Blog
Books
Search Hadith

زکوۃ کی فرضیت، اس کی ترغیب اور زکوۃ ادا نہ کرنے کی مذمت کا بیان

1110 Hadiths Found
سیدنا ہُلب طائی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے زکوۃ پر مشتمل ایک حدیث بیان، اس میں یہ فرمایا تھا کہ: تم میں سے کوئی آدمی قیامت کے دن اس حال میں نہ آئے کہ اس کے ساتھ اس کی بکری ہو، جو ممیا رہی ہو۔

Haidth Number: 3377

۔ (۳۳۷۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ حَدَّثَنِی أَبِی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَزِیْدَ یَعْنِی الْوَاسِطِیَ عَنْ سُفْیَانَ یَعْنِی بْنَ حُسَیْنٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِیْہِ (عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا) قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدْ کَتَبَ الصَّدَقَۃَ وَلَمْ یُخْرِجْہَا، اِلٰی عُمَّالِہِ حَتّٰی تُوُفِّیَ، قَالَ فَأَخْرَجَہَا أَبُوْ بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ مِنْ بَعْدِہِ فَعَمِلَ بِہَا حَتّٰی تُوُفِّیَ، ثُمَّ أَخْرَجَہَا عُمَرُ مِنْ بَعْدِہِ فَعَمِلَ بِہَا، قَالَ فَلَقَدْ ہَلَکَ عُمَرُ یَوْمَ ہَلَکَ وَإِنَّ ذَالِکَ لَمَقْرُوْنٌ بِوَصِیَّتِہِ، فَقَالَ کَانَ فِیْہَا فِی الإِبِلِ فِی کُلِّ خَمْسٍ شَاۃٌ، حَتّٰی تَنْتَہِیَ إِلٰی أَرْبَعٍ وَعِشْرِیْنَ، فَإِذَا بَلَغَتْ إِلٰی خَمْسٍ وَعِشْرِیْنَ فَفِیْہَا بِنْتُ مَخَاضٍ، إِلٰی خَمْسٍ وَثَلاَثِیْنَ، فَإِنْ لَمْ تَکُنْ ابْنَۃُ مَخَاضٍ فَأبْنُ لَبُوْنٍ، فَإِذَا زَادَتْ عَلٰی خَمْسٍ وَثَلَاثِیْنَ فَفِیْہَا ابْنَۃُ لَبُوْنٍ، إِلٰی خَمْسٍ وَأَرْبَعِیْنَ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَۃٌ فَفِیْہَا حِقَّہٌ، إِلٰی سِتِّیْنَ فَإِذَا زَادَتْ فَفِیْہَا حِقَّتَانِ إِلٰی عِشْرِیْنَ وَمَائَۃٍ، فَإِذَا کَثُرَتْ الإِبِلَ فَفِی کُلِّ خَمْسِیْنَ حِقَّہٌ، وَفِی کُلِّ أَرْبَعِیْنَ ابْنَۃُ لَبُوْنَ، (وَفِی الْغَنَمِ) مِنْ أَرْبَعِیْنَ شَاۃٌ إِلٰی عِشْرِیْنَ وَمَائَۃٍ، فَإِذَا زَادَتْ بَعْدُ فَلَیْسَ فِیْہَا شَیْئٌ حَتّٰی تَبلْغُ َأَرْبَعَمِائَہٍ، فَإِذَا کَثُرَتِ الْغَنَمُ فَفِی کُلِّ مِائَۃٍ شَاۃٌ، وَکَذَالِکَ لَا یُفَرَّقُ بَیْنَ مُجْتَمِعٍ وَلَا یُجْمَعُ بَیْنَ مُتَفَرِّقٍ مَخَافَۃَ الصَّدَقَۃِ، وَمَا کَانَ مِنْ خَلِیْطَیْنِ فَہُمَا یَتَرَاجَعَانِ بِالسَّوْیَّۃِ، لَا تُؤْخَذُ ہَرِمَۃٌ۔ وَلَا ذَاتُ عَیْبٍ مِنَ الْغَنَمِ۔ (مسند احمد: ۴۶۳۴)

ٔٔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے زکوۃ کے احکام تحریر کروائے، لیکن ابھی تک ان کو عاملین کی طرف نہیں بھیجاتھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم انتقال فرما گئے، پھر سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے وہ تحریر عمال کی طرف بھجوائی اور ان کی وفات تک اس پر عمل ہوتا رہا، ان کے بعد سیدناعمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی وہی تحریر اپنے عمال کو بھجوائی اور اس پر عمل ہوتا رہا، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی شہادت کے وقت وہ تحریر ان کی وصیت کے ساتھ موجود تھی، سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کہتے ہیں: اس میں یہ تفصیل لکھی ہوئی تھی: چوبیس اونٹوں تک ہر پانچ اونٹ میں ایک بکری بطور زکوۃ مقرر ہے، جب پچیس اونٹ ہو جائیں تو ایک بنت ِ مخاض فرض ہے، اگر بنت ِ مخاض نہ ہو تو ابن لبون دیا جا سکتا ہے، زکوۃ کی یہ مقدار پینتیس اونٹوں تک ہے، جب چھتیس ہو جائیں تو پینتالیس اونٹوں تک بنت ِ لبون واجب ہے، پھر چھیالیس سے ساٹھ تک حِقّہ ہے، اس سے بڑھ جائیں تو پچھتر تک جذعہ ہے، جب اونٹ اس مقدار سے بھی بڑھ جائیں تو نوے (۹۰) تک دو عدد بنت ِ لبون ہوں گی۔ اس کے بعد اکانوے سے ایک سو بیس تک تین حقّے واجب ہیں اور جب اونٹ اس سے بھی زائد ہوں تو ہر پچاس پرایک حقّہ اور ہر چالیس میں ایک بنت ِ لبون بطور زکوۃ فرض ہے۔ رہا مسئلہ بکریوں کی زکوۃ کا تو (۴۰) سے (۱۲۰) بکریوں تک ایک بکری اور (۱۲۱) سے (۲۰۰)تک دو بکریاں بطورِ زکوۃ فرض ہیں، اگر وہ اس سے زیادہ ہو جائیں تو (۳۰۰) تک تین بکریاں اور اس کے بعد (۴۰۰) ہو جائیں تو چار بکریاں ہیں۔ اس سے بھی زیادہ بکریاں ہوں تو ہر (۱۰۰) میں ایک بکری۔زکوۃ سے بچنے کے لیے ایک ریوڑ کو الگ الگ یا الگ الگ ریوڑوں کو اکٹھا نہ کیا جائے۔ اگر ایک سے زائد شرکاء کی بکریوں میں سے زکوۃ واجب ہو گئی تو وہ آپس میں برابر برابر تقسیم کر لیں گے۔ زکوۃ میں کوئی بوڑھی یا عیب والی بکری نہ لی جائے۔

Haidth Number: 3378
طارق کہتے ہیں:سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ہمیں خطبہ دیا اور اس میں یہ بھی کہا:ہمارے پاس کوئی مخصوص وحی یا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی کوئی الگ تحریرنہیں ہے، ہمیں بھی اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس صحیفہ والی ہدایات دی گئی ہیں، جو صحیفہ میری تلوار کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ اس وقت سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس ایک تلوار تھی اور اس کا زیور لوہے کا تھا، اس میں زکوۃ کا نصاب تحریر تھا۔

Haidth Number: 3379
(دوسری سند) طارق کہتے ہیں: میں نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا:ہمارے پاس کوئی علیحدہ تحریر نہیں ہے جو ہم تم لوگوں پر پڑھیں، ما سوائے قرآن اور اس صحیفہ کے، اس وقت وہ صحیفہ ان کی تلوار کے میان میں تھا، جس کا زیور لوہے کا تھا،میں نے یہ صحیفہ خود رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے لیا تھا، اس میں زکوۃ کا نصاب تحریر کیا گیا ہے۔

