Blog
Books
Search Hadith

اگر برے شگون اور نحوست کا کوئی وجود ہوتا تو وہ عورت، گھوڑے اور گھر میں ہوتا

157 Hadiths Found
۔ سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر کوئی بدشگونی نام کی کوئی چیز ہوتی تو وہ گھر، گھوڑے اور عورت میں ہوتی۔

Haidth Number: 7779
۔ ابو حسان اعرج بیان کرتے ہیں کہ بنو عامر میں سے دو آدمی، سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس آئے اور انہوں نے کہا: سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بدشگونی اگر ہے تو وہ عورت، جانور اور گھر میں ہے۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا غضب ناک ہوگئیں اور کہا: اس ذات کی قسم جس نے ابو القاسم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر قرآن اتارا ہے، آپ نے اس طرح نہیں فرمایا تھا، بلکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے الفاظ تو یہ تھے: جاہلیت میں لوگ کہا کرتے تھے کہ بدشگونی عورت، گھر اور جانور میں ہے۔ پھر سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے یہ آیت پڑھی: {مَا أَصَابَ مِنْ مُصِیبَۃٍ فِی الْأَرْضِ وَلَا فِی أَنْفُسِکُمْ إِلَّا فِی کِتَابٍ مِّنْْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَأَھَا اِنَّ ذَالِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ۔} … نہ کوئی مصیبت دنیا میں آتی ہے، نہ (خاص) تمہاری جانوں میں، مگر اس سے پہلے کہ ہم اس کو پیدا کریں وہ ایک خاص کتاب میں لکھی ہوئی ہے، یہ کام اللہ تعالی پر بالکل آسان ہے۔

Haidth Number: 7780
۔ عبدالرحمن بن طرفہ کے دادا سیدنا عرفجہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ دورِ جاہلیت میں ہونے والی کلاب کی جنگ میں ان کا ناک کٹ گیا تھا، انہوں نے چاندی کا ناک لگوا لیا، لیکن اس سے بدبو پیدا ہو گئی، پھر نبی اکرم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ سونے کی ناک بنوا لیں۔

Haidth Number: 8037
۔ عبدالرحمن بن طرفہ بن عرفجہ اپنے دادا سیدنا عرفجہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ ان کا ناک کلاب والی جنگ میں کٹ گیا تھا، کلاب دراصل ایک پانی (یعنی ایک کنویں یا ایک چشمے) کا نام کلاب تھا، جس کے پاس جاہلیت میں لڑائی ہوئی تھی، پھر درج بالا روایت کی طرح کی روایت ذکر کی، البتہ اس میں ہے: پھر وہ سونے کی وجہ سے بدبو دار نہ ہوا۔

Haidth Number: 8038
۔ ابو عبدالرحمن کہتے ہیں: میں نے اپنے باپ سے سنا، انھوں نے کہا: محدثین کا ایک گروہ آیا اور انھوں نے ابو اشہب کے پاس آنے کی اجازت طلب کی، انہوں نے اجازت دی، وہ آئے اور انہوں نے ابو اشہب سے کہا: ہمیں حدیث بیان کرو، انہوں نے کہا: تم سوال کرو،انہوں نے کہا: ہمارے پاس تو کوئی سوال نہیں ہے، پھر پردہ کے پیچھے سے ان کی بیٹی نے کہا: ان سے عرفجہ بن اسعد والی حدیث کے بارے میں پوچھو، جن کا ناک کلاب والے دن کٹ گیا تھا۔

