Blog
Books
Search Hadith

اللہ کے نبی موسی علیہ السلام کی تخلیقی صفات اور ان کے حج اور روزے کا بیان

151 Hadiths Found
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب سفرِ حج کے دوران وادیٔ ازرق سے گزرے تو پوچھا: یہ وادی کون سی ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ وادیٔ ازرق ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: گویا کہ میں موسی علیہ السلام کو دیکھ رہا ہوں، وہ گھاٹی سے اتر رہے ہیں اور وہ بلند آواز سے تلبیہ کہہ رہے ہیں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم چلتے گئے، یہاں تک کہ ہرشاء گھاٹی کے پاس سے گزرے اورآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: یہ کون سی گھاٹی ہے۔ لوگوں نے کہا: یہ ہرشاء کی گھاٹی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: گویا میںیونس بن متی کو دیکھ رہا ہوں، وہ سرخ اور پر گوشت اونٹنی پر سوار ہیں، انھوں نے اون کا جبہ پہنا ہوا ہے، ان کی اونٹنی کی لگام کھجور کے پتوں کی ہے اور وہ تلبیہ کہہ رہے ہیں۔

Haidth Number: 10370
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس رات مجھے اسراء کرایا گیا، میں نے موسی بن عمران علیہ السلام کو دیکھا، وہ دراز قد آدمی تھے، ان کے بال ہلکے گھنگریالے تھے، ایسے لگ رہا تھے، جیسے وہ شنوء ہ قبیلے کے فرد تھے، پھر میں نے عیسی بن مریم علیہ السلام کو دیکھا، وہ معتدل قد کے تھے، ان کا رنگ سرخی سفیدی مائل تھا، ان کے بال سیدھے تھے، ایک روایت میں ہے: میں نے موسی علیہ السلام کو دیکھا، ، وہ سیاہی نما گندمی رنگ کے اور گھنے بالوں والے تھے۔ حسن راوی نے کہا: ان کے بال سخت تھے۔

Haidth Number: 10371
۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھ پر انبیاء پیش کیے گئے، موسی علیہ السلام معتدل وجود کے آدمی تھے، وہ شنوء ۃ قبیلے کے لوگوں کی طرح لگ رہے تھے۔

Haidth Number: 10372
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے اور یہودیوں کو دیکھا کہ وہ عاشوراء کے دن کا روزہ رکھتے تھے، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: تم کس مناسبت سے اس دن کا روزہ رکھتے ہو؟ انھوں نے کہا: یہ بڑا اچھا دن ہے، اللہ تعالیٰ نے اس دن بنو اسرائیل کو ان کے دشمنوں سے نجات دلائی تھی، اس مناسبت سے موسی علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تمہاری بہ نسبت موسی علیہ السلام کا زیادہ حقدار ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خود بھی اس دن کا روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ میں تمہاری بہ نسبت موسی علیہ السلام کا زیادہ حقدار ہوں۔ یعنی موسی علیہ السلام کی موافقت کرنے کا زیادہ حق رکھتا ہوں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ حکم دیا: {فَبِھُدَاھُمُ اقْتَدِہْ} …پس تو ان کی ہدایت کی پیروی کر۔ اس سے پتہ چلا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا مطلوب موسی علیہ السلام کی موافقت تھی، نہ کہ یہودیوں کی۔ اس سے یہ اشکال ختم ہو جاتا ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہودیوں کی مخالفت پسند کرتے تھے، نہ کہ موافقت، شروع شروع میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کی تالیفِ قلبی کے لیے ان کی موافقت پسند کرتے تھے، لیکن جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دیکھایہ اہل کتاب تو کفر پر مصرّ ہیں اور تالیف قلبی سے متأثر نہیں ہو رہے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی موافقت چھوڑ دی اور ان کی مخالفت کی طرف مائل ہو گئے، اسی لیے آخر میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نو محرم کا روزہ رکھنے کا عزم کیا تھا۔

Haidth Number: 10373

۔ (۱۰۵۳۶)۔ عَنْ عَلِیٍّ قَالَ جَمَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَوْ دَعَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَنِیْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فِیْھِمْ رَھْطٌ کُلُّھُمْ یَأْکُلُ الْجَذْعَۃَ وَیَشْرَبُ الْفَرَقَ، قَالَ: فَصَنَعَ لَھُمْ مُدًّا مِنْ طَعَامٍ فَأَکَلُوْا حَتّٰی شَبِعُوْا، قَالَ: وَبَقِیَ الطَّعَامُ کَمَا ھُوَ کَأَنَّہُ لَمْ یُمَسّ،َ ثُمَّّ دَعَا بِغُمَرٍ فَشَرِبُوْا حَتّٰی رَوُوْا وَبَقِیَ الشَّرَابُ کَأَنَّہُ لَمْ یُمَسَّ أَوْ لَمْ یُشْرَبْ، فَقَالَ: ((یَا بَنِیْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ! اِنِّیْ بُعِثْتُ لَکُمْ خَاصَّۃً، وَاِلَی النَّاسِ بِعَامَّۃٍ، وَقَدْ رَأَیْتُمْ مِنْ ھٰذِہِ الْأَیَۃِ مَارَأَیْتُمْ فَأَیُّکُمْیُبَایِعُنِیْ عَلٰی أَنْ یَکُوْنَ أَخِیْ وَصَاحِبِیْ؟)) قَالَ: فَلَمْ یَقُمْ اِلَیْہِ أَحَدٌ، قَالَ: فَقُمْتُ اِلَیْہِ وَکُنْتُ أَصْغَرَ الْقَوْمِ، قَالَ: فَقَالَ: ((اجْلِسْ)) قَالَ: ثَلَاثَ مَرَّاتٍ کُلَّ ذٰلِکَ أَقُوْمُ اِلَیْہِ، فَیَقُوْلُ لِیْ: ((اجْلِسْ)) حَتّٰی کَانَ فِیْ الثَّالِثَۃِ ضَرَبَ بِیَدِہِ عَلٰییَدِیْ۔ (مسند احمد: ۱۳۷۱)

۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بنو عبد المطلب کو جمع کیایا ان کو دعوت دی، ان میں ایسے افراد بھی تھے کہ وہ (بسیار خوری کی وجہ سے) اچھا خاصہ جانور کھا جا تے تھے اور ایک فَرَق پانی پی جاتے تھے، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے لیے صرف ایک مُد کا کھانا تیار کیا،پس انھوں نے کھایا،یہاں تک کہ وہ سیر ہو گئے، لیکن کھانا اُسی طرح باقی بچا پڑا تھا، یوں لگتا تھا کہ کسی نے اس کو چھوا تک نہیں ہے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک چھوٹا پیالہ منگوایا اور سب نے اتنا مشروب پیا کہ وہ سیراب ہو گئے، لیکن وہ مشروب اس طرح باقی بچا پڑا تھا کہ گویا کہ اس کو چھوا ہی نہیں گیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے بنو عبد المطلب! مجھے تمہاری طرف خاص طور پر اور لوگوں کی طرف عام طور پر مبعوث کیا گیا ہے اور تم نے یہ نشانی بھی دیکھ لی ہے، اب تم میں سے کون ہے جو میرا بھائی اور ساتھی بننے کے لیے میری بیعت کرے؟ جواباً کوئی بھی کھڑا نہ ہوا، صرف میں (علی) کھڑا ہوا، جبکہ میں لوگوں سے سب سے کم سن تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیٹھ جا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تین دفعہ یہ دعوت پیش کی، لیکن صرف میں ہی کھڑا ہوتا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرما دیتے کہ تو بیٹھ جا۔ تیسری بار آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ پر مار کر مجھ سے بیعت لی۔

Haidth Number: 10536

۔ (۱۰۷۰۸)۔ عَنْ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنْ أَہْلِ بَدْرٍ قَالَ: إِنْ کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَیُرِینَا مَصَارِعَہُمْ بِالْأَمْسِ، یَقُولُ: ((ہٰذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ غَدًا إِنْ شَاء َ اللّٰہُ تَعَالٰی، وَہٰذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ غَدًا إِنْ شَاء َ اللّٰہُ تَعَالٰی۔)) قَالَ: فَجَعَلُوایُصْرَعُونَ عَلَیْہَا، قَالَ: قُلْتُ: وَالَّذِی بَعَثَکَ بِالْحَقِّ! مَا أَخْطَئُوا تِیکَ کَانُوا یُصْرَعُونَ عَلَیْہَا، ثُمَّ أَمَرَ بِہِمْ فَطُرِحُوا فِی بِئْرٍ، فَانْطَلَقَ إِلَیْہِمْ، فَقَالَ: ((یَا فُلَانُ! یَا فُلَانُ! ہَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَکُمُ اللّٰہُ حَقًّا؟ فَإِنِّی وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِی اللّٰہُ حَقًّا۔)) قَالَ عُمَرُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَتُکَلِّمُ قَوْمًا قَدْ جَیَّفُوا؟ قَالَ: ((مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْہُمْ، وَلٰکِنْ لَا یَسْتَطِیعُونَ أَنْ یُجِیبُوا۔)) (مسند احمد: ۱۸۲)

سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے اہلِ بدر کے متعلق مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غزوۂ بدر سے ایک دن پہلے ہمیں سردارانِ قریش کے گرنے اور پچھڑنے کے مقامات دکھا رہے تھے، اور فرماتے تھے: کل ان شاء اللہ فلاں کافر یہاں قتل ہو کر گرے گا، اور فلاں آدمی قتل ہو کر یہاں گرے گا، ان شاء اللہ۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ واقعی وہ لوگ انہی جگہوں پر گرے۔ میں (عمر) ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا! وہ ان مقامات سے بالکل اِدھر اُدھر نہیں گرے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی لاشوں کے متعلق حکم دیا تو انہیں گھسیٹ کر کنوئیں میں پھینک دیا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کفار کی لاشوں کی طرف گئے اور فرمایا: اے فلاں! اے فلاں! تمہارے رب نے تمہارے ساتھ جو وعدہ کیا تھا، کیا تم نے اسے سچ پا لیا ہے، میرے ساتھ تو اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ کیا تھا، میں نے تو اسے پورا پالیا ہے۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایسے لوگوں سے ہم کلام ہیں جو مردہ ہو چکے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں ان سے جو کچھ کہہ رہا ہوں، تم ان کی بہ نسبت زیادہ نہیں سن رہے، لیکن وہ ان باتوں کا جواب نہیں دے سکتے۔

Haidth Number: 10708
سیدناانس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب صحابۂ کرام نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بدر کے کنوئیں پر یوں کلام کرتے سنا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابو جہل بن ہشام! اے عتبہ بن ربیعہ! اے شیبہ بن ربیعہ! اے امیہ بن خلف! تمہارے رب نے تمہارے ساتھ جو وعدہ کیا تھا، کیا تم نے اسے پورا پا لیا ہے؟ تو انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ ایسے لوگوں سے ہم کلام ہیں جو مردہ ہو چکے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں ان سے جو کہہ رہا ہوں، تم ان کی بہ نسبت زیادہ نہیں سن رہے ہو؟ لیکن وہ جواب دینے کی سکت نہیں رکھتے۔

Haidth Number: 10709
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ بدر والے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کنویں (جس میں کفار کے مقتولوں کو پھینک دیا گیا تھا) کے پاس کھڑے ہو کر فرمایا: او فلاں! اوفلاں! تمہارے رب نے تمہارے ساتھ جو وعدہ کیا تھا کیا تم نے اسے درست پایا ہے؟ خبردار! اللہ کی قسم ہے کہ یہ لوگ اس وقت میرا کلام سن رہے ہیں۔ لیکن سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: اللہ تعالیٰ ابو عبدالرحمن پر رحم فرمائے، وہ بھول گئے ہیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تو یہ فرمایا تھا کہ اب یہ جانتے ہیں کہ میں ان سے جو کچھ کہتا تھا، وہ حق تھا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: بیشک تو مردوں کو نہیں سنا سکتا۔ نیز فرمایا: جو لوگ قبروں میں ہیں، توان کو نہیں سنا سکتا۔

Haidth Number: 10710

۔ (۱۰۷۱۱)۔ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: وَحُدِّثَ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ أَنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَمَرَ بِبِضْعَۃٍ وَعِشْرِینَ رَجُلًا مِنْ صَنَادِیدِ قُرَیْشٍ، فَأُلْقُوا فِی طُوًی مِنْ أَطْوَائِ بَدْرٍ خَبِیثٍ مُخْبِثٍ، قَالَ: وَکَانَ إِذَا ظَہَرَ عَلٰی قَوْمٍ أَقَامَ بِالْعَرْصَۃِ ثَلَاثَ لَیَالٍ، قَالَ: فَلَمَّا ظَہَرَ عَلٰی بَدْرٍ أَقَامَ ثَلَاثَ لَیَالٍ، حَتّٰی إِذَا کَانَ الثَّالِثُ أَمَرَ بِرَاحِلَتِہِ فَشُدَّتْ بِرَحْلِہَا ثُمَّ مَشٰی، وَاتَّبَعَہُ أَصْحَابُہُ قَالُوا: فَمَا نَرَاہُ یَنْطَلِقُ إِلَّا لِیَقْضِیَ حَاجَتَہُ، قَالَ: حَتّٰی قَامَ عَلٰی شَفَۃِ الطُّوٰی، قَالَ: فَجَعَلَ یُنَادِیہِمْ بِأَسْمَائِہِمْ وَأَسْمَائِ آبَائِہِمْ: ((یَا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ! أَسَرَّکُمْ أَنَّکُمْ أَطَعْتُمُ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ، ہَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَکُمْ رَبُّکُمْ حَقًّا؟)) قَالَ عُمَرُ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! مَا تُکَلِّمُ مِنْ أَجْسَادٍ لَا أَرْوَاحَ فِیہَا؟ قَالَ: ((وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ، مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْہُمْ۔)) قَالَ قَتَادَۃُ: أَحْیَاہُمُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لَہُ حَتّٰی سَمِعُوا قَوْلَہُ تَوْبِیخًا وَتَصْغِیرًا وَنِقْمَۃً۔ (مسند احمد: ۱۲۴۹۸)

سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ان کو بیان کیا گیا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیس سے زائد قریشی سرداروں کے متعلق حکم دیا اور انہیں بدر کے کنوؤں میں سے ایک کنوئیں میں پھینک دیا گیا۔ وہ کنواں بڑا خبیث اور گندا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا معمول یہ تھا کہ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسی قوم پر فتح پاتے تو وہاں تین رات قیام فرماتے، اسی طرح آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب بدر میں فتح یاب ہوئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہاں بھی تین رات قیام فرمایا، جب تیسرا دن ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی سواری کو تیار کرنے کا حکم فرمایا، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم روانہ ہو ئے، صحابہ نے بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پیروی کی، صحابہ کہتے ہیں کہ ہم سب نے سمجھا کہ آپ اپنی کسی ضروری حاجت کے لیے تشریف لے جا رہے ہیں۔ چلتے چلتے آپ اس کنوئیں کے کنارے پر جا رکے اور ان مقتول کفار قریش کو ان کے ناموں اور ان کے آباء کے ناموں کا ذکر کر کے ان کو پکارا اور یوں فرمایا: اے فلاں بن فلاں! کیا اب تمہیںیہ بات اچھی لگتی ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے؟ تمہارے رب نے تمہارے ساتھ جو وعدہ کیا تھا، کیا تم نے اسے سچا پالیا ہے؟ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا: اللہ کے نبی! کیا آپ ایسے اجسام سے ہم کلام ہو رہے ہیں، جن میں روحیں ہی نہیں ہیں؟ قتادہ کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زجروتوبیخ، رسوائی اور اظہار ناراضگی کے لیے ان کفار کو زندہ کر دیا تھا۔

Haidth Number: 10711
سیّدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ بدر میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب ان مقتول سردارانِ قریش عتبہ، ابوجہل اور ان کے ساتھیوں کے پاس سے گزرے، جنہیں کنوئیں میں پھینک دیا گیا تھا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہاں رک گئے اور فرمایا: تم ایک نبی کی ایسی قوم ہو، جو اس کے شدید مخالف اور بہت زیادہ تکذیب کرنے والے تھے، اللہ نے تمہیں بہت بُرا بدلہ دیا، میں ان سے جو کچھ کہہ رہا ہوں، تم ان کی نسبت میری بات کو زیادہ نہیں سن رہے ہو۔ یا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یوں فرمایا کہ وہ تمہاری بہ نسبت میری بات کو زیادہ سمجھ رہے ہیں۔

