Blog
Books
Search Hadith

مونچھیں کٹوانے اور داڑھی بڑھانے کا بیان

860 Hadiths Found
۔ سیدنا مغیرہ بن شعبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک رات نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بطور مہمان ٹھہرا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بکری کے پہلو کے گوشت کے متعلق حکم دیا تو اسے بھونا گیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے چھری لی اور میرے لئے اس گوشت سے کاٹنے لگ گئے، اتنے میں سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو نماز کی اطلاع دی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے چھری وہیں رکھ دی اور فرمایا: بلال کے ہاتھ خاک آلود ہوں (ذرا اور ٹھہر جاتا تو کیا ہو جاتا) سیدنا مغیرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میری مونچھیں بڑھی ہوئی تھیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نیچے مسواک رکھ انہیں کاٹ دیا، ایک روایت میں ہے: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں ان کو مسواک پر کاٹتا ہوں۔

Haidth Number: 8192
۔ سیدنا ابو تمیمہ ہجیمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنی قوم کے ایک آدمی سے بیان کرتے ہیں،وہ کہتا ہے: میں مدینہ کے ایک راستہ پر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ملا، آپ پر کاٹن کا تہبند تھا، جس کا کنارہ پھیلا ہوا تھا، میں نے کہا: عَلَیْکَ السَّلَامُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! (آپ پر سلام ہو، اے اللہ کے رسول!) لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک عَلَیْکَ السَّلَامُ تو مردوں کا سلام ہے، بیشک عَلَیْکَ السَّلَامُ تو مردوں کا سلام ہے، بیشک عَلَیْکَ السَّلَامُ تو مردوں کا سلام ہے، سَلَامٌ عَلَیْکُمْ کہا کرو، سَلَامٌ عَلَیْکُمْ۔ یہ الفاظ بھی دو تین بار دوہرائے۔

Haidth Number: 8259
۔ سیدنا عمران بن حصین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کا جواب دیا اور فرمایا: دس نیکیاں ملی ہیں۔ پھر ایک اور آیا اور اس نے کہا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کا جواب دیا، وہ بھی بیٹھ گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسے بیس نیکیاں ملی ہیں۔ پھر ایک اور آیا اور اس نے کہا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کا بھی جواب دیا اور وہ بھی بیٹھ گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے بارے میں فرمایا: تیس نیکیاں حاصل کی ہیں۔

Haidth Number: 8260
۔ بنو نمیر کا ایک آدمی اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے بیان کرتا ہے کہ وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور کہا: میرے ابا جان آپ کو سلام کہتے ہیں، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عَلَیْکُمْ وَعَلٰی اَبِیْکَ السَّلَامُ (تم پر اور تیرے باپ پر بھی سلام ہو)۔

Haidth Number: 8261
۔ سیدنا سہل بن سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارے درمیان اللہ تعالیٰ کی کتاب موجود ہے، سیاہ، سفید اور سرخ رنگ والا، ہر کوئی اس کو سیکھتا ہے،اس کو اس وقت سے پہلے پہلے سیکھ لو، جب لوگ اسے سیکھیں گے، لیکنیہ ان کی ہنسلی کی ہڈیوں سے نیچے نہیں اترے گا اور اس کے الفاظ اس طرح سیدھے کریں گے، جیسے تیر سیدھا کیا جاتا ہے، لیکن وہ دنیا میں ہی اس کی اجرت طلب کریں گے، آخرت تک تاخیر نہیں کریں گے۔

Haidth Number: 8342
۔ سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم (مسلمانوں کی مصلحتوں میں) مصروف رہتے تھے، جب بھی کوئی ہجرت کر کے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آتا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کو ہم میں سے کسی آدمی کے ساتھ ملا دیتے تاکہ وہ اسے قرآن پاک کی تعلیم دے۔ سیدنا عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک آدمی میرے حوالے کیا،وہ میرے گھر میں ہی رہتا تھا، میں اسے وہی کھانا دیتا، جو میرے گھر والے کھاتے تھے، میں اسے قرآن پاک پڑھاتا تھا،جب وہ اپنے گھرچلا گیا اور اس نے خیال کیا کہ میرا اس پر حق ہے تو اس نے مجھے کمان بطورِ تحفہ دی، میں نے اس جیسی بہترینلکڑی اور اس جیسی بنی ہوئی کمان نہیں دیکھی تھی، پس میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ تیرے کندھوں کے درمیان آگ کا انگارا ہے، جو تو نے لٹکا لیا ہے۔

Haidth Number: 8343
۔ ابو عبدالرحمن کہتے ہیں: جن صحابہ نے ہمیں قرآن مجید پڑھایا، انھوں نے ہمیں بیان کیا کہ جب وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے دس آیات پڑھ لیتے تھے تو اگلی دس آیات اس وقت تک نہ پڑھتے تھے، جب تک وہ ان آیات پر عمل نہیں کر لیتے تھے، انھوں نے کہا: ہم نے علم اور عمل دونوں چیزوں کی تعلیم ایک ساتھ حاصل کی۔

Haidth Number: 8344

۔ (۸۴۰۳)۔ عَنْ خَارِجَۃَ بْنِ زَیْدٍ قَالَ: قَالَ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ: إِنِّی قَاعِدٌ إِلٰی جَنْبِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمًا إِذْ أُوحِیَ إِلَیْہِ، قَالَ: وَغَشِیَتْہُ السَّکِینَۃُ وَوَقَعَ فَخِذُہُ عَلَی فَخِذِی حِینَ غَشِیَتْہُ السَّکِینَۃُ، قَالَ زَیْدٌ: فَلَا وَاللّٰہِ! مَا وَجَدْتُ شَیْئًا قَطُّ أَ ثْقَلَ مِنْ فَخِذِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، ثُمَّ سُرِّیَ عَنْہُ فَقَالَ: ((اکْتُبْ یَا زَیْدُ۔)) فَأَ خَذْتُ کَتِفًا فَقَالَ: ((اکْتُبْ {لَا یَسْتَوِی الْقَاعِدُونَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُجَاہِدُونَ} الْآیَۃَ کُلَّہَا إِلَی قَوْلِہِ: {أَ جْرًا عَظِیمًا} فَکَتَبْتُ ذَلِکَ فِی کَتِفٍ، فَقَامَ حِینَ سَمِعَہَا ابْنُ أُمِّ مَکْتُومٍ وَکَانَ رَجُلًا أَ عْمٰی فَقَامَ حِینَ سَمِعَ فَضِیلَۃَ الْمُجَاہِدِینَ، قَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! فَکَیْفَ بِمَنْ لَا یَسْتَطِیعُ الْجِہَادَ مِمَّنْ ہُوَ أَعْمٰی وَأَ شْبَاہِ ذَلِکَ؟ قَالَ زَیْدٌ: فَوَاللّٰہِ! مَا مَضٰی کَلَامُہُ أَوْ مَاہُوَ إِلَّا أَنْ قَضٰی کَلَامَہُ، غَشِیَتِ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم السَّکِینَۃُ فَوَقَعَتْ فَخِذُہُ عَلٰی فَخِذِی، فَوَجَدْتُ مِنْ ثِقَلِہَا کَمَا وَجَدْتُ فِی الْمَرَّۃِ الْأُولٰی، ثُمَّ سُرِّیَ عَنْہُ فَقَالَ: ((اِقْرَأْ۔)) فَقَرَأْتُ عَلَیْہِ {لَا یَسْتَوِی الْقَاعِدُونَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُجَاہِدُونَ} فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : {غَیْرُ أُولِی الضَّرَرِ} قَالَ زَیْدٌ: فَأَ لْحَقْتُہَا، فَوَاللّٰہِ! لَکَأَ نِّی أَ نْظُرُ إِلٰی مُلْحَقِہَا عِنْدَصَدْعٍ کَانَ فِی الْکَتِفِ۔ (مسند احمد: ۲۲۰۰۴)

