Blog
Books
Search Hadith

{مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَکُوْنَ لَہٗاَسْرٰی …الخ} کی تفسیر

22 Hadiths Found

۔ (۸۶۱۲)۔ عَنْ أَ نَسٍ وَذَکَرَ رَجُلًا عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: اسْتَشَارَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم النَّاسَ فِی الْأُسَارٰییَوْمَ بَدْرٍ، فَقَالَ:((إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَ مْکَنَکُمْ مِنْہُمْ۔)) قَالَ: فَقَامَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! اضْرِبْ أَ عْنَاقَہُمْ، قَالَ: فَأَ عْرَضَ عَنْہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: ثُمَّ عَادَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((یَا أَ یُّہَا النَّاسُ! إِنَّ اللّٰہَ قَدْ أَ مْکَنَکُمْ مِنْہُمْ وَإِنَّمَا ہُمْ إِخْوَانُکُمْ بِالْأَ مْسِ۔)) قَالَ: فَقَامَ عُمَرُ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! اضْرِبْ أَعْنَاقَہُمْ، فَأَ عْرَضَ عَنْہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: ثُمَّ عَادَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ لِلنَّاسِ مِثْلَ ذٰلِکَ، فَقَامَ أَبُو بَکْرٍ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنْ تَرٰی أَ نْ تَعْفُوَ عَنْہُمْ وَتَقْبَلَ مِنْہُمُ الْفِدَائَ، قَالَ: فَذَہَبَ عَنْ وَجْہِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا کَانَ فِیہِ مِنْ الْغَمِّ، قَالَ: فَعَفَا عَنْہُمْ وَقَبِلَ مِنْہُمْ الْفِدَائَ، قَالَ: وَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {لَوْلَا کِتَابٌ مِنْ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیمَا أَخَذْتُمْ} إِلٰی آخِرِ الْآیَۃِ [الأنفال: ۶۸]۔ (مسند احمد: ۱۳۵۹۰)

۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جنگ بدر کے دن قیدیوں کے بارے میں لوگوں سے مشورہ کیا اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہیںان پر قدرت دی ہے۔ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: اے اللہ کے رسول!ان کی گردنیںاڑا دیتے ہیں، آپ نے ان کی بات سے اعراض کیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دوبارہ مشورہ طلب کیا اور فرمایا: اے لوگو! بیشک اللہ تعالی نے یہ تمہارے قابو میں دے دئیے ہیں اور یہ کل تمہارے بھائی بننے والے ہیں۔ پھر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! ان کی گردنیں اڑا دیں۔ لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پہلے کی طرح اعراض کیا اور پھر لوگوں سے وہی بات ارشاد فرما کر مشورہ طلب کیا، اس بار سیدنا ابو بکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کھڑے ہوئے اور کہا :اے اللہ کے رسول! میرا خیال ہے کہ آپ انہیں معاف کر دیں اور ان سے فدیہ قبول کر لیں۔ اس سے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرہ مبارک سے غم چھٹ گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فدیہ لے کر ان کو معاف کر دیا، لیکن اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کردی: {لَوْلَا کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۔} … اگر اللہ کی طرف سے لکھی ہوئی بات نہ ہوتی، جو پہلے طے ہو چکی تو تمھیں اس کی وجہ سے جو تم نے لیا بہت بڑا عذاب پہنچتا۔

