Blog
Books
Search Hadith

معتکف کے لیے جائز اور ناجائز امور کا بیان

157 Hadiths Found
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: جب میں اعتکاف کے دوران بوجۂ ضرورت گھر جاتی اور وہاں کوئی مریض ہوتا تو میں چلتے چلتے ہی اس کا حال دریافت کر لیتی، اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اعتکاف کی حالت میں اپنا سر میری طرف کرتے اور میں کنگھی کر دیا کرتی اور ایسی حالت میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صرف انسانی ضرورت کی خاطر گھر تشریف لاتے تھے۔

Haidth Number: 4004

۔ (۴۰۰۵) عَنْ عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنٍ عَنْ صَفِیَّۃَ بِنْتِ حُیَیٍّ (زَوْجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ) قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُتْعَکِفًا فَاَتَیْتُہُ اَزُوْرُہُ لَیْلًا فَحَدَّثْتُہُ ثُمَّ قُمْتُ فَاَنْقَلَبْتُ، فَقَامَ مَعِیَیَقْلِبُنِیْ وَکَانَ مَسْکَنُہاَ فِی دَارِ اُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَمَرَّ رَجُلَانِ مِنَ الْاَنْصَارِ، فَلَمَّا رَاَیَا النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَسْرَعَا، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((عَلٰی رِسْلِکُمَا، إِنَّہَا صَفِیَّۃُ بِنْتُ حُیَیٍّ۔)) فَقَالَا: سُبْحَانَ اللّٰہِ، یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فَقَالَ: ((إِنَّ الشَّیْطَانَ بَجْرِی مِنْ الإِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِ، وَإِنِّی خَشِیْتُ اَنْ یَقْذِفَ فِی قُلُوْبکِمُاَ شَرَّا، اَوْ، قَالَ: شَیْئًا۔)) (مسند احمد: ۲۷۴۰۰)

۔ زوجۂ رسول سیدہ صفیہ بنت حیی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اعتکاف میں تھے، میں رات کے وقت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ملاقات کے لیے آئی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے باتیں کیں، پھر جب میں اٹھ کر واپس جانے لگی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے واپس پہنچانے کے لیے میرے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے،ان کی رہائش گاہ اس مقام میں تھی، جو بعد میں سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا گھر بن گیا تھا، اتنے میں دو انصاری آدمیوں کا وہاں سے گزر ہوا، جب انہوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا تو وہ جلدی سے گزرنے لگے، لیکن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: ٹھہر جائو (اور پہلے والی چال ہی چلو)،یہ خاتون میری اہلیہ صفیہ بنت حیی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ہے۔ انہوں نے کہا: سبحان اللہ، (بڑا تعجب ہے) اے اللہ کے رسول! (اس وضاحت کی کیا ضرورت ہے؟) آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: شیطان انسانی جسم میں خون کی طرح گردش کرتا ہے، اس لیے مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تمہارے دلوں میں کوئی برا خیال ڈال دے۔

Haidth Number: 4005
۔ سیدنا کعب بن عجرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ حدیبیہ کے مقام پر احرام کی حالت میں تھے، مشرکین مکہ نے ہمیں آگے جانے سے روک دیا، میرے لمبے لمبے بال تھے اورجوئیں میرے چہرے پر گر رہی تھیں، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا میرے پاس سے گزر ہوا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: کیا تمہارے سر کی جوئیں تمہیں تکلیف دے رہی ہیں؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے سر منڈانے کا حکم دیا اور یہ آیت نازل ہوئی: {فَمَنْ کَانَ … أَوْصَدَقَۃٍ أَوْ نُسُکٍ}(تم میں سے جو آدمی مریض ہو یا اس کے سر میں تکلیف ہو، تو وہ بال منڈوالے اور روزوں کا،یا صدقہ کا یا قربانی کا فدیہ دے)۔

Haidth Number: 4272
۔ (دوسری سند) اسی طرح مروی ہے، البتہ اس میں ہے: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے حکم دیا کہ وہ سر منڈوالے اور فرمایا : تم فدیہ میں تین روزے رکھو یا چھ مساکین کو اس طرح کھانا کھلاؤ کہ ہر ایک کو دو دو مُدّ کھانا آ جائے یا ایک بکری ذبح کر دو، تم ان میں سے جو کام بھی کر لو گے، تمہیں کفایت کرے گا۔

Haidth Number: 4273
۔ (تیسری سند) اسی طرح مروی ہے، البتہ اس میں ہے: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں سر منڈوالوں، جبکہ مسلمان ابھی حدیبیہ کے مقام میں تھے اور ابھی تک ان کو یہ علم نہیں تھا کہ سب کو اسی مقام پر سر منڈوانا پڑے گا، سب کو یہی امید تھی کہ وہ مکہ مکرمہ داخل ہوں گے، اُدھر اللہ تعالیٰ نے فدیہ کا حکم نازل کر دیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں ایک فَرَق چھ مساکین میں تقسیم کر دوں یا تین روزے رکھوں یا ایک بکری ذبح کروں۔

Haidth Number: 4274
۔ (چوتھی سند) یہ حدیث اسی طرح مروی ہے، البتہ اس میں ہے: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سرمنڈوا دو اور بطور فدیہ ایک بکری ذبح کرو یا تین روزے رکھو یا کھجور کے تین صاع چھ مساکین میں تقسیم کر دو۔

