Blog
Books
Search Hadith

غسلِ جنابت اور اس سے پہلے والے وضو کی کیفیت کا بیان

151 Hadiths Found
سیدہ عائشہؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ جب غسلِ جنابت کا ارادہ کرتے تو تین دفعہ ہاتھ دھوتے، ایک روایت میں ہے: پانی والا برتن رکھا جاتا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ اپنے ہاتھوں کو برتن میں داخل کرنے سے پہلے ان پر پانی بہا کر ان کو دھوتے تھے، پھر دائیں ہاتھ کے ذریعے پانی کر لیتے اور اس کو بائیں ہاتھ پر بہا کر شرمگاہ کو دھوتے، یہاں تک کہ وہ صاف ہو جاتی، پھر اپنے ہاتھ کو اچھی طرح دھوتے، پھر تین تین بار کلی کرتے اور ناک میں پانی چڑھاتے، تین دفعہ چہرہ دھوتے، تین مرتبہ بازوؤں کو دھوتے، پھر اپنے سر پر تین بار پانی بہاتے، پھر غسل کرتے،ایک روایت میں ہے: پھر بقیہ جسم کو دھوتے، جب باہر تشریف لے آتے تو پاؤں کو دھوتے تھے۔

Haidth Number: 873
۔ (دوسری سند) سیدہ کہتی ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ جب غسلِ جنابت کرتے تو نماز والا وضو کرتے، اپنی شرمگاہ کو اور پاؤں کو دھوتے اور اپنے ہاتھ کو دیوار کے ساتھ رگڑتے تھے، پھر اپنے آپ پر پانی بہا دیتے تھے، گویا میں دیوار میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے ہاتھ کا نشان دیکھ رہی ہوں۔

Haidth Number: 874
۔ (تیسری سند) سیدہ عائشہؓ سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے غسل کے بارے میں سوال کیا گیا، انھوں نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ ہاتھوں سے شروع کرتے، ان کو دھوتے، ایک روایت میں ہے: تین دفعہ اپنی ہتھیلیوں کو دھوتے تھے، پھر نماز والا وضو کرتے تھے، پھر اپنے سر کے بالوں کی جڑوں کے بیچ میں انگلیاں ڈالتے، جب ظنِّ غالب ہو جاتا کہ چمڑہ تر ہو گیا ہے تو دو ہاتھوں کے بھرے ہوئے تین چلو اپنے سر پر ڈالتے، پھر باقی جسم پر پانی بہا دیتے۔

Haidth Number: 875
زوجۂ رسول سیدہ میمونہؓ سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے لیے غسل کا پانی رکھا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اس طرح غسلِ جنابت کیا، بائیں ہاتھ سے دائیں ہاتھ پر برتن انڈیلا اور اپنی ہتھیلیوں کو تین بار دھویا، پھر اپنے ہاتھ کو برتن میں داخل کیا اور تین دفعہ اپنی شرمگاہ پر پانی بہایا، پھر اپنے ہاتھ کو دیوار یا زمین پر رگڑا، پھر تین تین بار کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا، پھر تین دفعہ چہرہ اور تین تین بار بازو دھوئے، پھر تین دفعہ اپنے سر پر پانی بہایا اور پھربقیہ جسم پر پانی ڈالَا، پھر اس جگہ سے ہٹ کر پاؤں کو دھویا۔

Haidth Number: 876
مولائے ابن عباس امام شعبہ کہتے ہیں: سیدنا عبد اللہ بن عباس ؓجب غسلِ جنابت کرتے تو دائیں ہاتھ کے ذریعے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالتے اور اس کو برتن میں داخل کرنے سے پہلے سات بار دھوتے، ایک دفعہ وہ یہ بھول گئے کہ انھوں نے اپنے ہاتھ پر کتنی دفعہ پانی ڈالا تھا، اس لیے انھوں نے مجھ سے سوال کیا: میں نے کتنی دفعہ پانی ڈالا ہے؟ میں نے کہا: میں تو نہیں جانتا، انھوں نے کہا: تیری ماں نہ ہو، تو کیوں نہیں جانتا؟ پھر انھوں نے نماز والا وضو کیا اور پھر سر اور جسم پر پانی بہا دیا اور کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ اسی طرح غسل کیا کرتے تھے۔

