Blog
Books
Search Hadith

آنکھوں سے محروم ہو جانے پر صبر کرنے کی ترغیب اور اس کے ثواب کا بیان

612 Hadiths Found
۔ سیدنا ابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابن آدم! جب میں تجھ سے تیری دونوں آنکھیں سلب کر لیتا ہوں اور تو صدمے کی ابتداء میں ہی ثواب کی نیت سے صبر کرتا ہے، تو میں تیرے لیے اس کے ثواب کے طور پر جنت سے کم پر راضی نہیں ہوں گا۔

Haidth Number: 9383
۔ سیدہ عائشہ بنت قدامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مسلمان بندے کا مرتبہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس سے زیادہ ہے کہ وہ اس کی دو آنکھیں بھی سلب کر لے اور پھر آگ میں بھی داخل کر دے۔

Haidth Number: 9384
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں جس آدمی سے اس کی آنکھیں سلب کر لوں اور وہ ثواب کی نیت سے صبر کرے تو اس کے ثواب میں جنت سے کم پر راضی نہیں ہوں گا۔

Haidth Number: 9385
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا، وہاں سے ایک آدمی کا گزر ہوا، قوم میں سے ایک شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اس آدمی سے محبت کرتا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے پوچھا: کیا تو نے اس کو اس کے بارے میں بتلایا ہے؟ اس نے کہا: جی نہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کھڑا ہو اور اس کو بتلا۔ پس وہ اس کی طرف کھڑا ہوا اور کہا: اے فلاں! اللہ کی قسم! بیشک میں اللہ تعالیٰ کے لیے تجھ سے محبت کرتا ہوں، اس نے کہا: وہ ذات تجھ سے محبت کرے، جس کے لیے تو نے مجھ سے محبت کی ہے۔ ایک روایت میں ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کھڑا ہو اور اس کو خبر دے، تاکہ تم دونوں میں محبت ثابت ہو جائے۔

Haidth Number: 9460
۔ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب کسی آدمی کو اپنے کسی ساتھی سے محبت ہو تو وہ اس کے گھر جائے اور اس کو یہ خبر دے کہ وہ اس سے اللہ تعالیٰ کے لیے محبت کرتا ہے۔)) ابو سالم نے ابو امیہ سے کہا: تحقیق میں تیری پاس تیرے گھر آیا ہوں (تاکہ تجھے اپنی محبت کا بتا سکوں)۔

Haidth Number: 9461

۔ (۹۵۲۱)۔ عَنْ اَبِیْ اُمَامَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ سَرِیَّۃٍ مِنْ سَرَایَاہُ، قَالَ: فَمَرَّ رَجُلٌ بِغَارٍ فِیْہِ شَیْئٌ مِنْ مَائٍ، قَالَ: فَحَدَّثَ نَفْسَہُ بِاَنْ یُقِیْمَ فِیْ ذٰلِکَ الْغَارِ فَیَقُوْتُہُ مَا کَانَ فِیْہِ مِنْ مَائٍ، وَیُصِیْبُ مَا حَوْلَہُ مِنَ الْبَقَلِ وَیَتَخَلّٰی مِنَ الدُّنْیَا، ثُمَّ قَالَ: لَوْ اَنَّیْ اَتَیْتُ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لَہُ، فَاِنْ اَذِنَ لِیْ فَعَلْتُ وَاِلَّا لَمْ اَفْعَلْ، فَاَتَاہُ، فَقَالَ:یَا نَبِیَّ اللّٰہِ، اِنِّیْ مَرَرْتُ بِغَارٍ فِیْہِ مَا یَقُوْتُنِیْ مِنَ الْمَائِ وَالْبَقَلِ، فَحَدَّثَتْنِیْ نَفْسِیْ بِاَنْ اُقِیْمَ فِیْہِ وَاَتَخَلّٰی عَنِ الدُّنْیَا، قَالَ: فقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنِّیْ لَمْ اُبْعَثْ بِالْیَھُوْدِیِّۃِ وَلَا النَّصْرَانِیَّۃِ، وَلٰکِنْ بُعِثْتُ بِالْحَنِیِْفِیَّۃِ الْسَّمْحَۃِ، وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لَغَدْوَۃٌ، اَوْ رَوْحَۃٌ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْھَا، وَلَمَقَامُ اَحَدِکُمْ فِی الصَّفِّ خَیْرٌ مِّنْ صَلَاتِہِ سِتِّیْنَ سَنَۃً۔)) (مسند احمد: ۲۲۶۴۷)

