اَلْجَدُّ: (مصدر ض) کے اصل معنی ہموار زمین پر چلنے کے ہیں۔ اسی سے جَدَّ فِی سَیْرِہٖ ہے جس کے معنی تیز روی کے ہیں اور جب کوئی شخص اپنے معاملہ میں محنت اور جانفشانی سے کام کرے تو کہا جاتا ہے: جَدَّ فِیْ اَمْرِہٖ اور اَجَدَّ (افعال) کے معنی صاحب جد ہونے کے ہیں اور جَدَدْتُ الْاَرْضَ سے کسی چیز کو کاٹنے کا معنی لیا جاتا ہے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے جَدَدْتُہٗ (میں نے درست کرنے کے لیے اسے کاٹا) اور ثَوْبٌ جَدِیْدٌ کے اصل معنی قطع کیے ہوئے کپڑا کے ہیں اور چونکہ جس کپڑے کو کاٹا جاتا ہے وہ عموماً نیا ہوتا ہے، اس لیے ہر نئی چیز کو جَدِیْدٌ کہا جانے لگا ہے اس بنا پر آیت: (بَلۡ ہُمۡ فِیۡ لَبۡسٍ مِّنۡ خَلۡقٍ جَدِیۡدٍ ) (۵۰:۱۵) میں خلق جدید سے نشاۃ ثانیہ یعنی مرنے کے بعد دوبارہ نئے سرے سے پیدا ہونا مراد ہے، کیونکہ کفار اس کا انکار کرتے ہوئے کہتے تھے: (ءَاِذَا مِتۡنَا وَ کُنَّا تُرَابًا ۚ ذٰلِکَ رَجۡعٌۢ بَعِیۡدٌ ) (۵۰:۳) بھلا جب ہم مرگئے اور مٹی ہوگئے (تو پھر زندہ ہوں گے؟) یہ زندہ ہونا (عقل سے) بعید ہے۔ او رجدید (نیا) خلق یعنی پرانا کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے، اس اعتبار سے رات دن کو جَدِیْدَانِ اور اَجَدَّانِ کہا جاتا ہے۔ اور آیت : (وَ مِنَ الۡجِبَالِ جُدَدٌۢ بِیۡضٌ ) (۳۵:۲۷) اور پہاڑوں پر سفید رنگ کے قطعات ہیں۔ میں جُدَدٌ کا واحد جُدَّۃٌ ہے، جس کے معنی کھلے راستہ کے ہیں او ریہ طَرِیْقٌ مَجْدُوْدٌ کے محاورہ سے ماخوذ ہے، یعنی وہ راستہ جس پر چلا جائے، اسی سے جَادَّۃُ الطَّرِیْقِ ہے، (جس کے معنی شاہراہ یا ہموار اور راستہ کے درمیانی حصہ کے ہیں، جس پر عام طور پر آمدورفت ہوتی رہتی ہے۔) اَلْجَدُوْدُ وَالْجَدَّائُ: خشک تھنوں والی بھیڑ بکری اور سب و شتم کے طور پر کہا جاتا ہے۔ جُدَّ ثَدْیُ اُمِّہٖ اس کی ماں کے پستان خشک ہوجائیں اور جَدُّ کا لفظ فیض الٰہی پر بھی بولا جاتا ہے، چنانچہ آیت کریمہ: (وَّ اَنَّہٗ تَعٰلٰی جَدُّ رَبِّنَا) (۷۲:۳) اور یہ کہ ہمارے پروردگار کا فیضان بہت بڑا ہے۔ میں جَدٌّ بمعنی فیض الٰہی ہی کے ہیں۔ بعض کے نزدیک اس کے معنی عظمت کے ہیں (1) لیکن اس کا مرجع بھی معنی اوّل کی طرف ہی ہے اور اﷲ تعالیٰ کی طرف اس کی اضافت اختصاص ملک کے طریق سے ہے اور حظوظ دنیوی جو اﷲ تعالیٰ انسان کو بخشتا ہے پر بھی جَدٌّ کا لفظ بولا جاتا ہے، جس کے معنی بخت و نصیب کے ہیں۔ جیسے کہا جاتا ہے: جُدِدْتُ وَحَظِظت خوش قسمت اور صاحب نصیب ہوگیا اور حدیث (۵۸) وَلَا یَنْفَعُ ذَالْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ۔ کے معنی یہ ہیں کہ دنیاوی مال و جاہ سے آخرت میں ثواب حاصل نہیں ہوسکے گا، بلکہ اُخروی ثواب کے حصول کا ذریعہ صرف طاعت الٰہی ہے۔ جیساکہ آیت: (من کان یرید …… نشآء) کے بعد فرمایا: (وَ مَنۡ اَرَادَ الۡاٰخِرَۃَ وَ سَعٰی لَہَا سَعۡیَہَا وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ فَاُولٰٓئِکَ کَانَ سَعۡیُہُمۡ مَّشۡکُوۡرًا ) (۱۷:۱۹) اور جو شخص آخرت کا خواستگار ہو اور اس میں اتنی کوششیں کرے۔ جتنی اسے لائق ہے اور وہ مؤمن بھی ہو تو ایسے ہی لوگوں کی کوشش ٹھکانے لگتی ہے۔ نیز اس معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: (یَوۡمَ لَا یَنۡفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوۡنَ ) (۲۶:۸۸) جس دن نہ مال ہی کچھ فائدہ دے گا اور نہ بیٹے۔ اَلْجَدُّ (ایضًا) دادا ۔ نانا۔ بعض نے کہا ہے کہ لَایَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ کے معنی یہ ہیں کہ اسے آبائی نسب فائدہ نہیں دے گا اور جس طرح کہ آیت: ( لَا یَنۡفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوۡنَ ) میں اولاد کے فائدہ بخش ہونے کی نفی کی ہے، اسی طرح حدیث میں آباؤاجداد کے نفع بخش ہونے کی نفی کی گئی ہے۔