Haidth Number: 877
عبید اللہ بن مقسم کہتے ہیں: حسن بن محمد نے سیدنا جابر بن عبد اللہ ؓ سے غسلِ جنابت کے بارے میں سوال کیا، انھوں نے کہا: تم اپنے بالوں کو تر کرو اور چمڑے کو دھوؤ، اس نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کیسے غسل کرتے تھے؟ انھوں نے کہا: سر پر تین دفعہ پانی ڈالتے تھے اور پھر اپنے چمڑے پر پانی بہاتے تھے۔ اس نے کہا: میرے سر کے بال تو بہت زیادہ ہیں، انھوں نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے سر کے بال تیرے سر کے بالوں کی بہ نسبت زیادہ بھی تھے اور پاکیزہ بھی تھے۔

Haidth Number: 878

۔ (۸۷۹)۔عَنْ شُعْبَۃَ قَالَ: سَمِعْتُ عَاصِمَ بْنَ عَمْرٍو الْبَجَلِیَّ یُحَدِّثُ عَنْ رَجُلٍ مِنَ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ سَأَلُوْا عُمَرَبْنَ الْخَطَّابِ فَقَالُوْا لَہُ: اِنَّمَا أَتَیْنَاکَ نَسْأَلُکَ عَنْ ثَـلَاثٍ، عَنْ صَلَاۃِ الرَّجُلِ فِی بَیْتِہِ تَطَوُّعًا وَعَنِ الْغُسْلِ مِنَ الْجَنَابَۃِ وَعَنِ الرَّجُلِ مَا یَصْلُحُ لَہُ مِنْ امْرَأَتِہِ اِذَا کَانَتْ حَائِضًا، فَقَالَ: أَسُحَّارٌ أَنْتُمْ؟ لَقَدْ سَأَلْتُمُوْنِیْ عَنْ شَیْئٍ مَا سَأَلَنِیْ عَنْہُ أَحَدٌ مُنْذُ سَأَلْتُ عَنْہُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم، فَقَالَ: ((صَلَاۃُ الرَّجُلِ فِی بَیْتِہِ تَطَوُّعًا نُورٌ، فَمَنْ شَائَ نَوَّرَ بَیْتَہُ۔)) وَقَالَ فِی الْغُسْلِ مِنَ الْجَنَابَۃِ: ((یَغْسِلُ فَرْجَہُ ثُمَّ یَتَوَضَّأُ ثُمَّ یُفِیْضُ عَلٰی رَأْسِہِ ثَـلَاثًا)) وَقَالَ فِی الْحَائِضِ: ((لَہُ مَا فَوْقَ الْاِزَارِ)) (مسند أحمد: ۸۶)

عاصم بن عمرو بَجَلی، اس آدمی سے بیان کرتے ہیں، جو ان لوگوں میں سے تھا، جنھوں نے سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے سوال کیا تھا: ہم آپ کے پاس تین چیزوں کے بارے میں سوال کرنے کے لیے آئے ہیں: بندے کا اپنے گھر میں نفلِیْ نماز پڑھنا کیسا ہے، غسل جنابت کا کیا طریقہ ہے اور خاوند کے لے حائضہ بیوی سے کیا کچھ جائز ہے۔ سیدنا عمر ؓ نے کہا: کیا تم لوگ جادو گر ہو؟ تم نے مجھ سے وہ سوالات کیے ہیں کہ جب سے میں نے ان کے بارے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے پوچھا تھا، اس وقت سے کسی نے یہ سوالات نہیں کیے، بہرحال آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: بندے کا گھر میں نفلی نماز ادا کرنا، یہ نور ہے، جو چاہے اپنے گھر کو منوّر کرتا رہے۔ غسلِ جنابت کے بارے میں فرمایا: جنبی آدمی اپنی شرمگاہ دھوئے، پھر وضو کرے اور سر پر تین دفعہ پانی بہائے۔ اور حائضہ کے بارے میں فرمایا: اس کے ازار سے اوپر والا حصہ خاوند کے لیے جائز ہے۔

Haidth Number: 879
ابو زبیرکہتے ہیں: میں نے سیدنا جابرؓ سے غسل کے بارے میں سوال کیا، انھوں نے جواباً کہا: بنوثقیف کے لوگ، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس آئے اور کہا: بیشک ہمارے علاقے میں سردی پڑتی ہے، تو پھر آپ ہمیں غسل کے بارے میں کیا حکم دیتے ہیں؟ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: میں تو اپنے سر پر تین دفعہ پانی ڈالتا ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اس کے علاوہ کچھ نہ کہا۔