۔ سیدناابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ہم ایک لشکر میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نکلے، ایک آدمی کا ایک نشیبی جگہ کے پاس سے گزر ہوا، وہاں پانی کا چشمہ بھی تھا، اسے خیال آیا کہ وہ دنیا سے کنارہ کش ہو کر یہیں فروکش ہو جائے، یہ پانی اور اس کے ارد گرد کی سبزہ زاریاں اسے کفایت کریں گی۔ پھر اس نے یہ فیصلہ کیا کہ میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس جاؤں گا اور یہ معاملہ آپ کے سامنے رکھوں گا، اگر آپ نے اجازت دے دی تو ٹھیک، وگرنہ نہیں۔ وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے نبی! میں فلاں نشیبی جگہ سے گزرا، وہاں کے پانی اور سبزے سے میری گزر بسر ہو سکتی ہے، مجھے خیال آیا کہ میں دنیا سے کنارہ کش ہو کر یہیں بسیرا کر لوں، (اب آپ کا کیا خیال ہے)؟ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں یہودیت اور نصرانیت لے کر نہیں آیا، مجھے نرمی و سہولت آمیز شریعت دے کر مبعوث کیا گیا ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اللہ کے راستے میں صبح کا یا شام کا چلنا دنیا و ما فیہا سے بہتر ہے اور دشمن کے سامنے صف میں کھڑے ہونا ساٹھ سال کی نماز سے افضل ہے۔

Haidth Number: 9521
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو مومن لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے اور ان کی تکالیف پر صبر کرتا ہے، وہ اس سے بہتر ہے جو نہ تو لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے اور نہ ہی ان کی اذیتوں پر صبر کرتا ہے۔

Haidth Number: 9522
۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! کون سے لوگ افضل ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ مؤمن جو اپنے نفس اور مال کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والا ہو۔ اس نے کہا: پھر کون سا آدمی افضل ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پھر وہ آدمی ہے، جو کسی گھاٹی میں الگ تھلگ ہو کر اپنے ربّ کی عبادت کرے اور لوگوں کو اپنے شرّ سے محفوظ رکھے۔

Haidth Number: 9523
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے ایسے حکم کے بارے میں بتلائیں کہ اگر میں اس پر عمل کروں، تو جنت میں داخل ہو جاؤں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سلام کو عام کر، کھانا کھلا، صلہ رحمی کر اور رات کو جب لوگ سو رہے ہوں تو قیام کر اور پھر جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جا۔

Haidth Number: 9602
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب کوئی آدمی پتھروں سے استنجا کرے تو طاق پتھر استعمال کرے، جب کتا کسی کے برتن میں منہ ڈال جائے تو وہ اس کوسات دفعہ دھوئے، کوئی آدمی گھاس کو بچانے کے لیے زائد پانی سے نہ روکے اور اونٹوں کا حق یہ ہے کہ اس دن ان کو دوہا جائے، جس دن وہ پانی کے گھاٹ پر آئیں۔

Haidth Number: 9603
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو سرمہ ڈالے، وہ طاق سلائیاں ڈالے، جو ایسے کرے گا، وہ اچھا عمل کرے گا اور جس نے ایسے نہ کیا، اس پر کوئی حرج نہیں ہو گا، جو پتھروں سے استنجاء کرے، وہ طاق پتھر استعمال کرے، جو ایسے کرے گا، وہ اچھا عمل کرے گا اور جس نے ایسے نہ کیا، اس پر کوئی حرج نہیں ہو گا، اسی طرح جو آدمی کھانا کھانے کے بعد دانتوں سے کھانے کے اجزاء نکالے، وہ ان کے پھینک دے اور زبان کو منہ میں پھیر کر کھانے کے جو اجزاء اکٹھے کر لے، ان کو نگل جائے، جو ایسے کرے گا، وہ اچھا عمل کرے گا اور جس نے ایسے نہ کیا، اس پر کوئی حرج نہیں ہوگا، جو آدمی پائخانہ کرنے کے لیے آئے، وہ پردہ کرے، اگر پردہ کے لیے اس کو کوئی چیز نہ ملے، تو وہ ڈھیر سا بنا کر اس کی طرف پیٹھ کر لے، کیونکہ شیطان بنی آدم کی دبروں کے ساتھ کھیلتا ہے، جو ایسا کرے گا، وہ اچھا عمل کرے گا اور جس نے ایسے نہ کیا، اس پر کوئی حرج نہیں ہو گا۔

