Blog
Books
Search Hadith

قتل کے علاوہ اعضا اور زخموں وغیرہ کی دیت کا بیان

91 Hadiths Found
۔ سیدنا ابوموسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انگلیوں کے بارے میںیہ فیصلہ فرمایا کہ ہر ہر انگلی کی دیت دس اونٹ ہے۔

Haidth Number: 6597
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مامومہ (یعنی دماغ تک اتر جانے والے زخم) کی دیت کل دیت کا ایک تہائی ہے، یعنی تینتیس اونٹ یا سونے اور چاندی کی صورت میں ان کی قیمتیا گائیںیا بکریاں، وہ زخم جو پیٹ تک پہنچ جائے اس کی دیت کل دیت کا ایک تہائی ہے، ٹوٹ جانے والی ہڈی کی دیت پندرہ اونٹ ہے، جس زخم سے ہڈی ننگی ہو جائے، اس کی دیت پانچ اونٹ ہے اور ایک دانت کی دیت پانچ اونٹ ہے۔

Haidth Number: 6598
۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، انھوں نے کہا: کیا تم حیا نہیں رکھتے، کیا تمہیں غیرت نہیں آتی کہ تمہاری عورتیں باہر جاتی ہیں اور مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ تمہاری عورتیں بازاروں میں نکل جاتی ہیں اور قوی اور بھاری بھرکم مردوں سے ٹکراتی ہیں۔

Haidth Number: 8147
۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو عورت بھی خوشبو لگا کر لوگوں کے پاس سے گزرے تا کہ وہ اس کی خوشبو محسوس کریں تو وہ زانیہ اور بدکار ہو گی۔

Haidth Number: 8148
۔ سیّدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک عورت کو ملے اوراس سے بڑی اچھی اور تیز اڑنے والی خوشبومحسوس کی، سیّدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس سے پوچھا: کیا تو مسجد میں جانے کا ارادہ رکھتی ہے؟اس نے کہا: جی ہاں۔ انھوں نے کہا: تو نے اسی لیے خوشبو استعمال کی ہے؟ ا س نے کہا: جی ہاں۔ انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو عورت مسجد کے لیے خوشبو لگاتی ہے تو اللہ تعالی اس کی نماز قبول نہیں کرتا، یہاں تک کہ وہ غسلِ جنابت کی طرح کا غسل نہ کر لے۔ اس لیے تو چلی جا اور غسل کر۔

Haidth Number: 8149
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیات نازل ہوئیں {لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّوْنَ}… تم ہر گز نیکی کو نہیں پہنچ سکو گے، تاآنکہ تم اپنی پسندیدہ چیزیں خرچ کرو اور {مَنْ ذَا الَّذِییُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا} … کون ہے جو اللہ تعالی کو قرضِ حسن دے۔ تو سیدنا ابوطلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرا فلاں فلاں جگہ والا باغ (مجھے سب سے زیادہ پسند ہے)، اگر ہمت ہوتی تو میں اس کو مخفی طور پر ہی صدقہ کرنا، کسی کو پتا نہ چلنے دینا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اسے اپنے رشتہ دار فقراء میں تقسیم کر دو۔

Haidth Number: 8540

۔ (۱۰۵۶۹)۔ عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَیْشٍ قَالَ: أَتَیْتُ عَلٰی حُذَیْفَۃَ بْنِ الْیَمَانِ وَھُوَ یُحَدِّثُ عَنْ لَیْلَۃٍ أُسْرِیَ بِمُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَھُوَ یَقُوْلُ: ((فَانْطَلَقْتُ أَوِ انْطَلَقْنَا فَلَقِیْنَا حَتّٰی أَتَیْنَا عَلَی بَیْتِ الْمَقْدَسِ۔)) فَلَمْ یَدْخُلَاہُ، قَالَ: قُلْتُ: بَلْ دَخَلَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَیْلَتَئِذٍ وَصَلّٰی فِیْہِ، قَالَ: مَا اسْمُکَ؟یا اَصْلَعُ! فَاِنَّیْ أَعْرِفُ وَجْھَکَ وَلَا أَدْرِیْ مَااسْمُکَ، قَالَ: قُلْتُ: أَنَا زِرُّ بْنُ حُبَیْشٍ، قَالَ: فَمَا عِلْمُکَ بِأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْہِ لَیْلَتَئِذٍ؟ قَالَ: قُلْتُ: اَلْقُرْآنُیُخْبِرُنِیْ بِذٰلِکَ، قَالَ: مَنْ تَکَلَّمَ بِالْقُرْآنِ فَلَجَ اقْرَأْ! قَالَ: فَقَرَأْتُ {سُبْحَانَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہِ لَیْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ} قَالَ: فَلَمْ أَجِدْہُ صَلّٰی فِیْہِ، قَالَ: یَا اَصْلَعُ! ھَلْ تَجِدُ صَلّٰی فِیْہِ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: وَاللّٰہِ! مَا صَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَیْلَتَئِذٍ، لَوْ صَلَّی فِیْہِ لَکُتِبَ عَلَیْکُمْ صَلَاۃٌ فِیْہِ کَمَا کُتِبَ عَلَیْکُمْ صَلَاۃٌ فِیْ الْبَیْتِ الْعَتِیْقِ، وَاللّٰہِ! مَا زَایَلَا الْبُرَاقَ حَتّٰی فُتِحَتْ لَھُمَا أَبْوَابُ السَّمَائِ فَرَأَیَا الْجَنَّۃَ وَالنَّارَ وَوَعْدَ الْآخِرَۃِ اَجْمَعَ، ثُمّّ عَادَا عَوْدَھُمَا عَلٰی بَدْئِھِمَا، قَالَ: ثُمَّ ضَحِکَ حَتّٰی رَأَیْتُ نَوَاجِذَہُ، قَالَ: وَیُحَدِّثُوْنَ أَنَّہُ رَبَطَہُ لِئَلَّا یَفِرَّ مِنْہُ، وَاِنَّمَا سَخَّرَہُ لَہُ عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ، قَالَ: قُلْتُ: اَبَا عَبْدِ اللّٰہِ ! أَیُّ دَابَّۃٍ البُرَاقُ؟ قَالَ: دَابَّۃٌ اَبْیَضُ طَوِیْلٌ ھٰکَذَا خَطْوُہُ مَدُّ الْبَصَرِ۔ (مسند احمد: ۲۳۶۷۴)

