Blog
Books
Search Hadith

اس مسح کی مشروعیت کا بیان

1247 Hadiths Found
سیدنا بریدہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فتح مکہ والے دن وضو کیا اور موزوں پر مسح کیا، سیدنا عمر ؓ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے کہا: اے اللّٰہُ کے رسول! آپ نے آج ایسا کام کیا ہے، جو پہلے نہیں کرتے تھے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: عمر! میں نے عمداً ایسے کیا ہے۔

Haidth Number: 737
زر بن حبیش کہتے ہیں: میں سیدنا صفوان بن عسال ؓ کے پاس گیا اور موزوں پر مسح کرنے کے بارے میں سوال کیا، انھوں نے کہا: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے ساتھ ہوتے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ ہمیں حکم دیتے تھے کہ ہم سفر میں پائخانہ، پیشاب اور نیند کی وجہ سے تین دنوں تک موزوں نہ اتارا کریں، البتہ جنابت سے اتارنا پڑیں گے۔ اتنے میں ایک بلند آواز والا بدّو آیا اور اس نے کہا: اے محمد! ایک آدمی ، ایک قوم سے محبت تو رکھتا ہے، لیکن وہ ابھی تک اس کو ملا نہیں ہے؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: آدمی ان کے ساتھ ہو گا، جن سے وہ محبت رکھتا ہے۔

Haidth Number: 757
سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے ایک رات نمازِ عشا کو مؤخر کر دیا، یہاں تک لوگ سو گئے، پھر بیدار ہوئے، پھر سو گئے، پھر بیدار ہوئے۔ بالآکر سیدنا عمر بن خطاب ؓآئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! نماز پڑھائیں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ تشریف لے آئے اور لوگوں کو نماز پڑھائی، راوی نے اس قسم کی کوئی بات ذکر نہیں کی کہ انھوں نے وضو کیا تھا۔

Haidth Number: 769
سیدنا انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ نماز عشاء کے لیے اقامت کہہ دی گئی یا ایک رات نمازِ عشا کو مؤخر کر دیا گیا، پس ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے آپ سے کوئی کام ہے، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ اس کے ساتھ سرگوشی کرنے لگے، یہاں تک کہ لوگ سونے لگ گئے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے نماز پڑھائی اور وضو کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔

Haidth Number: 770
Haidth Number: 771
سیدنا علیؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں بہت زیادہ سونے والا آدمی تھا، اس لیے جب میں مغرب پڑھتا اور مجھ پر میرے کپڑے ہوتے تو میں سو جاتا، پھر ایک دفعہ یحییٰ بن سعید نے علیؓ کی بات نقل کرتے ہوئے یہ کہا: تو میں عشاء سے پہلے سو جاتا پس جب میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے اس کے بارے میں سوال کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے مجھے رخصت دے دی۔

Haidth Number: 772
سیدنا انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ جب عورت حائضہ ہو جاتی تو یہودی لوگ نہ اس کے ساتھ کھاتے تھے اور نہ اس کے ساتھ ہم بستری کرتے تھے، جب صحابہ نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے اس بارے میں دریافت کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: {وَیَسْأَلُونَکَ عَنِ الْمَحِیْضِ قُلْ ہُوَ أَذًی فَاعْتَزِلُوا النِّسَائَ فِی الْمَحِیْضِ وَلَا تَقْرَبُوہُنَّ حَتَّی یَطْہُرْنَ فَاِذَا تَطَھَّرْنَ فَأْتُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ اَمَرَکُمُ اللّٰہُ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَ۔}… آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں، کہہ دیجئے کہ وہ تکلیف دہ چیز ہے، حالت ِ حیض میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیںان کے قریب نہ جاؤ، ہاں جب وہ پاک ہو جائیں تو ان کے پاس جاؤ، جہاں سے اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے، اللہ بہت توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور بہت پاک رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔ (سورۂ بقرہ: ۲۲۲) آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: ہم بستری کے علاوہ ہر چیز کر سکتے ہو۔

Haidth Number: 930
سیدہ عائشہؓ سے مروی ہے کہ جب وہ (حجۃ الوداع کے موقع پر) مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے پہلے سرِف مقَامَ پر حائضہ ہو گئی تھیں، تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌نے ان سے فرمایا تھا: تم بھی وہی کچھ کرتی رہو، جو کچھ حاجی لوگ کر رہے ہیں، البتہ بیت اللہ کا طواف نہیں کرنا۔

Haidth Number: 931
سیدہ عائشہؓ سے مروی ہے، وہ سیدہ ام حبیبہ بنت جحشؓ کا قصہ بیان کرتی ہوئے کہتی ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے ان سے فرمایا: جب حیض کا خون شروع ہو جائے تو نماز چھوڑ دیا کر اور جب وہ ختم ہو جائے تو غسل کر کے نماز پڑھنا شروع کر دیا کر۔