Haidth Number: 9604
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسلام میں شغار نہیں ہے، اسلام میں معاہدہ نہیں ہے اور جَلَب ہے نہ جَنَب۔

Haidth Number: 9605
۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اپنے دروازوں کو بند کر دیا کرو، برتنوں کو ڈھانک دیا کرو، چراغوں کو بجھا دیا کرواور مشکیزوں کو بند کر دیا کرو، کیونکہ شیطان نہ بند دروازہ کھولتا ہے، نہ برتن سے ڈھکن اٹھاتا ہے اور نہ مشکیزے کی ڈوری کھولتا ہے اور چوہیا گھر کو گھر والوں سمیت جلا دیتی ہے۔

Haidth Number: 9606
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اُن کو فرمایا : جس کو نرمی عطا کی گئی، اُس کو دنیا و آخرت کی خیر و بھلائی سے نواز دیا گیا اور صلہ رحمی، حسنِ اخلاق اور پڑوسی سے اچھا سلوک کرنے (جیسے امورِ خیر) گھروں (اور قبیلوں) کو آباد کرتے ہیں اور عمروں میں اضافہ کرتے ہیں۔

Haidth Number: 9607
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے جنگل میں اقامت اختیار کی، وہ سخت دل ہو گیا، جو شکار کے پیچھے چل پڑا وہ غافل ہو گیا، جو بادشاہ کے دروازے پر آیا وہ فتنے میں پڑ گیا اور جو آدمی بادشاہ کے جتنا قریب ہوتا جائے گا، وہ اللہ تعالیٰسے اتنا ہی دور ہوتا جائے گا۔

Haidth Number: 9608
Haidth Number: 9609
۔ سیدنا عبدا للہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو اللہ کا واسطہ دے کر پناہ مانگے، اس کو پناہ دے دو، جو اللہ کے نام پر تم سے سوال کرو، اس کو دے دو، جو تمہیں دعوت دے، اس کی دعوت قبول کرو اور جو تم سے کوئی نیکی کرے، اس کو اس کا بدلہ دو، اگر بدلہ دینے کے لیے تمہارے پاس کچھ نہ ہو تو اس کے لیے اتنی دعا کرو کہ تمہیں اندازہ ہو جائے کہ تم نے گویا بدلہ دے دیا ہے۔

Haidth Number: 9610
۔ عبادہ بن نُسی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ سیدنا شداد بن اوس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ رونے لگے، کسی نے ان سے کہا: تم کیوں روتے ہو؟ انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ایک حدیث بیان کرتے ہوئے سنا، وہ یاد آ گئی تھی، اس لیے رونے لگ گیا، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا: میں اپنی امت پر شرک اور مخفی شہوت کے بارے میں ڈرتا ہوں۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ کی امت آپ کے بعد شرک کرے گی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں، خبردار! وہ سورج، چاند، پتھراور بت کی عبادت نہیں کرے گی، وہ اپنے اعمال کے ذریعے ریاکاری کریں گے اور مخفی شہوت یہ ہے کہ بندہ صبح کو روزہ رکھے، پھر اس کی کوئی شہوت اس پر غالب آجاتی ہے اور وہ روزہ توڑ دیتا ہے۔

Haidth Number: 9706
۔ صحابی ٔ رسول سیدنا ابی سعید بن ابو فضالہ انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ پہلوں اور پچھلوں کو اس دن جمع کرے گا، جس میں کوئی شک نہیں ہے، تو ایک اعلان کرنے والا اعلان کرے گا: جس بندے نے اللہ تعالیٰ کے لیے عمل کیا، لیکن اس نے اس میں کسی اور کو بھی شریک کر دیا تھا تو وہ اُسی غیر اللہ کے پاس اس کا ثواب تلاش کرے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں: میں شریکوں میں شرک سے سب سے بڑھ کر غنی ہوں۔

Haidth Number: 9707
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: میں شرکاء میں بہترین شریک ہوں، جو میرے لیے عمل کرتا ہے اور پھر اس میں میرے غیر کو بھی شریک کر لیتا ہے تو میں اس سے بری ہو جاتا ہوں اور وہ اسی کے لیے ہو جاتا ہے، جس کو وہ شریک کرتا ہے۔

