Blog
Books
Search Hadith

برائی کا عزم اور نیت کر لینے کا بیان

860 Hadiths Found
۔ سیدنا ابو بکرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب دو مسلمان اپنی اپنی تلواروں کے ساتھ ایک دوسرے کے مقابلے میں آ جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو قتل کر دیتا ہے تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جاتے ہیں۔ کسی نے کہا: یہ تو قاتل ہے، لیکن مقتول (کے جہنم میں جانے) کی کیا وجہ ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس نے اپنے ساتھی کو قتل کرنے کا ارادہ کیا ہوا تھا۔

Haidth Number: 8897
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک کام میں کوئی رخصت دی، لیکن بعض لوگوں نے اس کو قبول کرنے سے گریز کیا، پھر جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ بات پہنچی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اتنے غصے ہو گئے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرے پر غصہ نظر آنے لگا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ اس چیز سے اعراض کر رہے ہیں، جس میں مجھے (بھی) رخصت دی گئی ہے، اللہ کی قسم! لوگوں میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ جاننے والا اور سب سے زیادہ اس سے ڈرنے والا میں ہوں۔

Haidth Number: 8931
۔ ابو وائل کہتے ہیں: سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہر جمعرات یا سوموار کو وعظ و نصیحت کرتے تھے، ہم نے کہا: اے ابو عبد الرحمن! ہم آپ کی گفتگو پسند کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں روزانہ وعظ و نصیحت کریں، جواب میں سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: مجھے اس سے روکنے والی چیزیہ ہے کہ میں تمہیں اکتا دینے کو ناپسند کرتا ہوں اور میں نصیحت سے تمہاری ایسے ہی نگہداشت کرتا ہوں، جیسے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہماری کرتے تھے۔

Haidth Number: 8932
۔ شقیق کہتے ہیں: ہم مسجد میں سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا انتظار کر رہے تھے، انھوں نے ہمارے پاس آنا تھا، اتنے میںیزید بن معاویہ نخعی آ گئے اور کہا: کیا میں خود ان کی طرف چلا جاؤں اور ان کو دیکھوں، اگر وہ گھر میں ہوئے تو ان کو تمہاری طرف لے آنا میری ذمہ داری ہو گی، پس سیدنا عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے اور ہمارے پاس کھڑے ہو کر کہا: مجھے تمہارا مقام و مرتبہ یاد آ رہا تھا، لیکن بات یہ ہے کہ میں اس لیے تمہارے پاس نہیں آتا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اکتا جاؤ، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے اکتا جانے کو ناپسند کرتے ہوئے وعظ و نصیحت کرنے میں ہمارا خیال رکھتے تھے۔

Haidth Number: 8933
۔ سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک بدو، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے ایسے عمل کی تعلیم دیں جو مجھے جنت میں داخل کر دے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگرچہ تو نے بات تو مختصر کی ہے، لیکن مسئلہ بڑا پیش کر دیا ہے، جواب یہ ہے کہ تو مکمل غلام آزاد کر یا کسی غلام کی آزادی میں کچھ حصہ ڈال دے۔ میں نے کہا: کیا عِتْقُ النَّسَمَۃ اور فَکُّ الرَّقَبَۃ ایک ہی چیز نہیں ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، عِتْقُ النَّسَمَۃ سے مراد یہ ہے کہ تم خود مکمل غلام کو آزاد کرو اور فَکُّ الرَّقَبَۃ یہ ہے کہ تم کسی غلام کی آزادی میں کچھ حصہ ڈال دو، زیادہ دودھ والے جانور کا عطیہ دینا، ظالم رشتہ دار پر مہربانی کرنا اور اس سے نیکی کرنا، پس اگر تم کو اس کی طاقت نہ ہو تو بھوکے کو کھانا کھلا دینا، پیاسے کو پانی پلا دینا، نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے منع کرنا، اور اگر تم کو اس کی طاقت بھی نہ ہو تو اپنی زبان کو روک لینا، ما سوائے امورِ خیر کے۔

Haidth Number: 8959
۔ سیدنا عبد اللہ بن حبشی خثعمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ سوال کیا گیا کہ کون سا عمل افضل ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایسا ایمان جس میں کوئی شک نہ ہو، ایسا جہاد کہ جس میں کوئی خیانت نہ ہو اور حج مبرور۔ کسی نے کہا: کون سی نماز افضل ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لمبا قیام کرنا۔ کسی نے کہا: کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کم مایہ آدمی کی طاقت کے بقدر۔ کسی نے کہا: کون سی ہجرت افضل ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس آدمی نے اللہ کے حرام کردہ امور کو ترک کر دیا‘ اس کییہ ہجرت (یعنی حرام کاموں کو چھوڑ دینا) افضل ہے۔ کسی نے کہا: کون سا جہاد افضل ہے؟آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مال وجان سمیت مشرکین سے جہاد کرنا۔ پھر یہ سوال کیا گیا کہ کون سا قتل (یعنی شہادت) بلند مرتبہ ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس میں مجاہد کا خون بہا دیا جائے اور اس کے گھوڑے کی کونچیں کاٹ دی جائیں۔

