عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبریل علیہ السلام میرے پاس سبز چادر میں آئے جس میں موتی جڑے ہوئے تھے۔
حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ میں بیٹھے ہوئے تھے، اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےان سے کہا: کیا تم سن رہے ہو جو میں سن رہا ہوں؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: ہم تو کوئی آواز نہیں سن رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں آسمان کے چرچرانے کی آواز سن رہا ہوں، اور اس کے چرچرانے پر اسے ملامت نہیں کی جا سکتی ،آسمان میں بالشت بھر بھی جگہ خالی نہیں جہاں کوئی فرشتہ سجدے کی حالت میں یا قیام کی حالت میں نہ ہو
حذیفہ بن یمانرضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس براق لایا گیا یہ ایک لمبا سفید جانور ہے، انتہائے نظر پر اس کا قدم پڑتا ہے۔ میں اور جبریل علیہ السلام اس کی پیٹھ پر بیٹھے رہے حتی کہ ہم بیت المقدس آگئے۔ ہمارے لئے آسمان کے دروازے کھول دیئے گئے۔ میں نے جنت اور جہنم دیکھی۔ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس میں نماز نہیں پڑھی، زر بن بن حبیشرضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے حذیفہرضی اللہ عنہ سے کہا: کیوں نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی تھی ،حذیفہ نے کہا: تمہارا کیا نام ہے؟گنجے انسان! میں تمہارا چہرہ پہچانتا ہوں ، لیکن نام نہیں جانتا۔میں نے کہا: میں زر بن جیش ہوں۔ انہوں نے کہا: تمہیں کس طرح معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی ہے؟ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (الاسراء:۱)کہنے لگے: کیا تمہیں اس میں نماز کا ذکر ملتا ہے؟ اگر وہ نماز پڑھتے تو تم بھی اس میں اسی طرح نماز پڑھتے جس طرح مسجد حرام میں پڑھتے ہو ۔ زررضی اللہ عنہ نے کہا: اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کڑے کے ساتھ اپنی سواری باندھی جس کڑے کے ساتھ دوسرے انبیاء علیہما السلام اپنی سواریاں باندھا کرتے تھے۔ حذیفہرضی اللہ عنہ نے کہا: کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا خوف تھا کہ وہ بھاگ جائے گی حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اسے بھیجا تھا؟
انسرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ جندب یا ان کے علاوہ کسی دوسرےصحابی سے بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدم اور موسیٰ علیہم السلام میں جھگڑا ہوا تو آدم علیہ السلام ،موسیٰ علیہ السلام سے جیت گئے
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےکہ حارث بن ہشام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: آپ کے پاس وحی کس طرح آتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کبھی میرے پاس گھنٹیوں کی آواز کی صورت میں آتی ہے ،اور یہ مجھ پر سب سے سخت مرحلہ ہوتا ہے، جب یہ کیفیت مجھ سے ختم کی جاتی ہے تو مجھے یاد ہو جاتا ہے اور کبھی فرشتہ آدمی کی صورت میں آتا ہے ،جو وہ کہتا ہے میں یاد کر لیتا ہوں۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے (نعمان) یعنی عرفہ میں عہد لیا، اللہ تعالیٰ نے ان کی پشت سے ہر انسان کو نکالا جو پیدا ہونے والا تھا، اور گرد و غبار کے ذرات کی طرح ان کے سامنے بکھیر دیا، پھر ان سے متوجہ ہو کر بات کی فرمایا: (الاعراف:۱۷۲،۱۷۳)کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ وہ کہنے لگے :کیوں نہیں، ہم گواہی دیتے ہیں(یہ اس وجہ سے) کہ کہیں تم قیامت کے دن یہ نہ کہو کہ ہم اس بارے میں لاعلم تھے یا تم کہو کہ ہمارے باپ دادا نے اس سے پہلے شرک کیا اور ہم تو ان کے بعد ان کی اولاد تھے کیا تو ہمیں باطل لوگوں کے فعل کی وجہ سے ہلاک کر ے گا؟
جابررضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ: مجھے اجازت دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عرش کو اٹھانے والےفرشتوں میں سے ایک فرشتے کے بارے میں بتاؤں ،اس کے کان سے لے کر کاندھے تک کا فاصلہ سات سو سال کی مسافت کا ہے۔