Haidth Number: 9708

۔ (۹۷۰۹)۔ حَدَّثَنَا اَبُوْ النَّضْرِ، قَالَ: ثَنَا عَبْدُ الْحَمِیْدِ،یَعْنِی ابْنَ بَھْرَامَ، قَالَ: قَالَ شَھْرُ بْنُ حَوْشَبٍ: قَالَ ابْنُ غَنَمٍ: لَمَّا دَخَلْنَا مَسْجِدَ الْجَابِیَۃِ اَنَا وَاَبُوْالدَّرْدَائِ لَقِیْنَا عُبَادَۃَ بْنَ الصَّامِتِ، فَاَخَذَیَمِیْنِیْ بِشِمَالِہِ وَشِمَالَ اَبِی الدَّرْدَائِ بِیَمِیْنِہِ فَخَرَجَ یَمْشِیْ بَیْنَنَا وَنَحْنُ نَنْتَجِیْ، وَاللّٰہُ اَعْلَمُ فِیْمَا نَتَنَاجٰی وَذٰلِکَ قَوْلُہُ: فَقَالَ عُبَادَۃُ بْنُ الصَّامِتِ: لَئِنْ طَالَ بِکُمَا عُمْرُ اَحَدِ کُمَا اَوْ کِلَا کُمَا لَتُوْشِکَانِّ اَنْ تَرَیَا الرَّجُلَ مِنْ ثَبَجِ الْمُسْلِمِیْنَ،یَعْنِیْ مِنْ وَسْطٍ، قَرَئَ الْقُرْآنَ عَلٰی لِسَانِ مُحَمَّدٍ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: عَلٰی لِسَانِ اَخِیْہِ قِرَائَۃً عَلٰی لِسَانِ مُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) فَاَعَادَہُ وَاَبْدَاہُ وَاَحَلَّ حَلَالَہُ وَحَرَّمَ حَرَامَہُ وَنَزَلَ عِنْدَ مَنَازِلِہِ لَایَحُوْرُ فِیْکُمْ اِلَّا کَمَا یَحُوْرُ رَاْسُ الْحِمَارِ الْمَیِّتِ، قَالَ: فَبَیْنَا نَحْنُ کَذٰلِکَ، اِذْ طَلَعَ شَدَّادُ بْنُ اَوْسٍ وَعَوْفُ بْنُ مَالِکٍ فَجَلَسَا اِلَیْنَا، فَقَالَ شَدَّادٌ : اِنَّ اَخْوَفَ مَااَخَافُ عَلَیْکُمْ اَیُّھَا النَّاسُ لَمَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ : ((مِنَ الشَّھْوَۃِ الْخَفِیَّۃِ وَالشِّرْکِ۔)) فَقَالَ عُبَادَۃُ بْنُ الصَّامِتِ وَاَبُوْ الدَّرْدَائِ: اَللّٰھُمَّ غَفْرًا، اَوَلَمْ یَکُنْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدْ حَدَّثَنَا اَنَّ الشَّیْطَانَ قَدْ یَئِسَ اَنْ یُعْبَدَ فِیْ جَزِیْرَۃِ الْعَرْبِ؟ فَاَمَّا الشَّھْوَۃُ الْخَفِیَّۃُ فَقَدْ عَرَفْنَاھَا ھِیَ شَھَوَاتُ الدُّنْیَا مِنْ نِسَائِھَا وَشَھَوَاتِھَا، فَمَا ھٰذَا الشِّرْکُ الَّذِیْ تُخَوِّفُنَا بِہٖیَا شَدَّادُ؟ فَقَالَ شَدَّادٌ: اَرَاَیْتُکُمْ لَوْ رَاَیْتُمْ رَجُلًا یُصَلِّیْ لِرَجُلٍ، اَوْ یَصُوْمُ لَہُ، اَوْ یَتَصَدَّقُ لَہُ، اَتَرَوْنَ اَنَّہُ قَدْ اَشْرَکَ؟ قَالُوْا: نَعَمْ! وَاللّٰہِ اِنَّ مَنْ صَلَّی لِرَجُلٍ اَوْ صَامَ لَہُ، اَوْ تَصَدَّقَ لَہُ، فَقَدْ اَشْرَکَ، فَقَالَ شَدَّادٌ: فَاِنِّیْ قَدْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ : ((مَنْ صَلّٰییُرَائِیْ فَقَدْ اَشْرَکَ، وَمَنْ صَامَ یُرَائِیْ فَقَدْ اَشْرَکَ، وَمَنْ تَصَدَّقَ یُرَائِیْ فَقَدْ اَشْرَکَ، فَقَالَ عَوْفُ بْنِ مَالِکٍ عِنْدَ ذٰلِکَ: اَفَـلَا یَعْمِدُ اِلٰی مَاابْتُغِیَ فِیْہِ وَجْھُہُ مِنْ ذٰلِکَ الْعَمَلِ کُلِّہِ فَیَقْبَلَ مَاخَلَصَ لَہُ وَیَدَعَ مَایُشْرِکُ بِہٖ؟فَقَالَشَدَّادٌعِنْدَذٰلِکَ: فَاِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ : ((اَنَا خَیْرُ قَسِیْمٍ لِمَنْ اَشْرَکَ بِیْ، مَنْ اَشْرَکَ بِیْ شَیْئًا فَاِنَّ حَشْدَہُ عَمَلَہُ قَلِیْلَہُ وَکَثِیْرَہُ لِشَرِیْکِہِ الَّذِیْ اَشْرَکَ بِہٖ،وَاَنَاعَنْہُغَنِیٌّ۔)) (مسند احمد: ۱۷۲۷۰)

