذِییَدْعُوہُمُ الرَّسُولُ فِی أُخْرٰاہُمْ، فَلَمْ یَبْقَ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَیْرُ اثْنَیْ عَشَرَ رَجُلًا، فَأَصَابُوا مِنَّا سَبْعِینَ رَجُلًا، وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَصْحَابُہُ أَصَابَ مِنْ الْمُشْرِکِینَیَوْمَ بَدرٍ أَرْبَعِینَ وَمِائَۃً، سَبْعِینَ أَسِیرًا وَسَبْعِینَ قَتِیلًا، فَقَالَ أَبُو سُفْیَانَ: أَفِی الْقَوْمِ مُحَمَّدٌ؟ أَ فِی الْقَوْمِ مُحَمَّدٌ؟ أَ فِی الْقَوْمِ مُحَمَّدٌ؟ ثَلَاثًا، فَنَہَاہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ یُجِیبُوہُ، ثُمَّ قَالَ: أَفِی الْقَوْمِ ابْنُ أَبِی قُحَافَۃَ؟ أَ فِی الْقَوْمِ ابْنُ أَبِی قُحَافَۃَ؟ أَ فِی الْقَوْمِ ابْنُ الْخَطَّابِ؟ أَ فِی الْقَوْمِ ابْنُ الْخَطَّابِ؟ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلٰی أَصْحَابِہِ، فَقَالَ: أَمَّا ہٰؤُلَائِ فَقَدْ قُتِلُوا وَقَدْ کُفِیتُمُوہُمْ، فَمَا مَلَکَ عُمَرُ نَفْسَہُ أَنْ قَالَ: کَذَبْتَ وَاللّٰہِ، یَا عَدُوَّ اللّٰہِ! إِنَّ الَّذِینَ عَدَدْتَ لَأَحْیَائٌ کُلُّہُمْ، وَقَدْ بَقِیَ لَکَ مَا یَسُوئُکَ، فَقَالَ: یَوْمٌ بِیَوْمِ بَدْرٍ، وَالْحَرْبُ سِجَالٌ، إِنَّکُمْ سَتَجِدُونَ فِی الْقَوْمِ مُثْلَۃً لَمْ آمُرْ بِہَا وَلَمْ تَسُؤْنِی، ثُمَّ أَخَذَ یَرْتَجِزُ: اعْلُ ہُبَلُ، اعْلُ ہُبَلُ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَلَا تُجِیبُونَہُ؟)) قَالُوا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! وَمَا نَقُولُ؟ قَالَ: ((قُولُوا: اَللَّہُ أَعْلٰی وَأَجَلُّ۔)) قَالَ: إِنَّ الْعُزّٰی لَنَا وَلَا عُزّٰی لَکُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَلَا تُجِیبُونَہُ۔)) قَالُوا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! وَمَا نَقُولُ؟ قَالَ: ((قُولُوا: اللّٰہُ مَوْلَانَا وَلَا مَوْلٰی لَکُمْ۔))۔ (مسند احمد: ۱۸۷۹۴)

سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ غزوۂ احد کے روز رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پچاس تیر اندازوں پر عبداللہ بن جبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو امیر مقرر فرمایا اور انہیں ایک مقام پر ٹھہرایا اور فرمایا: اگر تم دیکھو کہ پرندے ہماری لاشوں کو آکر کھا رہے ہیں تم تب بھییہاں سے نہ ہٹنا، تاآنکہ میں خود تمہارے پاس پیغام بھیجوں اور اگر تم دیکھو کہ ہم دشمن پر غالب آ چکے اور اسے روند چکے ہیں تم تب بھییہاں سے اِدھر اُدھر نہ جانا، جب تک کہ میں خود تمہارے پاس پیغام نہ بھیج دوں۔ سیدنا براء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:مسلمانوں نے کفار کو شکست سے دو چار کیا۔ اللہ کی قسم! میں نے عورتوں کو پہاڑ کے اوپر دوڑتے ہوئے یعنی گھبراہٹ میں تیز تیز چلتے دیکھا ان کی حالت یہ تھی کہ ان کی پنڈلیاں اور پازیبیں دکھائی دے رہی تھیں اور انہوں نے اپنے کپڑوں کو اٹھایا ہوا تھا۔ یہ صورت حال دیکھ کر سیدنا عبداللہ بن جبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے تیر انداز ساتھیوں نے کہا: لوگو! چلو مالِ غنیمت اکٹھا کریں، مسلمانوں کو فتح حاصل ہو چکی ہے، اب تم کس چیز کے منتظر ہو؟ سیدنا عبداللہ بن جبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے بہت کہا کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تم سے جو فرمایا تھا، کیا تم اسے بھول گئے ہو؟ یہ لوگ جب میدان میں پہنچے، صورت حالات بدل گئی اور شکست خوردہ ہو کر واپس ہوئے۔ یہی وہ وقت تھا جب رسول ان کو ان کے پیچھے سے آوازیں دے دے کر بلا رہے تھے اور اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ محض بارہ آدمی رہ گئے تھے اور کفار نے ہمارے ستر آدمیوں کو قتل کیا تھا، جب کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور صحابہ کرام نے بدر کے دن ستر کافر وں کو قتل اور ستر کافروں کو قیدی بنایا تھا، لڑائی کے بعد ابو سفیان نے پکار کر دریافت کیا: کیا تمہارے اندر محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم موجود ہیں؟ کیا تمہارے اندر محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم موجود ہیں؟ کیا تمہارے اندر محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم موجود ہیں؟ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مسلمانوں کو اس کی بات کا جواب دینے سے منع فرما دیا۔ اس کے بعد اس نے پکار کر پوچھا کیا تمہارے ابن ابی قحافہ یعنی ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ موجود ہیں؟ کیا تمہارے اندر ابو قحافہ کے بیٹے موجود ہیں؟ کیا تمہارے اندر ابن خطاب ہیں؟ کیا تمہارے اندر خطاب کا بیٹا ہے؟ پھر اس نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھ کر خوشی سے کہا یہ سب لوگ مارے جا چکے ہیں اور ان کی بابت تمہارا کام مکمل ہو چکا ہے۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس کییہ باتیں سن کر کنٹرول نہ کر سکے اور فرمایا: اے اللہ کے دشمن! تو جھوٹ کہہ رہا ہے، تو نے جن جن لوگوں کے نام لیے ہیں وہ سب زندہ ہیں، اور تیرے لیے بری خبر باقی ہے۔ ابو سفیان نے کہا: آج کا دن، بدر کا بدلہ ہے، اور لڑائی میں ایسا ہوتا رہتا ہے، کبھی کوئی غالب اورکبھی کوئی، تم دیکھوگے کہ تمہارے مسلمانوں کے مقتولین کا مُثلہ کیا گیا ہے، مگر میں نے کسی کو ایسا کرنے کانہیں کہا۔ مگر مجھے یہ کام بُرا بھی نہیں لگا، پھر وہ خوشی سے اس قسم کے رجز یہ کلمات کہنے لگا۔ اے ہُبل! تو سر بلند ہو، اے ہبل! تو سربلند ہو، تب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم اس کی باتوں کا جواب نہ دو گے؟ صحابہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے دریافت کیا، اللہ کے رسول! اس کے جواب میں ہم کیا کہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم یوں کہو اَللَّہُ أَعْلٰی وَأَجَلُّ (اللہ ہی بلند وبالا اور بزرگی والا ہے)۔ ابو سفیان نے کہا: ہمارے پاس تو ایک عُزی ہے، جب کہ تمہارا کوئی عزی نہیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اسے اس کی بات کا جواب کیوں نہیں دیتے ہو؟ صحابہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم کیا کہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تم یوں کہو: اَللّٰہُ مَوْلَانَا وَلَا مَوْلٰی لَکُمْ (ہمارا مدد گار تو اللہ ہے، تمہارا کوئی مدد گار نہیں)۔

