Blog
Books
Search Hadith

اولاد اور پھر قریب سے قریب تر رشتہ داروں کے ساتھ نیکی کرنا

860 Hadiths Found
۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی فقیر ہو تو وہ اپنے آپ سے ابتداء کرے، اگر مال بچ جائے تو اپنے بچوں پر خرچ کرے، اگر پھر بھی مال زائد ہو تو اپنے دوسرے رشتہ داروں پر صرف کرے اور اگر پھر بھی مال بچ جائے تو اِدھر اُدھر یعنی دوسرے لوگوں پر خرچ کرے۔

Haidth Number: 9015
۔ سیدنا مقدام بن معدی کرب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو تو اپنے آپ کو کھلائے گا، وہ تیرے لیے صدقہ ہو گا، جو تو اپنی اولاد کو کھلائے گا، وہ بھی تیرے لیے صدقہ ہو گا، جو تو اپنی بیوی کو کھلائے گا، وہ بھی تیرے لیے صدقہ ہو گا اور جو تو اپنے خادم کو کھلائے گا، وہ بھی تیرے لیے صدقہ ہو گا۔

Haidth Number: 9016
۔ سیدنا ثوبان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سب سے زیادہ فضیلت والا دینار وہ ہے، جو بندہ اپنے بچوں پر خرچ کرتا ہے اور وہ دینار ہے جو آدمی اللہ کے راستے میں اپنے چوپائے پر خرچ کرے۔ پھر ابو قلابہ نے اپنی طرف سے بچوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا: اور کون سا آدمی اجر و ثواب میں اس شخص سے بڑا ہو سکتا ہے، جو اپنے چھوٹے بچوں پر خرچ کرتا ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ ان کو اس کے ذریعے پاکدامن بنائے رکھتا ہے۔

Haidth Number: 9017
۔ سیدنا مقدام بن معدی کرب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ نے تم کو زیادہ قریبی رشتہ داروں کے بارے میں وصیت کی ہے اور پھر ان سے جو ان کے بعد ہوں۔

Haidth Number: 9018
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے بہت بڑا گناہ کیا ہے، کیا میرے لیے توبہ کا امکان ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تیرے والدین زندہ ہیں؟ اس نے کہا: جی نہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تیری کوئی خالہ ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر اسی سے نیکی کر۔

Haidth Number: 9019
۔ زوجۂ رسول سیدہ میمونہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں نے اپنی ایک لونڈی کو آزاد کیا، پھر جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے پاس تشریف لائے تو میں آپ کو اس کی آزادی کی بارے میں بتلایا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تجھے اجر عطا کرے، لیکن اگر تو اپنے ماموؤں کو دے دیتی تو اس میں تیرے لیے زیادہ اجر ہوتا۔

Haidth Number: 9020
۔ امام شعبہ کہتے ہیں: میں نے معاویہ بن قرہ سے کہا: کیا تم نے سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے سنا کہ انھوں نے یہ بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا نعمان بن مقرن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو فرمایا: لوگوں کا بھانجا ان میں سے ہی ہے۔ انھوں نے کہا: جی ہاں۔

Haidth Number: 9021

۔ (۱۹۲۲)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ اَبِیْ لَیْلٰی، قَالَ سَمِعْتُ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلِیًّا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، یَقُوْلُ: اِجْتَمَعْتُ اَنَا وَفَاطِمَۃُ، وَالْعَبَّاسُ، وَزَیْدُ بْنُ حَارِثَۃَ، عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقَالَ الْعَبَّاسُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! کَبِرَ سِنِّیْ، وَ رَقَّ عَظْمِیْ، وَکثُرَتْ مُؤْنَتِیْ، فَاِنْ رَاَیْتَیَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اَنْ تَاْمُرَ لِیْ بِکَذَا وَکَذَا وَسْقًا مِنْ طَعَامٍ فَافْعَلْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((نَفْعَلُ ذٰلِکَ۔)) ثُمَّ قَالَ زَیْدُ بْنُ حَارِثَۃَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! کُنْتَ اَعْطَیْتَنِیْ اَرْضًا کَانَتْ مَعِیْشَتِیْ مِنْھَا، ثُمَّ قَبَضْتَھَا، فَاِنْ رَاَیْتَ اَنْ تَرُدَّھَا عَلَیَّ فَافْعَلْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((نَفْعَلُ ذٰلِکَ۔)) قَالَ: فَقُلْتُ اَنَا:یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنْ رَاَیْتَاَنْ تُوَلِّیَنِیْ ھٰذَا الْحَقَّ الَّذِیْ جَعَلَہُ اللّٰہُ لَنَا فِیْ کِتَابِہٖمِنْھٰذَاالْخُمُسِ،فَاَقْسِمُہُفِیْ حَیَاتِکَ، کَیْ لا یُنَازِعَنِیْہِ اَحَدٌ بَعْدَکَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((نَفْعَلُ ذَاکَ۔)) فَوَلَّانِیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَسَمْتُہُ فِیْ حَیَاتِہِ، ثُمَّ وَلَّانِیْہِ اَبُوْ بَکْرٍ، فَقَسَمْتُہُ فِیْ حَیَاتِہِ، ثُمَّ وَلَّانِیْہِ عُمَرُ، فَقَسَمْتُہُ فِیْ حَیَاتِہِ، حَتّٰی کَانَتْ آخِرُ سَنَۃٍ مِنْ سِنِیْ عُمَرَ فَاِنَّہُ اَتَاہُ مَالٌ کَثِیْرٌ۔ (مسند احمد: ۶۴۶)

۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں، سیدہ فاطمہ، سیدنا عباس اور سیدنا زید بن حارثہ ، رسول اللہ کے پاس جمع ہوئے، سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اب میری عمر بڑی ہو چکی ہے، میری ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں اور مشقت بھی کافی کر لی ہے، اس لیے اگر آپ مناسب سمجھیں تو میرے لیے اتنے وسق اناج کا حکم دے دیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہم اس طرح کر دیں گے۔ پھر سیدنا زید بن حارثہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے مجھے ایک زمین دی تھی، وہ میری گزران کا ذریعہ تھی، لیکن پھر آپ نے واپس لے لی ہے، اگر آپ مناسبت سمجھتے ہیں تو دوبارہ مجھے دے دیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہم اس طرح کریں گے۔ پھر میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر آپ مناسب سمجھیں کہ آپ مجھے اس حق کا والی بنا دیں، جس کا اللہ تعالیٰ نے خُمُس کی صورت میں اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے، میں اس کو آپ کی زندگی میں تقسیم کروں گا، تاکہ آپ کے بعد کوئی آدمی مجھ سے جھگڑا نہ کرے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہم ایسے ہی کریں گے۔ پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے اس کا والی بنا دیا، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی حیات ِ مبارکہ میں اس کوتقسیم کیا، پھر سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے اس کا والی بنایا، میں نے ان کی زندگی میں بھی اس کو تقسیم کیا، پھر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے اس کا والی بنایا اور میں نے ان کی زندگی میں اس کو تقسیم کیا،یہاں تک کہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا آخری سال تھا اور ان کے پاس بہت زیادہ مال آیا تھا۔

Haidth Number: 9022
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ایک قافلہ مدینہ منورہ میں آیا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے کوئی چیز خریدی اور اس پر کچھ اوقیے نفع کمایا اور پھر ان کو بنو عبد المطلب کی بیواؤں میں تقسیم کر دیا اور فرمایا: آئندہ میں ایسی چیز نہیں خریدوں گا، جس کی میرے پاس قیمت نہیں ہو گی۔

Haidth Number: 9023

۔ (۱۹۲۴)۔ عَنْ اَنَسٍ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: کَانَ اَبُوْطَلْحَۃَ اَکْثَرَ اَنْصَارِیِّ بِالْمَدِیْنَۃِ مَالًا، وَکَانَ اَحَبَّ اَمْوَالِہِ اِلَیْہِ بَیرُحَائُ، وَکَانَتْ مُسْتَقْبِلَۃَ الْمَسْجِدِ، فَکَانَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَدْخُلُھَا وَیَشْرَبُ مِنْ مَائٍ فِیْھَا طَیِّبٍ، قَالَ اَنَسٌ: فَلَمَّا نَزَلَتْ {لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ} قَالَ اَبُوْطَلْحَۃَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنَّ اللّٰہَ یَقُوْلُ: {لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ} وَاِنَّ اَحَبَّ اَمْوَالِیْ اِلَیَّ بَیْرُحَائُ وَاِنَّھَا صَدَقَۃٌ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ اَرْجُوْ بِرَّھَا وذُخْرَھَا عِنْدَاللّٰہِ، فَضَعْھَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! حَیْثُ اَرَاکَ اللّٰہُ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((بَخٍ ذٰلِکَ مَالٌ رَابِحٌ، ذٰلِکَ مَالٌ رَابِحٌ۔ وَقَدْ سَمِعْتُ، وَاَنَا اَرٰی اَنْ تَجْعَلَھَا فِی الْاَقْرَبِیْنَ۔)) فَقَالَ اَبُوْطَلْحَۃَ: اَفْعَلُ یَارَسُوْلُ اللّٰہِ! قَالَ: فَقَسَمَھَا اَبُوْطَلْحَۃَ فِیْ اَقَارِبِہٖوَبَنِیْ عَمِّہِ۔ (مسند احمد: ۱۲۴۶۵)

۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: مدینہ منورہ کے انصاریوں میں سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سب سے زیادہ مالدار تھے اور ان کا سب سے پسندیدہ مال بیرحاء باغ تھا، یہ مسجد کے سامنے تھا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس میں داخل ہوتے اور اس کا میٹھا پانی پیتے تھے، جب یہ آیت نازل ہوئی: {لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ} … تم جب تک پسندیدہ چیزیں خرچ نہیں کرو گے، اس وقت تک نیکی تک نہیں پہنچو گے۔ تو سیدنا ابو طلحہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ {لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ} اور میرا سب سے پسندیدہ مال بیرحاء ہے، لہٰذا میں اس کو اللہ تعالیٰ کے لیے صدقہ کرتا ہوں اور اس کے ہاں اس کی نیکی اور ذخیرہ ہونے کی امید کرتا ہوں، اے اللہ کے رسول! جیسے اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے، اس کے مطابق اس کو تقسیم کر دیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: واہ واہ! یہ تو نفع بخش مال ہے، یہ تو نفع بخش مال ہے، تحقیق میں نے تیری بات سن لی ہے، میرا خیال ہے کہ تو اس کو اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کر دے۔ سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اسی طرح ہی کروں گا، پھر انھوں نے وہ مال اپنے رشتے داروں اور چچا زادوں میں تقسیم کر دیا۔

Haidth Number: 9024
۔ سیدنا عطیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، جن کو صحبت کا شرف حاصل تھا، سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک غضب شیطان کی طرف سے ہے اور شیطان کو آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آگ کو پانی کے ذریعے بجھایا جاتا ہے، اس لیے جب تم میں سے کوئی غصے میں آ جائے تو وہ وضو کیا کرے۔

Haidth Number: 9180
۔ سیدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی موجودگی میں دو آدمی ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگے اور ان میں سے ایک اس قدر طیش میں آیا کہ یہ خیال ہونے لگا کہ غصے کی وجہ سے اس ناک پھٹ جائے گی، اس وقت رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر یہ غصے والا آدمی اس کو کہے تو اس کا غصہ ختم ہو جائے گا، وہ کلمہ یہ ہے: اَللّٰھُمْ اِنَّی اَعَوْذُ بِکَ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ۔ (اے اللہ! میں شیطان مردود سے تیری پناہ میں آتا ہوں)۔

Haidth Number: 9181
۔ سیدنا ابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں فرمایا: جب تم میں سے کسی کو غصہ آ جائے اور وہ کھڑا ہو تو وہ بیٹھ جائے، اگر غصہ ختم ہو جائے تو ٹھیک، وگرنہ لیٹ جائے۔