Haidth Number: 880
سیدناجبیربن مطعمؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس غسل جنابت کا ذکر کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: میری صورتحال تو یہ ہے کہ تین دفعہ دو ہتھیلیوں کا بھرا ہوا چلّو لے کر اس کو اپنے سر پر ڈالتا ہوں اور پھر بقیہ جسم پر پانی بہا دیتا ہوں۔

Haidth Number: 881
سیدہ عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ جب غسلِ جنابت کرتے تو کلی کرتے اور ناک میں پانی چڑھاتے۔

Haidth Number: 882
سیدنا عمران بن حصینؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے ساتھ چلتے رہے، رات کے آخر میں ہم نے پڑاؤ ڈالا، پس ہم بیدار نہ ہو سکے، یہاں تک کہ سورج کی گرمی نے ہم کو جگایا، ہم میں سے ہر آدمی دہشت زدہ ہو کر وضو کے لیے کھڑا ہونے لگا، پس نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے ان کو حکم دیا کہ وہ سکون میں آجائیں، پھر ہم وہاں سے کوچ کر گئے اور چلتے رہے، یہاں تک کہ سورج بلند ہو گیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے وضو کیا اور سیدنا بلال کو حکم دیا، پس انھوں نے اذان دی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فجر سے پہلے والی دو رکعتیں ادا کیں، پھر نماز کو کھڑا کیا، پس ہم نے نماز پڑھی۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم نے کل اس نماز کو اس کے وقت پر بھی لوٹا نا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: کیا یہ ہو سکتا ہے کہ تمہارا ربّ تم کو سود سے منع کرے اور خود تم سے قبول کر لے۔

Haidth Number: 1225

۔ (۱۲۲۶)۔ عَنْ أَبِیْ قَتَادَۃَؓ أَنَّہُ کَانَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ سَفَرٍ وَقَدْ أَدْرَکَہُمْ مِنَ التَّعْبِ مَا أَدْرَکَہُمْ مِنَ السَّیْرِ فِیْ اللَّیْلِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: ((لَوْ عَرَّسْنَا۔)) فَمَالٰ اِلٰی شَجَرَۃٍ فَنَزَلَ، فَقَالَ: ((اُنْظُرْ ھَلْ تَرٰی أَحَدًا؟)) قُلْتُ: ھٰذَا رَاکِبٌ ہٰذَانِ رَاکِبَانِ حَتّٰی بَلَغَ سَبْعَۃً، فَقَالَ: ((اِحْفَظُوْا عَلَیْنَا صَلَاتَنَا۔)) فَنِمْنَا فَمَا أَیْقَظَنَا اِلَّا حَرُّ الشَّمْسِ فَانْتَہَبْنَا، فَرَکِبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَسَارَ وَسِرْنَا ہُنَیْہَۃً ثُمَّ نَزَلَ فَقَالَ: ((أَمَعَکُمْ مَائٌ؟)) قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، مَعِیَ مِیْضَأَۃٌ فِیْھَا شَیْئٌ مِنْ مَائٍ، قَالَ: ((اِئْتِ بِہَا۔)) فَقَالَ: ((مَسُّوْا مِنْہَا مَسُّوْا مِنْہَا۔)) فَتَوَضَّأَ الْقَوْمُ وَبَقِیَتْ جَرْعَۃٌ فَقَالَ: ((ازْدَہِرْ بِہَا یَا أَبَا قَتَادَۃَ، فَاِنَّہُ سَیَکُوْنُ لَہَا نَبَأٌ۔)) ثُمَّ أَذَّنَ بِلَالٌ وَصَلَّوُا الرَّکْعَتَیْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ ثُمَّ صَلَّوُا الْفَجْرَ ثُمَّ رَکِبَ وَرَکِبْنَا، فَقَالَ بَعَضُہُمْ لِبَعْضٍ: فَرَّطْنَا فِیْ صَلَاتِنَا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: ((مَا تَقُوْلُوْنَ؟ اِنْ کَانَ أَمْرَ دُنْیَاکُمْ فَشَأْنُکُمْ وَاِنْ کَانَ أَمْرَ دِیْنِکُمْ فَاِلَیَّ۔)) قُلْنَا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فَرَّطْنَا فِیْ صَلَاتِنَا، فَقَالَ: ((لَاتَفْرِیْطَ فِی النَّوْمِ، اِنَّمَا التَّفْرِیْطُ فِی الْیَقْظَۃِ، فَاِذَا کَانَ ذٰلِکَ فَصَلُّوْہَا وَمِنَ الْغَدِ وَقْتَہَا۔)) (مسند أحمد: ۲۲۹۱۳)