Haidth Number: 10712

۔ (۱۰۷۱۳)۔ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ أَمَرَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالْقَتْلٰی أَنْ یُطْرَحُوا فِی الْقَلِیبِ، فَطُرِحُوا فِیہِ إِلَّا مَا کَانَ مِنْ أُمَیَّۃَ بْنِ خَلَفٍ فَإِنَّہُ انْتَفَخَ فِی دِرْعِہِ فَمَلَأَہَا، فَذَہَبُوا یُحَرِّکُوہُ فَتَزَایَلَ، فَأَقَرُّوہُ وَأَلْقَوْا عَلَیْہِ مَا غَیَّبَہُ مِنَ التُّرَابِ وَالْحِجَارَۃِ، فَلَمَّا أَلْقَاہُمْ فِی الْقَلِیبِ وَقَفَ عَلَیْہِمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((یَا أَہْلَ الْقَلِیبِ! ہَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّا، فَإِنِّی قَدْ وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِی رَبِّی حَقًّا۔)) فَقَالَ لَہُ أَصْحَابُہُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَتُکَلِّمُ قَوْمًا مَوْتٰی؟ قَالَ: فَقَالَ لَہُمْ: ((لَقَدْ عَلِمُوا أَنَّ مَا وَعَدْتُہُمْ حَقٌّ۔)) قَالَتْ عَائِشَۃُ: وَالنَّاسُ یَقُولُونَ لَقَدْ سَمِعُوا، مَا قُلْتُ لَہُمْ، وَإِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَقَدْ عَلِمُوا۔)) (مسند احمد: ۲۶۸۹۳)

سیّدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مقتولینِ بدر کو کنوئیں میں پھینک دئیے جانے کا حکم صادر فرمایا، پس ان کو اس میں پھینک دیا گیا۔ البتہ امیہ بن خلف اپنی زرہ کے اندر اس قدر پھول چکا تھا اور اس کے اندر پھنس گیا، جب صحابہ کرام نے اسے کھینچا تو اس کے اعضاء الگ ہو گئے، سو انھوں نے اسے ویسے ہی رہنے دیا اور اس پر پتھر اور مٹی ڈال کر اسے چھپا دیا، جب ان مقتولین کو کنوئیں میں ڈالا جا چکا تھا تو رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے اوپر جا کھڑے ہوئے اور فرمایا: اے کنوئیں والو! کیا تم نے اپنے رب کے وعدہ کو سچا پا لیاہے؟ میرے رب نے میرے ساتھ جو وعدہ کیا تھا، میں نے تو اسے سچا پالیا ہے۔ صحابہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیا آپ مردوں سے کلام کرتے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ لوگ جانتے ہیں کہ میں نے ان سے جو وعدہ کیا تھا یعنی ان سے جو کچھ کہا تھا وہ حق تھا۔ سیّدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے یہ بھی فرمایا کہ لوگ اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان مقتولین نے آپ کی باتیں سن لی تھیں، میں نے تو ایسی کوئی بات نہیں کہی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایاتھا کہ یہ لوگ اس بات کو جانتے ہیں۔

Haidth Number: 10713

۔ (۱۱۶۴۳)۔ عَنْ ثَابِتٍ قَالَ: قَالَ أَنَسٌ: عَمِّی أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ، سُمِّیتُ بِہِ، لَمْ یَشْہَدْ مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ بَدْرٍ، قَالَ: فَشَقَّ عَلَیْہِ، وَقَالَ: فِی أَوَّلِ مَشْہَدٍ شَہِدَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غِبْتُ عَنْہُ، لَئِنْ أَرَانِی اللّٰہُ مَشْہَدًا فِیمَا بَعْدُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَیَرَیَنَّ اللّٰہُ مَا أَصْنَعُ، قَالَ: فَہَابَ أَنْ یَقُولَ غَیْرَہَا، قَالَ: فَشَہِدَ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ أُحُدٍ، قَالَ: فَاسْتَقْبَلَ سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ، قَالَ: فَقَالَ لَہُ أَنَسٌ: یَا أَبَا عَمْرٍو! أَیْنَ؟ قَالَ: وَاہًا لِرِیحِ الْجَنَّۃِ أَجِدُہُ دُونَ أُحُدٍ، قَالَ: فَقَاتَلَہُمْ حَتّٰی قُتِلَ فَوُجِدَ فِی جَسَدِہِ بِضْعٌ وَثَمَانُونَ مِنْ ضَرْبَۃٍ وَطَعْنَۃٍ وَرَمْیَۃٍ، قَالَ: فَقَالَتْ أُخْتُہُ عَمَّتِی الرُّبَیِّعُ بِنْتُ النَّضْرِ: فَمَا عَرَفْتُ أَخِی إِلَّا بِبَنَانِہِ، وَنَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ: {رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْہُمْ مَنْ قَضٰی نَحْبَہُ وَمِنْہُمْ مَنْ یَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیلًا} [الأحزاب: ۲۳] قَالَ: فَکَانُوْا یَرَوْنَ أَنَّہَا نَزَلَتْ فِیہِ وَفِی أَصْحَابِہِ۔ (مسند احمد: ۱۳۰۴۶)

سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میرے چچا سیدنا انس بن نضر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بدر کے دن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ حاضر نہ ہوئے تھے، اسی چچا کے نام پر میرا نام بھی انس رکھا گیا، اس کا انہیں بہت قلق تھا، وہ کہا کرتے تھے: بدر پہلا معرکہ تھا، جس میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حاضر ہوئے اور میں حاضر نہ ہو سکا۔ اگر اللہ تعالیٰ نے کسی اور معرکے کا موقع دیا تو وہ دیکھے گا کہ میں کرتا کیا ہوں، پھر وہ مزید کوئی دعوی کرنے سے ڈر گئے، پھر سیدنا انس بن نضر احد کے دن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ شریک ہوئے، سیدنا سعد بن معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سامنے آرہے تھے،سیدنا انس بن نضر نے ان سے کہا : ابو عمرو! کہاں جا رہے ہو؟ انھوں نے کہا: آہ، میں احد کی جانب سے جنت کی خوشبو پا رہا ہوں۔پھر سیدنا انس لڑتے رہے، یہاں تک کہ شہید ہوگئے، ان کے جسم میں تلوار، نیزے اور تیر کے اسی (۸۰) سے زائد زخم آئے تھے۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ان کی بہن یعنی میری پھوپھی ربیع بنت نضر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے اپنے بھائی کو پوروں سے پہچانا تھا کہ یہ ان کے بھائی ہیں، پس یہ آیت نازل ہوئی: {رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْہُمْ مَنْ قَضٰی نَحْبَہُ وَمِنْہُمْ مَنْ یَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیلًا} … کچھ مرد ایسے ہیں کہ انہوں نے اپنے اللہ سے جو عہد کیا تھا، وہ سچا کر دکھایا، پس ان میں سے بعض وہ ہیں، جنہوں نے اپنینذر کو پورا کر دیا اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو انتظار کررہے ہیں اور انہوں نے اپنے وعدوں میں ذرہ برابر تبدیلی نہیںکی۔ صحابہ کا یہی خیال تھا کہ یہ آیت سیدنا انس بن نضر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور ان کے ساتھیوں (جیسے سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) کے بارے میں نازل ہوئی۔