Haidth Number: 8612

۔ (۸۶۱۳)۔ عن ابْنُ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنِی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: لَمَّا کَانَ یَوْمُ بَدْرٍ، قَالَ: نَظَرَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی أَ صْحَابِہِ، وَہُمْ ثَلَاثُ مِائَۃٍ وَنَیِّفٌ، وَنَظَرَ إِلَی الْمُشْرِکِینَ فَإِذَا ہُمْ أَ لْفٌ وَزِیَادَۃٌ، فَاسْتَقْبَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْقِبْلَۃَ، ثُمَّ مَدَّ یَدَیْہِ وَعَلَیْہِ رِدَاؤُہُ وَإِزَارُہُ ثُمَّ قَالَ: ((اللّٰہُمَّ أَ یْنَ مَا وَعَدْتَنِی، اللّٰہُمَّ أَ نْجِزْ مَا وَعَدْتَنِی، اللّٰہُمَّ إِنَّکَ إِنْ تُہْلِکْ ہَذِہِ الْعِصَابَۃَ مِنْ أَ ہْلِ الْإِسْلَامِ، فَلَا تُعْبَدْ فِی الْأَ رْضِ أَ بَدًا۔)) قَالَ: فَمَا زَالَ یَسْتَغِیثُ رَبَّہُ عَزَّ وَجَلَّ وَیَدْعُوہُ حَتّٰی سَقَطَ رِدَاؤُہُ، فَأَ تَاہُ أَ بُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَأَخَذَ رِدَائَ ہُ فَرَدَّاہُ، ثُمَّ الْتَزَمَہُ مِنْ وَرَائِہِ، ثُمَّ قَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! کَفَاکَ مُنَاشَدَتُکَ رَبَّکَ، فَإِنَّہُ سَیُنْجِزُ لَکَ مَا وَعَدَکَ، وَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {إِذْ تَسْتَغِیثُونَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ أَ نِّی مُمِدُّکُمْ بِأَ لْفٍ مِنْ الْمَلَائِکَۃِ مُرْدِفِینَ} فَلَمَّا کَانَ یَوْمُئِذٍ وَالْتَقَوْا، فَہَزَمَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ الْمُشْرِکِینَ، فَقُتِلَ مِنْہُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا، وَأُسِرَ مِنْہُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا، فَاسْتَشَارَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَبَابَکْرٍ وَعَلِیًّا وَعُمَرَ ، فَقَالَ أَبُوبَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: یَانَبِیَّ اللّٰہِ ہٰؤُلَائِ بَنُو الْعَمِّ وَالْعَشِیرَۃُ وَالْإِخْوَانُ، فَإِنِّی أَرٰی أَ نْ تَأْخُذَ مِنْہُمْ الْفِدْیَۃَ، فَیَکُونُ مَا أَ خَذْنَا مِنْہُمْ قُوَّۃً لَنَا عَلَی الْکُفَّارِ، وَعَسَی اللّٰہُ أَ نْ یَہْدِیَہُمْ، فَیَکُونُونَ لَنَا عَضُدًا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَا تَرٰییَا ابْنَ الْخَطَّابِ؟۔)) قَالَ: قُلْتُ: وَاللّٰہِ! مَا أَ رٰی مَا رَأٰ ی أَبُوبَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، وَلٰکِنِّی أَرٰی أَ نْ تُمَکِّنَنِی مِنْ فُلَانٍ قَرِیبًا لِعُمَرَ، فَأَ ضْرِبَ عُنُقَہُ، وَتُمَکِّنَ عَلِیًّا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ مِنْ عَقِیلٍ فَیَضْرِبَ عُنُقَہُ، وَتُمَکِّنَ حَمْزَۃَ مِنْ فُلَانٍ أَ خِیہِ فَیَضْرِبَ عُنُقَہُ حَتّٰییَعْلَمَ اللّٰہُ أَ نَّہُ لَیْسَتْ فِی قُلُوبِنَا ہَوَادَۃٌ لِلْمُشْرِکِینَ، ہَؤُلَائِ صَنَادِیدُہُمْ وَأَ ئِمَّتُہُمْ وَقَادَتُہُمْ، فَہَوِیَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا قَالَ أَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، وَلَمْ یَہْوَ مَا قُلْتُ فَأَ خَذَ مِنْہُمْ الْفِدَائَ، فَلَمَّا أَ نْ کَانَ مِنْ الْغَدِ قَالَ عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: غَدَوْتُ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَإِذَا ہُوَ قَاعِدٌ وَأَ بُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، وَإِذَا ہُمَا یَبْکِیَانِ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَ خْبِرْنِی مَاذَا یُبْکِیکَ أَ نْتَ وَصَاحِبَکَ؟ فَإِنْ وَجَدْتُ بُکَائً بَکَیْتُ وَإِنْ لَمْ أَ جِدْ بُکَائً تَبَاکَیْتُ لِبُکَائِکُمَا، قَالَ: فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((الَّذِی عَرَضَ عَلَیَّ أَصْحَابُکَ مِنْ الْفِدَائِ، لَقَدْ عُرِضَ عَلَیَّ عَذَابُکُمْ أَ دْنٰی مِنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ لِشَجَرَۃٍ قَرِیبَۃٍ۔)) وَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {مَا کَانَ لِنَبِیٍّ أَ نْ یَکُونَ لَہُ أَ سْرٰی حَتّٰییُثْخِنَ فِی الْأَ رْضِ… إِلٰی قَوْلِہِ: {لَوْلَا کِتَابٌ مِنْ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیمَا أَ خَذْتُمْ} مِنْ الْفِدَائِ ثُمَّ أُحِلَّ لَہُمُ الْغَنَائِمُ، فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ أُحُدٍ مِنْ الْعَامِ الْمُقْبِلِ عُوقِبُوا بِمَا صَنَعُوا یَوْمَ بَدْرٍ مِنْ أَ خْذِہِمْ الْفِدَائ، َ فَقُتِلَ مِنْہُمْ سَبْعُونَ، وَفَرَّ أَ صْحَابُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَکُسِرَتْ رَبَاعِیَّتُہُ وَہُشِمَتِ الْبَیْضَۃُ عَلٰی رَأْسِہِ، وَسَالَ الدَّمُ عَلٰی وَجْہِہِ، وَأَ نْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی: {أَ وَلَمَّا أَ صَابَتْکُمْ مُصِیبَۃٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَیْہَا} الْآیَۃَ بِأَخْذِکُمُ الْفِدَائَ۔ (مسند أحمد: ۲۰۸)