Haidth Number: 9182

۔ (۹۲۹۹)۔ عَنْ مُجَاھِدٍ، اَنَّ اَبَا ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ کَانَ یَقُوْلُ: وَاللّٰہِ! اِنْ کُنْتُ لَاَعْتَمِدُ بِکَبِدِیْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْجُوْعِ، وَاِنْ کَنْتُ لَاَشُدُّ الْحَجَرَ عَلَی بَطَنِی مِنَ الْجُوْعِ، وَلَقَدْ قَعَدْتُ یَوْمًا عَلَی طَرِیْقِھِمُ الَّذِیْیَخْرُجُوْنَ مِنْہُ، فَمَرَّ اَبُوْبَکْرٍ فَسَاَلْتُہُ عَنْ آیَۃٍ مِّنْ کِتَابِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ، مَا سَاَلْتُہُ اِلَّا لِیَسْتَتْبِعَنِی، فَلَمْ یَفْعَلْ، فَمَرَّ عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَسَاَلْتُہُ عَنْ آیَۃٍ مِّنْ کِتَابِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ، مَا سَاَلْتُہُ اِلَّا لِیَِسْتَتْبِعَنِی فَلَمْ یَفْعَلْ، فَمَرَّ اَبُوْ الْقَاسِمِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَعَرَّفَ مَا فِی وَجْھِی، وَمَا فِی نَفْسِی، فَقَالَ: ((اَبَاھُرَیْرَۃَ۔)) قُلْتُ لَہُ: لَبَّیْکَیَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!، قَالَ: ((الْحَقْ۔))، وَاسْتَاْذَنْتُ فَاَذِنَ لِی فَوَجَدْتُ لَبَنًا فِی قَدَحٍ قَالَ: ((مِنْ اَیْنَ لَکُمْ ھٰذَا اللَّبَنُ؟۔)) فَقَالُوْا: اَھْدَاہُ لَنَا فَلَانٌ اَوْ آلُ فَلَانٍ، قَالَ: ((اَبَا ھُرَیْرَۃَ۔))، قُلْتُ: لَبَّیْکَیَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!، قَالَ: ((انْطَلِقْ اِلٰی اَھْلِ الصُّفَّۃِ فَادْعُھُمْ لِی۔))، قَالَ: وَاَھْلُ الصُّفَّۃِ اَضْیَافُ الْاِسْلَامِ، لَمْ یَاْوُوْا اِلیٰ اَھْلٍ وَلَا مَالٍ، اِذَا جَائَ تْ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ھَدِیَّۃٌ اَصَابَ مِنْھَا، وَبَعَثَ اِلَیْھِمْ مِنْھَا، قَالَ: وَاَحْزَنَنِی ذٰلِکَ، وَکُنْتُ اَرْجُوْا اَنْ اُصِیْبَ مِنَ اللَّبَنِ شَرْبَۃً اَتَقَوٰی بِھَا بَقِیَّۃَیَوْمِی وَلَیْلَتِی، فَقُلْتُ: اَنَا الرَّسُوْلُ فَاِذَا جَائَ الْقَوْمُ کُنْتُ اَنَا الَّذِییُعْطِیْھِمْ فَقُلْتُ: مَا یَبْقٰی لِی مِنْ ھٰذَا اللَّبَنِ ، وَلَمْ یَکُنْ مِنْ طَاعَۃِ اللّٰہِ وَطَاعَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بُدٌّ، فَانْطَلَقْتُ فَدَعَوْتُھُمْ، فَاَقْبَلُوْا، فَاسْتَاْذَنُوْا فَاَذِنَ لَھُمْ، فَاَخْذُوْا مَجَالِسَھُمْ مِنَ الْبَیْتِ ثُمَّ قَالَ: ((اَبَاھِرٍّ! خُذْ فَاَعْطِھِمْ۔))، فَاَخَذْتُ الْقَدَحَ فَجَعَلْتُ اُعْطِیْھِمْ، فَیَاْخُذُ الرَّجُلُ الْقَدَحَ فَیَشْرَبُ حَتّٰییَرْوٰی، ثُمَّ یَرُدُّ الْقَدَحَ فَاُعْطِیْہِ الْآخَرَ فَیَشْرَبُ حَتّٰییَرْوٰی، ثّمَّ یَرُدَّ الْقَدْحَ حَتّٰی اَتَیْتُ عَلیٰ آخِرِھِمْ، وَدَفَعْتُ اِلیٰ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاَخَذَ الْقَدَحَ فَوَضَعَہُ فِییَدِہِ وَبَقِیَ فِیْہِ فَضْلَۃٌ، ثُمَّ رَفَعَ رَاْسَہُ فَنَظَرَ اِلَیْہِ وَتَبَسَّمَ فَقَالَ: ((اَبَاھِرٍّ!)) قُلْتُ: لَبَّیْکَیَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!، قَالَ: بَقِیْتُ اَنَا وَاَنْتَ، فَقُلْتُ: صَدَقْتَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ، قَالَ: ((فَاقْعُدْ فَاشْرَبْ۔))، قَالَ: فَقَعَدْتُ فَشَرِبْتُ، ثُمَّ قَالَ لِی: ((اِشْرَبْ۔)) فَشَرِبْتُ، فَمَا زَالَ یَقُوْلُ لِی: ((اِشْرَبْ۔)) فَاَشْرَبُ حَتّٰی قُلْتُ: لا وَالَّذِیْ بَعَثَکَ بِالْحَقِّ، مَا اَجِدُ لَھَا فِیَّ مَسْلَکًا، قَالَ: ((نَاوِلْنِی الْقَدَحَ۔)) فَرَدَدْتُ اِلَیْہِ الْقَدَحَ فَشَرِبَ مِنَ الْفَضْلَۃِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۱۰۶۹۰)

۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم! میں بھوک کی وجہ سے اپنے جگر کو زمین پر ٹیک دیتا تھا، اور میں بھوک کی وجہ سے اپنے پیٹ پر پتھر باندھتا تھا، ایک دن ایسے ہوا کہ میں اس راستے پر بیٹھ گیا، جہاں سے لوگ گزرتے تھے، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ میرے پا س سے گزرے، میں نے ان سے قرآن مجید کی ایک آیت کے بارے میں سوال کیا، میرا مقصد یہ تھا کہ وہ مجھے اپنے ساتھ لے جائیں (اور کھانا کھلائیں گے)، لیکن انھوں نے ایسے نہ کیا، پھر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ گزرے، میں نے ان سے کتاب اللہ کی ایک آیت کے بارے میں سوال کیا، ان سے بھی سوال کرنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ مجھے اپنے ساتھ لے جائیں گے، لیکن انھوں نے بھی ایسے نہ کیا، اتنے میں ابو القاسم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گزرے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے چہرے اور میرے نفس کی بات پہچان لی اور فرمایا: ابو ہریرہ! میں نے کہا: جی، اے اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے ساتھ چلو۔ پھر جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے گھر کے اندر چلے گئے تو میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اندر جانے کی اجازت طلب اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے اجازت دے دی، پس میں نے وہاں دودھ کا ایک پیالہ پایا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ دودھ کہاں سے آیا ہے؟ گھر والوں نے کہا: جی فلاں یا آل فلاں نے ہمارے لیے تحفہ بھیجا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابو ہریرہ! میں نے کہا: جی، اے اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جاؤ اور اہل صفہ کو بلا کر لاؤ۔ صفہ والے لوگ اسلام کے مہمان تھے، ان کا نہ کوئی اہل خانہ تھا اور نہ مال و دولت، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس کوئی تحفہ آتا تھا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس میں کچھ حصہ ان کو بھی بھیجتے تھے، لیکن اب کی بار تو مجھے اس چیز نے غمگین کر دیا، کیونکہ مجھے امید تھی کہ میں یہ دودھ پیوں گا اور دن رات کا باقی حصہ قوت حاصل کروں گا، لیکن اب مسئلہ یہ بنا ہے کہ قاصد بھی میں ہوں، جب اہل صفہ آ جائیں گے تو میں نے ہی ان کو پلانا ہو گا اور میرے لیے دودھ باقی نہیں رہے گا، لیکن اللہ تعالیٰ اور اس کی رسول کی اطاعت کے بغیر بھی کوئی چارہ کار نہیں تھا۔ سو میں گیا اور اُن کو بلا کر لے آیا، پس وہ آئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اجازت طلب کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو اجازت دے دی، وہ گھر میں آکر اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابو ہر! دودھ پکڑو اور اِن کو پلاؤ۔ پس میں نے پیالہ پکڑا اور اُن کو دینا شروع کیا، ایک آدمی پیالہ پکڑتا اور پیتا،یہاں تک کہ سیراب ہو جاتا، پھر وہ پیالہواپس کر دیتا اور میں دوسرے کو دیتا، پس وہ پیتا ،یہاں تک سیراب ہو جاتا اور پھر پیالہ واپس کر دیتا،یہ سلسلہ جاری رہا، یہاں تک کہ میں آخری بندے تک پہنچ گیا، اور پھر میں نے وہ پیالہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پکڑایا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پکڑا اور اور اس کو اپنے ہاتھ پر رکھا، ابھی تک اس میں دودھ کی کچھ مقدار باقی تھی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا سر اٹھایا، پس اس کی دیکھا اور مسکرانے لگے اور فرمایا: ابو ہر! میں نے کہا: جی، اے اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں اور تو، ہم دو باقی رہ گئے ہیں۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ سچ فرما رہے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سو بیٹھو اور پیو۔ پس میں بیٹھ گیا اور پیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر فرمایا: اور پیو۔ میں نے اور پیا، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہی فرماتے رہے کہ اور پیو۔ اور میں پیتا رہا، یہاں تک کہ میں نے کہا: نہیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے! اب کوئی گنجائش باقی نہیں رہی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر پیالہ مجھے پکڑا دو۔ میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پیالہ دے دیا، پھر باقی ماندہ دودھ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پی لیا۔

Haidth Number: 9299

۔ (۹۳۱۸)۔ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، ثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ زَیْدٍ اَبِی الْحَوَارِیِّ، عَنْ اَبِی الصِّدِّیْقِ، عَنْ اَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّہُ قَالَ: ((یَدْخُلُ فُقَرَائُ الْمُؤْمِنِیْنَ الْجَنَّۃَ قَبْلَ اَغْنِیَائِھُمْ بِاَرْبَعِمِائَۃِ عَامٍ۔)) قَالَ: فَقُلْتُ: اِنَّ الْحَسَنَ یَذْکُرُ اَرْبَعِیْنَ عَامًا، فَقَالَ: عَنْ اَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اَرْبَعُمِائَۃِ عَامٍ۔)) قَالَ: حَتّٰییَقُوْلَ الْغَنِّیُ: یَالَیْتَنِیْ کُنْتُ عَیِّلًا۔)) قَالَ: قُلْنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! سَمِّھِمْ لَنَا بِاَسْمَائِھِمْ؟ قَالَ: ((ھُمُ اللَّذِیْنَ اِذَا کَانَ مَکْرُوْہٌ، بُعِثُوْا لَہُ، وَاِذَا کَانَ مَغْنَمٌ بُعِثَ اِلِیْہِ سِوَاھُمْ، وَھُمُ الَّذِیْنَیُحْجَبُوْنَ عَنِ الْاَبْوَابِ۔)) (مسند احمد: ۲۳۴۹۱)