Haidth Number: 932
معاذہ کہتی ہیں: میں نے سیدہ عائشہؓ سے سوال کیا: کیا وجہ ہے کہ حائضہ خاتون روزوںکی قضائی دیتی ہے اور نماز کی قضائی نہیں دیتی؟ انھوں نے مجھ سے کہا: کیا تو حروراء علاقے سے ہے؟ میں نے کہا: جی میں حروریہ نہیں ہوں، ویسے سوال کر رہی ہوں، پس انھوں نے کہا: ہمیں یہ حیض آتا تھا، جبکہ ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے ساتھ ہوتی تھیں، تو ہمیں (کچھ کا) حکم دیا جاتا تھا اور (کچھ کا) ہمیں حکم نہیں دیا جاتا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ روزوں کی قضائی کا حکم دیتے تھے اور نمازوں کی قضائی کا حکم نہیں دیتے تھے۔

Haidth Number: 933

۔ (۹۸۱)۔ عَنْ عَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍؓ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَرَّسَ بِأُوَلَاتِ الْجَیْشِ وَمَعَہُ عَائِشَۃُ زَوْجُتُہُؓ فَانْقَطَعَ عِقْدٌ لَہَا مِنْ جَزْعِ ظَفَارٍ فَحُبِسَ النَّاسُ ابْتِغَائَ عِقْدِہَا وَذٰلِکَ حِیْنَ أَضَائَ الْفَجْرُ وَلَیْسَ مَعَ النَّاسِ مَائٌ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہِ رُخْصَۃَ التَّطَہُّرِ بِالصَّعِیْدِ الطَّیِّبِ، فَقَامَ الْمُسْلِمُوْنَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَضَرَبُوْا بِأَیْدِیْہِمُ الْاََرْضَ ثُمَّ رَفَعُوْا أَیْدِیَہُمْ وَلَمْ یَقْبِضُوْا مِنَ التُّرَابِ شَیْئًا فَمَسَحُوْا بِہَا وُجُوْہَہُمْ وَأَیْدِیَہُمْ اِلَی الْمَنَاکِبِ وَمِنْ بُطُوْنِ أَیْدِیْہِمْ اِلَی الْآبَاطِ، وَلَا یَغْتَرُّ بِھٰذَا النَّاسُ، وَبَلَغَنَا أَنَّ أَبَا بَکْرٍ قَالَ لِعَائِشَۃَؓ: وَاللّٰہِ! مَا عَلِمْتُ اِنَّکِ لَمُبَارَکَۃٌ۔ (مسند أحمد: ۱۸۵۱۲)

سیدنا عمار بن یاسرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے رات کے آخری حصے میں اولات الجیش کے مقام پر پڑاؤ ڈالا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے ساتھ آپ کی بیوی سیدہ عائشہؓ بھی تھیں، ان کا ظفار کے موتیوں کا ہاتھ گم ہو گیا اور لوگوں کو اس ہار کی تلاش کے لیے روک لیا گیا، اُدھر فجر روشن ہو رہی تھی اور لوگوں کے پاس پانی بھی نہیں تھا، پس اللہ تعالیٰ نے پاک مٹی سے طہارت حاصل کرنے کی رخصت نازل کر دی، پس مسلمان رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے ساتھ کھڑے ہوئے اور انھوں نے اپنے ہاتھ زمین پر مارے، پھر ان کو اٹھایا اور مٹی ہاتھوں کے ساتھ بالکل نہیں اٹھائی۔ پھر ان کو اپنے چہروں پر پھیرا اور اپنے ہاتھوں کے ظاہری حصے سے کندھوں تک اور باطنی حصے سے بغلوں تک، ان حصوںپر بھی ہاتھ پھیرے۔ لیکن لوگوں کو اس کیفیت سے دھوکہ نہیں ہونا چاہیے اور ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ سیدنا ابو بکر ؓ نے سیدہ عائشہؓ سے کہا: اللہ کی قسم! مجھے جو بات سمجھ آئی ہے وہ یہ ہے کہ تو بہت برکت والی ہے۔