۔ سیدنا زِرّ بن حبیش سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا حذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آیا، جبکہ وہ اسراء والی رات کے بارے میں بیان کرتے ہوئے کہہ رہے تھے: پس نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پس میں چلا یا ہم چلے، اور اسی طرح چلنے پر بر قرار رہے، یہاں تک کہ ہم بیت المقدس کے پاس پہنچ گئے۔ پھر نبیکریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور جبریل علیہ السلام اس میں داخل نہیں ہوئے، میں (زِرّ) نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس رات بیت المقدس میں داخل ہوئے تھے اور اس میں نماز بھی پڑھی تھی، انھوں نے کہا:او گنجے! تیرا نام کیا ہے؟ میں تجھے چہرے سے تو پہچانتا ہوں، لیکن تیرے نام کو نہیں جانتا۔ میں نے کہا: میں زِرّ بن حبیش ہوں، انھوں نے کہا: تجھے کیسے علم ہوا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس رات کو وہاں نماز پڑھی تھی؟ میں نے کہا: قرآن مجید نے مجھے یہ خبر دی ہے، انھوں نے کہا: جس نے قرآن کے ساتھ بات کرے وہ تو غالب آ جاتا ہے، اچھا دلیل کی تلاوت کرو، میں نے یہ آیت تلاوت کی: {سُبْحَانَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہِ لَیْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ…} انھوں نے کہا: اس آیت میں تو اس قسم کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہاں نماز پڑھی ہے، او گنجے! کیا اس آیت میں تجھے ایسی کوئی چیز نظر آتی ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہاں نماز پڑھی ہو؟ میں نے کہا: نہیں، انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! وہ دونوں ہستیاں براق سے ہٹی ہی نہیں کہ ان کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیئے گئے اور ان دونوں نے جنت، جہنم اور آخرت کے تمام وعدے دیکھے، اور پھر وہ وہاں لوٹ آئے، جہاں سے انھوں نے سفر شروع کیا تھا، پھر سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اتنے ہنسے کہ میں نے ان کی داڑھیں دیکھ لیں۔ پھر انھوں نے کہا: لوگ کہتے ہیں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے براق کو اس لیے باندھا تھا کہ وہ بھاگ نہ جائے، حالانکہ مخفی اور ظاہری چیزوں کو جاننے والی ذات نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے اس براق کو مسخر کیا تھا۔ میں نے کہا: اے ابو عبد اللہ! کون سا جانور براق ہوتا ہے؟ انھوں نے کہا: یہ اس طرح کا سفید رنگ کا لمبا سا جانور ہوتا ہے اور اس کاقدم منتہائے نگاہ تک جاتا ہے۔