Haidth Number: 8039

۔ (۸۵۰۷)۔ عَنْ أَ نَسٍ أَ نَّ الْیَہُودَ کَانُوْا إِذَا حَاضَتِ الْمَرْأَ ۃُ مِنْہُمْ لَمْ یُؤَاکِلُوْہُنَّ وَلَمْ یُجَامِعُوہُنَّ فِی الْبُیُوتِ، فَسَأَ لَ أَ صْحَابُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {یَسْأَلُونَکَ عَنِ الْمَحِیضِ قُلْ ہُوَ أَ ذًی فَاعْتَزِلُوا النِّسَائَ فِی الْمَحِیضِ وَلَا تَقْرَبُوہُنَّ حَتّٰییَطْہُرْنَ} حَتّٰی فَرَغَ مِنَ الْآیَۃِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِصْنَعُوْا کُلَّ شَیْئٍ إِلَّا النِّکَاحَ۔)) فَبَلَغَ ذٰلِکَ الْیَہُودَ فَقَالُوْا: مَا یُرِیدُ ہٰذَا الرَّجُلُ أَ نْ یَدَعَ مِنْ أَ مْرِنَا شَیْئًا إِلَّا خَالَفَنَا فِیہِ، فَجَائَ أُسَیْدُ بْنُ حُضَیْرٍ وَعَبَّادُ بْنُ بِشْرٍ فَقَالَا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ الْیَہُودَ قَالَتْ: کَذَا وَکَذَا أَفَلَا نُجَامِعُہُنَّ؟ فَتَغَیَّرَ وَجْہُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی ظَنَنَّا أَ نَّہُ قَدْ وَجَدَ عَلَیْہِمَا فَخَرَجَا، فَاسْتَقْبَلَتْہُمَا ہَدِیَّۃٌ مِنْ لَبَنٍ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَأَ رْسَلَ فِی آثَارِہِمَا فَسَقَاہُمَا فَعَرَفَا أَنَّہُ لَمْ یَجِدْ عَلَیْہِمَا، (حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ قَالَ: سَمِعْت أَبِییَقُولُ: کَانَ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ لَا یَمْدَحُ أَوْ یُثْنِی عَلٰی شَیْئٍ مِنْ حَدِیثِہِ إِلَّا ہٰذَا الْحَدِیثَ مِنْ جَوْدَتِہِ)۔ (مسند احمد: ۱۲۳۷۹)

۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب عورت حیض والی ہوتی تو یہودی نہ ان کے ساتھ کھاتے تھے اور نہ ان کے ساتھ اکٹھے گھروں میں رہتے تھے، جب صحابہ کرام نے اس بارے میں سوال کیا تواللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی: {وَیَسْئَـلُوْنَکَ عَنِ الْمَحِیْضِ قُلْ ھُوَ اَذًیفَاعْتَزِلُوا النِّسَاء َ فِی الْمَحِیْضِ وَلَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰییَـطْہُرْنَ فَاِذَا تَطَہَّرْنَ فَاْتُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ اَمَرَکُمُ اللّٰہُ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّـوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ۔}… اور وہ تجھ سے حیض کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دے وہ ایک طرح کی گندگی ہے، سو حیض میں عورتوں سے علیحدہ رہو اور ان کے قریب نہ جاؤ، یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائیں، پھر جب وہ غسل کرلیں تو ان کے پاس آؤ جہاں سے تمھیں اللہ نے حکم دیا ہے۔ بے شک اللہ ان سے محبت کرتا ہے جو بہت توبہ کرنے والے ہیں اور ان سے محبت کرتا ہے جو بہت پاک رہنے والے ہیں۔ (سورۂ بقرہ: ۲۲۲) نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم ماسوائے جماع کے ہر چیز کر سکتے ہو۔ جب یہ بات یہودیوں تک پہنچی تو انہوں نے کہا: یہ آدمی تو ہر وقت یہی ارادہ رکھتا ہے کہ ہر معاملہ میں ہماری مخالفت کرے۔ سیدنا اسید بن حضیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عباد بن بشر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! یہودیوں نے آپ کے فرمان کے مقابلے میں یہ کہا ہے۔ کیا ہم اس حالت میں جماع بھی نہ کر لیا کریں (تاکہ یہودیوں کی اور زیادہ مخالفت ہو)؟ یہ سن کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرہ تبدیل ہو گیا، ہم نے دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان دو صحابہ پر غصہ میں آ گئے ہیں، وہ دونوں ڈرتے ہوئے چلے گئے، بعد میں جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس دودھ کا تحفہ لایا گیا، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو پیغام بھیجا اور ان کو یہ دودھ پلا دیا، اس سے انھوں نے پہنچان لیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان سے ناراض نہیں ہیں۔

Haidth Number: 8507
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے ہدایت کی طرف بلایا تو اس کو اس کی پیروی کرنے والوں کے اجر جتنا اجر ملے گا، جبکہ ان کے اجروں میں کوئی کمی نہیں آئے گی، اس طرح جس نے گمراہی کی طرف بلایا تو اس کو اس کے پیچھے چلنے والوں کے گناہوں جتنا گناہ ملے گا، جبکہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی۔