Haidth Number: 4275

۔ (۴۲۷۶) (وَمِنْ طَرِیْقٍ خَامِسٍ) عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَعْقِلٍ الْمُزَنِّیِّ قَالَ: قَعَدْتُّ إِلٰی کَعْبِ بْنِ عُجْرَۃَ وَہُوَ فِیْ الْمَسْجِدِ (وَفِیْ لَفْظٍ: یَعْنِی مَسْجِدَ الْکُوْفَۃِ) فَسَأَلْتُہُ عَنْ ہٰذِہِ الْآیَۃِ {فَفِدْیَۃٌ مِّنْ صِیَامٍ أَوْ صَدَقَۃٍ أَوْ نُسُکٍ} قَالَ: فَقَالَ کَعْبٌ: نَزَلَتْ فِیَّ، کَانَ بِیْ أَذًی مِنْ رَأْسِیْ فَحُمِلْتُ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَالْقَمْلُ یَتَنَاثَرُ عَلٰی وَجْہِیْ، فَقَالَ: ((مَا کُنْتُ أَرٰی أَنَّ الْجَہْدَ بَلَغَ مِنْکَ مَا أَرٰی، أَتَجِدُ شَاۃً؟)) فَقُلْتُ: لَا، فَنَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ: {فَفِدْیَۃٌ مِّنْ صِیَامٍ أَوْ صَدَقَۃٍ أَوْ نُسُکٍِ} قَالَ: صَوْمُ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ أَوْ إِطْعَامُ سِتَّۃِ مَسَاکِیْنَ، نِصْفَ صَاعٍ طَعَامٍ لِکُلِّ مِسْکِیْنٍ، قَالَ: فَنَزَلَتْ فِیَّ خَاصَّۃً وَہِیَ لَکُمْ عَامَّۃً۔ (مسند احمد: ۱۸۲۸۹)

۔ (پانچویں سند) عبد اللہ بن معقل مزنی کہتے ہیں: میں کوفہ کی مسجد میں سیدنا کعب بن عجرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس بیٹھا ہواتھا، میں نے ان سے اس آیت {فَفِدْیَۃٌ مِّنْ صِیَامٍ أَوْ صَدَقَۃٍ أَوْ نُسُکٍ}(سورۂ بقرہ: ۱۹۶) کی بابت پوچھا، انہوں نے کہا: یہ آیت میرے بارے میں نازل ہوئی تھی، میرے سر میں جوئیں تھیں، اس لیے مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس لایا گیا، جوئیں میرے چہرے پر گر رہی تھیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرایہ خیال تو نہیں تھا کہ تجھے اس قدر تکلیف اور مشقت ہو گی، کیا تم بکری ذبح کرنے کی استطاعت رکھتے ہو؟ میں نے عرض کیا: جی نہیں، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی: {فَفِدْیَۃٌ مِّنْ صِیَامٍ أَوْ صَدَقَۃٍ أَوْ نُسُکٍ} (سورۂ بقرہ: ۱۹۶) یعنی تین روزے رکھنا یا چھ مساکین کو اس طرح کھانا کھلانا کہ ہر ایک کو نصف نصف صاع آ جائے۔ سیدنا کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: یہ آیت خاص طور پر نازل تو میرے بارے میں ہوئی، لیکن اس کا حکم تم سب کے لیے عام ہے۔

Haidth Number: 4276
۔ (چھٹی سند) اس میں ہے: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم بکری ذبح کرنے کی طاقت رکھتے ہو؟ میں نے کہا: جی نہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر تم تین روزے رکھ لو یا چھ مسکینوں کو اس طرح کھانا کھلا دو کہ ہر مسکین کو کھجوروں کا نصف نصف صاع مل جائے۔

Haidth Number: 4277
۔ (ساتویں سند) سیدنا کعب بن عجرہ کہتے ہیں:میرے سر میں اس قدر جوئیں ہو گئیں کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ میرے سر کے ہر ہر بال کی جڑ سے لے کر اوپر تک جوئیں ہی جوئیں ہیں، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرایہ حال دیکھا تو فرمایا: سر منڈا دو۔ اور اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: چھ مساکین کو تین صاع کھجوریں کھلا دو۔

Haidth Number: 4278
Haidth Number: 4279

۔ (۴۴۵۵) عَنْ ھِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما قَالَ: کُنْتُ رَدِیْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَشِیَّۃَ عَرَفَۃَ، قَالَ: فَلَمَّا وَقَعَتِ الشَّمْسُ، دَفَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَلَمَّا سَمِعَ حَطْمَۃَ النَّاسِ خَلْفَہُ، قَالَ: ((رُوَیْدًا أَیُّہَا النَّاسُ! عَلَیْکُمُ السَّکِیْنَۃَ، فَإِنَّ الْبِرَّ لَیْسَ بِالْإِیْضَاعِ۔)) قَالَ: فَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا الْتَحَمَ عَلَیْہِ النَّاسُ أَعْنَقَ، وَإِذَا وَجَدَ فُرْجَۃً، نَصَّ، (وَفِیْ لَفْظٍ: وَالنَّصُّ فَوْقَ الْعَنَقِ حَتّٰی مَرَّ بِالشِّعْبِ الَّذِیْیَزْعُمُ کَثِیْرٌ مِنَ النَّاسِ أَنَّہُ صَلّٰی فِیْہِ)، (وَفِیْ لَفْظٍ: فَأَتَی النَّقْبَ الَّذِیْیَنْزِلُ الْأَمَرَائُ وَالْخُلَفَائُ) فَنَزَلَ بِہِ فَبَالَ، مَا یَقُوْلُ: أَھَرَاقَ الْمَائَ کَمَا یَقُوْلُوْنَہُ، ثُمَّ جِئْتُہُ بِالإِدَاوَۃِ، فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ قُلْتُ: الصَّلَاۃَیَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: فَقَالَ: ((اَلصَّلَاۃُ أَمَامَکَ)) قَالَ: فَرَکِبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَمَا صَلّٰی حَتَّی أَتٰی الْمُزْدَلِفَۃَ فَنَزَلَ بِہَا، فَجَمَعَ بَیْنَ الصَّلَاتَیْنِ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَائِ الْآخِرَۃِ۔ (مسند احمد: ۲۲۱۰۳)

