Blog
Books
Search Hadith

مردوں کے لئے مکروہ خوشبو کا بیان

57 Hadiths Found
۔ (ایک روایت میں ہے:) اور مجھ پر زعفران کی وجہ سے زردی کا نشان تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کو دھو، پھر دھو اور پھر دھو اور دوبارہ نہیں لگانی۔ وہ کہتے ہیں:پس میں نے اس کو دھویا اور پھر دوبارہ کبھی نہیں لگائی۔

Haidth Number: 8166
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ اللہ تعالی کا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فرمان: {کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ}… تم بہترین امت ہو، جو لوگوں کے لئے نکالے گئے ہو۔ سے مراد وہ لوگ ہیں، جنہوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی۔

Haidth Number: 8543
۔ (دوسری سند) ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے اسی طرح کی روایت ہے، البتہ اس میں ہے: اس سے مراد نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابہ ہیں جنھوں نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی۔

Haidth Number: 8543
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ اسراء والی رات کو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے ایسا براق لایا گیا، جس پر زین کسی ہوئی تھی اور اس کو لگام ڈالی ہوئی تھی، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس پر سوار ہونے لگے تو وہ براق آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے مشکل ہو گیا، جبریل علیہ السلام نے اس سے کہا: کون سی چیز تجھے ایسا بننے پر آمادہ کر رہی ہے؟ اللہ کی قسم ہے، تجھ پر کبھی بھی ایسی ہستی سوار نہیں ہوئی تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس (محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) سے زیادہ عزت والی ہو، پھر شرمندگی کی وجہ سے اس کا پسینہ بہہ پڑا۔

Haidth Number: 10581
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسراء والی رات میرے پاس دودھ کا پیالہ اور شراب کا پیالہ لایا گیا، میں نے ان دونوںکو دیکھا اور پھر دودھ کو پکڑ لیا، جبریل علیہ السلام نے کہا: ساری تعریف اس اللہ کی ہے، جس نے آپ کی فطرت کی طرف رہنمائی کی، اگر آپ شراب پکڑ لیتے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی امت گمراہ ہو جاتی۔

Haidth Number: 10582
۔ سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اسراء پر لے جایا گیا تو سدرۃ المنتہی پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سفر کی انتہا ہو گئی،یہ سدرۃ چھٹے آسمان میں ہے، جو کچھ زمین کی طرف سے چڑھتا ہے، اسی بیری پر اس کی انتہاء ہوتی ہے اور جو کچھ اوپر سے اترتا ہے، اس کی انتہاء بھی اسی درخت پر ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جب کہ سدرہ کو چھپائے لیتی تھی وہ چیز جو اس پر چھا رہی تھی۔(سورۂ نجم: ۱۶) اس سے مراد سونے کے پتنگے ہیں، وہاں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو تین چیزیں عطا کی گئیں، پانچ نمازیں،سورۂ بقرہ کا آخری حصہ اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی امت میں سے اس شخص کے کبیرہ گناہ بخش دیئے گئے، جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا۔

Haidth Number: 10583
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے لیے ساتویں آسمان میں سدرۃ المنتہی کو بلند کیا گیا، اس کا پھل ہجر کے مٹکوںکی طرح اور اس کے پتے ہاتھیوں کے کانوں کی طرح تھے، اس کے تنے سے دو نہریں ظاہری اور دو نہریں مخفی نکل رہی تھیں، میں نے کہا: اے جبریل! یہ دو چیزیںکیا ہیں؟ اس نے کہا: دو باطنی نہریں جنت میں جا رہی ہیں اور یہ دو ظاہری نہریں نیل اور فرات ہیں۔

Haidth Number: 10584
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب میں سدرہ تک پہنچا تو دیکھا کہ اس کا پھل مٹکوں کی طرح کا تھا اور اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کی طرح کے تھے، جب اللہ تعالیٰ کے حکم نے اس کو ڈھانپا تو وہ یاقوتیا زمرد یا اس قسم کے موتیوں میں تبدیل ہو گئی۔