۔ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: بدر کے دن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے صحابہ کی طرف دیکھا،جبکہ وہ تین سوسے کچھ زائد تھے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مشرکوں کی طرف دیکھا اور وہ ایک ہزار سے زائد تھے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قبلہ کی طرف متوجہ ہوئے، اپنے دونوں ہاتھوں کو لمبا کیا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک چادر اور ایک ازار زیب ِ تن کیا ہوا تھا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ دعا کی: اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا، وہ کہاں ہے، اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا، اس کو پورا کر دے، اے اللہ! اگر تو نے اہل اسلام کی اس جماعت کو ختم کر دیا تو زمین میں کبھی بھی تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے ربّ سے مدد طلب کرتے رہے اور دعا کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی چادر گر گئی، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لائے، انھوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی چادر اٹھائی اور اس کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر ڈال کر پیچھے سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پکڑ لیا اور پھر کہا: اے اللہ کے نبی! آپ نے اپنے ربّ سے جو مطالبہ کر لیا ہے، یہ آپ کو کافی ہے، اس نے آپ سے جو وعدہ کیا ہے، وہ عنقریب اس کو پورا کر دے گا، اس وقت اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی: {إِذْ تَسْتَغِیثُونَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ أَ نِّی مُمِدُّکُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ مُرْدِفِینَ۔}… اس وقت کو یاد کرو جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے، پھر اللہ تعالی نے تمہاری سن لی کہ میں تم کو ایک ہزار فرشتوں سے مدد دوں گا، جو لگاتار چلے آئیں گے۔ (سورۂ انفال: ۹) پھر جب اس دن دونوں لشکروں کی ٹکر ہوئی اور اللہ تعالی نے مشرکوں کو اس طرح شکست دی کہ ان کے ستر افراد مارے گئے اور ستر افراد قید کر لیے گئے، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابو بکر، سیدنا علی اور سیدنا عمر سے قیدیوں کے بارے میں مشورہ کیا، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے نبی! یہ لوگ ہمارے چچوں کے ہی بیٹے ہیں، اپنے رشتہ دار اور بھائی ہیں، میرا خیال تو یہ ہے کہ آپ ان سے فدیہ لے ہیں، اس مال سے کافروں کے مقابلے میں ہماری قوت میں اضافہ ہو گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ تعالی ان کو بعد میں ہدایت دے دے، اس طرح یہ ہمارا سہارا بن جائیں۔ پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابن خطاب! اس بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ انھو ں نے کہا: اللہ کی قسم! میں سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی رائے سے اتفاق نہیں کرتا، میرا خیال تو یہ ہے کہ فلاں آدمی، جو میرا رشتہ دار ہے، اس کو میرے حوالے کریں، میں اس کی گردن اڑاؤں گا، عقیل کو سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سپرد کریں، وہ اس کو قتل کریں گے، فلاں شخص کو سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے حوالے کریں، وہ اس کی گردن قلم کریں گے، یہاں تک کہ اللہ تعالی کو علم ہو جائے کہ ہمارے دلوں میں مشرکوں کے لیے کوئی رحم دلی نہیں ہے، یہ قیدی مشرکوں کے سردار، حکمران اور قائد ہیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی رائے پسند کی اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی رائے کو پسند نہیں کیا، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فدیہ لے لیا۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: جب اگلے دن میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گیا تو آپ اور سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ دونوں بیٹھے ہوئے رو رہے تھے، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے اس چیز کے بارے میں بتائیں جو آپ کو اور آپ کے ساتھی کو رُلا رہی ہے؟ اگر مجھے بھی رونا آ گیا تو میں بھی روؤں گا اور اگر مجھے رونا نہ آیا تو تمہارے رونے کی وجہ سے رونے کی صورت بنا لوں گا۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارے ساتھیوں نے فدیہ لینے کے بارے میں جو رائے دی تھی، اس کی وجہ سے مجھ پر تمہارا عذاب پیش کیا گیا ہے، جو اس درخت سے قریب ہے۔ اس سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مراد قریب والا ایک درخت تھا، اس وقت اللہ تعالی نے یہ آیات نازل کیں: {مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗٓ اَسْرٰی حَتّٰییُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَاللّٰہُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ وَاللّٰہُ عَزِیْز’‘ حَکِیْم’‘۔ لَوْ لَا کِتٰب’‘ مِّنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَاب’‘ عَظِیْم’‘} نبی کے ہاتھ قیدی نہیں چاہییں جب تک کہ زمین میں اچھی خونریزی کی جنگ نہ ہو جائے، تم تو دنیا کے مال چاہتے ہو اور اللہ کا ارادہ آخرت کا ہے اور اللہ زور آور باحکمت ہے، اگر پہلے ہی سے اللہ کی طرف سے بات لکھی ہوئی نہ ہوتی تو جو کچھ تم نے لیا ہے اس بارے میں تمہیں کوئی بڑی سزا ہوتی۔ (سورۂ انفال:۶۷) پھر ان کے لیے مالِ غنیمت حلال کر دیا گیا، جب اگلے سال غزوۂ احد ہوا تو بدر والے دن فدیہ لینے کی سزا دی گئی اور ستر صحابہ شہید ہو گئے، نیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بھاگ گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے دانت شہید کر دئے گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سر پر خود کو توڑ دیا گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرے پر خون بہنے لگا، پس اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کی: {اَوَلَمَّآ اَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبَۃ’‘ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَیْھَا قُلْتُمْ اَنّٰی ھٰذَا قُلْ ھُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر’‘۔} (کیا بات ہے کہ جب احد کے دن)تمہیں ایک ایسی تکلیف پہنچی کہ تم اس جیسی دو چند پہنچا چکے، تم یہ کہنے لگے کہ یہ کہاں سے آگئی؟ آپ کہہ دیجئے کہ یہ خود تمہاری طرف سے ہے، بے شک اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے۔ (سورۂ آل عمران: ۱۶۵) یعنی فدیہ لینے کی وجہ سے۔