سیدنا ابو قتادہ ؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم ایک سفر میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے ساتھ تھے، رات کو چلنے کی وجہ سے تھکاوٹ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کو پا لیا، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اگر ہم پڑاؤ ڈال لیں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ ایک درخت کی طرف مڑے اور وہاں اتر گئے اور فرمایا: دیکھو، کوئی نظر آ رہا ہے؟ میں نے کہا: یہ ایک سوار ہے، یہ دو سوار ہیں، یہاں تک کہ یہ تعداد سات افراد تک پہنچ گئی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: ہم پر ہماری نماز کی حفاظت کرنا۔ پس ہم سو گئے اور ہمیں سورج کی گرمی نے جگایا اور ہم ڈر گئے، پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سوار ہوئے اور تھوڑی دیر کے لیے چلے اور ہم بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے ساتھ چلے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ اترے اور فرمایا: کیا تمہارے پاس پانی ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، میرے پاس ایک برتن ہے، اس میں کچھ پانی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اس کو لے آؤں۔ پھر فرمایا: اس سے چھوؤ، اس سے چھوؤ۔ لوگوں نے اس سے وضو کیا اور ایک گھونٹ باقی بچا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: ابو قتادہ! اس پانی کی حفاظت کرو، عنقریب اس کے لیے بڑی خبر ہو گی۔ پھر سیدنا بلال ؓ نے اذان ، فجر سے پہلے دو سنتیں ادا کیں، پھر نمازِ فجر ادا کی اور پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ بھی سوار ہو گئے اور ہم بھی سوار ہو گئے، ہم میں سے بعض بعض سے کہنے لگے: ہم نے نماز میں کمی کی ہے، لیکن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: تم کیا کہہ رہے ہو؟ اگر کوئی دنیوی معاملہ ہے تو خود کر لو اور اگر دین کا معاملہ ہے تو میری طرف لے آؤ۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم نے نماز میںکمی کی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: نیند کی وجہ سے کوئی کمی واقع نہیں ہوتی، کمی تو جاگنے کی صورت میں ہوتی ہے، پس اگر ایسے ہو جائے تو اِس نماز کو پڑھ لیا کرو اور اگلے دن وقت پر ادا کیا کرو۔

Haidth Number: 1226
سیدنا عبد اللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ رات کو حدیبیہ سے واپس آرہے تھے، ہم نے نرم زمین پر پڑاؤ ڈالا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: کون ہماری حفاظت کرے گا؟ سیدنا بلال ؓ نے کہا: جی میں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: تم تو سو جاؤ گے۔ لیکن انھوں نے کہا: جی نہیں، لیکن وہ سو گئے اور سیدنا عمر ؓسمیت فلاں فلاں آدمی پہلے بیدار ہوئے، سیدنا عمر ؓ نے کہا: باتیں کرو باتیں (تاکہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ بیدار ہو جائیں)۔ پس نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ بیدار ہوئے اور فرمایا: اسی طرح کرو، جیسے تم کرتے ہو۔ پس انھوں نے اسی طرح کیا، اور پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اسی طرح کیا کرو، یہ حکم اس کیلئے ہے جو تم میں سے نماز سے سو جائے یا بھول جائے۔

