Blog
Books
Search Hadith

نماز جنازہ میں نمازیوں کی کثرت کی وجہ سے میت کے بارے میں رکھی جانے والی (بخشش کی) امید کا بیان

1110 Hadiths Found
سیدہ میمونہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس مسلمان کی نماز جنازہ پڑھنے والی ایک امت ہو تو اس کے حق میں ان کی سفارش قبول کی جاتی ہے۔ ابوملیح راوی کہتا ہے: چالیس سے سو اور اس سے زائد تک کے افراد کو امت کہتے ہیں۔

Haidth Number: 3147
سیّدناابوامامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیٹی سیدہ ام کلثوم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو قبر میں رکھا گیا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت پڑھی {مِنْہَا خَلَقْنَاکُمْ …… تَارَۃً أُخْرٰی} (سورۂ طہ، ۵۵) (ہم نے تمہیں اسی مٹی سے پیدا کیا اور اسی میں تم کو لوٹائیں گے اور پھر اسی سے تم کو دوبارہ نکالیں گے) سیّدنا ابوامامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں یہ نہیں جانتا کہ اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ دعا پڑھی تھی یا نہیں: بِاسْمِ اللّٰہِ، وَفِی سَبِیْلِ اللّٰہِ، وَعَلٰی مِلَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ۔ (اللہ کے نام کے ساتھ،اللہ کی راہ میں اور اللہ کے رسول کے طریقے کے مطابق دفن کرتے ہیں)۔ جب لحد کی چنائی کر دی گئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں کی طرف گارا پھینکا اور فرمایا: اس سے اینٹوں کے شگافوں کو پر کر دو۔ پھر فرمایا: یہ کوئی ضروری چیز نہیں ہے، بس زندہ لوگوں کا نفس ذرا مطمئن ہو جاتا ہے۔

Haidth Number: 3257
سیّدنا عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تم اپنے فوت شدگان کو قبر میں اتارو تو یہ دعا پڑھا کرو: بِاسْمِ اللّٰہِ وَعَلٰی مِلَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ۔ (اللہ کے نام کے ساتھ اور اس کے رسول کے طریقے پر)۔

Haidth Number: 3258
ابن سیرین کہتے ہیں کہ سیّدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ایک انصاری آدمی کے جنازہ میں شریک تھے، لوگوں نے اس کے حق میں بلند آواز سے دعائے مغفرت کی اور سیّدناانس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان پر کوئی انکار نہیں کیا۔ خالد راوی نے یہ حدیث بیان کرتے ہوئے کہا: انہوں نے میت کو قبر کے پاؤں کی طرف سے اتارا تھا۔ اور ہشیم راوی نے ایک مرتبہ اس حدیث کو یوں بیان کیا: بصرہ میں ایک انصاری آدمی فوت ہو گیا تھا، سیّدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی اس کے جنازہ میں شریک تھے، لوگوں نے میت کے حق میں بآواز بلند دعائے مغفرت کی تھی۔

Haidth Number: 3259
سیّدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ایک صاحب زادی کے جنازہ میں شریک تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قبر کے پاس تشریف فرما تھے اور میں نے دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم میں کوئی ایسا آدمی ہے، جس نے اِس رات کو (اپنی بیوی سے)ہم بستری نہ کی ہو؟ سریج نے کہا: اس کا معنی گناہ ہے، سیّدنا ابوطلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر اترو۔ پس وہ ان کی قبر میں اترے۔

Haidth Number: 3260
سیّدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی روایت ہے کہ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیٹی سیدہ رقیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا انتقال ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے آج رات اپنی بیوی سے ہم بستری کی ہو وہ قبر میں داخل نہ ہو۔ پس سیّدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ قبر میں داخل نہ ہوئے۔

Haidth Number: 3261
سیّدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو شخص میت کی چارپائی اٹھانے کے وقت سے اس کے ساتھ رہتاہے اور قبر میں مٹی بھی ڈالتا ہے اور اس وقت تک ساتھ رہتا ہے کہ دفن کے بعد اسے واپسی کی اجازت دے دی جاتی ہے تو وہ اجر کے دو قیراط لے کر واپس ہوتا ہے اور ہر قیراط احد پہاڑ کے برابر ہوتا ہے۔

Haidth Number: 3262
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: ایک یہودی عورت میرے پاس آئی اور خوشبو مانگی، سو جب میں نے اسے خوشبو دے دی تو اس نے کہا: اللہ آپ کو عذاب قبر سے محفوظ رکھے۔اس دعا سے میرے دل میں تردّد ہونے لگا، یہاں تک کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لے آئے، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ بات بتلائی اور پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیا قبر میں عذاب ہوتا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں،مردوں کو قبر میں ایسا عذاب ہوتا ہے کہ چوپائے اس کی آواز کو سنتے ہیں۔

Haidth Number: 3305

۔ (۳۳۰۶) عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ سَعِیْدٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا أَنَّ یَہُوْدِیَّۃً کَانَتْ تَخْدِمُہَا، فَـلَا تَصْنَعُ إِلَیْہَا عَائِشَۃُ شَیْئًا مِنَ الْمُعْرُوْفِ إِلَّا قَالَتْ لَہَا الْیَہُوْدِیَّۃُ وَقََاکِ اللّٰہُ عَذَابَ الْقَبْرِ، قَالَتْ: فَدَخَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَیَّ فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! ہَلْ لِلْقَبْرِ عَذَابٌ قَبْلَ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ؟ قَالَ: ((لَا، وَعَمَّ ذَالِکَ؟)) قَالَتْ: ہٰذِہِ الْیَہُوْدِیَّۃُ لَا نَصْنَعُ إِلَیْہَا مِنْ الْمُعْرُوْفِ شَیْئاً إِلَّا قَالَتْ وَقَاکِ اللّٰہُ عَذَابَ الْقَبْرِ۔ قَالَ: ((کَذَبَتْ یَہُوْدُ وَہُمْ عَلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ اَکَذَبُ، لَا عَذَابَ دُوْنَ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔)) قَالَتْ: ثُمَّ مَکَثَ بَعْدَ ذَالِکَ مَاشَائَ اللّٰہُ أَنْ یَمْکُثَ، فَخَرَجَ ذَاتَ یَوْمٍ نِصْفَ النَّہَارِ مُشْتَمِلاً بِثَوْبِہِ مُحْمَرَّۃً عَیْنَاہُ، وَہُوَیُنَادِی بِاَعْلٰی صَوْتِہِ: ((أَیُّہَا النَّاسُ! أَظَلَّتْکُمُ الْفِتَنُ کَقِطَعِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمِ، أَیُّہَا النَّاسُ لَوْ تَعْلَمُوْنَ مَا أَعْلَمُ لَبَکَیْتُمْ کَثِیْرًا وَضَحِکْتُمْ قَلِیْلًا، أَیُّہَا النَّاسُ! اِسْتَعِیْذُوا بِاللّٰہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ فَإِنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ حَقٌّ)) (مسند احمد: ۲۵۰۲۵)

سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: ایک یہودی عورت میری خدمت کیا کرتی تھی،میں جب بھی اسے کوئی چیز دیتی تو وہ کہتی: اللہ تم کو عذاب ِ قبر سے محفوظ رکھے۔ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے ہاں تشریف لائے تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا قیامت سے پہلے قبر میں بھی عذاب ہوتا ہے؟آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی نہیں، بھلا تم یہ سوال کیوں پوچھ رہی ہو؟ میں نے کہا: فلاں یہودی عورت ، جب بھی ہم اسے کوئی چیز دیتے ہیں تو وہ کہتی ہے: اللہ تم کو عذاب ِ قبر سے محفوظ رکھے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہودی جھوٹ بولتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ پر بہت زیادہ جھوٹ باندھتے ہیں، قیامت کے روز سے پہلے کوئی عذاب نہیں ہو گا۔ اس کے بعد کچھ ایام آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ٹھہرے رہے، جتنا اللہ تعالیٰ کو منظور تھا، ایک روز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عین دوپہر کے وقت نکلے، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے اوپر ایک کپڑا اوڑھا ہوا تھا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آنکھیں سرخ ہو چکی تھیں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بلند آواز سے فرماتے جا رہے تھے: لوگو! اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح تم پر فتنے چھا رہے ہیں، لوگو! جو کچھ میں جانتا ہوں، اگر تم بھی اسے جان لیتے تو تم بہت زیادہ روتے اور کم ہنستے، لوگو! عذاب ِ قبر سے اللہ کی پناہ مانگا کرو، بے شک قبر کا عذاب حق ہے۔

Haidth Number: 3306
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے ہاں تشریف لائے، جبکہ اس وقت ایک یہودی عورت میرے پاس بیٹھی کہہ رہی تھی: کیا تم جانتی ہو کہ تم لوگوں کو قبروں میں آزمایا جائے گا؟ یہ سن کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کانپ اٹھے اور فرمایا: صرف یہودی لوگ قبروں میں آزمائے جائیں گے۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: چند ہی راتیں گزری تھیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے فرمایا: کیا تم جانتی ہو میری طرف وحی کی گئی ہے کہ واقعی تم لوگوں کو قبروں میں آزمایا جائے گا؟ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: اس کے بعد میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو عذاب قبر سے پناہ مانگتے ہوئے سنتی تھی۔

Haidth Number: 3307
عبداللہ بن قاسم کہتے ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ایک پڑوسن نے مجھے بیان کیا کہ وہ طلوع فجر کے وقت رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ دعا کرتے سنا کرتی تھی: اَللّٰہُمَّ إِنِّی أَعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ فِتْنَۃِ الْقَبْرِ۔ (اے اللہ! میں تجھ سے قبرکے عذاب اور فتنے سے پناہ طلب کرتا ہوں۔)۔

Haidth Number: 3308
Haidth Number: 3309
سفیان بن عیینہ کہتے ہیں: میں نے سیدہ ام خالد بنت خالد بن سعید بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے سنا اور ان کے علاوہ کسی سے نہیں کہ وہ یہ کہتا ہو کہ اس نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنا ہے، انھوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو عذابِ قبر سے پناہ مانگتے ہوئے سنا۔

Haidth Number: 3310
سیّدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: سیدہ ام حبیبہ بنت ابی سفیان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے یہ دعا کی: یا اللہ! مجھے میرے شوہر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، باپ ابوسفیان اور بھائی معاویہ سے فائدہ اٹھانے کاموقع عطا فرما، لیکن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: تم نے اللہ تعالیٰ سے ایسی باتوں کا سوال کیا ہے جن کے اوقات اور ایام مقرر کیے جا چکے ہیں اور ان کے رزق بھی تقسیم کیے جا چکے ہیں۔ کوئی چیز اپنے مقرر وقت سے مقدم یا موخر نہیں ہو سکتی، اگر تم اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتیں کہ وہ تمہیں آگ اور قبر کے عذاب سے پناہ میں رکھے تو یہ تیرے لیے بہتر اور افضل ہوتا۔

Haidth Number: 3311
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں اور قبروں کو سجدہ گاہ بنانے والوں اور قبروں پر چراغ جلانے والوں پر لعنت کی ہے۔

Haidth Number: 3348
سیدنا حسان بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کثرت سے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔

Haidth Number: 3349
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کثرت سے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت کی ہے۔

Haidth Number: 3350

۔ (۳۳۶۴) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمَا بَعَثَ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌إِلٰی الْیَمَنِ، قَالَ: ((إِنَّکَ تَأْتِیْ قَوْمًا أَہْلَ کِتَابٍ، فَادْعُہُمْ إِلٰی شَہَادَۃِ أَنْ لَّااِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ فَإِنْ ہُمْ أَطَاعُوْکَ لِذَالِکَ فَأَعْلِمْہُمْ أَنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ اِفْتَرَضَ عَلَیْہِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِی کُلِّ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ فَإِنْ ہُمْ أَطَاعُوْکَ لِذَالِکَ، فَأَعْلِمْہُمْ أَنَّ اللّٰہَ افْتَرَضَ عَلَیْہِمْ صَدَقَۃً فِی أَمْوَالِہِمْ تُؤْخَذُ مِنْ اَغْنِیَائِہِمْ، وَتُرَدُّ فِی فُقُرَائِہِمْ فَإِنْ ہُمْ أَطَاعُوَکَ لِذَالِکَ فَإِیَّاکَ وَکَرَائِمَ أَمْوَالِہِمْ ، وَاتَّقِ دَعْوَۃَ الْمَظْلُوْمِ فَإِنَّہَا لَیْسَ بَیْنَہَا وَبَیْنَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ حِجَابٌ)) (مسند احمد: ۲۰۷۱)

سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو یمن کی طرف بھیجا تو ان سے فرمایا: تم اہل کتاب لوگوں کے ہاں جا رہے ہو، تم سب سے پہلے ان کویہ دعوت دینا کہ وہ یہ شہادت دیں کہ اللہ تعالیٰ ہی معبودِ برحق ہے اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ اگر وہ تمہاری یہ بات تسلیم کر لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ اگر وہ تمہاری یہ بات بھی مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ نے ان کے مالوں پر زکوۃ بھی فرض کی ہے جو ان کے مالدار وں سے لے کر ان کے فقیروں میں تقسیم کی جائے گی۔ اگر وہ تمہاری یہ بات بھی تسلیم کر لیں تو (زکوۃ لیتے وقت) ان کے قیمتی مال سے بچنا اورمظلوم کی بددعا سے بھی بچ کر رہنا، کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔

Haidth Number: 3364

۔ (۳۳۶۵) عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَقُوْلُوْا لَا إِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ، فَإِذَا قَالُوْہَا عَصَمُوْا مِنِّی دِمَائَہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ، وَحِسَابُہُمْ عَلَی اللّٰہِ۔)) قَالَ: فَلَمَّا قَامَ أَبُوْ بَکْرٍ، وَارْتَدَّ مَنِ ارْتَدَّ، أَرَادَ أَبُوْ بَکْرٍ قِتَالَہُمْ، قَالَ عُمَرُ: کَیْفَ تُقَاتِلُ ہٰؤُلَائِ الْقَوْمَ وَہُمْ یُصَلُّوْنَ؟ قَالَ: فَقَالَ أَبُوْ بَکْرٍ: وَاللّٰہِ! لَأُقَاتِلَنَّ قَوْمًا ارْتَدُّوْا عَنِ الزَّکَاۃِ وَاللّٰہِ! لَوْ مَنَعُوْنِیْ عَنَاقًا مِمَّا فَرَضَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ لَقَاتَلْتُہُمْ۔ قَالَ عُمَرُ: فَلَمَّا رَأَیْتُ اللّٰہَ شَرَحَ صَدْرَ أَبِی بَکْرٍ لِقِتَالِہِمْ عَرَفْتُ أَنَّہُ الْحَقُّ۔ (مسند احمد: ۱۰۸۵۲) (۳۳۶۶) عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُتْبَۃَ قَالَ: لَمَّا ارْتَدَّ أَہْلُ الرِّدَّۃِ فِی زَمَانِ أَبِی بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: کَیْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ یَا أَبَا بَکْرٍ! وَقَدْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَقُوْلُوْا لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، فَإِذَا قَالُوْا لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ عَصَمُوْا مِنِّی دِمَائَ ہُمْ وَأَمْوَالَہِمْ إِلَّا بِحَقِّہَا وَحِسَابُہُمْ عَلَی اللّٰہِ۔)) فَقَالَ أَبُوْ بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: وَاللّٰہِ! لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَیْنَ الصَّلَاۃِ وَالزَّکَاۃِ، فَإِنَّ الزَّکَاۃَ حَقُّ الْمَالِ وَاللّٰہِ! لَوْ مَنَعُوْنِی عَنَاقًا کَانُوْا یُؤَدُّوْنَہَا إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَقَاتَلْتُہُمْ عَلَیْہَا، قَالَ عُمَر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: فَوَاللّٰہِ! مَا ہُوَ إِلَّا أَنْ رَأَیْتُ أَنَّ اللّٰہَ قَدْ شَرَحَ صَدْرَ أَبِی بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ لِلْقِتَالِ فَعَرَفْتُ أَنَّہُ الْحَقُّ۔ (مسند احمد: ۲۳۹)

سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا۔ مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک قتال کروں جب تک وہ لَا إِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ کا اعتراف نہ کر لیں، جب وہ اس کا اعتراف کر لیں گے تو وہ اپنے خون اور مال مجھ سے محفوظ کر لیں گے اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہو گا۔ جب سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے خلافت سنبھالی اور مرتدّ ہونے والے مرتد ہو گئے تو سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے قتال کا ارادہ کیا۔ لیکن سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جو لوگ نماز پڑھتے ہیں، آپ ان سے کیسے قتال کریں گے؟ لیکن سیدناابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! میں ان لوگوں سے ضرور قتال کروں گا جو زکوۃ ادا کرنے سے انکاری ہیں۔اللہ کی قسم ہے،اگر ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کی فرض کی ہوئی ایک بکری بھی نہ دی تو میں ان سے لڑوں گا۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جب میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے (زکوۃ کے اِن انکاریوں سے) لڑنے کے لیے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا سینہ کھول دیا ہے تو میں جان گیا کہ یہی حق ہے۔

Haidth Number: 3365

۔ (۳۳۶۶) عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُتْبَۃَ قَالَ: لَمَّا ارْتَدَّ أَہْلُ الرِّدَّۃِ فِی زَمَانِ أَبِی بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: کَیْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ یَا أَبَا بَکْرٍ! وَقَدْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَقُوْلُوْا لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، فَإِذَا قَالُوْا لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ عَصَمُوْا مِنِّی دِمَائَ ہُمْ وَأَمْوَالَہِمْ إِلَّا بِحَقِّہَا وَحِسَابُہُمْ عَلَی اللّٰہِ۔)) فَقَالَ أَبُوْ بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: وَاللّٰہِ! لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَیْنَ الصَّلَاۃِ وَالزَّکَاۃِ، فَإِنَّ الزَّکَاۃَ حَقُّ الْمَالِ وَاللّٰہِ! لَوْ مَنَعُوْنِی عَنَاقًا کَانُوْا یُؤَدُّوْنَہَا إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَقَاتَلْتُہُمْ عَلَیْہَا، قَالَ عُمَر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: فَوَاللّٰہِ! مَا ہُوَ إِلَّا أَنْ رَأَیْتُ أَنَّ اللّٰہَ قَدْ شَرَحَ صَدْرَ أَبِی بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ لِلْقِتَالِ فَعَرَفْتُ أَنَّہُ الْحَقُّ۔ (مسند احمد: ۲۳۹)