Haidth Number: 8613
سیدنا ابونجیح سلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں طائف کے قلعہ یا محل کا محاصرہ کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے اللہ کی راہ میں ایک تیر چلایا، اسے جنت میں ایک درجہ ملے گا۔ چنانچہ میں نے اس دن سولہ تیر چلائے۔آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مزید فرمایا: اور جس نے اللہ کی راہ میں دشمن کو تیر مارا، اسے ایک غلام یا لونڈی آزاد کرنے کے برابر ثواب ہو گا اور جو آدمی اللہ کی راہ میں بوڑھا ہو گیا تو بڑھاپے کییہ سفیدی قیامت کے دن اس کے لیے نور کا سبب ہو گی۔

Haidth Number: 10911
سیدنا ابو طریف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے طائف کا محاصرہ کیا تو میں بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمیں عصرکی نماز ایسے وقت پڑھاتے تھے کہ اگر کوئی آدمی اس نماز سے فارغ ہو کر تیر کے گرنے کی جگہ کو دیکھنا چاہتا تو ( باآسانی ) دیکھ سکتا تھا۔

Haidth Number: 10912
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اہلِ طائف کا محاصرہ کیا تو ان میں سے دو غلام آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ آملے، ان میں سے ایک کا نام ابو بکرہ تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان دونوں کو آزاد کر دیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی عادت ِ مبارکہ یہی تھی کہ جب دشمن کی طرف سے کوئی غلام آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ آ ملتا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کو آزاد فرما دیتے تھے۔

Haidth Number: 10913
۔(دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے طائف والے دن فرمایا: جو غلام ہمارے پاس آ جائیں گے، وہ آزاد ہوں گے۔ پھر سیدنا ابو بکرہ سمیت کچھ غلام آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آگئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو آزاد کر دیا۔

Haidth Number: 10914
سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب اہلِ طائف کا محاصرہ کیا اور کامیابی نہیں ہوئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہم ان شاء اللہ کل واپس روانہ ہو جائیں گے۔ یوں محسوس ہوا کہ گویا مسلمانوں نے اس فیصلہ کو پسند نہیں کیا، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ٹھیک ہے صبح لڑائی کرنا۔ جب صبح ہوئی تو مسلمانوں نے لڑائی کی، جس کے نتیجہ میں کافی مسلمان زخمی ہوئے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر فرمایا: ہم ان شاء اللہ کل واپس روانہ ہو جائیں گے۔ یہ سن کر مسلمان خوش ہو گئے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کییہ کیفیت دیکھ کر ہنس دئیے۔

