اَلْبَثُّ (ن ض) اصل میں بَثٌّ کے معنی کسی چیز کو متفرق اور پراگندہ کرنا کے ہیں جیسے بثَّ الرِّیْحُ التُّرَابَ۔ ہوا نے خاک اڑائی، اور نفس کے سخت تریں غم یا بھید کو بَثُّ النفس کہا جاتا ہے۔ بَئَثْتُہٗ فَانْبَثَّ میں نے اسے منتشر کیا، چنانچہ وہ منتشر ہوگیا اور اسی سے (فَکَانَتۡ ہَبَآءً مُّنۡۢبَثًّا ۙ) (۵۶:۶) ہے یعنی پھر وہ منتشر ذرات کی طرح اڑنے لگیں اور آیت کریمہ: (وَ بَثَّ فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ دَآبَّۃٍ ) (۲:۱۶۴) کے معنی یہ ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے زمین میں ہر قسم کے جانوروں کو پیدا کیا اور ان کو ظہور بخشا اور آیت: (کَالۡفَرَاشِ الۡمَبۡثُوۡثِ ۙ) (۱۰۱:۴) میں المبثوث سے مراد وہ پروانے ہیں جو مخفی اور پرسکون جگہوں میں بیٹھے ہوں اور ان کو پریشان کردیا گیا ہو۔ اور آیت : ( اِنَّمَاۤ اَشۡکُوۡا بَثِّیۡ وَ حُزۡنِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ) (۱۲:۸۶) میں بَثَّ کے معنی سخت ترین اور یہ پوشیدہ غم کے ہیں جو وہ ظاہر کررہے ہیں اس صورت میں مصدر بمعنی مفعول ہوگا۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مصدر بمعنی فاعل ہو یعنی وہ غم جس نے میری فکر کو منتشر کررکھا ہے، جیساکہ تو زعَنِی الْفِکرُ کا محاورہ ہے یعنی مجھے فکر نے پریشان کردیا۔
Words | Surah_No | Verse_No |
الْمَبْثُوْثِ | سورة القارعة(101) | 4 |
بَثَّ | سورة الشورى(42) | 29 |
بَثِّيْ | سورة يوسف(12) | 86 |
مَبْثُوْثَةٌ | سورة الغاشية(88) | 16 |
مُّنْۢبَثًّا | سورة الواقعة(56) | 6 |
وَبَثَّ | سورة البقرة(2) | 164 |
وَبَثَّ | سورة النساء(4) | 1 |
وَبَثَّ | سورة لقمان(31) | 10 |
يَبُثُّ | سورة الجاثية(45) | 4 |