۔ سیدنا زید بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پہلو میں بیٹھا تھا، اچانک آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر وحی نازل ہونے لگی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پرسکون طاری ہو گیا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ران، میری ران پر تھی، اللہ کی قسم! نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ران سے زیادہ بھاری چیز میں نے کبھی محسوس نہیں کی تھی، پھر جب یہ کیفیت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے دور ہوئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے زید! لکھو۔ میں نے شانے کی ہڈی لی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ آیت لکھو {لَا یَسْتَوِی الْقَاعِدُونَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُجَاہِدُونَ … أَ جْرًا عَظِیمًا} جب سیدنا ابن ام مکتوم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ آیت سنی جو کہ نابینا آدمی تھے اور انھوں نے سنا کہ اس آیت میں تو مجاہدوں کی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے، اس لیے انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! جو جہاد کی طاقت نہیں رکھتا اس کا کیا ہو گا، مثلا نابینا وغیرہ؟ سیدنا زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم! ابھی تک سیدنا ابن ام مکتوم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنی بات ختم ہی کی تھی کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر وحی نازل ہوتے ہوئے جو سکون چھا جاتا تھا، وہ چھا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ران میری ران پرتھی، میں نے اس سے اتنا ہی بوجھ محسوس کیا، جس طرح میں نے اس سے پہلے وحی کی حالت میں محسوس کیا تھا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے وحی کی کیفیت دور ہوئی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ آیت پڑھو۔ جب میں نے اس آیت کی تلاوت کی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے ساتھ لکھو: {غَیْرُ أُولِی الضَّرَرِ}۔ سیدنا زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نے یہ حصہ اس آیت کے ساتھ ملا دیا، گویا کہ اب بھی میں شانے میں اس آیت والی جگہ پر پھٹن کا نشان دیکھ رہا ہوں۔

Haidth Number: 8403
۔ سیدنا زید بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بیٹھے کپڑے کے ٹکڑوں میں قرآن مجید کی تالیف کر رہے تھے، اچانک آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: شام کے علاقہ کے لئے خوشخبری ہو۔ کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: رحمت کے فرشتوں نے اس پر اپنے پر پھیلائے ہوئے ہیں۔

Haidth Number: 8404

۔ (۸۴۰۵)۔ عَنْ أَ نَسٍ أَ نَّ رَجُلًا کَانَ یَکْتُبُ لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَقَدْ کَانَ قَرَأَ الْبَقَرَۃَ وَآلَ عِمْرَانَ، وَکَانَ الرَّجُلُ إِذَا قَرَأَ الْبَقَرَۃَ وَآلَ عِمْرَانَ جَدَّ فِینَایَعْنِی عَظُمَ، فَکَانَ النَّبِیُّ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُیُمْلِی عَلَیْہِ {غَفُورًا رَحِیمًا} فَیَکْتُبُ {عَلِیمًا حَکِیمًا} فَیَقُولُ لَہُ النَّبِیُّ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ: ((اکْتُبْ کَذَا وَکَذَا اکْتُبْ کَیْفَ شِئْتَ۔)) وَیُمْلِی عَلَیْہِ {عَلِیمًا حَکِیمًا} فَیَقُولُ: أَ کْتُبُ {سَمِیعًا بَصِیرًا} فَیَقُولُ: ((اکْتُبْ کَیْفَ شِئْتَ۔)) فَارْتَدَّ ذَلِکَ الرَّجُلُ عَنِ الْإِسْلَامِ فَلَحِقَ بِالْمُشْرِکِینَ وَقَالَ: أَ نَا أَ عْلَمُکُمْ بِمُحَمَّدٍ إِنْ کُنْتُ لَأَ کْتُبُ مَا شِئْتُ، فَمَاتَ ذَلِکَ الرَّجُلُ فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّ الْأَ رْضَ لَمْ تَقْبَلْہُ۔)) و قَالَ أَ نَسٌ: فَحَدَّثَنِی أَ بُو طَلْحَۃَ: أَ نَّہُ أَ تَی الْأَرْضَ الَّتِی مَاتَ فِیہَا ذَلِکَ الرَّجُلُ فَوَجَدَہُ مَنْبُوذًا، فَقَالَ أَ بُو طَلْحَۃَ: مَا شَأْنُ ہَذَاالرَّجُلِ؟ قَالُوْا: قَدْ دَفَنَّاہُ مِرَارًا فَلَمْ تَقْبَلْہُ الْأَ رْضُ۔ (مسند احمد: ۱۲۲۳۹)

۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لئے کتابت کرتا تھا، اس نے سورۂ بقرہ اور سورۂ آل عمران پڑھی ہوئی تھی اور جو آدمی سورۂ بقرہ اور سورۂ آل عمران پڑھ لیتا تھا،وہ ہم میں بڑی قدر و منزلت والا سمجھا جاتا تھا، جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس آدمی کو{غَفُورًا رَحِیمًا} تو وہ {عَلِیمًا حَکِیمًا} لکھتا، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس سے فرماتے: ایسے ایسے لکھ، چلو جیسے تیری مرضی لکھ۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کو {عَلِیمًا حَکِیمًا} لکھواتے، لیکن وہ کہتا: میں تو {سَمِیعًا بَصِیرًا} لکھوں گا۔آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس طرح تو چاہتا ہے لکھ لے۔ پھر ہوا یوں کہ وہ آدمی اسلام سے مرتد ہوگیا اور مشرکوں کے ساتھ جا ملا اور ان کو کہنے لگا: میں محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے زیادہ جاننے والا ہوں میں جو چاہتا تھا، لکھ لیتا تھا۔ پھر وہ مر گیا اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: زمین اس کو قبول نہیں کرے گی۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے بیانکیا کہ وہ اس علاقے میں گیا، جس میں وہ آدمی مرا تھا، انھوں نے اس کو اس حال میں دیکھا کہ اس کی میت باہر پھینکی ہوئی پڑی تھی، پس انھوں نے اس کے بارے میں پوچھا کہ اس آدمی کا کیا معاملہ ہے، لوگوں نے کہا:ہم تو اس کو کئی بار دفن کر چکے ہیں، لیکن زمین اس کو قبول نہیں کرتی۔

