Blog
Books
Search Hadith

محمد نام رکھنا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے نام اور کنیت کو جمع کرنے کی ممانعت کا بیان

88 Hadiths Found
۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم میں سے ایک آدمی کا بچہ پیدا ہوا، اس نے اس کا نام قاسم رکھا، ہم نے اس سے کہا: ہم تیری کنیت ابو القاسم نہیں رکھیں گے اور اس طرح تیری آنکھ کو ٹھنڈا نہیں کریں گے، پس وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور یہ بات آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتلائی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اپنے بیٹے کا نام عبد الرحمن رکھ لو۔

Haidth Number: 4753
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرا نام رکھ لو، لیکن میری کنیت نہ رکھو، میں ابو القاسم ہوں۔

Haidth Number: 4754
Haidth Number: 4755
۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی اسی قسم کی حدیث بیان کی ہے۔

Haidth Number: 4756

۔ (۴۷۵۷)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِيْ لَیْلٰی، قَالَ: نَظَرَ عُمَرُ إِلٰی أَبِيْ عَبْدِ الْحَمِیدِ (أَوِ ابْنِ عَبْدِ الحَمِیدِ، شَکَّ أَبُو عَوَانَۃَ) وَکَانَ اسْمُہُ مُحَمَّدًا، وَرَجُلٌ یَقُوْلُ لَہُ: یَا مُحَمَّدُ! فَعَلَ اللّٰہ بِکَ وَ فَعَلَ وَ فَعَلَ، قَالَ: وَجَعَلَ یَسُبُّہُ ، قَالَ: فَقَالَ أَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ عِنْدَ ذٰلِکَ: یَا ابْنَ زَیْدٍ ادْنُ مِنِّي، قَالَ: أَلا أَرٰی مُحَمَّدًا، یُسَبُّ بِکَ، لا وَاللّٰہ لا تُدْعٰی مُحَمَّدًا مَا دُمْتُ حَیًا، فَسَمَّاہُ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلٰی بَنِيْ طَلْحَۃَ لِیُغَیِّرَ أَھْلُھُمْ أَسْمَائَ ھُمْ وَ ھُمْ یَوْمَئِذٍ سَبْعَۃٌ وَ سَیِّدُھُمْ وَ أَکْبَرُھُمْ مُحَمَّدٌ، قَالَ : فَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَۃَ: أَنْشُدُکَ اللّٰہ یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ! فَوَاللّٰہ إِنْ سَمَّانِي مُحَمَّدًا یَعْنِيْ إِلا مُحَمَّدٌ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ عُمَرُ: قُومُوْا لا سَبِیْلَ لِيْ إِلَی شَيْئٍ سَمَّاہُ مُحَمَّدٌ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔(مسند أحمد: ۱۸۰۵۶)

۔ عبد الرحمن بن ابی لیلی کہتے ہیں: سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ابو عبد الحمید یا ابن عبد الحمید کی طرف دیکھا، اس کا نام محمد تھا، ایک آدمی اس کو گالی دے رہا تھا اور یوں کہہ رہا تھا: او محمد! اللہ تعالیٰ تیرے ساتھ یوں کرے اور اس طرح کرے اور اس طرح کرے، امیر المؤمنین نے اس وقت کہا: اے ابن زید! ذرا میرے قریب ہو جاؤ، کیا میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ تمہاری وجہ سے محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو برا بھلا کہا جا رہا ہے، نہیں، اللہ کی قسم ہے جب