Haidth Number: 8960
۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی ، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! کون سی نماز افضل ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لمبے قیام والی۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! کون سا جہاد افضل ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس کے گھوڑے کی کونچیں کاٹ دی جائیں اور جس کا خون بہا دیا جائے۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! کون سی ہجرت افضل ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے اللہ تعالیٰ کے نا پسندیدہ امور کو ترک کر دیا۔ اس نے کہا: کون سا مسلمان افضل ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! واجب کرنے والی دو چیزیں کون سی ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو شخص اس حال میں مرا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو، وہ جنت میں داخل ہو گا اور جو شخص اس حال میں مرا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک کرتا ہو، وہ جہنم میںداخل ہو گا۔

Haidth Number: 8961
۔ سیدنا ماعز ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سوال کیا گیا کہ اعمال میں سے کون سا عمل افضل ہے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا، جو کہ یکتا و یگانہ ہے، پھر جہاد کرنا، پھر حج مبرور، یہ عمل تو باقی اعمال سے اس طرح فضیلت لے جاتا ہے، جیسے سورج کے طلوع اور غروب کے درمیان فاصلہ ہے۔

Haidth Number: 8962
۔ سیدنا جریر بن عبد اللہ بَجَلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھ پر کوئی شرط لگاؤ، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، فرضی نمازیں ادا کرو، فرضی زکوۃ ادا کرو، ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرو اور کافرسے بری ہو جاؤ۔

Haidth Number: 8963
۔ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول! کون سا عمل افضل ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کے راستے میں جہاد کرنا۔ میں نے کہا: کون سی گردن آزاد کرنا افضل ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو مالکوں کے ہاں سب سے عمدہ اور سب سے زیادہ قیمت والی ہو۔ میں نے کہا: اگر مجھ میں یہ عمل کرنے کی طاقت نہ ہو تو؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جواب دیا: تو کسی ہنر مند کی معاونت کر دیا کرو یا کسی بے ہنر انسان کا کوئی کام کر دیا کرو۔ میں نے کہا: اگر میں یہ کارِ خیر کرنے سے بھی عاجز رہوں تو؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ’تو تم لوگوں کو اپنے شرّ سے محفوظ رکھو‘ یہ بھی تمہارا اپنے آپ پر صدقہ ہو گا۔

Haidth Number: 8964
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سوال کیا اور کہا: اے اللہ کے نبی! کون سا عمل سب سے زیادہ فضیلت والا ہے؟ …۔ پھر اوپر والی حدیث کی طرح ذکر کیا۔

Haidth Number: 8965
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں بہترین مخلوق کے بارے میں بتلا نہ دوں؟ صحابہ نے کہا: کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ آدمی ہے جس اللہ تعالیٰ کے راستے میں گھوڑے کی لگام پکڑ رکھی ہو، جب کبھی کہیں سے کوئی خوفناک آواز آتی ہے تو وہ اس پر سوار ہو کر تیار ہو جاتا ہے۔ اب کیا میں تمہیں اس آدمی کے بارے میں بھی نہ بتلا دوں، جس کا مرتبہ اس سے کچھ کم ہے۔ انھوں نے کہا: کیوں نہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ آدمی جو اپنی بکریوںکے ایک ریوڑ میں ہو اور نماز ادا کرتا ہو اور زکوۃ دیتا ہو۔ اب کیا میں تمہیں بد ترین آدمی کے بارے میں نہ بتلا دوں؟ انھوں نے کہا: جی کیوں نہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ شخص ہے، جس سے اللہ تعالیٰ کے نام پر سوال کیا جاتا ہے، لیکن پھر بھی وہ نہیں دیتا۔

Haidth Number: 8966
۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سوال کیا کہ کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔ میں نے کہا: پھر کون سا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پھر والدین کے ساتھ نیکی کرنا۔ میں نے کہا: پھر کون سا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پھر جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے یہ امور بیان کیے اور اگر میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے زیادہ کا مطالبہ کرتا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بھی مجھے زیادہ بتلانا تھا۔

Haidth Number: 8967
۔ سیدہ شفاء بنت عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، جو کہ مہاجر صحابیات میں سے تھیں، سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے افضل اعمال کے بارے میں سوال کیا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا، اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنا اور حج مبرور ادا کرنا۔

Haidth Number: 8968
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس قسم کی حدیث بیان کی ہے۔

Haidth Number: 8969
۔ سُلیم بن عامر سے مروی ہے کہ سیدنا ابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جدعاء اونٹنی پر سوار تھے، اپنا پاؤں رکاب میں رکھا ہوا تھا اور کھڑے ہو کر اونچے ہوئے اور فرمایا: کیا تم سن رہے ہو؟ لوگوں کے پیچھے سے ایک آدمی نے کہا: آپ کیا فرما رہے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اپنے پروردگار کی عبادت کر، پانچ نمازیں ادا کرو، اپنے مہینے کے روزے رکھو، اپنے مالوں کی زکوۃ ادا کرو اور اپنے امیر کی اطاعت کرو، اپنے رب کی جنت میںداخل ہو جاؤ گے۔ میں نے کہا: اے ابو امامہ! تم نے یہ حدیث کب سنی تھی؟ انھوں نے کہا: اس وقت سنی تھی، جب میری عمر تیس سال تھی۔

