عمر بن خطابرضی اللہ عنہ سے اللہ تعالیٰ كے اس قول كے بارے میں مروی ہے: وَ اِذَا الۡمَوۡءٗدَۃُ سُئِلَتۡ ۪ۙ﴿۸﴾ (التکویر) (اور جب زندہ در گور كی گئی لڑكی سے پوچھا جائے گا )كہا كہ:قیس بن عاصم رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس آئے اور كہا: اے اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے زمانہ جاہلیت میں اپنی (آٹھ)بیٹیاں زندہ درگور كیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ان میں سے ہر ایك كی طرف سے ایك گردن آزاد كرو، اس نے كہا: میرے پاس اونٹ ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تب تم نحر كرو(اور ایك روایت میں ہے:اگر تم چاہو تو ہر ایك كی طرف سے قربانی كرو)ایك اونٹنی۔
) ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص خود كو نیزہ مار كر ہلاك كرتا ہے، وہ جہنم میں بھی خود كو نیزہ مارتا رہے گا، اور جو خود کو گر کر ہلاک کرتا ہے وہ جہنم میں بھی اپنے آپ کو گراتا رہے گا۔ اور جو شخص خود کو گلا گھونٹ كر (پھندا ڈال كر) ہلاك كرتا ہے، وہ جہنم میں بھی اپنا گلا گھونٹتا رہے گا
انسرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ مومن كی نیكی كے بارے میں ظلم نہیں كرتا ۔ دنیا میں بھی اس كے بدلے اسے رزق پہنچایا جاتا ہے اور آخرت میں بھی اس كا بدلہ دیا جائے گا۔ جب كہ كافر كو اس كی نیكیوں كے بدلے( جو اس نے اللہ كے لئے عمل كئے ہونگے)دنیا میں بدلہ دے دیا جاتا ہے، جب وہ اللہ سے ملاقات كرے گا تو اس كی ایسی كوئی نیكی نہیں ہوگی جس كے بدلے اسے اجر دیا جائے۔
ابو موسیٰرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ رات كے وقت اپنا ہاتھ كشادہ كرتا ہے تاكہ دن كاگناہ گار توبہ كر لے اور دن كو اپنا ہاتھ كھولتا ہے تاكہ رات كاگناہ گار توبہ كر لے( یہ اس وقت تك ہوتا رہے گا) جب تك سورج مغرب سے طلوع نہ ہو جائے
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے : یقینا اللہ تعالیٰ( تمہارے جسموں) اور تمہاری صورتوں اور اموال كی طرف نہیں دیكھتا، لیكن اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں كی طرف ( اور اپنی انگلیوں سے اپنے سینے كی طرف اشارہ كیا) اور تمہارے اعمال كی طرف دیكھتا ہے۔( )
عامر بن سعد رحمہ اللہ سے مروی ہے، انہوں نے كہا کہ: سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنے اونٹوں میں تھے۔ ان كا بیٹا عمر ان كے پاس آیا ۔ جب سعد رضی اللہ عنہ نے اسے دیكھا تو كہا: میں اس سوار كے شر سے اللہ كی پناہ میں آتا ہوں۔ وہ نیچے اتر آیااور ان سے كہنے لگا، آپ اپنے اونٹوں اور بكریوں میں مشغول ہیں اور لوگ آپس میں بادشاہت كے بارے میں جھگڑا كر رہے ہیں ۔ سعد رضی اللہ عنہ نے اس كے سینے پر تھپڑ مارا اور كہا: خاموش ہو جاؤ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرما رہے تھے: یقینا اللہ تعالیٰ متقی، غنی(بے پرواہ) اور گمنام بندے كو پسند كرتا ہے
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال كیا گیا کہ كون سا عمل افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا كہ: تم اپنے مومن بھائی كو خوشی پہنچاؤ یا اس كا قرض ادا كرو یا اسے كھانا كھلاؤ
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے كہا كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مؤمن آدمی کا اللہ تعالیٰ كے ہاں ایك مرتبہ و درجہ ہوتا ہے جس پر وہ اپنے عمل کے ذریعے نہیں پہنچ سکتا۔ اللہ تعالیٰ اسے ایسی چیز كے ساتھ جسے وہ نا پسند كرتا ہے، آزماتا رہتا ہے ، حتی كہ اسے اس درجے تك پہنچا دیتا ہے