Haidth Number: 4757

۔ (۴۹۸۰)۔ عَنْ أَبِی الْعَلَائِ، قَالَ: حَدَّثَنِی رَجُلٌ مِنَ الْحَیِّ أَنَّ عِمْرَانَ بْنَ حُصَیْنٍ حَدَّثَہُ: أَنَّ عُبَیْسًا أَوْ ابْنَ عُبَیْسٍ فِی أُنَاسٍ مِنْ بَنِی جُشَمٍ أَتَوْہُ، فَقَالَ لَہُ أَحَدُہُمْ: الَا تُقَاتِلُ حَتّٰی لَا تَکُونَ فِتْنَۃٌ، قَالَ: لَعَلِّی قَدْ قَاتَلْتُ حَتّٰی لَمْ تَکُنْ فِتْنَۃٌ، قَالَ: أَلَا أُحَدِّثُکُمْ مَا قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ وَلَا أُرَاہُ یَنْفَعُکُمْ فَأَنْصِتُوا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اغْزُوا بَنِی فُلَانٍ مَعَ فُلَانٍ۔)) قَالَ: فَصُفَّتِ الرِّجَالُ وَکَانَتِ النِّسَائُ مِنْ وَرَائِ الرِّجَالِ، ثُمَّ لَمَّا رَجَعُوا قَالَ رَجُلٌ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ اسْتَغْفِرْ لِی غَفَرَ اللّٰہُ لَکَ، قَالَ: ہَلْ أَحْدَثْتَ؟ قَالَ: لَمَّا ہُزِمَ الْقَوْمُ وَجَدْتُ رَجُلًا بَیْنَ الْقَوْمِ وَالنِّسَائِ فَقَالَ: إِنِّی مُسْلِمٌ أَوْ قَالَ أَسْلَمْتُ فَقَتَلْتُہُ، قَالَ: تَعَوُّذًا بِذٰلِکَ حِینَ غَشِیَہُ الرُّمْحُ، قَالَ: ((ہَلْ شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِہِ تَنْظُرُ إِلَیْہِ۔)) فَقَالَ: لَا، وَاللّٰہِ! مَا فَعَلْتُ فَلَمْ یَسْتَغْفِرْ لَہُ أَوْ کَمَا قَالَ، وَقَالَ فِی حَدِیثِہِ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اغْزُوا بَنِی فُلَانٍ مَعَ فُلَانٍ۔)) فَانْطَلَقَ رَجُلٌ مِنْ لُحْمَتِی مَعَہُمْ، فَلَمَّا رَجَعَ إِلٰی نَبِیِّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! اسْتَغْفِرْ اللّٰہَ لِی غَفَرَ اللّٰہُ لَکَ، قَالَ: ((وَہَلْ أَحْدَثْتَ؟)) قَالَ: لَمَّا ہُزِمَ الْقَوْمُ أَدْرَکْتُ رَجُلَیْنِ بَیْنَ الْقَوْمِ وَالنِّسَائِ فَقَالَا: إِنَّا مُسْلِمَانِ أَوْ قَالَا: أَسْلَمْنَا فَقَتَلْتُہُمَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((عَمَّا أُقَاتِلُ النَّاسَ إِلَّا عَلَی الْإِسْلَامِ وَاللّٰہِ لَا أَسْتَغْفِرُ لَکَ۔)) أَوْ کَمَا قَالَ، فَمَاتَ بَعْدُ فَدَفَنَتْہُ عَشِیرَتُہُ فَأَصْبَحَ قَدْ نَبَذَتْہُ الْأَرْضُ، ثُمَّ دَفَنُوہُ وَحَرَسُوہُ ثَانِیَۃً فَنَبَذَتْہُ الْأَرْضُ، ثُمَّ قَالُوْا: لَعَلَّ أَحَدًا جَائَ وَأَنْتُمْ نِیَامٌ فَأَخْرَجَہُ، فَدَفَنُوہُ ثَالِثَۃً ثُمَّ حَرَسُوہُ فَنَبَذَتْہُ الْأَرْضُ ثَالِثَۃً، فَلَمَّا رَأَوْا ذٰلِکَ أَلْقَوْہُ أَوْ کَمَا قَالَ۔ (مسند أحمد: ۲۰۱۷۹)

