Blog
Books
Search Hadith

اس چیز کا بیان کہ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے، جس میں تصویر، یا کتا، یا جنابت والا آدمی ہو

100 Hadiths Found
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور کہا: میں رات آپ کی ملاقات کے لئے حاضر ہوا تھا، مجھے اس گھر میں جس میں آپ تشریف فرما تھے، داخل ہونے میں رکاوٹ یہ تھی کہ گھر میں ایک آدمی کی مورتی تھی اور گھر میں ایک باریک پردہ تھا، سو آپ حکم دیں کہ تصویروں کے سر کاٹ دیئے جائیں، تاکہ وہ درخت کی مانند ہو جائیں اور پردے کے بارے میں حکم دیں، ان کو کاٹ کر اس سے دو تکیے بنا لے جائیں، جن کو روندا جائے اور کتے کے بارے میں حکم دیں کہ اس کو نکال دیا جائے۔ پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایسا ہی کیا، وہ کتے کا بچہ دراصل سیدنا حسن اور سیدنا حسین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا تھا، جو سامان والی چارپائی کے نیچے پڑا تھا۔

Haidth Number: 8069

۔ (۸۵۲۳)۔ عَنْ أَ بِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: لَمَّا نَزَلَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : {لِلَّہِ مَا فِی السَّمٰوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ وَإِنْ تُبْدُوْا مَا فِی أَ نْفُسِکُمْ أَ وْ تُخْفُوہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللّٰہُ، فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَشَائُ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَشَائُ وَاللّٰہُ عَلَی کُلِّ شَیْء ٍ قَدِیرٌ} فَاشْتَدَّ ذٰلِکَ عَلٰی صَحَابَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَ تَوْا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ جَثَوْا عَلَی الرُّکَبِ، فَقَالُوْا: یَارَسُولَ اللّٰہِ! کُلِّفْنَا مِنْ الْأَ عْمَالِ مَا نُطِیقُ الصَّلَاۃَ وَالصِّیَامَ وَالْجِہَادَ وَالصَّدَقَۃَ، وَقَدْ أُنْزِلَ عَلَیْکَ ہٰذِہِ الْآیَۃُ وَلَا نُطِیقُہَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَ تُرِیدُونَ أَ نْ تَقُولُوْا کَمَا قَالَ أَ ہْلُ الْکِتَابَیْنِ مِنْ قَبْلِکُمْ سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا، بَلْ قُولُوْا سَمِعْنَا وَأَ طَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَإِلَیْکَ الْمَصِیرُ۔)) فَقَالُوْا: سَمِعْنَا وَأَ طَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَإِلَیْکَ الْمَصِیرُ، فَلَمَّا أَ قَرَّ بِہَا الْقَوْمُ وَذَلَّتْ بِہَا أَ لْسِنَتُہُمْ أَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فِی إِثْرِہَا: {آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَیْہِ مِنْ رَبِّہِ وَالْمُؤْمِنُونَ، کُلٌّ آمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلَائِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ أَ حَدٍ مِنْ رُسُلِہِ} قَالَ عَفَّانُ: قَرَأَ ہَا سَلَّامٌ أَ بُو الْمُنْذِرِ یُفَرِّقُ {وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَأَ طَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَإِلَیْکَ الْمَصِیرُ} فَلَمَّا فَعَلُوْا ذَلِکَ نَسَخَہَا اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی بِقَوْلِہِ: {لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَہَا لَہَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْہَا مَا اکْتَسَبَتْ} فَصَارَ لَہُ مَا کَسَبَتْ مِنْ خَیْرٍ وَعَلَیْہِ مَا اکْتَسَبَتْ مِنْ شَرٍّ، فَسَّرَ الْعَلَائُ ہٰذَا { رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِینَا أَ وْ أَ خْطَأْنَا} قَالَ: نَعَمْ، {رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَا إِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہُ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِنَا} قَالَ: نَعَمْ، {رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہِ} قَالَ: نَعَمْ، {وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَ نْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِینَ۔} (مسند احمد: ۹۳۳۳)

۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی {لِلَّہِ مَا فِی السَّمَوَاتِ وَمَا فِی الْأَ رْضِ وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِی أَ نْفُسِکُمْ أَ وْ تُخْفُوہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللّٰہُ، فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَشَائُ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَشَائُ وَاللّٰہُ عَلَی کُلِّ شَیْء ٍ قَدِیرٌ}… اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں اور جو زمین میں ہے اور اگر تم اسے ظاہر کرو جو تمھارے دلوں میں ہے، یا اسے چھپاؤ اللہ تم سے اس کا حساب لے گا، پھر جسے چاہے گابخش دے گا اور جسے چاہے گا عذاب دے گا اور اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ یہ آیت صحابہ کرام پر بہت گراں گزری، وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور دو زانوں ہو کر بیٹھ گئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! ہمیں اس آیت میں ان اعمال کا مکلف بنایا گیا ہے، جن کی ہم طاقت رکھتے ہیں، نماز ہے، روزہ ہے، جہاد ہے، صدقہ ہے،(ہم ان اعمال کو سرانجام دے سکتے ہیں)، لیکن اب آپ پر جو آیت نازل ہوئی ہے، اس کی ہم میں طاقت نہیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم بھی وہی بات دہرانا چاہتے ہو، جس طرح تم سے پہلے اہل کتاب نے کہا تھا کہ ہم نے سنا اور ہم نے نافرمانی کی، بلکہ یہ کہو کہ ہم نے سنا اور ہم نے اطااعت کی، اے ہمارے پروردگار! ہم تیری بخشش مانگتے ہیں اور تیری طرف لوٹنا ہے۔ صحابہ کرام نے کہا: ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی، اے ہمارے رب! ہم تیری بخشش مانگتے ہیں اور تیری طرف لوٹنا ہے، جب لوگوں نے اس کا اقرار کیا اور ان کی زبانیں اس حکم کے سامنے پست ہوئیں تو اس کے بعد اللہ تعالی نے فرمایا: {آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَیْہِ مِنْ رَبِّہِ وَالْمُؤْمِنُونَ، کُلٌّ آمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلَائِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ أَ حَدٍ مِنْ رُسُلِہِ} عفان نے کہا: ابو منذر سلام نے یُفَرِّقُ پڑھا ہے، {وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَأَ طَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَإِلَیْکَ الْمَصِیرُ} جب صحابہ کرام نے ایسے ہی کیا تو اللہ تعالی اس آیت کے حکم کو اس فرمان کے ساتھ منسوخ کر دیا: {لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَہَا لَہَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْہَا مَا اکْتَسَبَتْ} نفس کے حق میں وہ خیر ہے، جو وہ کمائے اور اسی پر وہ شرّ ہے، جس کا وہ ارتکاب کرے۔ { رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِینَا أَ وْ أَ خْطَأْنَا} اللہ تعالی نے کہا: ہاں {رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَا إِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہُ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِنَا} اللہ تعالی نے کہا: ہاں {رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہِ} اللہ تعالی نے کہا: ہاں،{وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَ نْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِینَ۔}