Haidth Number: 981

۔ (۹۸۲)۔حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ حَدَّثَنِیْ أَبِیْ ثَنَا عَفَّانُ ثَنَا عَبْدُالْوَاحِدِ ثَنَا سُلَیْمَانُ الْأَعْمَشُ ثَنَا شَقِیْقٌ قَالَ: کُنْتُ قَاعِدًا مَعَ عَبْدِ اللّٰہِ (یَعْنِیْ ابْنَ مَسْعُوْدٍ) وَأَبِیْ مُوْسَی الْأَشْعَرِیِّ فَقَالَ أبو مُوْسٰی لِعَبْدِ اللّٰہِ: لَوْ أَنَّ رَجُلًا لَمْ یَجِدِ الْمَائَ لَمْ یُصَلِّ؟ فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: لَا، فَقَالَ أَبُوْ مُوْسٰی: أَمَا تَذْکُرُ اِذْ قَالَ عَمَّارٌ لِعُمَرَ: أَلَا تَذْکُرُ اِذْ بَعَثَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاِیَّاکَ فِیْ اِبِلٍ فَأَصَابَتْنِیْ جَنَابَۃٌ فَتَمَرَّغْتُ بِالتُّرَابِ، فَلَمَّا رَجَعْتُ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَخْبَرْتُہُ فَضَحِکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَالَ: ((اِنَّمَا کَانَ یَکْفِیْکَ أَنْ تَقُوْلَ ہٰکَذَا۔)) وَضَرَبَ بِکَفَّیْہِ اِلَی الْاََرْضِ ثُمَّ مَسَحَ کَفَّیْہِ جَمِیْعًا وَمَسَحَ وَجْہَہُ مَسْحَۃً وَاحِدَۃً بِضَرْبَۃٍ وَاحِدَۃٍ، فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: لَاجَرَمَ مَا رَأَیْتُ عُمَرَ قَنَعَ بِذٰلِکَ، قَالَ: فَقَالَ لَہُ أَبُوْ مُوْسٰی: فَکَیْفَ بہٰذِہِ الْآیَۃِ فِیْ سُوْرَۃِ النِّسَائِ {فَلَمْ تَجِدُوْا مَائً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا}؟ قَالَ: فَمَا دَرٰی عَبْدُ اللّٰہِ مَایَقُوْلُ، وَقَالَ: لَوْ رَخَّصْنَا لَہُمْ فِی التَّیَمُّمِ لَأَوْشَکَ أَحَدُہُمْ اِنْ بَرَدَ الْمَائُ عَلَی جِلْدِہِ أَنْ یَتَیَمَّمَ، قَالَ عَفَّانُ: وَأَنْکَرَہُ یَحْیٰی یَعْنِی ابْنَ سَعِیْدٍ، فَسَأَلْتُ حَفْصَ بْنَ غَیَاثٍ فَقَالَ: کَانَ الْأَعْمَشُ یُحَدِّثُنَا بِہِ عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ وَذَکَرَ أَبَا وَائِلٍ۔ (مسند أحمد: ۱۸۵۱۹)

شقیق کہتے ہیں: میں سیدنا عبد اللہ بن مسعود اور سیدنا ابو موسی اشعری ؓ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، سیدنا ابو موسی ؓ نے سیدنا عبد اللہ ؓ سے کہا: اگر کسی آدمی کو پانی نہ ملے تو وہ نماز نہیں پڑھے گا؟ انھوں نے کہا: جی نہیں، سیدنا ابو موسیؓ نے کہا: کیا تمہیں یاد نہیں ہے کہ سیدنا عمار ؓ نے سیدنا عمر ؓ سے کہا: کیا تم کو یاد نہیں رہا کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے مجھے اور آپ کو اونٹوں کے ساتھ بھیجا تھا، مجھے جنابت لاحق ہو گئی تھی، پس میں مٹی میں لیٹا تھا، لیکن جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی طرف واپس لوٹا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کو یہ بات بتلایا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ مسکرائے اور فرمایا: صرف تجھے یہ کافی تھا کہ تو اس طرح کر لیتا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اپنی ہتھیلیوں کو ایک دفعہ زمین پر مارا اور ان کو اپنی ہتھیلیوں ( کی پشتوں) پر اور چہرے پر ایک ایک دفعہ پھیر دیا۔ لیکن سیدنا عبد اللہ ؓ نے کہا: یقینا، میں نے نہیں دیکھا کہ سیدنا عمر ؓ نے اس پر قناعت کی ہو، سیدنا ابو موسی ؓ نے کہا: تو پھر آپ سورۂ نساء والی اس آیت کے بارے میں کیا کہیں گے: پس تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کر لو۔ اس مقام پر سیدنا عبد اللہ ؓ کو کوئی جواب نہ آیا، البتہ انھوں نے یہ کہا: اگر ہم ان کو تیمم کی رخصت دیں تو قریب ہے کہ جب کسی کو پانی ٹھنڈا لگے گا تو وہ تیمم کرے گا۔