Haidth Number: 8405
۔ (دوسری سند)سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ہمارے قبیلے بنو نجار کا ایک آدمی تھا، اس نے سورۂ بقرہ اور سورۂ آل عمران پڑھی تھی اور وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا کاتب تھا، لیکن ہوا یوں کہ وہ (مرتدّ ہو کر) بھاگ گیا اور اہل کتاب سے جا ملا، انہوں نے اس کو بڑی شان دی اور کہاکہ یہ شخص تو محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا کاتب تھا، سو انھیں بڑا تعجب ہوا (کہ محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے خلاف بڑی دلیل مل گئی ہے)، لیکن کچھ دنوں کے بعد ہی اللہ تعالی نے اس کا قصہ تمام کر دیا (اور وہ مر گیا)، انہوں نے اسے دفن کرنے کے لئے گڑھا کھودا اور اس میں دفن کر دیا، لیکن جب صبح ہوئی تو دیکھا گیا کہ زمین نے تو اس کو باہر پھینک دیاہے، انہوں نے دوبارہ گڑھا کھودا اور اس کو دفن کیا، لیکن جب صبح ہوئی تو پھر دیکھا گیا کہ زمین نے اس کو پھر پھینک دیا، انہوں نے پھر گڑھا کھودا اور اس کو دفن کیا، لیکن پھر وہی کچھ ہوا کہ زمین نے اس کو باہر پھینک دیا، پس انھوں نے اس کو ایسے ہی سطح زمین پر چھوڑ دیا۔

Haidth Number: 8405
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے تمام سنتیںیاد کی ہیں، البتہ مجھے یہ علم نہ ہو سکا کہ رسول اللہ ظہر اور عصر کی نمازوں میں قراء ت کرتے تھے یا نہیں، نیز میں یہ بھی نہیں جانتا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم {وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْکِبَرِ عُتِیًّا} والی آیت میں لفظ {عُتِیًّا} پڑھتے تھے یا{عُسِیًّا} (دونوں الفاظ کے معانی بڑھاپے اور عمر رسیدگی کے ہیں)

Haidth Number: 8420
۔ سیدنا ابو بکرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں جبریل علیہ السلام نے کہا: اے محمد! قرآن مجید ایک قراء ت کے مطابق پڑھو۔ ایک روایت میں ہے: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جبریل اور میکائیل میرے پاس آئے، جبریل نے مجھ سے کہا: قرآن مجید کو ایک قراء ت پر پڑھو، لیکن میکائیل نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: زیادہ گنجائش کا سوال کریں، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے زیادہ گنجائش کی درخواست کی، تو جبریل نے کہا: دو قراء توں پر پڑھ لو، لیکن میکائیل نے پھر کہا: اور زیادہ مطالبہ کرو، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مزید گنجائش کا مطالبہ کیا،یہاں تک کہ سات قراء ات تک پہنچ گئے، اور پھر انھوں نے کہا: ہر قراء ت شافی اور کافی ہے، جبکہ تک تم عذاب والی آیت کو رحمت والی آیت کے ساتھ اور رحمت والی آیت کو عذاب والی آیت کے ساتھ ختم نہ کر، یہ قراء ت کا معاملہ ایسا ہی ہے، جیسےیہ الفاظ ہیں: تَعَالَ اور أَ قْبِل، ہَلُمَّ اور اِذْہَبْ اور أَ سْرِعْ اور اِعْجَلْ۔

Haidth Number: 8435
۔ سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قرآن مجید سات قراء توں پر نازل کیا گیا ہے، جس قراء ت کے مطابق بھی پڑھو گے، تو درست پڑھو گے، اس میں جھگڑا مت کرو، کیونکہ قرآن مجید میں جھگڑا کرنا کفر ہے۔

Haidth Number: 8436

۔ (۸۴۳۷)۔ عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَرَأْتُ آیَۃً وَقَرَأَ ابْنُ مَسْعُودٍ خِلَافَہَا (جَائَ فِیْ رِوَایَۃٍ: وَقَرَأَ رَجَلٌ خِلَافَہَا) فَأَ تَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ: أَ لَمْ تُقْرِئْنِی آیَۃَ کَذَا وَکَذَا؟ قَالَ: ((بَلٰی۔))، فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: أَ لَمْ تُقْرِئْنِیہَا کَذَا وَکَذَا؟ فَقَالَ: ((بَلٰی، کِلَاکُمَا مُحْسِنٌ مُجْمِلٌ۔)) قَالَ: فَقُلْتُ لَہُ، فَضَرَبَ صَدْرِی فَقَالَ: ((یَا أُبَیُّ بْنَ کَعْبٍ! إِنِّی أُقْرِئْتُ الْقُرْآنَ، فَقِیلَ لِی: عَلٰی حَرْفٍ أَوْ عَلٰی حَرْفَیْنِ، قَالَ: فَقَالَ الْمَلَکُ الَّذِی مَعِی: عَلٰی حَرْفَیْنِ، فَقُلْتُ: عَلٰی حَرْفَیْنِ، فَقَالَ: عَلٰی حَرْفَیْنِ أَ وْ ثَلَاثَۃٍ، فَقَالَ الْمَلَکُ الَّذِی مَعِی: عَلٰی ثَلَاثَۃٍ، فَقُلْتُ: عَلٰی ثَلَاثَۃٍ حَتّٰی بَلَغَ سَبْعَۃَ أَ حْرُفٍ، لَیْسَ مِنْہَا إِلَّا شَافٍ کَافٍ إِنْ قُلْتَ: غَفُورًا رَحِیمًا أَ وْ قُلْتَ: سَمِیعًا عَلِیمًا أَ وْ عَلِیمًا سَمِیعًا فَاللّٰہُ کَذٰلِکَ، مَا لَمْ تَخْتِمْ آیَۃَ عَذَابٍ بِرَحْمَۃٍ أَوْ آیَۃَ رَحْمَۃٍ بِعَذَابٍ۔)) (زَادَ فِیْ رِوَایَۃٍ بَعْدَ قَوْلِہٖ: فَضَرَبَ فِیْ صَدْرِیْ): ثُمَّ قَالَ: ((اللّٰہُمَّ أَ ذْہِبْ عَنْ أُبَیٍّ الشَّکَّ۔))، فَفِضْتُ عَرَقًا وَامْتَلَأَ جَوْفِی فَرَقًا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَا أُبَیُّ إِنَّ مَلَکَیْنِ أَتَیَانِی، فَقَالَ أَ حَدُہُمَا: اقْرَأْ عَلٰی حَرْفٍ، فَقَالَ الْآخَرُ: زِدْہُ، فَقُلْتُ: زِدْنِی، قَالَ: اقْرَأْ عَلٰی حَرْفَیْنِ، فَقَالَ الْآخَرُ: زِدْہُ، فَقُلْتُ: زِدْنِی، فَقَالَ: اقْرَأْ عَلٰی ثَـلَاثَۃٍ، فَقَالَ الْآخَرُ: زِدْہُ، فَقُلْتُ: زِدْنِی، قَالَ: اقْرَأْ عَلٰی أَ رْبَعَۃِ أَحْرُفٍ، قَالَ الْآخَرُ: زِدْہُ، قُلْتُ: زِدْنِی، قَالَ: اقْرَأْ عَلٰی خَمْسَۃِ أَ حْرُفٍ، قَالَ الْآخَرُ: زِدْہُ، قُلْتُ: زِدْنِی، قَالَ: اقْرَأْ عَلٰی سِتَّۃٍ، قَالَ الْآخَرُ: زِدْہُ، قَالَ: اقْرَأْ عَلٰی سَبْعَۃِ اَحْرُفٍ۔)) (مسند احمد: ۲۱۴۶۷)