Haidth Number: 8523

۔ (۸۵۲۴)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ: {إِنْ تُبْدُوْا مَا فِی أَ نْفُسِکُمْ أَوْ تُخْفُوْہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللّٰہُ} قَالَ: دَخَلَ قُلُوبَہُمْ مِنْہَا شَیْئٌ لَمْ یَدْخُلْ قُلُوبَہُمْ مِنْ شَیْئٍ، قَالَ: فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((قُوْلُوْا سَمِعْنَا وَأَ طَعْنَا وَسَلَّمْنَا۔))، فَأَ لْقَی اللّٰہُ الْإِیمَانَ فِی قُلُوبِہِمْ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: {آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَیْہِ مِنْ رَبِّہِ وَالْمُؤْمِنُونَ کُلٌّ آمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلَائِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ أَ حَدٍ مِنْ رُسُلِہٖ،وَقَالُوْاسَمِعْنَاوَأَطَعْنَاغُفْرَانَکَرَبَّنَاوَإِلَیْکَ الْمَصِیرُ، لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَہَا لَہَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْہَا مَا اکْتَسَبَتْ، رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِینَا أَ وْ أَ خْطَأْنَا، رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَا إِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہُ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِنَا، رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَ نْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِینَ} (قَالَ اَبُوْعَبْدِ الرَّحْمٰنِ (یَعْنِیْ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ الْاِمَامِ اَحْمَدَ): آدَمُ ھٰذَا ھُوَ اَبُوْ یَحْیَی بْنُ آدَمَ۔ (مسند احمد: ۲۰۷۰)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی {لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوَاتِ وَمَا فِی الْأَ رْضِ وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِی أَ نْفُسِکُمْ أَ وْ تُخْفُوہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللّٰہُ…}… اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں اور جو زمین میں ہے اور اگر تم اسے ظاہر کرو جو تمھارے دلوں میں ہے، یا اسے چھپاؤ اللہ تم سے اس کا حساب لے گا۔ تو صحابہ کے دلوں میں ایک خیال گھس گیا اور وہ غمگین ہو گئے، لیکن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم کہو کہ ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کییا ہم نے تسلیم کیا، پس اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ایمان ڈال دیا اور اتنے میں یہ آیات نازل کر دیں: {اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖوَالْمُؤْمِنُوْنَکُلٌّاٰمَنَبِاللّٰہِوَمَلٰیِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖوَرُسُلِہٖلَانُفَرِّقُبَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖوَقَالُوْاسَمِعْنَاوَاَطَعْنَاغُفْرَانَکَرَبَّنَاوَاِلَیْکَ الْمَصِیْرُ۔لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا لَہَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْہَا مَا اکْتَسَبَتْ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِیْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖوَاعْفُعَنَّاوَاغْفِرْلَنَاوَارْحَمْنَااَنْتَمَوْلٰینَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ۔}

Haidth Number: 8524

۔ (۸۵۲۵)۔ عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَی ابْنِ عَبَّاسٍ فَقُلْتُ: یَا أَ بَا عَبَّاسٍ کُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ فَقَرَأَ ہٰذِہِ الْآیَۃَ فَبَکٰی، قَالَ: أَ یَّۃُ آیَۃٍ قُلْتُ: {إِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْ أَ نْفُسِکُمْ أَ وْ تُخْفُوْہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللّٰہُ} قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِنَّ ہٰذِہِ الْآیَۃَ حِینَ أُنْزِلَتْ غَمَّتْ أَ صْحَابَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَمًّا شَدِیدًا، وَغَاظَتْہُمْ غَیْظًا شَدِیدًا،یَعْنِی وَقَالُوْا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! ہَلَکْنَا إِنْ کُنَّا نُؤَاخَذُ بِمَا تَکَلَّمْنَا وَبِمَا نَعْمَلُ، فَأَ مَّا قُلُوبُنَا فَلَیْسَتْ بِأَ یْدِینَا، فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((قُولُوْا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا۔)) قَالَ: فَنَسَخَتْہَا ہٰذِہِ الْآیَۃُ: {آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَیْہِ مِنْ رَبِّہِ وَالْمُؤْمِنُونَ} إِلٰی {لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَہَا لَہَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْہَا مَا اکْتَسَبَتْ} فَتُجُوِّزَ لَہُمْ عَنْ حَدِیثِ النَّفْسِ وَأُخِذُوا بِالْأَ عْمَالِ۔ (مسند احمد: ۳۰۷۰)

۔ مجاہد کہتے ہیں: میں سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کے پاس داخل ہوا اور کہا: اے ابو عباس! میں سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کے پاس تھا، انھوں نے یہ آیت پڑھی اور رو پڑے، انھوں نے کہا: کون سی آیت؟ میں نے کہا: یہ آیت{لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوَاتِ وَمَا فِی الْأَ رْضِ وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِی أَنْفُسِکُمْ أَوْ تُخْفُوہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللّٰہُ…}… اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں اور جو زمین میں ہے اور اگر تم اسے ظاہر کرو جو تمھارے دلوں میں ہے، یا اسے چھپاؤ اللہ تم سے اس کا حساب لے گا۔ سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا: جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام سخت غمزہ ہوئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! ہم تو ہلاک ہو گئے ہیں، اگرہماری باتوں اور اعمال کی وجہ سے ہمارا مؤاخذہ کیا جائے (تو یہ تو ٹھیک ہے)، اب ہمارے دل تو ہمارے قابو میں نہیں ہے۔ آگے سے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم کہو: ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی۔ پھر اس آیت نے اس آیت کے حکم کو منسوخ کر دیا{آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَیْہِ مِنْ رَبِّہِ وَالْمُؤْمِنُونَ … … لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَہَا لَہَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْہَا مَا اکْتَسَبَتْ} پس نفس کے خیالات کو معاف کر دیا گیا اور اعمال کا مؤاخذہ کیا گیا۔

Haidth Number: 8525
۔ امیہ سے مروی ہے کہ اس نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے ان آیات کے بارے میں سوال کیا: {إِنْ تُبْدُوْا مَا فِی أَنْفُسِکُمْ أَ وْ تُخْفُوْہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللّٰہُ} اور {مَنْ یَعْمَلْ سُوئً ا یُجْزَ بِہِ} (جو کوئی برا عمل کرے گا، اس کو اس کا بدلہ دیا جائے گا) سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: جب سے میں نے ان کے متعلق نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پوچھا تھا، اس وقت سے اب تک کسی نے مجھ سے ان کے بارے میں سوال نہیں کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے فرمایاتھا: اے عائشہ! یہ اللہ تعالیٰ بندے کا مؤاخذہ کرتے رہتے ہیں، ان عوارض کے ذریعے جو بندے کو لاحق ہوتے رہتے ہیں، مثلاً: بخار ہو گیا، مصیبت آ گئی، کانٹا چبھ گیا،یہاں تک کہ وہ سامان، جو بندہ اپنی آستیں میں رکھتا ہے، پھر اس کو گم پانے کی وجہ سے پریشان ہو جاتا ہے، اتنے میں اسی اپنی پہلو یا بغل میں پا لیتا ہے،(بیماریوں اور پریشانیوں کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے) یہاں تک کہ مومن اپنے گناہوں سے اس طرح صاف ہو جاتا ہے، جس طرح سونے کی سرخ ڈلی صاف ہو کر بھٹھی سے نکلتی ہے۔

Haidth Number: 8526
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرا۔ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا: اے فاطمہ! اے بنت ِ محمد! اے صفیہ بنت عبد المطلب! اے بنو عبد المطلب! میں اللہ تعالیٰ کے ہاں تمہارے لیے کسی چیز کا مالک نہیں ہوں، ہاں میرے مال سے جو چاہتے ہو سوال کر لو۔