Haidth Number: 9132
۔ سیدنا جریر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے اسلام میں اچھا طریقہ جاری کیا تو اس کو اس کا اجر بھی ملے گا اور اس کے بعد اس پر عمل کرنے والوں کا اجر بھی، جبکہ ان عاملوں کے اجر میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی، اسی طرح جس نے اسلام میں برا طریقہ وضع کیا، اس کو اس کا گناہ بھی ملے گا اور اس کے بعد اس کو اپنانے والوں کا گناہ بھی ملے گا، جبکہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی۔

Haidth Number: 9133
۔ سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ایک آدمی نے عہد ِ نبوت میں سوال کیا، لوگوں نے اسے کچھ نہ دیا، پھر ایک آدمی نے اس کو کوئی چیز دی اور اسے دیکھ کر دوسرے لوگوں نے بھی اس کو کچھ نہ کچھ دیا،یہ صورتحال دیکھ کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے اچھا طریقہ جاری کیا اور پھر اس کو اپنایا گیا تو اس کو اس کا اجر بھی ملے گا اور اس کی پیروی کرنے والوں کا بھی، جبکہ ان کے اپنے اجر میں کوئی کمی نہیں آئے گی اور جس نے برا طریقہ وضع کیا اور پھر اس کو اپنا لیا گیا تو اس کو اپنا گناہ بھی ملے گا اور اس طریقے کو اپنانے والوں کا بھی، جبکہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی۔

Haidth Number: 9134
۔ سیدنا ابو مسعود انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور کہا: میری سواری تھک گئی ہے، لہٰذا آپ مجھے کوئی سواری دیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے پاس تو سواری نہیں ہے، البتہ تو فلاں کے پاس جا، (وہ تجھے سواری دے دے گا)۔ پس وہ اس آدمی کے پاس گیا اور اس نے واقعی اس کو سواری دے دی، پھر وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس کے بارے میں خبر دی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو نیکی پر دلالت کرتا ہے، اس کو بھی نیکی کرنے والے کے برابر اجر ملتا ہے۔

Haidth Number: 9135
۔ (دوسری سند) اسی قسم کی حدیث بیان کی گئی ہے، البتہ اس میں ہے: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے پاس تو سواری نہیں ہے۔ یہ سن کر ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا میں ایسے شخص کی طرف اس کی رہنمائی نہ کروں، جو اس کو سواری دے دے گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو نیکی پر دلالت کرتا ہے، اس کو بھی نیکی کرنے والے کے برابر اجر ملتا ہے۔

Haidth Number: 9136
۔ سیدنا بریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے پاس آنے والے ایک آدمی سے فرمایا: تو جا، پس بیشک نیکی پر دلالت کرنے والا اس کو کرنے والے کی طرح ہے۔

Haidth Number: 9137
۔ سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے معاذ! اللہ تعالیٰ کا تیرے ذریعے کسی مشرک کو ہدایت دے دینا،یہ تیرے لیے سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہے۔

Haidth Number: 9138
۔ سیدنا ابو موسی اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک سوالی نے سوال کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم سفارش کرو، تمہیں اجر دیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی زبان سے جو چاہتا ہے، حکم دیتا ہے۔

Haidth Number: 9139
۔ سیدنا ابو درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا میں تم کو نماز، روزے اور صدقے کی بہ نسبت زیادہ فضیلت والے درجے کی خبر نہ دوں؟ لوگوں نے کہا: جی کیوں نہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قرابت کی اصلاح کرنا اور رشتوں میں فساد ڈالنا تو (دین کو) مونڈ دینے والی چیز ہے۔

Haidth Number: 9140
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تم سے پہلے والے لوگوں کی عمروں کو دیکھا جائے تو تمہاری عمر نمازِ عصر سے غروب آفتاب تک ہے۔

Haidth Number: 9829
۔ سیدنا عبدا للہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں: ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، جبکہ سورج عصر کے بعد قعیقعان پہاڑ پر تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پہلے گزر جانے والے لوگوں کی عمروں کی بہ نسبت تمہاری عمر اتنی ہے، جتنا دن کا حصہ باقی ہے، گزر جانے والے حصے کی بہ نسبت۔