۔ سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے ایک آیت پڑھی اور سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی آیت پڑھی، لیکن ان کی آیت میری آیت سے مختلف تھی، پس میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور کہا: کیا آپ نے مجھے فلاں فلاں آیت اس طرح نہیں پڑھائی تھی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں۔ سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: کیا آپ نے مجھے یہ ایسے ایسے نہیں پڑھائی تھی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم دونوں نے درست پڑھا ہے۔ میں (ابی) نے کہا: دونوں کس طرح درست ہو سکتے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا: اے ابی! مجھے قرآن پڑھایا گیا اور کہا گیا کہ ایکیادو قراء توں پر؟ جو فرشتہ میرے ساتھ تھا، اس نے کہا: دو قراء توں پر، میں نے کہا: دو قراء توں پر۔ لیکن اس نے پھر کہا: دو قراء توں پر یا تین پر؟ جو فرشتہ میرے پاس تھا، اس نے کہا: تین قراء توں پر، میں نے کہا: تین قراء توں پر، حتیٰ کہ سات قراء توں تک پہنچ گئے، ہر ایک تسلی بخش اور کفایت کرنے والی ہے، اگر تم کہو غَفُورًا رَحِیمًا،یا کہو سَمِیعًا عَلِیمًا،یا کہو عَلِیمًا سَمِیعًا، پس اللہ تعالی تو ایسے ہی ہے نا۔ ایک روایت میں ہے: جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے سینہ پر مارا اور فرمایا: اے اللہ ! ابی سے شک دور کر دے۔ ابی کہتے ہیں: میں پسینہ سے شرابور ہوگیا اور میرا پیٹ خوف سے بھر ہوگیا۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابی! دو فرشتے میرے پاس آئے، ان میں سے ایک نے کہا: ایک قراء ت پر قرآن پڑھو، دوسرے نے کہا: زیادہ کردو، میں نے بھی کہا: زیادہ کردو، اس نے کہا چار قراء توں پر پڑھ لو، دوسرے نے کہا: اور زیادہ کردو، میں نے بھی کہا: میرے لئے اور اضافہ کرو، اس نے کہا: پانچ قراء توں پر پڑھ لو، دوسرے نے کہا: اور زیادہ کر دو۔ میں نے بھی کہا: اور زیادہ کردو۔ چھ قراء توں پر پڑھ لو، دوسرے نے کہا: اور اضافہ کردو، اسنے کہا: سات قراء توں پر پڑھ لو۔

Haidth Number: 8437
۔ سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں احجار المراء جگہ پر حضرت جبریل علیہ السلام سے ملا اور میں نے کہا: اے جبریل! میں اُمّی امت کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا گیاہوں، جس میں مرد، عورتیں، غلام، لونڈیاں اور انتہائی بوڑھے لوگ بھی ہیں، جنھوں نے کبھی کوئی تحریر نہیں پڑھی، انہوں نے کہا: قرآن مجید سات قراء توں پر نازل کیا گیا ہے۔

Haidth Number: 8438
۔ (دوسری سند) نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم احجار المراء مقام پر جبریل علیہ السلام سے ملے، حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا:آپ کی امت سات قرائتوں میں قرآن مجید پڑھ سکتی ہے، جس کسی نے ایک قرائت پڑھ لی ہے، تو وہ اپنے علم کے مطابق پڑھتا رہے اور اس سے رک نہ جائے۔ ابن مہدی کی روایت کے الفاظ یہ ہیں: جبریل علیہ السلام نے کہا: بیشک آپ کی امت میں کمزور لوگ بھی ہیں، لہٰذا جو ایک قراء ت پر پڑھ لے، وہ اس سے بے رغبتی کرتے ہوئے دوسری قراء ت کی طرف نہ جائے۔

Haidth Number: 8348
۔ سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے جبریل علیہ السلام کی احجاز المراء کے پاس ملاقات ہوئی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جبریل علیہ السلام سے کہا: مجھے اُمّی امت کی طرف بھیجا گیا ہے، اس میں بہت بوڑھے خواتین و حضرات اور غلام بھی ہیں، انہوں نے کہا: چلو، آپ ان کو حکم دیں کہ وہ قرآن مجید کو سات قراء توں پر تلاوت کرلیں۔

Haidth Number: 8439
۔ سیدنا سمرہ بن جندب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قرآن مجید سات قراء توں کے مطابق نازل کیا گیاہے۔

Haidth Number: 8440
۔ سیدنا ام ایوب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: قرآن مجید سات قراء توں میں نازل ہوا ہے، تم ان میں سے جو بھی پڑھو گی، وہ تجھے کفایت کرے گی۔

Haidth Number: 8441
۔ سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قرآن مجید سات قراء توں پر نازل کیا گیا ہے۔

Haidth Number: 8442
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جبریل علیہ السلام نے مجھے ایک قراء ت پڑھائی، میں نے ان سے مطالبہ کیا کہ قرائتیں زیادہ کی جائیں اور وہ زیادہ کرتے، یہاں تک کہ معاملہ سات قراء توں تک پہنچ گیا۔ امام زہری ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ کہتے ہیں: یہ قراء توں کا یہاختلاف حقیقت میں ایک ہی معاملے کے باریمیں ہے، اس سے حلال و حرام میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

Haidth Number: 8443
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قرآن مجید سات قراء توں پر اتارا گیا ہے، جیسے عَلِیْمًا حَکِیْمًا کی بجائے غَفُوْرًا رَحِیْمًا پڑھنا۔