Haidth Number: 10585

۔ (۱۰۷۵۴)۔ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ، عَنْ عَائِشَۃَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ قَالَتْ: لَمَّا قَسَمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَبَایَا بَنِی الْمُصْطَلِقِ، وَقَعَتْ جُوَیْرِیَۃُ بِنْتُ الْحَارِثِ فِی السَّہْمِ لِثَابِتِ بْنِ قَیْسِ بْنِ شَمَّاسٍ، أَوْ لِابْنِ عَمٍّ لَہُ وَکَاتَبَتْہُ عَلٰی نَفْسِہَا، وَکَانَتْ امْرَأَۃً حُلْوَۃً مُلَاحَۃً لَا یَرَاہَا أَحَدٌ إِلَّا أَخَذَتْ بِنَفْسِہِ، فَأَتَتْ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَسْتَعِینُہُ فِی کِتَابَتِہَا، قَالَتْ: فَوَاللّٰہِ! مَا ہُوَ إِلَّا أَنْ رَأَیْتُہَا عَلٰی بَابِ حُجْرَتِی فَکَرِہْتُہَا، وَعَرَفْتُ أَنَّہُ سَیَرٰی مِنْہَا مَا رَأَیْتُ، فَدَخَلَتْ عَلَیْہِ فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَنَا جُوَیْرِیَۃُ بِنْتُ الْحَارِثِ بْنِ أَبِی ضِرَارٍ سَیِّدِ قَوْمِہِ، وَقَدْ أَصَابَنِی مِنَ الْبَلَائِ مَا لَمْ یَخْفَ عَلَیْکَ، فَوَقَعْتُ فِی السَّہْمِ لِثَابِتِ بْنِ قَیْسِ بْنِ الشَّمَّاسِ أَوْ لِابْنِ عَمٍّ لَہُ فَکَاتَبْتُہُ عَلٰی نَفْسِی، فَجِئْتُکَ أَسْتَعِینُکَ عَلٰی کِتَابَتِی، قَالَ: ((فَہَلْ لَکِ فِی خَیْرٍ مِنْ ذٰلِکَ؟)) قَالَتْ: وَمَا ہُوَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((أَقْضِی کِتَابَتَکِ وَأَتَزَوَّجُکِ۔)) قَالَتْ: نَعَمْ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ، قَالَ: ((قَدْ فَعَلْتُ۔)) قَالَتْ: وَخَرَجَ الْخَبَرُ إِلَی النَّاسِ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَزَوَّجَ جُوَیْرِیَۃَ بِنْتَ الْحَارِثِ، فَقَالَ النَّاسُ: أَصْہَارُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَرْسَلُوْا مَا بِأَیْدِیہِمْ، قَالَتْ: فَلَقَدْ أَعْتَقَ بِتَزْوِیجِہِ إِیَّاہَا مِائَۃَ أَہْلِ بَیْتٍ مِنْ بَنِی الْمُصْطَلِقِ، فَمَا أَعْلَمُ امْرَأَۃً کَانَتْ أَعْظَمَ بَرَکَۃً عَلٰی قَوْمِہَا مِنْہَا۔ (مسند أحمد: ۲۶۸۹۷)

ام المومنین سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بنو مصطلق کے قیدی تقسیم کیے تو جویریہ بنت حارث، سیدنا ثابت بن قیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یا ان کے چچا زاد بھائی کے حصے میں آئی اور پھر اس نے ان سے مکاتبت بھی کر لی،یہ بڑی ہی خوب رو خاتون تھی، جس نے اس کو دیکھنا تھا، اس نے اس کو اپنے لیے لے لینا تھا، پس وہ اپنی مکاتبت میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مدد لینے کے لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئی، اللہ کی قسم! جب میں (عائشہ) نے اس کو اپنے حجرے کے دروازے پر دیکھا تو میں نے اس کے آنے کو ناپسند کیا اور میں جان گئی کہ جو چیز میں دیکھ رہی ہوں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نظر بھی اسی چیز پر پڑے گی، پس جب وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئی اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں جویریہ بنت حارث بن ابی ضرار ہوں، میرے باپ اپنی قوم کے سردار ہیں اور میں ایسی آزمائش میں پھنس گئی ہوں کہ اس کا معاملہ آپ پر بھی واضح ہے، میں سیدنا ثابت بن قیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یا ان کے چچا زاد بھائی کے حصے میں آئی ہوں اور میں نے ان سے مکاتبت کر لی ہے، اب میں آپ کے پاس آئی ہوں، تاکہ آپ مکاتبت پر میرا تعاون کریں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اچھا یہ بتاؤ کہ کیا تمہیں اس سے بہتر چیز کی رغبت ہے؟ اس نے کہا: جی وہ کیا؟ اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تمہاری مکاتبت کی قیمت ادا کر کے تم سے شادی کر لیتا ہوں۔ اس نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تحقیق میں نے ایسے ہی کر دیا ہے۔ اتنے میں لوگوں تک یہ خبر پہنچ گئی کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ جویریہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے شادی کر لی ہے، لوگوں نے کہا: بنو مصطلق، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سسرال بن گئے ہیں، پس اس وجہ سے انھوں نے وہ غلام اور لونڈیاں آزاد کر دیں، جو ان کے ہاتھ میں تھے، سیدہ جویریہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی اس شادی کی وجہ سے بنو مصطلق کے سو گھرانوں کے افراد کو آزاد کیا گیا، میں ایسی کوئی خاتون نہیں جانتی جو اپنی قوم کے لیےاس سے زیادہ برکت والی ثابت ہوئی ہو۔