Haidth Number: 3380

۔ (۳۳۸۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ قَالَ حَدَّثَنِی أَبِی حَدَّثَنَا أَبُوْ کَامِلٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ قَالَ: أَخَذْتُ ہَذَا الْکِتَابَ مِنْ ثُمَامَۃَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ کَتَبَ لَہُمْ: أَنَّ ہٰذِہِ فَرَائِضُ الصَّدَقَۃِ الَّتِی فَرَضَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ الَّتِی أَمَرَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ بِہَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَمَنْ سُئِلَہَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ عَلٰی وَجْہِہَا فَلْیُعْطِہَا، وَمَنْ سُئِلَ فَوْقَ ذَالِکَ فَلَا یُعْطِہِ۔ فِیْمَا دُوْنَ خَمْسٍ وَعِشْرِیْنَ مِنَ الْاِبِلِ، فَفِی کُلِّ خَمْسِ ذَوْدٍ شَاۃٌ، فَإِذَا بَلَغَتْ خَمْسًا وَعِشْرِیْنَ فَفِیْہَا ابْنَۃُ مَخَاضٍ اِلی خِمْسٍ وَّ ثَلَاثِیْنَ، فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ اِبْنَۃُ مَخَاضٍ فَابْنُ لَبُوْنٍ ذَکَرٌ، فَإِذَا بَلَغْتْ سِتَّۃً وَثَلاثِیْنَ فَفِیْہَا ابْنَۃُ لَبُوْنٍ إِلٰی خَمْسٍ وَأَرْبَعِیْنَ ، فَإِذَا بَلَغَتْ سِتَّۃً وَأَرْبَعِیْنَ فَفِیْہَا حِقَّہٌ طَرُوْقَۃَ الْفَحْلِ إِلٰی سِتَّیْنَ،فَإِذَا بَلَغَتْ إِحْدٰی وَسِتِّیْنَ فَفِیْہَا جَذَعَۃٌ إِلٰی خَمْسٍ وَسَبْعِیْنَ، فَإِذَا بَلَغْتْ سِتَّۃً وَسَبْعِیْنَ فَفِیْہَا ابْنَتَا لَبُوْنٍ إِلٰی تِسْعِیْنَ، فَإِذَا بَلَغَتْ إِحْدٰی وَتِسْعِیْنَ فَفِیْہَا حِقَّتَانِ طَرُوْقَتَا الْفَحْلِ إِلٰی عِشْرِیْنَ وَمَائَۃٍ، فَإِنْ زَادَتْ عَلٰی عِشْرِیْنَ وَمَائَۃٍ فَفِی کُلِّ أَرْبَعِیْنَ ابْنَۃُ لَبُوْنٍ، وَفِی کُلِّ خَمْسیْنَ حِقَّہٌ، فَإِذَا تَبَایَنَ أَسْنَانُ الإِبِلِ فِی فَرَائِضِ الصَّدَقَاتِ، فَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَہُ صَدَقَۃُ الْجَذَعَۃِ وَلَیْسَ عِنْدَہُ جَذَعَۃٌ وَعِنْدَہُ حِقَّہٌ، فَإِنَّہَا تُقْبَلُ مِنْہُ وَیَجْعَلُ مَعَہَا َشَاتَیْنِ إِنْ اسْتَیْسَرَتَا لَہُ أَوْ عِشْرِیْنَ دِرْہَمًا، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَہُ صَدَقَۃُ الْحِقَّۃِ وَلَیْسَتْ عِنْدَہُ إِلَّا جَذَعَۃٌ فَإِنَّہَا تُقْبَلُ مِنْہُ وَیُعْطِیْہِ الْمُصَدِّقُ عِشْرِیْنَ دِرْہَمًا أَوْ شَاتِیْنِ، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَہُ صَدَقَۃُ ابْنَۃِ لَبُوْنٍ وَلَیْسَتْ عِنْدَہُ ابْنَۃُ لَبُوْنٍ وَعِنْدَہُ ابْنَۃُ مَخَاضٍ فَإِنَّہَا تُقْبَلُ مِنْہُ وَیَجْعَلُ مَعَہَا شَاتَیْنِ إِنَّ اسْتَیْسَرَنَا لَہُ أَوْ عِشْرِیْنَ دِرْہَمًا، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَہُ صَدَقَۃُ بِنْتِ مَخَاضٍ وَلَیْسَ عِنْدَہُ إِلَّا ابْنُ لَبُوْنٍ ذَکَرٌ فَإِنَّہُ یُقْبَلُ مِنْہُ وَلَیْسَ مَعَہُ شَیْئٌ وَمَنْ لَمْ یَکُنْ عِنْدَہُ إِلَّا أَرْبَعٌ مِنَ الإِبِلِ فَلَیْسَ فِیْہَا شَیْئٌ إِلَّا أَنْ یَشَائَ رَبُّھَا وَفِی الْغَنَمِ فِی سَائِمَتِہَا، إِذَا کَانَتْ أَرْبَعِیْنَ فَفِیْہَا شَاۃٌ إِلٰی عِشْرِیْنَ وَمَائِۃٍ فَإِنْ زَادَتْ فَفِیْہَا شَاتَانِ إِلٰی مِائَتَیْنِ فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَۃٌ فَفِیْھَا ثَلَاثُ شِیَاہٍ إِلٰی ثَلَاثِمِائَۃِ، فَإِذَا زَادَتْ فَفِی کُلِّ مِائَۃٍ شَاۃٌ وَلَا تُؤْخَذُ فِی الصَّدَقَۃِ ہَرِمَۃٌ وَلَا ذَاتُ عَوَارٍ، وَلَا تَیْسٌ إِلَّا أَنْ یَشَائُ الْمُتَصَدِّقُ وَلَا یُجْمَعُ بَیْنَ مُتَفَرِّقٍ وَلاَ یُفَرَّقُ بَیْنَ مُجْتَمِعٍ خَشْیَۃَ الصَّدَقَۃِ، وَمَا کَانَ مِنْ خَلِیْطَیْنِ فَإِنَّہُمَا یَتَرَاجَعَانِ بَیْنَہُمَا بِالسَّوِیَّۃِ ، وَإِذَا کَانَتْ سَائِمَۃُ الرَّجُلِ نَاقِصَۃً مِنْ أَرْبَعِیْنَ شَاۃً وَاحِدَۃً فَلَیْسَ فِیْہَا شَیْئٌ اِلَّا اَنْ یَشَائَ رَبُّہَا وَفِی الرِّقَۃِ رُبْعُ الْعُشُوْرِ، فَإِذَا لَمْ یَکُنِ الْمَالُ اِلَّا تِسْعِیْنَ وَمَائَۃَ دِرْہَمٍ فَلَیْسَ فِیْہَا شَیْئٌ إِلَّا أَنْ یَشَائَ رَبُّہَا)) (مسند احمد: ۷۲)

سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان (بحرین والوں) کی طرف یہ تحریر لکھ کر بھیجی: یہ زکوۃ کا وہ نصاب ہے جو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مسلمانوں پر فرض کیا اور جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حکم دیا ہے، جس مسلمان سے اس کے مطابق زکوۃ وصول کی جائے، وہ ادا کرے اور جس سے اس سے زائد کا مطالبہ کیا جائے، وہ نہ دے۔ (تفصیل یہ ہے:) اونٹوں کی تعداد (۲۵) سے کم ہو تو ہر پانچ اونٹوں پر ایک بکری ہے۔ (۲۵) سے (۳۵) تک ایک بنت ِ مخاض یا ابن لبون ، (۳۶) سے (۴۵) تک بنت ِ لبون،(۴۶) سے (۶۰) تک نر کی جفتی کے قابل حِقّہ،(۶۱) سے (۶۵) تک جذعہ، (۷۶) سے (۹۰) تک دو عدد بنت ِ لبون اور (۹۱)سے (۱۲۰) تک دو عدد حقّے ہیں۔ جب اونٹوں کی تعداد اس سے بڑھ جائے تو ہر (۴۰) پر ایک بنت ِ لبون اور ہر (۵۰) پر ایک حقّہ زکوۃ ہو گی اور اگر زکوۃ کے اس سلسلے میں اونٹوں کی عمریں مختلف ہو جائیں، یعنی جس نے زکوۃ میں جذعہ ادا کرنی ہو، لیکن اس کے پاس جذعہ نہ ہو، البتہ حِقّہ ہو تو اس سے وہی لیا جائے گا اور اس کے ساتھ اگر میسر ہو تو دو بکریاں دے دے یا بیس درہم، اسی طرح اگر کسی نے زکوۃ میں حقّہ ادا کرنا ہو، لیکن اس کے پاس جذعہ ہو تو وہی اس سے قبول کر لی جائے گی، لیکن زکوۃ وصول کرنے والا نمائندہ بیس درہم یا دو بکریاں اسے واپس کرے گا، اور جس پر حِقّہ کی زکوۃ ہو، لیکن اس کے پاس یہ اونٹنی نہ ہو، بلکہ بنت لبون ہو تو اس سے وہی لے لی جائے گی، لیکن (اس کمی کو پورا کرنے کے لیے) اگر میسر ہو تو دو بکریاں دینا پڑیں گی، نہیں تو بیس درہم، اسی طرح جس پر بنت ِ لبون کی زکوۃ پڑ جائے، لیکن اس کے پاس حِقّہ ہو تو وہی اس سے لے لیا جائے گا، لیکن زکوۃ وصول کنندہ اسے بیس درہم یا دو بکریاں واپس کرے گا، اسی طرح جس نے زکوۃ میں بنت لبون ادا کرنی ہو، لیکن اس کے پاس یہ اونٹنی نہ ہو، بلکہ بنت ِ مخاض ہو تو اس سے یہی لے لی جائے گی، لیکن اسے اس کے ساتھ اگر میسر ہوں تو بکریاں، وگرنہ بیس درہم دینا پڑیں گے، اور جس نے زکوۃ میں بنت ِ مخاض ادا کرنی ہو، لیکن اس کے پاس یہ اونٹنی نہ ہو، بلکہ ابن لبون ہو تو اس سے وہی قبول کیا جائے گا، لیکن اس کے ساتھ مزید کوئی چیز نہیں لی جائے گی۔ اور جس کے پاس صرف چار اونٹ ہوں تو اس پر زکوۃ نہیں ہے، ہاں اگر وہ از خود (بطورِ نفل) کچھ دینا چاہے تو (ٹھیک ہے)۔ چرنے والی بکریوں کا نصابِ زکوۃ یہ ہے: (۴۰) سے (۱۲۰) تک ایک بکری، (۱۲۱) سے (۲۰۰) تک دو بکریاں اور (۲۰۰) سے (۳۰۰) تک تین بکریاںزکوۃ لی جائے گی، اس کے بعد ہر (۱۰۰) میں ایک بکری وصول کی جائے گی۔زکوۃ میں بوڑھی، کانی یا نر جانور نہیں لیا جائے گا، اگر مالک چاہے تو نر جانور بھی دے سکتا ہے، زکوۃ سے بچنے کے لیے نہ الگ الگ ریوڑوں کو اکٹھا کیا جا سکتا اور نہ اکٹھے ریوڑ کو علیحدہ علیحدہ کیا جا سکتا ہے، اگر کسی (ریوڑ میں) دو آدمیوں کا اشتراک ہو تو وہ (ادا شدہ زکوۃ) کو برابر تقسیم کریں گے، اگر چرنے والی بکریوں کی تعداد چالیس سے ایک بھی کم ہو تو ان پر زکوۃ واجب نہیں ہو گی، ہاں اگر مالک (از خود بطورِ نفل) دینا چاہے تو اس کی مرضی ہے۔ چاندی میں چالیسواں حصہ بطور زکوۃ واجب ہے، اگر چاندی (۱۹۰) درہم ہو، تو اس میں زکوۃ واجب نہیں ہو گی، ہاں اگر مالک از خود بطور نفل دینا چاہے تو اس کی مرضی ہے۔