Haidth Number: 10729

۔ (۱۰۷۳۰)۔ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہُ قَالَ: مَا نَصَرَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی فِی مَوْطِنٍ کَمَا نَصَرَ یَوْمَ أُحُدٍ، قَالَ: فَأَنْکَرْنَا ذٰلِکَ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: بَیْنِی وَبَیْنَ مَنْ أَنْکَرَ ذٰلِکَ کِتَابُ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ یَقُولُ فِییَوْمِ أُحُد: {وَلَقَدْ صَدَقَکُمْ اللّٰہُ وَعْدَہُ إِذْ تَحُسُّونَہُمْ بِإِذْنِہِ } یَقُولُ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَالْحَسُّ الْقَتْلُ، {حَتّٰی إِذَا فَشِلْتُمْ إِلٰی قَوْلِہِ وَلَقَدْ عَفَا عَنْکُمْ وَاللّٰہُ ذُو فَضْلٍ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ} وَإِنَّمَا عَنٰی بِہٰذَا الرُّمَاۃَ، وَذٰلِکَ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَقَامَہُمْ فِی مَوْضِعٍ، ثُمَّ قَالَ: ((احْمُوا ظُہُورَنَا فَإِنْ رَأَیْتُمُونَا نُقْتَلُ فَلَا تَنْصُرُونَا، وَإِنْ رَأَیْتُمُونَا قَدْ غَنِمْنَا فَلَا تَشْرَکُونَا۔)) فَلَمَّا غَنِمَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَبَاحُوا عَسْکَرَ الْمُشْرِکِینَ أَکَبَّ الرُّمَاۃُ جَمِیعًا فَدَخَلُوا فِی الْعَسْکَرِ یَنْہَبُونَ، وَقَدِ الْتَقَتْ صُفُوفُ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَہُمْ کَذَا وَشَبَّکَ بَیْنَ أَصَابِعِ یَدَیْہِ، وَالْتَبَسُوا فَلَمَّا أَخَلَّ الرُّمَاۃُ تِلْکَ الْخَلَّۃَ الَّتِی کَانُوا فِیہَا دَخَلَتِ الْخَیْلُ مِنْ ذٰلِکَ الْمَوْضِعِ عَلٰی أَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَضَرَبَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا وَالْتَبَسُوا وَقُتِلَ مِنَ الْمُسْلِمِینَ نَاسٌ کَثِیرٌ، وَقَدْ کَانَ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَصْحَابِہِ أَوَّلُ النَّہَارِ حَتّٰی قُتِلَ مِنْ أَصْحَابِ لِوَائِ الْمُشْرِکِینَ سَبْعَۃٌ أَوْ تِسْعَۃٌ، وَجَالَ الْمُسْلِمُونَ جَوْلَۃً نَحْوَ الْجَبَلِ وَلَمْ یَبْلُغُوا حَیْثُیَقُولُ النَّاسُ الْغَارَ، إِنَّمَا کَانُوا تَحْتَ الْمِہْرَاسِ وَصَاحَ الشَّیْطَانُ: قُتِلَ مُحَمَّدٌ، فَلَمْ یُشَکَّ فِیہِ أَنَّہُ حَقٌّ، فَمَا زِلْنَا کَذٰلِکَ مَا نَشُکُّ أَنَّہُ قَدْ قُتِلَ حَتّٰی طَلَعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَیْنَ السَّعْدَیْنِ نَعْرِفُہُ بِتَکَفُّئِہِ إِذَا مَشٰی، قَالَ: فَفَرِحْنَا حَتّٰی کَأَنَّہُ لَمْ یُصِبْنَا مَا أَصَابَنَا، قَالَ: فَرَقِیَ نَحْوَنَا وَہُوَ یَقُولُ: ((اشْتَدَّ غَضَبُ اللّٰہِ عَلٰی قَوْمٍ دَمَّوْا وَجْہَ رَسُولِہِ۔)) قَالَ: وَیَقُولُ مَرَّۃً أُخْرٰی: اللّٰہُمَّ إِنَّہُ لَیْسَ لَہُمْ أَنْ یَعْلُونَا حَتَّی انْتَہَی إِلَیْنَا، فَمَکَثَ سَاعَۃً فَإِذَا أَبُو سُفْیَانَیَصِیحُ فِی أَسْفَلِ الْجَبَلِ: اعْلُ ہُبَلُ، مَرَّتَیْنِیَعْنِی آلِہَتَہُ، أَیْنَ ابْنُ أَبِیکَبْشَۃَ؟ أَیْنَ ابْنُ أَبِی قُحَافَۃَ؟ أَیْنَ ابْنُ الْخَطَّابِ؟ فَقَالَ عُمَرُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَلَا أُجِیبُہُ؟ قَالَ: ((بَلٰی۔)) فَلَمَّا قَالَ: اعْلُ ہُبَلُ، قَالَ عُمَرُ: اللّٰہُ أَعْلَی وَأَجَلُّ، قَالَ: فَقَالَ أَبُو سُفْیَانَ: یَا ابْنَ الْخَطَّابِ! إِنَّہُ قَدْ أَنْعَمَتْ عَیْنُہَا فَعَادِ عَنْہَا أَوْ فَعَالِ عَنْہَا، فَقَالَ أَیْنَ ابْنُ أَبِی کَبْشَۃَ؟ أَیْنَ ابْنُ أَبِی قُحَافَۃَ؟ أَیْنَ ابْنُ الْخَطَّابِ؟ فَقَالَ عُمَرُ: ہٰذَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہٰذَا أَبُوبَکْرٍ، وَہَا أَنَا ذَا عُمَرُ، قَالَ: فَقَالَ أَبُو سُفْیَانَ: یَوْمٌ بِیَوْمِ بَدْرٍ، الْأَیَّامُ دُوَلٌ، وَإِنَّ الْحَرْبَ سِجَالٌ، قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ:لَا سَوَائً قَتْلَانَا فِی الْجَنَّۃِ وَقَتْلَاکُمْ فِی النَّارِ، قَالَ: إِنَّکُمْ لَتَزْعُمُونَ ذٰلِکَ لَقَدْ خِبْنَا إِذَنْ وَخَسِرْنَا، ثُمَّ قَالَ أَبُو سُفْیَانَ: أَمَا إِنَّکُمْ سَوْفَ تَجِدُونَ فِی قَتْلَاکُمْ مُثْلًا، وَلَمْ یَکُنْ ذَاکَ عَنْ رَأْیِ سَرَاتِنَا، قَالَ: ثُمَّ أَدْرَکَتْہُ حَمِیَّۃُ الْجَاہِلِیَّۃِ، قَالَ: فَقَالَ: أَمَا إِنَّہُ قَدْ کَانَ ذَاکَ وَلَمْ نَکْرَہُّ۔ (مسند احمد: ۲۶۰۹)

سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے جیسے احد کے موقع پر مسلمانوں کی مدد کی، ایسی کسی بھی موقع پر نہیں کی، عبیداللہ کہتے ہیں: سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کییہ بات سن کر ہم سب کو تعجب ہوا۔ انھوں نے کہا: جو لوگ اس بات کے انکاری ہیں ان کے اور میرے درمیان اللہ کی کتاب فیصلہ کرے گی۔ اللہ تعالیٰ نے احد والے دن کے متعلق فرمایا ہے:{وَلَقَدْ صَدَقَکُمْ اللّٰہُ وَعْدَہُ إِذْ تَحُسُّونَہُمْ بِإِذْنِہِ} … اللہ نے تمہارے ساتھ کیا ہوا وعدہ پورا کیا تم ان کافروں کو قتل کر رہے تھے۔ یہاں الحسّ سے مراد قتل کرنا ہے۔ مزید فرمایا: {حَتّٰی اِذَا فَشِلْتُمْ وَ تَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ وَعَصَیْتُمْ مِّنْ بَعْدِ مَآ اَرٰیکُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ مِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ ثُمَّ صَرَفَکُمْ عَنْھُمْ لِیَبْتَلِیَکُمْ وَلَقَدْ عَفَا عَنْکُمْ وَاللّٰہُ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ۔}… مگر جب تم نے کمزوری دکھائی اور اپنے کام میں باہم اختلاف کیا، اور جونہی کہ وہ چیز اللہ نے تمہیں دکھائی جس کی محبت میں تم گرفتار تھے (یعنی مالِ غنیمت اور دشمن کی شکست)تم اپنے سردار کے حکم کی خلاف ورزی کر بیٹھے، اس لیے کہ تم میں سے کچھ لوگ دنیا کے طالب تھے اور کچھ آخرت کی خواہش رکھتے تھے، تب اللہ نے تمہیں کافروں کے مقابلہ میں پسپا کر دیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے۔ اور حق یہ ہے کہ اللہ نے پھر بھی تمہیں معاف ہی کر دیا کیونکہ مومنوں پر اللہ بڑی نظر عنایت رکھتا ہے۔ اس سے وہ تیر انداز مراد ہیں جنہیں اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک مقام پر متعین کیا تھا، اور فرمایا تھا کہ تم ادھر سے یعنی ہماری پشت کی جانب سے ہماری حفاظت کرنا، اگر تم دیکھو کہ ہم مارے جا رہے ہیں تب بھی تم ہماری مدد کو نہ آنا، اگر تم دیکھو کہ ہم غنیمتیں جمع کر رہے ہیں تب بھی تم ہمارے ساتھ شریک نہ ہونا۔ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غنیمتیں جمع کرنے لگے اور انہوں نے مشرکین کے لشکر کو شکست سے دو چار کیا تم تمام تیر انداز اُدھر امڈ آئے اور لشکر میں شامل ہو کر لوٹ مار کرنے لگے، اصحاب رسول کی صفیں آپس میں اس طرح گڈ مڈ ہو گئیں اور ساتھ ہی ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کر کے دکھایا، جب ان تیر اندازوں نے اس مقررہ مقام کو غیر محفوظ چھوڑ دیا جہاں انہیں متعین کیا گیا تھا تو دشمنوں کا لشکر ادھر ہی سے اصحاب نبی پر حملہ آور ہو گیا۔ انہوں نے ایک دوسرے کو مارا اور گتھم گتھا ہو گئے اوربہت سے مسلمان شہید ہو گئے۔ دن کے ابتدائی حصہ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور صحابہ کرام کا پلہ بھاری رہا، یہاں تک کہ مشرکین کے سات یا نو جھنڈا بردار قتل ہوئے اور مسلمان پہاڑ کی جانب بڑھتے گئے، وہ اس غار تک نہیں پہنچے تھے جس کے متعلق لوگ بیان کرتے ہیں کہ مسلمان غار تک پہنچ گئے تھے بلکہ وہ مہر اس نامی چشمہ تک پہنچے تھے جس کے قریب ہی سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دفن کیا گیا تھا۔اور شیطان نے زور دار آواز سے چیخ کر کہا تھا: محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قتل ہو گئے۔ اس بات کے حق ہونے میں کسی کو شک بھی نہ گزرا، ہمیں بھی اس بات کا پورا یقین ہو چکا تھا، یہاں تک کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سعدین کے درمیان سے نظر آئے۔ ہم آپ کو آپ کے چلنے کے انداز سے پہچان لیتے تھے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم چلتے وقت سامنے کی طرف تھوڑا سا جھک کر چلتے تھے، صحابہ کہتے ہیں: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھ کر ہمیں اس قدر خوشی ہوئی گویا کہ ہمیں کوئی دکھ پہنچا ہی نہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پہاڑ کے اوپر ہماری طرف چڑھ آئے اور اس وقت آپ یوں کہہ رہے تھے: ان لوگوں پر اللہ کا سخت غضب ہو، جنہوں نے اس کے رسول کے چہرے کو خون آلود کیا۔ اور کبھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یوں کہا: یہ لوگ کبھی بھی ہم پر غالب نہیں ہو سکتے۔ آپ اسی طرح کے کلمات کہتے کہتے ہمارے پاس آن پہنچے۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ پہاڑ کے نیچے سے ابو سفیان نے زور سے چیخ کر دو مرتبہ کہا، اے ہُبُل، تو سربلند ہو۔ ابن ابی کبشہ کہاں ہے؟(اس سے اس کی مراد نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تھے) ابو قحافہ کا بیٹا ابوبکر کہاں ہے؟ خطاب کا بیٹا عمر کہاں ہے؟ اس کی باتیں سن کر عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا :اے اللہ کے رسول! کیا میں اس کی باتوں کا جواب نہ دوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ضرور دو۔ ابو سفیان نے جب کہا کہ اے ہبل تو سر بلند ہو۔ تو اس کے جواب میں سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللّٰہُ أَعْلٰی وَأَجَلُّ (صرف اللہ ہی سب سے بلند اور بزرگ ترین ہے۔) ابو سفیان نے کہا: اے ابن خطاب! ہبل کی بات پوری ہو چکی ہے۔ اب تم اس کے ذکر کو چھوڑو، ابو سفیان نے کہا تھا: ابو کبشہ کا بیٹا محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کہاں ہے؟ ابو قحافہ کا بیٹا کہاں ہے؟ اور خطاب کا بیٹا کہاں ہے؟ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: یہ ہیں اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، یہ ہیں ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور یہ میں ہوں عمر، ابو سفیان نے کہا: آج کا دن بدر کے دن کا بدلہ ہے، یہ ایام پانی کے ڈول کی مانند ہوتے ہیں کبھی کوئی غالب آتا ہے اور کوئی مغلوب اور لڑائی میں باریاں ہوتی ہیں، غالب ہونے والے کبھی مغلوب اور مغلوب ہونے والے کبھی غالب آجاتے ہیں۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: نہیں، برابری نہیں ہے، ہمارے مقتول تو جنت میں جائیں گے اور تمہارے مقتول جہنمی ہیں۔ ابو سفیان بولا: یہ تو تمہارا خیال ہے، اگر بات ایسی ہی ہو تو ہم سراسر ناکام اور خسارہ پانے والے ہیں۔ پھر ابو سفیان نے کہا: اے عمر! تم دیکھو گے کہ تمہارے مقتولین کا مثلہ کیا گیا ہے۔ مگر یہ ہمارے لیڈروں کا فیصلہ قطعاً نہ تھا، یہ بات کرنے کے ساتھ ہی اسے جاہلی حمیتنے آن لیا اور کہنے لگا: اگر چہ بات ایسے ہی ہے کہ یہ ہمارے لیڈروں کا فیصلہ نہ تھا، تاہم ہم اس پر خوش ہیں اور اسے ناپسند نہیں کرتے۔