۔ سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں عرفہ کے دن پچھلے پہر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ سواری پر سوار تھا، جب سورج غروب ہو اتو رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہاں سے روانہ ہوئے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں کا رش دیکھا اور شور سنا تو فرمایا: لوگو! آرام سے چلو، سکون کو لازم پکڑو، تیز چلنا اور مشقت اٹھانا کوئی نیکی نہیں۔ سیدنا اسامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جب لوگوں کا ہجوم ہو جاتا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم آہستہ چلتے اور جب راستہ خالی ہوتا تو ذرا تیز چلتے، ( عَنَق کی بہ نسبت نَصّ میں زیادہ تیزی ہوتی ہے،) یہاں تک کہ جب آپ اس گھاٹی سے گزرے جس کے متعلق اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس میں نماز اداکی تھی، دوسری روایت میں ہے: جب آپ اس گھاٹی پر پہنچے جہاں امرا ء اور خلفاء اترتے ہیں تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہاں اتر کر پیشاب کیا، راوی نے أَھْرَاقَ کے الفاظ نہیں کہے، پھر میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کیخدمت میں پانی کا برتن لے کر آیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وضو کیا۔ پھر میںنے کہا: اے اللہ کے رسول! نماز۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نماز آگے جاکر ادا کریں گے۔ سیدنا اسامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: پھر رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سوار ہو گئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس وقت نماز نہ پڑھی،یہا ں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مزدلفہ جاکر اترے اور آپ نے وہاں مغرب اور عشاء کو جمع کر کے ادا کیا۔

Haidth Number: 4455

۔ (۴۴۵۶) عَنْ إِبْرَاھِیْمَ بْنِ عُقْبَۃَ أَخْبَرَنِیْ کُرَیْبٌ أَنَّہُ سَأَلَ أُسَامَۃَ بْنَ زَیْدٍ قَالَ: قُلْتُ: أَخْبِرْنِی کَیْفَ صَنَعْتُمْ عَشِیَّۃَ رَدِفْتَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ قَالَ: جِئْنَا الشِّعْبَ الَّذِیْیُنِیْخُ فِیْہِ النَّاسُ لِلْمَغْرِبِ فَأَنَاخَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَاقَتَہُ ثُمَّ بَالَ مَائً، وَمَا قَالَ: أَھْرَاقَ الْمَائَ، ثُمَّ دَعَا بِالْوَضُوْئِ، فَتَوَضَّأَ وُضُوْئً لَیْسَ بِالْبَالِغِ جِدًّا، قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اَلصَّلَاۃَ، قَالَ: ((اَلصَّلَاۃُ أَمَامَکَ۔)) قَالَ: فَرَکِبَ حَتّٰی قَدِمَ الْمُزْدَلِفَۃَ فَأَقَامَ الْمَغْرِبَ، ثُمَّ أَنَاخَ النَّاسُ فِیْ مَنَازِلِہِمْ وَلَمْ یَحُلُّوْا حَتّٰی أَقَامَ الْعِشَائَ فَصَلّٰی ثُمَّ حَلَّ النَّاسُ، قَالَ: فَقُلْتُ: کَیْفَ فَعَلْتُمْ حِیْنَ أَصْبَحْتُمْ؟ قَالَ: رَدِفَہُ الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ، وَانْطَلَقْتُ أَنَا فِی سُبَّاقِ قُرَیْشٍ عَلٰی رِجْلَیَّ۔ (مسند احمد: ۲۲۰۸۵)

۔ کریب نے سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے سوال کیا کہ جس شام یعنی عرفہ کے دن شام کو جب تم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ سوار تھے تو تم نے کیا کیا تھا؟ سیدنا اسامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ہم اس گھاٹی پر پہنچے جہاں لوگ اتر کر مغرب کی نماز کے لئے ٹھہرتے ہیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہا ں اپنی اونٹنی کو بٹھا کر پیشاب کیا ، راوی نے أَھْرَاقَ کے الفاظ نہیں کہے، ا اس کے بعد وضو کا پانی منگواکر مختصر سا وضو کیا۔ سیدنا اسامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! نماز، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نماز آگے جاکر پڑھیں گے۔ اس کے بعد آپ سوار ہوکر روانہ ہوئے اور مزدلفہ جاپہنچے۔ آپ نے وہاں مغرب کی نماز ادا کی، بعد ازاں لوگوں نے اپنی اپنی جگہ اونٹوں کو بٹھایا، لیکن ابھی تک انہوںنے سواریوںسے سامان نہیں کھولے تھے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عشاء کی نماز کھڑی کر دی،یہ نماز ادا کر کے لوگوںنے سواریوں سے سامان اتارے، کریب نے پوچھا: آپ لوگوں نے صبح کیا کچھ کیا تھا؟ سیدنا اسامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: سیدنا فضل بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس مرحلے میں آپ کے ساتھ سوار ہوئے تھے اور میں پہلے جانے والے قریشیوںکے ساتھ پیدل چلا گیا تھا۔

Haidth Number: 4456
۔ انس بن سیرین کہتے ہیں: میں عرفات میں سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کے ہمراہ تھا، جب روانگی کا وقت ہوا تو میں بھی ان کے ساتھ روانہ ہوا، جب امام آیا تو سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے اس کے ساتھ ظہر اور عصر کی نمازیں ادا کیں، پھر انہوں نے امام کے ساتھ وقوف کیا، میں اور میرے دوسرے احباب بھی ساتھ تھے، جب امام غروب آفتاب کے بعد عرفات سے روانہ ہوا تو ہم بھی ان کے ہمراہ چل پڑے، حتیٰ کہ جب ہم مَأْزِم نامی دو پہاڑوں کے درمیان ایک تنگ راستے میں پہنچ گئے تو سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے اپنی سواری کو بٹھا دیا،یہ دیکھ کر ہم نے بھی سواریاں بٹھادیں، ہم سمجھ رہے تھے کہ وہ نماز ادا کرنا چاہتے ہیں، لیکن ان کے جس غلام نے ان کی سواری کی رسی پکڑی ہوئی تھی، اس نے بتلایا کہ وہ یہاں نماز ادا نہیں کرنا چاہتے،ان کے اترنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کو یہ بات یاد آئی ہے کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس مقام پر پہنچے تھے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قضائے حاجت کی تھی، اب سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھییہاں قضائے حاجت کرنا چاہتے ہیں۔