عبید اللہ بن عبداللہ کہتے ہیں: جب سیدناابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے عہد ِ خلافت میں لوگ مرتدّ ہو گئے تو سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے ابوبکر! بھلا آپ ان لوگوں سے قتال کیسے کر سکتے ہیں، جب کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تو فرمایا تھا کہ مجھے اس وقت تک لوگوں سے لڑنے کا حکم دیا گیا ہے، جب تک وہ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ نہ کہہ دیں، اور جب وہ یہ کلمہ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ پڑھ لیں گے تو اپنے خون اور مال مجھ سے محفوظ کر لیں گے، مگر حق کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہو گا۔ لیکن سیدناابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! جو لوگ نماز اور زکوۃ میں فرق کریں گے، میں ان سے ضرور لڑوں گا، بے شک زکوۃ مال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم ہے، اگر ان لوگوں نے ایک بکری روک لی، جو یہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ادا کیا کرتے تھے، تو میں اس وجہ سے ان سے لڑوں گا۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے فوراً پتہ چل گیا کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا سینہ قتال کے لیے کھولا ہے، پس میں نے یہ جان لیا کہ یہی بات برحق ہے۔

Haidth Number: 3366

۔ (۳۳۶۷) عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَا مِنْ صَاحِبِ کَنْزٍ، لَا یُؤَدِّی زَکَاتَہُ إِلَّا جِیْئَ بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَبِکَنْزِہِ فَیُحْمٰی عَلَیْہِ صَفَائِحُ فِی نَارِجَہَنَّمَ فَیُکْوٰی بِہَا جَبِیْنُہُ وَظَہْرُہُ حَتّٰی یَحْکَمَ اللّٰہُ بَیْنَ عِبَادِہِ فِی یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہُ خَمْسِیْنَ أَلْفَ سَنَۃٍ مِمَّا تَعُدُّوْنَ، ثُمَّ یَرٰی سَبِیْلَہُ إِمَّا إِلَی الْجَنَّۃِ وَإِمَّا إِلَی النَّارِ، وَمَا مِنْ صَاحِبِ إِبِلٍ لایُؤَدِّی زَکَاتَہَا إِلاَّجِیْئَ بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَبِإِبِلِہِ کَأَوْفَرِ مَا کَانَتْ عَلَیْہِ، فَیُبْطَحُ لَہَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ کُلَّمَا مَضٰی أُخْرَاہَا رُدَّ عَلَیْہِ أُوْلَاہَا حَتّٰی یَحْکُمَ اللّٰہَ بَیْنَ عِبَادِہِ فِی یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہُ خَمْسِیْنَ أَلْفَ سَنَۃٍ مِمَّا تَعُدُّوْنَ، ثُمَّ یَرٰی سَبِیْلَہُ إِمَّا إِلَی الْجَنَّۃِ وَاِمَّا اِلَی النَّارِ،وَمَا مِنْ صَاحِبِ غَنَمٍ لاَ یُؤَدِّیْ زَکَاتَہَا إِلاَّجِیْ ئَ بِہِ وَبِغَنَمِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کَأَوْفَرِ مَا کَانَتْ فَیُبْطَحُ لَہَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ فَتَطَؤُہُ بِأَظْلَافِہَا، وَتَنْطَحُہُ بِقُرُوْنِہَا کُلَّمَا مَضَتْ أُخْرَاہَا رُدَّتْ عَلَیْہِ أُوْلَاہَا حَتّٰی یَحْکُمَ اللّٰہُ بَیْنَ عِبَادِہِ فِی یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہُ خَمْسِیْنَ أَلْفَ سَنَۃٍ مِمَّا تَعُدُّوْنَ، ثُمَّ یَرٰی سَبِیْلَہُ إِمَّا إِلَی الْجَنَّۃِ وَإِمَّا إِلَی النَّارِ۔)) قِیْلَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فَالْخَیْلُ؟ قَالَ: ((اَلْخَیْلُ مَعْقُوْدٌ بِنَوَاصِیْہَا الْخَیْرُ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَالْخَیْلُ ثَلَاثَۃٌ، وَہِیَ لِرَجُلٍ أَجْرٌ، وَہِیَ لِرَجُلٍ سِتْرٌ، وَہِیَ عَلٰی رَجُلٍ وِزْرٌ (فَأَمَّا الَّذِی ہِیَ لَہُ أَجْرٌ) الَّذِی یَتَّخِذُہَا وَیَحْبِسُہَا فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ، فَمَا غَیَّبَتْ فِی بَطُوْنِہَا فَہُوَ لَہُ أَجْرٌ، وَإِنِ اسْتَنَّتْ مِنْہُ شَرَفًا أَوْشَرَفَیْنِ کَانَ لَہُ فِی کُلِّ خُطْوَہٍ خَطَاہَا أَجْرٌ، وَلَوْ عَرَضَ لَہُ نَہْرٌ فَسَقَاہَا مِنْہُ کَانَ لَہُ بِکُلِّ قَطْرَۃٍ غَیِّبَتْہُ فِی بُطُوْنِہَا أَجْرٌ،حَتّٰی ذَکَرَ الْأَجْرَ فِی أَرْوَاثِہَا وَأَبْوَالِہَا، (وَأَمَّا الَّذِی ہِیَ لَہُ سِتْرٌ) فَرَجُلٌ یَتَّخِذُہَا تَعَفُّفًا وَتَجَمُّلًا وَتَکَرُّمًا وََلَا یَنْسٰی حَقَّہَا فِی ظُہُوْرِہَا وَبُطُوْنِہَا فِی عُسْرِہَا وَیُسْرِہَا (وَأَمَّا الَّذِی عَلَیْہِ وِزْرٌ) فَرَجُلٌ یَتَّخِذُہَا أَشَرًا وَرِئَائَ النَّاسِ وَبَذَخًا عَلَیْہِمْ۔)) قِیْلَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فَالْحُمُرُ؟ قَالَ: ((مَا اُنْزِلَ عَلَیَّ فِیْہَا شَیْئٌ إِلَّا ہٰذِہِ الْآیَۃُ: {فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَرَہٗ۔ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَرَہٗ۔})) (مسند احمد: ۸۹۶۵)

سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خزانے کامالک، جو اس کی زکوۃ ادا نہیں کرتا، اسے قیامت کے دن خزانے سمیت لایا جائے گا اور اس کے خزانے کو تختیوں کی شکل دے کر جہنم کی آگ پر خوب گرم کیا جائے گا، پھر اس سے اس کی پیشانی، پہلو اور پیٹھ کو داغا جاتا رہے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلے کرنے سے فارغ ہو جائے گا، تمہارے حساب کے مطابق یہ پچاس ہزار سال کے برابر دن ہو گا، اس کے بعد وہ بندہ اپنا راستہ دیکھے گا کہ وہ جنت کی طرف ہے یا جہنم کی طرف۔ اسی طرح جو کوئی اونٹوں کا مالک ہو اور وہ ان کی زکوۃ ادا نہ کرے تو اسے قیامت کے دن اونٹوں سمیت لایا جائے گا، جبکہ وہ اونٹ بھی خوب موٹے تازے ہوں گے، پھر اس مالک کو ایک وسیع چٹیل میدان میں لٹا کر اونٹ اس کے اوپر سے گزارے جائیں گے، جب آخری اونٹ گزر جائے گا تو پہلے اونٹ کو دوبارہ لایا جائے گا۔اس کے ساتھ یہ سلوک اس وقت تک جاری رہے گا، جب تک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلے کرنے سے فارغ نہ ہو جائے،وہ دن تمہارے حساب کے مطابق پچاس ہزار برس کا ہو گا، اس کے بعد دیکھا جائے گا کہ اس کا راستہ جنت کی طرف ہے یا جہنم کی طرف۔ اسی طرح جو آدمی بکریوں کا مالک ہو اور وہ ان کی زکوۃ ادا نہ کرتا ہو تو اسے بھی قیامت کے دن بکریوں سمیت لایا جائے گا، جبکہ وہ بکریاں خوب موٹی تازی ہوں گی۔ اس آدمی کو وسیع چٹیل میدان میں لٹا دیا جائے گا اور وہ بکریاں اپنے کھروں سے اسے روندیں گی اور سینگوں سے ماریں گی، جب آخری بکری گزر جائے گی تو پہلی بکری کو دوبارہ لایا جائے گا اور اس کے ساتھ یہی سلوک کیا جاتارہے گا، تاآنکہ اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان فیصلے کرنے سے فارغ ہوجائے، وہ دن تمہارے اعداد و شمار کے مطابق پچاس ہزار سالوں کے برابر ہوگا، اس کے بعد دیکھا جائے گا کہ اس کا راستہ جنت کی طرف ہے یا جہنم کی طرف۔ کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! گھوڑوں کا کیا حکم ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت تک گھوڑوں کی پیشانی میں خیر وبرکت رکھ دی گئی ہے، (دراصل) گھوڑے تین قسم کے ہوتے ہیں: ایک (اپنے مالک کے لیے) اجرو ثواب، ایک پردہ پوشی اور ایک گناہ کا سبب ہوتا ہے، جو اجر وثواب کا ذریعہ ہوتا ہے، وہ وہ گھوڑا ہوتا ہے کہ جس کو اس کا مالک جہاد فی سبیل اللہ کی غرض سے پالتا ہے، ایساگھوڑا اپنے پیٹ میں جو کچھ ڈالے گا، وہ اس کے مالک کے لیے اجر ہو گا، جب وہ ایک دو ٹیلوں تک چلے گا تو اس کے ہر ہر قدم کے بدلے مالک کو اجر ملے گا اور اگر اس کے سامنے نہر آجاتی اور وہ اس سے پانی پی لیتا ہے تو ہر قطرہ، جو وہ اپنے پیٹ میں داخل کرتا ہے، اس کے عوض اس کو اجر ملے گا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے پیشاب اور لید کی وجہ سے بھی اجر کا ذکر کیا۔ جو گھوڑا آدمی کے لیے پردہ پوشی کا ذریعہ ہے، یہ وہ گھوڑا ہے کہ جس کو پالنے کا سبب یہ ہے کہ ضرورت کے وقت کسی سے مانگنا نہ پڑے اور اس سے اسے زینت وجمال اور عزت حاصل ہو، ہاں یہ بات ہے کہ ایسا مالک اپنے گھوڑے کی پشت اور پیٹ کے حق سے غافل نہ ہو، رہا اس گھوڑے کا مسئلہ جو اپنے مالک کے لیے گناہ کا سبب بنتا ہے تو وہ وہ ہوتاہے کہ جس کا مالک فخر، تکبر اور لوگوں کے سامنے ریاکاری کرنے کے لیے اسے پالتا ہے۔ کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! گدھوں کا کیا حکم ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان کے متعلق مجھ پر کوئی حکم نازل نہیں کیا گیا، البتہ ایک آیت ہے جو بے مثال اور (ہر خیر کو) شامل ہے، یعنی: {فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَرَہٗ۔ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَرَہٗ} (سورۂ زلزال:۸) یعنی: جو کوئی ایک ذرہ برابرنیکی کرے گا، وہ اسے دیکھ لے گا اور جو کوئی ذرہ برابر گناہ کرے گا تو وہ بھی اس کو دیکھ لے گا۔