۔ بعض صحابۂ کرام بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: فقیر مؤمن جنت میں غنی مسلمانوں سے چار سو سال پہلے داخل ہوں گے۔ میں نے کہا: حسن تو چالیس برسوں کا ذکر کرتا ہے ؟ لیکن انھوں نے اصحاب ِ رسول کے حوالے سے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تو چار سو سال کی بات کی ہے، یہاں تک کہ غنی آدمی کہے گا: کاش میں بھی بہت زیادہ محتاج ہوتا۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ ان فقیروں کی صفات بیان کر دیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں کہ جب جنگ کا موقع آتا ہے تو ان کو بھیجا جاتا ہے، لیکن جب غنیمت کی باری آتی ہے تو اوروں کوروانہ کیا جاتا ہے اور یہ وہ لوگ ہیںجن کو (وڈیروں کے) دروازوں سے دور کر دیا جاتا ہے۔

Haidth Number: 9318
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: فقراء مسلمان، مالدار مسلمانوں سے نصف یومیعنی پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔

Haidth Number: 9319
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں اہلِ جہنم اور اہلِ جنت کے بارے میں بتلا نہ دوں؟ جنتی لوگ یہ ہیں: ہر کمزور، جس کو کمزور سمجھا جاتا ہے، پراگندہ بالوں والا اور دو بوسیدہ پرانے کپڑوں والا، (لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں اتنی وقعت والا ہے کہ) اگر وہ اللہ تعالیٰ پر قسم اٹھا دے تو وہ بھی اس کی قسم پوری کر دیتا ہے۔ اور جہنمی لوگ یہ ہیں: ہر بدمزاج (و بدخلق)،اکڑ کر چلنے والا، بہت زیادہ مال جمع کرنے والا اور بہت زیادہ بخل کرنے والا اور دوسرے لوگ جس کی پیروی کرتے ہیں۔

Haidth Number: 9320

۔ (۹۳۲۱)۔ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: کُنْتُ فِیْ حَلْقَۃٍ مِّنَ الْاَنْصَارِ، وَاِنَّ بَعْضَنَالَیَسْتَتِرُ بِبَعْضٍ مِّنَ الْعُرْیِ، وَقَارِیئٌ لَّنَا یَقْرَؤُ عَلَیْنَا فَنَحْنُ نَسْمَعُ اِلیٰ کِتَابِ اللّٰہِ، اِذْ وَقَفَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَعَدَ فِیْنَا لِیَعُدَّ نَفْسَہُ مَعَھُمْ، فَکَفَّ الْقَارِیُ، فَقَالَ: ((مَاکُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ؟)) فَقُلْنَا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! کَانَ قَارِیئٌ لَّنَا یَقْرَاُ عَلَیْنَا کِتَابَ اللّٰہِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِیَدِہِ وَحَلَّقَ بِھَایُوْمِیئُ اِلَیْھِمْ: ((اَنْ تَحَلَّقُوْا۔)) فَاسْتَدَارَتِ الْحَلْقَۃُ فَمَا رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَرَفَ مِنْھُمْ اَحَدًا غَیْرِیْ، قَالَ: فَقَالَ: ((اَبْشِرُوْا یَامَعْشَرَ الصَّعَالِیْکِ تَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ قَبْلَ الْاَغْنِیَائِ بِنِصْفِ یَوْمٍ وَذٰلِکَ خَمْسُمِائِۃِ عَامٍ۔)) (مسند احمد: ۱۱۶۲۶)

۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں انصاریوں کی ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا، صورتحال یہ تھی کہ پردہ کرنے کے لیے بعض لوگ بعض کی اوٹ میں چھپ رہے تھے اور ایک قاری ہم پر تلاوت کر رہا تھا اور اللہ تعالیٰ کا کلام سن رہے تھے، اتنے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی ہمارے پاس تشریف لے آئے اور ہمارے بیچ میں بیٹھ گئے، تاکہ اپنے نفس کو ان میں شمار کروائیں، پس قاری نے تلاوت بند کر دی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم کیا کہہ رہے تھے؟ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہمارا ایک قاری ہم پر اللہ تعالیٰ کی کتاب کی تلاوت کر رہا تھا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے ہاتھ سے حلقہ بنایا اور اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس طرح حلقہ بنا لو۔ پس لوگ گھوم کر حلقے میں بیٹھ گئے، میرا خیال ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے علاوہ کسی کو نہیں پہچانا، بہرحال آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے فقیروں کی جماعت! خوش ہو جاؤ، تم مالدار لوگوں سے نصف دن یعنی پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل ہو گے۔