Haidth Number: 10730

۔ (۱۰۷۳۱)۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ النِّسَائَ کُنَّ یَوْمَ أُحُدٍ خَلْفَ الْمُسْلِمِینَیُجْہِزْنَ عَلٰی جَرْحٰی الْمُشْرِکِینَ، فَلَوْ حَلَفْتُ یَوْمَئِذٍ رَجَوْتُ أَنْ أَبَرَّ إِنَّہُ لَیْسَ أَحَدٌ مِنَّا یُرِیدُ الدُّنْیَا، حَتَّی أَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: {مِنْکُمْ مَنْ یُرِیدُ الدُّنْیَا وَمِنْکُمْ مَنْ یُرِیدُ الْآخِرَۃَ ثُمَّ صَرَفَکُمْ عَنْہُمْ لِیَبْتَلِیَکُمْ} فَلَمَّا خَالَفَ أَصْحَابُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَعَصَوْا مَا أُمِرُوا بِہِ، أُفْرِدَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی تِسْعَۃٍ سَبْعَۃٍ مِنَ الْأَنْصَارِ وَرَجُلَیْنِ مِنْ قُرَیْشٍ وَہُوَ عَاشِرُہُمْ، فَلَمَّا رَہِقُوہُ، قَالَ: ((رَحِمَ اللّٰہُ رَجُلًا رَدَّہُمْ عَنَّا۔)) قَالَ: فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فَقَاتَلَ سَاعَۃً حَتّٰی قُتِلَ، فَلَمَّا رَہِقُوہُ أَیْضًا قَالَ: ((یَرْحَمُ اللّٰہُ رَجُلًا رَدَّہُمْ عَنَّا۔)) فَلَمْ یَزَلْیَقُولُ ذَا حَتّٰی قُتِلَ السَّبْعَۃُ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِصَاحِبَیْہِ: ((مَا أَنْصَفْنَا أَصْحَابَنَا۔)) فَجَائَ أَبُو سُفْیَانَ فَقَالَ: اعْلُ ہُبَلُ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((قُولُوا: اَللَّہُ أَعْلٰی وَأَجَلُّ۔)) فَقَالُوا: اللّٰہُ أَعْلٰی وَأَجَلُّ، فَقَالَ أَبُو سُفْیَانَ: لَنَا عُزّٰی وَلَا عُزّٰی لَکُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((قُولُوا: اللّٰہُ مَوْلَانَا وَالْکَافِرُونَ لَا مَوْلٰی لَہُمْ۔)) ثُمَّ قَالَ أَبُو سُفْیَانَ: یَوْمٌ بِیَوْمِ بَدْرٍ، یَوْمٌ لَنَا وَیَوْمٌ عَلَیْنَا، وَیَوْمٌ نُسَائُ وَیَوْمٌ نُسَرُّ، حَنْظَلَۃُ بِحَنْظَلَۃَ، وَفُلَانٌ بِفُلَانٍ، وَفُلَانٌ بِفُلَانٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَا سَوَائً أَمَّا قَتْلَانَا فَأَحْیَائٌیُرْزَقُونَ، وَقَتْلَاکُمْ فِی النَّارِ یُعَذَّبُونَ۔)) قَالَ أَبُو سُفْیَانَ: قَدْ کَانَتْ فِی الْقَوْمِ مُثْلَۃٌ، وَإِنْ کَانَتْ لَعَنْ غَیْرِ مَلَإٍ مِنَّا مَا أَمَرْتُ وَلَا نَہَیْتُ وَلَا أَحْبَبْتُ وَلَا کَرِہْتُ وَلَا سَائَ نِیْ وَلَا سَرَّنِی، قَالَ: فَنَظَرُوا فَإِذَا حَمْزَۃُ قَدْ بُقِرَ بَطْنُہُ وَأَخَذَتْ ہِنْدُ کَبِدَہُ فَلَاکَتْہَا فَلَمْ تَسْتَطِعْ أَنْ تَأْکُلَہَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَأَکَلَتْ مِنْہُ شَیْئًا؟)) قَالُوا: لَا، قَالَ: ((مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُدْخِلَ شَیْئًا مِنْ حَمْزَۃَ النَّارَ۔)) فَوَضَعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَمْزَۃَ فَصَلَّی عَلَیْہِ، وَجِیئَ بِرَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَوُضِعَ إِلَی جَنْبِہِ،فَصَلَّی عَلَیْہِ، فَرُفِعَ الْأَنْصَارِیُّ وَتُرِکَ حَمْزَۃُ، ثُمَّ جِیء َ بِآخَرَ فَوَضَعَہُ إِلَی جَنْبِ حَمْزَۃَ فَصَلَّی عَلَیْہِ، ثُمَّ رُفِعَ وَتُرِکَ حَمْزَۃُ، حَتَّی صَلَّی عَلَیْہِیَوْمَئِذٍ سَبْعِینَ صَلَاۃ۔ (مسند احمد: ۴۴۱۴)

سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ احد کے دن خواتین مسلمانوں کے پیچھے تھیں اور وہ مشرکین کے زخمی لوگوں کی مرہم پٹی اور خدمت کر رہی تھیں، میں اس روز قسم اُٹھا کر کہہ سکتا تھا کہ ہم میں سے ایک بھی آدمی دنیا کا خواہش مند اور طالب نہ تھا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: {مِنْکُمْ مَنْ یُرِیدُ الدُّنْیَا وَمِنْکُمْ مَنْ یُرِیدُ الْآخِرَۃَ ثُمَّ صَرَفَکُمْ عَنْہُمْ لِیَبْتَلِیَکُمْ}… اس لیے کہ تم میں سے کچھ لوگ دنیا کے طالب تھے اور کچھ آخرت کی خواہش رکھتے تھے، تب اللہ نے تمہیں کافروں کے مقابلہ میں پسپا کر دیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے۔ جب بعض صحابہ سے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حکم کی خلاف ورزی ہو گئی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حکم عدولی کے مرتکب ہوئے اور حالات نے رخ بدلا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سات انصار اور دو قریشیوں کے ایک گروپ میں علیحدہ ہو گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان میں دسویں فرد تھے، جب کفار آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر چڑھ آئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس آدمی پر اللہ کی رحمت ہو جو ان حملہ آوروں کو ہم سے ہٹائے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم برابر یہ بات کہتے رہے تاآنکہ ان میں سے سات آدمی شہید ہو گئے اور صرف دو آدمی باقی بچے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے ان دونوں ساتھیوں سے فرمایا: ہم نے اپنے ان ساتھیوں سے انصاف نہیں کیا (یعنی قریشیوں نے انصاریوں سے انصاف نہیں کیا کہ انصاری ہییکے بعد دیگرے نکل نکل کر شہید ہوتے گئے یا ہمارے جو لوگ میدان سے راہِ فرار اختیار کر گئے ہیں انہوں نے ہمارے ساتھ انصاف نہیں کیا)۔ ابو سفیان نے آکر کہا: اے ہبل! تو سربلند ہو تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے جواب میں تم یوں کہو اَللّٰہُ أَعْلَی وَأَجَلُّ (اللہ ہی بلند شان والا اور بزرگی والا ہے۔) صحابہ نے بلند آواز سے کہا: اَللّٰہُ أَعْلَی وَأَجَلّ۔ُپھر ابو سفیان نے کہا: ہمارا تو ایک عزی ہے اور تمہارا کوئی عزی نہیں ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم کہو اللہ ہمارا مدد گار ہے اور کافروں کا کوئی بھی مدد گار نہیں ہے۔ پھر ابو سفیان نے کہا: آج کا دن بدر کے دن کا بدلہ ہے، آج ہمیں فتح ہوئی ہے، اس روز ہمیں شکست ہوئی تھی، ایک دن ہمیں برا لگا اور ایک دن ہمیں اچھا لگا، حنظلہ کے مقابلے میں حنظلہ، فلاں کے فلان مقابلے میں اور فلاں بالمقابل فلاں، یہ سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہمارے تمہارے درمیان کوئی برابری نہیں، ہمارے مقتولین زندہ ہیں، انہیں اللہ کی طرف سے رزق دیا جاتا ہے اور تمہارے مقتولین جہنم میں ہیں، انہیں عذاب سے دو چار کیا جاتا ہے۔ ابو سفیان نے کہا: تمہارے یعنی مسلمانوں کے مقتولین کا مثلہ کیا گیا ہے ،یہ کام ہماری رائے یا مشاورت کے بغیر ہوا ہے، میں نے نہ اس کا حکم دیا اور نہ اس سے روکا۔ اور میں نے اسے پسند یا نا پسند بھی نہیں کیا، مجھے اس کا نہ غم ہوا ہے اور نہ خوشی۔ صحابہ کرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جب شہدائے کرام کو دیکھاتو سیّد نا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا پیٹ چاک کیا گیا تھا، ابو سفیان کی بیوی ہند نے ان کا جگر نکال کر اسے چبایا، مگر وہ اسے کھا نہ سکی،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا اس نے اس میں سے کچھ کھایا تھا؟ صحابہ نے عرض کیا: جی نہیں ،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ حمزہ کے جسم کے کسی بھی حصہ یا اس کے جزء کو جہنم میں داخل کرنے والا نہیں ہے۔ پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی میت کو سامنے رکھ کر ان کی نماز جنازہ ادا کی، بعد ازاں ایک انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی میت کو لایا گیا، اسے سیّدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پہلو میں رکھ کر اس کی نماز جنازہ ادا کی گئی، انصاری کی میت کو اُٹھا لیا گیا اور سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی میت کو وہیں رہنے دیا گیا، پھر ایک اور شہید کو لایا گیا، اسے بھی سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پہلو میں رکھ کر اس کی نماز جنازہ ادا کی گئی، پھر اسے اُٹھا لیا گیا اور سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو وہیں رہنے دیا گیا،یہاں تک کہ اس روز نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی نماز جنازہ ستر بار ادا فرمائی۔

Haidth Number: 10731
نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے غلام سیدنا عبید اللہ بن اسلم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدنا جعفر بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا کرتے تھے کہ تم جسمانی طور پر اور اخلاق کے لحاظ سے میرے مشابہ ہو۔

Haidth Number: 11661
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعد کسی آدمی نے جوتا نہیں پہنا، نہ سواریوں پر سوار ہوا اور نہ عمامہ استعمال کیا جو سیدنا جعفر بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بڑھ کر فضیلت والا ہو، ان کی مراد جود و سخاوت تھی۔

Haidth Number: 11662

۔ (۱۱۶۶۳)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جَیْشًا اسْتَعْمَلَ عَلَیْہِمْ زَیْدَ بْنَ حَارِثَۃَ، وَقَالَ: ((فَإِنْ قُتِلَ زَیْدٌ أَوِ اسْتُشْہِدَ فَأَمِیرُکُمْ جَعْفَرٌ فَإِنْ قُتِلَ أَوِ اسْتُشْہِدَ فَأَمِیرُکُمْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَوَاحَۃَ)) فَلَقُوا الْعَدُوَّ فَأَخَذَ الرَّایَۃَ زَیْدٌ فَقَاتَلَ حَتَّی قُتِلَ، ثُمَّ أَخَذَ الرَّایَۃَ جَعْفَرٌ فَقَاتَلَ حَتَّی قُتِلَ، ثُمَّ أَخَذَہَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَوَاحَۃَ فَقَاتَلَ حَتَّی قُتِلَ، ثُمَّ أَخَذَ الرَّایَۃَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ فَفَتَحَ اللّٰہُ عَلَیْہِ، وَأَتَی خَبَرُہُمُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَخَرَجَ إِلَی النَّاسِ فَحَمِدَ اللّٰہَ وَأَثْنٰی عَلَیْہِ وَقَالَ: ((إِنَّ إِخْوَانَکُمْ لَقُوا الْعَدُوَّ وَإِنَّ زَیْدًا أَخَذَ الرَّایَۃَ فَقَاتَلَ حَتّٰی قُتِلَ أَوْ اسْتُشْہِدَ، ثُمَّ أَخَذَ الرَّایَۃَ بَعْدَہُ جَعْفَرُ بْنُ أَبِی طَالِبٍ فَقَاتَلَ حَتّٰی قُتِلَ أَوِ اسْتُشْہِدَ، ثُمَّ أَخَذَ الرَّایَۃَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَوَاحَۃَ فَقَاتَلَ حَتّٰی قُتِلَ أَوِ اسْتُشْہِدَ، ثُمَّ أَخَذَ الرَّایَۃَ سَیْفٌ مِنْ سُیُوفِ اللّٰہِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ فَفَتَحَ اللّٰہُ عَلَیْہِ)) فَأَمْہَلَ ثُمَّ أَمْہَلَ آلَ جَعْفَرٍ ثَلَاثًا أَنْ یَأْتِیَہُمْ ثُمَّ أَتَاہُمْ فَقَالَ: ((لَا تَبْکُوا عَلٰی أَخِی بَعْدَ الْیَوْمِ أَوْ غَدٍ ادْعُوا لِی ابْنَیْ أَخِی)) قَالَ، فَجِیئَ بِنَا کَأَنَّا أَفْرُخٌ، فَقَالَ: ((ادْعُوا إِلَیَّ الْحَلَّاقَ)) فَجِیئَ بِالْحَلَّاقِ فَحَلَقَ رُئُ وْسَنَا، ثُمَّ قَالَ: ((أَمَّا مُحَمَّدٌ فَشَبِیہُ عَمِّنَا أَبِی طَالِبٍ وَأَمَّا عَبْدُ اللّٰہِ فَشَبِیہُ خَلْقِی وَخُلُقِی)) ثُمَّ أَخَذَ بِیَدِی فَأَشَالَہَا فَقَالَ: ((اللَّہُمَّ اخْلُفْ جَعْفَرًا فِی أَہْلِہِ وَبَارِکْ لِعَبْدِ اللّٰہِ فِی صَفْقَۃِ یَمِینِہِ)) قَالَہَا ثَلَاثَ مِرَارٍ، قَالَ: فَجَائَ تْ أُمُّنَا فَذَکَرَتْ لَہُ یُتْمَنَا وَجَعَلَتْ تُفْرِحُ لَہُ، فَقَالَ: ((الْعَیْلَۃَ تَخَافِینَ عَلَیْہِمْ وَأَنَا وَلِیُّہُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ))۔ (مسند احمد: ۱۷۵۰)