Haidth Number: 3367

۔ (۳۳۶۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ حَدَّثَنِی أَبِی ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ ثَنَا سَعِیْدٌ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَبِی عُمَرَ الْغُدَانِیِّ قَالَ: کُنْتُ عِنْدَ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ جَالِسًا فَمَرَّ رَجُلٌ مِنْ بَنِی عَامِرِ ابْنِ صَعْصَعَۃَ، فَقِیْلَ لَہُ: ہَذَا أَکْثَرُ عَامِرِیٍّ مَالاً، فَقَالَ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: رُدُّوْہُ إِلَیَّ فَرَدُّوْہُ عَلَیْہِ، فَقَالَ نُبِّئْتُ أَنَّکَ ذُوْمَالٍ کَثِیْرٍ؟ فَقَالَ الْعَامِرِیُّ: وَاللّٰہِ! إِنَّ لِیْ مِائۃَ حُمْرٍ وَمِائَۃَ أُدْمٍ، حَتّٰی عَدَّ مِنْ أَلَوانِ الإِبِلِ وَأَفَنََانِ الرَّقِیْقِ وَرِبَاطِ الْخَیْلِ، فَقَالَ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: إِیَّاکَ وَأَخْفَافَ الإِبِلِ وَأَظْلَافَ الْغَنَمِ، یُرَدِّدُ ذَالِکَ عَلَیْہِ حَتّٰی جَعَلَ لَوْنُ الْعَامِرِیِّ یَتَغَیَّرُ أَوْ یَتَلَوَّنُ، فَقَالَ: مَا ذَاکَ یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ!؟ فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((مَنْ کَانَتْ لَہُ إِبِلٌ لَا یُعْطِیْ حَقَّہَا (فَذَکَرَ مِثْلَ الْحَدِیْثِ الْمُتَقَدِّمِ ثُمَّ قَالَ) وَإِذَا کَانَتْ لَہُ بَقَرٌ لاَ یُعْطِیْ حَقَّھَا فِی نَجْدَتِہَا وَرِسْلِہَا فَإِنَّہَا تَأْتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کَأَغَذِّ مَا کَانَتْ وَأَکْبَرِہِ وَأَسْمَنِہِ وَأَسَرِّہُ، ثُمَّ یُبْطَحُ لَہَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ فَتَطَؤُہٗ فِیْہِ کُلُّ ذَاتِ ظِلْفٍ بِظِلْفِہَا وَتَنْطَحُہُ کُلُّ ذَاتٍ قَرْنٍ بِقَرْنِہَا، إِذَا جَاوَزَتْہُ أُخْرَاہَا أُعِیْدَتْ عَلَیْہِ أُوْلَاہَا فِی یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہُ أَلْفَ سَنَۃٍ حََتّٰی یُقْضٰی بَیْنَ النَّاسِ یَرٰی سَبِیْلَہُ، وَإِذَا کَانَتْ لَہُ غَنَمٌ، (فَذَکَرَ نَحْوَالْحَدِیْثِ الْمُتَقَدِّمِ ثُمَّ قَالَ) فَقَالَ الْعَامِرِیُّ: وَمَا حَقُّ الْإِبِلِ یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ!؟ قَالَ أَنْ تُعْطِیَ الْکَرِیْمَۃَ وَتَمْنَحَ الْغَزِیْرَۃَ وَتُفْقِرَالظَّہْرَ، وَتَسْقِیَ اللَّبَنَ وَتُطْرِقَ الْفَحْلَ۔ (مسند احمد: ۱۰۳۵۵)

ابوعمر غدانی کہتے ہیں: میں سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، وہاں سے بنو عامر بن صعصعہ کے ایک آدمی کا گزر ہوا، اس کے بارے میں ان کو بتایا گیا کہ یہ اپنے قبیلہ کا امیر ترین آدمی ہے، سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اسے میرے پاس بلائو، لوگوں نے اسے بلایا، سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس سے کہا: مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم کافی مالدار ہو؟ عامری نے کہا: جی ہاں، اللہ کی قسم! میرے پاس ایک سو گدھے اور ایک سو سفید رنگ کے اونٹ ہیں، پھر اس نے مختلف قسم کے اونٹوں، غلاموں اور گھوڑوں کا ذکر کیا۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اسے کہا: تم ذرا اونٹوں کے پائوں اور بکریوں کے کھروں سے بچ کر رہنا۔ آپ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اتنی بار یہ بات دوہرائی کہ اس عامری کا رنگ بدلنا شروع ہو گیا، بالآخر اس نے کہا: اے ابوہریرہ! بھلا آپ کی اس بات کا مطلب کیا ہے؟ انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جس آدمی کے پاس اونٹ ہوں اور وہ ان کا حق ادا نہ کرے، … … (پھر گزشتہ حدیث کی طرح کی حدیث ذکر کی) اورجس کے پاس گائیں ہوں اور وہ تنگدستی و خوشحالی میں ان کا حق ادا نہ کرے تو وہ قیامت کے دن خوب ہوشیار بن کر اور خوب موٹی تازی ہو کر آئیں گی، پھر ان کے لیے ایک چٹیل میدان تشکیل دیا جائے گا (اس مالک کو وہاں لٹا دیا جائے گا)، وہ گائیں اسے اپنے کھروں سے روندیں گی اور سینگوں سے ماریں گی، جب آخری گائے گزر جائے گی تو پہلی کو دوبارہ لایا جائے گا، (یہ سزا اس وقت تک ہوتی رہے گی) جب تک لوگوں کے درمیان فیصلہ نہ کر دیا جائے، جبکہ اس دن کی مقدار ایک ہزار سال کے برابر ہو گی، پھر دیکھا جائے گا کہ اس کا راستہ (جنت کی طرف ہے یا جہنم کی طرف)۔ اور جس کے پاس بکریاں ہوں، … …(گزشتہ حدیث کی مانند حدیث ذکر کی)عامری نے کہا:اے ابوہریرہ! اونٹوں کا حق کیا ہے؟ انھوں نے کہا: اونٹوں کا حق یہ ہے کہ زکوۃ ادا کرتے وقت بہترین اونٹ ادا کرو، دودھ والا جانور کسی کو عاریۃً دے دیا کرو، ضرورت مند کو سواری کے لیے اونٹ دیا کرو، اسی طرح دودھ بھی لوگوں کو پلایا کرو اور جفتی کے لیے بھی عاریۃً نر اونٹ دے دیا کرو۔

Haidth Number: 3368

۔ (۳۳۶۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ حَدَّثَنِی أَبِی ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالاَ ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ أَخْبَرَنِی أَبُوْ الزُّبَیْرِ أَنَّہُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِاللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما یَقُوْلُ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((مَا مِنْ صَاحِبِ إِبِلٍ لَا یَفْعَلُ فِیْہَا حَقَّہَا (فَذَکَرَ نَحْوَ مَا تَقَدَّمَ فِی الإِبِلِ وَالْبَقَرِ وَالْغَنَمِ ثُمَّ قَالَ) وَلَا صَاحِبِ کَنْزٍ لاَ یَفْعَلُ فِیْہِ حَقَّہُ إِلَّا جَائَ کَنْزُہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ شُجَاعًا أَقْرَعَ، یَتْبَعُہُ فَاغِرًا فَاہُ۔ فَإِذَا رَآہُ فَرَّ مِنْہُ فَیُنَادِیْہِ رَبُّہُ خُذْ کَنْزَکَ الَّذِی خَبَّأْتَہُ فَأَنَا عَنْہُ أَغْنٰی مِنْکَ، فَإِذَا رَأٰی أَنَّہُ لَا بُدَّ لَہُ مِنْہُ سَلَکَ یَدَہُ فِی فِیْہِ فَقَضِمَہَاقَضْمَ الْفَحْلِ۔)) قَالَ أَبُوْ الزُّبَیْرِ: وَسَمِعْتُ عُبَیْدَ بْنِ عُمَیْرٍ، قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ فِی حَدِیْثِہِ: قَالَ رَجُلٌ: یاَ رَسُوْلَ اللّٰہِ! مَا حَقُّ الإِبِلِ؟ قَالَ: ((حَلْبُہَا عَلَی الْمَائِ، وَإِعَارَۃُ دَلْوِہَا، وَإِعَارَۃُ فَحْلِہَا وَمَنِیْحَتُہَا، وَحَمْلٌ عَلَیْہَا فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ۔)) قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ فِیْہَا کُلِّہَا وَقَعَدَ لَہَا، وَقَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ فِیْہِ، قَالَ أَبُوْ الزَّبِیْرِ سَمِعْتُ عُبَیْدَ بْنَ عُمَیْرٍ یَقُوْلُ ہٰذَا الْقَوْلَ، ثُمَّ سَأَلْنَا جَابِرًا الأَنْصَارِیَّ عَنْ ذَالِکَ فَقَالَ مِثْلَ قَوْلِ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ۔ (مسند احمد: ۱۴۴۹۶)

سیدناجابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو اونٹوں کا مالک ہو اور ان کا حق ادا نہ کرتا ہو، … (اونٹ، گائے اور بکری کی زکوۃ کے بارے میں جو تفصیل گزر چکی ہے، وہی یہاں ذکر کی، پھر فرمایا:) جو خزانے کا مالک ہو اور اس میں سے اس کا حق ادا نہ کرتا ہو تو قیامت کے دن اس کا خزانہ ایک گنجے سانپ کی صورت میں منہ کھولے ہوئے آئے گا اور اپنے مالک کا پیچھا کرے گا، مالک اسے دیکھ کربھاگنا شروع کر دے گا، لیکن اس کا رب اسے آواز دے گا: یہ تیرا وہی خزانہ ہے جسے تو نے سنبھال سنبھال کر رکھا تھا، اسے

Haidth Number: 3369
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ نے جس آدمی کو مال دیا ہو اور وہ اس کی زکوۃ ادا نہ کرتا ہو تو قیامت کے دن اس کے لیے اس کے مال کو گنجے سانپ کی شکل دی جائے گی،اس (کی آنکھوں) پر دو سیاہ نقطے ہوں گے، وہ قیامت کے دن اپنے مالک کے جبڑوں کو پکڑ کر کہے گامیں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: {وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَا آتَاہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ھُوَ خَیْرًا لَّھُمْ بَلْ ھُوَ شَرٌّلَّھُمْ سُیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِہٖ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلِلّٰہِ مِیْرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ} (سورۂ آل عمران۱۸۰) یعنی اور جو لوگ اللہ کے دیئے ہوئے مال میں سے بخل کرتے ہیں وہ اسے اپنے حق میں اچھا نہ سمجھیں، وہ تو ان کے حق میں بہت ہی برا ہے، وہ جس مال میں بخل کرتے ہیں قیامت کے دن اسی کو اس کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا، زمین اور آسمانوں کی میراث اللہ ہی کے لیے ہے اور تم جو کچھ کرتے ہو وہ اس سے اچھی طرح باخبر ہے۔

Haidth Number: 3370
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آدمی کا خزانہ قیامت کے دن دو سیاہ نقطوں والے گنجے سانپ کی شکل اختیار کر لے گا، پھر وہ اپنے مالک کا پیچھا کرے گااور وہ اس سے بچنے کی کوشش کرے گا، لیکن وہ سانپ اس کا پیچھا کرتا رہے گا یہاں تک کہ وہ اپنی انگلی اس کے منہ میں ڈال دے گا۔

Haidth Number: 3371
سیدنا معاویہ بن حیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا: جو آدمی اپنے رشتہ دار کے پاس آکر اس سے ایسی چیز کا سوال کرتا ہے جو اس کی ضرورت سے زائد ہو، لیکن وہ اسے نہ دے تو قیامت کے دن اس مالک کے لیے ایک سانپ بلایا جائے گا جو اپنی زبان کو ہلاتا ہوگا، یہ (سانپ) اسی کا زائد مال ہو گا، جو اس نے مانگنے والے کو نہیں دیا تھا۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: جو رشتہ دار اپنے کسی رشتہ دار سے زائد چیز کا سوال کرتا ہے اور وہ اسے نہیں دیتا تو اللہ تعالیٰ ایسے مال کو اس کے لیے سانپ بنا دے گا، جو قیامت کے دن فیصلہ مکمل ہونے تک اسے ڈستا رہے گا۔

Haidth Number: 3372
سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی اپنے مال کی زکوۃ ادا نہیں کرتا، قیامت کے دن اس کے مال کو گنجے سانپ کی شکل دی جائے گی اور وہ اپنے مالک کا پیچھا کرے گا، یہ اس سے بچنے کے لیے بھاگے گا، لیکن وہ سانپ یہ کہتے ہوئے اس کا پیچھا کرتا رہے گا: میں تیرا خزانہ ہوں۔ پھر سیدنا عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کتاب اللہ سے اس حدیث کی مصداق آیت تلاوت کی: {سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔} (سورۂ آل عمران، ۱۸۰) یعنی: یہ لوگ جو بخل کرتے رہے، عنقریب قیامت کے دن ان کی گردنوں میں اس کا طوق پہنا دیا جائے گا۔ امام سفیان نے ایک دفعہ کہا: ان کی گردن میں طوق پہنایا جائے گا۔

Haidth Number: 3373
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی اپنے مال کی زکوۃ ادا نہیںکرتا،اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے مال کو دو نقطوں والے گنجے سانپ کی شکل دے دے گا، وہ سانپ اس آدمی کے ساتھ ساتھ رہے گا، بلکہ اس کے گلے کا طوق بن جائے گا اور وہ کہے گا: میں تیرا خزانہ ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔

Haidth Number: 3374

۔ (۳۳۷۵) عَنِ الأَحْنَفِ بْنِ قَیْسٍ قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِیْنَۃَ وَأَنَا اُرِیْدُ الْعَطَائَ مِنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌فَجَلَسْتُ إِلٰی حَلْقۃٍ مِنْ حِلَقِ قُرَیْشٍ فَجَائَ رَجُلٌ عَلَیْہِ أَسْمَالٌ لَہُ قَدْ لَفَّ ثَوْبًا عَلٰی رَأْسِہِ قَالَ: بَشِّرِ الْکَنَّازِیْنَ بِکَیٍّ فِی الْجِبَاہِ وَبِکَیٍّ فِی الظُّہُوْرِ وَبِکَیٍّ فِی الْجُنُوْبِ، ثُمَّ تَنَحّٰی إِلٰی سَارِیَۃٍ فَصَلّٰی خَلْفَہَا رَکْعَتَیْنِ فَقُلْتُ: مَنْ ہٰذَا؟ فَقِیْلَ: ہٰذَا أَبُوْ ذَرٍّ( ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌) فَقُلْتُ: مَا شَیْئٌ سَمِعْتُکَ تُنَادِی بِہِ؟ قَالَ: مَا قُلْتُ لَہُمْ إِلَّا شَیْئًا سَمِعُوْہُ مِنْ نَبِیِّہِم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ: یَرْحَمُکَ اللّٰہُ، إِنِّی کُنْتُ آخَذُ الْعَطَائَ مِنْ عُمَرَ فَمَا تَرٰی، قَالَ خُذْہُ فَإِنَّ فِیْہِ الْیَوْمَ مَعُوْنَۃً وَیُوْشِکُ أَنْ یَکُوْنَ دَیْنًا، فَإِذَا کَانَ دَیْنًا فَارْفُضْہُ(وَفِی لَفْظٍ) فَإِذَا کَانَ ثَمَنًا لِدِیْنِکَ فَدَعْہُ۔ (مسند احمد: ۲۱۸۱۷)

احنف بن قیس کہتے ہیں: میں مدینہ منورہ آیا، میں سیدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے عطیہ لینا چاہتا تھا۔ میں قریش کے ایک حلقہ میں جا بیٹھا، پراگندہ لباس والا ایک آدمی وہاں آیا، اس نے سر پر ایک کپڑا لپیٹا ہوا تھا، وہ یوں کہنے لگا: خزانے جمع کرنے والوں کو یہ بشارت دے دو کہ ان کی پیشانی، پشت اور پہلو آگ سے داغے جائیں گے۔ پھر وہ علیحدہ ہوا اور ایک ستون کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھی۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ بتایا گیا: یہ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں۔ پس میں ان کے پاس گیا اور کہا: یہ جو کچھ تم کہہ رہے تھے، اس کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے کہا: جی میںنے تو صرف وہ بات کی ہے جو ان لوگوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی تھی۔ میں نے کہا: اللہ تم پر رحمت کرے، میں سیدناعمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے عطیہ لیا کرتا تھا، اس کے بارے میں تمہاراکیا خیال ہے؟ انھوں نے کہا: لے لیا کرو، آج کل تو اس کی شکل تعاون کی ہے، لیکن قریب ہے کہ یہ قرضہ بن جائے گا، جب یہ صورت پیدا ہو جائے تو ترک کر دینا۔ (ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:) جب ایسا مال تمہارے دین کی قیمت بن جائے تو اسے ترک کر دینا۔

Haidth Number: 3375

۔ (۳۳۷۶) عَنْ أَبِی ذَرٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: أَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ فِیْ ظِلِّ الْکَعْبَۃِ، فَقَالَ: ((ہُمُ الْأَخْسَرُوْنَ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ! ہُمُ الأَخْسَرُوْنَ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ!)) فَأَخَذَنِیْ غَمٌّ وَجَعَلْتُ أَتَنَفَّسُ، قَالَ: قُلْتُ: ہٰذَا شَیْئٌ حَدَثَ فِیَّ! قَالَ: قُلْتُ: مَنْ ہُمْ فَدَاکَ أَبِیْ وَ أُمِّیْ: قَالَ: ((اَلْأَکْثَرُوْنَ، إِلَّا مَنْ قَالَ فِی عِبَادِ اللّٰہِ ہٰکَذَا وَہٰکَذَا وَہٰکَذَا وَقَلِیْلٌ مَا ہُمْ، مَا مِنْ رَجُلٍ یَمُوْتُ فَیَتْرُکُ غَنَمًا أَوْ إِبِلًا أَوْ بَقَرًا لَمْ یُؤَدِّ زَکَاتَہُ، إِلَّا جَائَ تْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَعْظَمَ مَا تَکُوْنُ وَأَسْمَنَ حَتّٰی تَطَأَہُ بِأَظْلَافِہَا وَتَنْطَحَہُ بِقُرُوْنِہَا حَتّٰی یُقْضٰی بَیْنَ النَّاسِ، ثُمَّ تَعُوْدُ أُوْلاَہَا عَلٰی اُخْرَاھَا۔)) وَفِیْ رِوَایَۃٍ: ((کُلَّمَا نَفَدَتْ اُخْرَاھَا عَادَتْ عَلَیْہِ اُوْلَاھَا۔)) (مسند احمد: ۲۱۶۷۸)

سیدنا ابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس وقت کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرمانے لگے: ربِّ کعبہ کی قسم! وہی بہت زیادہ خسارے والے ہیں، ربِّ کعبہ کی قسم! وہی خسارے میں ہیں۔ مجھے شدید غم نے دبوچ لیا اور اور میں ٹھنڈی آہیں بھرنے لگا، ( میں دل میں ہی کہنے لگا کہ) کیا میرے اندر کوئی خرابی آگئی ہے، جس کی وجہ سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ کچھ فرما رہے ہیں، اس لیے میں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر نثار ہوں، کون لوگ خسارے میں ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: زیادہ مال والے، ماسوائے ان لوگوں کے جو (صدقہ کرتے ہوئے) مال کو اِدھر اُدھر لٹا دیتے ہیں، لیکن ایسے لوگ تھوڑے ہیں، جو شخص بکریاں، اونٹ اور گائے وغیرہ اس حالت میں چھوڑ کر مرتا ہے کہ وہ ان کی زکوۃ ادا نہ کرتا ہو تو قیامت کے دن یہ جانور خوب موٹے تازے ہو کر آئیں گے اور اپنے مالک کو اپنے پائوں، کھروں سے روندیں گے اور اپنے سینگوں سے اس کو ماریں گے، یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ ہو جائے گا، آخری جانور کے گزرنے کے بعد پھر پہلے کو دوبارہ لایا جائے گا۔ ایک روایت میں ہے: جب آخری جانور گزر جائے گا تو پہلے کو لوٹا لیا جائے گا۔

Haidth Number: 3376