Blog
Books
Search Hadith

جامع اوقات کا بیان

1247 Hadiths Found
سیدنا جابر بن عبد اللہ ؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ظہر اپنے نام کی طرح ہے، عصر اس وقت پڑھی جائے گی، جو سورج سفید اور زندہ ہو گا، مغرب اپنے نام کی طرح ہے اور جب ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے ساتھ نمازِمغرب پڑھ کر اپنے گھروں کو آتے، جبکہ ہمارے ایک ایک میل کے فاصلے پر ہوتے تھے، تو ہم تیر کے گرنے کی جگہ دیکھ لیتے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کبھی نمازِ عشا جلدی پڑھ لیتے تھے اور کبھی تاخیر کرتے تھے اور فجر بھی اپنے نام کی طرح ہے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ اس کو روشنی ملے اندھیرے میں پڑھتے تھے۔

Haidth Number: 1104
سیدنا جابر بن عبد اللہ ؓ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ ظہر کی نماز نصف النہار کی سخت گرمی کے وقت ادا کرتے، نمازِ عصر اس وقت ادا کرتے جب سورج صاف ہوتا تھا، مغرب اس وقت پڑھتے جب سورج غروب ہو جاتا، نمازِ عشا کو کبھی تاخیر سے اور کبھی جلدی پڑھ لیتے تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ دیکھتے کہ لوگ جمع ہو گئے ہیں تو جلدی کر لیتے اور جب دیکھتے کہ لوگ لیٹ ہیں تو تاخیر کر دیتے تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نمازِ فجر روشنی ملے اندھیرے میں پڑھتے تھے۔

Haidth Number: 1105
ابو منہال سیار بن سلام کہتے ہیں: میں اپنے باپ کے ساتھ سیدنا ابو برزہ اسلمی ؓکی طرف گیا، میرے باپ نے ان سے کہا: ہمیں یہ بیان کرو کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ فرضی نماز پڑھتے تھے، انھوں نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نماز ظہر، جس کو تم اَلصَّلَاۃُ الْاُوْلٰی کہتے ہو، اس وقت پڑھتے تھے، جب سورج ڈھل جاتا تھا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ عصر کی نماز پڑھتے اور ہم میں سے ایک آدمی مدینہ میں اپنے گھر کی طرف لوٹتا، لیکن سورج ابھی تک زندہ ہوتا۔ سیار کہتے ہیں: مغرب کے بارے میں کہی ہوئی بات کو میں بھول گیا ہوں، اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ عشاء کو مؤخر کرناپسند کرتے تھے اور اِس نماز سے پہلے نیند کو اور اِس کے بعد باتوں کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ ناپسند کرتے تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نمازِ فجر سے اس وقت فارغ ہوتے تھے، جوآدمی اپنے ساتھ بیٹھنے والے کو پہنچان لیتا تھا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ اِس نماز میں ساٹھ سے سو آیتوں کی تلاوت کرتے تھے۔

Haidth Number: 1106

۔ (۱۱۰۷)۔(وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍٍ)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ حَدَّثَنِیْ أَبِیْ ثَنَا حَجَّاجٌ ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ سَیَّارِ بْنِ سَلَامَۃَ قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وأَبِیْ عَلٰی أَبِیْ بَرْزَۃَ فَسَأَلْنَاہُ عَنْ وَقْتِ صَلَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: کَانَ یُصَلِّی الظُّہْرَ حِیْنَ تَزُوْلُ الشَّمْسُ وَالْعَصْرَ یَرْجِعُ الرَّجُلُ اِلَی أَقْصَی الْمَدِیْنَۃَ وَالشَّمْسُ حَیَّۃٌ، وَالْمَغْرِبَ قَالَ سَیَّارٌ: نَسِیْتُہَا، وَالْعِشَائَ لَا یُبَالِیْ بَعْضَ تَأْخِیْرِہَا اِلَی ثُلُثِ اللَّیْلِ وَکَانَ لَایُحِبُّ النَّوْمَ قَبْلَہَا وَلَا الْحَدِیْثَ بَعْدَہَا، وَکَانَ یُصَلِّیْ الصُّبْحَ فَیَنْصَرِفُ الرَّجُلُ فَیَعْرِفُ وَجْہَ جَلِیْسِہِ وَکَانَ یَقْرَأُ فِیْھَا مَابَیْنَ السِّتِّیْنَ اِلَی الْمِائْۃِ، قَالَ سَیَّارٌ: لَا أَدْرِیْ فِیْ اِحْدَی الرَّکْعَتَیْنِ أَوْ فِیْ کِلْتَیْہِمَا۔ (مسند أحمد: ۲۰۰۴۹)