Haidth Number: 4457

۔ (۴۴۵۸) عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ یَزِیْدَ قَالَ: حَجَجْنَا مَعَ ابْنِ مَسْعُوْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فِیْ خِلَافَۃِ عُثْمَانَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: فَلَمَّا وَقَفْنَا بِعَرَفَۃَ، قَالَ: فَلَمَّا غَابَتِ الشَّمْسُ قَالَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ: لَوْ أَنَّ أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ أَفَاضَ الْآنَ کَانَ قَدْ أَصَابَ، قَالَ: فَلَا أَدْرِی أَکَلِمَۃُ ابْنِ مَسْعُوْدٍ کَانَتْ أَسْرَعَ أَوْ إِفَاضَۃُ عُثْمَانَ، قَالَ: فَاَوْضَعَ النَّاسُ، وَلَمْ یَزِدِ ابْنُ مَسْعُوْدٍ عَلَی الْعَنَقٍ، حَتّٰی أَتَیْنَا جَمْعًا فَصَلّٰی بِنَا ابْنُ مَسْعُوْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ الْمَغْرِبَ، ثُمَّ دَعَا بِعَشَائِۃِ ثُمَّ تَعَشّٰی، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّی الْعِشَائَ الآخِرَۃَ، ثُمَّ رَقَدَ حَتّٰی إِذَا طَلَعَ أَوَّلُ الْفَجْرِ، قَامَ فَصَلَّی الْغَدَاۃَ، قَالَ: فَقُلْتُ لَہُ: مَا کُنْتَ تُصَلِّی الصَّلَاۃَ ھٰذِہِ السَّاعَۃَ،قَالَ: وَکَانَ یُسْفِرُ بِالصَّلَاۃِ، قَالَ: إِنِّی رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ ھٰذَا الْیَوْمِ وَھٰذَا الْمَکَانِ یُصَلِّی ھٰذِہِ السَّاعَۃَ۔ (مسند احمد: ۳۸۹۳)

۔ عبدالرحمن بن یزید سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے عہد میں سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ حج ادا کیا، جب ہم نے عرفہ میں وقوف کیا اور سورج غروب ہو گیا تو سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اگر امیر المومنین ابھی روانہ ہوجائیں تو یہ روانگی سنت کے مطابق ہو گی۔ عبدالرحمن کہتے ہیں: میں نہیں جانتا کہ سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بات پہلے ہوئییا سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی روانگی پہلے شروع ہوئی، لوگوں نے تو بہت تیز چلنا شروع کر دیا، لیکن سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی رفتار ہلکی تیز رہی،یہاں تک کہ ہم مزدلفہ پہنچ گئے، سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ہمیں مغرب کی نماز پڑھائی، بعد ازاں انہوںنے کھانا منگوا کر کھایا، اس کے بعد عشاء کی اقامت ہوئی اور انہوں نے یہ نماز پڑھائی، پھر وہ سو گئے، جب صبح صاوق ہوئی تو اٹھ کر نمازِ فجر ادا کی۔ عبدالرحمن کہتے ہیں: میں نے عرض کیا : آپ تو صبح کی نماز اس وقت یعنی اس قدر سویرے ادا نہیں کیا کرتے؟ وہ صبح کی نماز روشنی ہونے پر اداکیا کرتے تھے، انھوں نے جواب دیا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس دن اس مقام پر اسی وقت میں نماز فجر ادا کرتے دیکھا ہے۔

Haidth Number: 4458
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے روانگی والی رات بطحاء سے کافی اندھیرا کیا (پھر سفر شروع کیا)۔

Haidth Number: 4459
۔ حدیث سے مقصود عرفہ سے مزدلفہ کے لیے کوچ کرنے کی بات اگرچہ صاحب بلوغ الامانی نے بھی لکھی ہے اور اس کو سامنے رکھ کر انہوں نے زیر مطالعہ باب کے تحت اسے ذکر کیا ہے۔ لیکنیہ بات محل نظر ہے تفصیل ابن ماجہ کی شرح انجاز الحاجہ اور بخاری ومسلم کی مفصل روایات میں دیکھیں۔ (عبداللہ رفیق)

Haidth Number: 4460
Haidth Number: 4461
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ عرفہ کے دن سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سواری پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے سوار تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گھاٹی میں داخل ہوئے تو آپ نے اتر کر پیشاب کیا، اس کے بعد وضو کرکے دوبارہ سوار ہوکر چل پڑے اور وہاں نماز ادا نہیں کی۔

Haidth Number: 4462
Haidth Number: 4463
۔ حنش سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دیکھا کہ انھوں نے دو دنبوں کی قربانی کی، میں نے ان سے کہا: یہ کیا ہے؟ انھوں نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے وصیت کی کہ میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف سے قربانی کروں۔

Haidth Number: 4715
۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف سے دو دنبوں کی قربانی کروں، پس میں چاہتا ہوں کہ یہ کام کروں۔ محمد بن عبید محاربی نے اپنی حدیث میں کہا: انھوں نے دو دنبوں کی قربانی کی، ایک نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف سے اور دوسری اپنی طرف سے، جب ان سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا: بیشک آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے حکم دیا تھا، پس میں اس کو کبھی بھی نہیں چھوڑوں گا۔

Haidth Number: 4716
۔ سیدنا عبد اللہ بن قرط ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے عظیم قربانی والا دن ہے، اس کے بعد روانگی کا دن ہے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف پانچ چھ اونٹ قریب کیے گئے، وہ اونٹ خود آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف قریب ہونے لگے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کس سے شروع کریں گے، پس جب ان کے پہلو گر گئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آہستہ سے کوئی بات کی، میں اس کو نہ سمجھ سکا، پس میں نے اپنے قریب والے ایک آدمی سے سوال کیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کیا فرمایا ہے؟ اس نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو چاہتا ہے، گوشت کا ٹ لے۔