۔ ابن غنم کہتے ہیں: جب میں اور سیدنا ابو درداء جابیہ کی مسجد میں داخل ہوئے تو سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ملے، انھوں نے بائیں ہاتھ سے میرا دایاں ہاتھ اور دائیں ہاتھ سے سیدنا ابو درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بایاں ہاتھ پکڑ لیا اور ہمارے درمیان چلنے لگے، ہم سرگوشی کرنے لگے اور اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ ہم کس چیز میں سرگوشی کر رہے تھے، سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اگر تم میں سے ایک کییا دونوں کی عمر لمبی ہو گئی تو ممکن ہے کہ تم یہ دیکھو کہ درمیانے قسم کے مسلمانوں سے تعلق رکھنے والا ایک آدمی ہو گا، وہ محمد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی زبان کے مطابق قرآن مجید پڑھے گا، پھر وہ اس کو بار بار پڑھے گا اور اس کو ظاہر کرے گا اور اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھے گا اور اس کے احکام کا پابند رہے گا، لیکن پھر بھی وہ تمہارے پاس اتنی خیر لائے گا، جتنی کہ مردار گدھے کا سر لاتا ہے، (یعنی وہ آدمی ذرا برابر خیر و بھلائی لے کر نہیں آئے گا)۔ ہم اسی اثنا میں تھے کہ سیدنا شداد بن اوس اور سیدنا عوف بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما ہمارے پاس آ کر بیٹھ گئے، سیدنا شداد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: لوگو! مجھے تمہارے بارے میں سب سے زیادہ ڈر اس چیز کا ہے، جو میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ مخفی شہوت اور شرک ہے۔ سیدنا عبادہ بن صامت اور سیدنا ابو درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا: اے اللہ! بخشنا، کیا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ شیطان اس چیز سے ناامید ہو گیا ہے کہ جزیرۂ عرب میں اس کی عبادت کی جائے؟ البتہ مخفی شہوت کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ دنیا کی شہوات ہوتی ہیں، ان کا تعلق عورتوں سے اور ان کی شہوات سے ہوتا ہے، لیکن شداد! یہ شرک کیا چیز ہے، جس کے بارے میں تم ہمیں ڈرا رہے ہو؟ سیدنا شداد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اچھا اس کے بارے میں تم مجھے بتلاؤ کہ اگر کوئی آدمی کسی آدمی کی خاطر نماز پڑھ رہا ہو، یا روزہ رکھ رہا ہو، یا صدقہ کر رہا ہو، کیا اس کے بارے میںتمہاری رائے یہی ہے کہ اس نے شرک کیا ہے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، اللہ کی قسم! جس آدمی نے کسی آدمی کو دکھانے کے لیے نماز پڑھی،یا روزہ رکھا، یا صدقہ کیا تو اس نے شرک کیا۔ سیدنا شداد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تو پھر میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جس نے ریاکاری کرتے ہوئے نماز پڑھی، اس نے شرک کیا، جس نے ریاکاری کرتے ہوئے روزہ رکھا، اس نے شرک کیا، جس نے ریاکاری کرتے ہوئے صدقہ کیا، اس نے شرک کیا۔ سیدنا عوف بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: کیااس طرح نہیں ہو گا کہ اس کے وہ اعمال دیکھے جائیں جو اس نے خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لیے کیے ہوں اور ان کو قبول کر لیا جائے اور شرکیہ اعمال کو چھوڑ دیا جائے؟ سیدنا شداد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جواباً کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس آدمی نے میرے ساتھ شرک کیا، میں اس کا سب سے بہترین قسیم اور حصہ دار ہوں، جس نے میرے ساتھ کسی چیز کو شریک ٹھہرایا تو اس آدمی کے اعمال کی ساری جمع پونجی، وہ تھوڑی ہو یا زیادہ، اس کے اس ساجھی کے لیے ہو جائے گی، جس کے ساتھ وہ شرک کرے گا اور میں (اللہ) اس سے غنی ہوں گا۔

