جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ عمرو رضی اللہ عنہ نے جابیہ میں لوگوں سے خطاب كیا، كہنے لگے: اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میری طرح ایسی ہی جگہ كھڑے ہوئے اور فرمایا: میرے صحابہ سے حسنِ سلوك كرو، پھر ان لوگوں سے كرنا جو ان سے متصل ہوں، پھر ان لوگوں سے جو ان سے متصل ہوں۔ پھر ایسے لوگ آئیں گےجو قسم مانگنےسے پہلے ہی قسم كھائیں گےاورگواہی مانگنے سے پہلے ہی گواہی دیں گے۔تم میں سے جوشخص جنت کی آسائش پسندکرتا ہےوہ جماعت سے چمٹا رہے، كیوں كہ شیطان ایك كے ساتھ ہوتا ہے اور دو سے دور رہتا ہے۔ كوئی شخص كسی عورت سے علیحدگی میں نہ ملے ، كیوں كہ ان میں تیسرا شیطان ہوتا ہے اور جس شخص كو اس كی نیكی خوش كرے اور برائی نا پسند لگے تو وہ مومن ہے۔
عمرو بن شعیب اپنے والد سے وہ ان كے دادا سے بیان كرتے ہیں( عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے) كہتے ہیں كہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس موجود تھا ، آپ كے پاس ہوازن كے وفود آئے اور كہنے لگے: اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم بال بچوں والے اور خاندان والے ہیں، ہم پر احسان كیجئے اللہ آپ پر احسان كرے گا۔ ہم ایسی مصیبت میں گرفتار ہیں جو آپ پر مخفی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے اموال اور بال بچوں میں سے كسی ایك كو چن لو۔ انہوں نے كہا: آپ نے ہمارے اموال اور اولاد میں اختیار دے دیا ہے، ہم اپنے بیٹے لیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے اور بنی عبدالمطلب کا حصہ تمہارے لئے ہے۔ جب میں ظہر كی نماز پڑھوں تو تم كہنا: ہم مومنین كے سامنےاپنے بیوی بچوں كے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كی سفارش ركھتے ہیں۔ انہوں نے ایسا ہی كیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو میرے لئے اور بنی عبدالمطلب كے لئے حصہ ہے وہ تمہارا ہوا۔ مہاجرین نے كہا: ہمارا حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے لئے ہے۔ انصار نے بھی یہی بات كہی ۔ عیینہ بن بدر نے كہا: میرا اور بنی فزار ہ کا حصہ نہیں۔ اقرع بن حابس نے كہا: میرا اور بنو تمیم كا حصہ بھی نہیں۔ عباس بن مرداس نے كہا: میرا اور بنو سلیم كا حصہ بھی نہیں۔ حیان نے كہا: اس نے جھوٹ بولا ،یہ حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے لئے ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو ! ان کے بیوی بچے ان کو واپس كر دو، جو شخص مالِ فئی میں سے لینا چاہے اس كے لئے مالِ فئی (غنیمت) میں سے جو اللہ تعالیٰ ہمیں دے گا۔ چھ گناہ ہے۔ پھر آپ اپنی سواری پر سوار ہوئے۔ لوگ آپ سے چمٹ گئے اور كہنے لگے ہمارا حصہ ہم میں تقسیم كریں، یہاں تک کہ آپ كو ایك كیكر كے درخت سے لگادیا، اور آپ كی چادر کانٹوں میں پھنس گئی۔ اچك لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! مجھے میری چادر واپس كر دو، اللہ كی قسم! اگر تہامہ كے درختوں كے برابر بھی تمہارے لئے اونٹ ہوتے تو میں تمہارے درمیان تقسیم كر دیتا ۔ پھر تم مجھے نہ بخیل پاؤ گے، نہ بزدل اور نہ جھوٹا ۔پھر آپ اپنے اونٹ كے قریب ہوئے اور اس كی كوہان سے كچھ بال لے كر اپنی شہادت اور درمیانی انگلیوں میں پكڑے،پھر انہیں بلند كر كے فرمایا: اے لوگو ! میرے لئے اس مالِ غنیمت اور ان بالوں سوائے خمس كے اور خمس کچھ بھی نہیں۔ بھی تم میں واپس لوٹا دیا جائے گا۔ سوئی اور دھاگہ بھی واپس كرو، كیوں كہ خیانت ، قیامت كے دن خیانت كرنے والے كے لے عار ،ذلت اور آگ كا باعث ہوگی