Haidth Number: 4717
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب کسی قوم سے لڑائی کی، پہلے ان کو اسلام کی دعوت دی۔

Haidth Number: 4934

۔ (۴۹۳۵)۔ عَنْ أَبِی حَازِمٍ، أَخْبَرَنِی سَہْلُ بْنُ سَعْدٍ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ یَوْمَ خَیْبَرَ: ((لَأُعْطِیَنَّ ہٰذِہِ الرَّایَۃَ غَدًا رَجُلًا یَفْتَحُ اللّٰہُ عَلٰی یَدَیْہِ، یُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ وَیُحِبُّہُ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ۔)) قَالَ: فَبَاتَ النَّاسُ یَدُوکُونَ لَیْلَتَہُمْ أَیُّہُمْ یُعْطَاہَا، فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّاسُ غَدَوْا عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، کُلُّہُمْ یَرْجُو أَنْ یُعْطَاہَا، فَقَالَ: ((أَیْنَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ؟)) فَقَالَ: ہُوَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! یَشْتَکِی عَیْنَیْہِ، قَالَ: فَأَرْسِلُوا إِلَیْہِ فَأُتِیَ بِہِ، فَبَصَقَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی عَیْنَیْہِ وَدَعَا لَہُ، فَبَرَأَ حَتّٰی کَأَنْ لَمْ یَکُنْ بِہِ وَجَعٌ، فَأَعْطَاہُ الرَّایَۃَ، فَقَالَ عَلِیٌّ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أُقَاتِلُہُمْ حَتّٰی یَکُونُوا مِثْلَنَا، فَقَالَ: ((انْفُذْ عَلٰی رِسْلِکَ حَتّٰی تَنْزِلَ بِسَاحَتِہِمْ، ثُمَّ ادْعُہُمْ إِلَی الْإِسْلَامِ، وَأَخْبِرْہُمْ بِمَا یَجِبُ عَلَیْہِمْ مِنْ حَقِّ اللّٰہِ فِیہِ، فَوَاللّٰہِ لَأَنْ یَہْدِیَ اللّٰہُ بِکَ رَجُلًا وَاحِدًا، خَیْرٌ لَکَ مِنْ أَنْ یَکُونَ لَکَ حُمْرُ النَّعَمِ))(مسند أحمد: ۲۳۲۰۹)

۔ سیدنا سہل بن سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خیبر والے دن فرمایا: کل میں ایسے شخص کو جھنڈا دوں گا کہ اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھوں پر فتح عطا فرمائے گا، وہ شخص اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔ لوگوں نے وہ رات اس حال میں گزاری کہ وہ غور و فکر کرتے رہے کہ کس شخص کو یہ جھنڈا دیا جائے گا، جب صبح ہوئی اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے تو ہر ایک کو جھنڈا ملنے کی امید تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: علی بن ابی طالب کہاں ہے؟ کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! ان کی آنکھ خراب ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان کی طرف پیغام بھیج کر ان کا بلاؤ۔ پس ان کو لایا گیا، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی آنکھوں میں تھوکا اور ان کے لیے دعا کی، وہ یوں شفایاب ہوئے کہ گویا ان کو کوئی تکلیف ہی نہ تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو جھنڈا عطا کر دیا۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں ان سے قتال کرتا رہوں گا، یہاں تک کہ وہ ہماری طرح ہو جائیں گے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سلامتی کے ساتھ چل، یہاں تک کہ ان کے صحن میں جا اتر اور ان کو اسلام کی دعوت دے اور ان کو بتلا کہ اللہ تعالیٰ کا کون سا حق ان پر واجب ہے، اللہ کی قسم ہے! اگر اللہ تعالیٰ نے تیری وجہ سے کسی ایک بندے کو بھی ہدایت دے دی تو وہ تیرے لیے سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہو گا۔