۔ سیدنا عمران بن حصین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ عُبیس یا ابن عُبیس سمیت بنو جشم قبیلے کے کچھ لوگ ان کے پاس آئے اور ان میں ایک آدمی نے ان سے کہا: کیا تم فتنہ دب جانے تک لڑائی نہیں کرتے؟ انھوں نے کہا: شاید میں اس مقصد کے لیے قتال کر چکا ہوں کہ فتنہ نہ رہے، کیا میں تمہیں وہ بات بیان نہ کر دوں، جو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ارشاد فرمائی ہو؟ اور میرا خیال ہے کہ شایدہ وہ تم کو نفع نہ دے، بہرحال خاموش ہو جاؤ۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے بنو فلاں! تم بنو فلاں سے قتال کرو۔ پس یہ فرمانا ہی تھا کہ مردوں کی صفیں بنا دی گئیں اور ان کے پیچھے ان کی خواتین بھی تھیں، پھر جب وہ لوگ لوٹے تو ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے نبی! آپ میرے لیے بخشش طلب کریں، اللہ تعالیٰ آپ کو بھی بخش دے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: کیا تو نے کوئی نیا کام کر دیا ہے؟ اس نے کہا: جی جب دشمن قوم کو شکست ہو رہی تھی تو میں نے مردوں اور عورتوں کے درمیان ایک آدمی پایا، اس نے کہا: میں مسلمان ہوں، یا میں نے اسلام قبول کر لیا ہے، لیکن میں نے اس کو قتل کر دیا، دراصل جب اس نے نیزوں کی بوچھاڑ دیکھی تو ان سے بچنے کے لیے یہ بات کہی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تو نے اس کا دل چاک کر کے اس کو دیکھا تھا؟ اس نے کہا: جی نہیں، اللہ کی قسم! ایسے تو میں نے نہیں کیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس آدمی کے لیے استغفار نہیں کیا۔ ایک روایت میں ہے: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے بنو فلاں! تم لوگ بنوفلاں سے جہاد کرو۔ میرے رشتہ داروں میں سے ایک آدمی بھی ان کے ساتھ چل پڑا، لیکن جب وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف لوٹا تو اس نے کہا: اے اللہ کے نبی! آپ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کریں، اللہ تعالیٰ آپ کو بخشے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: کیا تو نے کوئی نیا کام کر دیا ہے؟ اس نے کہا: جب دشمنوں کو شکست ہو گئی تو میں نے مردوں اور عورتوں کے درمیان دو آدمیوں کو پایا، انھوں نے یہ تو کہا کہ وہ مسلمان ہیں یا انھوں نے اسلام قبول کر لیا، لیکن میں نے ان کو قتل کر دیا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے لوگوں سے اسلام پر ہی جہاد کرنا ہے، اللہ کی قسم! میں تیرے لیے بخشش طلب نہیں کروں گا۔ بعد میں یہ آدمی فوت ہو گیا اور اس کے رشتہ داروں نے اس کو دفن کیا، لیکن جب صبح ہوئی تو صورتحال یہ تھی کہ زمین نے اس کو باہر پھینک دیا تھا، انھوں نے پھر اس کو دفن کیا اور باقاعدہ اس کا پہرہ دیا، لیکن زمین نے اس کو باہر پھینک دیا، انھوں نے پہرہ داروں سے کہا: شاید کسی آدمی نے آ کر اس کو نکال دیا ہو، جبکہ تم سو رہے ہو، پس انھوں نے تیسری بار اس کو دفن کیا اور پہرہ بھی دیا، لیکن زمین نے اس بار بھی اس کو باہر پھینک دیا، جب انھوں نے یہ صورتحال دیکھی تو اس کو ایسے ہی باہر ڈال دیا۔

Haidth Number: 4980

۔ (۴۹۸۱)۔ عَنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلَالٍ قَالَ: جَمَعَ بَیْنِی وَبَیْنَ بِشْرِ بْنِ عَاصِمٍ رَجُلٌ فَحَدَّثَنِی عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ مَالِکٍ، أَنَّ سَرِیَّۃً لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَشُوا أَہْلَ مَائٍ صُبْحًا، فَبَرَزَ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْمَائِ، فَحَمَلَ عَلَیْہِ رَجُلٌ مِنْ الْمُسْلِمِینَ، فَقَالَ: إِنِّی مُسْلِمٌ فَقَتَلَہُ، فَلَمَّا قَدِمُوْا أَخْبَرُوا النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِذٰلِکَ، فَقَامَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَطِیبًا فَحَمِدَ اللّٰہَ وَأَثْنٰی عَلَیْہِ ثُمَّ قَالَ: ((أَمَّا بَعْدُ فَمَا بَالُ الْمُسْلِمِ؟ یَقْتُلُ الرَّجُلَ وَہُوَ یَقُولُ إِنِّی مُسْلِمٌ۔)) فَقَالَ الرَّجُلُ: إِنَّمَا قَالَہَا مُتَعَوِّذًا، فَصَرَفَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَجْہَہُ وَمَدَّ یَدَہُ الْیُمْنٰی (وَفِیْ لَفْظٍ: فَاَقْبَلَ عَلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَعْرِفُ الْمَسَائَۃَ فِیْ وَجْھِہِ) فَقَالَ: ((أَبَی اللّٰہُ عَلَیَّ مَنْ قَتَلَ مُسْلِمًا۔)) ثَلَاثَ مَرَّاتٍ۔ (مسند أحمد: ۱۷۱۳۴)