Haidth Number: 10569

۔ (۱۰۵۷۰)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَھْدَلَۃَ عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَیْشٍ عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ الْیَمَانِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((أُتِیْتُ بِالْبُرَاقِ وَھُوَ دَابَّۃٌ أَبْیَضُ طَوِیْلٌیَضَعُ حَافِرَہُ مُنْتَھٰی طَرَفِہِ، فَلَمْ نُزَایِلُ ظَھْرَہُ أَنَا وَجِبْرِیْلُ حَتّٰی أَتَیْتُ بَیْتَ الْمَقْدَسِ فَفُتِحَتْ لَنَا أَبْوَابُ السَّمَائِ وَرَأَیْتُ الْجَنَّۃَ وَالنَّارَ، (قَالَ حُذَیْفَۃُ بْنُ الْیَمَانِ: وَلَمْ یُصِلِّ فِیْ بَیْتِ الْمَقْدَسِ، قَالَ زِرٌّ: فَقُلْتُ لَہُ: بَلٰی قَدْ صَلَّی، قَالَ حُذَیْفَۃُ: مَااسْمُکَ؟ یَا أَصْلَعُ! فَاِنِّیْ اَعْرِفُ وَجْھَکَ وَلَا أَعْرِفُ اِسْمَکَ، فَقُلْتُ: أَنَا زِرُّ بْنُ حُبَیْشٍ، قَالَ: وَمَا یُدْرِیْکَ أَنَّہُ قَدْ صَلّٰی؟ قَالَ: فَقَالَ: یَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {سُبْحَانَ الَّذِیْ أَسْرٰی بِعَبْدِہِ لَیْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْأَقْصَی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہُ لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا اِنَّہُ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ} قَالَ: فَھَلْ تَجِدُہُ صَلّٰی؟ لَوْ صَلّٰی لَصَلَّیْتُمْ فِیْہِ کَمَا تُصَلُّوْنَ فِیْ الْمَسْجِدِ الحَرَامِ، قَالَ زِرٌّ: وَرَبَطَ الدَابَّۃَ بِالْحَلْقَۃِ الَّتِیْیَرْبِطُ بِھَا الْأَنْبِیَائُ عَلَیْھِمُ السَّلَامُ، قَالَ حُذَیْفَۃُ: اَوَکَانَ یَخَافُ أَنْ تَذْھَبَ مِنْہُ وَقَدْ آتَاہُ اللّٰہُ بِھَا۔ (مسند احمد: ۲۳۷۲۱)

۔ (دوسری سند) سیدنا زِرّ بن حبیش ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا حذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے پاس براق کو لایا گیا،یہ سفید رنگ کا لمبا سا جانور تھا، اپنے منتہائے نگاہ تک اپنا قدم رکھتا تھا، میں اور جبریل اس کی کمر سے جدا نہ ہوئے، یہاں تک کہ میں بیت المقدس آیا اور پھر ہمارے لیے آسمان کے دروازے کھول دیئے گئے اور ہم نے جنت اور جہنم کو دیکھا۔ سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیت المقدس میں نماز نہیں پڑھی، جبکہ سیدنا زِرّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: بلکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز پڑھی ہے، سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: او گنجے! تیرا نام کیا ہے، میں تجھے چہرے سے تو پہچانتا ہوں، البتہ تیرے نام کی پہچان نہیں ہے، میں نے کہا: میں زِرّ بن حبیش ہوں، انھوں نے کہا: تجھے کیسے پتہ چلا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیت المقدس میں نماز پڑھی ہے؟ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: {سُبْحَانَ الَّذِیْ أَسْرٰی بِعَبْدِہِ لَیْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْأَقْصَی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہُ لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا اِنَّہُ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ} انھوں نے کہا: تو اس آیت میں کوئی ایسی چیز پاتا ہے، جس سے یہ پتہ چلتا ہو کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز پڑھی ہے؟ اگر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہاں نماز پڑھی ہوتی تو تم کو بھی وہاں نماز ادا کرنا پڑتی، جیسا کہ تم مسجد ِ حرام میں نماز پڑھتے ہو، سیدنا زِرّ نے کہا: اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی سواری کو اس کنڈے کے ساتھ باندھا تھا، جس کے ساتھ انبیائے کرامR باندھتے تھے، سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: کیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ ڈر تھا کہ وہ بھاگ جائے گا، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے خود آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیا تھا۔

Haidth Number: 10570
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ بنو نضیر اور بنو قریظہ کے یہود نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے جنگ کی ، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بنو نضیر کو مدینہ منورہ سے جلا وطن کر دیا اور بنو قریظہ کو وہیں رہنے کی اجازت دے دی اور ان پر احسان فرمایا، لیکن جب بنو قریظہ نے لڑائی کی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے مردوں کو قتل کرو ادیا اوران کی عورتوں ، بچوں اور مالوں کومسلمانوں کے درمیان تقسیم کر دیا، البتہ ان میں سے بعض آکر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ مل گئے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں امان دے دی اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مدینہ منورہ کے سارے یہودیوں کو جلا وطن کر دیا، بنو قینقاع کو بھی،یہ سیدنا عبداللہ بن سلام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی قوم تھی اور بنو حارثہ کے یہودیوں کو اور باقی تمام یہودی جو جو مدینہ میں موجود تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سب کو جلا وطن کر دیا۔

Haidth Number: 10746
سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بنو نضیر کے بویرہ نخلستان کی کھجوروں کو جلایا اور کاٹ ڈالا، پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں: {مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِینَۃٍ أَوْ تَرَکْتُمُوہَا قَائِمَۃً عَلٰی أُصُولِہَا فَبِإِذْنِ اللّٰہِ وَلِیُخْزِیَ الْفَاسِقِینَ} … تم نے بنو نضیر کے کھجوروں کے جو درخت کاٹ ڈالے یا جن کو تم نے ان کی جڑوں پر کھڑا چھوڑ دیا تو یہ سب اللہ کے حکم سے تھا، یہ اس لیے ہوا کہ اللہ فاسقین کو رسوا کرنا چاہتا تھا۔ (سورۂ حشر: ۵)