Haidth Number: 8970
۔ سیدناابو مالک اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وضو نصف ایمان ہے، الحمد للہ سے ترازو بھر جاتا ہے، اور سُبْحَانَ اللّٰہِ، وَاللّٰہُ اَکْبَرُ وَلَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ سے آسمانوں اور زمین کا درمیانی خلا بھر جاتا ہے، نماز نور ہے، صدقہ دلیل ہے، صبر روشنی ہے اور قرآن تیری مخالفت میںیا تیرے حق میں دلیل ہو گا، اور ہر آدمی صبح کو اپنا نفس بیچ رہا ہوتا ہے تو کوئی اس کو ہلاک کر دیتا ہے اور کوئی اس کو آزاد کرتا ہے۔

Haidth Number: 8971
۔ سیدناابو مالک اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک جنت میں ایسے بالا خانے ہیں کہ ان کے اندر سے ان کے باہر کے سماں کو اور باہر سے ان کے اندر کے منظر کو دیکھا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اِن کو ان کے لیے تیار کیا ہے، جو کھانا کھلاتے ہیں، نرم کلام کرتے ہیں، تسلسل کے ساتھ روزے رکھتے ہیں اور رات کو جب لوگ سو رہے ہوتے ہیں تو اس وقت نماز پڑھتے ہیں۔

Haidth Number: 8972
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی اسی طرح کی حدیث ِ نبوی بیان کی ہے، سیدنا ابو موسی اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ بالاخانے کس کے لیے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے لیے جو نرم کلام کرتا ہے، کھانا کھلاتا اور اللہ تعالیٰ کے لیے قیام کرتے ہوئے رات گزارتا ہے، جبکہ اس وقت لوگ سو رہے ہوتے ہیں۔

Haidth Number: 8973
۔ سیدہ درہ بنت ابی لہب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں کہ ایک آدمی کھڑا ہوا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منبر پر تھے، اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! کون سے لوگ بہتر ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگوں میں بہترین وہ ہے جو سب سے زیادہ تلاوت کرنے والا ہو، سب سے زیادہ ڈرنے والا ہو، سب سے زیادہ نیکی کا حکم دینے والا ہو، سب سے زیادہ برائی سے منع کرنے والا ہو اور سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والا ہو۔

Haidth Number: 8974
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! کون سا عمل افضل ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا۔ اس نے کہا: اگر مجھ میں اتنا کچھ کرنے کی طاقت نہ ہو تو؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر اپنے نفس کو شرّ سے روکے رکھنا، کیونکہیہبھی صدقہ ہو گا جو تو اپنے نفس پر کرے گا۔

Haidth Number: 8975
۔ سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے پانچ نمازیں ادا کیں، حرمت والے گھر کا حج کیا، رمضان کے روزے رکھے، تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ وہ اس کو بخش دے، وہ اس کی راہ میں ہجرت کرے یا اسی علاقے میں سکونت اختیار کیے رکھے، جس میں پیدا ہوا تھا۔ راوی کو یہیاد نہیں رہا کہ اس حدیث میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے زکوۃ کا ذکر کیا تھا یا نہیں، سیدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا میں لوگوں کو اس حدیث کی خبر دے دوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: معاذ! رہنے دو اور لوگوں کو نہ بتلاؤ (تاکہ وہ دوسرے نیک عمل بھی کرتے رہیں) کیونکہ جنت میں سو درجے ہیں، ہر دو درجوں کے درمیان سو سال کی مسافت کا فرق ہے، جنت کا سب سے اعلی اور ممتاز درجہ فردوس ہے، اسی سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں، اس لیے جب تم اللہ تعالیٰ سے سوال کرو تو فردوس کا سوال کیا کرو۔

Haidth Number: 8976

۔ (۸۹۷۷)۔ عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: اَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَھُوَ فِی الْمَسْجِدِ، فَجَلَسْتُ فَقَالَ: ((یَا اَبَا ذَرٍّ، ھَلْ صَلَّیْتَ؟)) قُلْتُ: لا، قَالَ: ((قُمْ فَصِلِّ۔)) فَصَلَّیْتُ ثُمَّ جَلَسْتُ، فَقَالَ: ((یَا اَبَا ذَرٍّ! تَعَوَّذْ بِاللّٰہِ مِنْ شَرِّ شَیَاطِیْنِ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ۔)) قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! وَلِلْاِنْسِ شَیَاطِیْنُ ؟ قَالَ:((نَعَمْ۔)) قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! الصَّلاۃُ، قَالَ: ((خَیْرٌ مَّوْضُوْعٌ مَنْ شَائَ اَقَلَّ وَمَنْ شَائَ اَکْثَرَ۔)) قَالَ: قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! الصَّوْمُ، قَالَ: ((فَرْضٌ مَّجْزِیٌٔ وَعِنْدَ اللّٰہِ مَزِیْدٌ۔)) قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! فَالصَّدَقَۃُ، قَالَ: ((اَضْعَافٌ مُّضَاعَفَۃٌ۔)) قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! فَاَیُّھَا اَفْضَلُ؟ قَالَ: ((جَہْدٌ مِّنْ مُقِلٍّ اَوْ سِرٍّ اِلٰی فَقِیْرٍ۔)) قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اَیُّ الْاَنْبِیَائِ کَانَ اَوّلاً ؟ قَالَ: ((آدَمُ۔)) قُلْتُ: وَنَبِیًّا کَانَ؟ قَالَ: ((نَعَمْ نَبِیٌّ مُکَلَّمٌ۔)) قَالَ: قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! کَمِ الْمُرْسَلُوْنَ؟ قَالَ: ((ثَلاثُمِائَۃٍ وَبِضْعَۃَ عَشَرَ۔)) وَقَالَ: ((مَرَّۃً وَخَمْسَۃَ عَشَرَ جَمًّا غَفِیْرًا۔))، قَالَ: قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اَیُّمَا اُنْزِلَ عَلَیْکَ اَعْظَمُ ؟ قَالَ: ((آیَۃُ الْکُرْسِیِّ: {اَللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ}۔)) (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: حَتّٰی خَتَمَ الْآیَۃَ) (مسند احمد: ۲۱۸۷۹)