۔ (دوسری سند)سیار بن سلامہ کہتے ہیں: میں اور میرا باپ، سیدنا ابو برزہؓ کے پاس گئے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی نماز کے وقت کے بارے میں سوال کیا، انھوں نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نمازِ ظہر اس وقت ادا کرتے، جب سورج ڈھل جاتا تھا، اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نماز عصر پڑھاتے، پھر ایک آدمی مدینہ سے دور واقع اپنے گھر میں جاتا، لیکن سورج ابھی تک زندہ ہوتا تھا، سیار کہتے ہیں: مغرب سے متعلقہ بات کو میں بھول گیا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نمازِ عشا کو ایک تہائی رات تک مؤخر کرنے میں کوئی پرواہ نہ کرتے تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ اِس نماز سے پہلے نیند اور اِس کے بعد گفتگو کو ناپسند کرتے تھے، اور آپ صبح کی نماز پڑھاتے پھر آدمی واپس پلٹتا تو وہ اپنے ساتھی کے چہرے کو پہچان لیتا جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ اِس نماز میں ساٹھ سے سو آیات کی تلاوت کرتے تھے۔ سیار کہتے ہیں: میں نہیں جانتا کہ تلاوت کی یہ مقدار ایک رکعت میں ہوتی تھی یا دو میں۔

Haidth Number: 1107

۔ (۱۱۰۸)۔عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ: کُنَّا مَعَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِالْعَزِیْزِ فَأَخَّرَ صَلَاۃَ الْعَصْرِ مَرَّۃً فقَالَ لَہُ عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ: حَدَّثَنِیْ بَشِیْرُ بْنُ أَبِیْ مَسْعُوْدٍ الْأَنْصَارِیِّ أَنَّ الْمُغِیْرَۃَ بْنَ شُعْبَۃَ أَخَّرَ الصَّلَاۃَ مَرَّۃً یَعْنِی الْعَصْرَ، فَقَالَ لَہُ أَبُوْ مَسْعُوْدٍ: أَمَا وَاللّٰہِ! یَا مُغِیْرَۃُ! لَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ جِبْرِیْلَ عَلَیْہِ السَّلَامُ نَزَلَ فَصَلّٰی وصَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَصَلَّی النَّاسُ مَعَہُ ثُمَّ نَزَلَ فَصَلّٰی وَصَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَصَلَّی النَّاسُ مَعَہُ حَتَّی عَدَّ خَمْسَ صَلَوَاتٍ (زَادَ فِیْ رِوَایَۃٍ: ثُمَّ قَالَ: بِھٰذَا أُمِرْتَ۔)) فقَالَ لَہُ عُمَرُ: اُنْظُرْ مَا تَقُوْلُ یَا عُرْوَۃُ! أَوَ اِنَّ جِبْرِیْلَ ہُوَ الَّذِیْ سَنَّ الصَّلَاۃَ؟ قَالَ عُرْوَۃُ: کذٰلِکَ حَدَّثَنِیْ بَشِیْرُ بْنُ أَبِیْ مَسْعُوْدٍ، فَمَا زَالَ عُمَرُ یَتَعَلَّمُ وَقْتَ الصَّلَاۃِ بِعَلَامَۃٍ حَتّٰی فَارَقَ الدُّنْیَا۔ (مسند أحمد: ۱۷۲۱۷)

