Blog
Books
Search Quran
Lughaat

اَلْوُرُوْدُ:یہ اصل میں وَرَدْتُّ الْمَائَ (ض) کا مصدر ہے جس کے معنی پانی کا قصد کرنے کے ہے۔پھر ہر جگہ کا قصد کرنے پر بولا جاتا ہے اور پانی پر پہنچنے والے کو وَارِدٌ اور پانی کو مَوْرُوْدٌ کہا جاتا ہے اور اَوْرَدَ الْاِبِلَ: (افعال) عَلَی الْمَائِ کے معنی اونٹوں کو پانی پر وارد کرنے کے ہیں۔قرآن پاک میں ہے:۔ (وَ لَمَّا وَرَدَ مَآءَ مَدۡیَنَ ) (۲۸۔۲۳) اور جب مدین کے پانی کے مقام پر پہنچے۔ اَلْوِرْدُ:اس پانی کو کہتے ہیں جو وارد ہونے کے لئے تیار کیا گیا ہو۔اور یہ صَدْرٌ (لوٹنا) کی ضد بن کر بھی استعمال ہوتا ہے اور بخار کی باری کے دن کو بھی وِرْدٌ کہتے ہیں۔اور تقطیع کے طور پر دوزخ کی آگ میں داخل ہونے پر بھی وَرَدَ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جیسے فرمایا۔ (فَاَوۡرَدَہُمُ النَّارَ ؕ وَ بِئۡسَ الۡوِرۡدُ الۡمَوۡرُوۡدُ ) (۱۱۔۹۸) اور ان کو دوزخ میں جا اتاردے گا اور جس مقام پر وہ اتارے جائیں گے وہ برا ہے۔ (اِلٰی جَھَنَّمَ وِرْدَا) (۱۹۔۸۷) دوزخ کی طرف پیاسے۔ (اَنْتُمْ لَھَا وٰرِدُوْنَ) (۲۱۔۹۸) تم (سب) اس میں داخل ہوکر رہو گے۔ (مَّاوَرَدُوْھَا) (۲۱۔۹۹) تو اس میں داخل نہ ہوتے۔ اَلْوَارِدُ: (ایضاً) اس شخص کو بھی کہا گیا ہے جو قافلے کے آگے جاکر پانی لاتا ہے۔جیسے فرمایا:۔ (فَاَرْسَلُوْا وَارِدَھُمْ) (۱۲۔۱۹) اور انہوں نے (پانی کے لئے) اپنا سقّا بھیجا۔ہر وہ شخص جو پانی پر پہنچ جائے اسے بھی وارد کہا جاتا ہے۔اور آیت (وَ اِنۡ مِّنۡکُمۡ اِلَّا وَارِدُہَا) (۱۹۔۷۱) اور تم میں سے کوئی (شخص) نہیں مگر اسے اس پر سے گزرنا ہوگا۔میں بعض نے وَارِدُھَا کو وَرَدْتُ مَاء کَذا۔کے محاورہ سے لیا ہے جس کے معنی پانی پر حاضر ہونے کے ہیں اور اس میں اترنا شرط نہیں ہے۔ (1) اور بعض نے کہا ہے کہ اس میں اترنا بھی شرط ہے اور اولیاء اﷲ اور صالحین بھی ایک مرتبہ دوزخ کی آگ میں داخل ہوں گے لیکن ان پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔بلکہ ان کی حالت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سی ہوگی کہ جب انہیں آگ میں ڈالا گیا تو ان پر آگ کا کچھ بھی اثر نہ ہوا۔ (2) چنانچہ قرآن پاک میں ہے۔ (قُلۡنَا یٰنَارُ کُوۡنِیۡ بَرۡدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤی اِبۡرٰہِیۡمَ ) (۲۱۔۶۹) ہم نے حکم دیا اے آگ!سرد ہوجا اور ابراہیم علیہ السلام پر (موجب سلامتی بن جا) ۔اور اس مسئلہ پر بحث کے لئے ذرا تفصیل درکار ہے جو یہاں پر ہمارا مقصد نہیں۔اور جس شخص کو باری کا بخار چڑھا ہوا ہو اسے بھی مَوْرُوْدٌ کہا جاتا ہے۔اور شَعْرٌ وَارِدٌ لمبے بالوں کو کہتے ہیں جو عورت کی کمر یا اس کے سرینوں تک دراز ہوں۔ اَلْوَرِیْدُ:رگ جس کا تعلق جگر اور دل کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ خون اور روح کا مجری بنتی ہے۔قرآن پاک میں ہے:۔ (وَ نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِیۡدِ) (۵۰۔۱۶) اور ہم اس کی رگ جان سے بھی اس سے زیادہ قریب ہیں۔یعنی اس کی روح سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ اَلْوَرْدُ:اصل میں گل سرخ کو کہتے ہیں اور یہ وَارِدٌ سے ہے جس کے معنی قافلے سے پہلے پانی پر آنے والا کے ہیں۔مشہور ہے کہ گلاب کا پھول تمام پھولوں سے پہلے ظاہر ہوتا ہے۔اس لئے اسے وَرْدٌ کہا جاتا ہے پھر ہر درخت کے پھول کو (مجازاًوَرْدُ کہہ دیتے ہیں۔چنانچہ درخت کے پھولدار ہونے پر وَرَّدَ الشَّجَرُ بولا جاتا ہے۔پھر گھوڑے کے رنگ کو بھی گل سرخ کے ساتھ تشبیہ دے کر فَرْسٌ وَرْدٌ کہا جاتا ہے اور آثار قیامت کے طور پر جب آسمان سرخ ہوجائے گا تو اسے بھی قرآن پاک نے وَرْدَۃٌ کہا ہے۔چنانچہ ارشاد ہے۔ (فَکَانَتْ وَرْدَۃً کَالدِّھَانِ) (۵۵۔۳۷) تلچھٹ کی طرح گلابی ہوجائے گا (تو وہ کیسا ہولنکا دن ہوگا) ۔

Words
Words Surah_No Verse_No
الْمَوْرُوْدُ سورة هود(11) 98
الْوَرِيْدِ سورة ق(50) 16
الْوِرْدُ سورة هود(11) 98
فَاَوْرَدَهُمُ سورة هود(11) 98
وَارِدَهُمْ سورة يوسف(12) 19
وَارِدُهَا سورة مريم(19) 71
وَرَدَ سورة القصص(28) 23
وَرَدُوْهَا سورة الأنبياء(21) 99
وَرْدَةً سورة الرحمن(55) 37
وِرْدًا سورة مريم(19) 86
وٰرِدُوْنَ سورة الأنبياء(21) 98