Haidth Number: 982

۔ (۹۸۳)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ حَدَّثَنِیْ أَبِیْ ثَنَا أَبُوْمُعَاوِیَۃَ ثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ شَقِیْقٍ قَالَ: کُنْتُ جَالِسًا مَعَ أَبِیْ مُوْسٰی وَعَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ: فَقَالَ أَبُوْمُوْسٰی: یَا أَبَا عَبْدِالرَّحْمَانِ! أرَأَیْتَ لَوْ أَنَّ رَجُلًا لَمْ یَجِدِ الْمَائَ وَقَدْ أَجْنَبَ شَہْرًا أَمَا کَانَ یَتَیَمَّمُ؟ قَالَ: لَا، وَلَوْ لَمْ یَجِدِ الْمَائَ شَہْرًا (فَذَکَرَ نَحْوَ الْحَدِیْثِ الْمُتَقَدِّمِ وَفِیْہِ) قَالَ لَہُ أَبُوْ مُوْسٰی: أَلَمْ تَسْمَعْ لِقَوْلِ عَمَّارٍ؟ بَعَثَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ حَاجَۃٍ فَأجْنَبْتُ فَلَمْ أَجِدِ الْمَائَ فَتَمَرَّغْتُ فِی الصَّعِیْدِ کَمَا تَمَرَّغُ الدَّابَۃُ، ثُمَّ أَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لَہُ، فَقَالَ: ((اِنَّمَا کَانَ یَکْفِیْکَ أَنْ تَقُوْلَ وَضَرَبَ بِیَدِہِ عَلَی الْأَرْضِ، ثُمَّ مَسَحَ کُلَّ وَاحِدَۃٍ مِنْہُمَا بِصَاحِبَتِہَا ثُمَّ مَسَحَ بِہِمَا وَجْہَہُ (وَفِیْہِ) قَالَ عَبْدُالرَّحْمَانِ: قَالَ أَبِیْ: وَقَالَ أَبُوْ مُعَاوِیَۃِ مَرَّۃً: قَالَ: فَضَرَبَ بِیَدِہِ عَلَی الْاََرْضِ ثُمَّ ضَرَبَ بِشِمَالِہِ عَلٰی یَمِیْنِہِ وَیَمِیْنِہِ عَلٰی شِمَالِہِ عَلَی الْکَفَّیْنِ ثُمَّ مَسَحَ وَجْہَہُ۔ (مسند أحمد: ۱۸۵۱۸)

۔ (دوسری سند) شقیق کہتے ہیں: میں سیدنا ابو موسی ؓاور سیدنا عبد اللہ ؓ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، سیدنا ابو موسی ؓ نے کہا: اے ابو عبد الرحمن! اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے کہ ایک آدمی کو (غسل کے لیے) پانی نہیں ملتا، جبکہ وہ ایک مہینہ سے جنبی ہے، کیا وہ تیمم نہیں کرے گا؟ انھوںنے کہا: جی نہیں، اگرچہ اس کو ایک ماہ تک پانی نہ ملے۔ پھر سابق حدیث کی مانند حدیث ذکر کی، البتہ اس میں ہے: سیدنا ابو موسی ؓ نے کہا: کیا آپ نے سیدنا عمار ؓکی بات نہیں سنی؟ وہ کہتے ہیں: مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے ایک کام کے لیے بھیجا، پس میں جنبی ہو گیا اور غسل کے لیے پانی نہ ملا، پس میں جانور کی طرح مٹی میں لیٹا اور پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس آیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کو یہ بات بتلائی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: تجھے تو یہ کافی تھا کہ تو اس طرح کرتا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اپنے ہاتھ زمین پر مارے، پھر ہر ہاتھ کو دوسرے پر پھیرا اور دونوں ہاتھوں کو چہرے پر پھیر لیا۔ اس میں مزید یہ الفاظ بھی ہیں: ایک دفعہ ابو معاویہ نے یہ طریقہ یوں بیان کیا: پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اپنے ہاتھ زمین پر مارے، پھر بائیں ہاتھ کو دائیں پر اور دائیں کو بائیں پر ہتھیلیوں پر پھیرا اور پھر اپنے چہرے پر پھیر لیا۔

Haidth Number: 983
۔ (تیسری سند) سیدنا ابو موسی ؓ نے سیدنا عبد اللہ ؓ سے کہا: اگر ہمیں پانی نہ ملے (جبکہ ہم جنبی ہوں) تو کیا نماز نہیں پڑھیں گے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، اگر ایک ماہ تک بھی پانی نہ ملے تو ہم نماز نہیں پڑھیں گے، اگر میں اس معاملے میں لوگوں کو رخصت دے دوں تو جو کوئی آدمی سردی محسوس کرے گا، وہ تیمم کر کے نماز پڑھنا شروع کر دے گا۔ سیدنا ابو موسیؓ نے کہا: تو پھر وہ بات کہاں جائے گی جو سیدنا عمار ؓ نے سیدنا عمرؓ سے کہی تھی؟ انھوں نے کہا: وہ تو سیدنا عمرؓ نے سیدنا عمارؓ کے قول پر قناعت ہی نہیں کی تھی۔