۔ حمید بن ہلال سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ایک آدمی نے مجھے اور بشر بن عاصم کو جمع کر کے سیدنا عقبہ بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بات بیان کی: رسول للہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ایک سریہ کے لوگ صبح کے وقت پانی والوں کے پاس پہنچے، جب ان میں سے ایک آدمی باہر آیا تو مسلمانوں میں سے ایک شخص نے اس پر حملہ کر دیا، اس نے آگے سے کہا کہ وہ مسلمان ہے، لیکن اس نے اس کو قتل کر دیا، جب یہ لوگ واپس آئے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ بات بتلائی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خطاب کرنے کے لیے کھڑے ہو گئے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور پھر فرمایا: أَمَّا بَعْدُ،اس مسلمان کا کیا حال ہو گا، جو ایسے آدمی کو قتل کر دیتا ہے، جویہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ وہ مسلمان ہے۔ اس آدمی نے کہا: جی اس نے یہ بات بچاؤ کی خاطر کہی تھی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا چہرہ پھیر لیا اور اپنا دایاںہاتھ لمبا کیا، ایک روایت میں ہے: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس پر متوجہ ہوئے اور فرمایا: کیا تو برائی کو اس کے چہرے میں پہچان لیتا ہے؟ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس شخص نے کسی مسلمان کو قتل کر دیا، اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے مجھ پر انکار کر دیا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ جملہ تین بار ارشاد فرمایا۔

Haidth Number: 4981

۔ (۴۹۸۲)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: بَعَثَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ إِلٰی بَنِی أَحْسِبُہُ قَالَ: جَذِیمَۃَ، فَدَعَاہُمْ إِلَی الْإِسْلَامِ، فَلَمْ یُحْسِنُوا أَنْ یَقُولُوْا: أَسْلَمْنَا، فَجَعَلُوا یَقُولُونَ: صَبَأْنَا صَبَأْنَا، وَجَعَلَ خَالِدٌ بِہِمْ أَسْرًا وَقَتْلًا، قَالَ: وَدَفَعَ إِلٰی کُلِّ رَجُلٍ مِنَّا أَسِیرًا حَتّٰی إِذَا أَصْبَح یَوْمًا أَمَرَ خَالِدٌ أَنْ یَقْتُلَ کُلُّ رَجُلٍ مِنَّا أَسِیرَہُ، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَقُلْتُ: وَاللّٰہِ، لَا أَقْتُلُ أَسِیرِی، وَلَا یَقْتُلُ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِی أَسِیرَہُ، قَالَ: فَقَدِمُوا عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَذَکَرُوا لَہُ صَنِیعَ خَالِدٍ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَرَفَعَ یَدَیْہِ: ((اللّٰہُمَّ إِنِّی أَبْرَأُ إِلَیْکَ مِمَّا صَنَعَ خَالِدٌ)) مَرَّتَیْنِ۔ (مسند أحمد: )

۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بنو جذِیمہ کی طرف روانہ کیا، انھوں نے اس قبیلے کو اسلام کی دعوت دی، وہ آگے سے اچھے انداز میں یہ نہ کہہ سکے کہ ہم مسلمان ہو گئے ہیں۔ بلکہ انھوں نے أَسْلَمْنَا کے بجائے اس طرح کہنا شروع کر دیا: صَبَأْنَا صَبَأْنَا ۔ اُدھر سے سیدنا خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کو قید کرنا اور قتل کرنا

Haidth Number: 4982

۔ (۴۹۸۳)۔ عَنْ أَبِی وَائِلٍ، عَنْ ابْنِ مُعَیْزٍ السَّعْدِیِّ، قَالَ: خَرَجْتُ أَسْقِی فَرَسًا لِی فِی السَّحَرِ، فَمَرَرْتُ بِمَسْجِدِ بَنِی حَنِیفَۃَ، وَہُمْ یَقُولُونَ إِنَّ مُسَیْلِمَۃَ رَسُولُ اللّٰہِ، فَأَتَیْتُ عَبْدَ اللّٰہِ فَأَخْبَرْتُہُ، فَبَعَثَ الشُّرْطَۃَ فَجَائُ وْا بِہِمْ فَاسْتَتَابَہُمْ فَتَابُوا فَخَلّٰی سَبِیلَہُمْ، وَضَرَبَ عُنُقَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ النَّوَّاحَۃِ، فَقَالُوْا: آخَذْتَ قَوْمًا فِی أَمْرٍ وَاحِدٍ، فَقَتَلْتَ بَعْضَہُمْ وَتَرَکْتَ بَعْضَہُمْ، قَالَ: إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَدِمَ عَلَیْہِ ہٰذَا وَابْنُ أُثَالِ بْنِ حَجَرٍ، فَقَالَ: ((أَتَشْہَدَانِ أَنِّی رَسُولُ اللّٰہِ۔)) فَقَالَا: نَشْہَدُ أَنَّ مُسَیْلِمَۃَ رَسُولُ اللّٰہِ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((آمَنْتُ بِاللّٰہِ وَرُسُلِہِ لَوْ کُنْتُ قَاتِلًا وَفْدًا لَقَتَلْتُکُمَا۔)) قَالَ: فَلِذٰلِکَ قَتَلْتُہٗ۔ (مسند أحمد: ۳۸۳۷)