عبداللہ بن جعفر سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک لشکر روانہ فرمایا اور ان پر زید بن حارثہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو امیر مقرر کیا۔ اور فرمایا اگر زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ شہید ہو جائیں تو جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بن ابی طالب تمہارے امیر ہوں گے۔ اگر وہ بھی شہید ہو جائیں تو عبداللہ بن رواحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تمہارے امیر ہوں گے۔ مسلمانوں کا دشمن سے مقابلہ ہوا۔ تو جھنڈا زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اُٹھایا۔ وہ دشمن سے لڑتے رہے بالآخر شہید ہو گئے۔ ان کے بعد جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جھنڈا تھام لیا۔ وہ بھی دشمن سے لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ ان کے بعد عبداللہ بن رواحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جھنڈا سنبھالا۔ وہ بھی دشمن سے لڑتے لڑتے شہادت سے سرفراز ہوگئے۔ ان کے بعد خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جھنڈا سنبھال لیا۔ اور اللہ نے ان کے ہاتھوں فتح نصیب فرمائی۔ ان کی اطلاع نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک پہنچی۔ آپ لوگوں کی طرف باہر تشریف لائے۔ اور اللہ کی حمد وثناء کے بعد فرمایا کہ تمہارے بھائیوں کا دشمن سے مقابلہ ہوا۔ سب سے پہلے زید نے جھنڈا اُٹھایا۔ وہ لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ ان کے بعد جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بن ابی طالب نے جھنڈا اُٹھایا وہ بھی لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ ان کے بعد عبداللہ بن رواحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جھنڈا سنبھالا لیا۔ وہ بھی لڑتے لڑتے شہادت کے رتبہ پر فائز ہو گئے۔ ان کے بعد اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جھنڈا سنبھالا اور ان کے ہاتھوں اللہ نے فتح نصیب فرمائی۔ آل جعفر تین روز تک اس انتظار میں رہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے ہاں تشریف لے جائیں تیسرے دن کے بعد آپ ان کے ہاں تشریف لے گئے اور فرمایا تم آج کے بعد میرے بھائی پر مت رونا، میرے بھتیجوں کوبلاؤ ہمیں لایا گیا تو ہم چوزوں کی طرح بالکل چھوٹے چھوٹے تھے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا نائی کو بلاؤ اسے بلایا گیا تو اس نے ہمارے سر مونڈ دئیے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایایہ محمد تو ہمارے چچا ابو طالب کے مشابہ ہے۔ اور عبداللہ شکل وصورت اور مزاج میں میرے ساتھ مشابہت رکھتا ہے۔ پھر آپ نے میرا ہاتھ پکڑ کر اوپر کو اُٹھا کر فرمایایا اللہ جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے اہل وعیال میں اس کا نائب بنا اور عبداللہ کی تجارت میں برکت فرما۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ دعا تین مرتبہ کی۔ ہماری والدہ آپ کے پاس آئی اور اس نے اس پر غم کا اظہار کیا کہ یہ بچے اب بے آسرا ہیں۔ تو آپ نے فرمایا کیا تم ان کے بارے میں فقروفاقہ کا اندیشہ کرتی ہو؟ دنیا اور آخرت میں میں ان کا سرپرست ہوں۔

Haidth Number: 11663

۔ (۱۱۶۶۴)۔ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ خَالِدِ بْنِ سَارَّۃَ، أَنَّ أَبَاہُ أَخْبَرَہُ: أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ جَعْفَرٍ قَالَ: لَوْ رَأَیْتَنِیْ وَقُثَمَ وَعُبَیْدَ اللّٰہِ ابْنَیْ عَبَّاسٍ وَنَحْنُ صِبْیَانٌ نَلْعَبُ إِذْ مَرَّ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی دَابَّۃٍ، فَقَالَ: ((ارْفَعُوا ہَذَا إِلَیَّ۔)) قَالَ: فَحَمَلَنِی أَمَامَہُ، وَقَالَ لِقُثَمَ: ((ارْفَعُوا ہٰذَا إِلَیَّ۔)) فَجَعَلَہُ وَرَائَ ہُ وَکَانَ عُبَیْدُ اللّٰہِ أَحَبَّ إِلٰی عَبَّاسٍ مِنْ قُثَمَ، فَمَا اسْتَحٰی مِنْ عَمِّہِ أَنْ حَمَلَ قُثَمًا وَتَرَکَہُ، قَالَ: ثُمَّ مَسَحَ عَلٰی رَأْسِی ثَلَاثًا، وَقَالَ کُلَّمَا مَسَحَ: ((اللَّہُمَّ اخْلُفْ جَعْفَرًا فِی وَلَدِہِ۔)) قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ اللّٰہِ: مَا فَعَلَ قُثَمُ؟ قَالَ: اسْتُشْہِدَ، قَالَ: قُلْتُ: اللّٰہُ أَعْلَمُ بِالْخَیْرِ وَرَسُولُہُ بِالْخَیْرِ، قَالَ: أَجَلْ۔ (مسند احمد: ۱۷۶۰)

خالد بن سارہ سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن جعفر نے اسے بتلایا کہ کاش تم مجھے، سیدنا قثم بن عباس اور سیدنا عبید اللہ بن عباس کو دیکھتے، جب ہم بچے کھیل رہے تھے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سواری پر سوار ہمارے قریب سے گزرے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسے اٹھا کر مجھے پکڑا دو اور آپ نے مجھے اپنے آگے سواری پر سوار کر لیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قثم کے متعلق فرمایا کہ اسے بھی میری طرف اٹھائو اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے اپنے پیچھے سوار کر لیا، سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو قثم سے زیادہ عبید اللہ سے محبت تھی، لیکن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے چچا سے اس بات کی جھجک محسوس نہیں کی کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قثم کو اپنے ساتھ سوار کر لیا اور عبید اللہ کو سوار نہ کیا، پھر آپ نے تین بار میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور ہر دفعہ یہ دعا کی: یا اللہ! جعفر کی اولاد میں تو ان کا خلیفہ بن جا۔ خالد بن سارہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا عبداللہ بن جعفر سے دریافت کیا کہ سیدنا قثم کی موت کیسے واقع ہوئی تھی ؟ انہوں نے بتلایا کہ وہ شہید ہوئے تھے۔ میں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہی خیر اور بھلائی کو بہتر جانتے ہیں۔ انھوں نے کہا: جی ہاں، واقعی ۔

Haidth Number: 11664

۔ (۱۱۶۶۵)۔ وَعَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ عُمَیْسٍ قَالَتْ: لَمَّا أُصِیبَ جَعْفَرٌ وَأَصْحَابُہُ، دَخَلْتُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَدْ دَبَغْتُ أَرْبَعِینَ مَنِیئَۃً وَعَجَنْتُ عَجِینِی وَغَسَّلْتُ بَنِیَّ وَدَہَنْتُہُمْ وَنَظَّفْتُہُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((ائْتِینِی بِبَنِی جَعْفَرٍ۔)) قَالَتْ: فَأَتَیْتُہُ بِہِمْ فَشَمَّہُمْ وَذَرَفَتْ عَیْنَاہُ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی مَا یُبْکِیکَ؟ أَبَلَغَکَ عَنْ جَعْفَرٍ وَأَصْحَابِہِ شَیْئٌ، قَالَ: ((نَعَمْ، أُصِیبُوا ہٰذَا الْیَوْمَ۔)) قَالَتْ: فَقُمْتُ أَصِیحُ وَاجْتَمَعَ إِلَیَّ النِّسَائُ وَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی أَہْلِہِ، فَقَالَ: ((لَا تُغْفِلُوْا آلَ جَعْفَرٍ مِنْ أَنْ تَصْنَعُوا لَہُمْ طَعَامًا، فَإِنَّہُمْ قَدْ شُغِلُوا بِأَمْرِ صَاحِبِہِمْ۔)) (مسند احمد: ۲۷۶۲۶)

سیدہ اسماء بنت عمیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ سیدنا جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور ان کے رفقاء جب شہادت پا چکے تھے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے ہاں تشریف لائے، میں نے چالیس کھالیں صاف کرنے کے لیے ڈالی ہوئی تھیں، آٹا گوندھا ہوا تھا اور میں نے اپنے بچوں کو نہلا کر تیل لگا کر ان کو خوب صاف ستھرے کیاہوا تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آکر فرمایا: جعفر کے بیٹوں کو میرے پاس لائو۔ میں انہیں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس لائی، آپ نے ان کو سونگھا اور ساتھ ہی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پرفدا ہوں، آپ کیوں رو رہے ہیں؟ کیا جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور ان کے ساتھیوں کے متعلق آپ کے پاس کوئی خبر آئی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں، وہ لوگ آج شہید ہو گئے ہیں۔ یہ سن کر میں اٹھی اور چیخی، عورتیں میرے پاس جمع ہوگئیں اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے گھرتشریف لے گئے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگو! آل جعفر کے لیے کھانا تیار کرنے سے غافل نہ ہونا، وہ اپنے سرپرست کی شہادت کے صدمے میں مبتلا ہوں۔