Haidth Number: 9830
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: البتہ تحقیق اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کا عذر ختم کر دیا، جس کو اتنی دیر تک زندہ رکھا کہ وہ ساٹھ یا ستر سال کی عمر کو پہنچ گیا، تحقیق اللہ تعالیٰ نے اس کا عذر ختم کر دیا ہے، بس اللہ تعالیٰ نے اس کا عذر ختم کر دیا ہے۔

Haidth Number: 9831
۔ (دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس آدمی کو اللہ تعالیٰ نے ساٹھ یا ستر سال تک زندہ رہا، پس اللہ تعالیٰ نے عمر کے سلسلے میں اس کا عذر ختم کر دیا۔

Haidth Number: 9832
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس آدمی کو اسلام کی چالیس سال عمر دی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ اس سے تین قسم کی بیماریاں دور کر دیتا ہے، جنون، کوڑھ اور پھلبہری، جب آدمی پچاس سال تک پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر حساب کو آسان کر دیتا ہے، جب اس کی عمر ساٹھ برس ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنی پسند کے مطابق اپنی طرف رجوع کرنے کی توفیق دیتا ہے، پھر جب وہ ستر سال کا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اور اہل آسمان اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، جب اس کی عمر اسی سال ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی نیکیاں قبول کر لیتا ہے اور اس کی برائیوں سے تجاوز کر دیتا ہے، پھر جب اس کی عمر نوے برس ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیتا ہے اور اس کا یہ نام رکھ دیا ہے کہ فلاں آدمی زمین میں اللہ تعالیٰ کا قیدی ہے اور اس کے گھر والوں کے حق میں اس کی سفارش قبول کی جاتی ہے۔

Haidth Number: 9833
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دو چیزیں لوگوں میںپائی جاتی ہیں، جبکہ وہ کفر ہیں، میت پر نوحہ کرنا اور نسب میں طعن کرنا ۔

Haidth Number: 9964
۔ سیدنا ابو بکرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دو گناہ ہیں، ان کی سزا جلدی دی جاتی ہے اور ان کے معاملے میں تاخیر نہیں کی جاتی، ایک سرکشی اور دوسرا قطع رحمی۔

Haidth Number: 9965
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آدم علیہ السلام اور موسی علیہ السلام نے ایک دوسرے پر اعتراض کیے، موسی علیہ السلام نے کہا: اے آدم! تم ہمارے باپ ہو، لیکن تم نے ہمیں ناکام کر دیا اور جنت سے نکال دیا، ایک روایت میں ہے: تم وہی آدم ہو، جس کو اس کی غلطی نے جنت سے نکال دیا، آگے سے آدم علیہ السلام نے کہا: اے موسی! تم وہی موسی ہو، جس کو اللہ تعالیٰ اپنے کلام اور اپنی رسالت کے ساتھ منتخب کیا اور تیرے لیے اپنے ہاتھ سے لکھا، کیا تو مجھے اس بات پر ملامت کرتا ہے، جو اللہ تعالیٰ نے میری تخلیق سے چالیس برس پہلے میرے حق میں لکھ دی تھی، پس آدم علیہ السلام ، موسی علیہ السلام پر غالب آگئے۔