Haidth Number: 3381
۔ سید عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا خیبر کی صورتحال کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتی ہیں: جب وہاں کی کھجوریں تیار ہو جاتیں، لیکن ابھی تک کھانے کے قابل نہ ہوتیں تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدنا عبد اللہ بن رواحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو یہودیوں کی طرف بھیجتے تاکہ وہ وہاں جا کرکھجوروں کی فصل کا اندازہ لگائیں، وہ اندازہ لگا کر ان کو اختیار دے دیتے کہ وہ یا تو اس لگائے ہوئے اندا زے کے مطابق کھجوریں لے لیں اور فصل چھوڑ دیںیا اس اندازہ کے حساب سے حصہ ادا کریں،نبی کریم کا یہ حکم اس وجہ سے تھا کہ کھجوروں کو کھانے اور تقسیم کرنے سے پہلے پہلے ہی ان کی مقدار کا اندازہ ہو جائے۔

Haidth Number: 3418
۔ سیدناجابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ سیدناابن رواحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کھجوروں کا اندازہ چالیس ہزار وسق کی صورت میں لگایا، پھر جب انھوں نے یہودیوں کو اختیار دیا تو انہوں نے پھل کو اپنے حق میں ترجیح دی اور بیس ہزار وسق کھجور ادا کرنا ان کے ذمیّ ٹھہرا۔