Haidth Number: 1227

۔ (۱۲۲۸)۔عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ عَلْقَمَۃَ الثَّقَفِیِّ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍؓ قَالَ: لَمَّا انْصَرَفْنَا مِنْ غَزْوَۃِ الْحُدَیْبِیَۃِ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ یَحْرُسُنَا اللَّیْلَۃَ؟)) قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: فَقُلْتُ: أَنَا، حَتّٰی عَادَ مِرَارًا، قُلْتُ: أَنَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((فَأَنْتَ اِذًا۔)) فَحَرَسْتُہُمْ حَتّٰی اِذَا کَانَ وَجْہُ الصُّبْحِ أَدْرَکَنِیْ قَوْلُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: ((اِنَّکَ تَنَامُ۔)) فَنِمْتُ فَمَا أَیْقَظَنَا اِلَّا حَرُّ الشَّمْسِ فِیْ ظُہُوْرِنَا، فَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَصَنَعَ کَمَا کَانَ یَصْنَعُ مِنَ الْوُضُوْئِ وَرَکْعَتَیِ الْفَجْرِ، ثُمَّ صَلّٰی بِنَا الصُّبْحَ، فَلَمَّا اِنْصَرَفَ قَالَ: ((اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ لَوْ أَرَادَ أَنْ لَا تَنَامُوْا وَلٰـکِنْ أَرَادَ أَنْ تَکُوْنُوْا لِمَنْ بَعْدَکُمْ، فَہٰکَذَا لِمَنْ نَامَ أَوْ نَسِیَ۔)) قَالَ: ثُمَّ اِنَّ نَاقَۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاِبِلَ الْقَوْمِ تَفَرَّقَتْ فَخَرَجَ النَّاسُ فِیْ طَلْبِہَا فَجَاؤُا بِاِبِلِہِمْ اِلَّا نَاقَۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم، فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: ((خُذْ ہٰہُنَا۔)) فَأَخَذْتُ حَیْثُ قَالَ لِیْ فَوَجَدْتُ زِمَامَہَا قَدِ الْتَوٰی عَلٰی شَجَرَۃٍ مَا کَانَتْ لِتَحُلَّہَا اِلَّا یَدٌ، قَالَ: فَجِئْتُ بِہَا النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! وَالَّذِیْ بَعَثَکَ بِالْحَقِّ نَبِیًّا لَقَدْ وَجَدْتُ زِمَامَہَا مُلْتَوِیًا عَلٰی شَجَرَۃٍ مَا کَانَتْ لِتَحُلَّہَا اِلَّا یَدٌ، قَالَ: وَنَزَلَتْ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سُوْرَۃُ الْفَتْحِ: {اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُبِیْنًا}۔ (مسند أحمد: ۳۷۱۰)

سیدنا عبد اللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: غزوۂ حدیبیہ کے موقع پر ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے ساتھ واپس لوٹے (اور ایک مقام پر پڑاؤ ڈالا)، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اس رات کو کون ہمارا پہرہ دے گا؟ سیدنا عبد اللہ نے کہا: جی میں، (لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: تم تو سو جاؤ گے ) لیکن جب انھوں نے بار بار یہی بات کی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: تو پھر تم ہی سہی۔ پس میں نے ان کا پہرہ دیا، جب صبح سے پہلے کا وقت ہوا تو میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے قول تم تو سو جاؤ گے۔ کا مصداق بن گیا اور میں سو گیا، جب سورج کی گرمی ہماری کمروں پر پڑی تو تب ہمیں جاگ آئی، پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ اٹھے اور عادت کے مطابق وضو کیا، فجر کی دو سنتیں پڑھیں اور پھر ہمیں نمازِ فجر پڑھائی، پس جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ فارغ ہوئے تو فرمایا: بیشک اگر اللہ تعالیٰ تمہارا نہ سونا چاہتا تو تم نہ سوتے، لیکن اس کا ارادہ یہ تھا کہ تم بعد والوںکے لیے اسوہ اور نمونہ بن جاؤ، پس سو جانے والے اور بھول جانے والے کے لیے یہی حکم ہے۔ پھر یوں ہوا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی اونٹنی اور لوگوں کی اونٹنیاں کہیں نکل گئیں، پس لوگ ان کو تلاش کرنے کے لیے نکلے اور وہ اپنے اپنے اونٹ پکڑ کر لے آئے، ما سوائے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی اونٹنی کے، سیدنا عبد اللہ ؓ نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے مجھے فرمایا: تم اس طرف جاؤ۔ پس جس طرف آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا تھا، میں اس طرف نکل پڑا اور دیکھا کہ اس کی لگام ایک درخت کے ساتھ اس طرح بل کھا گئی تھی کہ اس کو ہاتھ سے ہی کھولا جا سکتا تھا، پس میں اس کو لے کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ نبی بنا کر بھیجا! میں نے اس کو اس حالت میں پایا کہ اس کی لگام ایک درخت کے ساتھ یوں بل کھا گئی تھی کہ اس کو ہاتھ سے ہی کھولا جا سکتاتھا، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ پر سورۂ فتح {اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُبِیْنًا} نازل ہوئی۔

Haidth Number: 1228
سیدنا عمرو بن امیہ ضمری ؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے ساتھ سفر میں تھے، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نمازِ فجر سے سو گئے اور سورج طلوع ہونے سے پہلے بیدار نہ ہو سکے، جب جاگے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے پہلے دو رکعتیں پڑھیں اور پھر نمازِ فجر کھڑی کی اور اس کو ادا کیا۔