Haidth Number: 8444
۔ سیدنا ابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قرآن مجید پڑھو اور سیکھو، کیونکہیہ روزِ قیامت پڑھنے والوں کے حق میں سفارش کرے گا اور دو چمکدار سورتیںیعنی سورۂ بقرہ اور سورۂ آل عمران پڑھاکرو، کیونکہیہ روز قیامت دو بادلوںیا دو سایوں کی مانند ہوں گییایہ پر پھیلائے ہوئے پرندوں کی دو غولوں کی مانند ہوں گی، اور اپنے پڑھنے والوں کا دفاع کریں گی۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سورۂ بقرہ پڑھا کرو، اسے حاصل کرنا باعث برکت ہے اور اسے چھوڑنا باعث حسرت ہے، جادو گر اس پر طاقت نہیں رکھ سکتے۔

Haidth Number: 8480
۔ سیدنا نواس بن سمعان کلابی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: روزِ قیامت قرآن مجید کو او راس پر عمل کرنے والوں کو لایا جائے گا، سورۂ بقرہ اور سورۂ آل عمران ان کے آگے آگے ہوںگی۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان دو سورتوں کی تین مثالیں بیان کیں، جنہیں میں ابھیتک نہیں بھولا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: گویا کہ یہ دو سورتیں دو بادل ہوں گی،یا دو سائے یا دو اندھیرا نما (سائے)، جن میں روشنی ہو گی، گویا کہ یہ دو پر پھیلانے والے پرندوں کی دو جماعتوں کی مانند ہوں گی اور اپنے پڑھنے والوں کے لئے دفاع کریں گی۔

Haidth Number: 8481

۔ (۸۴۸۲)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ أَ بِیہِ قَالَ: کُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَسَمِعْتُہُ یَقُولُ: ((تَعَلَّمُوا سُورَۃَ الْبَقَرَۃِ، فَإِنَّ أَ خْذَہَا بَرَکَۃٌ، وَتَرْکَہَا حَسْرَۃٌ، وَلَا یَسْتَطِیعُہَا الْبَطَلَۃُ۔))، قَالَ: ثُمَّ مَکَثَ سَاعَۃً ثُمَّ قَالَ: ((تَعَلَّمُوا سُورَۃَ الْبَقَرَۃِ وَآلِ عِمْرَانَ، فَإِنَّہُمَا الزَّہْرَاوَانِ، یُظِلَّانِ صَاحِبَہُمَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، کَأَ نَّہُمَا غَمَامَتَانِ أَ وْ غَیَایَتَانِ أَ وْ فِرْقَانِ مِنْ طَیْرٍ صَوَافَّ، وَإِنَّ الْقُرْآنَ یَلْقٰی صَاحِبَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ حِینَیَنْشَقُّ عَنْہُ قَبْرُہُ کَالرَّجُلِ الشَّاحِبِ، فَیَقُولُ لَہُ: ہَلْ تَعْرِفُنِی؟ فَیَقُولُ: مَا أَ عْرِفُکَ، فَیَقُولُ لَہُ: ہَلْ تَعْرِفُنِی؟ فَیَقُولُ: مَا أَ عْرِفُکَ، فَیَقُولُ: أَ نَا صَاحِبُکَ الْقُرْآنُ الَّذِی أَ ظْمَأْتُکَ فِی الْہَوَاجِرِ، وَأَ سْہَرْتُ لَیْلَکَ، وَإِنَّ کُلَّ تَاجِرٍ مِنْ وَرَائِ تِجَارَتِہِ، وَإِنَّکَ الْیَوْمَ مِنْ وَرَائِ کُلِّ تِجَارَۃٍ، فَیُعْطَی الْمُلْکَ بِیَمِینِہِ، وَالْخُلْدَ بِشِمَالِہِ، وَیُوضَعُ عَلٰی رَأْسِہِ تَاجُ الْوَقَارِ، وَیُکْسٰی وَالِدَاہُ حُلَّتَیْنِ لَا یُقَوَّمُ لَہُمَا أَ ہْلُ الدُّنْیَا، فَیَقُولَانِ بِمَ کُسِینَا ہٰذِہِ؟ فَیُقَالُ: بِأَ خْذِ وَلَدِکُمَا الْقُرْآنَ، ثُمَّ یُقَالُ لَہُ: اقْرَأْ وَاصْعَدْ فِی دَرَجَۃِ الْجَنَّۃِ وَغُرَفِہَا، فَہُوَ فِی صُعُودٍ مَا دَامَ یَقْرَأُ ہَذًّا کَانَ أَ وْ تَرْتِیلًا۔)) (مسند احمد: ۲۳۳۳۸)

۔ سیدنا بریدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بیٹھا ہواتھا، میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: سورۂ بقرہ سیکھو، اس کی تعلیم حاصل کرنا باعث ِ برکت ہے اور اسے چھوڑنا باعث ِ حسرت ہے، باطل پرست اس پر غالب نہیں آ سکتے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کچھ دیر کے لیے ٹھہر گئے اور پھر فرمایا: سورۂ بقرہ اور سورۂ آل عمران سیکھو،یہ دونوں چمکدار اور خوبصورت سورتیں ہیں،یہ روز قیامت اپنے پڑھنے والوں کواس طرح ڈھانپ لیں گی گویا کہ دو بادل ہوں یا دو سایہ دار چیزیںیا پر پھیلائے ہوئے پرندوں کے دو غول ہوںاور یقیناقرآن مجید قیامت کے دن تلاوت کرنے والے کو اس وقت ملے گا، جب اس کی قبر پھٹے گی، وہ کمزور اوررنگت تبدیل شدہ آدمی کی مانند ہوگا اور بندے سے کہے گا: کیا تو مجھے پہچانتا ہے؟ وہ کہے گا: میں نہیں پہچانتا، قرآن پھر کہے گا: کیا تو مجھے پہچانتا ہے؟ یہ کہے گا: میں نہیں پہچانتا، وہ کہے گا: میں تیرا ساتھی قرآن ہوں، جس نے تجھے دوپہر کے وقت پیاسا رکھا اورتجھے رات کو جگاتا رہا، آج ہر تاجر اپنی تجارت کے پیچھے ہے (یعنی ہر تاجر اپنی تجارت سے نفع حاصل کرنے کی امید رکھتا ہے) اور آج تو ہر تجارت کے پیچھے ہو۔ (یعنی آج تجھے ہر تجارت سے بڑھ کر فائدہ حاصل ہوگا) پھر اسے دائیں ہاتھ میں بادشاہت اور بائیں ہاتھ میں ہمیشگی دی جائیگی، اس کے سر پر وقار کا تاج رکھا جائے گا، اور اس کے والدین کو دو عمدہ پوشاکیں پہنائی جائیں گی، وہ اس قدر بیش قیمت ہوں گی کہ دنیا ومافیہا (کی قیمت) ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ وہ کہیں گے: اے ہمارے ربّ! یہ پوشاکیں ہمارے لیے کیوں ہیں؟ انہیں بتایا جائے گا کہ تمہارے بیٹے کے قرآن پڑھنے کی وجہ سے پہنایا گیا ہے، پھر اس سے کہا جائے گا پڑھتا جا اور جنت کی منزلیں طے کرتا جا، وہ جنت کے بالا خانوں میں چڑھتا جائے گا، جب تک پڑھتا جائے گا، چڑھتا جائے گا، تیز پڑھے یا آہستہ پڑھے۔