۔ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے، میں آیا اور بیٹھ گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابو ذر! کیا تم نے نماز پڑھی ہے؟ میں نے کہا: جی نہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اٹھو اور نماز پڑھو۔ پس میں نے نماز پڑھی اور پھر بیٹھ گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابو ذر! انسانوں اور جنوں کے شیطانوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگا کرو۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا انسانوں میں بھی شیطان ہوتے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی بالکل۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! نماز کے بارے میں کچھ فرمائیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سب سے بہترین چیز ہے، جس کو بنایا گیا ہے، جو چاہے کم پڑھ لے اور جو چاہے زیادہ پڑھ لے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! روزہ، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ ایسا فرض ہے کہ اس کا بدلہ بھی دیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں مزید بھی بہت کچھ ہے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! صدقہ، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کئی گنا بڑھا دیا جائے گا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کم مایہ آدمی کی طاقت کے بقدر یا کسی فقیر کو چپکے سے دے دینا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! سب سے پہلا نبی کون تھا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آدم علیہ السلام ۔ میں نے کہا: کیا آدم علیہ السلام نبی تھے؟ آپ نے فرمایا: جی ہاں، نبی تھے اور ان سے کلام بھی کیا گیا تھا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مرسلین کی تعداد کتنی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تین سو اور پندرہ سولہ کے لگ بھگ۔ ایک روایت میں ہے: تین سو پندرہ ہے، جم غفیر ہیں۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ پر کون سی عظیم ترین چیز اتاری گئی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آیۃ الکرسی {اَللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ}، ایک روایت میں ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوری آیت تلاوت کی۔

Haidth Number: 8977

۔ (۸۹۷۸)۔ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: احْتَبَسَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذَاتَ غَدَاۃٍ عَنْ صَلاۃِ الصُّبْحِ، حَتّٰی کِدْنَا نَتَرَائٰی قَرْنَ الشَّمْسِ، فَخَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَرِیْعًا فَثُوِّبَ بِالصَّلاۃِ، وَصَلّٰی وَتَجَوَّزَ فِیْ صَلَاتِہِ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَالَ: ((کَمَا اَنْتُمْ عَلٰی مَصَافِّکُمْ۔)) ثُمَّ اَقْبَلَ اِلَیْنَا فَقَالَ: ((اِنِّیْ سَاُحَدِّثُکُمْ مَا حَبَسَنِیْ عَنْکُمُ الْغَدَاۃَ،اَنِّیْ قُمْتُ مِنَ اللَّیْلِ فَصَلَّیْتُ مَا قُدِّرَ لِیْ فَنَعِسْتُ فِیْ صَلاتِیْ حَتَّی اسْتَیْقَظْتُ، فَاِذَا اَنَا بِرَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ فِیْ اَحْسَنِ صُوْرَۃٍ فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ! اَتَدْرِیْ فِیْمَیَخْتَصِمُ الْمَلَاُ الْاَعْلٰی؟ قُلْتُ: لا اَدْرِیْیَارَبِّ! قَالَ: یَامُحَمَّدُ! فِیْمَیَخْتَصِمُ الْمَلَاُ الْاَعْلٰی؟ قُلْتُ: لا اَدْرِیْیَارَبِّ! فَرَاَیْتُہُ وَضَعَ کَفَّہُ بَیْنَ کَتِفَیَّ حَتّٰی وَجَدْتُّ بَرْدَ اَنَامِلِہِ بَیْنَ صَدْرِیْ فَتَجَلّٰی لِیْ کُلُّ شَیْئٍ وَعَرَفْتُ فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ فِیْمَیَخْتَصِمُ الْمَلَاُ الْاَعْلٰی؟ قُلْتُ: فِیْ الْکَفَّارَاتِ، قَالَ: وَمَا الْکَفَّارَاتُ ؟ قُلْتُ: نَقْلُ الْاَقْدَامِ اِلَی الْجُمُعَاتِ وَجُلُوْسٌ فِی الْمَسْجِدِ بَعْدَ الصَّلاۃِ وَاِسْبَاغُ الْوُضُوئِ عَنْدَ الْکَرِیْھَاتِ، قَالَ: وَمَا الدَّرَجَاتُ ؟ قُلْتُ: اِطْعَامُ الطَّعَامِ، وَلِیْنُ الْکَلامِ، وَالصَّلاۃُ وَالنَّاسُ نِیَامٌ، قَالَ: سَلْ، قُلْتُ: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ وَتَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ وَحُبَّ الْمَسَاکِیْنِ وَاَنْ تَغْفِرَلِیْ وَتَرْحَمَنِیْ، وَاِذَا اَرَدْتَّ فِتْنَۃً فِیْ قَوْمٍ فَتَوَفَّنِیْ غَیْرَ مَفْتُوْنٍ، وَاَسْاَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ وَحُبَّ عَمْلٍ یُّقَرِّبُنِیْ اِلٰی حُبِّکَ۔)) وَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَنَّھَا حَقٌّ فَادْرُسُوْھَا وَتُعَلِّمُوْھَا۔)) (مسند احمد: ۲۲۴۶۰)