نعمان بن بشرا رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، انہوں نے كہا كہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، فرما رہے تھے: ابن آدم كےاندر ایك ٹكڑا ہے ۔ اگر وہ درست رہے تو سارا جسم درست رہتا ہے اور جب وہ خراب ہوتا ہے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے خبردار وہ دل ہے
عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص كی مثال جو برے عمل كرتا ہے، پھر نیك عمل كرتاہے، اس شخص كی طرح ہے جس پر تنگ زرہ ہو، جس نے اس كا سانس گھونٹ ركھا ہو۔ پھر اس نے ایك نیكی كی تو ایك كڑا كھل گیا، پھر دو سری نیكی كی تو دوسرا كڑا كھل گیا، حتی كہ وہ زرہ زمین پر گر گئی
عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص كی مثال جو برے عمل كرتا ہے، پھر نیك عمل كرتاہے، اس شخص كی طرح ہے جس پر تنگ زرہ ہو، جس نے اس كا سانس گھونٹ ركھا ہو۔ پھر اس نے ایك نیكی كی تو ایك كڑا كھل گیا، پھر دو سری نیكی كی تو دوسرا كڑا كھل گیا، حتی كہ وہ زرہ زمین پر گر گئی
ابو سعیدرضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے كہا: تم لوگ كچھ ایسے اعمال كرتے ہو جو تمہاری نظروں میں بال سے بھی زیادہ باریك ہیں (یعنی معمولی ہیں)۔ لیكن ہم ان اعمال كو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے دور میں ہلاكت خیز شمار كرتے تھے
عائشہ رضی اللہ عنہا سے بہتان( واقعہ افك)والے قصے كے بارے میں مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اما بعد ! اےعائشہ ! مجھے تمہارے بارے میں فلاں فلاں اطلاع ملی ہے، ( تم بھی آدم كی اولاد سے ہو) اگر تم بَری ہو تو اللہ تعالیٰ بھی تمہاری براءت كر دے گا اور اگر تم نے كوئی گناہ كیا ہے تو اللہ تعالیٰ سے استغفار كرو، اس سے توبہ كرو ، كیوں كہ بندہ جب گناہ كا اعتراف كر كے توبہ كرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس كی توبہ قبول كرتا ہے( )۔اور ایك روایت میں ہے: گناہ سے ندامت اختیار کرلینا ہی توبہ ہے۔
عوف بن مالكرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسے گناہ سے بچو جس کی (توبہ کے بغیر) بخشش نہیں (اور ایک روایت میں ہے : اور جن گناہوں کا کفارہ نہیں ) جس شخص نے کوئی خیانت کی قیامت کے دن اسے لائے گا۔ اور سود کھا نے والا، جس شخص نے سود کھا یا اسے قیا مت کے دن پاگل خبطی کی صورت میں اٹھا یا جائے گا،پھر یہ آیت تلا وت کی : اَلَّذِیۡنَ یَاۡکُلُوۡنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوۡمُوۡنَ اِلَّا کَمَا یَقُوۡمُ الَّذِیۡ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیۡطٰنُ مِنَ الۡمَسِّ(البقرة: ٢٧٥)ترجمہ:”سودخور لوگ نہ کھڑے ہوں گے مگر اسی طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہےجسے شیطان چھوکر خبطی بنادے“
سہل بن سعدرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (چھوٹے چھوٹے) معمولی اور حقیر سمجھنے جانے والے گناہوں سے بچو( كیوں كہ چھوٹےچھوٹے گناہوں كی مثال اس قوم كی طرح ہے جو ایك وادی میں ٹھہری ،ایك شخص ایك لكڑی لایا، دوسرا بھی ایك لكڑی لایا حتی كہ انہوں نے اپنی روٹیاں پكالیں۔ چھوٹے گناہ كرنے والے كو جب پكڑا جاتا ہے تو وہ گناہ اسے ہلاك كر دیتے ہیں۔
عبداللہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گناہ دلوں پر غالب آنے والا ہے اور جو بھی نظر ہوتی ہے اس میں شیطان كے لئے بھی طمع(شہوت ) كا حصہ ہوتا ہے