Haidth Number: 11643

۔ (۱۲۱۶۲)۔ عَنْ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فِیْ خُطْبَۃٍ خَطَبَہَا عَلٰی مِنْبَرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم زَمْنَ خِلَافَتِہٖ،مِنْہَاقَوْلُہٗ: وَقَدْبَلَغَنِی أَنَّ قَائِلًا مِنْکُمْ یَقُولُ: لَوْ قَدْ مَاتَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بَایَعْتُ فُلَانًا، فَلَا یَغْتَرَّنَّ امْرُؤٌ أَنْ یَقُولَ: إِنَّ بَیْعَۃَ أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَانَتْ فَلْتَۃً، أَلَا وَإِنَّہَا کَانَتْ کَذَلِکَ، أَلَا وَإِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ وَقٰی شَرَّہَا، وَلَیْسَ فِیکُمُ الْیَوْمَ مَنْ تُقْطَعُ إِلَیْہِ الْأَعْنَاقُ مِثْلُ أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، أَلَا وَإِنَّہُ کَانَ مِنْ خَبَرِنَا حِینَ تُوُفِّیَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ عَلِیًّا وَالزُّبَیْرَ وَمَنْ کَانَ مَعَہُمَا تَخَلَّفُوا فِی بَیْتِ فَاطِمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا بِنْتِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَتَخَلَّفَتْ عَنَّا الْأَنْصَارُ بِأَجْمَعِہَا فِی سَقِیفَۃِ بَنِی سَاعِدَۃَ، وَاجْتَمَعَ الْمُہَاجِرُونَ إِلٰی أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَقُلْتُ لَہُ: یَا أَبَا بَکْرٍ! انْطَلِقْ بِنَا إِلٰی إِخْوَانِنَا مِنَ الْأَنْصَارِ، فَانْطَلَقْنَا نَؤُمُّہُمْ حَتّٰی لَقِیَنَا رَجُلَانِ صَالِحَانِ، فَذَکَرَا لَنَا الَّذِی صَنَعَ الْقَوْمُ، فَقَالَا: أَیْنَ تُرِیدُونَ؟یَا مَعْشَرَ الْمُہَاجِرِینَ! فَقُلْتُ: نُرِیدُ إِخْوَانَنَا ہٰؤُلَائِ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَا: لَا عَلَیْکُمْ أَنْ لَا تَقْرَبُوہُمْ وَاقْضُوْا أَمْرَکُمْ یَا مَعْشَرَ الْمُہَاجِرِینَ! فَقُلْتُ: وَاللّٰہِ! لَنَأْتِیَنَّہُمْ، فَانْطَلَقْنَا حَتّٰی جِئْنَاہُمْ فِی سَقِیفَۃِ بَنِی سَاعِدَۃَ، فَإِذَا ہُمْ مُجْتَمِعُونَ، وَإِذَا بَیْنَ ظَہْرَانَیْہِمْ رَجُلٌ مُزَمَّلٌ، فَقُلْتُ: مَنْ ہٰذَا؟ فَقَالُوْا: سَعْدُ بْنُ عُبَادَۃَ، فَقُلْتُ: مَا لَہُ؟ قَالُوْا: وَجِعٌ، فَلَمَّا جَلَسْنَا قَامَ خَطِیبُہُمْ، فَأَثْنٰی عَلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ بِمَا ہُوَ أَہْلُہُ، وَقَالَ: أَمَّا بَعْدُ! فَنَحْنُ أَنْصَارُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ، وَکَتِیبَۃُ الْإِسْلَامِ، وَأَنْتُمْ یَا مَعْشَرَ الْمُہَاجِرِینَ! رَہْطٌ مِنَّا، وَقَدْ دَفَّتْ دَافَّۃٌ مِنْکُمْ، یُرِیدُونَ أَنْ یَخْزِلُونَا مِنْ أَصْلِنَا، وَیَحْضُنُونَا مِنَ الْأَمْرِ، فَلَمَّا سَکَتَ أَرَدْتُ أَنْ أَتَکَلَّمَ وَکُنْتُ قَدْ زَوَّرْتُ مَقَالَۃً أَعْجَبَتْنِی، أَرَدْتُ أَنْ أَقُولَہَا بَیْنَیَدَیْ أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَقَدْ کُنْتُ أُدَارِی مِنْہُ بَعْضَ الْحَدِّ، وَہُوَ کَانَ أَحْلَمَ مِنِّی وَأَوْقَرَ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: عَلٰی رِسْلِکَ، فَکَرِہْتُ أَنْ أُغْضِبَہُ وَکَانَ أَعْلَمَ مِنِّی وَأَوْقَرَ، وَاللّٰہِ! مَا تَرَکَ مِنْ کَلِمَۃٍ أَعْجَبَتْنِی فِی تَزْوِیرِی إِلَّا قَالَہَا فِی بَدِیہَتِہِ، وَأَفْضَلَ حَتّٰی سَکَتَ، فَقَالَ: أَمَّا بَعْدُ! فَمَا ذَکَرْتُمْ مِنْ خَیْرٍ فَأَنْتُمْ أَہْلُہُ، وَلَمْ تَعْرِفْ الْعَرَبُ ہٰذَا الْأَمْرَ إِلَّا لِہٰذَا الْحَیِّ مِنْ قُرَیْشٍ، ہُمْ أَوْسَطُ الْعَرَبِ نَسَبًا وَدَارًا، وَقَدْ رَضِیتُ لَکُمْ أَحَدَ ہٰذَیْنِ الرَّجُلَیْنِ أَیَّہُمَا شِئْتُمْ، وَأَخَذَ بِیَدِی وَبِیَدِ أَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ الْجَرَّاحِ، فَلَمْ أَکْرَہْ مِمَّا قَالَ غَیْرَہَا، وَکَانَ وَاللّٰہِ! أَنْ أُقَدَّمَ فَتُضْرَبَ عُنُقِی، لَا یُقَرِّبُنِی ذٰلِکَ إِلٰی إِثْمٍ أَحَبَّ إِلَیَّ مِنْ أَنْ أَتَأَمَّرَ عَلٰی قَوْمٍ فِیہِمْ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إِلَّا أَنْ تَغَیَّرَ نَفْسِی عِنْدَ الْمَوْتِ، فَقَالَ قَائِلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ: أَنَا جُذَیْلُہَا الْمُحَکَّکُ وَعُذَیْقُہَاالْمُرَجَّبُ، مِنَّا أَمِیرٌ وَمِنْکُمْ أَمِیرٌیَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ! فَقُلْتُ لِمَالِکٍ: مَا مَعْنَی أَنَا جُذَیْلُہَا الْمُحَکَّکُ وَعُذَیْقُہَا الْمُرَجَّبُ؟ قَالَ: کَأَنَّہُ یَقُولُ: أَنَا دَاہِیَتُہَا، قَالَ: وَکَثُرَ اللَّغَطُ وَارْتَفَعَتِ الْأَصْوَاتُ حَتّٰی خَشِیتُ الِاخْتِلَافَ، فَقُلْتُ: ابْسُطْ یَدَکَیَا أَبَا بَکْرٍ! فَبَسَطَ یَدَہُ فَبَایَعْتُہُ وَبَایَعَہُ الْمُہَاجِرُونَ، ثُمَّ بَایَعَہُ الْأَنْصَارُ، وَنَزَوْنَا عَلٰی سَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ، فَقَالَ قَائِلٌ مِنْہُمْ: قَتَلْتُمْ سَعْدًا، فَقُلْتُ: قَتَلَ اللّٰہُ سَعْدًا، وَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: أَمَا وَاللّٰہِ! مَا وَجَدْنَا فِیمَا حَضَرْنَا أَمْرًا ہُوَ أَقْوٰی مِنْ مُبَایَعَۃِ أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، خَشِینَا إِنْ فَارَقْنَا الْقَوْمَ وَلَمْ تَکُنْ بَیْعَۃٌ أَنْ یُحْدِثُوا بَعْدَنَا بَیْعَۃً، فَإِمَّا أَنْ نُتَابِعَہُمْ عَلٰی مَا لَا نَرْضٰی، وَإِمَّا أَنْ نُخَالِفَہُمْ فَیَکُونَ فِیہِ فَسَادٌ، فَمَنْ بَایَعَ أَمِیرًا عَنْ غَیْرِ مَشْوَرَۃِ الْمُسْلِمِینَ، فَلَا بَیْعَۃَ لَہُ وَلَا بَیْعَۃَ لِلَّذِی بَایَعَہُ تَغِرَّۃً أَنْ یُقْتَلَا، قَالَ مَالِکٌ: وَأَخْبَرَنِی ابْنُ شِہَابٍ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ، أَنَّ الرَّجُلَیْنِ اللَّذَیْنِ لَقِیَاہُمَا عُوَیْمِرُ بْنُ سَاعِدَۃَ وَمَعْنُ بْنُ عَدِیٍّ، قَالَ ابْنُ شِہَابٍ: وَأَخْبَرَنِی سَعِیدُ بْنُ الْمُسَیَّبِ أَنَّ الَّذِی قَالَ: أَنَا جُذَیْلُہَا الْمُحَکَّکُ وَعُذَیْقُہَا الْمُرَجَّبُ، الْحُبَابُ بْنُ الْمُنْذِرِ۔ (مسند احمد: ۳۹۱)

سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے دور خلافت میں منبرِ رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر ایک خطبہ دیا، اس میں آپ نے یہ بھی کہا تھا: مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم میں سے کوئی کہنے والا کہتا ہے کہ اگر عمر فوت ہوجائیں تو میں فلاں کی بیعت کروں گا اور کوئی آدمی یہ دھوکا نہ کھائے کہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بیعت اچانک ہوئی تھی، خبردار! اگرچہ وہ اسی طرح ہی ہوئی تھی، لیکن خبردار! اللہ تعالیٰ نے اچانک ہونے والی بیعت کے شر سے محفوظ رکھا، آج تمہارے اندر ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جیسا ایک بھی آدمی نہیںہے، جسے دیکھنے کے لیے دور دراز کے سفر کیے جائیں، یا د رکھو جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وفات پائی تو سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہم سب سے افضل تھے، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور ان کے ساتھ والے افراد دختر رسول سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے گھر چلے گئے اور تمام انصار سقیفہ بنی ساعدہ میںجمع ہوگئے اور مہاجرین ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف روانہ ہوگئے، میں نے ان سے کہا: اے ابو بکر! آؤانصاری بھائیوں کی طرف چلیں، ہم ان کا قصد کر کے ان کی طرف روانہ ہو گئے، راستے میں ہمیں دو نیک آدمی ملے اور انہوں نے ہمیںلوگوں کے عمل سے مطلع کیا اور انہوں ے پوچھا: اے مہاجرین! تم کدھر جارہے ہو؟ میںنے کہا: ہم اپنے ان انصاری بھائیوں کے پاس جارہے ہیں۔ ان دونوں نے کہا: اے مہاجرین کی جماعت! اگر تم ان کے ہاں نہ جاؤ اور اپنا معاملہ خودہی حل کر لو تو تم پر کوئی حرج نہیں ہوگا۔ لیکن میں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم ان کے پاس ضرور جائیں گے، پس ہم آگے چل دیئے، یہاں تک کہ ہم سقیفہ بنی ساعدہ میں ان کے پاس پہنچ گئے، وہ لوگ جمع تھے، ان کے درمیان سیدنا سعد بن عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ موجود تھے، میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ انہوں نے کہا: یہ سعد بن عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں۔ میں نے کہا: ان کو کیا ہوا ہے؟لوگوں نے بتلایا کہ یہ بیمار ہیں، جب ہم بیٹھ گئے تو ان کا ایک مقرر کھڑا ہوا، اس نے اللہ کی کما حقہ حمد و ثنا بیان کی، اس کے بعد اس نے کہا:ہم اللہ تعالیٰ کے انصار اور اسلامی لشکر ہیں اور اے مہاجرو! تم ہمارا ہی چھوٹا سا حصہ ہو، تم میں سے کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ ہمیں ہمارے مقام سے نیچے گرادیں اور ہمیں حکمرانی سے محروم کردیں، جب وہ آدمی خاموش ہوا تو میرا (عمر) نے بھی ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی موجودگی میں کچھ کہنے کا ارادہ کیا، میں ایک مقالہ یعنی تقریر تیار کر چکا تھا، وہ خود مجھے بھی خوب اچھی لگ رہی تھی، میں کسی حد تک ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے جھجکتا تھا، وہ مجھ سے زیادہ با حوصلہ اور باوقار تھے، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھ سے فرمایا: ذرا ٹھہر جاؤ، میں نے ان کو ناراض کرنا اچھا نہ سمجھا، جبکہ وہ مجھ سے زیادہ صاحب علم اور صاحب وقا رتھے، اللہ کی قسم! میں اپنی تیار کردہ تقریر میں جو کچھ کہنا چاہتا تھا، ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے فی البدیہ وہ سب کچھ کہہ دیا، یہاں تک کہ وہ خاموش ہوگئے، پھر انھوں نے کہا: اے انصار! تم نے جس فضلیت اور خوبی کا تذکرہ کیا ہے، تم واقعی اس کے اہل ہو، لیکن عرب لوگ خلافت کے فضلیت و شرف کا مستحق صرف قریش کو ہی سمجھتے ہیں، وہ اپنے نسب اور سکونت کے لحاظ سے تمام عرب سے اعلیٰ ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے میں (عمر) کااور سیدنا ابو عبیدہ بن جراح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا ہاتھ پکڑا اور کہا:میں تمہارے لیے ان دو آدمیوں کا انتخاب کر رہا ہوں، تم ان میں سے جسے چاہو اپنا امیر مقرر کر لو، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جتنی باتیں کی تھیں، ان میں سے مجھے صرف یہی بات ناگوار گزری تھی، اللہ کی قسم! اگر مجھے آگے لایا جاتا اور میری گردن اڑادی جاتی اور کوئی سابھی گناہ مجھے اس مقام تک نہ لے جاتا، یہ مجھے اس سے زیادہ پسند تھا کہ میں ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہوتے ہوئے کسی قوم کا امیر بن جاؤں،انصار میں سے ایک کہنے والے نے کہا: میں وہ آدمی ہوں، جس سے اس معاملے کی شفا حاصل کی جا سکتی ہے اور میں ہی وہ شخص ہوں، جس کی طرف اس معاملے میں رجوع ہونا چاہیے، بس اے قریش کی جماعت! ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک تم میں سے۔ میں نے امام مالک سے کہا: مَا مَعْنٰی أَنَا جُذَیْلُہَا الْمُحَکَّکُ وَعُذَیْقُہَا الْمُرَجَّبُ کا کیا معنی ہے؟ انھوں نے کہا: شاید وہ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں ہی معاملہ فہم ہوں اور اس چیز کا شعور رکھتا ہوں۔ اس پر شور مچ گیا ور آوازیں بلند ہوگئیں، یہاں تک کہ مجھے لڑائی کا خدشہ ہو گیا، میں نے کہا: اے ابوبکر! آپ اپنا ہاتھ بڑھائیں، انہوں نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا،میں نے ان کی بیعت کرلی اور مہاجرین نے بھی ان کی بیعت شروع کر دی، اس کے بعد انصار نے بھی ان کی بیعت کرلی، بیچ میں ہم نے سعد بن عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے اوپر ہجو م کیا، ان میں سے ایک نے کہا: تم نے سعد کو قتل کر دیا ہے۔میںنے کہا: اللہ سعد کو قتل کرے۔ پھر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! ہمیں جس قدر بھی امور پیش آئے، ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بیعت سے بڑھ کر ہم نے کسی امر کو زیادہ قوی نہیں پایا، ہمیں اندیشہ تھا کہ اگر ہم لوگوں کو چھوڑ گئے او ربیعت نہ ہوئی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ کوئی اور بیعت کرلیں، تب یا تو ہم ان سے ایسے امر پر بیعت کریں گے، جو ہمیں پسند نہیں ہو گا، یا ہم ان کی مخالفت کریں گے تو فساد مچ جائے گا، جو آدمی مسلمانوں کے مشورے کے بغیر کسی امیر کی بیعت کر لے، اس کی بیعت کا کوئی اعتبار نہیں ہو گا، اسی طرح جس کے حق میں بیعت کی گئی ہو گی، وہ بھی غیر معتبر ہو گا، یہ دونوں بیعت کرنے والا اور بیعت لینے والا قتل کر دئیے جانے کے حقدار ہوں گے۔ امام مالک نے کہا: مجھے ابن شہاب نے عروہ بن زبیر سے بیان کیا کہ جو دو آدمی راستے میں ملے تھے وہ سیدہا عریمر بن ساعدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا معمر بن عدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے، ابن شہاب نے کہا: سعید بن مسیب نے مجھے بیان کیا کہ جس آدمی نے یہ بات کی تھی کہ میں وہ آدمی ہوں، جس سے اس معاملے کی شفا حاصل کی جا سکتی ہے اور میں ہی وہ شخص ہوں، جس کی طرف اس معاملے میں رجوع ہونا چاہیے۔ وہ سیدنا حباب بن منذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے۔

Haidth Number: 12162

۔ (۱۲۱۶۳)۔ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ: لَمَّا تُوُفِّیَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَامَ خُطَبَائُ الْأَنْصَارِ فَجَعَلَ مِنْہُمْ مَنْ یَقُولُ: یَا مَعْشَرَ الْمُہَاجِرِینَ! إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا اسْتَعْمَلَ رَجُلًا مِنْکُمْ قَرَنَ مَعَہُ رَجُلًا مِنَّا، فَنَرَی أَنْ یَلِیَ ہَذَا الْأَمْرَ رَجُلَانِ أَحَدُہُمَا مِنْکُمْ وَالْآخَرُ مِنَّا، قَالَ: فَتَتَابَعَتْ خُطَبَائُ الْأَنْصَارِ عَلٰی ذَلِکَ، قَالَ فَقَامَ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ: فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ، وَإِنَّمَا الْإِمَامُ یَکُونُ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ، وَنَحْنُ أَنْصَارُہُ کَمَا کُنَّا أَنْصَارَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ أَبُو بَکْرٍ فَقَالَ: جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا مِنْ حَیٍّیَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، وَثَبَّتَ قَائِلَکُمْ، ثُمَّ قَالَ: وَاللّٰہِ! لَوْ فَعَلْتُمْ غَیْرَ ذٰلِکَ لَمَا صَالَحْنَاکُمْ۔ (مسند احمد: ۲۱۹۵۳)

سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال ہو اتو انصار کے کچھ خطیب اورمقرر حضرات کھڑے ہوئے، ان میں سے بعض نے کہا: اے مہاجرین کی جماعت! اللہ کے رسول جب تم میں سے کسی کو عامل مقرر کرتے تو اس کے ساتھ ہم میں سے ایک آدمی کو بھی مقرر کرتے تھے، اس لیے ہماری رائے یہ ہے کہ دو آدمی حکمران ہوں، ایک تم میں سے اور ایک ہم میں سے۔ سیدنا ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:تمام انصاری مقررین نے یہی بات دہرائی، پھر سیدنا زید بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہاـ: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مہاجرین میں سے تھے، لہٰذا اـمام اور حاکم بھی مہاجرین میں سے ہوگا اور ہم اس کے اسی طرح انصار اورمعاون ہوں گے، جیسے ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے انصار تھے۔ یہ بات سن کر سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اٹھے اور انہوں نے کہا: اسے انصار کی جماعت! اللہ آپ کے قبیلے کو جزائے خیرے عطا فرمائے اور اس تجویز دینے والے کو ہمیشہ صراط مستقیم پر قائم رکھے۔ بعد ازاں کہا: اللہ کی قسم! اگر تم اس کے بر خلاف کچھ تجویز کرتے تو ہم تم سے اتفاق نہ کرتے۔

Haidth Number: 12163
سیدنا ابوبکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے غزوۂ سلا سل کے دوران ساتھ رہنے والے رافع طائی نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ان کی بیعت کے بارے میں کہی جانے والی باتوں کے بارے میں سوال کیا، پس انھوں نے وہ کچھ بیان کیا، جو انصار نے کہا، جو انھوں نے خود بیان کیا اور پھر سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کے جواب میں جو کچھ کہا، سیدنا عمر نے بیچ میں یہ بات بھی ذکر کی کہ میں (ابوبکر) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مرض الموت کے دوران میں امامت کراتا رہا، پس پھر لوگوں نے میری بیعت کی اور میں نے ان سے ان کی بیعت قبول کی، لیکن مجھے ڈرتھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی ایسا فتنہ بپا ہو جائے کہ جس کے بعد لوگ دین سے مرتد ہونا شروع ہو جائیں۔

Haidth Number: 12164
سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال ہوا تو انصاریوں نے کہا:ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک تم مہاجرین میں سے، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان کے پاس گئے اور کہا: اے انصار کی جماعت! کیا تم نہیں جانتے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو حکم فرمایا تھا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، ہم جانتے ہیں، پھر انھوں نے کہا: تو پھر تم میں سے کس میں حوصلہ ہے کہ وہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے آگے کھڑا ہو؟ انصار نے کہا: ہم اس بات سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں کہ ہم ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے آگے کھڑے ہوں۔

Haidth Number: 12165

۔ (۱۲۱۶۶)۔ عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، قَالَ: تُوُفِّیَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو بَکْرٍ فِی طَائِفَۃٍ مِنَ الْمَدِینَۃِ، قَالَ: فَجَائَ فَکَشَفَ عَنْ وَجْہِہِ فَقَبَّلَہُ وَقَالَ: فِدَاکَ أَبِی وَأُمِّی، مَا أَطْیَبَکَ حَیًّا وَمَیِّتًا، مَاتَ مُحَمَّدٌ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ، فَذَکَرَ الْحَدِیثَ، قَالَ: فَانْطَلَقَ أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ یَتَقَاوَدَانِ حَتّٰی أَتَوْہُمْ، فَتَکَلَّمَ أَبُو بَکْرٍ وَلَمْ یَتْرُکْ شَیْئًا أُنْزِلَ فِی الْأَنْصَارِ، وَلَا ذَکَرَہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ شَأْنِہِمْ إِلَّا وَذَکَرَہُ، وَقَالَ: وَلَقَدْ عَلِمْتُمْ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((لَوْ سَلَکَ النَّاسُ وَادِیًا، وَسَلَکَتِ الْأَنْصَارُ وَادِیًا، سَلَکْتُ وَادِیَ الْأَنْصَارِ۔)) وَلَقَدْ عَلِمْتَ یَا سَعْدُ! أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ وَأَنْتَ قَاعِدٌ: ((قُرَیْشٌ وُلَاۃُ ہٰذَا الْأَمْرِ، فَبَرُّ النَّاسِ تَبَعٌ لِبَرِّہِمْ، وَفَاجِرُہُمْ تَبَعٌ لِفَاجِرِہِمْ۔)) قَالَ: فَقَالَ لَہُ سَعْدٌ: صَدَقْتَ نَحْنُ الْوُزَرَائُ وَأَنْتُمُ الْأُمَرَائُ۔ (مسند احمد: ۱۸)

حمید بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال ہوا تو اس وقت سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مدینہ منورہ کے کسی نواحی علاقے میں تھے، پس وہ آئے اور آپ کے چہرۂ اقدس سے چادر ہٹائی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بوسہ دیا اور فرمایا: میرے والدین آپ پر فدا ہوں، آپ کس قدر پاکیزہ ہیں، زندہ ہوں یا میت، رب کعبہ کی قسم! محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وفات پاگئے ہیں، پھر راوی نے حدیث ذکر کی، ایک اقتباس یہ تھا: پھر ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ چلتے چلتے انصاری لوگوں کے پاس پہنچ گئے، ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے گفتگو کی اور انصار کے حق میں جو کچھ نازل ہوا تھا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جو کچھ ان کے بارے میں بیان فرمایا تھا، ان سب فضائل کا ذکر کیا اور ان میںسے کوئی بات بھی نہ چھوڑی، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم جانتے ہو کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تمہارے حق میں فرمایا تھا: اگر لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار دوسرے وادی میں چلیں تو میں انصار والی وادی میں چلو ں گا۔ اسے سعد! تم بھی موجود تھے، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا کہ قریش اس اقتدار کے حقدار اور اہل ہیں، نیک لوگ نیک قریشیوں کے تابع ہیں اور فاجر لوگ فاجر قریشیوں کے۔ یہ سن کر سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: آپ نے درست کہا، امیر حکمران آپ ہوں گے اور ہم آپ کے وزیر ہوں گے۔

Haidth Number: 12166
سیدناجابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یا اللہ! بنو ثقیف کو ہدایت دے دے۔

Haidth Number: 12574
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب سیدنا طفیل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور ان کے ساتھی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آئے تو طفیل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: بے شک بنو دوس نے سرکشی کی ہے، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! بنودوس کو ہدایت دے اور ان کومیرے پاس لے آ۔

Haidth Number: 12575
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک بدو نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں ایک اونٹنی بطور ہدیہ پیش کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے بدلے میں چھ اونٹنیاں عنایت فرمائیں، وہ تب بھی ناراض ہی رہا، جب یہ خبر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک پہنچی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور پھر فرمایا: فلاں آدمی نے مجھے ایک اونٹنی بطور ہدیہ پیش کی تھی، حالانکہ وہ میری ہی اونٹنی تھی، میں اسے اسی طرح پہچانتا ہوں، جیسے میں اپنے اہل خانہ کو پہنچانتا ہوں، وہ زغابہ کے1 د ن لڑائی میں میرے ہاتھو ں سے نکل گئی تھی، تاہم میں نے اسے بدلے میں چھ اونٹنیاں دے دیں تھیں، مگر وہ پھر بھی ناراض رہا، اب میں نے ارادہ کیا ہے کہ میں قریشی، انصاری، ثقفی یا دوسی کے علاوہ کسی سے کوئی ہدیہ قبول نہ کروں۔

Haidth Number: 12576
سیدناابو بکرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بصرہ کی سر زمین کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اس کی ایک جانب دجلہ نامی دریا ہے ، وہاں بہت زیادہ کھجوریں ہیں۔ بنو قنطوراء (یعنی ترک لوگ) وہاں آکر ٹھہریں گے اور مسلمان تین حصوں میں تقسیم ہو جائیں گے: ایک گروہ اپنے اصل کے ساتھ مل جائے گا، (یعنی اپنی کھیتوں اور مویشیوں میں مصروف ہوجائے گا)، یہ لوگ ہلاک ہو جائیں گے دوسرا گروہ الگ تھلک رہے گا، یہ لوگ کافر ہوں گے اور ایک گروہ اپنے بیوی بچوں کو پیچھے چھوڑ آئیں گے اورلڑیںگے، ان کے مقتولین شہید ہوں گے، پھر باقیوں کو اللہ تعالیٰ فتح عطا کرے گا۔ یزید بن ہارون کو ایک دفعہ یہ حدیث بیان کرتے ہوئے یہ شک ہوا کہ بصیرہ ہے یا بصرہ۔