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ (اسی آیت کہ) جنت کی چوڑائی آسمان و زمین کے برابر ہے۔ تو جہنم کہاں ہے؟ آپ نے فرمایا: تمہارا اس رات کے بارے میں کیا خیال ہے جس نے تم سے ہر چیز کو چھپا دیا کہ وہ کہاں رکھی ہوئی ہے؟ اس نے کہا: اللہ بہتر جانتا ہے۔ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔( )
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جہنم نے اپنے رب سے شکایت کی اور کہنے لگی: میرے بعض حصے نے دوسرے کو کھا لیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اسے دو سانس لینے کی اجازت دی، ایک سانس سردی میں اور دوسرا گرمی میں، اس کا سردی کا سانس سردی کی شدت اور گرمی کا سانس گرمی شدت ہے۔
عبیداللہ بن انس سے(مرسلا) مروی ہے کہ: دو میں سے پہلا بد بخت وہ شخص ہے جس نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں اوربعد والے لوگوں میں دوسرا بد بخت وہ شخص ہے جو تجھے نیزہ مارے گا اے علی !اور آپ نے نیزا مارے جانے والی جگہ کی طرف اشارہ کیا۔
ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک اعرابی کے پاس آئے ،اس نے آپ کی مہمانی کی آپ نے اس سے کہا: ہمارے پاس آنا، وہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اور ایک روایت میں ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک اعرابی کے مکان پر اترے تو اس نے آپ کی مہمانی کی) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: ہم سے وعدہ کرو کہ ہمارے پاس آؤ گے ،وہ اعرابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: اپنی ضرورت بیان کرو، اس نے کہا: ایک اونٹنی کجاوے کے ساتھ اورکچھ بکریاں جن کا میری گھر والے دودھ نکالیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس بات سے عاجز آگئے ہو کہ تم بنی اسرائیل کی بڑھیا جیسے بن جاؤ؟( آپ کے صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! بنی اسرائیل کی بڑھیا کون تھی؟)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: موسیٰ علیہ السلام جب بنی اسرائیل کو کرلے کر مصر سے نکلے تو راستہ بھٹک گئے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا:یہ کیا ہے؟ ان کے علماء نے کہا:( ہم آپ کو بتاتے ہیں) جب یوسف علیہ السلام کی موت کا وقت آیا تو انہوں نے اللہ کی طرف سے ہم سے پختہ عہد لیا تھا کہ جب تک ہم ان کی ہڈیوں کو اپنے ساتھ منتقل نہیں کریں گے مصر سے نہیں نکلیں گے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: ان کی قبر کی جگہ کے بارے میں کون جانتاہے؟ کہنے لگے:(ہمیں نہیں معلوم کہ یوسف علیہ السلام کی قبر کہاں ہے؟) ہاں، بنی اسرائیل کی ایک بڑھیا ہے، موسیٰ علیہ السلام نے اس کی طرف پیغام بھیجا وہ آئی تو موسیٰ علیہ السلام نے کہا: ہمیں یوسف علیہ السلام کی قبر بتاؤ۔ اس نے کہا:(نہیں ،واللہ میں ایسا نہیں کروں گی)جب تک تم میرا فیصلہ قبول نہیں کرو گے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: تمہارا فیصلہ کیا ہے؟ وہ کہنے لگی: میں آپ کے ساتھ جنت میں رہوں گی، موسیٰ علیہ السلام کو یہ بات نا گوار لگی کہ اس کا فیصلہ قبول کریں ۔اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی کی کہ اس کا فیصلہ قبول کر لو، وہ انہیں لے کر ایک تالاب کی طرف گئی جو پانی سے بھرا ہوا تھا لیکن نکاس نہ تھا، کہنے لگی: یہ پانی نکالو، تو انہوں نے پانی نکالا تو بڑھیا کہنے لگی: گڑھا کھودو اور یوسف علیہ السلام کی ہڈیاں نکال لو۔ جب انہوں نے گڑھا کھودواتو راستہ دن کی روشنی کی طرف واضح ہوگیا۔( )
عوف بن مالکرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ: یہودی اکہتر(۷۱) فرقوں میں تقسیم ہوئے، ایک جنت میں اور ستر جہنم میں، عیسائی بہتر(۷۲) فرقوں میں تقسیم ہوئے ایک جنت میں اور اکہتر(۷۱) جہنم میں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میری امت تہتر(۷۳) فرقوں میں تقسیم ہوگی، ایک جنت میں اور بہتر(۷۲) جہنم میں جائیں گے۔ پوچھا گیا کہ: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ کون لوگ ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ جماعت والے ہوں گے