Haidth Number: 10312

۔ (۱۰۳۶۳)۔ حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنِیْ وَالِدِیْ مُحَمَّدٌ عَنْ اَبِیْہِ سَعْدٍ قَالَ: مَرَرْتُ بِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ فِیْ الْمَسْجِدِ فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ فَمَلَاَ عَیْنَیْہِ مِنِّیْ ثُمَّ لَمْ یَرُدَّ عَلَیَّ السَّلَامَ فَاَتَیْتُ اَمِیْرَالْمُؤْمِنِیْنَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَقُلْتُ: یَا اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ! ھَلْ حَدَثَ فِیْ الْاِسْلَامِ شَیْئٌ؟ مَرَّتَیْنِ، قَالَ: لَا، وَ مَا ذَاکَ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا،اِلَّا اِنِّیْ مَرَرْتُ بِعُثْمَانَ آنِفًا فِیْ الْمَسْجِدِ فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ فَمَلَاَ عَیْنَیْہِ مِنِّیْ ثُمَّ لَمْ یَرُدَّ عَلَیَّ السَّلَامَ، قَالَ: فَاَرْسَلَ عُمَرُ اِلَی عُثْمَانَ فَدَعَاہُ فَقَالَ: مَا مَنَعَکَ اَنْ لَّا تَکُوْنَ رَدَدْتَ عَلٰی اَخِیْکَ السَّلاَمَ؟ قَالَ عُثْمَانُ: مَا فَعَلْتُ، قَالَ سَعْدٌ: قُلْتُ: بَلٰی، قَالَ: حَتّٰی حَلَفَ وَحَلَفْتُ، قَالَ: ثُمَّ اِنَّ عُثْمَانَ ذَکَرَ فَقَالَ: بَلٰی وَ اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ وَ اَتُوْبُ اِلَیْہِ، اِنَّکَ مَرَرَتَ بِیْ آنِفًا وَ اَنَا اُحَدِّثُ نَفْسِیْ بِکَلِمَۃٍ سَمِعْتُھَا مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَا وَ اللّٰہِ! مَا ذَکَرْتُھَا قَطُّ اِلَّا تَغَشَّی بَصَرِیْ وَ قَلْبِیْ غِشَاوَۃٌ، قَالَ: قَالَ سَعْدٌ: فَاَنَا اُنَبِّئُکَ بِھَا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذَکَرَ لَنَا اَوَّلَ دَعْوَۃٍ ثُمَّ جَائَ اَعْرَابِیٌّ فَشَغَلَہُ حَتّٰی قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاَتْبَعْتُہُ فَلَمَّا اَشْفَقْتُ اَنْ یَسْبِقَنِیْ اِلٰی مَنْزِلِہِ ضَرَبْتُ بِقَدَمِی الْاَرْضَ فَالْتَفَتَ اِلَیَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((مَنْ ھٰذَا اَبُوْ اِسْحَاقَ؟)) قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((فَمَہْ!)) قَالَ: قُلْتُ: لَا وَاللّٰہِ! اِلَّا اَنَّکَ ذَکَرْتَ لَنَا اَوَّلَ دَعْوَۃٍ ثُمَّ جَائَ ھٰذَا الْاَعْرَابِیُّ فَشَغَلَکَ، قَالَ: ((نَعَمْ، دَعْوَۃُ ذِی النُّوْنِ اِذْ ھُوَ فِیْ بَطْنِ الْحُوْتِ {لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ} فَاِنَّہُ لَمْ یَدْعُ بِھَا مُسْلِمٌ رَبَّہُ فِیْ شَیْئٍ اِلَّا اسْتَجَابَ لَہُ۔)) (مسند احمد: ۱۴۶۲)

۔ سیدنا سعد علیہ السلام سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس سے گزرا، جبکہ وہ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے، اور میں نے ان کو سلام کہا، لیکن انھوں نے آنکھ بھر کر مجھے دیکھا اور میرے سلام کا جواب نہیں دیا، پس میں امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس گیا اور کہا: اے امیر المؤمنین! کیا اسلام میں کوئی چیز نئی ظاہر ہو گئی ہے؟ دو ددفعہ کہا، انھوں نے کہا: جی نہیں، بھلا بات کون سی ہے؟ میں نے کہا: جی کوئی بات نہیں، بس اتنا ضرور ہوا ہے کہ میں ابھی سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس سے گزرا، ان کو سلام کہا، انھوں نے آنکھ بھر کر مجھے دیکھا، لیکن میرے سلام کا کوئی جواب نہیں دیا، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بلایا اور ان سے کہا: کس چیز نے تم کو اپنے بھائی کے سلام کا جواب دینے سے روک دیا ہے؟ انھوں نے کہا: جی میں نے تو ایسا کوئی کام نہیں کیا، سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: کیوں نہیں، ایسے ہوا ہے، یہاں تک کہ انھوں نے بھی قسم اٹھا دی اور میں نے بھی قسم کھا لی، پھر سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جی کیوں نہیں، اور میں اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرتا ہوں اور اس کی طرف توبہ کرتا ہوں، ابھی تم میرے پاس سے گزرے تھے اور میں اپنے دل میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہوئی ایکحدیثیاد کر رہا تھا، نہیں، اللہ کی قسم، میں جب بھی اس حدیث کو یاد کرتا ہوں تو میری آنکھوں اور دل پر ایک پردہ چڑھ جاتا ہے، سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں بھی تم کو ایک بات بتلاتا ہوں، ایک دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں یہ بات بتلانا چاہی کہ پہلی دعا، پھر ایک بدّو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آگیا اور اس نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مصروف کر دیا، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھڑے ہوئے تو میں بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے ہو لیا، جب مجھے یہ شبہ ہوا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے گھر کی طرف مجھ سے آگے نکل جائیں گے، تو میں نے اپنا پاؤں زمین پر مارا، پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میری طرف توجہ کی اور فرمایا: یہ کون ہے؟ ابو اسحاق ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا ہے؟ میں نے کہا: اللہ کی قسم! کوئی بات نہیں، بس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ذکر کیا تھا کہ پہلی دعا، پھر یہ بدّو آ گیا اور اس نے آپ کو مصروف کر دیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں، وہ مچھلی والے کیدعا ہے، جب وہ مچھلی کے پیٹ میں تھے تو انھوں نے یہ دعا کی تھی: {لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ} (نہیں ہے کوئی معبودِ برحق، مگر تو ہی، تو پاک ہے، بیشک میں ظالموں میں سے ہوں)۔ جو مسلمان جس چیز کے لیے ان الفاظ کے ساتھ اپنے ربّ کو پکارے گا، اللہ تعالیٰ اس کی پکار قبول کرے گا۔