۔ ابن معیز سعدی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سحری کی وقت اپنے گھوڑے کو پانی پلانے کے لیے نکلا، جب میں بنو حنیفہ مسجد کے پاس سے گزرا تو ان کو یہ کہتے ہوئے سنا: بیشک مسیلمہ اللہ کا رسول ہے، میں سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آیا اور ان کو اس واقعہ کی خبردی، انھوں نے لشکر کو بھیجا، وہ ان کو پکڑ کر لے آئے، انھوں نے ان سے توبہ کرنے کا مطالبہ کیا اور انھوں نے توبہ کر لی اور انھوں نے ان کو آزاد کر دیا، لیکن عبد اللہ بن نواحہ کا سر قلم کر دیا، انھوں نے کہا: یہ کیا ہوا کہ تم نے ایک قوم کو ایک جرم میں پکڑا، پھر کسی کو قتل کر دیا اور کسی کو چھوڑ دیا، میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس موجود تھا، یہ آدمی اور ابن اثال بن حجر ،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے کہا: کیا تم دونوں یہ گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ انھوں نے کہا: ہم یہ گواہی دیتے ہیں کہ بیشک مسیلمہ اللہ کا رسول ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ سن کر فرمایا: میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا ہوں، اگر میں نے کسی وفد کو قتل کرنا ہوتا تو تم دونوں کو قتل کر دیتا۔ انھوں نے کہا: اسی وجہ سے تو میں نے اس کو قتل کیا ہے۔

Haidth Number: 4983
۔ (دوسری سند) جب ابن نواحہ کو قتل کیا گیا تو سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا؛ یہ اور ابن اثال دونوں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے، یہ دونوں مسیلمہ کذاب کے قاصد تھے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ انھوں نے کہا: ہم تو یہ شہادت دیتے ہیں کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر میں نے کسی قاصد کو قتل کرنا ہوتا تو میں تم دونوں کی گردنیں قلم کر دیتا۔ پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اس فرمان سے یہ طریقہ نافذ ہو گیا کہ قاصد کو قتل نہیںکیا جائے گا، رہا مسئلہ ابن اثال کا تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس سے کفایت کیا ہے اور یہ آدمی، یہ اسی نظرے میں لگا رہا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اب مجھے قدرت دی (اور میں نے اس کو قتل کر دیا)۔

Haidth Number: 4984
۔ حارثہ بن مضرب سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ابن نواحہ سے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ اگر تو قاصد نہ ہوتا تو میں تجھے قتل کر دیتا۔ آج تو قاصد نہیں ہے، خرشہ! اٹھو اور اس کا سر قلم کر دو۔ پس وہ اٹھے اور اس کو قتل کر دیا۔

Haidth Number: 4985
۔ سیدنا نعیم بن مسعود اشجعی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مسیلمہ کذاب کا خط پڑھا تو اس کے دو قاصدوں سے فرمایا: تم خود کیا کہتے ہو؟ انھوں نے کہا: ہم وہی کہتے ہیں، جو مسیلمہ کہتا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! اگر قاصدوں کو قتل نہ کیا جاتا ہوتا، تو میں تم دونوں کی گردنیں اڑا دیتا۔

Haidth Number: 4986
۔ سیدنا مغیرہ بن شعبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ وہ مشرکوں کی ایک قوم کے ساتھی بنے، لیکن جب انھوں نے ان کو غافل پایا تو ان سب کو قتل کر دیا اور ان کا مال لے کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آگئے، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ مال قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

Haidth Number: 4987
۔ سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مالِ تجارت لانے والے قافلوں کو راستے میںملنے سے اور شہری کادیہاتی کیلئے خریدو فروخت کرنے سے منع فرمایاہے۔

Haidth Number: 5893
۔ سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم راستے میں ہی سامان والوں سے ملنے سے منع فرمایا ہے، ہاں جب وہ سامان بازاروں میں پہنچ جائے (تو پھر تجارت کرنا ٹھیک ہے)۔