امام زہری کہتے ہیں: ہم عمر بن عبد العزیز کے ساتھ تھے، انھوں نے ایک دفعہ نمازِ عصر کو لیٹ کیا، عروہ بن زبیر نے ان سے کہا: بشیر بن ابی مسعود انصاری نے مجھے بیان کیا کہ سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ نے ایک دفعہ نمازِ عصر کو لیٹ کر دیا، سیدناابومسعودؓ نے ان سے کہا: خبردار! اللہ کی قسم! اے مغیرہ ! تحقیق تم جانتے ہو کہ حضرت جبریل ؑ نازل ہوئے اور نماز پڑھائی اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اس کے ساتھ اور لوگوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے ساتھ نماز پڑھی، پھر وہ اترے اور نماز پڑھائی، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اس کے ساتھ اور لوگوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے ساتھ نماز پڑھی، یہاں تک کہ انھوں نے پانچ نمازیں شمار کیں، ایک روایت میں ہے: اس نے کہا: اس طرح آپ کو حکم دیا گیا ہے، عمر بن عبد العزیز نے کہا: عروہ! اپنی کہی ہوئی باتوں پر غور کرو، کیا جبریلؑ ہیں، جنھوں نے (آپ کی امامت کرا کر) نماز کا آغاز کیا؟ عروہ نے کہا: بشیر بن ابی مسعود نے مجھے اسی طرح بیان کیا، اس کے بعد عمر نماز کے وقت کو کسی علامت سے پہنچان لیتے تھے، یہاں تک کہ وہ دنیا سے رخصت ہو گئے۔

Haidth Number: 1108

۔ (۱۱۰۹)۔ عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ أَبِیْ مُوْسَی الْأَشْعَرِیِّؓ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: وَأَتَاہُ سَائِلٌ یَسْأَلُہُ عَنْ مَوَاقِیْتِ الصَّلَاۃِ فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیْہِ شَیْئًافَأَمَرَ بِلَالًا فَأَقَامَ بِالْفَجْرِ حِیْنَ اِنْشَقَّ الْفَجْرُ وَالنَّاسُ لَا یَکَادُ یَعْرِفُ بَعْضُہُمْ بَعْضًا، ثُمَّ أَمَرَہُ فأَقَامَ بِالظُّہْرِ حِیْنَ زَالَتِ الشَّمْسُ وَالْقَائِلُ یَقُوْلُ: اِنْتَصَفَ النَّہَارُ أَوْ لَمْ یَنْتَصِفْ، وَکَانَ أَعْلَمَ مِنْہُمْ، ثُمَّ أَمَرَہُ فَأَقَامَ بِالْعَصْرِ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَۃٌ ثُمَّ أَمَرَہُ فَأَقَامَ بِالْمَغْرِبِ حِیْنَ وَقَعَتِ الشَّمْسُ ثُمَّ أَمَرَہُ فَأَقَامَ بِالْعِشَائِ حِیْنَ غَابَ الشَّفَقُ، ثُمَّ أَخَّرَ الْفَجْرَ مِنَ الْغَدِ حَتّٰی اِنْصَرَفَ مِنْہَا وَالْقَائِلُ یَقُوْلُ: طَلَعَتِ الشَّمْسُ أَوْ کَادَتْ، وَأَخَّرَ الظُّہْرَ حَتّٰی کَانَ قَرِیْبًا مِنْ وَقْتِ الْعَصْرِ بِالْأَمْسِ، ثُمَّ أَخَّرَ الْعَصْرَ حَتّٰی اِنْصَرَفَ مِنْہَا وَالْقَائِلُ یَقُوْلُ: اِحْمَرَّتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ أَخَّرَ الْمَغْرِبَ حَتّٰی کَانَ عِنْدَ سُقُوْطِ الشَّفَقِ وَأَخَّرَ الْعِشَائَ حَتّٰی کَانَ ثُلُثُ اللَّیْلِ الْأَوَّلُ، فَدَعَا السَّائِلَ فَقَالَ: ((اَلْوَقْتُ فِیْمَا بَیْنَ ہٰذَیْنِ۔)) (مسند أحمد: ۱۹۹۷۱)