Haidth Number: 10915
حسن بصری سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے سیدنا عمرو بن العاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: آپ کی اس شخص کے بارے میں کیا رائے ہے، جس سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تا حیات محبت کرتے رہے ہوں، کیا وہ صالح آدمی نہیں ہوگا؟ انہوںنے کہا: کیوں نہیں، تو اس نے کہا: اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دنیا سے تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ کو اپناعامل بنا کر بھیجا ہوا تھا، سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: انہوں نے مجھے عامل تو بنایا تھا، اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا کہ مجھ سے محبت کی وجہ سے یا میری مدد کرنے کے لیے مجھے عامل بنایا تھا، البتہ میں تمہیں بتلاتا ہوں کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دنیا سے تشریف لے گئے تو آپ دو آدمیوں سے محبت کرتے تھے، ایک سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور دوسرے سیدنا عمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ۔

Haidth Number: 11824

۔ (۱۱۸۲۵)۔ عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ: أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَتَاہُ بَیْنَ أَبِی بَکْرٍ وَعُمَرَ، وَعَبْدُ اللّٰہِ یُصَلِّی فَافْتَتَحَ النِّسَائَ فَسَحَلَہَا، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَقْرَأَ الْقُرْآنَ غَضًّا کَمَا أُنْزِلَ فَلْیَقْرَأْہُ عَلٰی قِرَائَ ۃِ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ۔)) ثُمَّ تَقَدَّمَ یَسْأَلُ فَجَعَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((سَلْ تُعْطَہْ، سَلْ تُعْطَہْ، سَلْ تُعْطَہْ۔)) فَقَالَ فِیمَا سَأَلَ: اَللّٰہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ إِیمَانًا لَا یَرْتَدُّ، وَنَعِیمًا لَا یَنْفَدُ، وَمُرَافَقَۃَ نَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی أَعْلٰی جَنَّۃِ الْخُلْدِ، قَالَ: فَأَتٰی عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَبْدَ اللّٰہِ لِیُبَشِّرَہُ، فَوَجَدَ أَبَا بَکْرٍ رِضْوَانُ اللّٰہِ عَلَیْہِ قَدْ سَبَقَہُ فَقَالَ: إِنْ فَعَلْتَ لَقَدْ کُنْتَ سَبَّاقًا بِالْخَیْرِ۔ (مسند احمد: ۴۲۵۵)

سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ وہ رات کو نماز ادا کر رہے تھے کہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہمراہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے پاس تشریف لائے، انھوں نے سورۂ نساء کی تلاوت شروع کی اور اس کی مکمل تلاوت کی تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو کوئی قرآن کو اسی طرح پڑھنا چاہتا ہو، جیسا کہ وہ نازل ہواتھا تو وہ ابن ام عبد یعنی ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی قرأت کے مطابق تلاوت کیا کرے۔ پھر وہ آگے بڑھے اور سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سوال کرنے لگے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرمانے لگے : تم اللہ سے مانگو تمہیں دیا جائے گا، تم اللہ سے مانگو تمہیں دیا جائے گا، تم اللہ سے مانگو تمہیں دیا جائے گا۔ تو انہوں نے اپنی دعاؤں میں سے یہ دعا بھی کی: اَللّٰہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ إِیمَانًا لَا یَرْتَدُّ، وَنَعِیمًا لَا یَنْفَدُ، وَمُرَافَقَۃَ نَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی أَعْلٰی جَنَّۃِ الْخُلْدِ (یا اللہ! میں تجھ سے ایسے ایمان کی دعا کرتا ہوں جو مجھ سے واپس نہ جائے، ایسی نعمتوں کا سوال کرتا ہوں جو کبھی زائل نہ ہوں اور میں تجھ سے ہمیشہ والی جنت کے اعلیٰ مقامات میں تیرے نبی کاساتھ چاہتا ہوں۔) اس کے بعد سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان کو بشارت دینے کے لیے آئے تو انھوں نے دیکھا کہ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس بارے میں ان سے سبقت لے جا چکے تھے۔ تو سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اگرچہ آپ نے یہ کام کیا ہے، مگر صورتحال یہ ہے کہ آپ ہر اچھے کام میں سبقت لے جاتے ہیں۔