Haidth Number: 10747

۔ (۱۱۶۷۷)۔ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمَّا بَعَثَ حَرَامًا خَالَہُ أَخَا أُمِّ سُلَیْمٍ فِی سَبْعِینَ رَجُلًا، فَقُتِلُوا یَوْمَ بِئْرِ مَعُونَۃَ، وَکَانَ رَئِیسُ الْمُشْرِکِینَ یَوْمَئِذٍ عَامِرُ بْنُ الطُّفَیْلِ، وَکَانَ ہُوَ أَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: اخْتَرْ مِنِّی ثَلَاثَ خِصَالٍ یَکُونُ لَکَ أَہْلُ السَّہْلِ وَیَکُونُ لِی أَہْلُ الْوَبَرِ، أَوْ أَکُونُ خَلِیفَۃً مِنْ بَعْدِکَ أَوْ أَغْزُوکَ بِغَطَفَانَ أَلْفِ أَشْقَرَ وَأَلْفِ شَقْرَائ، قَالَ: فَطُعِنَ فِی بَیْتِ امْرَأَۃٍ مِنْ بَنِی فُلَانٍ، فَقَالَ: غُدَّۃٌ کَغُدَّۃِ الْبَعِیرِ فِی بَیْتِ امْرَأَۃٍ مِنْ بَنِی فُلَانٍ ائْتُونِی بِفَرَسِی، فَأُتِیَ بِہِ فَرَکِبَہُ فَمَاتَ وَہُوَ عَلٰی ظَہْرِہِ، فَانْطَلَقَ حَرَامٌ أَخُو أُمِّ سُلَیْمٍ وَرَجُلَانِ مَعَہُ رَجُلٌ مِنْ بَنِی أُمَیَّۃَ، وَرَجُلٌ أَعْرَجُ، فَقَالَ لَہُمْ: کُونُوا قَرِیبًا مِنِّی حَتّٰی آتِیَہُمْ فَإِنْ آمَنُونِی وَإِلَّا کُنْتُمْ قَرِیبًا، فَإِنْ قَتَلُونِی أَعْلَمْتُمْ أَصْحَابَکُمْ، قَالَ: فَأَتَاہُمْ حَرَامٌ، فَقَالَ: أَتُؤْمِنُونِی أُبَلِّغْکُمْ رِسَالَۃَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَیْکُمْ، قَالُوا: نَعَمْ، فَجَعَلَ یُحَدِّثُہُمْ وَأَوْمَئُوا إِلٰی رَجُلٍ مِنْہُمْ مِنْ خَلْفِہِ فَطَعَنَہُ حَتّٰی أَنْفَذَہُ بِالرُّمْحِ، قَالَ: اللّٰہُ أَکْبَرُ فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ، قَالَ: ثُمَّ قَتَلُوہُمْ کُلَّہُمْ غَیْرَ الْأَعْرَجِ، کَانَ فِی رَأْسِ جَبَلٍ، قَالَ أَنَسٌ: فَأُنْزِلَ عَلَیْنَا وَکَانَ مِمَّا یُقْرَأُ فَنُسِخَ أَنْ بَلِّغُوا قَوْمَنَا أَنَّا لَقِینَا رَبَّنَا فَرَضِیَ عَنَّا وَأَرْضَانَا، قَالَ: فَدَعَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَیْہِمْ أَرْبَعِینَ صَبَاحًا عَلٰی رِعْلٍ وَذَکْوَانَ وَبَنِی لِحْیَانَ، وَعُصَیَّۃَ الَّذِینَ عَصَوُا اللّٰہَ وَرَسُولَہُ۔ (مسند احمد: ۱۳۲۲۷)

سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے بھائی میرے ماموں حرام کو ستر افراد کے ایک دستہ کے ہمراہ بھیجا تھا اور یہ لوگ بئر معونہ کے دن قتل کر دئیے گئے تھے۔ ان دنوں مشرکین کا لیڈر عامر بن طفیل بن مالک عامری تھا، اس نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آکر پیش کش کی تھی کہ آپ میری طرف سے تین میں سے کوئی ایک بات قبول کر لیں: (۱)دیہاتی علاقے آپ کے اور شہری علاقے میرے ہوں، یا (۲)آپ کے بعد خلافت مجھے دی جائے، یا (۳)میں بنو غطفان کو ساتھ ملا کر ایک ہزار اونٹوں اور ایک ہزار اونٹنیوں کے ساتھ آپ سے لڑوں گا۔ ( اس موقعہ پر آپ نے دعا کی کہ یا اللہ عامر کے مقابلے میں میری مدد فرما) چنانچہ وہ بنو فلان کے ایک گھرانے میں تھا کہ اسے طاعون نے آلیا، وہ کہنے لگا: یہ تو بنو فلاں کی عورت کے گھر میں اونٹوں کی گلٹی جیسی گلٹی ہے، میرا گھوڑا میرے پاس لاؤ۔ اس کا گھوڑا اس کے پاس لایا گیا،یہ اس پر سوار ہو ا اور اس کی پشت پر ہی اسے موت آگئی۔ سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بھائی سیدنا حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور اس کے ساتھ دو آدمی، ان میں سے ایک کا تعلق بنو امیہ سے تھا اور دوسرا اعرج یعنی لنگڑا تھا، کو ساتھ لئے چلا، اور اس نے ان تینوں سے کہا: تم میرے قریب قریب رہنا تاآنکہ میں ان کے پاس جا پہنچوں، انہوں نے اگر مجھے کچھ نہ کہا تو بہتر اور اگر کوئی دوسری صورت پیدا ہوئی تو تم میرے قریب ہی ہو گئے اور اگر انہوں نے مجھے قتل کر ڈالا تو تم پیچھے والے اپنے ساتھیوں کواطلاع تو دے سکو گے۔ چنانچہ حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان کے قریب پہنچے اور ان سے کہا: کیا تم مجھے اس بات کی اجازت دو گے کہ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا پیغام تم لوگوں تک پہنچا سکوں۔ انہوں نے کہا: جی ہاں، یہ ان کے سامنے گفتگو کرنے لگے اور ان لوگوں نے حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پیچھے سے اپنے ایک آدمی کو اشارہ کیا ور اس نے ان پر نیزے کا وار کیا، جوان کے جسم سے پار ہو گیا۔ سیدنا حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس وقت کہا: اللہ اکبر، رب کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہو گیا۔ پھر انہوں نے اعرج کے سوا باقی دو کو قتل کر دیا، وہ پہاڑ کی چوٹی پر تھا اس لئے بچ گیا۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں اسی واقعہ کے سلسلہ میں ہم پر یہ آیت نازل ہوئی، اس کی باقاعدہ تلاوت کی جاتی تھی،یہ بعد میں منسوخ کر دی گئی: بَلِّغُوا قَوْمَنَا أَنَّا لَقِینَا رَبَّنَا فَرَضِیَ عَنَّا وَأَرْضَانَا۔ (ہماری قوم تک یہ پیغام پہنچا دو کہ ہم اپنے رب سے جا ملے ہیں اور وہ ہم سے راضی ہو گیا ہے اور اس نے ہمیں بھی راضی کر دیا ہے۔)نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان رِعل، ذکوان، بنو لحیان اور بنو عصیہ پر چالیس دن تک بددعا کی، جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معصیت کی تھی۔

Haidth Number: 11677
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں سویا ہوا تھا کہ میرے پاس دودھ کا ایک پیالہ لایا گیا، میں نے اس میں سے نوش کیا اور پھر بچا ہوا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دے دیا۔ صحابہ کرام نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے اس کی کیا تعبیر فرمائی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: علم۔

Haidth Number: 12198
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں سویا ہوا تھا، میں نے دیکھا کہ میں اپنے حوض پر کھڑا پانی کھینچ کھینچ کر لوگوں کو پلا رہا ہوں، اتنے میں ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ میرے پاس آئے، انہوں نے مجھے راحت دلانے کے لیے میرے ہاتھ سے ڈول لے لیا، انہو ں نے ایک دو ڈول کھینچے، ان کے اس عمل میں کچھ کمزوری تھی، اس کے بعدابن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھ سے ڈول لے لیا، اللہ ان کی مغفرت فرمائے،وہ تو مسلسل کھینچتے رہے، یہاں تک کہ سب لوگ سیراب ہو کر واپس چلے گئے، اور حوض جو ش مارہا تھا۔

Haidth Number: 12199
سیدنا ابوطفیل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جیسے سونے والا خواب دیکھتا ہے، اسی طرح میں نے دیکھا کہ گویا میں پانی کے ڈول کھینچ کھینچ کر زمین کو سیراب کر رہاہوں، میرے پاس کچھ سیاہ اور کچھ مٹیالے رنگ کی بکریاں آئیں، اتنے میں ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آگئے، انہوں نے ایک دو ڈول تو کھینچے، لیکن اس کے کھینچنے میں کمزوری تھی، اللہ انہیں معاف کرے، اس کے بعد عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آگئے اور انہوں نے ڈول کھینچنا شروع کیے، وہ ڈول بہت بڑا ڈول بن گیا، انہوں نے پانی کھینچ کھینچ کر حوض کو بھر دیا اور آنے والوں کو خوب سیر کردیا، میں نے کسی جوان کو عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بہتر انداز میں ڈول کھینچتے ہوئے نہیں دیکھا، پھر میں نے اس خواب کی تعبیر یوں کی کہ سیاہ بکریوں سے عرب لوگ اور مٹیالے رنگ والی بکریوں سے مراد عجمی لوگ ہیں۔