Haidth Number: 9855
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے بنی عبد المطلب! اے بنی ہاشم! اپنے نفسوں کو اللہ تعالیٰ سے خرید لو، میں تمہارے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی چیز کا مالک نہیں ہوں گا، اے نبی کی پھوپھی ام زبیر! اے فاطمہ بنت محمد! اپنے نفسوں کو خرید لو، میں اللہ تعالیٰ کے ہاں تمہارے لیے کسی چیز کا مالک نہیں بن سکتا، البتہ میرے مال سے سوال کر سکتی ہو۔

Haidth Number: 9856
۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے منبر پر فرمایا: ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی رشتہ داری آپ کی قوم کو کوئی فائدہ نہیں دے گی۔ کیوں نہیں، اللہ کی قسم ہے، میری رشتہ داری دنیا و آخرت میں ملی ہوئی ہو گی، لوگو! میں حوض پر تمہارا پیش رو ہوں گا، پس جب تم وہاں آؤ گے۔ اتنے میں ایک آدمی کہے گا: اے اللہ کے رسول! میں فلاں ہوں، اور اس کا بھائی کہے گا: میں فلاں بن فلاں ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرمائیں: نسب کو تو میں نے پہچان لیا ہے، لیکن تم نے میرے بعد نئے امور ایجاد کر لیے اور پچھلے پاؤں پلٹ گئے۔

Haidth Number: 9857
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میری امت پر شراب، جوا، جو یا گیہوں کی شراب، نرد یا شطرنج اور باجے کو حرام قرار دیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے وتر کی صورت میں ایک زائد نماز دی ہے۔ یزید راوی نے کہا: قِنِّیْنسے مراد بَرْبَط یعنی باجہ ہے۔

Haidth Number: 10001
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: شہری دیہاتی کے لیے سودا نہ کرے، بیع نجش نہ کرو، کوئی آدمی اپنے بھائی کے سودے پر زیادہ قیمت نہ لگائے، کوئی شخص اپنے بھائی کی منگنی پر پیغامِ نکاح نہ بھیجے اور کوئی عورت اپنے بہن کی طلاق کا سوال نہ کرے۔

Haidth Number: 10002
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب چور چوری کرتا ہے تو وہ مؤمن نہیں ہوتا، جب زانی زنا کرتا ہے تو وہ مؤمن نہیں ہوتا، جب شرابی شراب پیتا ہے تو وہ مؤمن نہیں ہوتا، جب کوئی آدمی بڑی مقدار میں لوٹ مار کرتا ہے اور مؤمن لوگ اپنی نگاہیں اٹھا کر اس کی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں تو وہ اس وقت مؤمن نہیں ہوتا اور جب کوئی خائن خیانت کرتا ہے تو وہ مؤمن نہیں ہوتا، پس تم ان امور سے بچو، ان امور سے بچو۔

Haidth Number: 10003

۔ (۱۰۰۰۴)۔ عَنْ حَنَشٍ الصَّنْعَانِیِّ، قَالَ: غَزَوْنَا مَعَ رُوَیْفِعِ بْنِ ثَابِتٍ الْاَنْصَارِیِّ قَرْیَۃً مِنْ قُرَی الْمَغْرِبِ، یُقَالُ لَھَا جَرْبَۃٌ، فَقَامَ فِیْنَا خَطِیْبًا، فَقَالَ: اَیُّھَا النَّاسُ! اِنِّیْ لَا اَقُوْلُ فِیْکُمْ اِلَّا مَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ، قَامَ فِیْنَایَوْمَ حُنَیْنٍ فَقَالَ: ((لَا یَحِلُّ لِاِمْرِیئٍیُؤ ْمِنُ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْآخِرِ اَنْ یَسْقِیَ مَاؤَہُ زَرْعَ غَیْرِہِ ( یَعْنِیْ اِتْیاَنَ الْحُبَالٰی مِن السَّبَایَا) وَاَنْ یُصِیْبَ اِمْرَاَۃً ثَیِّبًا مِنَ السَّبْیِ حَتّٰییَسْتَبْرِئَھَا (یَعْنِیْ اِذَا اشْتَرَاھَا) وَاَنْ یَبِیْعَ مَغْنَمًا حَتّٰییُقْسَمَ، وَاَنْ یَرْکَبَ دَابَّۃً مِنْ فَیْئِ الْمُسْلِمِیْنَ حَتّٰی اِذَا اَعْجَفَھَا رَدَّھَا فِیْہِ، وَاَنْ یَّلْبَسَ ثَوْبًا مِنْ فَيْئِ الْمُسْلِمِیْنَ حَتّٰی اِذَا اَخْلَقَہُ رَدَّہُ فِیْہِ۔)) (مسند احمد: ۱۷۱۲۲)

۔ حنش صنعانی کہتے ہیں: ہم نے سیدنا رویفع بن ثابت انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ مغرب کی سمت والی بستیوں میں سے جربہ نامی بستی کے ساتھ جہاد کیا، وہ ہم میں خطاب کرنے کے لیے کھڑے ہوئے اور کہا: لوگو! میں تم میں وہی بات کروں گا، جو میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غزوۂ حنین والے دن ہم میں کھڑے ہوئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والے فرد کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ اپنا پانی دوسرے کی کھیتی کو پلائے، اس سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مراد حاملہ قیدی خواتین سے جماع کرنا تھا، نیز کسی کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ استعمال شدہ قیدی خاتون خریدنے کے بعد استبرائے رحم سے پہلے اس سے جماع کرے، تقسیم سے پہلے غنیمت کا مال بیچ دے،مسلمانوں کے مالِ فی ٔ میں سے کسی جانور پر سوار ہو جائے، یہاں تک کہ جب اس کو تھکا دے تو واپس کر دے اور وہ مسلمانوں کے مال غنیمت میں سے کوئی کپڑا پہن لے اور پھر بوسیدہ کر کے اس کو واپس کر دے۔

Haidth Number: 10004

۔ (۱۰۰۰۵)۔ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ وَرَوْحٌ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، اَخْبَرَنِیْ اَبُوْ الزُّبَیْرِ، اَنَّہُ سَمِعَ جَابِرًا یَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا تَمْشِ فِیْ نَعْلٍ وَاحِدَۃٍ، وَلَا تَحْتَبِیَنَّ فِیْ اِزَارٍ وَاحِدٍ، وَلَا تَاْکُلْ بِشِمَالِکَ، وَلَا تَشْتَمِلِ الصَّمَّائَ، وَلَا تَضَعْ اِحْدَی رِجْلَیْکَ عَلَی الْاُخْرٰی اِذَا اسْتَلْقَیْتَ۔)) قُلْتُ لِاَبِیْ الزُّبَیْرِ: اَوَضْعُہُ رِجْلَہُ عَلَی الرُّکْبَۃِ مُسْتَلْقِیًا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: اَمَّا الصَّمَّائُ فَھِیَ اِحْدَی اللِّبْسَتَیْنِ تَجْعَلُ دَاخِلَۃَ اِزَارِکَ وَخَارِجَہُ عَلٰی اِحْدٰی عَاتِقَیْکَ، قُلْتُ لِاَبِیْ الزُّبَیْرِ: فَاِنَّھُمْ یَقُوْلُوْنَ: لَا یَحْتَبِیْ فِیْ اِزَارٍ وَاحِدٍ مُفْضِیًا، قَالَ: کذٰلِکَ سَمِعْتُ جَابِرًا یَقُوْلُ: لَا یَحْتَبِیْ فِیْ اِزَارٍ وَاحِدَۃٍ، قَالَ حَجَّاجٌ: عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، قَالَ عَمْروٌ لِیْ: مُفْضِیًا۔ (مسند احمد: ۱۴۲۲۷)

۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک جوتے میں نہ چل، ایک ازار میں گوٹھ نہ مار، بائیں ہاتھ سے نہ کھا، گونگی بکل نہ مار اور جب چت لیٹا ہوا ہو تو ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر نہ رکھ۔ ابن جریج کہتے ہیں: میں نے ابو زبیر سے کہا: اس سے مراد یہ ہے کہ آدمی لیٹ کر اپنا پاؤں دوسرے گھٹنے پر رکھے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں۔ پھر انھوں نے کہا: گونگی بکل ایک لباس ہے، جس میں ازار کا اندرونی اور بیرونی حصہ ایک کندھے پر رکھ دیا جاتا ہے ۔ ابن جریج کہتے ہیں: میں نے پھر ابو زبیر سے کہا: لوگ تو یہ کہہ کہتے ہیں کہ ایک ازار میں اس وقت گوٹھ نہیں مارنا چاہیے، جب بے پردگی ہو رہی ہو؟ انھوں نے کہا: میں نے تو سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے اسی طرح سنا ہے کہ آدمی ایک ازار میں گوٹھ نہ مارے۔ حجاج نے ابن جریج سے روایت کیا کہ عمرو کے الفاظ یہ ہے کہ گوٹھ اس وقت منع ہے، جب شرمگاہ نظر آ رہی ہو۔

Haidth Number: 10005
۔ سیدنا ابو واقد لیثی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں مکہ مکرمہ سے حنین کی طرف نکلے، راستے میں کافروں کا بیری کا ایک درخت تھا، وہ اس کے مجاور بنتے اور اس کے ساتھ اپنا اسلحہ لٹکاتے تھے، اس کو ذات انواط کہا جاتا تھا، راوی کہتے ہیں: پس جب ہم ایک سرسبز اور بڑی بیری کے پاس سے گزرے تو ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہمارے لیے ایک ذات انواط بنا دو، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم نے تو وہی بات کر دی ہے، جو موسی علیہ السلام کی قوم نے کہی تھی، انھوں نے کہا: تو ہمارے لیے بھی ایک معبود بنا دے، جیسے ان کے معبود ہیں، بیشک تم جاہل قوم ہو۔ یہ بنی اسرائیل کے طریقے تھے، تم ایک ایک کر کے پہلے والے لوگوں کے سب طریقوں کو اختیار کر لو گے۔

Haidth Number: 10379
۔ سیدنا عبدا للہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! ابو جہل اور عمر بن خطاب میں جو آدمی تجھے زیادہ محبوب ہے، اس کے ذریعے اسلام کو غلبہ عطا فرما۔ پس سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب تھے۔

Haidth Number: 10541

۔ (۱۰۵۴۲)۔ عَنْ شُرَیْحِ بْنِ عُبَیْدٍ قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: خَرَجْتُ أَتَعَرَّضُ رَسُوْلَ اللّٰہِ قَبْلَ أَنْ أُسْلِمَ، فَوَجَدْتُہُ قَدْ سَبَقَنِیْ اِلَی الْمَسْجِدِ، فَقُمْتُ خَلْفَہُ فَاسْتَفْتَحَ سُوْرَۃَ الْحَاقَّۃِ فَجَعَلْتُ أَعْجَبُ مِنْ تَأْلِیْفِ الْقُرْآنِ قاَلَ: فَقُلْتُ: ھٰذَا وَاللّٰہِ! شَاعِرٌ کَمَا قَالَتْ قُرَیْشٌ، قَالَ: فَقَرَأَ {اِنَّہُ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ وَمَا ھُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِیْلًا مَاتُؤْمِنُوْنَ} قَالَ: قُلْتُ: کَاھِنٌ، قَالَ: {وَلَا بِقَوْلِ کَاھِنٍ قَلَیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ، تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِیْلِ لَأَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ ثُمَّّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ، فَمَا مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْہُ حَاجِزِیْنِ} الخ السورۃ، قَالَ: فَوَقَعَ الْإِسْلَامُ فِیْ قَلْبِیْ کُلَّ مَوْقِعٍ۔ (مسند احمد: ۱۰۷)

۔ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں قبولیت ِ اسلام سے قبل رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے درپے ہوتا تھا، ایک دن میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس حال میںپایا کہ آپ مجھ سے پہلے مسجد میں پہنچ گئے، میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے کھڑا ہوگیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سورۂ حاقہ کیتلاوت شروع کی، مجھے قرآن مجید کی تالیف و ترتیب سے بڑا تعجب ہونے لگا، میںنے کہا: اللہ کی قسم! یہ تو قریش کے کہنے کے مطابق شاعر لگتا ہے، میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت کر دی: {اِنَّہُ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ وَمَا ھُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِیْلًا مَاتُؤْمِنُوْنَ} … بیشکیہ عزت والے قاصد کی بات ہے، یہ کسی شاعر کا قول نہیں ہے، مگر کم ہی تم ایمان لاتے ہو۔ میں نے کہا: یہ نبی تو نجومی ہے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان آیات کی تلاوت کی: {وَلَا بِقَوْلِ کَاھِنٍ قَلَیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ، تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِیْلِ لَأَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ ثُمَّّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ، فَمَا مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْہُ حَاجِزِیْنِ} … اور نہ یہ قرآن کسی کاہن اور نجومی کا قول ہے، افسوس بہت کم نصیحت لے رہے ہو، یہ تو رب العالمین کا اتارا ہوا ہے، اور اگر یہ ہم پر کوئی بھی بات بنا لیتا تو البتہ ہم اس کو دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے، اور پھر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے، پھر تم میں سے کوئی بھی اس سے روکنے والے نہ ہوتے، یقینایہ قرآن پرہیزگاروں کے لیے نصیحت ہے، ہمیں پوری طرح معلوم ہے کہ تم میں سے بعض اس کے جھٹلانے والے ہیں، بیشکیہ جھٹلانا کافروں پر حسرت ہے، اور بے شک و شبہ یہیقینی حق ہے، پس تو اپنے ربّ عظیم کی پاکی بیان کر۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: (پس قرآن کا یہ حصہ سننا تھا کہ) اسلام میرے دل میں گھر کر گیا۔

Haidth Number: 10542
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:میں نے ارادہ کیا کہ میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیٹی کے بارے میں پیغام بھیجوں، لیکن پھر میں نے سوچا کہ میرے پاس تو کوئی مال نہیں ہے، سو میں کیا کروں، پھر مجھے یاد آیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو صلہ رحمی کرتے ہیں اور بار بار ہمارے گھر آتے جاتے رہتے ہیں، پس میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ پیغام بھیج دیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تیرے پاس کوئی چیز ہے؟ میں نے کہا: جی نہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ حطمی زرہ کہاں ہے، جو میں نے تجھے فلاں دن دی تھی؟ میں نے کہا: وہ میرے پاس ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہی فاطمہ کو دے دو۔