Haidth Number: 1229
سیدنا عبد اللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ ایک سفر میں تھے، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے رات کو پڑاؤ ڈالا اور سو گئے اور سورج کی گرمی کے ساتھ ہی بیدار ہوئے، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے سیدنا بلال ؓ کو حکم دیا، انھوں نے اذا ن دی اور پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے دو رکعتیں پڑھیں۔ سیدنا ابن عباس ؓ نے کہا: اس رخصت کے مقابلے میں مجھے دنیا وما فیہا بھی خوش نہیں کر سکتی۔

Haidth Number: 1230
سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے ساتھ پڑاؤ ڈالا اور سورج طلوع ہونے سے پہلے بیدار نہ ہو سکے، پس جب جاگے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: ہر آدمی اپنی سواری کا سر پکڑے (اور یہاں سے چل دے)، کیونکہ اس منزل میں ہمارے پاس شیطان حاضر ہوا ہے، پس ہم نے ایسے ہی کیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے پانی منگوا کر وضو کیا، پھر فجر سے پہلے دو سنتیں ادا کیں، پھر نماز کھڑی کر دی گئی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے نمازِ فجر پڑھائی۔

Haidth Number: 1231
سیدنا جبیر بن مطعمؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ ایک سفر میں تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: آج رات کون ہمارا پہرہ دے گا، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم نمازِ فجر سے سو جائیں۔ سیدنا بلالؓ نے کہا: جی میں، پس وہ سورج طلوع ہونے کی جگہ کی طرف منہ کر کے بیٹھ گئے، تو ان پر نیند ڈال دی گئی اور ان کو سورج کی گرمی نے بیدار کیا، پس لوگ کھڑے ہوئے اور اس نماز کو ادا کرنا چاہا، پس وضوکیا، پھر سیدنا بلالؓ نے اذان دی، پھر لوگوں نے دو دو سنتیں ادا کیں اور پھر نماز فجر ادا کی۔

Haidth Number: 1232

۔ (۱۲۳۳)۔عَنْ یَزِیْدَ بْنِ صُلَیْحٍ عَنْ ذِیْ مِخْمَرٍ وَکَانَ رَجُلًا مِنَ الْحَبْشَۃِ یَخْدُمُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: کُنَّا مَعَہُ فِیْ سَفَرٍ فَأَسْرَعَ السَّیْرَ حِیْنَ اِنْصَرَفَ وَکَانَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ لِقِلَّۃِ الزَّادِ، فَقَالَ لَہُ قَائِلٌ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَدْ اِنْقَطَعَ النَّاسُ وَرَائَ کَ، فَحَبَسَ وَحَبَسَ النَّاسُ مَعَہُ حَتّٰی تَکَافَلُوْا اِلَیْہِ،فَقَالَ لَہُمْ: ((ھَلْ لَکُمْ أَنْ نَہْجَعَ ہَجْعَۃً؟)) أَوْ قَالَ لَہُ قَائِلٌ، فَنَزَلَ وَنَزَلُوْا، فَقَالَ: ((مَنْ یَکْلَؤُنَا اللَّیْلَۃَ؟)) فَقُلْتُ: أَنَا جَعَلَنِیَ اللّٰہُ فِدَاکَ، فَأَعْطَانِیْ خِطَامَ نَاقَتِہِ فَقَالَ: ((ہَاکَ لَا تَکُوْنَنَّ لُکَعَ۔)) قَالَ: فَأَخَذْتُ بِخِطَامِ نَاقَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَبِخِطَامِ نَاقَتِیْ، فَتَنَحَّیْتُ غَیْرَ بَعِیْدٍ فَخَلَّیْتُ سَبِیْلَہَا یَرْعَیَانِ، فَاِنِّیْ کَذَاکَ أَنْظُرُ اِلَیْہِمَا حَتّٰی أَخَذَنِی النَّوْمُ فَلَمْ أَشْعُرْ بِشَیْئٍ حَتّٰی وَجَدْتُّ حَرّ َالشَّمْسِ عَلٰی وَجْہِیْ، فَاسْتَیْقَظْتُ فَنَظَرْتُ یَمِیْنًا وَشِمَالًا فَاِذَا أَنَا بِالرَّاحِلَتَیْنِ مِنِّیْ غَیْرُ بَعِیْدٍ، فَأَخَذْتُ بِخِطَامِ نَاقَۃِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَبِخِطَامِ نَاقَتِیْ، فَأَتَیْتُ أَدْنَی الْقَوْمِ فَأَیْقَظْتُہُ، فَقُلْتُ لَہُ: أَصَلَّیْتُمْ؟ قَالَ: لَا، فَأَیْقَظَ النَّاسُ بَعْضُہُمْ بَعْضًا حَتّٰی اسْتَیْقَظَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((یَا بِلَالُ! ھَلْ لِیْ فِیْ الْمِیْضَأَۃِ؟)) یَعْنِی الْاِدَاوَۃَ، قَالَ: نَعَمْ، جَعَلَنِیَ اللّٰہُ فِدَاکَ، فَأَتَاہُ بِوَضُوْئٍ فَتَوَضَّأَ وُضُوْئً ا لَمْ یَلُتَّ مِنْہُ التُّرَابَ فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ، ثُمَّ قَامَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَصَلَّی الرَّکْعَتَیْنِ قَبْلَ الصُّبْحِ وَھُوَ غَیْرُ عَجِلٍ ثُمَّ أَمَرَہُ فَأَقَامَ الصَّلَاۃَ فَصَلّٰی وَھُوَ غَیْرُ عَجِلٍ، فقَالَ لَہُ قَائِلٌ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! أَفْرَطْنَا، قَالَ: ((لَا، قَبَضَ اللّٰہُ أَرْوَاحَنَا وَقَدْ رَدَّہَا اِلَیْنَا وَقَدْ صَلَّیْنَا۔)) (مسند أحمد: ۱۶۹۴۹)