Haidth Number: 5894
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب لوگ قافلوں سے اناج خریدتے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خریداروں کے پاس (اپنے نمائندے) بھیجتے جو ان کو اس چیز سے منع کرتے تھے کہ وہ اس مال کو اس وقت تک آگے فروخت نہ کریں، جب تک اس کو اپنے ٹھکانوں میں نہ لے جائیں۔

Haidth Number: 5895
۔ سیدنا ابوہریر ہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آدمی اپنے بھائی کے سودے پر سودا نہ کرے اور نہ شہر ی، دیہاتی کا مال فروخت کرے، لوگوں کو ان کی حالت پر چھوڑ دو،اللہ تعالی بعض کو بعض کے ذریعے روزی دیتا ہے اور کوئی عورت اپنی بہن کی طلا ق کا مطالبہ نہ کرے۔

Haidth Number: 5896
۔ سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: شہری، دیہاتی کے لئے بیع نہ کرے، لوگو ں کو ان کے حال پر چھوڑ دو، اللہ تعالی بعض کو بعض کے ذریعے رزق دیتا ہے ۔

Haidth Number: 5897
۔ سیدنا طلحہ بن عبید اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے منع کیا ہے کہ شہری، دیہاتی کے لئے تجارت کرے، یہ ایک طویل حدیث ہے۔

Haidth Number: 5898
۔ سیدنا سمرہ بن جناب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس امر سے منع کیا ہے کہ مالِ تجارت لانے والوں کو بازاروں میں پہنچنے سے پہلے ملا جائے اور یہ کہ شہری، دیہاتی کا سامان فروخت کرے۔

Haidth Number: 5899
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مال تجارت لانے والے قافلوں کو ملنے سے منع کیا، اگر کوئی آدمی اُن سے سامان خرید لیتا ہے تو جب اس سامان کو بازار میں لایا جائے، اس کے مالک کو واپس لینے کا اختیار ہو گا۔

Haidth Number: 5900
۔ سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے کہ قافلوں کو (آگے جا کر) ملا جائے اور یہ کہ شہری، دیہاتی کا سامان فروخت کرے۔ طاؤس کہتے ہیں: میں نے سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے پوچھا اس کا مفہوم کیا ہے کہ شہری، دیہاتی کا سامان فروخت نہ کرے؟ انھوں نے کہا: اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کا دلّال نہ بنے۔

Haidth Number: 5901

۔ (۶۵۷۳)۔عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖقَالَ: قَضٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ رَجُلٍ طَعَنَ رَجُلًا بِقَرْنٍ فِی رِجْلِہِ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَقِدْنِیْ، فَقَالَ لَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَاتَعْجَلْ حَتّٰییَبْرَأَ جُرْحُکَ۔)) قَالَ: فَأَبَی الرَّجُلُ اِلَّا أَنْ یَسْتَقِیْدَ فَأَقَادَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْہُ، قَالَ: فَعَرِجَ الْمُسَتَقِیْدُ وَبَرَأَ الْمُسْتَقَادُ مِنْہُ، فَأَتَی الْمُسْتَقِیْدُ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! عَرِجْتُ وَبَرَأَ صَاحِبِیْ، فَقَالَ لَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَ لَمْ آمُرْکَ أَنْ لَّا تَسْتَقِیْدَ حَتّٰییَبْرَأَ جُرْحُکَ فَعَصَیْتَنِیْ فَاَبْعَدَکَ اللّٰہُ وَبَطَلَ جُرْحُکَ۔)) ثُمَّ أَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعْدَ الرَّجُلِ الَّذِیْ عَرِجَ ((مَنْ کَانَ بِہِ جُرْحٌ أَنْ لَّا یَسْتَقِیْدَ حَتّٰی تَبْرَأَ جِرَاحَتُہُ، فَاِذَا بَرِئَتْ جِرَاحَتُہُ اسْتَقَادَ۔)) (مسند احمد: ۷۰۳۴)

۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے دوسرے کو سینگ مار کر اس کے پائوں کو زخمی کر دیا، زخمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے اس سے قصاص دلوائیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جلدی نہ کر، یہاں تک کہ تیرا زخم ٹھیک ہو جائے۔ لیکن جب اس آدمی نے قصاص لینے پر ہی اصرار کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو قصاص دلوا دیا، لیکن اس کے بعد قصاص لینے والا لنگڑا ہوگیا اور جس سے قصاص لیا گیا تھا وہ صحت مند ہوگیا، اب وہ قصاص لینے والا پھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول!میں لنگڑا ہو گیا ہوں اور میرے متعلقہ آدمی صحت یاب ہو گیا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: کیا میں نے تجھے حکم نہیں دیا تھا کہ اپنے زخم کے درست ہونے تک قصاص نہ لے، لیکن تو نے میری نافرمانی کی، پس اللہ تعالی نے تجھے شفا سے محروم کر دیا اور تیرا زخم رائیگاں ہو گیا۔ پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لنگڑا ہو جانے والے اس آدمی کے واقعہ کے بعد یہ حکم دیا ہے کہ جس کو کوئی زخم لگ جائے، وہ اس وقت تک قصا ص نہ لے، جب تک اس کا زخم درست نہ ہوجائے، جب اس کا زخم درست ہو جائے تو تب وہ قصاص لے۔

Haidth Number: 6573
۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ شخص دوزخ میں داخل نہیں ہو گا، جس کے دل میں ایک دانے کے برابر ایمان ہو گا اور وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا، جس کے دل میں ایک دانے کے برابر تکبر ہو گا۔ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے یہ پسند ہے کہ میرا لباس دھلا ہوا ہو، میرے سر میں تیل لگا ہو، میرے جوتے کا تسمہ نیا ہو، انھوں نے مزید اشیاء کا بھی ذکر کیا، حتیٰ کہ اپنے کوڑے کے دستے کا بھی تذکرہ کیا، اے اللہ کے رسول! کیا یہ چیزیں تکبر میں شامل ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، یہ تو جمال اور خوبصورتی ہے اور بیشک اللہ تعالیٰ خود بھی جمیل ہے اور جمال کو پسند بھی کرتا ہے، تکبر یہ ہے کہ آدمی حق کو ٹھکرا دے اور لوگوں کو حقیر سمجھے۔

Haidth Number: 8096
۔ سیدنا معاذ بن انس جہنی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے اللہ تعالیٰ کے سامنے تواضع کرتے ہوئے قدرت رکھتے ہوئے (شاندار) لباس چھوڑ دیا ،اللہ تعالیٰ اسے مخلوق کے روبرو بلائیں گے اور اسے اختیار دے گا کہ وہ ایمان کی پوشاکوں میں جو چاہے پہن لے۔

Haidth Number: 8097
۔ سیدنا عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان آیات کی تلاوت کی: وہی ہے جس نے تجھ پر یہ کتاب اتاری، جس میں سے کچھ آیات محکم ہیں، وہی کتاب کی اصل ہیں اور کچھ دوسری کئی معنوں میں ملتی جلتی ہیں، پھر جن لوگوں کے دلوں میں تو کجی ہے وہ اس میں سے ان کی پیروی کرتے ہیں جو کئی معنوں میں ملتی جلتی ہیں، فتنے کی تلاش کے لیے اور ان کی اصل مراد کی تلاش کے لیے، حالانکہ ان کی اصل مراد نہیں جانتا مگر اللہ اور جو علم میں پختہ ہیں وہ کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے، سب ہمارے رب کی طرف سے ہے اور نصیحت قبول نہیں کرتے مگر جو عقلوں والے ہیں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تم قرآن میں جھگڑنے والوں کو دیکھو تو وہی وہ فتنہ پرور لوگ ہوں گے، جن کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ ان سے بچو۔

Haidth Number: 8532
۔ سیدنا ابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان {فَأَ مَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِہِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ} … پھر جن لوگوں کے دلوں میں تو کجی ہے وہ اس میں سے ان کی پیروی کرتے ہیں جو کئی معنوں میں ملتی جلتی ہیں۔ کے بارے میں فرمایا کہ یہ خوارج ہیں۔ اسی طرح {یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوہٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوہٌ}… اس دن کچھ چہرے سفید ہوں گے اور کچھ سیاہ کے بارے میں بھی فرمایا کہ ان سے مراد بھی خارجی ہیں۔

Haidth Number: 8533
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ ایسے شخص پر لعنت کرے جس نے زمین کے نشانات بدلے، اللہ تعالیٰ ایسے آدمی پر لعنت کرے، جس نے غیر اللہ کیلیے ذبح کیا، اللہ ایسے غلام پر لعنت کرے جس نے اپنے آقا کے علاوہ کسی دوسرے کو اپنا مالک بنایا، اللہ ایسے شخص پر لعنت کرے جس نے اندھے کو رستے سے بھٹکا دیا، اللہ ایسے شخص پرلعنت کرے جس نے چوپائے سے بدفعلی کی اور اللہ ایسے شخص پرلعنت کرے جس نے قومِ لوط والا فعل کیا۔