Haidth Number: 11665

۔ (۱۲۱۷۷)۔ عَنِ ابْنِ أَبِی الْمُعَلَّی، عَنْ أَبِیہِ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَطَبَ یَوْمًا فَقَالَ: ((إِنَّ رَجُلًا خَیَّرَہُ رَبُّہُ عَزَّ وَجَلَّ بَیْنَ أَنْ یَعِیشَ فِی الدُّنْیَا مَا شَائَ أَنْ یَعِیشَ فِیہَا، وَیَأْکُلَ فِی الدُّنْیَا مَا شَائَ أَنْ یَأْکُلَ فِیہَا، وَبَیْنَ لِقَائِ رَبِّہِ فَاخْتَارَ لِقَائَ رَبِّہِ، فَاخْتَارَ لِقَائَ رَبِّہٖ۔)) قَالَ: فَبَکٰی أَبُو بَکْرٍ، فَقَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَلَا تَعْجَبُونَ مِنْ ہٰذَا الشَّیْخِ، أَنْ ذَکَرَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلًا صَالِحًا، خَیَّرَہُ رَبُّہُ عَزَّ وَجَلَّ بَیْنَ لِقَائِ رَبِّہِ وَبَیْنَ الدُّنْیَا، فَاخْتَارَ لِقَائَ رَبِّہِ، وَکَانَ أَبُو بَکْرٍ أَعْلَمَہُمْ بِمَا قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ: بَلْ نَفْدِیکَیَا رَسُولَ اللّٰہِ! بِأَمْوَالِنَا وَأَبْنَائِنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((مَا مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ أَمَنُّ عَلَیْنَا فِی صُحْبَتِہِ وَذَاتِ یَدِہِ مِنِ ابْنِ أَبِی قُحَافَۃَ، وَلَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِیلًا لَاتَّخَذْتُ ابْنَ أَبِی قُحَافَۃَ، وَلٰکِنْ وُدٌّ وَإِخَائُ إِیمَانٍ، وَلٰکِنْ وُدٌّ وَإِخَائُ إِیمَانٍ مَرَّتَیْنِ، وَإِنَّ صَاحِبَکُمْ خَلِیلُ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ۔)) (مسند احمد: ۱۸۰۰۶)

سیدنا ابو معلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک دن خطاب کیا اور فرمایا: ایک بندے کو اس کے رب نے اختیار دیا ہے کہ و ہ چاہے تو دنیا میں زندہ رہے اور جو چاہے کھائے پئے، اور اگر وہ چاہے تو اپنے ربّ سے جاملے، اس بندے نے اپنے رب کی ملاقات کو پسند کرلیا ہے۔ یہ سن کر سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ رونے لگ گئے، صحابہ نے کہا: اس بزرگ کو دیکھو،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کسی صالح بندے کا ذکر کیا ہے کہ اس کے رب نے اسے اپنی ملاقات یا دنیا میں رہنے میں سے ایک بات کو منتخب کرنے کا اختیار دیا ہے اور اس نے اپنے رب کی ملاقات کو منتخب کیا۔ (اور ابو بکر نے رونا شروع کر دیا)۔ دراصل سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بات کو سب سے زیادہ سمجھنے والے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بات سن کر سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم اپنے اموال اور اولاد سمیت آپ پر فدا ہوں، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگوں میں سے کوئی اپنی صحبت اور مال کے لحاظ سے ابن ابی قحافہ سے بڑھ کر میرا محسن نہیں، اگر میں نے کسی کو خلیل بنانا ہوتا تو ابن ابی قحافہ کو بناتا، البتہ محبت اور ایمانی بھائی چارہ قائم ہے،البتہ ہمارے درمیان محبت اور اخوّت ِ ایمانی کا تعلق قائم ہے، تمہارا یہ ساتھی اللہ تعالیٰ کا خلیل ہے۔

Haidth Number: 12177
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جن مقامات کی طرف اونٹوں پر سفر کیا جاتا ہے، ان میں سے سب سے افضل اور بہترین مقامات ابراہیم علیہ السلام کی مسجد اور میری مسجد ہے۔

Haidth Number: 12600
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری اس مسجد میں ادا کی گئی ایک نماز مسجد حرام کے علاوہ باقی مساجد کی ایک ہزار نماز وں سے افضل ہے اور مسجد حرام میں ادا کی گئی ایک نماز باقی مساجد کی ایک لاکھ نماز سے افضل ہے۔

Haidth Number: 12601
سیدناعبداللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری اس مسجد میں ایک نماز باقی مساجد کی ایک ہزار نمازوں سے افضل ہے، سوائے مسجد ِ حرام کے اورمسجد حرام کی ایک نماز اس مسجد کی سو نمازوں سے افضل ہے۔

Haidth Number: 12602
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس نخلستان میں گئے، جہاں ابن صیاد موجود تھا، جب باغ میں داخل ہوئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پوشیدہ طور پر اس کی باتیں سننے کے لیے کھجوروں کے تنوں کے پیچھے چھپ چھپ کر اس کی طرف بڑھنے لگے، تاکہ قبل اس کے کہ وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس سے کچھ سن سکیں، جبکہ وہ (ابن صیاد) ایک چادر اوڑھے اپنے بستر پر لیٹا ہوا تھا اور اس کی گنگناہٹ کی آواز آ رہی تھی، لیکن جب اس کی ماں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھ لیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھجوروں کے تنوں کے پیچھے چھپ رہے ہیں، تو اس نے آواز دی: ارے صاف! (یہ اس کا نام تھا) یہ محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ یہ سن کر وہ جھٹ سے اٹھ گیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر وہ اسے خبردار نہ کرتی تو وہ اپنی باتوں سے اپنی حقیقت واضح کر دیتا۔

Haidth Number: 12959

۔ (۱۲۹۶۰)۔ وَعَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّہُ قَالَ: اِنَّ اِمْرَاَۃً مِنَ الْیَہُوْدِ وَلَدَتْ غُلَامًا، مَمْسُوْحَۃً عَیْنُہُ طَالِعَۃً نَاتِئَۃً، فَاَشْفَقَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنْ یَکُوْنَ الدَّجَّالُ فَوَجَدَہُ تَحْتَ قَطِیْفَۃٍیُہَمْہِمُ فَآذَنَتْہُ اُمُّہُ فَقَالَتْ: یَا عَبْدَ اللّٰہِ! ہٰذَا اَبُو الْقَاسِمِ، قَدْجَائَ فَاخْرُ جْ اِلَیْہِ، فَخَرَجَ مِنَ الْقَطِیْفَۃِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَا لَھَا، قَاتَلَہَا اللّٰہُ، لَوْ تَرَکَتْہُ لَبَیَّنَ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((یَا ابْنَ صَائِدٍ مَاتَرٰی۔)) قَالَ: اَرٰی حَقًّا وَاَرٰی بَاطِلًا وَاَرٰی عَرْشًا عَلٰی الْمَائِ فَقَالَ: ((فَلُبِسَ عَلَیْہِ۔)) فَقَالَ: ((اَتَشْہَدُ اَنَّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ؟)) فَقَالَ ھُوَ: اَتَشْہَدُ اَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((آمَنْتُ بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ۔)) ثُمَّخَرَجَوَتَرَکَہُ،ثُمَّاَتَاہُمَرَّۃً اُخْرٰی، فَوَجَدَہُ فِی نَخْلٍ لَہُ یُہَمْہِمُ فَآذَنَتْہُ اُمُّہُ فَقَالَتْ: یَاعَبْدَاللّٰہِ! ہٰذَا اَبُوالْقَاسِمِ قَدْجَائَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَالَھَا، قَاتَلَہَا اللّٰہُ لَوْ تَرَکَتْہُ لَبَیَّنَ۔)) قَالَ: فَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَطْمَعُ اَنْ یَسْمَعَ مِنْ کَلَامِہِ شَیْئًا فَیَعْلَمَ ھُوَ ھُوَ اَمْ لَا، قَالَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَاابْنَ صَائِدٍ مَاتَرٰی۔)) قَالَ: اَرٰی حَقًّا وَ اَرٰی بَاطِلًا وَاَرٰی عَرْشًا عَلَی الْمَائِ، قَالَ: ((اَتَشْہَدُ اَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ؟)) قَالَ ھُوَ: اَتَشْہَدُ اَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((آمَنْتُ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ۔)) فَلُبِسَ عَلَیْہِ۔ ثُمَّ خَرَجَ فَتَرَکَہُ ثُمَّ جَائَ فِی الثَّالِثَۃِ اَوِ الرَّابِعَۃِ وَمَعَہُ اَبُوْ بَکْرٍ وَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما فِی نَفَرٍ مِنَ الْمُہَاجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ ( ) وَاَنَا مَعَہُ فَبَادَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَیْنَ اَیْدِیْنَا وَرَجَا اَنْ یَسْمَعَ مِنْ کَلَامِہِ شَیْئًا، فَسَبَقَتْہُ اُمُّہُ اِلَیْہِ، فَقَالَتْ: یَا عَبْدَاللّٰہِ! ہٰذَا اَبُو الْقَاسِمِ قَدْ جَائَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَالَھَا، قَاتَلَہَا اللّٰہُ لَوْ تَرَکَتْہُ لَبَیَّنَ۔))فَقَالَ: ((یَاابْنَ صَائِدٍ مَاتَرٰی۔)) قَالَ: اَرٰی حَقًّا وَاَرٰی بَاطِلًا وَاَرٰی عَرْشًا عَلَی الْمَائِ قَالَ: ((اَتَشْہَدُ اَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ؟)) قَالَ: اَتَشْہَدُ اَنْتَ اَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((آمَنْتُ بِاللّٰہِ وَرُسُلِہِ۔)) فَلُبِسَ عَلَیْہِ فَقَالَ لَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَاابْنَ صَائِدٍ! اِنَّا قَدْ خَبَاْنَا لَکَ خَبِیْئًا فَمَا ھُوَ۔)) قَالَ: اَلدُّخُّ اَلدُّخُّ، فَقَالَ لَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِخْسَاْ اِخْسَاْ۔)) فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: اِئْذَنْ لِیْ فَاَقْتُلَہُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنْ یَکُنْ ھُوَ فَلَسْتَ صَاحِبَہُ، اِنَّمَا صَاحِبُہُ عِیْسٰی بْنُ مَرْیَمَ علیہ السلام وَاِلَّا یَکُنْ ھُوَ فَلَیْسَ لَکَ اَنْ تَقْتُلَ رَجُلًا مِنْ اَھْلِ الْعَہْدِ۔)) قَالَ: فَلَمْ یَزَلْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُشْفِقًا اَنَّہُ الدَّجَّالُ۔ (مسند احمد: ۱۵۰۱۸)

سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ مدینہ منورہ کی ایک یہودی عورت نے ایک بچہ جنم دیا، اس کی ایک آنکھ مٹی ہوئی تھی اور وہ اوپر کی طرف ابھری ہوئی تھی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اندیشہ ہوا کہ یہی دجال ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے دیکھا کہ اس نے ایک چادر اوڑھی ہوئی تھی اور اس کی گنگناہٹ کی آواز بھی آرہی تھی، لیکن اس کی ماں نے اسے متنبہ کرتے ہوئے کہا: اے عبد اللہ! یہ ابو القاسم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم آ گئے ہیں،ـ تو ان کی طرف جا، پس وہ چادر کے نیچے سے نکل کرآ گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کی ماں کو کیا تھا؟ اللہ اسے ہلاک کرے، اگر یہ اسے اسی طرح لیٹا رہنے دیتی تو وہ خود ہی اپنی باتوں سے اپنی اصلیت کو واضح کر دیتا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابن صائد! تم کیا دیکھتے ہو؟ اس نے کہا: میں حق بھی دیکھتا ہوں اور باطل بھی دیکھتا ہوں اور مجھے پانی پر ایک تخت بھی نظر آتا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس پر تو معاملہ خلط ملط کر دیاگیا ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے فرمایا: کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ وہ جواباً بولا: کیا آپ اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا ہوں۔ اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اسے چھوڑ کر واپس آگئے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک دفعہ پھر اس کی طرف تشریف لے گئے اوراس کو کھجور کے درختوں کے درمیان پایا، وہ کچھ گنگنا رہا تھا، لیکن اس دفعہ بھی اس کی ماں نے اسے خبردار کرتے ہوئے کہا: عبد اللہ! یہ ابوالقاسم آگئے ہیں۔تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسے کیا ہو گیا ہے، اللہ اسے ہلاک کرے، اگر یہ اس کو اسی طرح بے خبر رہنے دیتی تو وہ اپنی باتوں سے خود ہی اپنی حقیقت بیان کر دیتا۔ سیدناجابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کی باتیں سننا چاہتے تھے، تاکہ آپ کو علم ہو جاتا کہ یہ دجال ہے یا نہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابن صائد! تم کیا چیز دیکھتے ہو؟ اس نے کہا: میں حق بھی دیکھتا ہوں، باطل بھی دیکھتا ہوں اور مجھے پانی پر ایک تخت بھی نظر آتا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ وہ جواباً بولا: کیا آپ یہ شہادت دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرا اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان ہے۔ پس اس کا معاملہ اس پر خلط ملط کر دیا گیا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اسے چھوڑ کر چلے گئے، اور پھر تیسری یا چوتھی مرتبہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم انصار و مہاجرین کی ایک جماعت کے ساتھ اس کی طرف گئے، سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما بھی آپ کے ہمراہ تھے، ہوا یوں کہ اس بار رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جلدی سے ہم سے آگے بڑ ھ گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی کوشش تھی کہ اس کی کوئی بات سن لیں، لیکن اس کی ماں جلدی جلدی اس کی طرف گئی اور کہا: عبد اللہ! یہ ابو القاسم آگئے ہیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا ہو اس کو؟ اللہ اسے ہلاک کرے، اگر یہ اسے ا سی طرح بے خبر رہنے دیتی تو وہ اپنی باتوں سے اپنی حقیقت کو واضح کر دیتا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابن صائد ! تم کیا دیکھتے ہو؟ اس نے کہا: میں حق اور باطل دیکھتا ہوںاور مجھے پانی پر ایک تخت بھی نظر آتا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم یہ شہادت دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ وہ جواباً بولا: اور کیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرا اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان ہے۔ اس کا معاملہ اس پر خلط ملط کر دیا گیا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: ابن صائد! ہم تیرے لیے یعنی تجھے آزمانے کے لیے اپنے دل میں ایک کلمہ سوچ رہے ہیں، تو بتا کہ وہ کیا ہے؟ اس نے کہا: وہ الدخ ہے، الدخ ۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: دفع ہو، دفع ہو۔ سیدنا عمربن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیں کہ میں اسے قتل کر دوں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر یہ واقعی دجال ہے تو تمہارا اس سے کوئی مقابلہ نہیں، اس کا مقابلہ کرنے والے جنابِ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام ہوں گے اور اگر یہ دجال نہیں ہے تو آپ کے لیے ایک ذِمّی کو قتل کرنا روا نہیں ہے۔ بہرحال رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ اندیشہ رہا کہ یہی دجال ہے۔

Haidth Number: 12960

۔ (۱۲۹۶۱)۔ وَعَنْ مَہْدِیِّ بْنِ عِمْرَانَ الْمَازِنِیِّ قَالَ: سَمِعْتُ اَبَا الطُّفَیْلِ وَسُئِلَ: ھَلْ رَاَیْتَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: نَعَمْ، قِیْلَ فَہَلْ کَلَّمْتَہُ قَالَ: لَا، وَلٰکِنْ رَاَیْتُہُ اِنْطَلَقَ مَکَانَ کَذَا وَکَذَا وَمَعَہُ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ وَاُنَاسٌ مِنْ اَصْحَابِہِ حَتّٰی اَتٰی دَارًا قَوْرَائَ فَقَالَ: ((اِفْتَحُوْا ھٰذِہٖالْبَابَ۔)) فَفُتِحَوَدَخَلَالنَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَدَخَلْتُ مَعَہُ فَاِذَا قَطِیْفَۃٌ فِیْ وَسْطِ الْبَیْتِ فَقَالَ: ((اِرْفَعُوْا ہٰذَا الْقَطِیْفَۃَ۔)) فَرَفَعُوْا الْقَطِیْفَۃَ، فَاِذَا غُلَامٌ اَعْوَرُ تَحْتَ الْقَطِیْفَۃِ فَقَالَ: ((قُمْ یَا غُلَامُ!)) فَقَامَ الْغُلَامُ، فَقَالَ: ((یَاغُلَامُ اَتَشْہَدُ اَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ؟)) قَالَ الْغُلَامُ: اَتَشْہَدُ اَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ، قَالَ: ((اَتَشْہَدُ اَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔)) قَالَ الْغُلَامُ: اَتَشْہَدُ اَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((تَعَوَّذُوْا بِاللّٰہِ مِنْ شَرِّ ھٰذَا۔)) مَرَّتَیْنِ۔ (مسند احمد: ۲۴۲۰۶)

مہدی بن عمران مازنی کہتے ہیں: میں نے سیدنا ابو طفیل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے سنا، جبکہ ان سے یہ سوال کیاگیا کہ آیا انھوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا ہے؟ انہوںنے کہا:جی ہاں، پھر پوچھا گیا کہ آیا تم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا کلام بھی کی ہے؟ انہوںنے کہا: جی نہیں، میں نے تو یہ دیکھا کہ آپ فلاں جگہ تشریف لے گئے، سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سمیت دیگر کچھ صحابہ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک کشادہ گھر تک پہنچے تو فرمایا: یہ دروازہ کھولو۔ سو دروازہ کھولا گیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اندر داخل ہوئے، میں بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ چلا گیا، کمرہ کے وسط میں ایک چادر پڑی تھی۔ آپ نے فرمایا: اس چادر کو اٹھاؤ۔ پس انھوں نے چادر اٹھائی، اس کے نیچے ایک کانا لڑکا تھا، آپ نے فرمایا: او لڑکے! اٹھ۔ سو وہ کھڑا ہوگیا، آپ نے فرمایا: لڑکے! کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ وہ بولا:اور کیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ شہادت دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر فرمایا: ـ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ وہ پھر بولا: اور کیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ شہادت دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دو مرتبہ فرمایا: تم اس کے شر سے اللہ کی پناہ طلب کرو۔

Haidth Number: 12961
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس آیت {یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَہَا} کی تلاوت کی اور پھر پوچھا: کیا تم جانتے ہو کہ زمین کی اخبار سے کیا مراد ہے؟ صحابہ نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس سے مراد یہ ہے کہ ہر مرد اور عورت نے زمین کے اوپر جو کچھ کیا ہو گا، زمین اس کے بارے میں گواہی دیتے ہوئے کہے گی کہ تو نے فلاں دن میرے اوپر فلاں فلاں عمل کیا تھا، اس کی اخبار سے یہی چیز مراد ہے۔

Haidth Number: 13159
سیدنا عقبہ بن عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کر یم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن جب انسانوں کے مونہوں پر مہر لگا دی جائے گی تو سب سے پہلے انسان کی بائیں ٹانگ کی ران کی ہڈی بول کر (انسان کے اعمال بیان کر کے اس کے خلاف گواہی دے گی)۔