سیدنا ذو مخمرؓ، جو حبشی آدمی تھے اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی خدمت کرتے تھے، سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے ساتھ ایک سفر میں تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ واپس ہوئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ جلدی چلے اور آپ زادِ راہ کے کم ہونے کی وجہ سے ایسا کیا کرتے تھے، کسی آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! لوگ آپ سے پیچھے رہ گئے ہیں، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ رک گئے اور لوگ بھی آپ کے ساتھ رک گئے، یہاں تک سارے لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس مکمل ہو گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے ان سے فرمایا: کیا تم کو یہ ضرورت ہے کہ ہم تھوڑا سا سو لیں؟ یا کسی آدمی نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کو ایسا کرنے کی رائے دی، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ اتر پڑے اور لوگ بھی اتر پڑے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: آج رات کون ہماری حفاظت کرے گا۔ میں (ذو مخمر) نے کہا: میں کروں گا، اللہ مجھے آپ پر قربان کرے۔ پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے مجھے اپنی اونٹنی کی لگام تھما دی اور فرمایا: یہ پکڑ اور چھوٹو نہ بن جانا۔ پس میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی اونٹنی اور اپنی اونٹنی کی لگامیں پکڑیں اور تھوڑا سا دور ہو کر بیٹھ گیا اور ان کو چرنے کے لیے چھوڑ دیا، میں ان کو دیکھ رہا تھا کہ مجھ پر نیند غالب آ گئی اور مجھے کوئی شعور نہ رہا، یہاں تک کہ میں نے اپنے چہرے پر سورج کی گرمی محسوس کی، پس میں بیدار ہوا اور دائیں بائیں دیکھا، سواریاں تو میرے قریب ہی تھیں، پس میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی اونٹنی اور اپنی اونٹنی کی لگامیں پکڑیں اور قریبی آدمی کے پاس گیا اور اس کو جگا کر پوچھا: کیا تم لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے؟ اس نے کہا: جی نہیں، پھر لوگ ایک دوسرے کو جگانے لگ گئے، یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ بھی بیدار ہو گئے اور فرمایا: بلال! کیا میرے لیے برتن میںپانی ہے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، اللہ مجھے آپ پر قربان کرے، پس وہ وضو کا پانی لے کر آئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے ایسا وضو کیا کہ نیچے والی مٹی بھی مکمل طور پر گیلی نہ ہو سکی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے سیدنا بلالؓ کو حکم دیا، پس انھوں نے اذان کہی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کھڑے ہوئے اور فجر سے پہلے دو سنتیں ادا کیں، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ جلدی نہیں کر رہے تھے، پھر ان کو حکم دیا اور انھوں نے اقامت کہی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے نماز پڑھائی، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ جلدبازی سے کام نہیں لے رہے تھے، کسی نے کہا: اے اللہ کے نبی! ہم نے زیادتی کی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: نہیں، اللہ تعالیٰ نے ہماری روحوں کو روکے رکھا اور جب اس نے لوٹایا تو ہم نے نماز پڑھ لی۔