Haidth Number: 9321
۔ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابو ذر! دیکھ، مسجد میں کون آدمی سب سے زیادہ رفعت والا ہے؟ وہ کہتے ہیں: میں نے دیکھا، اچانک ایک آدمی نظر آیا، اس نے عمدہ پوشاک زیب ِ تن کی ہوئی تھی، میں نے کہا: یہ ہے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے فرمایا: اب دیکھ، مسجد میں کون سا آدمی سب سے کم درجہ ہے؟ میں نے دیکھا، ایک آدمی نے چیتھڑے پہنے ہوئے تھے، میں نے کہا: جییہ ہے، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یہ (کم درجہ) آدمی روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کے ہاں اُس (رفعت والے) زمین بھر افراد سے بہتر ہو گا۔

Haidth Number: 9322
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے جنت میں جھانکا، پس وہاں کے اکثر لوگوں کو فقیر دیکھا ، پھر جب میں نے جہنم میں جھانکا تو وہاں کے اکثر لوگوں کو مالدار اور عورتیں پایا۔

Haidth Number: 9323
۔ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! غنی لوگ نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں اور حج کرتے ہیں، اس طرح وہ اجر میں آگے بڑھتے جا رہے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم بھی روزہ رکھتے ہو، نماز پڑھتے ہو اور حج کرتے ہو۔ میںنے کہا: جی وہ صدقہ کرتے ہیں اور ہم صدقہ نہیں کر سکتے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تیری اندر بھی صدقہ کی صورتیں موجود ہیں، مثلا راستے سے ہڈی ہٹا دینا صدقہ ہے، راستے کی رہنمائی کر دینا صدقہ ہے، زائد طاقت کے ساتھ کمزور کی مدد کر دینا صدقہ ہے، واضح الفاظ ادا نہ کر سکنے والے کی طرف سے وضاحت کر دینا صدقہ ہے اور اپنی بیوی سے جماع کر لینے میں صدقہ ہے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا ایسے ہو سکتا ہے کہ ہم اپنی شہوت کو پورا کریں اوراس میں ہمارے لیے اجر بھی ہو؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اچھا یہ بتلا کہ اگر تو اس عضو خاص کو حرام کام پر لگا دے تو کیا تو گنہگار ہو گا؟ میں نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو تم شرّ سے بچ کر ثواب کی نیت کرتے ہو، اور کہ خیر والا کام کر کے ثواب کی نیت نہیں کرتے۔

Haidth Number: 9324
۔ سیدنا ابوسعید خدری روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اپنی محتاجی کی شکایت کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابو سعید! صبر کرو، کیوں جو بندہ مجھ سے محبت کرتاہے، اس کی طرف فقر و فاقہ اتنی تیزی کے ساتھ بڑھتا ہے، جیسے سیلاب (کا ریلہ) وادی کی بلندی سے اور پہاڑ کی چوٹی سے پستی کی طرف بڑھتا ہے۔

Haidth Number: 9325
۔ سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوا، پس دیکھا کہ اس میں داخل ہونے والوں میں عام لوگ مساکین تھے اور مرتبے والوں کو (جنت سے باہر) روک لیا گیا تھا، البتہ جہنمیوں کے بارے میں یہ حکم دے دیا گیا تھا کہ ان کو جہنم میں لے جایا جائے، پھر میں آگ کے دروازے پر کھڑا ہوا اور دیکھا کہ اس میں داخل ہونے والوں میں سے عام خواتین تھیں۔

Haidth Number: 9326
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے جنت میں جھانکا اور اس میں فقراء کی اکثر تعداد دیکھی، پھر میں نے آگ میں اوپر سے دیکھا اور اس میں اکثر تعداد عورتوں کی دیکھی۔

Haidth Number: 9327
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دو مؤمن جنت کے دروازے پر ملیں گے، ایک مالدار ہو گا اور دوسرا فقیر، وہ دنیا میں دوست ہوں گے، پس فقیر کو جنت میں داخل کر دیا جائے گا اور مالدار کو اتنی دیر کے لیے روک لیا جائے گا، جتنا اللہ تعالیٰ چاہے گا، پھر جب اس کو جنت میں داخل کیا جائے گا اور وہ فقیر اس کو ملے گا تو وہ کہے گا: اے میرے بھائی! کس چیز نے تجھے روک لیا تھا؟ اللہ کی قسم! تجھے اتنی دیر کے لیے روکا گیا کہ مجھے تو تیرے بارے میں ڈر محسوس ہونے لگا، وہ کہے گا: اے میرے بھائی! مجھے تیرے بعد ایسی جگہ پر روک لیا گیا، جو بڑی ہولناک اور مکروہ تھی اور تیرے پاس پہنچنے تک مجھ سے اس قدر پسینہ نکلا کہ اگر حَمْض پودا کھانے والے ایک ہزار اونٹ اس کو پینے کے لیے آتے تو وہ سیراب ہو کر واپس جاتے۔

