Blog
Books
Search Quran
Lughaat

اَلسَّفْہُ: اس کے اصل معنیٰ جسمانی ہلکاپن کے ہیں اسی سے بہت زیادہ مضطرب رہنے والی مہار کو زِمَامٌ سَفِیْہٌ کہا جاتا ہے اور ثَوبٌ سَفِیْہٌ کے معنیٰ ردی کپڑے کے ہیں۔ پھر اس سے یہ لفظ نقصان عقل کے سبب خفت نفس کے معنیٰ میں استعمال ہونے لگا ہے۔ چنانچہ محاورہ ہے سَفِہَ نَنْسَہٗ (1) جو اصل میں سَفِہَ نَفْسُہٗ ہے پھر اس سے فعل کی نسبت قطع کرکے بطور تمیز کے اسے منصوب کردیا ہے۔ جیسے بَطِرَ مَعِیْشَتَہٗ کہ یہ اصل میں بَطِرَتْ مَعِیْشَتُہٗ ہے۔ (2) اور سَفْہٌ کا استعمال امور دنیوی اور اخروی دونوں کے متعلق ہوتا ہے چنانچہ امور دنیوی میں سفاہت کے متعلق فرمایا: (وَ لَا تُؤۡتُوا السُّفَہَآءَ اَمۡوَالَکُمُ) (۴:۵) اور بے عقلوں کو ان کا مال … مت دو۔ اور سفاہت اخروی کے متعلق فرمایا: (وَّ اَنَّہٗ کَانَ یَقُوۡلُ سَفِیۡہُنَا عَلَی اللّٰہِ شَطَطًا) (۷۲:۴) اور یہ کہ ہم میں سے بعض بے وقوف خدا کے بارے میں جھوٹ افتراء کرتے ہیں۔ یہاں سفاہت دینی مراد ہے جس کا تعلق آخرت سے ہے اور آیت کریمہ: (اَنُؤۡمِنُ کَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَہَآءُ ؕ اَلَاۤ اِنَّہُمۡ ہُمُ السُّفَہَآءُ ) (۲:۱۳) تو کہتے ہیں کیا اسی طرح ہم بھی ایمان لے آئیں؟ میں ان کو سفیہ کہہ کر متنبہ کیا ہے کہ ان کا مؤمنین کو سُفَھَآئُ کہنا بنابر حماقت ہے اور خود ان کی نادانی کی دلیل ہے۔ اسی معنیٰ میں فرمایا: (سَیَقُوۡلُ السُّفَہَآءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰىہُمۡ عَنۡ قِبۡلَتِہِمُ الَّتِیۡ کَانُوۡا عَلَیۡہَا) (۲:۱۴۲) احمق لوگ کہیں گے کہ مسلمان جس قبلہ پر (پہلے چلے آتے تھے) اب اس سے کیوں منہ پھیر بیٹھے۔

Words
Words Surah_No Verse_No
السُّفَهَاۗءُ سورة البقرة(2) 13
السُّفَهَاۗءُ سورة البقرة(2) 13
السُّفَهَاۗءُ سورة البقرة(2) 142
السُّفَهَاۗءُ سورة الأعراف(7) 155
السُّفَھَاۗءَ سورة النساء(4) 5
سَفَاهَةٌ سورة الأعراف(7) 67
سَفَاهَةٍ سورة الأعراف(7) 66
سَفَهًۢا سورة الأنعام(6) 140
سَفِهَ سورة البقرة(2) 130
سَفِيْهًا سورة البقرة(2) 282
سَفِيْهُنَا سورة الجن(72) 4