Haidth Number: 1233
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں: میں نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے سوال کیا کہ کیا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک رکعت میں زیادہ سورتوںکو جمع کر لیتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا: مفصل (سورتوں کو جمع کر لیتے تھے)۔

Haidth Number: 1603
نافع کہتے ہیں: بسا اوقات سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ فرضی نماز میں ہماری امامت کرواتے ہوئے دو یا زائد سورتیں جمع کر لیتے تھے۔

Haidth Number: 1604
نہیک بن سنان سلمی کہتے ہیں: میں سیدناعبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آیا اور کہا: میں نے رات کو ایک رکعت میں مفصل سورتوں کی تلاوت کی ہے، انہوں نے کہا: شعروں کو پڑھنے کی طرح یا ردی کھجوروں کو بکھیرنے کی طرح تیزی تیزی سے پڑھا ہو گا۔ قرآن کو تو اس لیے مفصل بیانکیا گیا کہ تم بھی اس کے الفاظ کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔ یقینا میں اُن ملتی جلتی بیس سورتوں کو جانتا ہوں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جن کو ملا کر پڑھتے تھے۔ سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی تالیف کے مطابق سورۂ رحمن اور سورۂ نجم ایک رکعت میں، پھر سورۂ دخان اور سورۂ {عَمَّ یَتَسَائَ لُونَ} کا ایک رکعت میں پڑھنے کا ذکر کیا۔

Haidth Number: 1605
۔ (دوسری سند)ایک آدمی سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آیا اور کہا: میں نے ایک رکعت میں مفصل سورتوں کی تلاوت کی ہے، انہوں نے کہا: تو نے تو پھرشعر کو پڑھنے کی طرح یا ردی کھجوروں کو بکھیرنے کی طرح تیزی تیزی سے پڑھا ہو گا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس طرح تلاوت نہیں کرتے تھے، جیسے تونے کی ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو ملتی جلتی سورتوں (میں سے دو دو) کو ایک رکعت میں پڑھتے تھے، مثلا سورۂ رحمن اور سورۂ نجم ایک رکعت میں۔ پھر ابو اسحاق نے بیس سورتوں کے ساتھ دس رکعات کا ذکر کیا،یہ ترتیب سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی تالیف کے مطابق تھی، آخری سورتیں سورۂ تکویر اور سورۂ دخان تھیں۔

Haidth Number: 1606
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فجر سے پہلے والی سنتوں کی پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ اور سورۂ بقرہ کے آخر سے دو آیتیں اور دوسری رکعت میں سورۂ فاتحہ اور سورۂ آل عمران کی اس آیت {قُلْ یأَھْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْا إِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَائٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ… …} کی تلاوت کرتے تھے۔

Haidth Number: 1607
سیدناابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم میںسے کوئی پسند کرتا ہے کہ جب وہ گھر لوٹے تو تین بڑی بڑی موٹی حاملہ اونٹنیاں پائے ؟ ہم نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تین آیتیں جن کو وہ نماز میں تلاوت کر لے، اس کے لیے ان (تین اونٹنیوں) سے بہتر ہیں۔

Haidth Number: 1608
سیدناابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک رات نماز پڑھی اور صبح تک ایک ہی آیت کی تلاوت کے ساتھ رکوع وسجود کرتے رہے، (وہ آیتیہ ہے:) {إِنْ تُعَذِّ بْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ، وَإِنْ تَغْفِرْ لَھُمْ فَإِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکَیْمُ} جب صبح ہوئی تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ صبح تک ایک ہی آیت پڑھتے رہے اور اسی کے ساتھ رکوع و سجود کرتے رہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے اپنی امت کے لیے اللہ تعالیٰ سے سفارش کرنے کا سوال کیا ، جو اس نے مجھے عطا کر دیا اور اگر اللہ نے چاہا تو وہ ہر اس شخص کو حاصل ہو گی جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا۔

Haidth Number: 1609
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم مردوں کو برا بھلا نہ کہا کرو کیونکہ وہ اپنے کیے ہوئے اعمال تک پہنچ چکے ہیں۔

Haidth Number: 3245
سیّدنا مغیرہ بن شعبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مردوں کو گالی دینے سے منع فرمایا۔

Haidth Number: 3246
(دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم مردوں کو برا بھلا نہ کہا کرو، اس طرح سے زندگان کو تکلیف دو گے۔

Haidth Number: 3247
سیّدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم ہمارے مردوں کو برا بھلا نہ کہا کرو، اس طرح ہمیں تکلیف پہنچاؤ گے۔

Haidth Number: 3248