Haidth Number: 4935

۔ (۴۹۳۶)۔ عَنْ بُرَیْدَۃَ الْاَسْلَمِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا بَعَثَ أَمِیرًا عَلٰی سَرِیَّۃٍ أَوْ جَیْشٍ أَوْصَاہُ فِی خَاصَّۃِ نَفْسِہِ بِتَقْوَی اللّٰہِ، وَمَنْ مَعَہُ مِنْ الْمُسْلِمِینَ خَیْرًا، وَقَالَ: ((اغْزُوا بِسْمِ اللّٰہِ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ، قَاتِلُوْا مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ، فَإِذَا لَقِیتَ عَدُوَّکَ مِنَ الْمُشْرِکِینَ فَادْعُہُمْ إِلٰی إِحْدٰی ثَلَاثِ خِصَالٍ أَوْ خِلَالٍ، فَأَیَّتُہُنَّ مَا أَجَابُوکَ إِلَیْہَا فَاقْبَلْ مِنْہُمْ وَکُفَّ عَنْہُمْ، ادْعُہُمْ إِلَی الْإِسْلَامِ فَإِنْ أَجَابُوکَ فَاقْبَلْ مِنْہُمْ، ثُمَّ ادْعُہُمْ إِلَی التَّحَوُّلِ مِنْ دَارِہِمْ إِلٰی دَارِ الْمُہَاجِرِینَ، وَأَعْلِمْہُمْ إِنْ ہُمْ فَعَلُوا ذٰلِکَ أَنَّ لَہُمْ مَا لِلْمُہَاجِرِینَ، وَأَنَّ عَلَیْہِمْ مَا عَلَی الْمُہَاجِرِینَ، فَإِنْ أَبَوْا وَاخْتَارُوْا دَارَہُمْ، فَأَعْلِمْہُمْ أَنَّہُمْ یَکُونُونَ کَأَعْرَابِ الْمُسْلِمِینَ، یَجْرِی عَلَیْہِمْ حُکْمُ اللّٰہِ الَّذِی یَجْرِی عَلَی الْمُؤْمِنِینَ، وَلَا یَکُونُ لَہُمْ فِی الْفَیْئِ وَالْغَنِیمَۃِ نَصِیبٌ إِلَّا أَنْ یُجَاہِدُوا مَعَ الْمُسْلِمِینَ، فَإِنْ ہُمْ أَبَوْا فَادْعُہُمْ إِلٰی إِعْطَائِ الْجِزْیَۃِ، فَإِنْ أَجَابُوا فَاقْبَلْ مِنْہُمْ وَکُفَّ عَنْہُمْ، فَإِنْ أَبَوْا فَاسْتَعِنِ اللّٰہَ ثُمَّ قَاتِلْہُمْ)) وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ بِنَحْوِہِ: ((وَإِذَا حَاصَرْتَ أَہْلَ حِصْنٍ، فَأَرَادُوکَ أَنْ تَجْعَلَ لَہُمْ ذِمَّۃَ اللّٰہِ وَذِمَّۃَ نَبِیِّکَ، فَلَا تَجْعَلْ لَہُمْ ذِمَّۃَ اللّٰہِ وَلَا ذِمَّۃَ نَبِیِّہِ، وَلٰکِنْ اجْعَلْ لَہُمْ ذِمَّتَکَ وَذِمَّۃَ أَبِیکَ وَذِمَمَ أَصْحَابِکَ، فَإِنَّکُمْ إِنْ تُخْفِرُوْا ذِمَمَکُمْ وَذِمَمَ آبَائِکُمْ أَہْوَنُ مِنْ أَنْ تُخْفِرُوا ذِمَّۃَ اللّٰہِ وَذِمَّۃَ رَسُولِہِ، وَإِنْ حَاصَرْتَ أَہْلَ حِصْنٍ، فَأَرَادُوکَ أَنْ تُنْزِلَہُمْ عَلَی حُکْمِ اللّٰہِ، فَلَا تُنْزِلْہُمْ عَلٰی حُکْمِ اللّٰہِ، وَلٰکِنْ أَنْزِلْہُمْ عَلٰی حُکْمِکَ، فَإِنَّکَ لَا تَدْرِی أَتُصِیبُ حُکْمَ اللّٰہِ فِیہِمْ أَمْ لَا۔)) قَالَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ: ھٰذَا اَوْنَحْوُہٗ۔ (مسند أحمد: ۲۳۴۱۸)

۔ سیدنا بریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب کسی شخص کو چھوٹے یا بڑے لشکر کا امیر بنا کر بھیجتے تو خاص طور پر اس کو اللہ سے ڈرتے اور اس کے ساتھ والے مسلمانوں کو خیر و بھلائی کی نصیحت کرتے اور فرماتے: اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ اس کی راہ میں جہاد کر، اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنے والوں سے قتال کر، جب تو اپنے مشرک دشمنوں کے سامنے آئے تو ان کو تین خصلتوں میں سے ایک کی طرف دعوت دے، وہ ان میں سے جس چیز کا مثبت جواب دیں، تو ان سے وہ قبول کر لے اور ان پر حملہ کرنے سے رک جا، سب سے پہلے ان کو اسلام کی دعوت دے، اگر وہ قبول کر لیں تو تو ان سے اس چیز کو قبول کر لے، پھر ان کو دعوت دے کہ وہ اپنے گھروں سے مہاجروں کے گھروں کی طرف ہجرت کریں اور ان کو یہ بتلا کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کو وہ حقوق ملیں گے، جو مہاجرین کو ملے ہوئے ہیں اور ان پر وہ ذمہ داریاں عائد ہوں گی، جو مہاجرین پر ہیں، اگر وہ اس طرح ہجرت کرنے سے انکار کر دیں تو تو ان کو بتلا دے کہ ان کا حکم بدو مسلمانوں کا ہو گا، ان پر اللہ تعالیٰ کا وہی حکم چلے گا، جو اس قسم کے مسلمانوں پر چلتا ہے، ان کے لیے مالِ فے اور مالِ غنیمت میں سے کوئی حصہ نہیں ہو گا، الا یہ کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ جہاد کریں، اگر وہ اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیں تو ان کو جزیہ دینے کی دعوت دے، اگر وہ مان جائیں تو تو ان سے یہ جزیہ قبول کر لے اور ان سے رک جا اور اگر وہ جزیہ دینے سے بھی انکار کر دیں تو اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کر اور ان سے قتال شروع کر دے۔ دوسری سند: اسی قسم کا متن مروی ہے، البتہ اس میں ہے: اور جب تو اہل قلعہ کا محاصرہ کر لے اور وہ تجھ سے یہ چاہیں کہ تو ان کو اللہ کا ذمہ اور اپنے نبی کا ذمہ دے، تو تونے ایسے نہیں کرنا، ان کو اللہ اور اس کے نبی کا ذمہ نہیں دینا،ہاں ان کو اپنا، اپنے باپ کا اور اپنے ساتھیوں کا ذمہ دے سکتے ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر تم نے اپنے اور اپنے آباء کے ذموں کو توڑ دیا تو یہ فعل اس سے ہلکا ہو گا کہ تم اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ توڑ دو، اسی طرح اگر تو اہل قلعہ کا محاصرہ کر لے اور وہ یہ ارادہ کریں کہ تو ان کو اللہ کے حکم پر اتارے تو تو نے ان کو اللہ کے حکم پر نہیں اتارنا، بلکہ اپنے حکم پر اتارنا ہے، کیونکہ تو نہیں جانتا کہ تو اللہ تعالیٰ کے حکم کو پا لے گا یا نہیں۔