Haidth Number: 13160
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں قیامت کے دن جنت کے دروازے پر جا کر دروازہ کھولنے کا مطالبہ کروں گا، دروازے کا نگہبان پوچھے گا:تم کون ہو؟میں کہوں گا: جی میںمحمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہوں، وہ کہے گا: آپ کے بارے میں ہی مجھے حکم دیا گیا تھا کہ میں آپ سے پہلے کسی کے لیے دروازہ نہ کھولوں۔

Haidth Number: 13297
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہم زمانہ کے لحاظ سے سب سے آخر میں آئے ہیں، تاہم قیامت کے دن ہم سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے، بس فرق یہ ہے کہ ان لوگوں کو ہم سے پہلے کتاب دی گئی تھی اور ہمیں بعد میں دی گئی، ان لوگوں نے جس دن کے بارے میں آپس میں اختلاف کیا تھا، اللہ تعالیٰ نے اس معاملے میں ہماری رہنمائی فرما دی اور لوگ اس سلسلے میں ہمارے تابع ہیں، (پہلا دن جمعہ ہے، جو کہ ہمارا ہے)، اس سے اگلا دن (ہفتہ) یہودیوں کا ہے اور اس سے اگلا دن (اتوار) عیسائیوں کا ہے۔

Haidth Number: 13298
Haidth Number: 13299

۔ (۱۳۳۰۰)۔ وَعَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرِ و بْنِ الْعَاصِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّہُ قَالَ: ((ھَلْ تَدْرُوْنَ اَوَّلَ مَنْ یَّدْخُلُ الْجَنَّۃَ مِنْ خَلْقِ اللّٰہِ؟ قَالُوْا: اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ اَعْلَمُ، قَالَ: ((اَوَّلُ مَنْ یَّدْخُلُ الْجَنَّۃَ مِنْ خَلْقِ اللّٰہِ الْفُقَرَائُ وَالْمُہَاجِرُوْنَ الَّذِیْنَ تُسَدُّ بِہِمُ الثُّغُوْرُ وَیُتَّقٰی بِہِمُ الْمَکَارِہُ وَیَمُوْتُ اَحَدُھُمْ وَحَاجَتُہُ فِیْ صَدْرِہٖلَایَسْتَطِیْعُ لَھَا قَضَائً، فَیَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ لِمَنْ یَّشَائُ مِنْ مَلَائِکَتِہٖ: اِئْتُوْھُمْ فَحَیُّوْھُمْ، فَتَقُوْلُ الْمَلَائِکَۃُ: نَحْنُ سُکَّانُ سَمَائِکَ وَخِیَرَتُکَ مِنْ خَلْقِکَ، اَفَتَاْمُرُنَا اَنْ نَّاْتِیَ ھٰؤُلَائِ فَنُسَلِّمُ عَلَیْہِمْ؟ قَالَ: اِنَّہُمْ کَانُوْا عِبَادًا یَعْبُدُوْنِیِّ، لَایُشْرِکُوْنَبِیْ شَیْئًا وَتُسَدُّ بِہِمُ الثُّغُوْرُ وَیُتَّقٰی بِہِمُ الْمَکَارِہُ وَیَمُوْتُ اَحَدُھُمْ وَحَاجَتُہُ فِیْ صَدْرِہٖلَایَسْتَطِیْعُ لَھَا قَضَائً، قَالَ: فَتَاْتِیْہِمُ الْمَلَائِکَۃُ عِنْدَ ذٰلِکَ فَیَدْخُلُوْنَ عَلَیْہِمْ مِنْ کُلِّ بَابٍ: {سَلَامٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ} [الرعد: ۲۴]۔)) (مسند احمد: ۶۵۷۰)

سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے سب سے پہلے جنت میں کون جائے گا؟ صحابہ کرام نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے پہلے وہ فقراء اور مہاجرین جنت میں جائیںگے، جن کے ذریعے سرحدات کو تحفظ دیا جاتا ہے اور جن کے واسطے سے (دشمنوں کے) ناپسندیدہ امور سے بچا جاتا ہے، جبکہ وہ خود اس حال میں دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں کہ ان کی خواہشات ان کے دلوں میں ہی رہ جاتی ہیں اور وہ اپنی خواہشات کو پورا کرنے کی طاقت ہی نہیں رکھتے، اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کو حکم دے گا کہ جا کر ان لوگوں کو سلام کہو، فرشتے کہیں گے: اے اللہ!ہم تیرے آسمان کے رہنے والے ہیں اور تیری بہترین مخلوق ہیں، کیا تو ہمیں اس بات کا حکم دیتا ہے کہ ہم ان لوگوں کے پاس جا کر انہیں سلام کریں؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: یہ وہ لوگ ہیں، جو میری عبادت کیا کرتے تھے، میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے، ان کے ذریعے سرحدات کو تحفظ دیا جاتا تھا اور ان کے واسطے سے ناپسندیدہ امور سے بچا جاتا تھا، جبکہ یہ خود اس حال میں وفات پا گئے تھے کہ ان کی خواہشات ان کے دلوں میں ہی رہ گئی تھیں اور وہ اپنی خواہشات کو پورا کرنے کی طاقت ہی نہیں رکھتے تھے، اس کے بعد یہ فرشتے ان کے پاس آئیںگے اور ہر دروازے سے داخل ہو کر یوں سلام پیش کریں گے: {سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ} (تم دنیا میں جو صبر کرتے رہے، اس کی وجہ سے تم پر سلام ہو، یہ تمہارا بہترین ٹھکانہ اور منزل ہے۔) (سورۂ رعد: ۲۲،۲۳)

Haidth Number: 13300
۔ (دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت میں سب سے پہلے داخل ہونے والا گروہ ان فقراء مہاجرین کا ہوگا کہ جن کے ذریعے ناپسندیدہ امور سے بچا جاتا تھا،ان کو جب کوئی حکم دیا جاتا تھا تو یہ سنتے اور اس کی اطاعت کرتے، لیکن اگر ان میں سے کسی کو کسی بادشاہ سے کام پڑ جاتا تو مرتے دم تک اس کا کام نہیں کیا جاتا تھا، اور وہ اپنی خواہش دل میں ہی دبائے فوت ہو جاتا تھا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جنت کو بلائے گا، چنانچہ وہ اپنی تمام آرائشوں اور زینتوں کے ساتھ آئے گی، پھر اللہ تعالیٰ کہے گا: اے میرے وہ بندو! جنہوںنے میری راہ میں قتال کیا اور مارے گئے اور میری راہ میں جن کو ایذائیں دی گئیں اور جنہوں نے میری راہ میں جہاد کیا، جنت میں داخل ہو جاؤ، چنانچہ وہ حساب اور عذاب کے بغیر جنت میں داخل ہو جائیں گے، …۔

Haidth Number: 13301
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت میں داخل ہونے والے سب سے پہلے گروہ کی صورتیں چودھویں شب کے چاند کی طرح روشن ہوںگی، ان کو جنت میں نہ لعاب آئے گا، نہ وہ وہاں تھوکیں گے، نہ ان کے ناکوں میں کوئی فضلہ ہوگا اور نہ وہ قضائے حاجت کریں گے، ان کے استعمال کے برتن اور کنگھیاں سونے اور چاندی کی ہوں گی، ان کی انگیٹھیوں میں (جلانے کے لئے) خوشبودار لکڑی ہو گی، ان کا پسینہ کستوری ہو گا، ہر جنتی کی دو دو بیویاں ہوں گی، ان کے حسن و لطافت کی بناء پر ان کی پنڈلیوں کا گودا گوشت میں سے نظر آ رہا ہوگا، اہل جنت کا آپس میں کسی قسم کا اختلاف یا جھگڑا نہیں ہوگا۔ ان کے دل ایک دوسرے کے بغض سے یکسر پاک صاف ہوںگے گویا ان سب کا دل ایک ہوگا۔ وہ صبح شام اللہ تعالیٰ کی تسبیحات کریں گے۔

Haidth Number: 13302
۔ (دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت میں سب سے پہلے داخل ہونے والے گروہ کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی مانند روشن اور صاف ہوں گے، ان سے کم مرتبہ والوں کے چہرے آسمان پر سب سے زیادہ دمکتے ستارے جیسے ہوں گے، وہ جنت میں نہ پیشاب کریں گے،نہ تھوکیں گے، نہ ان کے ناکوں میں کوئی فضلہ ہو گا، ان کی کنگھیاں سونے کی ہوں گی، ان کا پسینہ کستوری ہو گا، ان کی انگیٹھیوں میں (جلانے کے لئے) خوشبودار لکڑی ہو گی اور کی بیویاں موٹی آنکھوں والی حوریں ہوں گی،ان کے اخلاق ایک آدمی کے اخلاق کی مانند ہوں گے ( یعنی ان کا آپس میں کسی قسم کا اختلاف، ناراضگی اور بغض و حسد نہیں ہو گا)، ان سب کے قد ان کے باپ آدم علیہ السلام کے قد جتنا ہو گا، یعنی ساٹھ ہاتھ لمبے ہوں گے۔

Haidth Number: 13303
۔ (تیسری سند) اس میں ہے: ہرجنتی کی دو دو بیویاں ہوں گی، ان کے گوشت سے ان کی پنڈلیوں کا گودا نظر آ رہا ہو گا اور جنت میں کوئی آدمی بھی بیوی کے بغیر نہیں ہوگا۔

Haidth Number: 13304