Haidth Number: 9709
۔ سیدنا ابو بکرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے مشہور ہونا چاہا، اللہ تعالیٰ اس کو مشہور کر دے گا اور جس نے (خلافِ حقیقت) نیکی کا اظہار کرنا چاہا، اللہ تعالیٰ اس کا اظہار کروا دے گا۔

Haidth Number: 9710
۔ سیدنا ابوہند داری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو ریاکای اور شہرت کے مقام پر کھڑا ہوا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کا اظہار کروا دے گا اور اس کو مشہور کر دے گا۔

Haidth Number: 9711
۔ عبد اللہ بن عوف کنانی، جو کہ عمر بن عبد العزیزi کی طرف سے رملہ پر عامل تھے، سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں عبد الملک بن مروان کے پاس موجود تھا، اس نے عمرو بن سعید بن عاص کے قتل والے دن بشیر بن عقربہ جہنی سے کہا: اے ابو الیمان! آج مجھے تیرے کلام کی ضرورت پڑ گئی ہے، لہٰذا اٹھو اور کوئی بات کرو، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ جو خطاب کرنے کے لیے کھڑا ہوا، جبکہ کا اس کا مقصد صرف ریاکاری اور شہرت ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو ریاکاری اور شہرت والے مقام پر کھڑا کرے گا۔

Haidth Number: 9712
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے عمل کے ذریعے لوگوں کے سامنے مشہور ہونا چاہا، اللہ تعالیٰ اس کو مخلوق کے سامنے مشہور کر دے گا، لیکن پھر اس کو گھٹیا اور حقیر کر دے گا۔ پھر سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں۔