سیدنا ابو موسی اشعری ؓ سے مروی ہے کہ ایک سائل، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس آیا اور نمازوںکے اوقات کے بارے میں سوال کیا، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اسے کوئی جواب نہ دیا اور سیدنا بلال ؓ کو حکم دیا تو جب فجر پھوٹی تو اس وقت اس نے نماز فجر کو کھڑا کرا دیا، جبکہ قریب نہیں تھا کہ لوگ ایک دوسرے کو پہنچان سکیں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے ان کو حکم دیا ، پس انھوں نے سورج ڈھلنے کے بعد ظہر کی اقامت کہہ دی، جبکہ کہنے والا یہ کہہ رہا تھا: کیا نصف النہار کا وقت بھی ہوا ہے یا نہیں، بہرحال رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ ان سب لوگوں سے زیادہ جاننے والے تھے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے ان کو حکم دیا اور انھوں عصر کو اس وقت کھڑا کروا دیا، جب سورج بلند تھا، پھر ان کو حکم دیا اور انھوں نے غروب ِ آفتاب کے وقت مغرب کی اقامت کہہ دی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے ان کو حکم دیا اور غروبِ شفق کے وقت عشا کو کھڑا کرو ادیا، پھر دوسرے دن نمازِ فجر کو اتنا مؤخر کیا کہ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ اس سے فارغ ہوئے تو کہنے والا کہتا تھا: سورج طلوع ہو گیا ہے، یا طلوع ہونے کے قریب ہے، ظہر کو مؤخر کیا، یہاں تک کہ کل والی نماز عصر کے وقت کے قریب والا وقت ہو گیا، پھر عصر کو اس قدر مؤخر کر کے ادا کیا کہ جب اس سے فارغ ہوئے تو کہنے والا کہتا تھا: سورج زرد ہو گیا ہے، پھر نماز مغرب کو اس قدر لیٹ کر دیا کہ اس کا معاملہ غروب ِ شفق سے پہلے تک پہنچ گیا اور نمازِ عشا کو رات کے پہلے ایک تہائی تک مؤخر کیا، پھر سائل کو بلایا اور فرمایا: ان دو وقتوںکے درمیان وقت ہے۔

Haidth Number: 1109
Haidth Number: 1110

۔ (۱۲۴۲/۱) عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ نُسَیِّ قَا لَ: کاَنَ رَجُلٌ بِالشَّامِ یُقَالُ لَہُ مَعْدَانُ، کَانَ أَبُوْ الدَّرْدَائِ یُقْرِئُہُ الْقُرْآنَ فَفَقَدَہُ أَبُوْ الدَّرْدَائِ فَلَقِیَہُ یَوْماً وَھُوَ بِدَاِبقٍ فَقَالَ لَہُ أَ بُوْ الدَّرْدَائِ: یَا مَعْدَانُ! مَافَعَلَ الْقُرْآنُ الَّذِیْ کَانَ مَعَکَ؟ کَیْفَ أَنتَ وَالْقُرْآنُ الْیَوْمَ؟ قاَلَ قَدْ عَلَّمَ اللّٰہُ مِنْہُ فَاَ حْسَنَ۔ قَالَ: یَامَعْدَانُ! أَفِیْ مَدِیْنَۃٍ تَسْکُنُ الْیَوْمَ أَوْفِیْ قَرْیَۃٍ؟ قَالَ: لَا، بَلْ فِیْ قَرْیَۃٍ قَرِیْبَۃٍ مِنَ الْمَدِیْنَۃِ (وَفِیْ رِوَاَیۃٍ: فِیْ قَرْیَۃٍ قَرِیْبَۃٍ دُوْنَ حِمْصَ) قاَل: مَہْلًا وَیْحَکَ یَامَعْدَانُ! فَإِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((مَامِنْ خَمْسَۃٍ أَھْلِ أَبْیَاتٍ لَا یُؤْذَّنُ فِیْہِمْ بِالصَّلَاۃِ وَتُقَامُ فِیہِمُ الصَّلَاۃُ إلاَّ اسْتَحْوَذَ عَلَیْہِمُ الشَّیْطَانُ، وَإِنَّ الذِّئْبَ یَأْخُذُ الشَّاذَّۃَ۔)) فَعَلَیْکَ ِبالْمدَائِنِ وَیْحَکَ یَا مَعْدانُ۔ (مسند احمد: ۲۸۰۶۳)