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اپنی امت كے بارے میں سب سے زیادہ خوف گمراہ كرنے والے ائمہ (حكام ) كا ہے۔( ) یہ حدیث سیدنا عمر بن خطاب، ابودرداء، ابوذر غفار، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ثوبان، شداد بن اوس اور علی رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب دو خلیفوں كی بیعت كی جائے تو بعد والے کو قتل کردو۔ یہ حدیث سیدنا ابو سعید، ابوہریرہ، معاویہ بن ابی سفیان، انس بن مالک اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم سے مروی ہے
علقمہ بن وائل بن حجر اپنے والد رضی اللہ عنہ سے بیان كرتے ہیں كہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، ایك آدمی آپ سے سوال كر رہا تھا: اگرہم پر ایسے امراء مقرر ہو جائیں جو ہمارا حق نہ دیں اور اپنا حق (زبردستی) لیں تو آپ كا اس بارے میں كیا خیال ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سنو اور اطاعت كرو، كیوں كہ ان كے ذمے وہ ہے جس كے وہ ذمے دار ہیں اور تمہارے ذمے وہ ہے جس كے تم ذمے دار ہو۔( )
عوف بن مالك اشجعی رضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ہجیر میں خطبہ دیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم مرعوب تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تك میں تمہارے درمیان ہوں میری اطاعت كرو، اور اللہ عزوجل كی كتاب كو مضبوطی سے تھام لو۔ اس كے حلال كو حلال سمجھو اور اس كے حرام كو حرام سمجھو۔( )
ابو سعید خدریرضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان خطبہ دینے كے لئے كھڑے ہوئے۔ آپ نے فرمایا: خبردار قریب ہے كہ مجھے بلایا جائے اور میں بلاواقبول كرلوں۔ میرے بعد تمہیں ایسے حكام ملیں گے جو ایسی بات كہیں گے جس كا علم ہوگا اور نیك اعمال كریں گے۔ ان كی اطاعت ہی حقیقی اطاعت ہے۔ تم ایك لمبا عرصہ اسی طرح گزاروگے۔ پھر ان كے بعد تمہیں ایسے حكام ملیں گے جو ایسی بات كہیں گے جس كا علم نہیں ہوگا اور برے اعمال كریں گے۔ جن لوگوں نے ان كی خیر خواہی كی ان كی مدد كی اور انہیں تقویت پہنچائی تو یہ لوگ خود بھی ہلاك ہوں گے اور دوسروں كو بھی برباد كریں گے۔ اپنے جسموں سے ان میں شامل ہو جاؤ لیكن اپے اعمال سے ان كا اثر زائل كردو۔ نیك آدمی كی گواہی دو كہ یہ نیك ہے اور برے آدمی كے بارے میں بھی بتاؤ كہ یہ برا ہے
عبدالرحمن بن شماسہ رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے كہ كہتے ہیں كہ میں کچھ پوچھنے کے لئے عائشہ رضی اللہ عنہا كے پاس آیا، انہوں نے كہا: تم كن لوگوں سے تعلق ركھتے ہو؟ میں نے كہا: اہل مصر سے تعلق ہے۔ انہوں نے كہا: تمہارے اس معركے میں تم نے اپنے امیر كو كیسا پایا؟ اس مصری نے كہا: ہمیں اس كی كوئی بات بری محسوس نہیں ہوئی، اگر ہم میں سے كسی كا اونٹ مرجاتا تو اسے اونٹ دے دیتا، اگر غلام مر جاتا تو اسے غلام دے دیتا، اگر خرچے كی ضرورت ہوتی تو خرچہ دیتا ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا كہنے لگیں: محمد بن ابو بكر(میرے بھائی) نے جو کیا وہ مجھے اس بات سے نہیں روکے گی کہ سے كیا كہ میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كی وہ بات نہ بتاؤں جو آپ نے میرے اس گھر میں كہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ جو شخص میری امت كے كسی معاملے كا والی بنا اور اس نے ان پر سختی كی تو تو بھی اس پر سختی كر اور جو شخص میری امت كے كسی معاملے كا نگران بنا اس نے ان پر نرمی كی تو تو بھی اس پر نرمی كر۔
انسرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ: اللہ تعالیٰ ہر نگران سے اس كی رعایا كے بارے میں سوال كرے گا۔ اس نے رعایا كی حفاظت كی یا اسے ضائع كر دیا۔ حتی كہ آدمی سے اس كے گھر والوں كے بارے میں بھی پوچھا جائے گا
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو الہثیم سے فرمایا:كیا تمہارا كوئی خادم ہے؟ اس نے كہا:نہیں۔آپ نے فرمایا:جب ہمارے پاس قیدی آئیں تب آنا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس دو قیدی آئے تیسرا ان كے ساتھ نہیں تھا۔ ابو الہیثم آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس آیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان دونوں میں سے پسند كر لو۔ ابو الہیثم نے كہا:اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے لئے پسند كیجئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس سے مشورہ لیا جائے وہ اس كے پاس امانت ہوتا ہے۔ اسےلے لو كیوں كہ میں نے اسے نماز پڑھتے دیكھاہے اور اس سے اچھا سلوك كرنا۔ اس كی بیوی نے اس سے كہا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت پر عمل اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ تم اسے آزاد کردو۔ ابو الہیثم نے كہا:یہ آزاد ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ نے كسی نبی یا خلیفہ كو مبعوث كیا تو اس كے دو دوست بنائے، ایك دوست اسے نیكی كا حكم دیتا ہے اور برائی سے روكتا ہے اور دوسرا دوست اس كے نقصان پہنچانے کا کوئی موقعہ خالی نہیں جانے دیتا۔ اور جو شخص برے دوست سے بچا لیا گیا وہ یقینا بچ گیا۔
سالم اپنے والد( عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما )سے بیان كرتے ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:آپ منبر پر تھے: اگر تم اس كی امارت میں نكتہ چینی كرتے ہو، (آپ كی مراد اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما تھے)تو اس سے پہلے تم نے اس کے والد كی امارت میں بھی نكتہ چینی كی تھی، اور اللہ كی قسم وہ اس كے لائق تھے اور اللہ كی قسم وہ مجھے لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب تھے۔ اور اللہ كی قسم یہ بھی امارت كے لائق ہے۔ (آپ كی مراد اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما تھے)اور اللہ كی قسم اس كے والد كے بعد یہ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے۔ میں تمہیں اس كے بارے میں وصیت(حکم ) كرتا ہوں، كیوں كہ یہ تمہارے نیك لوگوں میں سے ہے۔
عوف بن مالك رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اگ تم چاہو تو میں تمہیں امارت كے بارے میں بتادوں كہ یہ كیا ہے؟ اس كا پہلا مرحلہ ملامت ہے، اس كا دوسرا مرحلہ ندامت ہے اور اس كا تیسرا مرحلہ قیامت كے دن عذاب ہے ۔سوائے اس شخص كے جس نے انصاف كیا، لیكن اقرباء كی موجودگی میں وہ انصاف كس طرح كر سكتا ہے
حسن رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے كہ عائذ بن عمرو رضی اللہ عنہ ( جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے صحابہ میں سے تھے)عبیداللہ بن زیاد كے پاس آئے اور كہا:اے بیٹے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنافرما رہے تھے:بدترین نگران ظلم كرنے والے ہیں، تم ان میں شامل ہونے سے بچو۔ عبیداللہ نے اس سے كہا:بیٹھ جاؤ، كیوں كہ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم كے صحابہ كے کچرے (بےکارشخص ہو)میں سے ہو۔عائذنےكہا:كیاان میں کچراتھا؟کچراتوان كےبعداوران كےعلاوہ میں ہے۔