Haidth Number: 4936

۔ (۴۹۳۷)۔ عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ قَالَ: حَاصَرَ سَلْمَانُ الْفَارِسِیُّ قَصْرًا مِنْ قُصُورِ فَارِسَ، فَقَالَ لَہُ أَصْحَابُہُ: یَا أَبَا عَبْدِ اللّٰہِ! أَلَا تَنْہَدُ إِلَیْہِمْ؟ قَالَ: لَا، حَتّٰی أَدْعُوَہُمْ کَمَا کَانَ یَدْعُوہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: فَأَتَاہُمْ فَکَلَّمَہُمْ، قَالَ: أَنَا رَجُلٌ فَارِسِیٌّ، وَأَنَا مِنْکُمْ وَالْعَرَبُ یُطِیعُونِی، فَاخْتَارُوا إِحْدٰی ثَلَاثٍ، إِمَّا أَنْ تُسْلِمُوا، وَإِمَّا أَنْ تُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَدٍ وَأَنْتُمْ صَاغِرُونَ غَیْرُ مَحْمُودِینَ، وَإِمَّا أَنْ نُنَابِذَکُمْ فَنُقَاتِلَکُمْ، قَالُوا لَا نُسْلِمُ، وَلَا نُعْطِی الْجِزْیَۃَ، وَلٰکِنَّا نُنَابِذُکُمْ، فَرَجَعَ سَلْمَانُ إِلٰی أَصْحَابِہِ، قَالُوْا: أَلَا تَنْہَدُ إِلَیْہِمْ، قَالَ: لَا، قَالَ: فَدَعَاہُمْ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ فَلَمْ یَقْبَلُوْا فَقَاتَلَہُمْ فَفَتَحَہَا۔ (مسند أحمد: ۲۴۱۴۰)

۔ ابو بختری کہتے ہیں: سیدنا سلمان فارسی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے فارس کے محلات میں ایک محل کا محاصرہ کر لیا، ان کے ساتھیوں نے ان سے کہا: اے ابو عبد اللہ! کیا تو ان کی طرف کھڑا ہو کر (ان پر حملہ نہیں) کرتا؟ انھوں نے کہا: جی نہیں، یہاں تک کہ میں ان کو دعوت دے لوں، جیسا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دعوت دیتے تھے، پس وہ ان کے پاس آئے اور ان سے یوں بات کی: میں فارسی آدمی ہوں، میں تم میں سے ہی ہوں، یہ عرب میری اطاعت کرنے والے ہیں، تین امور میں سے ایک کو پسند کر لو، یا اسلام قبول کر لو، یا اپنے ہاتھ سے جزیہ دو، اس حال میں کہ تم ذلیل ہو گے اور تمہیں سراہا نہیں جائے گا، یا پھر ہم تم سے اعلانِ جنگ کر کے قتال شروع کر تے ہیں، انھو ں نے کہا: نہ ہم اسلام قبول کرتے ہیں اور نہ جزیہ دیتے ہیں، بلکہ ہم تم سے اعلانِ جنگ کرتے ہیں، سیدنا سلمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ آئے، انھوں نے کہا: کیا اب آپ ان کی طرف کھڑے نہیں ہوتے؟ انھوں نے کہا: جی نہیں، پس انھوں نے ان کو تین دن دعوت دی، لیکن انھوں نے قبول نہ کی، پھر انھوں نے ان سے لڑائی شروع کر دی اور اس محل کو فتح کر لیا۔

Haidth Number: 4937

۔ (۴۹۳۸)۔ عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ، أَنَّ سَلْمَانَ حَاصَرَ قَصْرًا مِنْ قُصُورِ فَارِسَ، فَقَالَ لِأَصْحَابِہِ: دَعُونِی حَتّٰی أَفْعَلَ مَا رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَفْعَلُ، فَحَمِدَ اللّٰہَ وَأَثْنٰی عَلَیْہِ، ثُمَّ قَالَ: إِنِّی امْرُؤٌ مِنْکُمْ، وَإِنَّ اللّٰہَ رَزَقَنِی الْإِسْلَامَ، وَقَدْ تَرَوْنَ طَاعَۃَ الْعَرَبِ، فَإِنْ أَنْتُمْ أَسْلَمْتُمْ وَہَاجَرْتُمْ إِلَیْنَا، فَأَنْتُمْ بِمَنْزِلَتِنَا، یَجْرِی عَلَیْکُمْ مَا یَجْرِی عَلَیْنَا، وَإِنْ أَنْتُمْ أَسْلَمْتُمْ وَأَقَمْتُمْ فِی دِیَارِکُمْ، فَأَنْتُمْ بِمَنْزِلَۃِ الْأَعْرَابِ، یَجْرِی لَکُمْ مَا یَجْرِی لَہُمْ، وَیَجْرِی عَلَیْکُمْ مَا یَجْرِی عَلَیْہِمْ، فَإِنْ أَبَیْتُمْ وَأَقْرَرْتُمْ بِالْجِزْیَۃِ، فَلَکُمْ مَا لِأَہْلِ الْجِزْیَۃِ، وَعَلَیْکُمْ مَا عَلٰی أَہْلِ الْجِزْیَۃِ، عَرَضَ عَلَیْہِمْ ذٰلِکَ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ، ثُمَّ قَالَ لِأَصْحَابِہِ: انْہَدُوا إِلَیْہِمْ فَفَتَحَہَا۔ (مسند أحمد: ۲۴۱۳۵)

۔ ابو بختری کہتے ہیں: سیدنا سلمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے فارس کے محلّات میں سے ایک محل کا محاصرہ کر لیا اور اپنے ساتھیوں سے کہا: مجھے چھوڑ دو، تاکہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جو کچھ کیا تھا، وہ کچھ میں کر لوں، پھر انھوں نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور کہا: میں تم میں سے ایک آدمی ہوں، اللہ تعالیٰ نے مجھے اسلام عطا کیا ہے اور تم دیکھ رہے ہو کہ عرب لوگ میری اطاعت میں ہیں، اب اگر تم بھی اسلام قبول کر لو اور ہماری طرف ہجرت کرو تو تم ہمارے قائم مقام ہو گے اور ہمارے والے حقوق اور احکام تم کو مل جائیں گے، اور اگر تم اسلام قبول کر لو، لیکن اپنے علاقے میں ہی ٹھہرے رہو تو تم بدوؤں کے قائمقام ہو گے اور تم کو بدوؤں والے حقوق ملیں گے اور تم پر ذمہ داریاں عائد ہوں گی، جو بدوؤں پر عائد ہوتی ہیں، اور اگر تم اسلام کا انکار کر دو اور جزیہ کا اقرار کر لو تو تم کو وہ حقوق ملیں گے، جو اہل جزیہ کو ملتے ہیں اور تم پر وہ ذمہ داریاں عائد ہوں گی، جو اہل جزیہ پر عائد ہوتی ہیں، انھوں یہ باتیں تین دن ان پر پیش کیں، چونکہ وہ نہ مانے، اس لیے انھوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا: اب کھڑے ہو جاؤ اور ان پر حملہ کر دو، پس انھوں نے اس کو فتح کر لیا۔

