عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے كہ ایك آدمی نے كہا: اے اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! كونسی ہجرت افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: جسے اللہ تعالیٰ نا پسند كرے اسے چھوڑ دو، اور ہجرت دو قسم كی ہے، شہری كی ہجرت ، اور دیہاتی كی ہجرت ،دیہاتی كا معاملہ یہ ہے كہ جب اسے حكم دیا جاتا ہے تو اطاعت كرتا ہے ، اور بلایا جائے تو جواب دیتا ہے۔ جب كہ شہری آزمائش میں زیادہ ہوتا ہے اور اجر میں بھی افضل ہوتا ہے۔
مسعودرضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے كہا كہ: ان سے پوچھا گیا: كیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے كہ وہ كہتے ہوں” لوگوں كا گمان ہے؟“ ابو مسعود نے كہا: (كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:)آدمی كا برا تكیہ كلام یہ ہے كہ وہ كہے: لوگوں كا گمان ہے( لوگوں كا خیال ہے)۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعا مروی ہے: تم سنتے ہو اور تم سے سنا جائے گا اور جو تم سے سنیں گے ان سے سنا جائے گا۔ اور لوگوں سے دوسرے لوگ سنتے ہیں
عائشہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان كرتی ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین باتیں ایسی ہیں جن پر میں قسم كھاتا ہوں اللہ تعالیٰ اس شخص كو جس كا اسلام میں كوئی حصہ ہے، اس آدمی كی طرح نہیں بنائےگا جس كا اسلام میں كوئی حصہ نہیں۔ اور اسلام كے تین حصے ہیں روزہ، نماز، اور صدقہ۔اللہ تعالیٰ ایسا نہیں كہ ایك بندے كو (دنیا میں) دوست بنائےاور قیامت كے دن اس كو كسی اور كے حوالے كر دے، اور جو شخص جس قوم سے محبت كرے گا قیامت كے دن انہی كے ساتھ آئے گا، اور چوتھی بات اگر میں اس پر قسم اٹھالوں تو مجھے اس بات كا ڈر نہیں كہ میں گناہ گار ہو جاؤں گا۔ وہ یہ ہے كہ: اللہ تعالیٰ جس بندے پر دنیا میں پردہ ڈالے ركھتا ہے تو قیامت كے دن بھی اس پر پردہ ڈالے گا۔
محمد بن سعد رحمہ اللہ اپنے والد سے مرفوعا بیان كرتے ہیں : تین چیزیں خوش بختی سے ہیں، اور تین چیزیں بدبختی سے ہیں۔ جو چیزیں خوش بختی سے ہیں ان میں بیوی ہے کہ: تم بیوی كو دیكھو تو تمہیں خوش کردے، اور اگر تم كہیں جاؤ تو تمہاری عزت اور مال كی حفاظت كرے۔ وہ جانور جو تمہاری سواری ہو اور تمہیں تمہارے ساتھیوں سے ملا دے، اور وہ گھر جو كشادہ اور زیادہ گنجائش والا ہو۔ اور بد بختی یہ ہے كہ تم بیوی كو دیكھو تو وہ پریشان کردے، اور وہ اپنی زبان تمہارے سامنے لمبی كرے، اور اگر تم كہیں جاؤ تو نہ تمہاری عزت كی حفاظت كرے نہ مال كی، وہ جانور جوسست رفتارہواگر تم اسے مارو تو وہ تمہیں تھكا دے، اور اگر اسے چھوڑ دو تو وہ تمہیں تمہارے ساتھیوں كے ساتھ نہ ملائے، اور وہ گھر جو تنگ اور كم گنجائش والا ہو۔
عوف بن مالك رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خواب تین قسم كے ہیں، ان میں سے شیطان كےوسوسےہیں تاكہ ان كے ذریعے ابن آدم كو غمزدہ كر دے، ان خوابوں میں سے ایسے بھی ہیں جن كا خیال آدمی دن كے وقت لاتا ہے اور رات كو نیند میں انہیں دیكھتا ہے ، اور ان خوابوں میں سے وہ بھی ہے جو نبوت كا چھیالیسواں حصہ ہیں
علیرضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے كہا كہ میں نے كہا: اے اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! جب آپ مجھے بھیجتے ہیں تو میری حیثیت ڈھالے ہوئے سکے کی ہوتی ہے یا شاہد کی جو وہ چیز دیکھتا ہے جو غائب نہیں دیکھ سکتا، یا سامنے والا ایسی چیز دیكھتا ہے جو غیر حاضر شخص نہیں دیكھ سكتا؟ آپ نے فرمایا: شاہد کی جو وہ چیز دیكھتا ہے جو غیر حاضر نہیں دیكھتا ۔