۔ سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک صبح کو نماز فجر سے اتنی دیر تک رکے رہے کہ قریب تھا کہ سورج کا کنارہ نظر آ جاتا، بہرحال پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جلدی جلدی تشریف لائے، نماز کے لیے اقامت کہی گئی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مختصر سی نماز پڑھائی اور جب سلام پھیرا تو فرمایا: جیسے ہو، اپنی صفوں پر بیٹھے رہو۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: بیشک میں تم کو بیان کرتا ہوں کہ آج صبح کس چیز نے مجھے روکے رکھا، میں رات کو کھڑا ہوا اور جتنی نصیب میں تھی، نماز پڑھی، ابھی میں نماز میں ہی تھا کہ اونگھ آگئی، پھر جب بیدار ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میں اپنے ربّ تعالیٰ کے سامنے ہوں، اللہ تعالیٰ بہت ہی خوبصورت شکل میں تھے، اللہ تعالیٰ نے کہا: اے محمد! مقرب فرشتے کن امور میں بحث مباحثہ کرتے ہیں؟ میں نے کہا: اے میرے ربّ! میں تو نہیں جانتا، اللہ تعالیٰ نے پھر کہا: مقرب فرشتے کس چیز میں بحث کرتے ہیں؟ میں نے کہا: اے میرے رب! مجھے تو علم نہیں ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی ہتھیلی پر میرے کندھوں کے درمیان رکھی، مجھے اپنے سینے میں اس کے پورں کی ٹھنڈک محسوس ہوئی اور ہر چیز میرے لیے واضح ہو گئی اور مجھے معرفت حاصل ہو گئی، پھر اللہ تعالیٰ نے کہا: اے محمد! (اب بتاؤ کہ) مقرب فرشتے کس چیز میں بحث کرتے ہیں؟ میں نے کہا: کفارات میں، اس نے کہا: کفّارات کیا ہوتے ہیں؟ میں نے کہا: جماعتوں کی طرف چل کر جانا، نماز کے بعد مسجد میں بیٹھنا اور ناپسند امور کے باوجود مکمل وضو کرنا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے کہا: درجات کیا ہیں؟ میں نے کہا: کھانا کھلانا، نرم کلام کرنا اور اس وقت نماز ادا کرنا، جب لوگ سو رہے ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے کہا: سوال کرو، میں نے کہا: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ فَعْلَ الْخَیْرَاتِ وَتَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ وَحُبَّ الْمَسَاکِیْنِ وَاَنْ تَغْفِرَلِیْ وَتَرْحَمَنِیْ، وَاِذَا اَرَدْتَّ فِتْنَۃً فِیْ قَوْمٍ فَتَوَفَّنِیْ غَیْرَ مَفْتُوْنٍ، وَاَسْاَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ وَحُبَّ عَمْلٍ یُّقَرِّبُنِیْ اِلٰی حُبِّکَ۔ (اے اللہ! میں تجھ سے نیکی کے کام نیکیاں کرنے، برائیوں کو ترک کرنے، مسکینوں سے محبت کرنا، مجھے بخشنے اور مجھ پر رحم کرنے کا سوال کرتا ہوں اور جب تو کسی قوم میں فتنہ برپا کرنے کا ارادہ کرے تو مجھے اس فتنے میں مبتلا کیے بغیر فوت کر دینا اور میں تجھ سے تیری محبت کا، تجھ سے محبت کرنے والے کی محبت کااور ایسے عمل کی محبت کا سوال کرتا ہوں جو مجھے تیری محبت کے قریب کر دے)۔ پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ حق ہے، لہٰذا اس کو سیکھوں اور سکھاؤ۔