Haidth Number: 10722

۔ (۱۰۷۲۳)۔ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمَّا زَوَّجَہُ فَاطِمَۃَ، بَعَثَ مَعَہَ بِخَمِیْلَۃٍ وَوِسَادَۃٍ مِنْ اَدَمٍ حَشْوُھَا لِیْفٌ (وَفِیْ لَفْظٍ: لَیْفُ الْاِذْخَرِ) وَرَحْیَیْنِ وَسِقَائً وَ جَرَّتَیْنِ، فَقَالَ عَلِیٌّ لِفَاطِمَۃَ ذَاتَ یَوْمٍ: وَاللّٰہِ! لَقَدْ سَنَوْتُ حَتّٰی لَقَدِ اشْتَکَیْتُ صَدْرِیْ، قَالَ: وَقَدْ جَائَ اللّٰہُ اَبَاکَ بِسَبْیٍ، فَاذْھَبِیْ فَاسْتَخْدِمِیْہِ، فَقَالَتْ: وَاَنَا وَاللّٰہِ! قَدْ طَحَنْتُ حَتّٰی مَجَلَتْ یَدِیْ، فَاَتَتِ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((مَا جَائَ بِکِ اَیْ بُنَیَّۃَ؟)) قَالَتْ: جِئْتُ لِاُسَلِّمَ عَلَیْکَ، وَاسْتَحْیَتْ اَنْ تَسْاَلَہُ وَرَجَعَتْ، فَقَالَ: مَا فَعَلْتِ؟ قَالَتْ: اسْتَحْیَیْتُ اَنْ اَسْاَلَہُ، فَاَتَیْنَا جَمِیْعاً، فَقَال عَلِیٌّ: یَا رَسُوْلُ اللّٰہِ، وَاللّٰہِ! لَقَدْ سَنَوْتُ حَتَّی اشْتَکَیْتُ صَدْرِیْ، وَقَالَتْ فَاطِمَۃُ: قَدْ طَحَنْتُ حَتّٰی مَجَلَتْ یَدَایَ وَقد جَائَکَ اللّٰہُ بِسَبْیٍ وَسِعَۃٍ فَاَخْدِمْنَا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((وَاللّٰہِ! لَا اُعْطِیْکُمَا وَاَدَعُ اَھْلَ الصُّفَّۃَ تَطْوِیْ بُطُوْنُہُمْ لَا اَجِدُ مَا اُنْفِقُ عَلَیْہِمْ، وَلٰکِنِّیْ اَبِیْعُہُمْ وَاُنْفِقُ عَلَیْہِمْ اَثْمَانَہُمْ۔)) فَرَجَعَا فَاَتَاھُمَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَدْ دَخَلَا فِیْ قَطِیْفَتِہِمَا اِذَا غَطَّتْ رُئُ وْسَہُمَا تَکَشَّفَتْ اَقْدَامُھُمَا، وَإِذَا غَطَّیَا اَقْدَامَہَمَا تَکَشَّفَتْ رُئُ ْوسُہُمَا فَثَارَا، فَقَالَ: ((مَکَانَکُمَا۔)) ثُمَّ قَالَ: ((اَلَا اُخْبِرُ کُمَا بِخَیْرِ مِمَّا سَاَلْتُمَانِیْ؟)) قَالَا: بَلٰی! فَقَالَ: ((کَلِمَاتٍ عَلَّمَنِیْہِنَّ جِبْرِیْلُ علیہ السلام ، فَقَالَ: تُسَبِّحَانِ فِیْ دُبُرِ کُلِّ صَلَاۃٍ عَشْرًا، وَتَحْمَدَانِ عَشْرًا، وَتُکَبِّرَانِ عَشْرًا، وَإِذَا اٰوَیْتُمَا اِلٰی فِرَاشِکُمَا فَسَبِّحَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِیْنَ، وَاحْمَدَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِیْنَ، وَکَبِّرَا اَرْبَعًا وَثَلَاثِیْنَ۔)) قَال: فَوَ اللّٰہِ! مَا تَرَکْتُہُنَّ مُنْذُ عَلَّمَنِیْہِنَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: فَقَالَ لَہُ ابْنُ الْکَوَائِ: وَلَا لَیْلَۃَ صِفِّیْنَ، فَقَالَ قَاتَلَکُمُ اللّٰہُ، یَا اَھْلَ الْعَرَاقِ! نَعَمْ، وَلَا لَیْلَۃَ صِفِّیْنَ۔ (مسند احمد: ۸۳۸)

سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیّدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے نکاح کیا تو آپ نے ان کے ہمراہ ایک اونی چادر، چمڑے کا ایک تکیہ، جس میں کھجور کے درخت کی چھال بھری ہوئی تھی، دو چکیاں، ایک مشک اور دو مٹکے بھیجے، ایک دن سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیّدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے کہا کہ باہر سے پانی لالا کر اب تو میرا سینہ دکھنے لگا ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ کے والد کے پاس کچھ قیدی بھیج دئیے ہیں، تم جا کر ان سے ایک خادم طلب کر لو، انہوں نے کہا اللہ کی قسم! میرا بھی اب تو یہ حال ہو چکا ہے کہ آٹا پیسنے کے لیے چکی چلا چلا کر میرے ہاتھوں پر گٹے پڑ گئے ہیںیعنی ہاتھ بہت سخت ہو گئے ہیں۔ چنانچہ سیّدہ، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں گئیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت کیا: بیٹی! کیسے آنا ہوا؟ انہوں نے کہا میں تو محض سلام کہنے کی غرض سے آئی ہوں، اور کوئی چیز طلب کرنے سے جھجک گئیں۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے پوچھا کہ کیا بنا؟ انہوں نے بتلایا:میں تو شرم کے مارے آپ سے کچھ نہیں مانگ سکی، پھر ہم دونوں آپ کی خدمت میں گئے، اس بار سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! باہر سے پانی لالا کر میرا سینہ دکھنے لگا ہے، اور سیّدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا کہ چکی چلاچلا کر میرے ہاتھوں پر گٹے پڑ گئے ہیں، اب اللہ نے آپ کے پاس قیدی بھیجے ہیں اور آپ کو مالی طور پر خوش حال کر دیا ہے، پس آپ ہمیں ایک خادم عنایت کر دیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں تمہیں خادم نہیں دے سکتا، جب کہ اہلِ صفہ کا حال یہ ہے کہ بھوک کے مارے ان کے پیٹ بل کھاتے ہیں اور میرے پاس اس قدر گنجائش نہیں کہ ان پر کچھ خرچ کر سکوں، یہ جو قیدی آئے ہیں، میں انہیں فروخت کر کے ان سے حاصل ہونے والی رقم اصحاب صفہ پر خرچ کروں گا۔ یہ سن کر وہ دونوں لوٹ آئے، بعد میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے ہاں ایسے وقت تشریف لے گئے، جب وہ اپنی چادر میں داخل ہو چکے تھے، اور اس چادر کا بھییہ حال تھا کہ وہ چادر ان کے سروں کو ڈھانپتی تو ان کے پاؤں ننگے ہو جاتے اور جب وہ دونوں اپنے کے پاؤں ڈھانپتے تو ان کے سر ننگے رہ جاتے، وہ اٹھ کر بیٹھنے لگے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کوئی بات نہیں، تم اپنی جگہ پرہی رہو۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آپ لوگوں نے مجھ سے جو کچھ طلب کیا تھا، اب کیا میں تمہیں اس سے بہتر بات نہ بتلاؤں؟ دونوں نے کہا: ضرور، ضرور، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ چند کلمات ہیں جو جبریل علیہ السلام نے مجھے سکھائے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم ہر نماز کے بعد دس مرتبہ سُبْحانَ اللّٰہ، دس مرتبہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ، اور دس مرتبہ اَللّٰہُ اَکْبَر کہہ لیا کرو اور جب تم سونے کے لیے بستر پر آؤ تو ۳۳ مرتبہ سُبْحَانَ اللّٰہ، ۳۳ مرتبہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ اور ۳۴ مرتبہ اَللّٰہُ اَکْبَر کہہ لیا کرو۔ سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: جب سے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے یہ کلمات سکھائے ہیں، میں نے انہیں ترک نہیں کیا۔ یہ سن کر عبداللہ بن کواء نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: کیا آپ نے جنگ صفین والی رات کو بھی انہیں ترک نہیں کیا تھا؟ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اہل ِ عراق! اللہ تمہیں ہلاک کرے، ہاں صفین کی شب کو بھی میںنے اس عمل کو ترک نہیں کیا۔