جبیر بن مطعمرضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ ایك عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس آئی ، آپ نے اسے حكم دیا كہ وہ دوبارہ آپ كے پاس آئے ۔ اس نے كہا: اگر میں آؤں اور آپ كو نہ پاؤں تو پھر آپ كا كیا خیال ہے؟ وہ آپ کی موت مرادلے رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم مجھے نہ پاؤ تو پھر ابو بكر رضی اللہ عنہ كے پاس آنا
ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایك گھر كے دروازے پر كھڑے ہوئے جس میں قریش كے كچھ لوگ بیٹھے تھے۔ آپ دروازے كا كواڑ پكڑ كر كھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے: كیا قریش كے علاوہ بھی كوئی گھر میں ہے؟ آپ كو بتایا گیا: اے اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہماری بہن كافلاں بیٹا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں کا بھانجا انہی میں سے ہے، پھر فرمایا: یہ امارت قریش میں ہوگی،جب تك وہ اس بات پر رہیں کہ جب ان سے رحم طلب كیا جائے تو رحم كریں، جب فیصلہ كریں تو انصاف كر یں اور جب تقسیم كریں تو انصاف كریں۔ ان میں سے جس نے ایسا نہیں كیا تو اس پر اللہ كی لعنت، فرشتوں كی اور تمام لوگوں كی لعنت ہے۔ اس سے فرض و نفل قبول نہیں كئے جائیں گے
زہری رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے كہتے ہیں كہ محمد بن جبیر مطعم بیان كرتے ہیں كہ معاویہ رضی اللہ عنہ تك یہ خبر پہنچی(وہ قریش كے وفد میں ان كے ساتھ تھے)كہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما حدیث بیان كرتے ہیں كہ عنقریب كوئی قحطانی بادشاہ ہوگا، معاویہ رضی اللہ عنہ غصے سے كھڑے ہوگئے۔ اللہ كی حمدوثناء بیان كی، پھر كہا: اما بعد! مجھ تك یہ بات پہنچی ہے كہ تم میں سے كچھ آدمی ایسی احادیث بیان كرتے ہیں جو اللہ كی كتاب میں نہیں، نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں۔ یہ تمہارے كم علم لوگ ہیں، گمراہ كن خواہشات سے بچو۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرما رہے تھے: یہ امارت قریش میں رہے گی، جو جب تك قریش اللہ كا دین قائم رکھیں گےان سے دشمنی كرے گا اللہ تعالیٰ اسے چہرے كے بل گرادے گا۔
مقدام بن معدیكرب كندی رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے كہ وہ عبادہ بن صامت ابو درداءاور حارث بن معاویہ كندی رضی اللہ عنہم كے پاس بیٹھے یہ صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا ذکر کر رہے تھے۔ ابو درداء نے عبادہ رضی اللہ عنہما سے كہا: عبادہ رضی اللہ عنہ ! فلاں فلاں غزوے میں خمس كے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے الفاظ كس طرح ہیں؟ عبادہ رضی اللہ عنہ نے كہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایك غزوے میں تقسیم كے اونٹوں كے پہلو میں نماز پڑھائی۔ جب سلام پھیرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كھڑے ہوگئے۔ اور اونٹ كے بال اپنی انگلیوں میں پكڑ كر كہا: یہ تمہاری غنیمت سے ہے۔ اس میں میرا بھی اتنا حصہ ہے جتنا تمہارا ،سوائے خمس كے اور خمس بھی تم میں واپس كر دیا جائے گا۔ سوئی، دھاگہ ان سے بڑھ كر اور ان سے كم ترسب واپس كر دو، خیانت نہ كرو، كیوں كہ دنیا و آخرت میں خیانت كرنے والے كے لئے آگ اور عار كا باعث ہے۔ اللہ كے راستے میں لوگوں سے دور اور قریب جہاد كرو۔ اللہ كے راستے میں كسی ملامت كرنے والے كی ملامت كی پرواہ نہ كرو۔ حضرو سفر میں اللہ كی حدود قائم كرو۔ اللہ كے راستے میں جہاد كرو،كیوں كہ جہاد جنت كے دروازوں میں سے عظیم دروازہ ہے۔ اس كی وجہ سے اللہ تبارك و تعالی غم اور پریشانی سے نجات دیتا ہے۔