مجاہد سے مروی ہے کہتے ہیں کہ ہم عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھے تھے ۔لوگوں نے دجال کا ذکر چھیڑاتو کسی نے کہا: اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کا فر لکھا ہوگا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا۔ لیکن آپ نے فرمایا: رہی بات ابراہیم علیہ السلام کی تو اپنے ساتھی کی طرف دیکھ لو، اور موسیٰ علیہ السلام تو وہ سخت گھنگھریالے بالوں والے گندمی رنگ کے کھجور کے درخت کی چھال سے بٹی ہوئی رسی کی نکیل ڈالے ہوئے سرخ اونٹ پر سوار ہیں۔ گویا کہ میں انہیں دیکھ رہا ہوں جب وہ تلبیہ پڑھتے ہوئے وادی میں اترے
عبدالرحمن بن حسنہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ ہمیں کئی سانڈے (گوہ) ملے، ہانڈیاں جوش مار رہی تھیں، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنی اسرائیل کی ایک امت کے چہرے تبدیل کردیے گئے تھے مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ ہی نہ ہو۔ یعنی سانڈہ۔ عبدالرحمن رضی اﷲ عنہ نے کہا: ہم نے بھوکے ہونے کے باوجود وہ ہانڈیاں الٹ دیں۔
نافع، سائبہ (فاکہ بن مغیرہ کی آزاد کردہ لونڈی) سے بیان کرتے ہیں کہ وہ عائشہ رضی اﷲ عنہا کے پاس آئی تو ان کے گھر میں ایک نیزہ رکھا ہوا دیکھا۔ کہنے لگی: ام المومنین! آپ اس نیزے کا کیا کرتی ہیں؟ عائشہ رضی اﷲ عنہا نے کہا: ہم اس کے ساتھ چھپکلیوں کو قتل کرتے ہیں، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا کہ: ابراہیم علیہ السلام کو جب آگ میں ڈالا گیا تو زمین کا ہر جانور ان کی آگ بجھا رہا تھا سوائے چھپکلی کے۔ یہ اس آگ میں پھونک مار رہی تھی، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قتل کا حکم دیا۔
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ: اللہ تعالیٰ نے مجھے اجازت دی ہے کہ میں ایسے مرغ کے بارے میں بتاؤں جس کے پاؤں زمین میں ہیں اور اس کی گردن عرش کے نیچےجھکی ہوئی ہے اور وہ کہہ رہا ہے: تو پاک ہے اے ہمارے رب! تو کتنا عظیم ہے۔ تو اسے جواب دیا جاتا ہے یہ بات وہ شخص نہیں جانتا جو میری جھوٹی قسم کھاتا ہے۔
ابو نضرہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک صحابی بیمار ہوگیا ،اس کے ساتھی اس کے پاس اس کی عیادت کرنے کے لئے آئے ،وہ رونے لگا۔کسی نے اس سے کہا: اے اللہ کے بندے! کیوں رو رہے ہو؟ کیا تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات نہیں کہی کہ اپنی مونچھیں کاٹتے رہو حتی کہ مجھ سےملاقات کرلو؟ اس نے کہا: کیوں نہیں، لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: اللہ تعالیٰ نے اپنے دائیں ہاتھ میں ایک مٹھی بھری اور فرمایا: یہ اس (جنت)کے لئے ہے اور مجھے کوئی پرواہ نہیں ، اور دوسری مٹھی بھری ، یعنی دوسرے ہاتھ میں۔ اور فرمایا: یہ اس(جہنم) کے لئے ہے اور مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں کونسی مٹھی میں ہوں
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جب مخلوق پیدا فرمائی تو اپنے ہاتھ سے اپنے بارے میں لکھا کہ: میری رحمت میرے غصے پر غالب رہے گی
ابو موسیٰ اشعریرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہےکہ: اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو ایک مٹھی سے جو اس نے پوری زمین سے لی تھی، پیدا فرمایا اس لئے آدم علیہ السلام کی اولاد زمین کے رنگ پر پیدا ہوتی ہے ان میں سرخ بھی ہیں سفید بھی اور سیاہ بھی اور ان رنگوں کے درمیان بھی ، نرم بھی سخت بھی ،خبیث بھی اور پاکیزہ بھی