Haidth Number: 10363
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب سفرِ حج کے دوران ہرشاء گھاٹی کے پاس سے گزرے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: یہ کون سی گھاٹی ہے۔ لوگوں نے کہا: یہ ہرشاء کی گھاٹی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: گویا میںیونس بن متی کو دیکھ رہا ہوں، وہ سرخ اور پر گوشت اونٹنی پر سوار ہیں، انھوں نے اون کا جبہ پہنا ہوا ہے، ان کی اونٹنی کی لگام کھجور کے پتوں کی ہے اور وہ تلبیہ کہہ رہے ہیں۔

Haidth Number: 10364
۔ سالم بن ابی جعد سے مروی ہے کہ سیدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعض صحابہ کو بلایا، ان میں سیدنا عمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی تھے، … …، پھر سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: کیا میں تم کو عمار کے بارے میں بتلاؤں، میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ وادیٔ بطحاء میں چلتے ہوئے آ رہا تھا، جبکہ آپ نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے باپ (سیدنایاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) اور ماں (سیدہ سمیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ) کے پاس سے گزرے، جبکہ ان کو عذاب دیا جا رہا تھا، تو سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے والد نے کہا: اے اللہ کے رسول! زمانہ اس طرح بھی ہوتا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: صبر کر۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! آلِ یاسر کو بخش دے اور تحقیق میں نے کر دیا ہے۔

Haidth Number: 10526
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم لوگوں کو تعجب نہیں ہوتا کہ قریش کے گالی گلوچ کو مجھ سے کیسے دفع کر دیا جاتا ہے، وہ مُذَمّم پر لعنت کرتے ہیں، وہ تو مُذَمَّم کو برا بھلا کہتے ہیں، میں تو محمد ہوں۔

Haidth Number: 10527
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جبریل علیہ السلام ایک دن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غمزدہ ہو کر بیٹھے ہوئے تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر خون لگا ہوا تھا، کیونکہ بعض اہل مکہ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مارا تھا، جبریل علیہ السلام نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: آپ کو کیا ہو گیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان لوگوں نے میرے ساتھ یہ کاراوئی کی ہے۔ جبریل علیہ السلام نے کہا: کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کو کوئی نشانی دکھاؤں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔ انھوں نے وادی سے پرے ایک درخت کو دیکھا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: اس درخت کو بلاؤ، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کوبلایا اور وہ چلتا ہوا آیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے کھڑا ہو گیا، پھر جبریل علیہ السلام نے کہا: اب اس کو حکم دیں کہ یہ لوٹ جائے، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو حکم دیا اور وہ اپنی جگہ لوٹ گیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے کافی ہے۔