عطاء بن یساررحمہ اللہ سے مروی ہے كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذرضی اللہ عنہ كو یمن كی طرف بھیجا تو معاذرضی اللہ عنہ نے كہا: اے اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھےنصیحت كیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی استطاعت کے مطابق تقویٰ كو لازم كر لو، ہر پتھر اور درخت كے پاس اللہ كو یاد كرو، اور جب كوئی برا عمل كر لو تو اس كی جگہ توبہ كرو، پوشیدہ كے ساتھ پوشیدہ اعلانیہ كے ساتھ اعلانیہ
(٣٦٦٣) سہم بن معتمر سے مروی ہے، وہ ہجیمیرضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں كہ وہ مدینے آئے تو مدینے كی كسی گلی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہو گئی۔ آمنا سامنا ہوا تو دیكھا كہ سہم نے قطنی تہہ بند باندھا ہوا ہے جس كا كنارہ پھیلا ہوا تھا اس نے كہا: اے اللہ كے رسول! آپ پر سلام ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان الفاظ سے سلام تو مُردوں کا سلام ہے۔ کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے وصیت کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: كسی نیكی كے كام كو حقیر مت سمجھو اگرچہ تم کسی کو رسوی جوڑنے کے لئے رسی کا ٹکڑا ھبہ کردو۔ یا پانی مانگنے والے کے برتن میں اپنے ڈول سے پانی ڈال دو۔ اگرچہ تم اپنے مسلمان بھائی سے كشادہ چہرے سے ملو، یا تم وحشت زدہ كو خود سے انس دلاؤ ، اور اگرچہ تم ایك تسمہ ہی دو
(٣٦٦٣) ابو طویل شطب الممدود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس آیا اور كہا: آپ كا كیا خیال ہے، اگر ایك آدمی نے تمام گناہ كئے ہوں اور كوئی گناہ نہ چھوڑا ہو، اور اس نے اپنی کوئی خواہش نہ چھوڑی ہو تو كیا اس كے لئے توبہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: كیا تم مسلمان ہوگئے ہو؟ اس نے كہا:”اشہد ان لا الٰہ الا اللہ وحدہ لا شریك لہ وانك رسول اللہ“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں تم نیك كام كرو اور برے كام چھوڑ دو، اللہ تعالیٰ ان تمام گناہوں كو تمہارے لئے نیكی بنا دے گا۔ اس نے كہا: میرے دھوكے اور میری سر كشیاں اور بدکاریاں بھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں اس نے بے ساختہ كہا: اللہ اكبر اور اللہ اكبر كہتا ہوا نظروں سے اوجھل ہوگیا
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: كہ اللہ تبارك وتعالیٰ نے فرمایا: جب بندہ میری ملاقات كو پسندكرتا ہے تو میں بھی اس كی ملاقات كو پسند كرتا ہوں ، اور جب وہ میری ملاقات نا پسند كرتا ہے تو میں بھی اس كی ملاقات كو نا پسند كرتا ہوں۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، انہوں نے كہا كہ: ایك انصاری مسلمان ہو كر مرتد ہو گیا، اور مشركوں سے مل گیا، پھر شرمندہ ہوا، اور اپنی قوم كی طرف پیغام بھیجا كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھیں كہ كیا اس كے لئے تو بہ ہے؟ تو یہ آیت نازل ہوئی: (کَیۡفَ یَہۡدِی اللّٰہُ قَوۡمًا کَفَرُوۡا بَعۡدَ اِیۡمَانِہِمۡ ) (غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۸۹﴾ ) (آل عمران: ٨٦)اس کی قوم نے اس کی طرف پیغام بھیج دیا
) ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے رب كے لئے عاجزی اختیار كرتے ہوئے اور اپنے رب پرایمان ركھتے ہوئے آزمائش والے كے ساتھ ہو جا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے كسی شخص كو اس كا عمل جنت میں داخل نہیں كر وا سكے گا( اور نہ ہی آگ سے نجات دلائے گا)صحابہ نے كہا: اے اللہ كے رسول ! كیا آپ كے ساتھ بھی یہی صورتحال ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں میرے ساتھ بھی یہی صورتحال ہے( اور اپنے ہاتھ كے ساتھ اپنے سر كی طرف اشارہ كیا) مگر یہ كہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور رحمت سے اسے ڈھانپ لے( دو مرتبہ یا تین مرتبہ كہا) (سیدھے ہو جاؤ، قریب ہو جاؤ) ( اور خوش ہو جاؤ) (صبح و شام اور رات كو نیك عمل كرو، میانہ روی اختیار كرو، مقصد كو پہنچ جاؤ گے)( اور جان لو كہ اللہ تعالیٰ كو تمہارا سب سے پیارا عمل وہ لگتا ہے جو مستقل ہو اگرچہ تھوڑا ہی ہو)۔ یہ حدیث ....... سے مروی ہے