Haidth Number: 10723

۔ (۱۰۷۲۴)۔ أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ حَدَّثَنِی ابْنُ شِہَابٍ عَنْ عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ عَنْ أَبِیہِ حُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ عَلِیٌّ: أَصَبْتُ شَارِفًا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی الْمَغْنَمِ یَوْمَ بَدْرٍ، وَأَعْطَانِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شَارِفًا أُخْرٰی، فَأَنَخْتُہُمَا یَوْمًا عِنْدَ بَابِ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، وَأَنَا أُرِیدُ أَنْ أَحْمِلَ عَلَیْہِمَا إِذْخِرًا لِأَبِیعَہُ وَمَعِی صَائِغٌ مِنْ بَنِی قَیْنُقَاعَ لِأَسْتَعِینَ بِہِ عَلٰی وَلِیمَۃِ فَاطِمَۃَ، وَحَمْزَۃُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ یَشْرَبُ فِی ذٰلِکَ الْبَیْتِ، فَثَارَ إِلَیْہِمَا حَمْزَۃُ بِالسَّیْفِ فَجَبَّ أَسْنِمَتَہُمَا وَبَقَرَ خَوَاصِرَہُمَا، ثُمَّ أَخَذَ مِنْ أَکْبَادِہِمَا، قُلْتُ لِابْنِ شِہَابٍ: وَمِنَ السَّنَامِ؟ قَالَ: جَبَّ أَسْنِمَتَہُمَا، فَذَہَبَ بِہَا، قَالَ: فَنَظَرْتُ إِلٰی مَنْظَرٍ أَفْظَعَنِی، فَأَتَیْتُ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَعِنْدَہُ زَیْدُ بْنُ حَارِثَۃَ فَأَخْبَرْتُہُ الْخَبَرَ، فَخَرَجَ وَمَعَہُ زَیْدٌ فَانْطَلَقَ مَعَہُ فَدَخَلَ عَلٰی حَمْزَۃَ فَتَغَیَّظَ عَلَیْہِ، فَرَفَعَ حَمْزَۃُ بَصَرَہُ فَقَالَ: ہَلْ أَنْتُمْ إِلَّا عَبِیدٌ لِأَبِی، فَرَجَعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُقَہْقِرُ حَتّٰی خَرَجَ عَنْہُمْ وَذٰلِکَ قَبْلَ تَحْرِیمِ الْخَمْرِ۔ (مسند احمد: ۱۲۰۱)

سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ بدر کے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میںمجھے مالِ غنیمت میں سے ایک اونٹ ملا، اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے ایک اور اونٹ عطا فرمایا تھا، میں نے ایک دن دونوں اونٹوں کو ایک انصاری کے دروازے کے پاس بٹھایا۔ میں اذخرگھاس کاٹ کر ان پر لاد کر لے جا کر بیچنا چاہتا تھا۔ میرے ہمراہ بنو قینقاع کا ایک صراف شخص بھی تھا، میں اس سے حاصل ہونے والی رقم کو سیّدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ولیمہ پرخرچ کرنا چاہتا تھا۔ انصاری کے اس گھر میں سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیٹھے شراب نوشی کر رہے تھے کہ اچانک وہ تلوار لے کر اُٹھے اور اونٹوں کی طرف لپک کر ان کے کوہان کاٹ ڈالے اور ان کی کوکھیں چاک کر دیں اور ان کے جگر نکال کر چلتے بنے۔ ابن جریج راوی کہتے ہیں: میں نے اپنے شیخ زہری سے دریافت کیا کہ کوہانوں کا کیا بنا؟ انہوں نے کہا: انہیں بھی وہ کاٹ کر ساتھ لے گئے۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں یہ منظر دیکھ کر خوف زدہ ہو گیا اور گھبرا گیا، میں اسی وقت نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پہنچا، اس وقت سیدنا زید بن حارثہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی وہاں موجود تھے۔ میں نے سارا واقعہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گوش گزار کیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور سیدنا زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ وہاں سے روانہ ہو کر سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف گئے اور ناراضگی کا اظہار فرمایا، سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنی نظروں کو گھمایا اور کہنے لگے: تم لوگ تو میرے باپ کے غلام ہو۔ سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کییہ بات سن کر رسول اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ الٹے پاؤں واپس ہو کر واپس لوٹ آئے۔ یہ واقعہ شراب کی حرمت سے پہلے کاہے۔

Haidth Number: 10724
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے بلال! تم ایسا کون سا عمل کرتے ہو کہ تمہیں اسلام میں اس کے بہت زیادہ نفع یعنی ثو اب کی امید ہو؟ کیونکہ میں نے آج رات جنت میں اپنے آگے آگے تمہارے جوتوں کی آہٹ سنی ہے۔ سیدنا بلا ل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا: میں نے اسلام میں اور تو کوئی ایسا عمل نہیں کیا، جس پر مجھے یہ ثواب ملا ہو،البتہ میرا معمول ہے کہ میں دن رات میںجب بھی وضو کرتا ہوں تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ مجھے جس قدر توفیق دیتا ہے، میں نماز ادا کر لیتا ہوں۔

Haidth Number: 11646
سیدنا بریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے گزشتہ حدیث کے ہم معنی حدیث روایت کی ہے،البتہ اس میں یہ وضاحت ہے: رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: تم کس عمل کی بدولت جنت میں مجھ سے پہلے پہنچ گئے۔ انہوں نے عرض کیا: میں کوئی خاص عمل تو نہیں کرتا البتہ جب بھی بے وضو ہوتا ہوں تو وضو کرتا ہوں اور پھر دور رکعت نماز ادا کرتا ہوں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بس اسی عمل کی وجہ سے ہے۔

Haidth Number: 11647
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ جس رات کو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اسراء کرایا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جنت میں داخل ہوئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی ایک طرف سے ہلکی سی آواز سنی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: اے جبریل! یہ آواز کون سی ہے؟ انھوں نے کہا: یہ بلال مؤذن ہے، پھر جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لوگوں کے پاس آئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تحقیق بلال کامیاب ہو گیا ہے،میں نے اس کے لیےیہ کچھ دیکھا ہے۔