عبادہ بن نسی کہتے ہیں: شام میں ایک معدان نامی آدمی تھا، سیّدنا ابو درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اسے قرآن پڑھایا کرتے تھے۔ سیّدنا ابو درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اُسے گم پایا۔ پھر ایک دن جب دابق مقام پر اسے ملے تو کہنے لگے: معدان! وہ قرآن جو تیرے پاس تھا، اس کا کیا بنا؟ آج کل تیرا اور قرآن کا کیا حال ہے؟ اس نے جواب دیا: اللہ تعالیٰ نے وہ سکھایا اور اچھا سکھایا۔سیّدنا ابو درداء نے پوچھا: معدان! آج کل شہر میں رہتے ہو یا کسی دیہات میں؟ معدان نے جواب دیا: نہیں، میں ایک دیہات میں سکونت پذیر ہوں، وہ شہر کے قریب ہے۔ اور ایک روایت میں ہے: ایسے دیہات میں ہوں جو حمص شہر کے قریب ہے۔ سیّدنا ابو درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: چھوڑ، تجھ پر افسوس ہے معدان! میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جہاں پانچ گھر واقع ہوں اور ان میں نہ اذان دی جاتی ہو نہ نماز قائم کی جاتی ہو، ان پر شیطان کا غلبہ ہو جاتا ہے اور (تجھے ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ) بھیڑیا علیحدہ رہنے والی بکری کو ہڑپ کر جاتا ہے۔ اس لیے تجھ پر شہروں میں رہنا لازم ہے۔اے معدان! تجھ پر افسوس ہے!

Haidth Number: 1242
یہ روایت دوسری سند کے ساتھ اس طرح مروی ہے: وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : جس بستی میں تین شخص رہتے ہوں اور ان میں نہ اذان دی جاتی ہو نہ نماز قائم کی جاتی ہو، ان پر شیطان کا غلبہ ہو جاتا ہے، اس لیے تجھ پر جماعت لازم ہے، کیونکہ بھیڑیا صرف دور رہنے والی بکری کو ہی کھاتا ہے۔ ابن مہدی نے کہا کہ سائب کا خیال ہے کہ تجھ پر جماعت لازم ہے سے نماز باجماعت مراد ہے۔

Haidth Number: 1242
سیّدنا مالک بن حویرث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ہم تقریبا ایک عمر کے نوجوان رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور بیس راتیں قیام کیا۔رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بڑے رحیم اور نرم دل تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے محسوس کیا ہم اپنے گھر والوں کے مشتاق ہو گئے ہیں، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہم سے ان (افراد)کے متعلق پوچھا جو ہم اپنے گھروں میں چھوڑ آئے تھے؟ جب ہم نے ساری بات بتلائی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اپنے گھر والوں میں واپس چلے جاؤ اور ان میں رہو، اور ان کو (دین)سکھاؤ،ان کو حکم دو کہ جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے کوئی ایک اذان کہے، پھر تم میں بڑی عمر والا امامت کروائے۔