Haidth Number: 8978

۔ (۸۹۷۹)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَائِشٍ، عَنْ بَعْضِ اَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَرَجَ عَلَیْھِمْ ذَاتَ غَدْوَۃٍ وَھُوَ طَیِّبُ النَّفْسِ، مُسْفِرُ الْوَجْہِ، اَوْ مُشْرِقُ الْوَجْہِ، فَقُلْنَا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنَّا نَرَاکَ طَیِّبَ النَّفْسِ، مُسْفِرَ الْوَجْہِ، اَوْ مُشْرِقَ الْوَجْہِ، فَقَالَ: ((وَمَایَمْنَعُنِیْ، وَاَتَانِیْ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ اللَّیْلَۃَ فِیْ اَحْسَنِ صُوْرَۃٍ، قَالَ: یَامُحَمَّدُ! قُلْتُ: لَبَّیْکَ رَبِّیْ وَسَعْدَیْکَ، قَالَ: فِیْمَیَخْتَصِمُ الْمَلَاُ الْاَعْلٰی؟ قُلْتُ: لا اَدْرِیْ اَیْ رَبِّ!، قَالَ: ذٰلِکَ مَرَّتَیْنِ اَوْ ثَلاثًا، قَالَ: فَوَضَعَ کَفَّیْہِ بَیْنَ کَتِفَیَّ فَوَجَدْتُّ بَرْدَھَا بَیْنَ ثَدْیَیَّ حَتّٰی تَجَلّٰی لِیْ مَا فِی الْسَمٰوٰتِ وَمَافِیْ الْاَرْضِ، ثُمَّ تَلا ھٰذِہِ الْآیَۃَ {وَکَذٰلِکَ نُرِی اِبْرَاھِیْمَ مَلَکُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَاْلاَرْضِ وَلِیَکُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ} ثُمَّ قَالَ: یَامُحَمَّدُ ! فِیْمَیَخْتَصِمُ الْمَلَاُ الْاَعْلٰی ؟ قَالَ: قُلْتُ فِی الْکَفَّارَاتِ، قَالَ: وَمَا الْکَفَّارَاتُ ؟ قُلْتُ: الْمَشْیُ عَلَی الْاَقْدَامِ اِلَی الْجُمُعَاتِ، وَالْجُلُوْسُ فِی الْمَسْجِدِ خِلافَ الصَّلَوَاتِ، وَاِبْلاغُ الْوُضُوْئِ فِی الْمَکَارِہِ، قَالَ: مَنْ فَعَلَ ذٰلِکَ عَاشَ بِخَیْرٍ وَمَاتَ بِخَیْرٍ، وَکَانَ مِنْ خَطِیْئَتِہِ کَیَوْمِ وَلَدَتْہُ اُمُّہُ، وَمِنَ الدَّرَجَاتِ طَیِّبُ الْکَلَامِ، وَبَذْلُ السَّلامِ، وَاِطْعَامُ الطَّعَامِ، وَالصَّلاۃُ بِاللَّیْلِ وَالنَّاسُ نِیَامٌ، قَالَ: یَامُحَمَّدُ ! اِذَا صَلَیَّتَ فَقُلْ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ الطَّیِّبَاتِ، وَتَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ، وَحُبَّ الْمَسَاکِیْنِ، وَاَنْ تَتُوْبَ عَلَیَّ، وَاِذَا اَرَدْتَو فِتْنَۃً فِی الْنَّاسِ فَتَوَفَّنِیْ غَیْرَ مَفْتُوْنٍ۔)) (مسند احمد: ۲۳۵۹۷)

۔ عبد الرحمن بن عائش ایک صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ ایک صبح کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صحابہ کے پاس تشریف لائے، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خوشگوار موڈ میں تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرے پر سفیدییا چمک محسوس ہو رہی تھی، ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! آج تو ہم آپ کو بڑے عمدہ موڈ میں دیکھ رہے ہیں اور آپ کے چہرے پر سفیدییا چمک بھی محسوس کی جا رہی ہے، کیا وجہ ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بھلا مجھے کون سی چیز اس سے محروم کر سکتی ہے، بات یہ ہے کہ آج رات میرا ربّ سب سے خوبصورت شکل میں میرے پاس آیا اور کہا: اے محمد! میں نے کہا: جی میرے ربّ! میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، اللہ تعالیٰ نے کہا: مقرب فرشتے کس موضوع پر بحث کرتے ہیں؟ میں نے کہا: اے میرے ربّ! میں تو نہیں جانتا، ایسے دو تین دفعہ ہوا، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی ہتھیلیاں میرے کندھوں پر کے درمیان رکھیں، مجھے اپنے سینے میں ان کی ٹھنڈک محسوس ہوئی اور آسمان و زمین کی ہر چیز میرے لیے واضح ہو گی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت کی: {وَکَذٰلِکَ نُرِی اِبْرَاھِیْمَ مَلَکُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَاْلاَرْضِ وَلِیَکُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ} … اور ہم نے ایسے ہی ابراہیم ( علیہ السلام ) کو آسمانوں اور زمین کی مخلوقات دکھلائیں اور تاکہ وہ کامل یقین کرنے والوں سے ہو جائیں۔ (سورۂ انعام: ۷۵) پھر اللہ تعالیٰ نے کہا: اے محمد! مقرب فرشتے کس چیز میں بحث کرتے ہیں؟ میں نے کہا: کفّارات میں، اللہ تعالیٰ نے کہا: کفارات سے کیا مراد ہے؟ میں نے کہا: جماعتوں کی طرف پیدل چل کر جانا، نمازوں کے بعد مسجد میں بیٹھنا اور ناپسند حالتوں کے باوجود مکمل وضو کرنا۔ پھر فرمایا: جس نے یہ امور سر انجام دیئے، اس نے خیر کے ساتھ زندگی گزاری اور خیر کے ساتھ فوت ہوا، اور اپنے گناہوں سے اس طرح پاک ہو جائے گا، جیسے اس دن تھا، جس دن اس کی ماں نے اس کو جنم دیا تھا، اور درجات یہ ہیں: اچھا کلام کرنا، سلام پھیلانا، کھانا کھلانا اور رات کو جب لوگ سو رہے ہوں تو نماز پڑھنا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے کہا: اے محمد! جب تم نماز پڑھو تو یہ دعا کیا کرو: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ الطَّیِّبَاتِ، وَتَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ، وَحُبَّ الْمَسَاکِیْنِ، وَاَنْ تَتُوْبَ عَلَیَّ، وَاِذَا اَرَدْتَّ فِتْنَۃًفِی الْنَّاسِ فَتَوَفَّنِیْ غَیْرَ مَفْتُوْنٍ۔ … اے اللہ ! میں تجھ سے پاکیزہ چیزوں کو کرنے، برائیوں کو ترک کرنے اور مسکینوں سے محبت کرنے کا سوال کرتا ہوں اور یہ کہ تو مجھ پر رجوع کر اور جب تو لوگوں کے ساتھ فتنے کا ارادہ کرے تو مجھے اس میں مبتلا کیے بغیر فوت کر دینا۔