Haidth Number: 10528

۔ (۱۰۵۲۹)۔ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ زِیَادٍ الْحَضْرَمِیِّ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ الْحٰرِثِ بْنِ جَزْئٍ الزُّبَیْدِیَّ حَدَّثَہُ: أَنَّہُ مَرَّ وَصَاحِبٌ لَہُ بِأَیْمَنَ وَفِئِۃٍ مِنْ قُرَیْشٍ قَدْ حَلُّوْا أُزُرَھُمْ فَجَعَلُوْھَا مَخَارِیْقَیَجْتَلِدُوْنَ بِھَا وَھُمْ عُرَاۃٌ، قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: فَلَمَّا مَرَرْنَا بِھِمْ قَالُوْا اِنَّ ھٰؤُلَائِ قِسِّیْسُوْنَ فَدَعُوْھُمْ ، ثُمَّّ اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَرَجَ عَلَیْھِمْ فَلَمَّا أَبْصَرُوْہُ تَبَدَّدُوْا فَرَجَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُغْضِبًا حَتّٰی دَخَلَ، وَکُنْتُ أَنَا وَرَائَ الْحُجْرَۃِ، فَسَمِعْتُہُ فَیَقُوْلُ: ((سَبْحَانَ اللّٰہِ، لَا مِنَ اللّٰہِ اسْتَحْیَوْا وَلَا مِن رَسُوْلِہِ اسْتَتَرُوْا۔)) وَأُمُّ أَیْمَنَ عِنْدَہُ تَقُوْلُ: اسْتَغْفِرْ لَھُمْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ عَبْدُاللّٰہِ: فَبِلَاْیٍ مَا اسْتَغْفَرَ لَھُمْ۔ (مسند احمد: ۱۷۸۶۳)

۔ سیدنا عبد اللہ بن حارث زبیدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ وہ اور اس کا ایک دوست سیدنا ایمن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس سے گزرے اور وہاں قریشیوںکے چند لوگوں نے اپنے ازار اتارے ہوئے تھے اور ان کو بٹ کر وہ ایک دوسرے کو مار رہے تھے، جبکہ وہ ننگے تھے، جب ہم لوگ اُن کے پاس سے گزرے تو انھوں نے ہمارے بارے میںکہا: یہ پادری لوگ ہیں، چھوڑو ان کو، پھر اچانک رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہاں تشریف لے آئے، جب انھوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا تو وہ تتر بتر ہو گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غصے کی حالت میں واپس آ گئے اور گھر میں داخل ہو کر فرمایا، جبکہ میں حجرے کے پیچھے سے سن رہا تھا: سبحان اللہ! نہ ان لوگوں کو اللہ سے شرم آئی اور نہ ان لوگوں نے اس کے رسول سے پردہ کیا۔ سیدہ ام ایمن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس تھیں، انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ان کے لیے بخشش طلب کرو، سیدنا عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مشقت اور تاخیر کے بعد ان کے لیے مغفرت طلب کی۔

Haidth Number: 10529
۔ مسروق سے مروی ہے کہ سیدنا خباب بن ارت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں مکہ میں لوہار تھا، میں نے عا ص بن وائل کا کام کیا اور میرے کچھ درہم اس پر جمع ہوگئے، ایک دن میں ان کا تقاضا کرنے کے لیے اس کے پاس آیا، لیکن اس نے کہا: میں تجھے اس وقت تک یہ درہم نہیں دوں گا، جب تک تو محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کے ساتھ کفر نہیں کرے گا، میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں اس وقت تک محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ کفر نہیںکروں گا، یہاں تک کہ ایسا نہیں ہو جاتاکہ تو مر جائے اور پھر تجھے اٹھا دیا جائے، اس نے آگے سے کہا:جب مجھے دوبارہ اٹھایا جائے گا تو میرے لیے مال اور اولاد ہو گی، ایکروایت میں ہے: اس نے کہا: پس بیشک جب میں مر جاؤں گا اور پھر مجھے اٹھایا جائے گا تو وہاں میرا مال ہو گا اور میری اولاد ہوگی، اُس وقت میں تجھے یہ قرض چکا دوں گا، سیدنا خباب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جب میں نے اس کییہ بات رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ذکر کی تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی: کیا تو نے اسے بھی دیکھا جس نے ہماری آیتوں کا انکار کیا اور کہا کہ مجھے تو مال و اولاد ضرور ہی دی جائے گی، کیا وہ غیب پر مطلع ہے یا اللہ کا کوئی وعدہ لے چکا ہے؟ ہر گز نہیں،یہ جو بھی کہہ رہا ہے ہم اسے ضرور لکھ لیں گے اور اس کے لیے عذاب بڑھاتے چلے جائیں گے، یہ جن چیزوں کو کہہ رہا ہے، اسے ہم اس کے بعد لے لیں گے اور یہ تو بالکل اکیلا ہی ہمارے سامنے حاضر ہو گا۔(سورۂ مریم: ۷۷ تا ۸۰)

Haidth Number: 10530