Haidth Number: 12941
Haidth Number: 12942

۔ (۱۲۹۴۳)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ) حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ حَدَّثَنِیْ اَبِیْ ثَنَا اَبُوالنَّضْرِ ھَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ثَنَا الْحَشَرَجُ بْنُ نُبَاتَۃَ الْقَیْسِیُّ الْکُوْفِیُّ حَدَّثَنِیْ سَعِیْدُ بْنُ جَمْہَانَ ثَنَا عَبْدُاللّٰہِ بْنُ اَبِیْ بَکْرَۃَ حَدَّثَنِیْ اَبِیْ فِیْ ہٰذَا الْمَسْجِدِ یَعْنِیْ مَسْجِدَ الْبَصْرَۃِ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَتَنْزِلَنَّ طَائِفَۃٌ مِنْ اُمَّتِیْ اَرْضًا یُقَالُ لَھَا الْبَصْرَۃُیَکْثُرُ بِہَا عَدَدُھُمْ وَیَکْثُرُ بِہَا نَخْلُہُمْ ثُمَّ یَجِیْئُ بَنُوْ قَنْطُوْرَائَ عِرَاضُ الْوُجُوْہِ صِغَارُ الْعُیُوْنِ حَتّٰییَنْزِلُوْ ا عَلٰی جَسْرٍ لَھُمْ یُقَالُ لَہُ دَجْلَۃُ فَیَتَفَرَّقُ الْمُسْلِمُوْنَ ثَلَاثَ فِرَقٍ فَاَمَّا فِرْقَۃٌ فَیَاْخُذُوْنَ بِاَذْنَابِ الْاِبِلِ وَتَلْحَقُ بِالْبَادِیَۃِ وَھَلَکَتْ، وَاَمَّا فِرْقَۃٌ فَتَاْخُذُ عَلٰی اَنْفُسِہَا فَکَفَرَتْ فَہٰذِہِ وَتِلْکَ سَوَائٌ،وَاَمَّا فِرْقَۃٌ فَیَجْعَلُوْنَ عِیَالَھُمْ خَلْفَ ظُہُوْرِھِمْ وَیُقَاتِلُوْنَ فَقَتْلَاھُمْ شُہَدَائُ وَیَفْتَحُ اللّٰہُ عَلٰی بَقِیَّتِہَا۔)) (مسند احمد: ۲۰۷۲۵)

۔ (تیسری سند) عبداللہ بن ابو بکرہ کہتے ہیں: مجھے میرے والد نے بصرہ کی اس مسجد میں بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری امت کا ایک گروہ بصرہ نامی سرزمین میں ضرور اترے گا، یہاں ان کی بہت تعداد ہوگی اور یہاں کھجوریں بھی بکثرت ہوں گی،پھر بنو قنطورائ، جن کے چہرے چپٹے اور آنکھیں چھوٹی چھوٹی ہوں گی، آکر دجلہ کے پل پر پڑاؤ ڈالیں گے، اُدھر مسلمان تین گروہوں میں تقسیم ہوجائیں گے: ایک گروہ اونٹوں کی دموں کو پکڑ کر دیہاتوں کی طرف نکل جائے گا، یہ لوگ ہلاک ہوں گے، دوسرا گروہ اپنے حال میں مست رہے گا، یہ کافر ہوجائے گا، یہ دونوں گروہ انجام کے لحاظ سے برابر ہوں گے، تیسرا گروہ اپنے اہل و عیال کو پیچھے چھوڑ آئے گا اور کفار کے ساتھ جنگ کرے گا، ان کے مقتولین شہید ہوں گے، پھر اللہ تعالیٰ اس گروہ کے باقی لوگوں کو فتح سے ہمکنار کرے گا۔

Haidth Number: 12943

۔ (۱۲۹۴۴)۔ وَعَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ (الْاَسْلَمِیِّ) عَنْ اَبِیْہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: کُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَسَمِعْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((اِنَّ اُمَّتِیْیَسُوْقُہَا قَوْمٌ عِرَاضُ الْاَوْجُہِ صِغَارُالْاَعْیُنِ، کَاَنَّ وُجُوْہَھُمُ الْحَجَفُ ثَلَاثَ مِرَارٍ حَتّٰییَلْحَقُوْھُمْ بِجَزِیْرَۃِ الْعَرَبِ، اَمَّا السَّابِقَۃُ الْاُوْلٰی فَیَنْجُوْ مَنْ ھَرَبَ مِنْہُمْ وَاَمَّا الثَّانِیَۃُ فَیَہْلِکُ بَعْضٌ وَیَنْجُوْ بَعْضٌ، وَاَمَّا الثَّالِثَۃُ فَیَصْطَلِمُوْنَ کُلَّہُمْ مَنْ بَقِیَ مِنْہُمْ۔)) قَالُوْا: یَانَبِیَّ اللّٰہِ! مَنْ ھُمْ؟ قَالَ: ((ھُمُ التُّرْکُ، قَالَ: أَمَا وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ لَیَرْبِطُنَّ خُیُوْلَھُمْ اِلٰی سِوَارِیْ مَسَاجِدِ الْمُسْلِمِیْنَ۔)) قَالَ: وَکَانَ بُرَیْدَۃُ لَایُفَارِقُہٗ بَعِیْرَانِ اَوْثَلَاثَۃٌ وَمَتَاعُ السَّفْرِ وَالْاَسْقِیَّۃُیُعِدُّ ذٰلِکَ لِلْہَرْبِ مِمَّا سَمِعَ مِنَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنَ الْبَلَائِ مِنْ اُمَرَائِ التُّرْکِ۔ (مسند احمد: ۲۳۳۳۹)

سیدنا بریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بیٹھا تھا کہ میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یوں فرماتے سنا: ایک قوم، جن کے چہرے چوڑے چوڑے اور آنکھیں چھوٹی چھوٹی ہوں گی،گویا کہ ان کے چہرے ڈھال کی مانند چوڑے ہوں گے، (یہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تین مرتبہ فرمایا)، یہ قوم میری امت کو جزیرۂ عرب کی طرف ہانک کر لے آئے گی، ان کے پہلے مقابلے میں بھاگ جانے والا نجات پا جائے گا، دوسرے مسابقے میں کچھ ہلاک ہو جائیں گے اور بعض نجات پائیں گے، تیسری دفعہ تو باقی بچ جانے والوں کا بھی صفایا کر دیں گے۔ صحابہ کرام نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! یہ کون لوگ ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: یہ ترک لوگ ہوں گے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مزید فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! وہ لوگ اپنے گھوڑوں کو مسلمانوں کی مساجد کے ستونوں کے ساتھ باندھیں گے۔ سیدنا عبداللہ بن بریدہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی یہ حدیث سننے کے بعد ترک حکمرانوں کی آزمائش سے بچ کر بھاگ جانے کے لیے دو تین اونٹ، سفر کا سامان اور مشکیزے ہر وقت تیار رکھا کرتے تھے۔

Haidth Number: 12944
سیدنا ابوبرزہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آخرت میںمیرا ایک حوض ہوگا، اس کی وسعت اس قد رہوگی جیسے ایلہ سے صنعاء تک کی مسافت ہے، اس کی چوڑائی اس کی لمبائی جتنی ہو گی، اس میں جنت سے آنے والے پانی کے دو پرنالے گر رہے ہوں گے، ایک پرنالہ چاندی کا ہوگا اور دوسرا سونے کا، اس کا پانی شہد سے زیادہ شیریں، برف سے زیادہ ٹھنڈا، دودھ سے زیادہ سفید ہوگا، جس نے اس سے ایک دفعہ پی لیا وہ جنت میں جانے تک پیاس محسوس نہیں کرے گا، اس کے آبخوروں کی تعداد آسمان کے تاروں سے بھی جتنی ہوگی۔

Haidth Number: 13128
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارے آگے (یعنی آخرت میں) ایک حوض ہوگا، اس کے دو کناروں کے مابین اس قدر مسافت ہوگی، جس قدر جرباء اور اذرح کے درمیان ہے۔