Haidth Number: 11648
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نمازِ فجر سے پیچھے رہ گئے،نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: کہاں رک گئے تھے؟ انھوں نے کہا: میں سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس سے گزرا، وہ چکی چلا رہی تھیں اور بچہ رو رہا تھا۔ میں نے ان سے عرض کیا: آپ چاہیں تو میں چکیچلا دوں اور آپ بچے کو سنبھالیںیا میں بچے کو سنبھال لوں اور آپ چکی چلائیں، انھوں نے کہا: تمہاری نسبت بچے پر میں زیادہ شفیق اور مہربان ہوں، تو اس کام نے مجھے نماز سے دیر کرا دی ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا پر شفقت کی، اللہ تم پر رحم فرمائے۔

Haidth Number: 11649
سالم بن عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ ایک شاعر نے ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سامنے ان کے بیٹے بلال کی وفات پر ایک قصیدہ پڑھتے ہوئے کہا: عبد اللہ کا بلال، بہترین بلال تھا۔یہ سن کر سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم غلط کہہ رہے ہو، یہ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا بلال تھا۔

Haidth Number: 11650

۔ (۱۲۱۷۰)۔ عَنِ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنَّ أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، أَرْسَلَ إِلَیْہِ مَقْتَلَ أَہْلِ الْیَمَامَۃِ، فَإِذَا عُمَرُ عِنْدَہُ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ: إِنَّ عُمَرَ أَتَانِی، فَقَالَ: إِنَّ الْقَتْلَ قَدِ اسْتَحَرَّ بِأَہْلِ الْیَمَامَۃِ مِنْ قُرَّائِ الْقُرْآنِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ، وَأَنَا أَخْشٰی أَنْ یَسْتَحِرَّ الْقَتْلُ بِالْقُرَّائِ فِی الْمَوَاطِنِ، فَیَذْہَبَ قُرْآنٌ کَثِیرٌ لَا یُوعٰی، وَإِنِّی أَرٰی أَنْ تَأْمُرَ بِجَمْعِ الْقُرْآنِ، فَقُلْتُ لِعُمَرَ: وَکَیْفَ أَفْعَلُ شَیْئًا لَمْ یَفْعَلْہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: ہُوَ وَاللّٰہِ! خَیْرٌ، فَلَمْ یَزَلْیُرَاجِعُنِی فِی ذٰلِکَ حَتّٰی شَرَحَ اللّٰہُ بِذٰلِکَ صَدْرِی، وَرَأَیْتُ فِیہِ الَّذِی رَأٰی عُمَرُ، قَالَ زَیْدٌ وَعُمَرُ عِنْدَہُ جَالِسٌ لَا یَتَکَلَّمُ، فَقَالَ أَبُوبَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: إِنَّکَ شَابٌّ عَاقِلٌ لَا نَتَّہِمُکَ، وَقَدْ کُنْتَ تَکْتُبُ الْوَحْیَ لِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاجْمَعْہُ، قَالَ زَیْدٌ: فَوَاللّٰہِ! لَوْ کَلَّفُونِی نَقْلَ جَبَلٍ مِنْ الْجِبَالِ مَا کَانَ بِأَثْقَلَ عَلَیَّ مِمَّا أَمَرَنِی بِہِ مِنْ جَمْعِ الْقُرْآنِ، فَقُلْتُ: کَیْفَ تَفْعَلُونَ شَیْئًا لَمْ یَفْعَلْہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ (مسند احمد: ۷۶)

سیدنا زید بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یمامہ کی لڑائی کے متعلق میری طرف پیغام بھیجا، جس میں بہت سے مسلمان شہید ہوگئے تھے، اس وقت سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی ان کے پاس موجود تھے، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: یہ عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ میرے پا س آئے ہیں اور انہو ں نے بتلایا کہ یمامہ میں شدید لڑائی ہوئی اور بہت سے مسلمان قرائِ کرام شہید ہوگئے ہیں، مجھے خدشہ ہے کہ اگر جنگوںمیں اسی طرح قراء شہید ہوتے رہے تو قرآن کریم کا بڑا حصہ ضائع ہو جائے گا، جسے محفوظ نہیں کیا گیا ہوگا۔ میر اخیا ل ہے کہ آپ قرآن کریم کو یکجا جمع کرنے کا حکم صادر فرمائیں، میں نے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: جو کام اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نہیں کیا، وہ میں کیونکر کروں؟ انہو ںنے کہا: اللہ کی قسم!یہ کام بہتر ہے، وہ میرے ساتھ اس بارے میں اصرار کرتے رہے تاآنکہ اللہ نے اس کا م کے لیے میرا سینہ کھول دیا اور میر ی رائے بھی سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی رائے کے موافق ہوگئی۔ سیدنا زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی وہاں تشریف فرما تھے، مگر انہوں نے کوئی بات نہ کی، سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے فرمایا: زید! تم ایک سمجھدار نوجوان ہو، ہم کسی مسئلے میں تم پر کوئی الزام نہیں لگاتے، تم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حکم سے وحی لکھا کرتے تھے، اب تم ہی اسے ایک جگہ جمع کرو۔ سیدنا زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: اگر وہ مجھے کسی پہاڑ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم دیتے تو وہ میرے لیے اس قدر گراں نہ ہوتا، جتنا میرے لیے قرآن مجید کو یکجا جمع کرنے کا حکم گراں گزرا ہے۔ میں نے بھی ان سے کہا تھا کہ تم لوگ وہ کام کیوں کرتے ہو، جو رسول الہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نہیں کیا؟

Haidth Number: 12170
سیدناعمرو بن عبسہ سلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نجران اور بنو تغلب، یہ دو قبیلے عرب میں بہت برے ہیں اور جنت میں بنو مذحج اور بنو ماکول کے لوگ سب سے زیادہ ہوں گے۔

Haidth Number: 12584
Haidth Number: 12585

۔ (۱۲۹۵۱)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ حَدَّثَنِیْ اَبِیْ ثَنَا زَیْدٌ اَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ عَلِیٍّ بْنِ زَیْدٍ عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ اَبِیْ بَکْرَۃَ عَنْ اَبِیْہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَمْکُثُ اَبَوَا الدَّجَّالِ ثَلَاثِیْنَ عَامًا لَا یُوْلَدُ لَھُمَا، ثُمَّ یُوْلَدُ لَھُمَا غُلَامٌ اَعْوَرُ، (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: مَسْرُوْرًا مَخْتُوْنًا) اَضَرُّ شَیْئٍ وَاَقَلُّہٗنَفْعًاتَنَامُعَیْنَاہُ وَلَایَنَامُ قَلْبُہٗ۔)) ثُمَّنَعَتَاَبَوَیْہِ فَقَالَ: ((اَبُوْہُ رَجُلٌ طِوَالٌ، مُضْطَرِبُ اللَّحْمِ، طَوِیْلُ الْاَنْفِ، کَاَنَّ اَنْفَہٗمِنْقَارٌ،وَاُمُّہُاِمْرَاۃٌ فِرْضَاخِیَۃٌ عَظِیْمَۃُ الثَّدْیَیْنِ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: طَوِیْلَۃٌ)۔)) قَالَ: فَبَلَغَنَا اَنَّّ مَوْلُوْدًا مِنَ الْیَہُوْدِ وُلِدَ بِالْمَدِیْنَۃِ قَالَ: فَانْطَلَقَتُ اَنَا وَالزُّبَیْرُ بْنُ الْعَوَّامِ حَتّٰی دَخَلْنَا عَلٰی اَبَوَیْہِ فَرَاَیْنَا فِیْہِمَا نَعْتَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاِذَا ھُوَ مُنْجَدِلٌ فِی الشَّمْسِ فِیْ قَطِیْفَۃٍ لَہٗھَمْہَمَۃٌ، فَسَاَلْنَا أَبَوَیْہِ فَقَالَا: مَکَثْنَا ثَلَاثِیْنَ عَامًا لَا یُوْلَدُ لَنَا ثُمَّ وُلِدَ لَنَا غُلَامٌ اَعْوَرُ، اَضَرُّ شَیْ ئٍ وَاَقَلُّہُ نَفْعًا، فَلَمَّا خَرَجْنَا مَرَرْنَا بِہٖ۔ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: فَکَشَفْتُ عَنْ رَاْسِہِ) فَقَالَ: مَا کُنْتُمَا فِیْہِ، قُلْنَا: وَسَمِعْتَ؟ قَالَ: نَعَمْ، اِنَّہُ تَنَامُ عَیْنَایَ وَلَایَنَامُ قَلْبِیْ، فَاِذَا ھُوَ ابْنُ صَیَّادٍ۔ (مسند احمد: ۲۰۶۸۹)

سیدناابوبکرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دجال کے والدین کے ہاں تیس سال تک کوئی ولادت نہیں ہوگی، اس کے بعد ان کے ہاں کانا بچہ پیدا ہوگا۔ (ایک روایت میں ہے: اس کا ناڑو پہلے سے ہی کٹا ہوگا اور وہ پیدائشی طور پر ختنہ شدہ ہوگا۔ ) وہ زیادہ نقصان والا اور کم نفع والابچہ ہوگا، وہ جب سوئے گا تو اس کی آنکھیں سوئیں گی اور دل جاگتا ہوگا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے والدین کے بارے میں بتایا کہ اس کا باپ طویل قد اور کمزور جسم والا ہوگا، اس کی ناک چونچ کی طرح ہوگی اور اس کی ماں بڑی چھاتی والی ہو گی اور اس کے پستان بڑے بڑے اور لمبے لمبے ہوں گے۔ بعد ازاں ہمیں اطلاع ملی کہ مدینہ میں یہودیوں کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا ہے، میں (ابو بکرہ) اور سیدنا زبیر بن عوام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس کے والدین کے ہاں چلے گئے، ہم نے ان میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیان کردہ نشانیاں دیکھیں، اُدھر وہ بچہ دھوپ میں چادر اوڑھے ہوئے لیٹا تھا اور اس کی گنگناہٹ سنائی دے رہی تھی، ہم نے اس کے ماں باپ سے کچھ باتیں پوچھیں، انہوں نے بتلایا: تیس سال تو ہمارے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی، اس کے بعد ہمارے ہاں ایک کانا بچہ پیدا ہوا، جو بڑا ضرر رساں اور کم نفع والا تھا۔ پھر جب ہم وہاں سے نکلے تو اس بچے کے پاس سے گزرے، میں نے اس کے سر سے کپڑا ہٹایا تو وہ بولا: تم کیا باتیں کر رہے تھے؟ ہم نے کہا: کیا تو ہماری باتیں سن رہا تھا؟ اس نے کہا: ہاں، میری آنکھیں سوتی ہیں اور میرا دل نہیں سوتا، وہ ابن صیاد تھا۔

Haidth Number: 12951

۔ (۱۲۹۵۲)۔ وَعَنْ زَیْدِ بْنِ وَھْبٍ قَالَ: قَالَ اَبُوْذَرٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: لَاَنْ اَحْلِفَ عَشْرَ مِرَارٍ اَنَّ ابْنَ صَیَّادٍ ھُوَ الدَّجَّالُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ اَنْ اَحْلِفَ مَرَّۃً وَاحِدَۃً اَنَّہٗلَیْسَ بِہٖقَالَ: وَکَانَرَسُوْلُاللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعَثَنِیْ اِلٰی اُمِّہِ قَالَ: ((سَلْہَا کَمْ حَمَلَتْ بِہٖ۔)) قَالَ: فَاَتَیْتُہَا فَسَاَلْتُہَا، فَقَالَتْ: حَمَلْتُ بِہٖاِثْنَیْ عَشَرَ شَہْرًا، قَالَ: ثُمَّ اَرْسَلَنِیْ اِلَیْہَا فَقَالَ: ((سَلْہَا عَنْ صَیْحَتِہٖ حِیْنَ وَقَعَ۔)) قَالَ: فَرَجَعْتُ اِلَیْہَا فَسَاَلْتُہَا فَقَالَتْ: صَاحَ صَیْحَۃِ الصَّبِیِّ اِبْنِ شَہْرٍ، ثُمَّ قَالَ لَہٗرَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أِنِّیْ قَدْ خَبَأْتُ لَکَ خَبْاً۔)) قَالَ: خَبَأْتَ لِیْ خَطْمَ شَاۃٍ عَفْرَائَ وَالدُّخَانَ قَالَ: فَاَرَادَ اَنْ یَّقُوْلَ اَلدُّخَانَ فَلَمْ یَسْتَطِعْ، فَقَالَ: اَلدُّخَ اَلدُّخَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِخْسَاْ، فَاِنَّکَ لَنْ تَعْدُوَ قَدْرَکَ۔)) (مسند احمد: ۲۱۶۴۵)

سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:اگر میں دس دفعہ قسم اٹھا کر کہوں کہ ابن صائد (یعنی ابن صیاد) ہی دجال ہے، تو یہ بات مجھے اس بات سے زیادہ محبوب ہے کہ میں ایک دفعہ قسم اٹھا کر یہ کہوں کہ وہ دجال نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے اس کی ماں کی طرف بھیجا اور فرمایا کہ اس سے پوچھ کرآؤ کہ اس بچے کا حمل کتنا عرصہ اس کے پیٹ میں رہا۔ میں اس کے ہاں گیا اور اس سے اس بارے میں پوچھا، اس نے بتلایا کہ بارہ مہینے اسے اس کا حمل رہا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے دوبارہ بھیج دیا اور فرمایا کہ یہ پوچھ کر آؤ کہ ولادت کے وقت اس کی چیخ کیسی تھی میں اس کے پاس دوبارہ گیا اور اس سے یہ سوال کیا، اس نے بتلایا کہ اس کی چیخ ایک ماہ کے بچے کی سی تھی،پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: میں نے اپنے دل میں ایک چیز چھپائی ہے، (وہ کیا ہے)؟ ابن صیاد نے کہا:آپ مجھ سے خَطْمَ شَاۃٍ عَفْرَائَ وَالدُّخَانَ کے الفاظ چھپائے ہیں، وہ کہتا تو الدُّخَانَ چاہتا تھا، لیکن پورا لفظ کہنے کی اسے طاقت نہ ہوئی اس لیے اس نے کہہ دیا: اَلدُّخَ اَلدُّخَ ۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ذلیل ہو جا، تو اپنی حیثیت سے آگے نہیں بڑھ سکے گا۔

Haidth Number: 12952
سیدنا زید بن ارقم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سفر میں ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ایک مقام میں ٹھہرے،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا ـ: میری امت کے جو لوگ حوضِ کوثر پر میرے پاس آئیں گے، تم ان کا لاکھواں حصہ بھی نہیں ہو۔‘ ہم نے سیدنا زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: تم اس دن کتنے لوگ تھے؟ انھوں نے کہا: ہم سات آٹھ سو افراد تھے۔

Haidth Number: 13143