Haidth Number: 1243

۔ (۱۳۱۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ حَدَّثَنِیْ أَبِیْ ثَنَا عَفَّانُ ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ وَسُلَیْمَانُ الْأَعْمَشُ عَنْ إِبْرَاھِیْمَ الْتَّیمِیِّ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ: کُنْتُ أَعْرِضُ عَلَیْہِ وَیَعْرِضُ عَلَیَّ وَقَالَ أَبُو عَوَانَۃَ: کُنْتُ أَقْرَأُ عَلَیْہِ وَیَقْرَأُ عَلَیَّ فِی السِّکَّۃِ فَیَمُرُّ بِالسَّجْدَۃِ فَیَسْجُدُ قَالَ: قُلْتُ: أَتَسْجُدُ فِی السِّکَّۃِ؟ قَالَ: نَعَمْ، سَمِعْتُ أَبَاذَرٍّ یَقُوْلُ سَأَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! أَیُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ فِی الْأَرْضِ أَوَّلاً؟ قَالَ: ((الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ۔)) قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ أَیٌّ؟ قَال: ((ثُمَّ الْمَسْجِدُ الْأَ قْصٰی۔)) قَالَ: قُلْتُ: کَمْ بَیْنَہُمَا؟ قَالَ: ((أَرْبَعُوْنَ سَنَۃً۔)) ثُمَّ قَالَ: ((أَیْنَمَا أَدْرَ کَتْکَ الصَّلَاۃُ فَصَلِّ فَہُوَ مَسْجِدٌ، وَفِیْ رَوِایَۃٍ فَکُلُّہَا مَسْجِدٌ۔)) (مسند احمد: ۲۱۷۱۱)

ابو عوانہ کہتے ہیں: گلی میں (چلتے چلتے) میں ابراہیم تیمی پر اور وہ مجھ پر قرآن پڑھتے، جب ابراہیم سجدے والی آیت کی تلاوت کرتے تو سجدہ کرتے۔ میں نے کہا: آپ راستے میں سجدہ کرتے ہیں؟ انھوں نے کہا: ہاں! میں نے سیّدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے سنا تھا ، انھوں نے کہا: میںنے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پوچھا:اے اللہ کے رسول! زمین میں سب سے پہلے کون سی مسجد تعمیر کی گئی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مسجد حرام ۔ میں نے کہا: پھر کون سی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پھر مسجد اقصی ۔ میں نے کہا : دونوں کے درمیان کتنی مدت تھی ؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: چالیس سال۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جہاں بھی نماز تجھے پالے، وہاں نماز پڑھ لیا کر، وہی مسجد ہے۔ اور ایک روایت میں ہے: زمین ساری کی ساری مسجد ہے۔

Haidth Number: 1316
سیّدناعمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اللہ کے لیے ایسی مسجد بنائی جس میں اللہ کا ذکر کیا جائے تو اللہ اس کے لیے اس کے بدلے جنت میں ایک گھر بنائے گا۔

Haidth Number: 1317
سیّدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : جس شخص نے اللہ کے لیے مسجد بنائی اللہ اس کے لیے اس کی مثل جنت میں (گھر) بنائے گا۔

Haidth Number: 1318
Haidth Number: 1319
سیدہ اسما بنت یزید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اسی طرح کی حدیث بیان کی ہے۔

Haidth Number: 1320
بشر بن حیان نے کہتے ہیں: ہم اپنی مسجد بنا رہے تھے، سیّدنا واثلہ بن اسقع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہمارے پاس آ کر کھڑے ہوئے، سلام کیا اور کہنے لگے: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: جس شخص نے اللہ کے لیے ایسی مسجد بنائی جس میں نماز پڑھی جاتی ہو، اللہ تعالیٰ جنت میں اُس کے لیے اِس سے بہتر گھربناتا ہے۔

Haidth Number: 1321
سیّدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((جس شخص نے اللہ کے لیے مسجد بنائی ، خواہ وہ فاختہ پرندے کے انڈا دینے کے لیے بیٹھنے والے گھونسلے جتنی کیوں نہ ہو، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔

Haidth Number: 1322
سیّدنا عمرو بن عبسہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اللہ کے لیے اس لیے مسجد بنائی کہ اللہ تعالیٰ کا اس میں ذکر کیا جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا اور جس شخص نے کسی مسلمان غلام کو آزاد کیا تو وہ اس کے لیے جہنم کا فدیہ ہوجائے گی اور جو شخص اللہ کی راہ میں بوڑھا ہوا تو وہ بڑھاپا اس کے لیے قیامت کے دن نور ہوگا۔