Haidth Number: 8482
۔ سیدنا معقل بن یسار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سورۂ بقرہ قرآن مجید کی کوہان اور اس کی چوٹی ہے، اس کی ہر آیت کے ساتھ اسی (۸۰) فرشتے نازل ہوئے اور اس کی آیت {لَا اِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ} کو عرش الٰہی کے نیچے سے نکالا گیا اور اور پھر اس کو سورۂ بقرہ کے ساتھ ملا دیا گیا۔ سورۂ یٰسین، قرآن مجید کا دل ہے، جو بھی اسے اللہ تعالی کی رضا کی خاطر اور آخرت کے ثواب کے لئے پڑھے گا، اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دے گا، اپنے قریب المرگ لوگوں کے قریب اس سورت کی تلاوت کیا کرو۔

Haidth Number: 8483
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: اپنے گھروں کو قبرستان نہ بنائو، شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے، جس میں سورۂ بقرہ پڑھی جاتی ہے۔

Haidth Number: 8484

۔ (۸۴۸۷)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَ قْبَلَتْ یَہُودُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالُوْا: یَا أَ بَا الْقَاسِمِ! إِنَّا نَسْأَ لُکَ عَنْ خَمْسَۃِ أَ شْیَائَ، فَإِنْ أَ نْبَأْتَنَا بِہِنَّ عَرَفْنَا أَ نَّکَ نَبِیٌّ وَاتَّبَعْنَاکَ، فَأَ خَذَ عَلَیْہِمْ مَا أَ خَذَ إِسْرَائِیلُ عَلَی بَنِیہِ إِذْ قَالُوْا: {اللّٰہُ عَلَی مَا نَقُولُ وَکِیلٌ} قَالَ: ((ہَاتُوْا۔)) قَالُوْا: أَ خْبِرْنَا عَنْ عَلَامَۃِ النَّبِیِّ، قَالَ: ((تَنَامُ عَیْنَاہُ وَلَا یَنَامُ قَلْبُہُ۔))، قَالُوْا: أَ خْبِرْنَا کَیْفَ تُؤْنِثُ الْمَرْأَ ۃُ وَکَیْفَ تُذْکِرُ؟ قَالَ: ((یَلْتَقِی الْمَائَ انِِ فَإِذَا عَلَامَائُ الرَّجُلِ مَائَ الْمَرْأَ ۃِ أَ ذْکَرَتْ، وَإِذَا عَلَامَائُ الْمَرْأَۃِ آنَثَتْ۔))، قَالُوْا: أَ خْبِرْنَا مَا حَرَّمَ إِسْرَائِیلُ عَلٰی نَفْسِہِ، قَالَ: ((کَانَ یَشْتَکِی عِرْقَ النَّسَا فَلَمْ یَجِدْ شَیْئًایُـلَائِمُہُ إِلَّا أَ لْبَانَ کَذَا وَکَذَا۔)) قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَحْمَد: قَالَ أَبِی: قَالَ بَعْضُہُمْ: یَعْنِی الْإِبِلَ فَحَرَّمَ لُحُومَہَا، قَالُوْا: صَدَقْتَ، قَالُوْا: أَ خْبِرْنَا مَا ہٰذَا الرَّعْدُ؟ قَالَ: ((مَلَکٌ مِنْ مَلَائِکَۃِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ مُوَکَّلٌ بِالسَّحَابِ بِیَدِہِ، أَ وْ فِییَدِہِ مِخْرَاقٌ مِنْ نَارٍ، یَزْجُرُ بِہِ السَّحَابَ،یَسُوقُہُ حَیْثُ أَ مَرَ اللّٰہُ۔)) قَالُوْا: فَمَا ہٰذَا الصَّوْتُ الَّذِییُسْمَعُ؟ قَالَ: ((صَوْتُہُ۔))، قَالُوْا: صَدَقْتَ، إِنَّمَا بَقِیَتْ وَاحِدَۃٌ وَہِیَ الَّتِی نُبَایِعُکَ إِنْ أَ خْبَرْتَنَا بِہَا، فَإِنَّہُ لَیْسَ مِنْ نَبِیٍّ إِلَّا لَہُ مَلَکٌ یَأْتِیہِ بِالْخَبَرِ، فَأَ خْبِرْنَا مَنْ صَاحِبُکَ؟ قَالَ: ((جِبْرِیلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ۔)) قَالُوْا: جِبْرِیلُ؟ ذَاکَ الَّذِییَنْزِلُ بِالْحَرْبِ وَالْقِتَالِ وَالْعَذَابِ عَدُوُّنَا۔ لَوْ قُلْتَ: مِیکَائِیلَ الَّذِییَنْزِلُ بِالرَّحْمَۃِ وَالنَّبَاتِ وَالْقَطْرِ لَکَانَ، فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِیلَ} إِلٰی آخِرِ الْآیَۃَ۔ (مسند احمد: ۲۴۸۳)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما بیان کرتے ہیں کہ یہودی لوگ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور انھوں نے کہا: اے ابو القاسم! ہم آپ سے پانچ چیزوں کے بارے میں سوال کریں گے، اگر آپ ان کے جوابات دیں گے تو ہم پہچان جائیں گے کہ آپ برحق نبی ہیں اور ہم آپ کی اتباع بھی کریں گے، آپ نے ان سے اس طرح عہد لیا، جس طرح یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے عہد لیا تھا، جب انھوں نے کہا تھا ہم جو بات کر رہے ہیں، اس پر اللہ تعالیٰ وکیل ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: و ہ سوال پیش کرو۔ (۱) انہوں نے کہا: ہمیں نبی کی نشانی بتائیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نبی کی آنکھیں سوتی ہیں اور اس کا دل نہیں سوتا۔ (۲) انھوں نے کہا: یہ بتائیں کہ نر اورمادہ کیسے پیدا ہوتے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مردوزن کا آب جو ہر دونوں ملتے ہیں،جب آدمی کا پانی عورت کے پانی پر غالب آتا ہے، تو نر پیدا ہوتا ہے اور جب عورت کا آب جو ہر غالب آتا ہے تو مادہ پیدا ہوتی ہے۔ (۳) انہوں نے کہا: ہمیں بتائو کہ یعقوب علیہ السلام نے خود پر کیا حرام قرار دیا تھا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: انہیں عرق نساء کی بیماری تھی، انہیںصرف اونٹنیوں کا دودھ موافق آیا، تو صحت ہونے پر اونٹوں کا گوشت خود پر حرام قرار دے دیا۔ انہوں نے کہا: آپ سچ کہتے ہیں، (۴) اچھا یہ بتائیں کہ یہ رسد کیا ہے؟آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ اللہ تعالیٰ کے فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہے، جس کے سپرد بادل ہیںیا اس فرشتہ کے ہاتھ میں آگ کا ہنٹرہے، جس کے ساتھ وہ بادلوں کو چلاتا ہے، جہاں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا: یہ آواز کیا ہے جو سنی جاتی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ اسی ہنٹر کی آواز ہے۔ انہوں نے کہا: آپ نے سچ کہا ہے۔ (۵) انہوں نے کہا: ایک بات رہ گئی ہے، اگر آپ اس کا جواب دیں گے تو ہم آپ کی بیعت کریں گے، وہ یہ ہے کہ ہر نبی کے لئے ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے، جواس کے پاس بھلائییعنی وحی لے کر آتا ہے، آپ بتائیں آپ کا فرشتہ ساتھی کون سا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جبریل علیہ السلام ہیں۔ اب کی بار انھوں نے کہا: جبریل،یہ تو جنگ، لڑائی اور عذاب لے کر آتا ہے، یہ تو ہمارا دشمن ہے، اگر آپ میکائیل کہتے جو کہ رحمت، نباتات اور بارش کے ساتھ نازل ہوتا ہے، تو پھر بات بنتی، اللہ تعالیٰ نے اس وقت یہ آیت نازل کی: قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّہ نَزَّلَہُ عَلٰیقَلْبِکَ بِاِذْنِ اللّٰہِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَیَدَیْہِ وَھُدًی وَّبُشْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ۔} … کہہ دے جو کوئی جبریل کا دشمن ہو تو بے شک اس نے یہ کتاب تیرے دل پر اللہ کے حکم سے اتاری ہے، اس کی تصدیق کرنے والی ہے جو اس سے پہلے ہے اور مومنوں کے لیے سرا سر ہدایت اور خوشخبری ہے۔ (سورۂ بقرہ: ۹۷)