Haidth Number: 12200
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کابیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے خواب میں لوگوں کو دیکھا، وہ میرے سامنے آرہے تھے، انہو ںنے قمیصیں پہن رکھی ہیں، کسی کی قمیص اس کی چھاتی تک ہے اور کسی کی اس سے نیچے تک، جب عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ میرے سامنے سے گزرے تو وہ قمیص (لمبی ہونے کی وجہ سے) زمین پر گھسیٹ رہے تھے۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے اس کی کیا تعبیر کی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دین۔

Haidth Number: 12201
سہل بن حنیف کسی صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں سویا ہوا تھا کہ میں نے لوگوں کو دیکھا، وہ مجھ پر پیش کیے جانے لگے، جبکہ انھوں نے قمیضیں پہنی ہوئی تھیں، کسی کی قمیض چھاتی تک پہنچ رہی تھی اور کسی کی اس سے نیچے تک، اتنے میں عمر کو مجھ پر پیش کیا گیا، (ان کی قمیض تو اس قدر لمبی تھی) کہ وہ اسی کو گھسیٹ رہے تھے۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی کیا تعبیر کی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دین۔

Haidth Number: 12202
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک دن اپنے صحابہ سے فرمایا: تم میں سے کس نے آج کسی جنازہ میں شرکت کی ہے؟ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جی میں نے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں سے کس نے آج کسی بیمارکی تیمارداری کی ہے۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جی میں نے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آج کسی نے روزہ رکھا ہوا ہے؟ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جی میں نے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت واجب ہوگئی ہے، واقعی واجب ہوگئی ہے۔

Haidth Number: 12203

۔ (۱۲۲۰۴)۔ عَنْ أَبِی سِنَانٍ الدُّؤَلِیِّ أَنَّہُ دَخَلَ عَلٰی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَعِنْدَہُ نَفَرٌ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ الْأَوَّلِینَ، فَأَرْسَلَ عُمَرُ إِلَی سَفَطٍ أُتِیَ بِہِ مِنْ قَلْعَۃٍ مِنَ الْعِرَاقِ، فَکَانَ فِیہِخَاتَمٌ، فَأَخَذَہُ بَعْضُ بَنِیہِ، فَأَدْخَلَہُ فِی فِیہِ فَانْتَزَعَہُ عُمَرُ مِنْہُ، ثُمَّ بَکٰی عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَقَالَ لَہُ مَنْ عِنْدَہُ: لِمَ تَبْکِی؟ وَقَدْ فَتَحَ اللّٰہُ لَکَ وَأَظْہَرَکَ عَلٰی عَدُوِّکَ وَأَقَرَّ عَیْنَکَ، فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((لَا تُفْتَحُ الدُّنْیَا عَلٰی أَحَدٍ إِلَّا أَلْقَی اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ بَیْنَہُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَائَ إِلٰییَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ وَأَنَا أُشْفِقُ مِنْ ذٰلِکَ۔ (مسند احمد: ۹۳)

ابوسنان دؤلی سے روایت ہے کہ وہ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں گئے، جبکہ ان کے پاس اولین مہاجرین کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی، انہو ں نے پیغام بھیج کر خوشبو کی ڈبیہ منگوائی، جو عراق کے ایک قلعہ سے منگوائی گئی تھی، اس میں ایک انگوٹھی تھی، ان کے ایک بیٹے نے اسے لا کر اپنے منہ میں ڈال لیا، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس کے منہ سے نکلو ادی، اس کے بعد سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ رونے لگے، وہاں پر موجود لوگوں میں سے کسی نے ان سے کہا: آپ کیوں روتے ہیں، جبکہ اللہ نے آپ کو فتح سے نوازا اور آپ کو دشمن پر غلبہ دے کر آپ کی آنکھوں کو ٹھنڈا کیا ہے؟ سیدنا عمر نے کہا:میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ اللہ جس بندے پر دنیا فراخ کر دیتا ہے تو وہ ان لوگوں کے درمیان قیامت تک کے لیے عداوت اور بغض ڈال دیتا ہے۔ اور مجھے اس بات کا اندیشہ ہے۔

Haidth Number: 12204
سیدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں مدینہ منورہ کی دو حرّوں کے درمیان والی زمین کو حرم قرار دیتاہوں، یہاں سے کوئی جھاڑی نہ کاٹی جائے اور کوئی شکار نہ کیا جائے۔ نیز فرمایا: مدینہ ان لوگوں کے لیے بہتر ہو گا، کاش کہ یہ لوگ اس بات سے واقف ہوتے،ـ جو کوئی یہاں سے اعراض کرتے ہوئے چلا جاتا ہے، اللہ اس کے عوض اس سے بہتر آدمی کو اس میں لے آتاہے، جو آدمی یہاں کی پریشانیوں اور شدائد پر صبر کرے گا، میں قیامت کے دن اس کے لیے گواہ یا سفارشی بنوں گا۔