حمل بن نابغہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اس كی دو بیویاں تھیں، لحیانہك اور معاویہ جس کا تعلق بنی معاویہ بن زید سے تھا۔ ایك مرتبہ دونوں اكھٹی ہوئیں تو جھگڑپڑیں۔ معاویہ نے ایك پتھر اٹھا كر لحیانہ كو مارا۔ وہ حاملہ تھی، پتھر بھر پور انداز میں لگا اور معاویہ نے لحیانہ كو قتل كر دیا۔ اس نے بچہ گرادیا (ضایع ہوگیا)حمل بن مالك نے عمران بن عویمر سے كہا: مجھے میری بیوی كی دیت ادا كرو، وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس مسئلہ لے كر گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دیت ورثاء كے ذمے ہے۔ اور بچہ گرانے میں ‘‘غرۃ’’ یعنی دیت کا دسواں حصہ غلام یا لونڈی كا ہے
) عمررضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے: ناك میں دیت ہے، جب اسے جڑ سے كاٹ دیا جائے تو سو اونٹ ہیں، ہاتھ میں بچاس اونٹ ہیں، ٹانگ میں بچاس اونٹ۔سر کی چوٹ میں ایک تہائی دیت ہے اور پیٹ کے زخم میں ایک تہائی دیت ہے ،ہڈی توڑنے میں پندرہ اونٹ ہیں ،گوشت اتار نے میں (کہ ہڈی نظر آئے ) پانچ اونٹ ہیں ،دانت توڑنے میں پانچ اونٹ اور ہر انگلی میں دس اونٹ ہیں
) ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے: نیك صالح غلام كے لئے دوہرا اجر ہے۔ اس ذات كی قسم جس كے ہاتھ میں ابو ہریرہرضی اللہ عنہ كی جان ہے! اگر جہاد فی سبیل اللہ، حج اور اپنی ماں سے حسن سلوك(خدمت)نہ ہوتا تو مجھے یہ بات پسند تھی كہ میں غلام ہو كر مروں
) اخشن سدوسی رحمہ اللہ سے مروی ہے، انہوں نے كہا: میں انس بن مالك رضی اللہ عنہ كے پاس آیا ۔ انہوں نے كہا كہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرما رہے تھے: اس ذات كی قسم جس كے ہاتھ میں میری جان ہے! یا فرمایا: اس ذات كی قسم جس كے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم كی جان ہے! اگر تم اتنی خطائیں كرو كہ زمین و آسمان كا خلا پر ہو جائے، پھر تم اللہ عزوجل سے استغفار كرو تو وہ تمہیں بخش دے گا۔ اس ذات كی قسم جس كے ہاتھ میں محمد كی جان ہے! یا فرمایا: اس ذات كی قسم جس كے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تم خطائیں نہ كروتو اللہ عزوجل ایسی قوم كو لے آئے گا جو خطائیں كرے گی، پھر اللہ سے استغفار كریں گی، اور اللہ تعالیٰ انہیں بخش دے گا۔
نافع سے مروی ہے كہ: عمررضی اللہ عنہ نے ایک فوجی مہم بھیجی، جن کا سپہ سالار ساریہ نامی آدمی کو بنایا اسی دوران عمررضی اللہ عنہ خطبٔہ جمعہ ارشاد فرما رہے تھے، دوران خطبہ كہا: اے ساریہ! پیاڑ۔ اے ساریہ! پہاڑ۔ انہوں نے اس وقت ساریہ کو پہاڑ کی طرف سے حملہ کرتا ہوا پایا۔ حالانکہ ان کے درمیان ایک مہینے کی مسافت تھی۔
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مرفوعا مروی ہے كہ: اے عائشہ! تمہاری قوم مجھے سب سے جلد ملے گی۔ جب آپ بیٹھ گئے تو میں نے كہا: اے اللہ كے رسول ! اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان كرے، آپ ایسی بات كہتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے جس نے مجھے گھبراہٹ میں ڈال دیا۔ آپ نے فرمایا: وہ كیا بات ہے؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے كہا: آپ كا خیال ہے كہ میری قوم آپ كی امت میں سب سے پہلے آپ سے ملے گی؟ آپ نے فرمایا: ہاں ، عائشہ رضی اللہ عنہا نے كہا: یہ كس وجہ سے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خواہشات انہیں شیریں محسوس ہونگی اور ان کی امت کے لوگ ان پر حسد کریں گے۔میں نے كہا: اس كے بعد كیسے لوگ ہونگے یا ان سے متصل؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ٹڈی(یا چیونٹی) کی طرح طاقتور لوگ كمزوروں كو كھائیں گے، یہاں تك كہ ایسے ہی لوگوں پر قیامت آجائے گی۔