Haidth Number: 984

۔ (۹۸۵)۔عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبْزٰی قَالَ: کُنَّا عِنْدَ عُمَرَ فَأَتَاہُ رَجُلٌ فَقَالَ: یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ! اِنَّا نَمْکُثُ الشَّہْرَ وَالشَّہْرَیْنِ لَا نَجِدُ الْمَائَ، فَقَالَ عُمَرُ: أَمَّا أَنَا فَلَمْ أَکُنْ لِأُصَلِّیَ حَتّٰی أَجِدَ الْمَائَ، فَقَالَ عَمَّارٌ: یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ! تَذْکُرُ حَیْثُ کُنَّا بِمَکَانِ کَذَا کَذَا وَنَحْنُ نَرْعَی الْاِبِلَ فَتَعْلَمُ أَنَّنَا أَجْنَبْنَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَاِنِّیْ تَمَرَّغْتُ بِالتُّرَابِ فَأَتَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَحَدَّثْتُہُ فَضَحِکَ وَقَالَ: ((کَانَ الصَّعِیْدُ کَافِیَکَ۔)) وَضَرَبَ بِکَفَّیْہِ الْاََرْضَ ثُمَّ نَفَخَ فِیْہِمَا ثُمَّ مَسَحَ بِہِمَا وَجْہَہُ وَبَعْضَ ذِرَاعَیْہِ۔ قَالَ: اِتَّقِ اللّٰہَ، یَا عَمَّارُ! قَالَ: یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ! اِنْ شِئْتَ لَمْ أَذْکُرْہُ مَا عِشْتُ أَوْ مَا حَیِیْتُ، قَالَ: کَلَّا وَاللّٰہِ، وَلٰکِنْ نُوَلِّیْکَ مِنْ ذٰلِکَ مَا تَوَلَّیْتَ۔ (مسند أحمد: ۱۹۰۸۸)

عبد الرحمن بن ابزی کہتے ہیں: ہم سیدنا عمر ؓ کے پاس تھے، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا: اے امیر المؤمنین! ہم ایک ایک اور دو دو ماہ ٹھہرتے ہیں اور پانی نہیں پاتے؟ سیدنا عمر ؓ نے کہا: رہا مسئلہ میرا، تو میں تو اس وقت تک نماز نہیں پڑھوں گا، جب تک مجھے پانی نہیں ملے گا۔ یہ سن کر سیدنا عمار ؓ نے کہا: اے امیر المؤمنین! آپ کو یاد ہو گا کہ جب ہم فلاں جگہ پر اونٹ چرا رہے تھے اور ہمیں جنابت لاحق ہو گئی تھی۔ سیدنا عمر ؓ نے کہا: جی ہاں، سیدنا عمار ؓ نے کہا: پس میں مٹی میں لیٹا تھا اور جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس آکر یہ بات ذکر کی تھی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ ہنس پڑے تھے اور فرمایا تھا: تجھے مٹی ہی کافی تھی۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اپنی ہتھیلیوں کو زمین پر مارا، پھر ان میں پھونک ماری اور ان کو اپنے چہرے اور بازوؤں کے بعض حصوں پر پھیر دیا۔ یہ سن کر سیدنا عمر ؓ نے کہا: اے عمار! اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ انھوں نے کہا: اے امیرے المؤمنین! اگر آپ چاہتے ہیں تو میں زندگی بھر یہ چیز بیان نہیں کروں گا، سیدنا عمر ؓ نے کہا: ہر گز نہیں، اللہ کی قسم! تم جس چیز کی ذمہ داری خودلینا چاہتے ہو، ہم تم کو اس کا ذمہ دار بنا دیتے ہیں۔

Haidth Number: 985
سیدنا عمار بن یاسرؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے تیمم کے بارے میں سوال کیا، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: ہتھیلیوں اور چہرے کے لیے ایک ضرب ہے۔ ایک روایت میں ہے: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے تیمم کے بارے میں فرمایا: چہرے اور ہتھیلیوں کے لیے ایک ضرب ہے۔

Haidth Number: 986
مولائے ابن عباس عمیر کہتے ہیں: میں اور مولائے میمونہ عبد اللہ بن یسار گئے اور سیدنا ابو جہیم بن حارث انصاری پر داخل ہوئے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ بئرِ جمل کی طرف سے آ رہے تھے کہ ایک آدمی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کو ملا اور اس نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کو سلام کہا، پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اس کو جواب نہ دیا، یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ ایک دیوار کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنے چہرے اور دونوں ہاتھوں پر مسح کیا اور پھر اس کے سلام کا جواب دیا۔

Haidth Number: 987
سیدنا انس بن مالک ؓ سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ نے مجھ پر جو نمازیں فرض کی ہیں، مجھے ان کے بارے میں بتلائیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ اس نے کہا: کیا مجھ پر اِن سے پہلے یا اِن کے بعد بھی کوئی نماز فرض ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ تین دفعہ ارشاد فرمایا، پھر اس بندے نے کہا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ مین میری جان ہے! نہ میں ان میں کسی چیز کی زیادتی کروں گا اور نہ کمی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اگر یہ سچا ہے تو جنت میں داخل ہو جائے گا۔

Haidth Number: 1002
سیدنا عبد اللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: تمہارے نبی پر پچاس نمازیں فرض کی گئی تھیں، پھر انھوں نے اپنے ربّ سے سوال کیا، پس اس نے ان کو پانچ کر دیا۔