Haidth Number: 12635
۔ (دوسری سند) اسی طرح کی حدیث مروی ہے، البتہ اس میں یہ اضافہ بھی ہے: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے حرم کو حرمت والا بنایاکہ یہاں سے کوئی جھاڑی نہ کاٹی جائے، یہاں شکار نہ کیا جائے اورجو کوئی یہاں سے اعراض کرتے ہوئے چلا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے عوض اس سے بہتر آدمی کو لے آتاہے، جو آدمی اہل مدینہ کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے گا، اللہ اسے یوں پگھلا دے گا، جیسے آگ میں پیتل یا پانی میں نمک گھل جاتا ہے۔

Haidth Number: 12636
مولائے زبیر یحنس سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:میں سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ان کی خادمہ ان کے پاس آئی اور اس نے حالات کی شدت کا شکوہ کیا، وہ چاہتی تھی کہ مدینہ چھوڑ کر کسی دوسری جگہ چلی جائے، سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس سے کہا: بیٹھ جا، میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ تم میں سے جو آدمی مدینہ منورہ میں پیش آنے والی تکالیف اور مصائب پر صبر کرے گا، میں قیامت کے دن اس کے حق میں سفارشی یا گواہ بنوں گا۔

Haidth Number: 12637
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی اس بات کی استطاعت رکھتا ہو کہ اسے مدینہ میں موت آئے تو اس کی ضرور کوشش کرے، کیونکہ جو لوگ یہاں فوت ہوں گے، میں ان کے حق میں سفارش کروں گا۔

Haidth Number: 12638
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ابو القاسم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کچھ لوگ مدینہ سے اعراض کرتے ہوئے یہاں سے چلے جائیں گے، حالانکہ مدینہ ان کے لیے بہتر ہوگا، کاش کہ وہ یہ بات جان لیں۔

Haidth Number: 12639
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خوشحالی اور آسودگی والی زمین فتح ہوگی تو کچھ لوگ اپنے دوستوں کے ہمراہ ادھر منتقل ہوجائیں گے، حالانکہ مدینہ کی سکونت ان کے لیے بہتر ہوگی، لیکن کاش وہ یہ بات جان لیں۔ یہ بات آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دو مرتبہ ارشاد فرمائی۔

Haidth Number: 12640
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بہت سے دوسرے علاقے اور شہر فتح ہوں گے توکچھ لوگ اپنے بھائیوں سے کہیں گے: آؤ ادھر چلیں، وہاں خوش حالی ہے، حالانکہ مدینہ کی سکونت ان کے حق میں بہتر ہوگی، اگر وہ اس بات کو جانیں، جو بھی آدمی مدینہ منورہ میںمشکلات وشدائد پر صبر کرے گا، میں قیامت کے دن اس کے حق میں گواہ یا سفارشی بنو ںگا۔

Haidth Number: 12641

۔ (۱۲۶۴۲)۔ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ حَفْصَۃَ، أَنَّ بُسْرَ بْنَ سَعِیدٍ أَخْبَرَہُ أَنَّہُ سَمِعَ فِی مَجْلِسِ اللَّیْثِیِّینَیَذْکُرُونَ أَنَّ سُفْیَانَ أَخْبَرَہُمْ، أَنَّ فَرَسَہُ أَعْیَتْ بِالْعَقِیقِ، وَہُوَ فِی بَعْثٍ، بَعَثَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَرَجَعَ إِلَیْہِیَسْتَحْمِلُہُ، فَزَعَمَ سُفْیَانُ کَمَا ذَکَرُوْا، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَرَجَ مَعَہُ یَبْتَغِی لَہُ بَعِیرًا فَلَمْ یَجِدْ إِلَّا عِنْدَ أَبِی جَہْمِ بْنِ حُذَیْفَۃَ الْعَدَوِیِّ فَسَامَہُ لَہُ، فَقَالَ لَہُ أَبُو جَہْمٍ: لَا أَبِیعُکَہُیَا رَسُولَ اللّٰہِ! وَلٰکِنْ خُذْہُ فَاحْمِلْ عَلَیْہِ مَنْ شِئْتَ، فَزَعَمَ أَنَّہُ أَخَذَہُ مِنْہُ، ثُمَّ خَرَجَ حَتّٰی إِذَا بَلَغَ بِئْرَ الْإِہَابِ، زَعَمَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّیاللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((یُوشِکُ الْبُنْیَانُ أَنْ یَأْتِیَ ہٰذَا الْمَکَانَ، وَیُوشِکُ الشَّامُ أَنْ یُفْتَتَحَ، فَیَأْتِیَہُ رِجَالٌ مِنْ أَہْلِ ہٰذَا الْبَلَدِ، فَیُعْجِبَہُمْ رِیفُہُ وَرَخَاؤُہُ، وَالْمَدِینَۃُ خَیْرٌ لَہُمْ، لَوْ کَانُوایَعْلَمُونَ، ثُمَّ یُفْتَحُ الْعِرَاقُ فَیَأْتِی قَوْمٌ یَبُسُّونَ فَیَتَحَمَّلُونَ بِأَہْلِیہِمْ وَمَنْ أَطَاعَہُمْ، وَالْمَدِینَۃُ خَیْرٌ لَہُمْ لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ، إِنَّ إِبْرَاہِیمَ دَعَا لِأَہْلِ مَکَّۃَ، وَإِنِّی أَسْأَلُ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی أَنْ یُبَارِکَ لَنَا فِی صَاعِنَا، وَأَنْ یُبَارِکَ لَنَا فِی مُدِّنَا مِثْلَ مَا بَارَکَ لِأَہْلِ مَکَّۃَ۔)) (مسند احمد: ۲۲۲۵۹)