Haidth Number: 9713

۔ (۹۷۱۴)۔ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ، قَالَ: تَفَّرَجَ النَّاسُ، عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، فَقَالَ لَہُ نَاتِلٌ الشَّامِیُّ: اَیُّھَا الشَّیْخُ! حَدِّثْنَا حَدِیْثًا سَمِعْتَہُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ : ((اِنَّ اَوَّلَ النَّاسِ یُقْضٰی فِیْہِیَوْمَ الْقِیَامَۃِ ثَلَاثَۃٌ، رَجُلٌ اسْتُشْھِدَ فَاُتِیَ بِہٖفَعَرَّفَہُنِعَمَہُفَعَرَفَھَافَقَالَ: وَمَاعَمِلْتَفِیْھَا؟ قَالَ: قَاتَلْتُ فِیْکَ حَتّٰی قُتِلْتُ، قَالَ: کَذَبْتَ، وَلٰکِنَّکَ قَاتَلْتَ لِیُقَالَ ھُوَ جَرِیئٌ، فَقَدْ قِیْلَ، ثُمَّ اُمِرِ بِہٖفَیُسْحَبُ عَلٰی وَجْھِہِ، حَتّٰی اُلْقِیَ فِیْ النَّارِ، وَرَجُلٌ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ وَعَلَّمَہُ، وَقَرَاَ الْقُرْآنَ، فَاُتِیَ بِہٖلِیُعَرِّفَہُ نِعَمَہُ فَعَرَفَھَا، فَقَالَ: مَاعَمِلْتَ فِیْھَا؟ قَالَ: تَعَلَّمْتُ مِنْکَ الْعِلْمَ وَعَلَّمْتُہُ وَقَرَاْتُ فِیْکَ الْقُرْآنَ، فَقَالَ: کَذَبْتَ، وَلٰکِنَّکَ تَعَلَّمْتَ لِیُقَالَ : ھُوَ عَالِمٌ فَقَدْ قِیْلَ، وَقَرَاْتَ الْقُرْآنَ، لِیُقَالَ: ھُوَ قَارِیٌ، فَقَدْ قِیْلَ، ثُمَّ اُمِرِ بِہٖفَیُسْحَبُ عَلٰی وَجْھِہِ حَتّٰی اُلْقِیَ فِیْ النَّارِ، ورَجُلٌ وَسَّعَ اللّٰہُ عَلَیْہِ، وَاَعْطَاہُ مِنْ اَصْنَافِ الْمَالِ کُلِّہِ، فَاُتِیَ بِہٖفَعَرَّفَہُنِعَمَہُفَعَرَفَھَا،فَقَالَ: مَاعَمِلْتَفِیْھَا؟ قَالَ: مَاتَرَکْتُ مِنْ سَبیْلِ تُحِبُّ اَنْ یُنْفَقَ فِیْھَا اِلَّا انْفَقْتُ فِیْھَا لَکَ، قَالَ: کَذَبْتَ، وَلٰکِنَّکَ فَعَلْتَ ذٰلِکَ لِیُقَالَ: ھُوَ جَوَّادٌ، فَقَدْ قِیْلَ: ثُمَّ اُمِرِ بِہٖفَیُسْحَبُ عَلٰی وَجْھِہِ، حَتّٰی اُلْقِیَ فِیْ النَّارِ۔)) (مسند احمد:۸۲۶۰)

۔ سلیمان بن یسار کہتے ہیں: جب لوگ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ارد گرد سے بکھر گئے تو اہل شام کے ایک ناتل نامی آدمی نے کہا: محترم! ہمیں کوئی حدیث بیان کرو، جو تم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہو۔ انھوں نے کہا: جی ہاں، میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: قیامت کے روز سب سے پہلے ان (تین قسم کے) افراد کا فیصلہ کیا جائے گا: (۱)جس آدمی کو شہید کیا گیا، اسے لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتوں کا تعارف کرائے گا، وہ پہچان لے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھے گا: تو کیا عمل کر کے لایا ہے؟ وہ کہے گا: میں نے تیرے راستے میں جہاد کیا،حتی کہ شہید ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو جھو ٹ بول رہا ہے، تو نے تو اس لئے جہاد کیا تھا تاکہ تجھے بہادر کہا جائے اور ایسے (دنیا میں) کہا جا چکا ہے۔ پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا اور اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (۲) علم سیکھنے سکھانے اور قرآن مجید پڑھنے والا آدمی، اسے لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتوں کا تعارف کرائے گا، وہ اقرار کرے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو کون سا عمل کر کے لایا ہے؟ وہ کہے گا: میں نے تیری خاطر علم سیکھا سکھایا اور تیرے لیے قرآن مجید پڑھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو جھوٹ بول رہا ہے، حصولِ علم سے تیرا مقصدیہ تھا کہ تجھے عالم کہا جائے اور قرآن اس لئے پڑھا کہ قاری کہا جائے، سو ایسے تو کہا جا چکا ہے۔ پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا اور چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (۳)وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے خوشحال و مالدار بنایا اور اسے مال کی تمام اقسام عطا کیں، اسے لایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتوں کا تعارف کروائے گا ، وہ پہچان لے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کون سا عمل کر کے لایا ہے؟ وہ کہے گا: جن مصارف میں خرچ کرنا تجھے پسند تھا، میں نے ان تمام مصارف میں تیرے لئے خرچ کیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو جھوٹ بول رہا ہے، تیرا خرچ کرنے کا مقصد تو یہ تھا کہ تجھے سخی کہا جائے او روہ تو کہہ دیا گیا ہے۔ پھر اس کے بارے میں حکم ہو گا، جس کے مطابق اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔

Haidth Number: 9714
۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس جانے کی باریاں مقرر کرتے تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس رات گزارتے تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کوئی ضرورت پڑتی تھی اور رات کو کوئی معاملہ پیش آتا تھا تو ہمیں اٹھا دیتے تھے، اس طرح ثواب کی خاطر آنے والوں اور باری والوں کی تعداد بڑھ جاتی تھی، ایک رات ہم گفتگو کر رہے تھے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے پاس تشریف لے آئے اور فرمایا: یہ سرگوشی ہو رہی ہے؟ میں نے تم کو سرگوشی سے منع نہیں کیا تھا؟ ہم نے کہا: اے اللہ کے نبی! ہم اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کر رہے ہیں اور دجال سے ڈرتے ہوئے اس کی بات کر رہے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں اس چیز کی خبر نہ دے دوں، جو میرے نزدیک مسیح دجال سے بھی زیادہ خوف والی ہے؟ ہم نے کہا: جی کیوں نہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: شرکِ خفی،یعنی کسی آدمی کے مرتبے کی خاطر عمل کرنا۔

Haidth Number: 9715

۔ (۹۷۱۶)۔ عَنِ ابْنِ الْاَدْرَعٍِ، قَالَ: کُنْتُ اَحْرُسُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذَاتَ لَـْیلَۃٍ، فَخَرَجَ لِبَعْضِ حَاجَتِہِ، قَالَ: فَرَآنِیْ فَاَخَذَ بِیَدِیْ فَانْطَلَقْنَا فَمَرَرْنَا عَلٰی رَجُلٍ یُصَلِّیْیَجْھَرُ بِالْقُرَآنِ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((عَسٰی اَنْیَکُوْنَ مُرَائِیًا۔)) قَالَ: قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! یُصَلِّیْیَجْھَرُ بِالْقُرْآنِ قَالَ: فَرَفَضَ یَدِیْ ثُمَّ قَالَ: ((اِنَّکُمْ لَنْ تَنَالُوْا ھٰذَا الْاَمْرَ بِالْمُغَالَبَۃِ۔)) قَالَ: ثُمَّ خَرَجَ ذَاتَ لَـْیلَۃٍ وَ اَنَا اَحْرُسُہُ لِبَعْضِ حَاجَتِہِ فَاَخَذَ بِیَدِیْ فَمَرَرْنَا عَلٰی رَجُلٍ یُصَلِّیْ بِالْقُرآنِ، قَالَ: فَقُلْتُ: عَسٰی اَنْ یَکُوْنَ مُرَائِیًا فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((کَلَّا اِنَّہُ اَوَّابٌ۔)) قَالَ: فَنَظَرْتُ فَاِذَا ھُوَ عَبْدُ اللّٰہِ ذُوْالْبِجَادَیْنِ ۔ (مسند احمد: ۱۹۱۸۰)

۔ سیدنا ابن ادرع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں ایک رات نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا پہرہ دے رہا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسی کام کے لیے نکلے، جب مجھے دیکھا تو میرا ہاتھ پکڑ لیا، پس ہم چل پڑے اور ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے جو نماز میں بآوازِ بلند تلاوت کر رہا تھا۔ اسے دیکھ کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قریب ہے کہ یہ ریاکاری کرنے والا بن جائے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ قرآن کی بلند آواز سے تلاوت کر رہا ہے، (بھلا اس میں کیا حرج ہے)؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا اور فرمایا: تم اس دین کو غلبے کے ساتھ نہیں پا سکتے۔ وہ کہتے ہیں: پھر ایکرات کو ایسے ہوا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسی ضرورت کے لیے نکلے، جبکہ میں ہی پہرہ دے رہا تھا، (اسی طرح) آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا (اور ہم چل پڑے) اور ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے جو نماز میں بآوازِ بلند قرآن کی تلاوت کر رہا تھا۔ اب کی بار میں نے کہا: قریب ہے کہ یہ شخص ریاکاری کرنے والا بن جائے۔ لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے (میرا ردّ کرتے ہوئے) فرمایا: ہر گز نہیں،یہ تو بہت توبہ کرنے والا ہے۔ جب میں نے دیکھا تو وہ سیدنا عبد اللہ ذو االبجادین تھے۔

Haidth Number: 9716
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگوں میں سب سے بڑے جھوٹے سنار اور رنگ ساز ہیں۔

Haidth Number: 9895
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگوں میں سب سے زیادہ جھوٹا کاریگر اور ہنر مند ہوتا ہے۔

Haidth Number: 9896