Haidth Number: 4938

۔ (۴۹۳۹)۔ حَدَّثَنَا یَزِیدُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْن قَالَ: کَتَبْتُ إِلٰی نَافِعٍ أَسْأَلُہُ مَا أَقْعَدَ ابْنَ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ الْغَزْوِ أَوْ عَنِ الْقَوْمِ، إِذَا غَزَوْا بِمَا یَدْعُونَ الْعَدُوَّ قَبْلَ أَنْ یُقَاتِلُوہُمْ، وَہَلْ یَحْمِلُ الرَّجُلُ إِذَا کَانَ فِی الْکَتِیبَۃِ بِغَیْرِ إِذْنِ إِمَامِہِ؟، فَکَتَبَ إِلَیَّ، إِنَّ ابْنَ عُمَرَ قَدْ کَانَ یَغْزُو وَلَدُہُ وَیَحْمِلُ عَلَی الظَّہْرِ، وَکَانَ یَقُولُ: إِنَّ أَفْضَلَ الْعَمَلِ بَعْدَ الصَّلَاۃِ الْجِہَادُ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ تَعَالٰی، وَمَا أَقْعَدَ ابْنَ عُمَرَ عَنْ الْغَزْوِ إِلَّا وَصَایَا لِعُمَرَ، وَصِبْیَانٌ صِغَارٌ، وَضَیْعَۃٌ کَثِیرَۃٌ، وَقَدْ أَغَارَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی بَنِی الْمُصْطَلِقِ وَہُمْ غَارُّونَ یَسْقُونَ عَلٰی نَعَمِہِمْ، فَقَتَلَ مُقَاتِلَتَہُمْ، وَسَبٰی سَبَایَاہُمْ، وَأَصَابَ جُوَیْرِیَۃَ بِنْتَ الْحَارِثِ، قَالَ: فَحَدَّثَنِی بِہٰذَا الْحَدِیثِ ابْنُ عُمَرَ، وَکَانَ فِی ذٰلِکَ الْجَیْشِ، وَإِنَّمَا کَانُوا یُدْعَوْنَ فِی أَوَّلِ الْإِسْلَامِ، وَأَمَّا الرَّجُلُ فَلَا یَحْمِلُ عَلَی الْکَتِیبَۃِ إِلَّا بِإِذْنِ إِمَامِہِ۔ (مسند أحمد: ۴۸۷۳)

۔ ابن عون کہتے ہیں: میں نے امام نافع سے بذریعہ کتابت یہ سوالات کیے کہ کس چیز نے سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو غزوے سے یا جہاد کرنے والے لوگوں سے پیچھے بٹھا دیا ہے، دشمنوں کے ساتھ لڑنے سے پہلے سب سے پہلے ان کو کس چیز کی دعوت دی جائے گی اور کیا آدمی امام کی اجازت کے بغیر کسی لشکر پر حمل کر سکتا ہے؟ انھوں نے تحریری جواب دیتے ہوئے لکھا: سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیٹا جہاد کر رہا ہے اور وہ سواریاں دے رہے ہیں، نیز وہ کہتے ہیں کہ نماز کے بعد سب سے افضل عمل جہاد فی سبیل اللہ ہے، لیکن سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو غزوے سے پیچھے کر دینے والی سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی وصیتیں، چھوٹے بچے اور مالِ کثیر ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بنو مصطلق پر شب خون مارا تھا، جبکہ وہ غافل تھے اور اونٹوں کو پانی پلا رہے تھے، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے جنگ جوؤں کو قتل کر دیا اور ان کے باقی افراد کو قیدی بنا لیا، اسی جنگ میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ جویریہ بنت ِ حارث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو بطورِ قیدی حاصل کیا تھا، سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے یہ حدیث بیان کی ہے اور وہ اس لشکر میں بھی موجو د تھے، کافروں کو سب سے پہلے اسلام کی دعوت دی جائے گی اور آدمی کو امام کی اجازت کے بغیر لشکر پر حملہ نہیں کرنا چاہیے۔

Haidth Number: 4939
۔ سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: درخت پر لگا ہوا پھل کھجوروں کے عوض فروخت نہ کیا جائے اور کوئی بھی پھل اس وقت تک فروخت نہ کیا جائے، جب تک اس کی صلاحیت نمایا ں نہ ہوجائے۔ پھر جب سیدنا زید بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ملے تو انہوں نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیع عرایا کی رخصت دی ہے۔امام سفیان رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عرایا کی صورت یہ ہے کہ کھجور کا درخت مسکینوں کو ہبہ کیا جاتا، لیکن وہ زیادہ اتنظار نہ کر سکتے تھے، اس لیے اسی درخت کے پھل کو اپنی مرضی کے مطابق کوئی پھل لے کر بیچدیتے تھے۔

Haidth Number: 5847
۔ سیدنا سہل بن ابی حثمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے درخت پر لگے ہوئے پھل کو خشک کھجوروں کے عو ض فروخت کرنے سے منع کیا، البتہ بیع عرایا کی رخصت دی ہے اوراس کی صورت یہ ہے کہ انداز ے سے پھل خرید لیا جائے، اس کے مالک تازہ کھجوریں کھا لیں گے۔

Haidth Number: 5848