Haidth Number: 8979
۔ سیدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تجھے خیر و بھلائی کے دروازوں کے بارے میں بتلاتا ہوں، روزہ ڈھال ہے، صدقہ گناہوں کو اس طرح مٹاتا ہے، جیسے پانی آگ کو ختم کر دیتا ہے اور رات کو بندے کا قیام کرنا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت کی: {تَتَجَافٰی جُنُوبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ…}۔

Haidth Number: 8980

۔ (۸۹۸۱)۔ وَعَنْ اَبِیْ تَمِیْمَۃَ، عَنْ رَجُلٍ مِّنْ قَوْمِہِ اَنَّہُ اَتٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَوْ قَالَ:شَہِدْتُّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاَتَاہُ رَجُلٌ فَقَالَ: اَنْتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ اَوْ قَالَ: اَنْتَ مُحَمَّدٌ ؟ فَقَالَ:(( نَعَمْ۔)) قَالَ: فَاِلامَ تَدْعُوْا؟ قَالَ: ((اَدْعُوْ اِلَی اللّٰہِ وَحْدَہُ، مَنْ اِذَا کَانَ بِکَ ضُرٌ فَدَعَوْتَہُ کَشَفَہُ عَنْکَ، وَمَنْ اِذَا اَصَابَکَ عَامُ سَنَۃٍ فَدَعَوْتَہُ اَنْبَتَ لَکَ، وَمَنْ اِذَا کُنْتَ فِیْ اَرْضٍ قَفْرٍ فَاَضْلَلْتَ فَدَعَوْتَہُ رَدَّ عَلَیْکَ۔)) قَالَ: فَاَسْلَمَ الرَّجُلُ، ثُمَّ قَالَ: اَوْصِنِیْیَارَسُوْلَ اللّٰہِ! فَقَالَ لَہُ: ((لا تَسُبَّنَّ شَیْئًا اَوْ قَالَ: اَحَدًا ۔)) شَکَّ الْحَکَمُ (اَحَدُ الرُّوَاۃِ) قَالَ: فَمَا سَبَبْتُ شَیْئًا بَعِیْرًا وَلا شَاۃً مُنْذُ اَوْصَانِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ،((وَلا تَزْھَدْ فِی الْمَعْرُوْفِ وَلَوْ بِبَسْطِ وَجْھِکَ اِلٰی اَخِیْکَ وَاَنْتَ تُکَلِّمُہُ، وَاَفْرِغْ مِنْ دَلْوِکَ فِیْ اِنَائِ الْمُسْتَسْقِیْ، وَاتَّزِرْ اِلٰی نِصْفِ السَّاقِ، فَاِنْ اَبَیْتَ فَاِلَی الْکَعْبَیْنِ، وَاِیَّاکَ وَاِسْبَالَ الْاِزَارِ قَالَ: فَاِنِّھَا مِنَ الْمَخِیْلَۃِ، وَاللّٰہُ لا یُحِبُّ الْمَخِیْلَۃَ۔)) (مسند احمد: ۱۶۷۳۳)