Haidth Number: 11825
سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ میں نماز ادا کر رہا تھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے پاس سے گزرے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ام عبد کے بیٹے! تو جو چاہے دعا کر تجھے عطا کیا جائے گا۔ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے اس خوشی سے آگاہ کرنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کی، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جس کام میں بھی میرے ساتھ مقابلہ کیا تو وہ مجھ سے سبقت لے گئے۔دونوں نے عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے دریافت کیا کہ انہوں نے اس رات کو کیا دعا کی تھی، انھوں نے بتلایا کہ میں نے وہ دعا کی تھی، جس کو میں چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوں، میں نے کہا تھا: اَللّٰہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ نَعِیمًا لَا یَبِیدُ، وَقُرَّۃَ عَیْنٍ لَا تَنْفَدُ، وَمُرَافَقَۃَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُحَمَّدٍ فِی أَعْلَی الْجَنَّۃِ جَنَّۃِ الْخُلْدِ۔ (یا اللہ! میں تجھ سے ایسی نعمتوں کا سوال کرتا ہوں جو کبھی زائل نہ ہوں،آنکھوں کی ایسی ٹھنڈک کا سوال کرتا ہوں، جو کبھی ختم نہ ہوں او ر جنت کے اعلیٰ مقامات میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ساتھ چاہتا ہوں۔)

Haidth Number: 11826
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کابیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر میں نے کسی کی مشاورت کے بغیر کسی کو امیر بنانا ہوتا تو میں ام عبد کے بیٹےیعنی عبداللہ بن مسعود کو امیر بناتا۔

Haidth Number: 11827
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو حکم دیا کہ وہ درخت پر چڑھ کر وہاں کوئی چیز اتار لائیں، وہ درخت پر چڑھے، جب صحابۂ کرام نے ان کے درخت پر چڑھتے ہوئے ان کی پتلی پتلی کم زور پنڈلیوں کو دیکھا تو وہ ہنسنے لگے، لیکن رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم کیوں ہنستے ہو؟ قیامت کے دن عبداللہ کی ٹانگ ترازو میں احد پہاڑ سے زیادہ وزنی ہوگی۔

Haidth Number: 11828
سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ وہ پیلو کے درخت سے مسواک توڑ رہے تھے، ان کی پنڈ لیاں کم زور تھیں،ہوا چلنے کی وجہ سے کپڑا اڑنے لگا تو لوگ ان کی باریک پنڈلیوں کو دیکھ کر ہنسنے لگ گئے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: تم کس بات پہ ہنس رہے ہو؟ صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! ان کی کم زور پنڈلیوں کو دیکھ کر ہنسی آرہی ہے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یہ پنڈلیاں ترازو میں احد پہاڑ سے بھی زیادہ وزنی ہوں گی۔

Haidth Number: 11829
عبدالرحمن بن یزید سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں گئے اور ہم نے کہا آپ ہمیں کسی ایسے آدمی کی طرف راہ نمائی کریں جو اپنی سیرت، کردار اور عمل کے لحاظ سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سب سے زیادہ قریب ہو، تاکہ ہم اس سے کچھ حاصل کر سکیں اور اس سے احادیث کا سماع کر سکیں،انہوں نے کہا:سیرت، کردار اور عمل کے لحاظ سے ام عبد کے بیٹے سیدنا عبداللہ بن مسعود رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سب سے زیادہ قریب ہیں،یہاں تک کہ وہ گھر داخل ہو جائیں (یعنی ان کے گھر سے باہر کے تمام معمولات سنت نبوی کے مطابق ہوتے ہیں اور میں ان کے گھر کے اندرونی معمولات نہیں جانتا۔)ایک روایت میںیوں ہے:تم جس قسم کے آدمی کے متعلق پوچھتے ہو تو ایسا شخص عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہی ہے، گھر سے باہر آکر گھر جانے تک اس کے تمام معمولات رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے معمولات کے مطابق ہوتے ہیں، اب میں یہ نہیں جانتا کہ گھر کے اندر ان کے معمولات کیا ہوتے ہیں؟ اصحاب محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میں سے اہل علم جانتے ہیں کہ ام عبد کے بیٹے عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان میں سے اللہ کے سب سے زیادہ قریب ہیں۔ دوسری روایت کے الفاظ ہیں کہ عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ قیامت کے دن ان سب سے بڑھ کر اللہ کے مقرب ہوں گے۔

Haidth Number: 11830
سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پردہ کو اٹھا دیا جانا تمہارے لیے آگے آجانے کی اجازت کے مترادف ہے اور تم میری راز کی باتوں کو سننے کے بھی مجازہو، یہاں تک کہ میں تمہیں اس سے روک دوں۔ ابوعبدالرحمن نے کہا: سِوَاد کا معنی راز ہے، یعنی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں راز کی باتیں سننے کی اجازت دے رکھی تھی۔