Haidth Number: 3419
۔ سیدناعبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدناابن رواحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو خیبر کی طرف روانہ کیا تاکہ وہ وہاں جا کر کھجور کی فصل کا اندازہ لگائیں، انہوں نے فصل کا اندازہ لگانے کے بعد انہیں اختیار دے دیا کہ وہ چاہیں تو اسے قبول کر لیںیا چاہیں توردّ کر دیں، لیکن انھوں نے (یہ فیصلہ سن کر)کہا: یہی فیصلہ حق ہے اور اسی کی بدولت آسمان و زمین قائم ہیں۔

Haidth Number: 3420
۔ سیدناسہل بن ابی حثمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تم فصل کا اندازہ کر لو تو اس کے کٹنے کے بعد (زکوۃ کییہ مقدار وصول کرو، لیکن) ایک تہائی چھوڑ دو، اگر تم اتنا نہ چھوڑو تو ایک چوتھائی چھوڑ دو۔

Haidth Number: 3421

۔ (۳۴۳۶) عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((قَالَ رَجُلٌ لَأَتَصَدَّقَنَّ اللَّیْلَۃَ صَدَقَۃً فَأَخْرَجَ صَدَقَتَہُ فَوَضَعَہَا فِییَدِ زَانِیَۃٍ، فَاَصْبَحُوا یَتَحَدَّثُوْنَ: تُصُدِّقَ اللَّیْلَۃَ عَلٰی زَانِیَۃٍ وَقَالَ: لَأَتَصَدَّقَنَّ اللَّیْلَۃَ بِصَدَقَۃٍ فَأَخْرَجَ صَدَقَتَہُ فَوَضَعَہَا فِییَدِ سَارِقٍ، فَأَصْبَحُوْایَحَدَّثُوْنَ: تُصُدِّقَ اللَّیْلَۃَ عَلٰی سَارِقٍ، ثُمَّ قَالَ: لَأَتَصَدَّقَنَّ اللَّیْلَۃَ بِصَدَقَۃٍ، فَأَخْرَجَ الصَّدَقَۃَ فَوَضَعَہَا فِییَدِ غَنِیٍّ فَأَصْبَحُوْا یَتَحَدَّثُوْنَ تُصُدِّقَ اللَّیْلَۃَ عَلٰی غَنِیٍّ فَقَالَ: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی سَارِقٍ وَعَلٰی زَانِیَۃٍ وَعَلٰی غَنِیٍّ قَالَ فَأُتِیَ، فَقِیْلَ لَہُ: أَمَّا صَدَقَتُکَ َفَقَدْ تُقُبِّلَتْ، أَمَّا الزَّانِیَۃُ فَلَعَلَّہَا یَعْنِی أَنْ تَسْتَعِفَّ بِہِ، وَأَمَّا السَّاِرقُ فَلَعَلَّہُ أَنْ یَسْتَغْنِیَ بِہِ، وَأَمَّا الْغَنِیُّ فَلَعَلَّہُ أَنْ یَعْتَبِرَ فَیُنْفِقَ مِمَّا آتَاہُ اللّٰہُ۔)) (مسند احمد: ۸۲۶۵)

۔ سیدناابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک آدمی نے کہا:میں آج رات کو ضرور صدقہ کروں گا، پس وہ صدقہ لے کر نکلا اور (لاعلمی میں) ایک زانی عورت کو دے آیا، صبح کو لوگوں نے یہ بات کہنا شروع کر دی کہ آج رات ایک زانیہ کو صدقہ دیا گیا،اس نے دوبارہ فیصلہ کیا کہ وہ آج رات ضرور صدقہ کرے گا (تاکہ کسی حقدار تک پہنچ سکے۔) چنانچہ اس نے صدقہ تو نکالا، لیکن لاعلمی میں ایک چور کو دے آیا، جب صبح ہوئی تو لوگ یہ کہنے لگے کہ آج رات ایک چور کو صدقہ دے دیا گیا، اس نے پھر سوچا کہ وہ آج رات پھر صدقہ کرے گا۔ چنانچہ وہ صدقہ لے کر گیا اور لاعلمی میں ایک دولت مند کو دے آیا۔ جب صبح ہوئی تو لوگوں نے کہا: آج رات ایک دولت مند کو صدقہ دیا گیا۔ اس نے کہا: ہر حال میں اللہ کا شکر ہے، چور پر، زانی عورت پر اور غنی پر صدقہ کر دیا۔ پھر کسی نے آکر اسے بتایا (ممکن ہے اسے خواب میں یہ کہا گیا ہو) تیرا صدقہ قبول ہو گیا ہے، زانیہ کو صدقہ دینے سے ممکن ہے کہ وہ پاکدامن بن جائے، اسیطرح ممکن ہے کہ چور چوری سے رک جائے اور غنی سبق حاصل کرلے اور اللہ تعالیٰ کے دیئے میں سے خرچ کرے۔