بسر بن سعید سے مروی ہے کہ وہ بنولیث کے لوگوں کی ایک محفل میں تھے، وہاں ذکر ہورہا تھا کہ سفیان نے ان کو بتلایا کہ وادی ٔ عقیق میں ان کا گھوڑا چلنے سے عاجز آگیا، وہ اس وقت رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بھیجے ہوئے ایک دستے میں تھے، وہ اپنی مجبوری کی بنا پر دوسری سواری لینے کے لیے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف واپس گئے، ان لوگوں نے ذکر کیا کہ سفیان نے کہا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے ساتھ اس کے لیے اونٹ کی تلاش میںنکلے، آپ کو ابو جہم بن حذیفہ عدوی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں اونٹ ملا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے خرید نے کے لیے بات کی تو انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں آپ کو یہ اونٹ قیمتاً نہیں دیتا، بلکہ آپ یہ ویسے ہی لے جائیں اور جسے چاہیں عنایت فرما دیں، سیدنا سفیان کہتے ہیں: آپ نے ان سے وہ اونٹ لے لیا اور وہاں سے روانہ ہوئے، جب بئرا ھاب میں پہنچے تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: امیدہے کہ مدینہ کی آبادی یہاں تک پہنچ جائے گی اور امید ہے کہ شام کا ملک فتح ہوگا، مدینہ کے لوگ وہاںجائیںگے تو انہیں وہاں کی خوش حالی پسند آئے گی، حالانکہ اگر وہ جانتے ہوں تو ان کے لیے مدینہ کی سکونت ہی بہتر ہوگی، پھر عراق فتح ہوگا، یہ لوگ واپس آکر اپنے جانوروں کو ہانکتے ہوئے اور اپنے اہل و عیال اور ساتھیوں سمیت ادھر منتقل ہوجائیں گے، حالانکہ ان کے لیے مدینہ کی سکونت ہی بہتر ہوگی، اگر وہ اس بات کو جان لیں، ابراہیم علیہ السلام نے اہل مکہ کے حق میں برکت کی دعا کی تھی اور میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اس نے جس طرح اہل مکہ کے لیے برکت فرمائی اسی طرح وہ ہمارے صاع میں او ر مد میں برکت فرمائے۔

Haidth Number: 12642
سیدناجابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ لوگ خوش حالی کی تلاش میں مدینہ سے نقل مکانی کر کے ادھر اُدھر چلے جائیں گے، جب وہ وہاں خوش حالی پائیں گے تو آخر اپنے اہل و عیال کو بھی وہیں لے جائیں گے، حالانکہ اگر وہ جانتے ہوں تو مدینہ ان کے لیے بہر حال بہتر ہوگا۔

Haidth Number: 12643
مولائے مہری ابو سعید سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:میرے بھائی کا انتقال ہوگیا، میں سیدنا ابوسعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں گیا، میں نے کہا: ابو سعید! میرے بھائی کا انتقال ہوگیاہے، وہ اہل و عیال چھوڑ گیا ہے، میرے اپنے بھی بال بچے ہیں، ہمارے پاس کچھ زیادہ مال بھی نہیں ہے، میں نے ارادہ کیا ہے کہ میں اپنے اور بھائی کے اہل وعیال کو لے کر کسی دوسرے علاقہ میں چلا جاؤں تاکہ وہاں ہمارے معاشی حالات کچھ بہتر ہوجائیں، انہوں نے کہا: تجھ پر افسوس، مدینہ چھوڑ کر مت جانا، میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو آدمی مدینہ منورہ میں آنے والے مصائب و شدائد پر صبر کرے گا، میں قیامت کے دن اس کے حق میں سفارشی یا گواہ بنوں گا۔

Haidth Number: 12644
۔ (دوسری سند) ابو سعید واقعہ حرہ کے ایام میں سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس گئے اور مدینہ سے نقل مکانی کے بارے میں مشورہ کیا اور اوپر والی حدیث والا واقعہ بیان کیا، آخر میں ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں قیامت کے دن اس کے حق میں سفارشی یا گواہ بنوں گا (جو آدمی مدینہ منورہ میں پیش آنے والے مصائب و شدائد پر صبر کرے گا)، بشرطیکہ وہ مسلمان ہوگا۔

Haidth Number: 12645
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ سیدہ اسماء بنت عمیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کرتی ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو کوئی مدینہ میں پیش آنے والے مصائب و شدائد پر صبرکرے گا، میں قیامت کے دن اس کے حق میں سفارشی یا گواہ بنوں گا۔

Haidth Number: 12646