شرید بن سوید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہتے ہیں كہ ثقیف كے وفد میں ایك كوڑھی شخص تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس كی طرف پیغام بھیجا كہ ہم نے تجھ سے بیعت لے لی اور اب واپس چلے جاؤ
ابو موسیٰرضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ میں میرے دو چچا زاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس آئے۔ ایك نے كہا: اے اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ نے آپ كو جو حكمرانی دی ہے اس میں سے ہمیں بھی دیجئے۔ دوسرے نے بھی ایسی ہی بات کہی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم كسی ایسے شخص كو ذمہ داری نہیں دیتے جو اس كا مطالبہ كرے، نہ ہی كسی ایسے شخص كو جو اس كی حرص ركھتا ہے
ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے زكاۃ وصول کرنے کے لئے بھیجنے کا ارادہ کیا، پھر فرمایا: ابو مسعود جاؤ، میں قیامت كے دن تجھے اس حال میں نہ پاؤں كہ تمہاری گردن پر زكاۃ كا اونٹ ہو جو بلبلا رہا ہو، جسے تم نے خیانت سے حاصل كیا ہو۔ ابو مسعود رضی اللہ عنہ نے كہا: تب تو میں نہیں جاؤں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں مجبور نہیں كروں گا
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:عنقریب تم امارت كی حرص كرو گے، اور عنقریب قیامت كے دن یہ امارت ندامت (اور حسرت) كا باعث ہوگی۔ اس لئے دودھ پلانے والی اچھی ہوتی ہے اور دودھ چھڑانے والی بری۔
عبداللہ(بن مسعود) رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ عنقریب میرے بعد تمہارے معاملات كے ایسے نگران آئیں گے جو سنت كو ختم كریں گے اور بدعت كو پروان چڑھائیں گے۔ نماز كو ان كے اوقات سے مو خر كریں گے۔ عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے كہا: اگر میں انہیں پاؤں تو كیا كروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(اے ام عبد كے بیٹے)جس شخص نے اللہ كی نا فرمانی كی اس کی اطاعت نہیں آپ نے یہ بات تین مرتبہ فرمائی۔
عبداللہ بن بریدہ رحمۃ اللہ علیہ كہتے ہیں كہ میں نے ابو بریدہ رضی اللہ عنہ سے سنا كہہ رہے تھے : ہم نے خیبر كا محاصرہ كیا، ابو بكر رضی اللہ عنہ نے جھنڈا پكڑا لیكن انہیں فتح نہ ملی،دوسرے دن عمررضی اللہ عنہ نے جھنڈا پكڑا لیكن انہیں بھی فتح نہیں ملی اور واپس پلٹ آئے۔ اس دن لوگوں كو سخت مشقت محسوس ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:كل میں ایسے شخص كو جھنڈا دوں گا جو اللہ اور اس كے رسول سے محبت كرتا ہوگا اور اللہ اور اس كا رسول اس سے محبت كرتے ہوں گے۔ جب تك فتح نہیں ہوگی وہ واپس نہیں پلٹے گا۔ ہم رات خوش ہو كر سوئے كہ كل فتح ہو جائے گی، جب صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح كی نماز پڑھائی، پھر كھڑے ہو كر جھنڈا منگوایا ۔ لوگ اپنی صفوں میں تھے، ہم میں سے جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے كسی بھی حد تك قریب تھا وہ امید لگائے ہوئے تھا كہ جھنڈا اسے ملے گا۔ آپ نے علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب كو بلایا ان كی آنكھوں میں تكلیف تھی۔ آپ نے ان كی آنكھوں میں لعاب مبارك ڈالا ان پر ہاتھ پھیرا اور جھنڈا انہیں دے دیا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں فتح دی۔ میں ان لوگوں میں تھا جنہوں نے خیبر كی طرف پیش قدمی كی۔
عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس قریش كے اسی(۸۰)آدمیوں میں تےے،ان میں صرف قریشی ہی تھے۔ اللہ كی قسم میں نے اس دن لوگوں كے چہروں سے زیادہ ہشاش بشاش چہرے نہیں دیكھے۔ انہوں نے عورتوں كا ذكر كیا تو ان كے بارے میں باتیں كرنے لگے۔ آپ بھی ان كے ساتھ شامل ہوگئے حتی كہ میں خواہش كرنے لگا كہ آپ خاموش ہو جائیں۔ پھر میں آپ كے پاس آیا تو آپ نے کلمہ شہادت پڑھا، پھر فرمایا: اما بعد: اے قریش كی جماعت! تم اس امارت كے اہل ہو جب تك تم اللہ كی نا فرمانی نہ كرو گے۔ جب تم اللہ كی نافرمانی كرنے لگ جاؤ گے تو تمہاری طرف ایسے لوگ بھیجے جائیں گے جو تمہیں اس چھڑی کی طرح چھیل دیں گے، آپ نے اپنے ہاتھ میں موجود چھڑی كی طرف اشارہ كیا ، پھر اسے چھیل دیا تو وہ اندر سے سفید نكلی۔
عرباض بن ساریہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صبح كی نماز كے بعد ایك فصیح و بلیغ (دلوں تك اثر كرنے والا) وعظ كیا جس سے آنكھیں بہہ پڑیں اور دل ڈر گئے۔ آپ كے صحابہ میں سے ایك آدمی نے كہا: اے اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو الوداع ہونے والے كی گفتگو ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں اللہ كے تقویٰ اور سمع و اطاعت كی وصیت كرتا ہوں اگرچہ تم پر كوئی حبشی غلام ہی كیوں نہ مقرر ہو، كیوں كہ تم میں سے جو شخص میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت زیادہ اختلاف دیكھے گا۔ اس لئے تم میرے بعد میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء كا طریقہ لازمی طور پر اختیار كرنا، اسے دانتوں سے مضبوطی سے پكڑ لینا۔(دین میں) نئے كاموں سے بچنا، كیوں كہ ہر نیا كام بدعت ہے ، اور ہر بدعت گمراہی ہے
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما كہتے ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس دین كا ابتدائی حصہ نبوت اور رحمت ہے۔ پھر خلافت اور رحمت ہوگا، پھر بادشاہت او رحمت ہوگا ، پھر اس بادشاہت پر لوگ گدھوں كی طرح ایک دوسرے کو کاٹیں گے ، تب تم پر جہاد لازم ہے، اور افضل جہاد رِبَاطْ (سرحدوں كی حفاظت ) ہے۔ اور افضل رباط عسقلان كا ہے۔
عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے كہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے كہا: جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیماری سے نڈھال ہو گئے اور تكلیف بڑھ گئی تو آپ نے اپنی بیویوں سے میرے گھر میں بیماری كے ایام گزارنے كی اجازت لی۔ سب نے آپ كو اجازت ے دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو آدمیوں كے سہارے زمین پر پاؤں گھسیٹتے ہوئے باہر نكلے۔ عباس رضی اللہ عنہ اور ایك دوسرے شخص كے درمیان ، عبیداللہ نے كہا كہ عبداللہ بن عباسرضی اللہ عنہ نے كہا: جانتے ہو دوسراآدمی كون تھا؟ میں نے كہا: نہیں۔ انہوں نے كہا: وہ علیرضی اللہ عنہ تھے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان كرتی ہیں كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے گھر میں داخل ہوئے اور بخار كی شدت بڑ گئی تو آپ نے فرمایا: مجھ پر سات ایسے مشكیزوں سے پانی ڈالو جن كے منہ نہ كھولے گئے ہوں۔ ممكن ہے میں لوگوں سے عہد لوں، انہیں حفصہ رضی اللہ عنہا كے ٹب میں بٹھایا گیا، پھر ہم ان پر ان مشكیزوں سے پانی ڈالنا شروع ہوئے ،حتی كہ آپ نے ہمیں اشارہ كیا كہ تم نے اپنا كام كر لیا۔ پھر آپ لوگوں كی طرف چلے گئے
معقل بن یساررضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: كوئی بھی شخص رعایا كا نگران بنا اور اس نے ان سے دھوكہ كیا تو وہ آگ میں جائے گا۔