Haidth Number: 3436
۔ سیدناانس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ بنو تمیم کا ایک آدمی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! جب میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے مقرر کردہ نمائندے کو زکوٰۃ ادا کر دوں تو کیا میں اللہ اور اس کے رسول کے ہاں بری ہو جاؤں گا؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں، جب تم میرے نمائندے کو زکوٰۃ ادا کر دو گے تو تمہاری ذمہ داری پوری ہو جائے گی اور تمہیں اس کا اجر ملے گا، البتہ اس میں جو آدمی تبدیلی (کرتے ہوئے ناجائز تصرف) کرے گا، وہ گنہگار ہو گا۔

Haidth Number: 3437
۔ سیدناعبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عنقریب تم پر ایسے حکمران مسلط ہوجائیں گے جو دوسروں کو تم پر ترجیح دیں گے۔ صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم میں سے جو آدمی ایسی صورت حال کو پائے، وہ کیا کرے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اس حق کو ادا کرنا جو تم پر ہے اور اپنے حق کا سوال اللہ تعالیٰ سے کرنا۔ … ایک روایت میں ہے: سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہم سے فرمایا: تم میرے بعد دیکھو گے کہ دوسروں کو تم پر ترجیح دی جائے گی اور برے امور بھی تمہیں نظر آئیں گے۔ ہم نے کہا: ایسے حالات میں آپ ہمیں کیا کرنے کا مشورہ دیں گے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم ان (حکمرانوں) کا حق ادا کرنا اور اپنے حق کا سوال اللہ تعالیٰ سے کرنا

Haidth Number: 3438
۔ سیدناابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے ایمان کی حالت میں اجر و ثواب کے حصول کے لئے ماہِ رمضان کے روزے رکھے، اس کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔

Haidth Number: 3655
۔ سیدناابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لوگوں کو رمضان کے قیام کی رغبت ضرور دلاتے تھے، البتہ حتمی حکم نہیں دیتے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرماتے تھے: جو شخص ایمان کی حالت میں اجر و ثواب کی خاطر رمضان کا قیام کرے گا، اس کے سابقہ تمام گناہ بخش دیئے جائیں گے۔

Haidth Number: 3656
Haidth Number: 3657
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے ایمان کی حالت میں اور اجرو ثواب کے حصول کی نیت رمضان کا قیام کیا، اس کے پچھلے تمام گناہ بخش دیئے جائیں گے، اسی طرح جس نے ایمان کے ساتھ اور اجر و ثواب کی خاطر شب ِ قدر کا قیام کیا تو اس کے بھی پچھلے تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔

Haidth Number: 3658
۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس آدمی نے ماہِ رمضان کے روزے رکھے، اس کی حدود کا خیال رکھا اورجن امور سے بچنا چاہئے، ان سے بچ کر رہا، تو اس کا یہ عمل اس کے سابقہ گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔

Haidth Number: 3659
۔ مولائے رسول سیدناثوبان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی ماہِ رمضان کے روزے رکھے گا تو یہ ایک ماہ کے روزے (اجر میں) دس مہینوں کے روزوں کے برابر جائیں گے، پھر جس نے عبد الفطر کے بعد (شوال کے) چھ روزے رکھے تو یہ سارا عمل سال بھر کے روزوں کے برابر ہو جائے گا۔

Haidth Number: 3660
۔ سیدنامعاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی اس حال میں اللہ تعالیٰ کو ملتا ہے کہ اس نے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایاہوتا اور پانچ نمازوں کا پابند ہوتا ہے اور اور ماہِ رمضان کے روزے بھی رکھتا ہے تواس کو بخش دیا جاتا ہے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا میں لوگوں کو یہ بیان کر کے خوشخبری نہ دے دوں؟آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: چھوڑدو ان کو، تاکہ وہ عمل کرتے رہیں۔