Haidth Number: 8487

۔ (۸۴۸۷م)۔ (وَعَنْہُ اَیْضًا من طریق ثان) حَضَرَتْ عِصَابَۃٌ مِنْ الْیَہُودِ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمًا فَقَالُوا: یَا أَ بَا الْقَاسِمِ! حَدِّثْنَا عَنْ خِلَالٍ نَسْأَ لُکَ عَنْہُنَّ لَا یَعْلَمُہُنَّ إِلَّا نَبِیٌّ، قَالَ: ((سَلُونِی عَمَّا شِئْتُمْ، وَلٰکِنْ اجْعَلُوا لِی ذِمَّۃَ اللّٰہِ، وَمَا أَ خَذَ یَعْقُوبُ عَلَیْہِ السَّلَامُ عَلٰی بَنِیہِ، لَئِنْ حَدَّثْتُکُمْ شَیْئًا فَعَرَفْتُمُوہُ لَتُتَابِعُنِّی عَلَی الْإِسْلَامِ۔)) قَالُوْا: فَذٰلِکَ لَکَ، قَالَ: ((فَسَلُونِی عَمَّا شِئْتُمْ۔)) قَالُوْا: أَ خْبِرْنَا عَنْ أَ رْبَعِ خِلَالٍ نَسْأَ لُکَ عَنْہُنَّ، أَ خْبِرْنَا أَ یُّ الطَّعَامِ حَرَّمَ إِسْرَائِیلُ عَلَی نَفْسِہِ مِنْ قَبْلِ أَ نْ تُنَزَّلَ التَّوْرَاۃُ؟ وَأَخْبِرْنَا کَیْفَ مَائُ الْمَرْأَ ۃِ وَمَائُ الرَّجُلِ، کَیْفَیَکُونُ الذَّکَرُ مِنْہُ؟ وَأَخْبِرْنَا کَیْفَ ہٰذَا النَّبِیُّ الْأُمِّیُّ فِی النَّوْمِ؟ وَمَنْ وَلِیُّہُ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ؟ قَالَ: ((فَعَلَیْکُمْ عَہْدُ اللّٰہِ وَمِیثَاقُہُ، لَئِنْ أَ نَا أَخْبَرْتُکُمْ لَتُتَابِعُنِّی۔)) قَالَ: فَأَ عْطَوْہُ مَا شَائَ مِنْ عَہْدٍ وَمِیثَاقٍ، قَالَ: ((فَأَ نْشُدُکُمْ بِالَّذِی أَ نْزَلَ التَّوْرَاۃَ عَلٰی مُوسٰی علیہ السلام ، ہَلْ تَعْلَمُونَ أَ نَّ إِسْرَائِیلَیَعْقُوبَ علیہ السلام مَرِضَ مَرَضًا شَدِیدًا، وَطَالَ سَقَمُہُ، فَنَذَرَ لِلّٰہِ نَذْرًا، لَئِنْ شَفَاہُ اللّٰہُ تَعَالٰی مِنْ سَقَمِہِ لَیُحَرِّمَنَّ أَحَبَّ الشَّرَابِ إِلَیْہِ وَأَحَبَّ الطَّعَامِ إِلَیْہِ، وَکَانَ أَحَبَّ الطَّعَامِ إِلَیْہِ لُحْمَانُ الْإِبِلِ، وَأَ حَبَّ الشَّرَابِ إِلَیْہِ أَ لْبَانُہَا؟)) قَالُوْا: اَللّٰہُمَّ نَعَمْ، قَالَ: ((اللّٰہُمَّ اشْہَدْ عَلَیْہِمْ، فَأَ نْشُدُکُمْ بِاللّٰہِ الَّذِی لَا اِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الَّذِی أَ نْزَلَ التَّوْرَاۃَ عَلٰی مُوسٰی، ہَلْ تَعْلَمُونَ أَ نَّ مَائَ الرَّجُلِ أَبْیَضُ غَلِیظٌ، وَأَ نَّ مَائَ الْمَرْأَ ۃِ أَ صْفَرُ رَقِیقٌ، فَأَ یُّہُمَا عَلَا کَانَ لَہُ الْوَلَدُ وَالشَّبَہُ بِإِذْنِ اللّٰہِ، إِنْ عَلَا مَائُ الرَّجُلِ عَلٰی مَائِ الْمَرْأَۃِ کَانَ ذَکَرًا بِإِذْنِ اللّٰہِ، وَإِنْ عَلَا مَائُ الْمَرْأَۃِ عَلٰی مَائِ الرَّجُلِ کَانَ أُنْثٰی بِإِذْنِ اللّٰہِ؟)) قَالُوْا: اللّٰہُمَّ نَعَمْ، قَالَ: ((اللّٰہُمَّ اشْہَدْ عَلَیْہِمْ، فَأَ نْشُدُکُمْ بِالَّذِی أَ نْزَلَ التَّوْرَاۃَ عَلٰیمُوسٰی، ہَلْ تَعْلَمُونَ أَ نَّ ہٰذَا النَّبِیَّ الْأُمِّیَّ تَنَامُ عَیْنَاہُ وَلَا یَنَامُ قَلْبُہُ؟)) قَالُوْا: اللّٰہُمَّ نَعَمْ، قَالَ: ((اللّٰہُمَّ اشْہَدْ۔)) قَالُوْا: وَأَ نْتَ الْآنَ فَحَدِّثْنَا مَنْ وَلِیُّکَ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ فَعِنْدَہَا نُجَامِعُکَ أَ وْ نُفَارِقُکَ، قَالَ: ((فَإِنَّ وَلِیِّیْ جِبْرِیلُ علیہ السلام ، وَلَمْ یَبْعَثِ اللّٰہُ نَبِیًّا قَطُّ إِلَّا وَہُوَ وَلِیُّہُ۔)) قَالُوْا: فَعِنْدَہَا نُفَارِقُکَ، لَوْ کَانَ وَلِیُّکَ سِوَاہُ مِنْ الْمَلَائِکَۃِ لَتَابَعْنَاکَ وَصَدَّقْنَاکَ، قَالَ: ((فَمَا یَمْنَعُکُمْ مِنْ أَ نْ تُصَدِّقُوہُ؟)) قَالُوْا: إِنَّہُ عَدُوُّنَا، قَالَ: فَعِنْدَ ذٰلِکَ قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِیلَ فَإِنَّہُ نَزَّلَہُ عَلٰی قَلْبِکَ بِإِذْنِ اللّٰہِ} إِلَی قَوْلِہِ عَزَّ وَجَلَّ: {کِتَابَ اللّٰہِ وَرَائَ ظُہُورِہِمْ کَأَ نَّہُمْ لَا یَعْلَمُونَ} فَعِنْدَ ذٰلِکَ {بَائُ وْا بِغَضَبٍ عَلٰی غَضَبٍ} الآیۃ۔ (مسند احمد: ۲۵۱۴)