Haidth Number: 10015
۔ سیدنا ابو ریحانہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان امور سے منع فرمایا ہے: دانتوں کو باریک کرنا، تل بھرنا، بالوں کو اکھاڑنا، شغار، مرد کا مرد کے ساتھ اور عورت کا عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں لیٹنا، عورت کے بال کے ساتھ مزید بال ملانا اور بیع ملامسہ۔

Haidth Number: 10016

۔ (۱۰۳۸۲)۔ حَدَّثَنَا الْوَلِیْدُ بْنُ مُسْلِمٍ، وَ مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ الْقُرَقْسَانِیّ،ُ قَالَ الْوَلِیْدُ: حَدَّثنِی الْاَوْزَاعِیُّ وَ قَالَ مُحَمَّدٌ: ثَنَا الْاَوْزَاعِیُّ اَنَّ الزُّھْرِیَّ حَدَّثَہُ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما اَنَّہُ تَمَارٰی ھُوَ وَ الْحُـرُّ بْنُ قَیْسِ بْنِ حِصْنٍ الْفَزَارِیُّ فِیْ صَاحِبِ مُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ الَّذِیْ سَاَلَ السَّبِیْلَ اِلَی لُقِیِّہِ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: ھُوَ خَضِرٌ اِذْ مَرَّ بِھِمَا اُبَیُّ بْنِ کَعْبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، فَنَادَاہُ ابْنُ عَبَّاسٍ فَقَالَ: اِنِّیْ تَمَارَیْتُ اَنَا وَ صَاحِبِیْ ھٰذَا فِیْ صَاحِبِ مُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ سَاَلَ السَّبیْلَ اِلٰی لُقِیِّہِ، فَھَلْ سَمِعْتَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَذْکُرُ شَاْنَہُ؟ قَالَ: نَعَمْ، سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((بَیْنَا مُوْسٰی علیہ السلام فِیْ مَلَاٍ مِنْ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ، اِذْ قَامَ اِلَیْہِ رَجُلٌ فَقَالَ: ھَلْ تَعْلَمُ اَحَدًا اَعْلَمْ مِنْکَ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَاَوْحَی اللّٰہُ تَبَارَکَ وَ تَعالٰی اِلَیْہِ خَضِرٌ، فَسَاَلَ مُوْسٰی علیہ السلام السَّبِیْلَ اِلَی لُقِیِّہِ، وَ جَعَلَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی لَہُ الْحُوْتَ آیَۃَ، فَقِیْلَ لَہُ اِذَا فَقَدْتَ الْحُوْتَ فَارْجِعْ، وَ کَانَ مِنْ شَاْنِھِمَا مَاقَصَّ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی فِیْ کِتَابِہٖ۔)) (مسنداحمد: ۲۱۴۲۶)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے حُر بن قیس فزاری کے درمیانیہ مباحثہ ہونے لگا کہ وہ موسی علیہ السلام کا وہ صاحب کون تھا کہ انھوں نے جس سے ملاقات کرنے کے لیے راستے کا سوال کیا تھا، سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا: وہ خضر علیہ السلام تھے، اتنے میں وہاں سے سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا گزر ہوا، سیدنا ابن عباس نے ان کو بلایا اور کہا: میرا اور میرے اس دوست کی اس موضوع پر بحث ہو رہی ہے کہ موسی علیہ السلام کا وہ صاحب کون تھا کہ جس سے ملاقات کرنے کے لیے راستہ کا انھوں نے سوال کیا تھا، تو کیا تم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سنا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کی بات بیان کر رہے ہوں؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہفرماتے ہوئے سنا: موسی علیہ السلام بنی اسرائیل کے ایک گروہ میں بیٹھے ہوئے تھے، ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا: اے موسی! کیا آپ کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں، جو آپ سے زیادہ علم والا ہو؟ انھوں نے کہا: نہیں، پس اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی کہ خضر ہے، موسی علیہ السلام نے ان کی ملاقات کا راستہ دریافت کیا، جواباً اللہ تعالیٰ نے مچھلی کو ان کے لیے بطور نشانی قرار دیا اور ان سے کہا گیا: جب تو مچھلی کو گم پائے تو لوٹ آنا، پھر ان دونوں کا وہی قصہ پیش آیا، جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے۔کہ ان کے اور

Haidth Number: 10382