۔ ابو تمیمہ اپنی قوم کے ایک آدمی سے بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا،یا اس نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس ایک آدمی آیا، جبکہ میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس موجود تھا، اس نے کہا: آپ اللہ کے رسول ہیںیا آپ محمد( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔ اس نے کہا: آپ کس چیز کی دعوت دیتے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں اس یکتا و یگانہ رب کی طرف دعوت دیتا ہوں کہ اگر تجھ پر کوئی تکلیف آ پڑے گی اور تو اس کو پکارے گا تو وہ تیری تکلیف کو دور کر دے گا، جب تو قحط سالی میں مبتلا ہو جائے گا اور اس کو پکارے گا تو وہ تیرے لیے انگوریاں اگانے کے لیے (بارش نازل کرے گا)اور جب تو بے آب و گیاہ زمین میں اپنی سواری کھو بیٹھے گا اور اس کو پکارے گا تو وہ تیری سواری کو واپس تیرے پاس لے آئے گا۔ پس وہ آدمی مسلمان ہو گیا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے نصیحت فرمائیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کسی کو گالی نہ دینا، (یعنی برا بھلا نہ کہنا)۔ اس آدمی نے کہا: جب سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے یہ نصیحت کی اس وقت سے میں نے کسی چیز، وہ اونٹ ہو یا بکری، کو گالی نہیں دی۔ نیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کسی نیکی سے بے رغبتی اختیار نہ کر، اگرچہ وہ اپنے بھائی سے بات کرتے وقت اس کے سامنے خندہ پیشانی کا اظہار کرنے کی صورت میں ہو، پانی مانگنے کے ڈول میں پانی ڈال اور نصف پنڈلی تک اپنے ازار کو اٹھا کے رکھ، پس اگر تو اس قدر عمل نہ کر سکے تو ٹخنوں تک رکھ لے، خبردار چادر کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے سے بچنا ہے، کیونکہیہ تکبر ہے اور اللہ تعالیٰ تکبر کو پسند نہیں کرتا۔

Haidth Number: 8981
۔ سیدنا ابوسعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی میرے پاس آیا اور اس نے کہا: مجھے کوئی وصیت کریں۔ میں نے کہا: تو نے جو سوال مجھ سے کیا ہے، میں نے تجھ سے پہلے یہی سوال رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کیا تھا (اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا): میں تجھے اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوںکیونکہیہ ہر چیز کی بنیا دہے، جہاد کو لازم پکڑ کہ وہ اسلام کی رہبانیت ہے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر اور قرآن مجید کی تلاوت کا اہتمام کیا کر، کیونکہ وہ آسمان میں تیرے لیے باعثِ رحمت اور زمین میں تیرے لیے باعث تذکرہ ہیں۔

Haidth Number: 8982
۔ سیدنا معاذ بن انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سب سے زیادہ فضیلت والا عمل یہ ہے کہ تو اس سے صلہ رحمی کر جو تجھ سے قطع رحمی کرے، اس کو دے جو تجھ کو محروم کرے اور اس سے درگزر کر جو تجھے گالیاں دے۔

Haidth Number: 8983

۔ (۸۹۸۴)۔ عَنْ شَیْبَۃَ الْحَضْرَمِیِّ، قَالَ: کُنَّا عِنْدَ عُمَرَبْنِ عَبْدِ الْعَزِیْزِ فَحَدَّثَنَا عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبِیْرِ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((ثَلاثٌ اَحْلِفُ عَلَیْھِنَّ، لا یَجْعَلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ مَنْ لَہٗسَہْمٌفِی الْاِسْلامِ کَمَنْ لا سَہْمَ لَہُ، فَاَسْہُمُ الْاِسْلامِ ثَلاثَۃٌ: الصَّلاۃُ وَالصَّوْمُ وَالزَّکَاۃُ، وَلایَتَوَلَّی اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ عَبْدًا فِی الدُّنْیَا فَیُوَلِّیَہُ غَیْرَہُیَوْمَ الْقِیَامَۃِ، وَلا یُحِبُّ رَجُلٌ قَوْمًا اِلاَّ جَعَلَہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ مَعَھُمْ، وَالرَّابِعَۃُ لَوْ حَلَفْتُ عَلَیْھَارَجَوْتُ اَنْ لَا آثَمَ، لا یَسْتُرُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ عَبْدًا فِی الدُّنْیَا اِلاَّ سَتَرَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔))، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیْزِ: اِذَا سَمِعْتُمْ مِثْلَ ھٰذَا الْحَدِیْثِ مِنْ مِثْلِ عُرْوَۃَیَرْوِیْہِ عَنْ عَائِشَۃَ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاحْفَظُوْہُ۔ (مسند احمد: ۲۵۶۳۴)

۔ شیبہ حضرمی کہتے ہیں: ہم عمر بن عبد العزیز کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، عروہ بن زبیر نے ہم کو بیان کیا کہ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تین چیزوں پر میں قسم اٹھاتا ہوں، جس آدمی کا اسلام میں حصہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو اس آدمی کی طرح نہیں کرے گا، جس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں ہوتا، وہ تین چیزیںیہ ہیں: (۱) اسلام کے تین حصے ہیں: نماز، روزوہ اور زکوۃ، (۲) یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں ایک آدمی سے محبت رکھے اور پھر قیامت کے دن اس کو کسی کے سپرد کر دے، (۳) بندہ جن لوگوں سے محبت رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو ان کے ساتھ ہی کر دے گا، اور اگر میں چوتھی چیز پر بھی قسم اٹھا لوں تو مجھے امید ہے کہ گنہگار نہیں ہوں گا اور وہ یہ ہے کہ جو آدمی دنیا میں کسی شخص پر پردہ ڈالے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس پر پردہ ڈالے گا۔ یہ حدیث سن کر عمر بن عبد العزیز نے کہا: جب تم ایسی حدیث سنو جس کو عروہ سیدہ عائشہ سے اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بیان کر رہی ہوں تو اس کو یاد کر لیا کرو۔

Haidth Number: 8984