۔ (دوسری سند) یہودیوں کی ایک جماعت ایک دن اللہ کے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئی اورکہا: اے ابو القاسم! ہمیں چند باتیں بتائو، انہیں صرف نبی جانتا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو مرضی ہے پوچھو، لیکن اللہ تعالیٰ کے ذمہ کو مدنظررکھنا اور اسے بھی مدنظر رکھنا جو یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے ذمہ داری لی تھی کہ اگر میں تمہیں تمہارے سوالوں کے درست جوابات دے دوں تو پھر اسلام کے مطابق میری پیروی کرنا۔ انہوں نے کہا: ٹھیک ہے، یہ تمہارا حق ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اب جو مرضی سوال کرو۔ انہوں نے کہا: ہمیں چار باتوں کے بارے میںبتاؤ،یعقوب علیہ السلام نے تورات نازل ہونے سے پہلے اپنے اوپر کونسا کھانا حرام کیا تھا، آدمی کا آب جوہر عورت کے آب جوہر پر غالب آ جائے تو مذکرکیسے بنتا ہے اور یہ اُمّی نبی نیند میں کیسے ہوتا ہے اورفرشتوں میں سے اس کا دوست کون ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تمہیں اللہ تعالیٰ کا عہد و میثاق دیتا ہوںہے کہ اگر میں نے تمہیں جواب دیدیے تو تم میری اتباع کرو گے۔ انہوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ہر پختہ عہد دیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تمہیں اس اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ جس نے موسیٰ علیہ السلام پر تورات نازل کی، کیا تم جانتے ہو کہ یعقوب علیہ السلام سخت بیمار پڑ گئے تھے اوران کی بیماری لمبی ہو گئی تھی، بالآخر انہوں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے ان کو شفا دی تو وہ سب سے زیادہ محبوب مشروب اور سب سے زیاد ہ پسندیدہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ھانا حرام قرار دیں گے، اورانہیں سب سے زیادہ پیارا کھانا اونٹوں کا گوشت اور سب سے زیادہ پسندیدہ مشروب اونٹنیوں کا دودھ تھا؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے میرے اللہ! ان پرگواہ رہنا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تمہیں اس اللہ کا واسطہ دیتا ہوں، جس کے سوا کوئی معبود نہیںاور جس نے موسیٰ علیہ السلام پرتورات نازل کی ہے، کیا تم جانتے ہو آدمی کا آب جوہر سفید اور گاڑھا ہوتاہے اور عورت کا پانی زرد اور باریک ہوتا ہے، ان میں سے جو بھی غالب آتا ہے، اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس سے مشابہت ہو جاتی ہے، اگر آدمی کا آب جوہر عورت کے پانی پر غالب آ جائے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے مذکر بن جاتا ہے اوراگر عورت کا آب جوہر آدمی کے مادۂ منویہ پرغالب آ جائے تو مؤنث پیدا ہوتی ہے؟ انہوں نے کہا: اللہ جانتا ہےیہی بات ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے میرے اللہ! ان پرگواہ رہنا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تمہیں اس اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر تورات نازل کی، کیا تم جانتے ہو اس اُمّی نبی کی آنکھیں سوتی ہیں اور اس کا دل نہیں سوتا؟ انہوں نے کہا: اللہ جانتا ہے کہ یہی بات ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے میرے اللہ! گواہ رہنا۔ انہوں نے کہا: آپ بھی اب اسی طرح ہیں، ہمیں بتائو فرشتوں میں سے آپ کا دوست کون ہے؟ یہ بتانے کے بعد یا تو ہم آپ سے مل جائیں گے یا جدا ہوں گے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرا دوست جبریل علیہ السلام ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے جو نبی بھی بھیجا ہے، یہی جبریل علیہ السلام اس کے دوست رہے ہیں۔ انہوں نے کہا: تب تو ہم آپ سے علیحدہ ہوتے ہیں، اگر اس کے علاوہ کوئی اور فرشتہ آپ کا دوست ہوتا تو ہم آپ کی ا تباع کرتے اور تصدیق کرتے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہیں جبریل کی تصدیق میں کونسی چیز رکاوٹ ہے؟ انہوں نے کہا: یہ فرشتہ ہمارا دشمن ہے۔ اس وقت اللہ تعالی نے فرمایا : {قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّہٗنَزَّلَہٗعَلٰی قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللّٰہِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَیَدَیْہِ وَھُدًی وَّبُشْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ۔ … … کِتَابَ اللّٰہِ وَرَائَ ظُہُورِہِمْ کَأَ نَّہُمْ لَا یَعْلَمُونَ} … کہہ دے جو کوئی جبریل کا دشمن ہو تو بے شک اس نے یہ کتاب تیرے دل پر اللہ کے حکم سے اتاری ہے، اس کی تصدیق کرنے والی ہے جو اس سے پہلے ہے اور مومنوں کے لیے سرا سر ہدایت اور خوشخبری ہے۔ … اللہ تعالی کی کتاب کو اپنی پیٹھوں کے پیچھے پھینک دیا، گویا کہ وہ نہیں جانتے تھے۔ پس اس وقت یہ لوگ دوہرے غضب کے ساتھ لوٹے۔

Haidth Number: 8487