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: كچھ قومیں خواہش كریں گی كہ كاش وہ بہت زیادہ برے عمل كرتے۔ صحابہ نے پوچھا: اے اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! كس وجہ سے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ لوگ جن كی برائیاں اللہ تعالیٰ نیكیوں میں بدل دے گا۔
ابو موسیٰ اشعریرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ كو دین كے معاملات سمجھا رہے تھے کہ اچانك ان كی نگاہیں اوپر اٹھ گئیں ، فرمایا: مجھ سے ہٹ كر تمہاری نگاہیں كس چیز نے اوپر كر دیں؟ صحابہ نے كہا: ہم چاند كی طرف دیكھ رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: اس وقت تمہاری كیا حالت ہو گی جب تم اللہ كو سامنے دیكھو گے
عبیدا للہ بن جریر رحمہ اللہ سے مروی ہے، وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: كوئی قوم ایسی نہیں جس میں گناہ كے كام كئےجاتے ہوں برائی کرنے والوں کی نسبت اس سے بچنے والے زیادہ اور طاقتور ہوں ، پھر بھی وہ ان كی حالت تبدیل نہ كریں تو قریب ہے كہ اللہ تعالیٰ ان سب كو عام عذاب میں مبتلا كر دے
انسرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نكلے تو ایك اونچا قبہ (اونچا گھر) دیكھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ كیا ہے؟ صحابہ نے كہا: یہ فلاں انصاری كا گھر ہے۔ آپ خاموش رہے اور اس بات كو دل میں ركھ لیا، جب اس كا مالك رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس آیااور لوگوں كے سامنے آپ كو سلام كیا تو آپ نے منہ پھیر لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے كئی مرتبہ ایسا كیا۔ اس آدمی نے آپ كا غصہ اور منہ پھیرنا محسوس كر لیا تو اس نے صحابہ سے شكایت كی اور كہا: واللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی ناراضگی اور غصہ پہلے تو کبھی نہیں دیکھا جس کا سبب بھی معلوم نہیں۔ صحابہ نے كہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نكلے تو تمہار ا گھر دیكھا تھا، وہ آدمی اپنے گھر كی طرف آیا اور اسے گرا كر زمین كے برابر كر دیا۔ ایك دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نكلے تو قبہ نظر نہ آیا۔ آپ نے فرمایا: قبے كے ساتھ كیا ہوا؟ صحابہ نے كہا: اس كے مالك نے آپ كے منہ پھیرنے كی شكایت كی تھی تو ہم نے اسے بتایا۔ اس نے اسے گرایا ہے۔ آپ نے فرمایا: خبردار! ہر عمارت اس كے مالك پر وبال ہے سوائے اس كے جس كے بغیر گزاراہ نہ ہو۔( )
) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے دنیا طلب كی اس نے آخرت خراب كر لی اورجس شخص نے آخرت طلب كی اس نے دنیا كا نقصان اٹھایا، تو باقی رہنے والی چیز كے لئے فنا ہونے والی كا نقصان برداشت كر لو
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے دنیا طلب كی اس نے آخرت خراب كر لی اورجس شخص نے آخرت طلب كی اس نے دنیا كا نقصان اٹھایا، تو باقی رہنے والی چیز كے لئے فنا ہونے والی كا نقصان برداشت كر لو
علقمہ بن وائل رضی اللہ عنہ اپنے والد سے بیان كرتے ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے كسی آدمی كی زمین ظلم سے غصب كی تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات كرے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہوگا۔