Haidth Number: 11831
عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ میں نے ستر سورتیں براہ راست رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سیکھی ہیں۔ زید بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس وقت چھوٹے تھے اور زیر تعلیم تھے۔ انہوں نے لٹیں رکھی ہوئی تھیں۔ دوسری روایت کے الفاظ ہیں کہ زید بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بچے تھے ان کی دولٹیں تھیں اور وہ بچوں کے ساتھ کھیلا کرتے تھے۔

Haidth Number: 11832

۔ (۱۱۸۳۳)۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَل کُنْتُ أَرْعٰی غَنَمًا لِعُقْبَۃَ بْنِ أَبِی مُعَیْطٍ، فَمَرَّ بِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَبُو بَکْرٍ، فَقَالَ: ((یَا غُلَامُ ہَلْ مِنْ لَبَنٍ؟)) قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، وَلٰکِنِّی مُؤْتَمَنٌ، قَالَ: ((فَہَلْ مِنْ شَاۃٍ لَمْ یَنْزُ عَلَیْہَا الْفَحْلُ؟)) فَأَتَیْتُہُ بِشَاۃٍ فَمَسَحَ ضَرْعَہَا فَنَزَلَ لَبَنٌ فَحَلَبَہُ فِی إِنَائٍ فَشَرِبَ وَسَقَی أَبَا بَکْرٍ، ثُمَّ قَالَ لِلضَّرْعِ: ((اقْلِصْ۔)) فَقَلَصَ قَالَ: ثُمَّ أَتَیْتُہُ بَعْدَ ہٰذَا فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ عَلِّمْنِی مِنْ ہٰذَا الْقَوْلِ، قَالَ: ((فَمَسَحَ رَأْسِی وَقَالَ: یَرْحَمُکَ اللّٰہُ فَإِنَّکَ غُلَیِّمٌ مُعَلَّمٌ۔)) (وَفِیْ رِوَایَۃٍ) قَالَ: فَأَتَاہُ أَبُو بَکْرٍ بِصَخْرَۃٍ مَنْقُورَۃٍ فَاحْتَلَبَ فِیہَا فَشَرِبَ وَشَرِبَ أَبُو بَکْرٍ وَشَرِبْتُ، قَالَ: ثُمَّ أَتَیْتُہُ بَعْدَ ذٰلِکَ قُلْتُ: عَلِّمْنِی مِنْ ہٰذَا الْقُرْآنِ، قَالَ: ((إِنَّکَ غُلَامٌ مُعَلَّمٌ۔)) قَالَ: فَأَخَذْتُ مِنْ فِیہِ سَبْعِینَ سُورَۃً۔ (مسند احمد: ۴۴۱۲)

سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کابیان ہے، وہ کہتے ہیں: میں عقبہ بن ابی معیط کی بکریا ںچرایا کرتا تھا، رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ میرے پاس سے گزرے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لڑکے! دودھ مل سکتا ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں، لیکنیہ میرے پاس امانت ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا اس ریوڑ میں کوئی ایسی بکری ہے، جس کی ابھی تک نر سے جفتی ہی نہ ہوئی ہو؟ تو میں ایک بکری پکڑ کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس لے آیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے تھنوں پر ہاتھ پھیرا تو دودھ اتر آیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک برتن میں دودھ دوہا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خود بھی نوش فرمایا اور ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بھی دیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تھن سے فرمایا: سکڑ جا (یعنی پہلے کی طرح ہو جا)۔ پس وہ سکڑ کر اپنی پہلی حالت میں ہو گیا۔ سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:میں اس کے بعد ایک موقع پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! وہ دعا مجھے بھی سکھا دیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا: تجھ پر اللہ کی رحمت ہو، تو سیکھا سکھایا، پڑھا پڑھایا بچہ ہے۔ دوسری روایت میں ہے: ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ کی خدمت میں پیالےیا برتن کی طرح کا ایک پتھر لے کر آئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس میں دودھ دوہا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خود بھی نوش فرمایا اور سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دیااور میں نے بھی پیا۔ سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:میں نے اس کے بعد ایک موقعہ پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: آپ مجھے بھی اس قرآن میں سے کچھ سکھا دیں،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پڑھا پڑھایا بچہ ہے۔ سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: چنانچہ میں نے ستر سورتیں براہ راست رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پڑھیں۔