Haidth Number: 1003
Haidth Number: 1004

۔ (۱۰۰۵)۔ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (مِنْ حَدِیْثٍ طَوِیْلٍ عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ سَیَأْتِیْ بِتَمَامَہِ فِیْ الْاِسْرَائِ) قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: ((فَرَضَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی عَلٰی أُمَّتِیْ خَمْسِیْنَ صَلَاۃً، قَالَ: فَرَجَعْتُ بِذٰلِکَ حَتّٰی أَمُرَّ عَلٰی مُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ، فَقَالَ: مَا ذَا فَرَضَ رَبُّکَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی عَلٰی أُمَّتِکَ؟ قُلْتُ: فَرَضَ عَلَیْہِمْ خَمْسِیْنَ صَلَاۃً، فَقَالَ لَہُ مُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ: رَاجِعْ رَبَّکَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی، فَاِنَّ أُمَّتَکَ لَا تُطِیْقُ ذٰلِکَ، قَالَ: فَرَاجَعْتُ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ فَوَضَعَ شَطْرَہَا فَرَجَعْتُ اِلٰی مُوْسٰی فَأَخْبَرْتُہُ، فَقَالَ: رَاجِعْ رَبَّکَ فَاِنَّ أُمَّتَکَ لَا تُطِیْقُ ذٰلِکَ، قَالَ: فَرَاجَعْتُ رَبِّیْ، فَقَالَ: ہِیَ خَمْسٌ وَہِیَ خَمْسُوْنَ، لَا یُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ۔)) (مسند أحمد: ۲۱۶۱۲)

سیدنا انس بن مالکؓ سے مروی ہے (یہ ایک طویل حدیث ہے، سیدنا ابی بن کعب ؓ سے مروی ہے، یہ پوری حدیث اسراء میں آئے گی، اس مقام پر یہ حصہ جو آگے آ رہا ہے، مطلوب ہے:) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں، پس میں یہ چیزیں لے کر لوٹ پڑا، جب میں موسیؑ کے پاس سے گزرا تو انھوں نے کہا: تیرے ربّ نے تیری امت پر کیا کچھ فرض کیا ہے؟ میں نے کہا: جی اُن پر پچاس نمازیں فرض کی ہیں، یہ سن کر موسیؑ نے کہا: اپنے ربّ سے بات کرو، تیری امت اس عمل کی طاقت نہیں رکھے گی، پس میں نے اپنے ربّ سے بات کی تو اللہ تعالیٰ نے آدھی نمازیں معاف کر دیں، پھر میں موسیؑ کی طرف لوٹا اور ان کو بتایا، لیکن انھوں نے پھر کہا: اپنے ربّ سے پھر بات کرو کیونکہ تمہاری امت اتنی نمازوںکی طاقت نہیں رکھے گی، پس میں نے اپنے ربّ سے پھر بات کی تو اللہ تعالیٰ نے کہا: یہ پانچ ہیں اور یہ پچاس ہیں، میرے ہاں قول تبدیل نہیں کیا جاتا۔

Haidth Number: 1005
سیدہ عائشہؓ سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: نماز دو دو رکعتیں فرض ہوئی، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے حضر کی نماز میں اضافہ کر دیا اور سفری نماز کو اسی طرح رہنے دیا۔

Haidth Number: 1006
Haidth Number: 1007
سیدنا عبد اللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: نمازیں پچاس تھیں، غسلِ جنابت بھی سات دفعہ تھا اور پیشاب کو دھونا بھی سات بار تھا، پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سوال کرتے رہے، یہاں تک کہ پانچ نمازیں، ایک بار غسل جنابت اور ایک بار پیشاب کے دھونے کو مشروع قرار دیا گیا۔

Haidth Number: 1008

۔ (۱۰۹۸)۔عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: ((أَمَّنِیْ جِبْرِیْلُ عِنْدَ الْبَیْتِ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: مَرَّتَیْنِ عِنْدَ الْبَیْتِ) فَصَلّٰی بِیَ الظُّہْرَ حِیْنَ زَالَتِ الشَّمْسُ فَکَانَتْ بِقَدْرِ الشِّرَاکِ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: حِیْنَ کَانَ الْفَیْئُ بِقَدْرِ الشِّرَاکِ) ثُمَّ صَلّٰی بِیَ الْعَصْرَ حِیْنَ صَارَ ظِلُّ کُلِّ شَیْئٍ مِثْلَہُ، ثُمَّ صَلّٰی بِیَ الْمَغْرِبَ حِیْنَ أَفْطَرَ الصَّائِمُ ثُمَّ صَلّٰی بِیَ الْعِشَائَ حِیْنَ غَابَ الْشَفَقُ ثُمَّ صَلّٰی بِیَ الْفَجْرَ حِیْنَ حَرُمَ الطَّعَامُ وَالشَّرَابُ عَلَی الْصَائِمِ، ثُمَّ صَلّٰی الْغَدَ الظُّہْرَ حِیْنَ کَانَ ظِلُّ کُلِّ شَیْئٍ مِثْلَہُ ثُمَّ صَلّٰی بِیَ الْعَصْرَ حِیْنَ صَارَ ظِلُّ کُلِّ شَیْئٍ مِثْلَیْہِ، ثُمَّ صَلّٰی بِیَ الْمَغْرِبَ حِیْنَ أَفْطَرَ الصَّائِمُ ثُمَّ صَلَّی بِیَ الْعِشَائَ اِلٰی ثُلُثِ اللَّیْلِ الُأَوَّلِ، ثُمَّ صَلّٰی بِیَ الْفَجْرَ فَأَسْفَرَ ثُمَّ اِلْتَفَتَ اِلَیَّ فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ! ھٰذَا وَقْتُ الْأَنْبِیَائِ مِنْ قَبْلِکَ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: ھٰذَا وَقْتُکَ وَوَقْتُ النَّبِیِّیْنَ قَبْلَکَ) اَلْوَقْتُ فِیْمَا بَیْنَ ہٰذَیْنِ الْوَقْتَیْنِ۔)) (مسند أحمد: ۳۰۸۱)