Haidth Number: 3661
۔ ایک قریشی سردار کے باپ سے روایت ہے کہ اس نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے منہ مبارک سے یہ کلمات سنے تھے: جس نے رمضان اور شوال کے مہینوں اور پھر بدھ، جمعرات اور جمعہ کے ر وزے رکھے، وہ جنت میں داخل ہو جائے گا۔

Haidth Number: 3662
Haidth Number: 3663
۔ سیدناابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تک لوگ روزہ جلدی افطار کرتے رہیں گے، دین غالب رہے گا، یہودی اور عیسائی روزہ افطار کرنے میں تاخیر کر دیتے ہیں۔

Haidth Number: 3714
۔ سیدناابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: میرے بندوں میں سے مجھے سب سے زیادہ محبوب وہ ہیں جو سب سے جلدی روزہ افطار کرتے ہیں۔

Haidth Number: 3715
۔ امام نافع کہتے ہیں: بسا اوقات ایسے ہوتا کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ روزہ سے ہوتے اور وہ مجھے کھانا لانے کے لیے بھیجتے، مغرب کی اذان اور پھر اقامت بھی ہو جاتی اور وہ سن رہے ہوتے مگر نہ کھانا چھوڑتے تھے اور نہ جلدی کرتے تھے، اطمینان سے کھانا کھانے کے بعد جا کر مغرب کی نماز ادا کرتے، اور وہ کہتے تھے کہ اللہ کے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا ہے: جب شام کا کھانا پیش کر دیا آجائے تو جلدی نہ کیا کرو۔

Haidth Number: 3716
۔ سیدنا سلمان بن عامر ضبی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں سے جب کوئی روزہ افطار کرے تو وہ کھجور کے ساتھ افطاری کرے، اگر کھجور دستیاب نہ ہو تو پانی سے افطاری کر لے، بیشکیہ خوب پاک کرنے والا ہے۔

Haidth Number: 3717
۔ سیدناانس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ماہ رمضان میں وصال کیا، پس صحابہ نے بھی ایسا کرنا شروع کر دیا، جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس بات کا پتہ چلا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر مہینہ مزید لمبا ہوتا تو میں وصال کو مزید لمبا کرتا، تاکہ غلو کرنے والے متشدِّد لوگ اپنے غلو اور تشدّدسے باز آجاتے، میری صورتحال تو یہ ہے کہ مجھے میرا رب کھلاتا پلاتا ہے۔

Haidth Number: 3816
۔ عبداللہ بن ابی موسیٰ کہتے ہیں:میں نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے وصال کے بارے میں دریافت کیا، انہوں نے کہا: احد کے دنوں میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور صحابہ نے وصال کیا تھا،لیکن ان کو اس سے مشقت ہوئی،جب چاند نظر آیا تو تب صحابہ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس چیز کا ذکر کیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر مہینہ مزید لمبا ہوتا تو میں بھی وصال کو لمبا کر دیتا۔ کسی نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خود بھی وصال کرتے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تمہاری مانند نہیں ہوں، میں تو اس حال میں رات گزارتا ہوں کہ میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے۔

Haidth Number: 3817
۔ سیدناابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم وصال نہ کرو اور جو آدمی ایسا کرنا ہی چاہے تو وہ سحری تک وصال کر لیا کرے۔ صحابہ نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خود تو وصال کر لیتے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تمہاری مانند نہیں ہوں، میں تو اس حال میں رات گزارتا ہوں کہ مجھے ایک کھلانے والا کھلاتا ہے اور ایک پلانے والا پلاتا ہے۔

Haidth Number: 3818
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دورِ جاہلیت میںیومِ عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے اور قریش بھی دورِ جاہلیت میں اس دن کا روزہ رکھا کرتے تھے، جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہاں بھی اس دن روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی اس روزے کاحکم دیا، لیکن جب ماہِ رمضان کے روزے فرض ہوئے تو وہی روزے فرض ٹھہرے اور یومِ عاشوراء کے روزے کو ترک کر دیا گیا۔

Haidth Number: 3918
۔ (دوسری سند) اسی طرح کی حدیث ہے، البتہ اس میں ہے: جب ماہِ رمضان کی فرضیت کا حکم نازل ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اسی کے روزے رکھا کرتے تھے اور یومِ عاشوراء کا روزہ ترک کر دیا تھا، اب جو چاہے اس دن کا روزہ رکھ لے اور جو چاہے وہ نہ رکھے۔

Haidth Number: 3919