Haidth Number: 13129

۔ (۱۳۱۳۰)۔ وَعَنْ اَبِیْ اُمَامَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ وَعَدَنِیْ اَنْ یُّدْخِلَ مِنْ اُمَّتِی الْجَنَّۃَ سَبْعِیْنَ اَلْفًا بِغَیْرِ حِسَابٍ۔)) فَقَالَ یَزِیْدُ بْنُ الْاَخْنَسِ السُّلَمِیُّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا : وَاللّٰہِ! مَا اُوْلٰئِکَ فِیْ اُمَّتِکَ اِلَّا کَالذُّبَابِ الْاَصْہَبِ فِی الذُّبَّانِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((کَانَ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ قَدْ وَعَدَنِیْ سَبْعِیْنَ اَلْفًا، مَعَ کُلِّ اَلْفٍ سَبْعُوْنَ اَلْفًا وَزَادَنِیْ ثَلَاثَ حَثَیَاتٍ، (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: مِنْ حَثَیَاتِ الرَّبِّ)۔)) قَالَ: فَمَا سِعَۃُ حَوْضِکَ یَا نَبِیَّ اللّٰہِ!؟ قَالَ: ((کَمَا بَیْنَ عَدَنَ اِلٰی عُمَانَ وَاَوْسَعَ وَاَوْسَعَ یُشِیْرُ بِیَدِہٖ قَالَ فِیْہِ مَثْعَبَانِ مِنْ ذَھَبٍ وَفِضَّۃٍ۔)) قَالَ: فَمَا حَوْضُکَ یَا نَبِیَّ اللّٰہِ!؟ قَالَ: ((اَشَدُّ بَیَاضًا مِنَ اللَّبَنِ وَاَحْلٰی مَذَاقَۃً مِنَ الْعَسَلِ وَاَطْیَبُ رَائِحَۃً مِنَ الْمِسْکِ، مَنْ شَرِبَ مِنْہُ لَمْ یَظْمَاْ بَعْدَھَا، وَلَمْ یَسَوَدَّ وَجْہُہُ اَبَدًا۔)) قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: وَجَدْتُ ہٰذَا الْحَدِیْثَ فِیْ کِتَابِ اَبِیْ بِخَطِّ یَدِہٖ وَقَدْ ضَرَبَ عَلَیْہِ فَظَنَنْتُ اَنَّہُ قَدْ ضَرَبَ عَلَیْہِ، لِاَنَّہُ خَطَاٌ اِنَّمَا ھُوَ عَنْ زَیْدٍ عَنْ اَبِیْ سَلَامٍ عَنْ اَبِیْ اُمَامَۃَ۔ (مسند احمد: ۲۲۵۰۸)

سیدناابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ میری امت میں سے ستر ہزار افراد کو بلا حساب جنت میں داخل فرمائے گا۔ یہ سن کر سیدنا یزید بن اخنس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! یہ تعداد تو آپ کی امت میں ایسے ہی ہے، جیسے عام مکھیوں میں سفید سرخی مائل رنگ کی مکھی ہوتی ہے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے ربّ نے میرے ساتھ ستر ہزار کا وعدہ کیا اور ہر ہزار کے ساتھ مزید ستر ہزار کا بھی وعدہ کیا اور اس پر مستزاد یہ کہ کہ اللہ تعالیٰ کی تین مٹھیاں اس تعداد کے علاوہ ہیں۔ انھوں نے پھر کہا: اللہ کے نبی!آپ کے حوض کی وسعت کتنی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس قد رعدن سے عمان تک مسافت ہے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: بلکہ اس سے بھی زیادہ وسیع ہے، اس سے زیادہ وسیع ہے، اس میں دو پرنالے ہوں گے، ایک سونے کا ہو گا اور دوسرا چاندی کا۔ انھوں نے کہا: اللہ کے نبی! آپ کے حوض کا پانی کیسا ہوگا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ دودھ سے زیادہ سفید، شہد سے زیادہ شیریں اور کستوری سے بڑھ کر خوش بود ار ہوگا، جس نے ایک دفعہ وہاں سے پی لیا، اس کے بعد وہ کبھی بھی پیاس محسوس نہیں کرے گا اور اس کا چہرہ بھی کبھی سیاہ نہیں ہوگا۔ عبداللہ بن امام احمد کہتے ہیں: یہ حدیث میں نے اپنے والد کی کتاب میں ان کے ہاتھ کے ساتھ لکھی ہوئی پائی اور اس پر نشان لگایا گیا تھا، جس سے مجھے یہ بات سمجھ آئی کہ حدیث اس طرح ٹھیک نہیں دراصل یہ حدیث عن زید عن ابی سلام عن ابی امامہ کے واسطے سے مروی ہے۔ (عبداللہ رفیق)

Haidth Number: 13130
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پوچھا: میرا والد کہاں ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جہنم میں۔ پھر جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے چہرے پر غم کے آثار دیکھے تو فرمایا: میرا باپ اور تیرا باپ دونوں جہنم میں ہیں۔

Haidth Number: 13261
سیدنا لقیط بن عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:اے اللہ کے رسول! میری والدہ کہاں ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جہنم میں۔ میںنے کہا: تو پھر آپ کے جو رشتہ دار قبل از اسلام فوت ہوچکے ہیں، وہ کہاں ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تو اس بات پر راضی ہو جائے گا کہ تیری ماں میری ماں کے ساتھ ہو۔

Haidth Number: 13262

۔ (۱۳۲۶۳)۔ وَعَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ اَبِیْہِ (بُرَیْدَۃِ الْاَسْلَمِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَزَا غَزْوَۃَ الْفَتْحِ فَخَرَجَ یَمْشِیْ اِلَی الْقُبُوْرِ حَتّٰی اِذَا اَتٰی اِلٰی اَدْنَاھَا جَلَسَ اِلَیْہِ کَاَنَّہُ یُکَلِّمُ اِنْسَانًاجَالِسًایَبْکِیْ، قَالَ: فَاسْتَقْبَلَہُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَقَالَ: مُا یُبْکِیْکَ جَعَلَنِیَ اللّٰہُ فِدَاکَ؟ قَالَ: ((سَاَلْتُ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ اَنْ یَاْذَنَ لِیْ فِیْ زِیَارِۃِ قَبِرِ اُمِّ مُحَمَّدٍ فَاَذِنَ لِیْ، فَسَاَلْتُہُ اَنْ یَّاْذَنَ لِیْ فَاَسْتَغْفِرَلَھَا فَاَبٰی، اِنِّیْ کُنْتُ نَہَیْتُکُمْ عَنْ ثَلَاثَۃِ اَشْیَائَ: عَنِ لُحُوْمِ الْاَضَاحِیْ اَنْ تَمَسَّکُوْا بَعْدَ ثَلَاثَۃِ اَیَّامٍ، فَکُلُوْا مَا بَدَا لَکُمْ، وَعَنْ زِیَارَۃِ الْقُبُوْرِ فَمَنْ شَائَ فَلْیَزُ ْر فَقَدْ اَذِنَ لِیْ فِیْ زِیَارِۃِ قَبْرِ اُمِّ مُحَمَّدٍ وَمَنْ شَائَ فَلْیَدَعْ، وَعَنِ الظُّرُوْفِ تَشْرَبُوْنَ فِیْہَا الدُّبَّائِ وَالْحَنْتَمِ وَالْمُزَفَّتِ وَاَمَرْتُکُمْ بِظُرُوْفٍ وَاِنَّ الْوِعَائَ لَایُحِلُّ شَیْئًا وَلَایُحَرِّمُہُ، فَاجْتَنِبُوْا کُلَّ مُسْکِرٍ۔)) (مسند احمد: ۲۳۴۲۶)

سیدنا بریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فتح مکہ سے فارغ ہو کر قبرستان کی طرف تشریف لے گئے اور اس کی قریب والی طرف میں جا کر بیٹھ گئے، یوں محسوس ہو رہا تھا کہ آپ کسی انسان کے ساتھ باتیں کر رہے ہیں، جبکہ آپ رو بھی رہے تھے، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ کے سامنے آئے اور کہا: اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے، آپ کیوں رو رہے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جواب دیا: میں نے اپنے ربّ سے اپنی ماں کی قبر کی زیارت کی اجازت طلب کی، اللہ تعالیٰ نے مجھے اس چیز کی تو اجازت دے دی، لیکن جب میں نے اس سے والدہ کے حق میں دعائے مغفرت کی اجازت طلب کی، تو اس نے اس کی اجازت نہیں دی، میں نے تمہیں تین کاموں سے منع کیا تھا، ایک یہ کہ تم تین دنوں کے بعد قربانیوں کے گوشت نہیں کھا سکتے، اب تمہیں اجازت ہے جب تک چاہو کھا سکتے ہو، دوسرا میں نے تمہیں قبرستان جانے سے منع کیا تھا، اب جو آدمی قبرستان جانا چاہے، جا سکتا ہے، مجھے بھی اپنی والدہ کی قبر پر جانے کی اجازت دے دی گئی ہے،ہاں جو آدمی قبرستان نہ جانا چاہتا ہو، وہ بے شک نہ جائے، اور تیسرا کہ میں نے تمہیں کدو، سبز مٹکے اور تارکول لگے برتن کو استعمال کرنے سے منع کیا تھا اور باقی برتنوں کو استعمال کرنے کی اجازت دی تھی، اب یہ حکم ہے کہ برتن تو کسی چیز کو حلال یا حرام نہیں کرتا، لہذا تم سارے برتن استعمال کر سکتے ہو، البتہ ہر نشہ آور چیز سے پرہیز کرو۔

Haidth Number: 13263