سیدنا عبد اللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: حضرت جبریل ؑنے بیت اللہ کے پاس دو دفعہ میری امامت کروائی، پس مجھے نمازِ ظہر اس وقت پڑھائی کہ سورج ڈھل چکا تھا اور سایہ ایک تسمے کے برابر تھا، نمازِ عصر اس وقت پڑھائی، جب ہر چیز کا سایہ ایک مثل ہو گیا، نمازِ مغرب اس وقت پڑھائی، جب روزے دار افطاری کرتا ہے،نمازِ عشاء اس وقت پڑھائی جب شَفَق غائب ہو گئی، نمازِ فجر اس وقت پڑھائی جب روزے دار پر کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے، پھر اگلے دن نمازِ ظہر اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کے مثل ہو گیا، نمازِ عصر اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ دو مثل ہو گیا، نمازِ مغرب اس وقت پڑھائی جب روزے دار افطار کرتا ہے، نمازِ عشاء رات کے پہلے ایک تہائی حصے کے وقت میں پڑھائی اور نمازِ فجر اس وقت پڑھائی جب روشنی ہو چکی تھی اور پھر میری طرف متوجہ ہو کر کہا: اے محمد! یہ آپ سے پہلے والے انبیاء کا وقت ہے، ایک روایت میں ہے: یہ آپ کا اور آپ سے پہلے والے انبیاء کا وقت ہے، ان ہر دو وقتوںکے درمیان متعلقہ نماز کا وقت ہے۔

Haidth Number: 1098
سیدنا ابو سعید خدری ؓ نے بھی اسی قسم کی حدیث ِ نبوی بیان کی ہے، البتہ اس میں ہے: اور (دوسرے دن) نمازِ فجر اس وقت پڑھائی کہ قریب تھا کہ سورج طلوع ہو جائے اور پھر کہا: اِن دو وقتوں کے درمیان نماز کا وقت ہے۔

Haidth Number: 1099

۔ (۱۱۰۰)۔عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِؓ وَھُوَ الأنْصَارِیُّ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جَائَ ہٗ جِبْرِیْلُ فَقَالَ: قُمْ فَصَلِّہِ، فَصَلَّی الظُّہْرَ حِیْنَ زَالَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ جَائَہُ الْعَصْرَ فَقَالَ: قُمْ فَصَلِّہُ، فَصَلَّی الْعَصْرَ حِیْنَ صَارَ ظِلُّ کُلِّ شَیْئٍ مِثْلَہُ، أَوْ قَالَ: صَارَ ظِلُّہُ مِثْلَہُ، ثُمَّ جَائَ الْمَغْرِبَ فَقَالَ: قُمْ فَصَلِّہْ، فَصَلّٰی حِیْنَ وَجَبَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ جَائَہُ الْعِشَائَ فَقَالَ: قُمْ فَصَلِّہْ، فَصَلّٰی حِیْنَ غَابَ الشَّفَقُ، ثُمَّ جَائَہُ الْفَجْرَ فَقَالَ: قُمْ فَصَلِّہْ، فَصَلّٰی حِیْنَ بَرَقَ الْفَجَرُ أَوْ قَالَ: حِیْنَ سَطَعَ الْفَجْرُ، ثُمَّ جَائَہُ مِنَ الْغَدِ لِلظُّہْرِ فَقَالَ: قُمْ فَصَلِّہْ، فَصَلَّی الظُّہْرَ حِیْنَ صَارَ ظِلُّ کُلِّ شَیْئٍ مِثْلَہُ، ثُمَّ جَائَہُ لِلْعَصْرِفَقَالَ: قُمْ فَصَلِّہْ، فَصَلَّی الْعَصْرَ حِیْنَ صَارَ ظِلُّ کُلِّ شَیْئٍ مِثْلَیْہِ، ثُمَّ جَائَہُ لِلْمَغْرِبِ حِیْنَ غَابَتِ الشَّمْسُ وَقْتًا وَاحِدًا لَمْ یَزَلْ عَنْہُ، ثُمَّ جَائَہُ لِلْعِشَائِ حِیْنَ ذَہَبَ نِصْفُ اللَّیْلِ أَوْ قَالَ: ثُلُثُ اللَّیْلِ فَصَلَّی الْعِشَائَ، ثُمَّ جَائَہُ لِلْفَجْرِ حِیْنَ أَسْفَرَ جِدًّا فَقَالَ: قُمْ فَصَلِّہْ، فَصَلَّی الْفَجْرَ، ثُمَّ قَالَ: مَا بَیْنَ ہٰذَیْنِ وَقْتٌ۔)) (مسند أحمد: ۱۴۵۹۲)