Haidth Number: 11833
مسروق سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم سیدنا عبداللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں جایا کرتے اور ان کے ہاں بیٹھ کر باتیں کیا کرتے تھے، ہم نے ایک دن سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا تذکرہ کیا تو انھوں نے کہا: تم نے ایک ایسے آدمی کا نام لے دیا ہے کہ میں نے جب سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ حدیث سنی ہے، تب سے میں اس سے محبت کرتا ہوں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایاہے: تم لوگ چار آدمیوں سے قرآن کا علم حاصل کرو، ابن ام عبد، معاذ بن جبل، ابی بن کعب اور مولائے ابی حذیفہ سالم سے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سب سے پہلے ام عبد کے بیٹے سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا نام لیا۔

Haidth Number: 11834
زہیربن اقمر سے مروی ہے کہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی شہادت کے بعد ایک دن سیدنا حسن بن علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خطاب کر رہے تھے کہ بنواز د کے ایک آدمی نے کھڑے ہو کر کہا: میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو اپنی گود میں بٹھایا ہوا تھا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جسے مجھ سے محبت ہے، وہ اس سے بھی محبت کرے،جو لو گ یہاں موجود ہیں وہ یہ بات ان لوگوں تک پہنچا دیں، جو یہاں نہیں ہیں۔ اگر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف سے یہ تاکید نہ ہوتی تومیں تمہیں یہ حدیث نہ سناتا۔

Haidth Number: 12392

۔ (۱۲۳۹۳)۔ ثَنَا ہَاشِمٌ، حَدَّثَنَا الْمُبَارَکُ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ، حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرَۃَ قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی بِالنَّاسِ، وَکَانَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَثِبُ عَلٰی ظَہْرِہِ، إِذَا سَجَدَ فَفَعَلَ ذٰلِکَ غَیْرَ مَرَّۃٍ،(وَفِیْ رِوَایَۃٍ: فَیَرْفَعُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَفْعًا رَقِیْقًا لِئَلَّا یُصْرِعَہُ) أَبُوبَکْرَۃَ قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی بِالنَّاسِ، وَکَانَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَثِبُ عَلٰی ظَہْرِہِ إِذَا سَجَدَ، فَفَعَلَ ذٰلِکَ غَیْرَ مَرَّۃٍ، فَقَالُوْا لَہُ: وَاللّٰہِ! إِنَّکَ لَتَفْعَلُ بِہٰذَا شَیْئًا مَا رَأَیْنَاکَ تَفْعَلُہُ بِأَحَدٍ، قَالَ الْمُبَارَکُ: فَذَکَرَ شَیْئًا ثُمَّ قَالَ: ((إِنَّ ابْنِیْ ہَذَا سَیِّدٌ، وَسَیُصْلِحُ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی بِہِ بَیْنَ فِئَتَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ۔)) فَقَالَ الْحَسَنُ: فَوَاللّٰہِ وَاللّٰہِ بَعْدَ أَنْ وَلِیَ لَمْ یُہْرَقْ فِی خِلَافَتِہِ مِلْئُ مِحْجَمَۃٍ مِنْ دَمٍ۔ (مسند احمد: ۲۰۷۲۱)

سیدنا ابوبکرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے اور سیدنا حسن بن علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کود کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی کمر پر چڑھ جاتے، انھوں نے ایسے کئی بار کیا۔ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نرمی سے اٹھتے تھے تاکہ وہ گر نہ جائیں، یہ منظر دیکھ کر صحابہf نے کہا: اللہ کی قسم! آپ جیسا سلوک اس کے ساتھ کرتے ہیں، ویسا کسی اور کے ساتھ نہیں کرتے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرا یہ بیٹا سردار ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوںکی دو بڑی جماعتوں میں صلح کراے گا۔ حسن بصری نے کہا: پس اللہ کی قسم، اللہ کی قسم ہے کہ ان کی خلافت میں ایک شیشی کی مقدار بھی خون نہیں بہایا گیا۔

Haidth Number: 12393
سیدنا ابوبکرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منبر پر تشریف فرما تھے اور سیدنا حسن علیہ السلام بھی آپ کے ہمراہ تھے، آپ ایک بار لوگوں کی طرف دیکھتے اور ایک بار ان پر نظر ڈالتے اور فرماتے تھے: میرا یہ بیٹا سردار ہوگا اور امید ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ا س کے ذریعے مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کرائے گا۔

Haidth Number: 12394
۔ (دوسری سند) سیدنا ابوبکرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ایک دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خطبہ دے رہے تھے کہ سیدنا حسن بن علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آگئے، وہ آکر آپ کے پاس منبر پر چلے گئے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں اپنے سینے سے لگالیا اور ان کے سر پر ہاتھ پھیر کر فرمایا: میر ایہ بیٹا سردار ہے اور امید ہے کہ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کراے گا۔

Haidth Number: 12395