اَلْجَمَالُ کے معنی حسن کثیر کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے۔ (۱) خوبی جو خاص طور پر بدن، نفس یا عمل میں پائی جاتی ہے۔ (۲) وہ خوبی جو دوسرے تک پہنچنے کا ذریعہ بنتی ہے اسی معنی میں مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: (1) (۶۶) اِنَّ اﷲَ جَمِیلٌ یُحِبُّ الْجَمَالَ کہ اﷲ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔ یعنی اﷲ تعالیٰ سے خیرات کثیرہ کا فیضان ہوتا ہے لہٰذا جو اس صفت کے ساتھ متصف ہوگا۔ وہی اﷲ تعالیٰ کو محبوب ہوگا۔ اور قرآن پاک میں ہے: (وَ لَکُمۡ فِیۡہَا جَمَالٌ حِیۡنَ تُرِیۡحُوۡنَ ) (۱۶:۶) اور جب شام کو انہیں جنگل سے لاتے ہو … تو ان سے تمہاری عزت و شان ہے۔ اور جَمِیْلٌ وَجُمَّالٌ: مبالغہ کے صیغے ہیں۔ قرآن پاک میں ہے: (فَصَبۡرٌ جَمِیۡلٌ) (۱۲:۱۸) اچھا صبر (کہ وہی) خوب ہے۔ (فَاصۡبِرۡ صَبۡرًا جَمِیۡلًا ) (۷۰:۵) تو تم (کافروں کی باتوں کو) حسن صبر کے ساتھ برداشت کرتے رہو۔ جَامَلْتُ فُلَانًا۔ کسی کے ساتھ اچھا معاملہ کرنا تواضع انکساری سے پیش آنا۔ اَجْمَلْتُ فِیْ کَذَا: کسی کام کو عمدگی سے سرانجام دینا۔ اعتدال اختیار کرنا جَمَالَکَ: یعنی اعتدال سے کام لو۔ پھر اس سے کثرت کے معنی کا اعتبار کرکے ہر مجموعہ ایشاء کو جملہ کہتے ہیں اسی سے مجموعی حساب کو بھی جس کی تفصیل نہ کی گئی ہو جملہ کہا جاتا ہے۔ اور جس کلام کی تفصیل بیان نہ کی گئی ہو اسے مُجْمَلٌ کہا جاتا ہے اور اَجْمَلْتُ الْحِسَابَ وَاَجْمَلْتُ فِی الْکَلَامِ کے معنی حساب یا کلام کو اجمال سے بیان کرنے کے ہیں۔ قرآن پاک میں ہے: (وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَوۡ لَا نُزِّلَ عَلَیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ جُمۡلَۃً وَّاحِدَۃً ) (۲۵:۳۲) اور کافر کہتے ہیں کہ اس پر قرآن پاک ایک ہی دفعہ کیوں نہ اُتارا گیا۔ اور فقہا نے مجمل کی تعریف میں جو یہ کہا ہے کہ اَلْمُجْمَلُ مَا یَحْتَاجُ اِلٰی الْبَیَانِ کہ مجمل وہ ہوتا ہے کہ جو بیان کا محتاج ہو تو یہ مُجْمَلٌ کی تحدید یا تفسیر نہیں ہے، بلکہ صرف اس کی ایک حالت کا ذکر ہے جو بعض لوگوں کو پیش آتی ہے اور شے کی تحدید میں اس کے کسی کو پیش آتی ہے، اور شے کی تحدید میں اس کے کسی ایسے ذاتی وصف کا بیان کرنا ضروری ہوتا ہے، جس سے وہ ممتاز ہوجائے اور مجمل درحقیقت وہ ہے جو بہت سی اشیاء کے ایسے مجموعہ پر مشتمل ہو جن کی تلخیص نہ کی گئی ہو۔ الْجَمَلُ: جوان اونٹ، جو کم از کم پانچ سال کا ہو۔ اس کی جمع جِمَال وَاَجْمَالُ وَجِمَالَۃٌ آتی ہے قرآن پاک میں ہے۔ (حَتّٰی یَلِجَ الۡجَمَلُ فِیۡ سَمِّ الۡخِیَاطِ) (۷:۴۰) یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں سے نہ نکل جائے۔ اور آیت کریمہ ہے: (کَاَنَّہٗ جِمٰلَتٌ صُفۡرٌ ) (۷۷:۳۳) گویا زرد رنگ کے اونٹ ہیں۔ میں جِمٰلَتٌ جِمَالَۃٌ کی جمع ہے اور جِمَالَۃٌ جَمَلٌ کی اور ایک قرأت میں جُمَالَاتٌ بضمۂ جیم ہے۔ اور بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی جو ان اونٹنیوں کے ہیں۔ اَلْجَامِلُ: اونٹوں کا گلہ جن کے ساتھ ان کا چرواہا بھی ہو یہ بَاقِرٌ کی طرح ہے اور اِتَّخَذَ اللَّیْلَ جَمَلًا (کہ اس نے رات کو اونٹ بنالیا) محاورہ مجاز پر محمول ہے جس کے معنی ہیں: اس نے ساری رات سفر کیا۔ جیساکہ رَکِبَ اللَّیْلَ کا محاورہ ہے اور اونٹ کو جَمَلٌ کہنے کی یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ عرب لوگ اونٹ کو اپنے لیے باعث زینت اور فخر سمجھتے تھے جیساکہ آیت: (وَلَکُمْ فِیْھَا جَمَالٌ) میں اشارہ پایا جاتا ہے۔ جَمَلْتُ الشَّحْمَ: چربی پگھلانا اور پگھلائی ہوئی چربی کو اَلْجَمِیْلُ کہا جاتا ہے اور اجْتِمَالٌ کے معنی چربی کو بطور تیل ملنے کے ہیں، ایک عورت نے اپنی لڑکی سے کہا: (تَجَمَّلِیْ وَتَعَفَّفِیْ: یعنی چربی پگھلا کر کھایا کرو۔ اور عفافہ یعنی تھنوں میں باقی ماندہ دودھ پیا کرو۔
Words | Surah_No | Verse_No |
الْجَمَلُ | سورة الأعراف(7) | 40 |
الْجَمِيْلَ | سورة الحجر(15) | 85 |
جَمَالٌ | سورة النحل(16) | 6 |
جَمِيْلًا | سورة الأحزاب(33) | 28 |
جَمِيْلًا | سورة الأحزاب(33) | 49 |
جَمِيْلًا | سورة المعارج(70) | 5 |
جَمِيْلًا | سورة المزمل(73) | 10 |
جَمِيْلٌ | سورة يوسف(12) | 18 |
جَمِيْلٌ | سورة يوسف(12) | 83 |
جُمْلَةً | سورة الفرقان(25) | 32 |
جِمٰلَتٌ | سورة المرسلات(77) | 33 |