سیدنا جابر بن عبد اللہ انصاریؓ سے مروی ہے کہ جبریلؑ، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس آئے اور کہا: کھڑ ے ہو جاؤ اور نماز پڑھو، پس نمازِ ظہر پڑھائی، جب سورج ڈھل گیا تھا، پھر عصر کے وقت آئے اور کہا: کھڑے ہو جاؤ اور عصر کی نماز پڑھو، پس نماز عصر اس وقت پڑھی جب ہر چیز کا سایہ اس کے ایک مثل ہو گیا تھا، مغرب کے وقت آئے اور کہا: کھڑے ہو جاؤ اور نماز پڑھو، پس یہ نماز اس وقت پڑھی جب سورج غروب ہو گیا، عشا کے وقت آئے اور کہا: کھڑے ہو جاؤ اور نماز پڑھو، پس یہ اس وقت پڑھی جو شَفَق غروب ہو گئی، فجر کے وقت آئے اور کہا: کھڑے ہو جاؤ اور نماز پڑھو، پس یہ نماز اس وقت پڑھی جو فجر طلوع ہوئی، اگلے دن ظہر کے وقت آئے اور کہا: کھڑے ہو جاؤ اور نماز پڑھو، پس نمازِ ظہر اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کے مثل ہو گیا، عصر کے وقت آئے اور کہا: کھڑے ہو جاؤ اور نماز پڑھو، پس نمازِ عصر اس وقت پڑھی جب ہر چیز کا سایہ اس کے دو مثل ہو گیا، پھر مغرب کے لیے آئے، جب سورج غروب ہوا، یہ (دو دنوں کا) ایک ہی وقت تھا، اس سے نہ ہٹے، پھر عشاء کی نماز کے لیے اس وقت آئے جب نصف یا ایک تہائی رات گزر چکی تھی، پس اس وقت نمازِ عشا پڑھائی، پھر فجر کے لیے اس وقت تشریف لائے جب بہت روشنی ہو چکی تھی اور کہا: کھڑے ہو جاؤ اور نماز پڑھو، پس اس وقت نمازِ فجر پڑھائی اور پھر فرمایا: اِن ہر دو وقتوںکے درمیان متعلقہ نماز کا وقت ہے۔

Haidth Number: 1100
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: ظہر کا وقت سورج ڈھلنے سے سے آدمی کو سایہ اس کے قد کے برابر ہونے تک ہے، یعنی عصر کا وقت شروع ہونے تک، نمازِ عصر کا وقت سورج کے زرد ہونے تک ہے، مغرب کی نماز کا وقت شَفَق کے غروب ہونے تک ہے،عشا کا وقت رات کے پہلے نصف تک ہے اور نماز فجر کا وقت طلوع فجر سے طلوع آفتاب تک ہے، جب سورج طلوع ہونے لگے تو نماز سے رک جا، کیونکہ وہ شیطان کے دو سینگوںکے درمیان سے طلوع ہوتا ہے۔

Haidth Number: 1101
سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: بیشک نماز کا ایک ابتدائی وقت ہے اور ایک آخری وقت ہے اور نمازِ ظہر کا ابتدائی وقت سورج کا ڈھلنا ہے اور آخری وقت عصر کے وقت کے داخل ہونے تک ہے، عصر کا ابتدائی وقت اس کے داخل ہونے سے شروع ہوتا ہے اور آخری سورج کے زرد ہونے تک ہے، مغرب کا ابتدائی وقت غروب ِ آفتاب سے شروع ہوتا ہے اور آخری وقت افق یعنی شَفَق کے غروب ہونے تک جاری رہتا ہے ، عشاء کا ابتدائی وقت غروبِ شفق سے شروع ہوتا ہے اور آخری وقت رات کے نصف ہونے تک جاری رہتا ہے اور نمازِ فجر کا ابتدائی وقت طلوعِ فجر سے شروع ہوتا ہے اور اس کا آخری وقت طلوع آفتاب تک جاری رہتا ہے۔

Haidth Number: 1102
مولائے انس ابو صدقہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا انس ؓ سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی نماز کے بارے میں سوال کیا، انھوں نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نمازِ ظہر اس وقت پڑھتے تھے، جب سورج ڈھل جاتا تھا، عصر کی نماز کو اِن دو نمازوں کے درمیان پڑھتے تھے، مغرب کی نماز اس وقت ادا کرتے جب سورج غروب ہو جاتا تھا، نمازِ عشاء غروبِ شفق کے بعد پڑھتے تھے اور نمازِ فجر طلوعِ فجر سے اس وقت تک پڑھتے تھے، جب نظر وسیع ہو جاتی تھی۔

Haidth Number: 1103