Haidth Number: 9328
۔ سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بخار تھا، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: اے اللہ کے رسول! بیشک آپ کو بہت سخت بخار ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرمایا: جی، بیشک مجھے اتنا بخار ہوتا ہے، جتنا تم میں سے دو افراد کو ہوتا ہے۔ میں نے کہا: تو پھر آپ کے لیے اجر بھی دو گنا ہوتا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میرے جان ہے! روئے زمین پر رہنے والے جس مسلمان کو جو تکلیف لاحق ہوتی ہے، وہ بیماری ہو یا کوئی اور تکلیف، تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو یوں مٹاتا ہے، جیسے درخت اپنے پتوں کو گرا دیتا ہے۔

Haidth Number: 9366
Haidth Number: 9367
۔ سیدہ معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو چیز مؤمن کے جسم کو تکلیف پہنچاتی ہے، اللہ تعالیٰ اس کو اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے۔

Haidth Number: 9368

۔ (۹۳۶۹)۔ عَنْ اَبِی الْاَشْعَثِ الصَّنْعَانِیْ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، اِنَّہُ رَاحَ اِلٰی مَسْجِدِ دِمَشْقَ وَھَجَّرَ بِالرَّوَاحِ، فَلَقِیَ شَدَّادَ بْنَ اَوْسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، وَالصُّنَابِحِیُّ مَعَہُ، فَقُلْتُ: اَیْنَ تُرِیْدَانِیَرْحَمُکُمَااللّٰہُ؟ قَالا: نُرِیْدُ ھَاھُنَا اِلٰی اَخٍ لَّنَا مَرِیْضٍ نَعُوْدُہُ، فَانْطَلَقْتُ مَعَھُمَا حَتّٰی دَخَلا عَلٰی ذٰلِکَ الرَّجُلِ فَقَالا لَہُ: کَیْفَ اَصْبَحْتَ؟ قَالَ: اَصْبَحْتُ بِنِعْمَۃٍ، فَقَالَ لَہُ شَدَّادُ: اَبْشِرْ بِکَفَّارَاتِ السَّیِّئَاتِ وَحَطِّ الْخَطَایَا، فَاِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یَقُوْلُ: اِذَا ابْتَلَیْتُ عَبْدًا مِنْ عِبَادِیْ مُؤْمِنًا فَحَمِدَنِیْ عَلٰی مَا ابْتَلَیْتُہُ فَاِنَّہُ یَقُوْمُ مِنْ مَّضْجَعِہِ ذٰلِکَ کَیَوْمٍ وَلَدَتْہُ اُمُّہُ مِنَ الْخَطَایَا وَیَقُوْلُ الرَّبُّ عَزَّوَجَلَّ: اَنَا قَیَّدْتُّ عَبْدِیْ وَابْتَلَیْتُہُ وَاَجْرُوْا لَہُ کَمَا کُنْتُمْ تُجْرُوْنَ لَہُ وَھُوَ صَحِیْحٌ۔)) (مسند احمد: ۱۷۲۴۸)

۔ ابو اشعث صنعانی کہتے ہیں: میں پہلے وقت میںیا دوپہر کے وقت مسجد ِ دمشق کی طرف جا رہا تھا، سیدنا شداد بن اوس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے میری ملاقات ہو گئی، جبکہ سیدنا صنابحی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان کے ساتھ تھے، میں نے کہا: اللہ تم پر رحم کرے، کہاں جا رہے ہو؟ انھوں نے کہا: جی ہم اِدھر ایک بیماربھائی کی تیمار داری کرنے کے لیے جا رہے ہیں، پس میں بھی ان کے ساتھ چل پڑا، یہاں تک کہ وہ اس بھائی کے پاس پہنچ گئے اور کہا: آپ نے کیسے صبح کی ہے؟ اس نے کہا: جی نعمت کے ساتھ صبح کی ہے، پھر سیدنا شداد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: برائیوں کے معاف ہونے اور گناہوں کے مٹ جانے کے ساتھ خوش ہو جاؤ، کیونکہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا کہ بیشک اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جب میں اپنے کسی مؤمن بندے کو آزماتا ہوں اور وہ میری اس آزمائش پر تعریف کرتا ہے تو وہ اس دن کی طرح خطاؤں سے پاک ہو کر اپنے بستر سے کھڑا ہوتا ہے، جس دن اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا، پھر اللہ تعالیٰ مزید فرماتا ہیں: میں نے اپنے بندے کو مقید کر دیا ہے اور اس کو آزمایا ہے، لہٰذا فرشتو! تم اس کے وہ سارے اعمال لکھتے رہو، جو تم اس وقت لکھتے تھے، جب وہ صحت مند تھا۔

Haidth Number: 9369
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر ہی سب سے سخت تکلیف کو دیکھا ہے ۔

Haidth Number: 9370