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے مرفوعا مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو اندھیرے میں پیدا فرمایا: اور ان پر اپنا نورڈالا تو جس شخص تک یہ نور پہنچ گیا وہ ہدایت پاگیا اور جس تک نہیں پہنچا وہ گمراہ ہوگیا۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اسی لئے میں کہتا ہوں کہ: جو ہونے والا ہے اسے لکھ کر قلم خشک ہو چکا ہے۔( )
عبدالرحمن بن قتادہ سلمی رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ اللہ عزوجل نے آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا، پھر ان کی پشت سے مخلوق لی اور فرمایا: یہ جنت کی طرف جائیں گے مجھے ذرہ بھر بھی پرواہ نہیں، اور یہ جہنم کی طرف جائیں گے مجھے ذرہ بھر بھی پرواہ نہیں۔ کسی شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! پھر ہم کس بنا پر عمل کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تقدیر کے مواقع پر
(۳۱۰۸)انسرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ اللہ عزوجل نے ایک مٹھی بھری اور فرمایا: جنت میں میری رحمت کے ساتھ اور ایک دوسری مٹھی بھری ،فرمایا: جہنم میں ، مجھے ذرا بھی پرواہ نہیں
ابراہیم بن سعد رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ: مجھے میرے والد نے بتایا، انہوں نے کہا: میں مسجد میں حمید بن عبدالرحمن کے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا ،بنی غفار کا ایک باوقار بزرگ گزرا، ان کے کانوں میں بہراپن یااونچا سننے کی بیماری تھی ،حمید نے اس کی طرف کسی کو بھیجا۔ جب وہ آگیا تو حمید نے کہا: بھتیجے درمیان میں جگہ بناؤ، کیوں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی ہے۔ وہ آئے اور ہمارے درمیان آکر بیٹھ گئے۔حمید نے اس سے کہا: وہ حدیث تو بیان کیجئے جو آپ نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی تھی۔ اس بزرگ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، فرما رہے تھے: اللہ عزوجل بادل کرتا ہے۔وہ خوبصورت انداز میں بات کرتا ہے اور بہترین انداز میں ہنستا ہے
عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:پہلا شخص جس نے سوائب(سائبہ وہ اونٹنی جو بتوں کے نام پر چھوڑ دی جاتی تھی) کا رواج ڈالا اور بتوں کی عبادت کی، ابو خزاعہ عمرو بن عامر تھا۔ اور میں نے اسے دیکھا کہ وہ آگ میں اپنی انتڑیاں گھسیٹ رہا ہے
عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام کے بعد ایک شخص کو اپنا خلیفہ بنایا، ایک مرتبہ وہ بیت المقدس کے اوپر چاندنی رات میں نماز پڑھ رہا تھا۔ آپ نے کچھ معاملات کا ذکر کیا جو وہ کیا کرتا تھا۔وہ اسی کے ذریعے نیچے اترے اور اسی مسجد کےساتھ لگی رہی اور اور وہ چلے گئے۔ پھر فرمایا : وہ چلتے رہے حتی کہ سمندرکے کنارے ایک قوم کے پاس آئے۔ انہوں نے دیکھا کہ وہ اینٹیں بنا رہے ہیں ، ان سے پوچھا: تم یہ اینٹیں بنانے کی کیا اجرت لیتے ہو؟ ان لوگوں نے اسے بتایا تو وہ بھی ان کے ساتھ اینٹیں بنانے لگے۔ اور اپنے ہاتھ کی کمائی کھانے لگے۔ جب نماز کا وقت ہوتا تو وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگےا۔ مزدوروں نے یہ بات اپنے مالک تک پہنچائی کہ ہم میں ایک شخص اس طرح کا کام کر رہا ہے ۔اس مالک نے ان کی طرف بلاوا بھیجا لیکن انہوں نے آنے سے انکار کر دیا۔ تین مرتبہ ایسا ہوا۔ پھر وہ اپنی سواری پر بیٹھ کر آیا جب انہوں نے اسے دیکھا تو بھاگ کھڑے ہوئے وہ اس کے پیچھےبھاگنے لگا اور اس سے آگے بڑھ گیا۔ وہ کہنے لگا: مجھے مہلت دو میں تم سے بات کرنا چاہتا ہوں ۔وہ کھڑےہوئے اس سے بات کرنے لگےاور اپنے متعلق بتایا جب اس نےاسے بتایا کہ وہ بادشاہ تھا اور اپنے رب کے ڈر سے بھاگا ۔اس نے کہا: میرا بھی یہی خیال ہے کہ میں تم سے مل جاؤں گا، پھر وہ اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا: وہ دونوں اللہ کی عبادت کرتے رہے حتی کہ مصر کےصحرامیں فوت ہوئے۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں اگر میں وہاں ہوتا تو جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ان دونوں کی قبر کی نشانی بتائی ہے میں تمہیں ان دونوں کی قبریں دکھاتا۔( )