Haidth Number: 1323
سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اپنی ران ننگی نہ کر اورنہ ہی کسی زندہ اور مردہ کی ران کی طرف دیکھ۔

Haidth Number: 1385
سیّدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک آدمی کے پاس سے گزرے ، اس کی ران (کپڑے سے) باہر نکلی ہوئی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اپنی ران ڈھانپ لے، کیونکہ آدمی کی ران اس کے چھپائے جانے والے حصوں میں شامل ہے۔

Haidth Number: 1386
سیّدناعمرو بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اس کے دادا (سیّدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص) ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تمہارے بیٹے سات سال کے ہو جائیں تو ان کو نماز کا حکم دینا شروع کر دیا کرو،جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو (نماز میں سستی کی وجہ سے) ان کی پٹائی کیا کرواور بستروں میں ا نہیں علیحدہ علیحدہ کردیا کرو اور جب کوئی آدمی اپنی لونڈی کا اپنے غلام یا اپنے مزدور کے ساتھ نکاح کر دے تو وہ اس کے (ستر) عورۃ (یعنی ستر) کی طرف نہ دیکھا کرے،(یاد رہے کہ) عورہ کی حد ناف سے گھٹنے تک ہے۔

Haidth Number: 1387
زرعہ بن مسلم، سیّدنا جرہد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیّدنا جرہد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو مسجد میں دیکھا کہ ان پر ایک چادر تو تھی لیکن ان کی ران ننگی تھی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ران چھپائی جانے والی چیز ہے۔

Haidth Number: 1388
ایک دوسری سند کے ساتھ عبد اللہ بن جرہد اسلمی سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنے باپ سیّدنا جرہد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے سنا، انھوں نے کہا کہ اس نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: مسلمان آدمی کی ران عورہ (چھپایا جانے والا حصہ) ہے۔

Haidth Number: 1389
اور انہی سے ایک تیسری سند کے ساتھ مروی ہے: وہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے پاس سے گزرے، جبکہ ان کی ران سے کپڑا ہٹا ہوا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسے ڈھانپ کر رکھ کیونکہیہ عورہ میں شامل ہے۔

Haidth Number: 1390
سیّدنا محمد بن جحش ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، جو کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا سالہ ہے، سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسجد کے صحن میں سیّدنا معمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس سے گزرے، وہ گوٹھ مار کر ایک طرف سے اپنی ران ننگی کر کے بیٹھے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں فرمایا: اے معمر! اپنی ران ڈھانپ کے رکھو کیونکہ ران عورۃ میں شامل ہے۔

Haidth Number: 1391
اوران ہی سے ایک دوسری سند کے ساتھ مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھا، ہم معمر کے پاس سے گزرے اور ان کی رانیں ننگی تھیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو فرمایا: معمر! اپنی رانیں ڈھانک لو کیونکہ رانیں بھی عورہ ہیں۔

Haidth Number: 1392
سیّدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قبرستان اور حمام کے علاوہ ساری زمین مسجد ہے اور پاک کرنے والی ہے۔

Haidth Number: 1419
سیّدناابو مرثد غنوی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: قبروں کی طرف نماز نہ پڑھو اور نہ ان پر بیٹھو۔ اور ایک روایت کے الفاظ ہیں: قبروں پر بیٹھو نہ ان پر نماز پڑھو۔

Haidth Number: 1420
سیّدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بکریوں کے باڑوں میں نماز پڑھ لیتے تھے اور اونٹوں اور گائیوں کے باڑوں میں نماز نہ پڑھتے۔

Haidth Number: 1421
سیّدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تم بکریوں اور اونٹوں کے باڑوں کے علاوہ کوئی جگہ نہ پاؤ تو بکریوں کے باڑوں میں نماز پڑھ لیا کرو اور اونٹوں کے باڑوں میں نماز نہ پڑھا کرو۔

Haidth Number: 1422