Haidth Number: 10754
سیدنا وحشی بن حرب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو مرتدین کے مقابلے کے لیے مقرر فرمایا اور کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یوں فرماتے سنا کہ خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اللہ کا بہترین بندہ اور قوم کا بہترین فرد ہے، یہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے کفار اور منافقین پر مسلط کیا ہے۔

Haidth Number: 11682
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں روانہ ہوئے، جب ہم لفت نامی پہاڑی گھاٹی پر پہنچے تو گھاٹی میں سے سیدنا خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہمارے سامنے آگئے۔رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: دیکھنا،یہ کون آرہا ہے؟ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: یہ سیدنا خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ اللہ کا بہترین بندہ ہے۔

Haidth Number: 11683

۔ (۱۱۶۸۴)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ: وَکَانَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ الْأَزْہَرِ یُحَدِّثُ: أَنَّ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ بْنِ الْمُغِیرَۃِ جُرِحَ یَوْمَئِذٍ وَکَانَ عَلَی الْخَیْلِ خَیْلِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ ابْنُ الْأَزْہَرِ: قَدْ رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعْدَمَا ہَزَمَ اللّٰہُ الْکُفَّارَ وَرَجَعَ الْمُسْلِمُونَ إِلٰی رِحَالِہِمْ یَمْشِی فِی الْمُسْلِمِینَ، وَیَقُولُ: ((مَنْ یَدُلُّ عَلَی رَحْلِ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ؟)) قَالَ: فَمَشَیْتُ أَوْ قَالَ فَسَعَیْتُ بَیْنَ یَدَیْہِ، وَأَنَا مُحْتَلِمٌ، أَقُولُ: مَنْ یَدُلُّ عَلٰی رَحْلِ خَالِدٍ حَتّٰی حَلَلْنَا عَلٰی رَحْلِہِ، فَإِذَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ مُسْتَنِدٌ إِلٰی مُؤْخِرَۃِ رَحْلِہِ، فَأَتَاہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَنَظَرَ إِلٰی جُرْحِہِ، قَالَ الزُّہْرِیُّ: وَحَسِبْتُ أَنَّہُ قَالَ: وَنَفَثَ فِیہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۱۹۲۹۱)

عبد الرحمن بن ازہر سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ سیدنا خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس دن زخمی ہو گئے اور وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گھڑ سواروں کے دستہ کے قائد تھے۔ ابن ازہر کہتے ہیں: جب اللہ تعالیٰ نے کفار کو شکست سے دو چار کیا اور مسلمان اپنے خیموں کی طرف واپس آئے تو اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو میں نے دیکھا کہ آپ مسلمانوں کے درمیان چلتے ہوئے یہ فرماتے ہوئے آرہے تھے کہ کوئی خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے خیمے کے بارے میں بتلائے، میں آپ کے آگے آگے تیزی سے گیا، میں ان دنوں بالغ تھا، میں پکارتاجا رہا تھا کہ کوئی ہے جو خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے خیمے کے متعلق بتلائے۔ یہاں تک کہ ہم چلتے چلتے ان کے خیمے میں جا داخل ہوئے۔ میں نے دیکھا کہ خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنے پالان کے پچھلے حصہ پر ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے قریب آئے۔ ان کے زخم کو دیکھا۔ زہری سے مروی ہے میرا خیال ہے کہ عبدالرحمن بن ازہر نے یہ بھی بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے زخم پر لعاب مبارک بھی لگایا۔

Haidth Number: 11684
سیدنا عمرو بن العاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنا قبول اسلام کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: پھر میں اسلام قبول کرنے کے ارادے سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف جانے کا قصد کرکے روانہ ہوا، یہ فتح مکہ سے کچھ پہلے کا واقعہ ہے، میری خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ملاقات ہوگئی، وہ مکہ کی طرف سے آرہے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا: اے ابو سلیمان! کدھر کا ارادہ ہے؟ انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! اب تو راستہ واضح اور نکھر چکا ہے اور وہ آدمییعنی محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم واقعی اللہ کا نبی ہے، اللہ کی قسم میں تو جا کر اسلام قبول کرتا ہوں، کب تک ادھر ادھر دھکے کھاتا رہوں گا۔ ان کی باتیں سن کر میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں بھی مسلمان ہونے اور اسلام قبول کرنے کے ارادے سے آیا ہوں۔ چنانچہ ہم دونوں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں جا پہنچے،سیدنا خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آگے بڑھ کر اسلام قبول کیا اور بیعت کی۔ اس حدیث کے آخر میں ہے اسی حدیث کے ایک راوی ابن اسحاق نے بیان کیا کہ مجھ سے ایک انتہائی با اعتماد آدمی نے بیان کیا کہ جب خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور عمرو بن العاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مسلمان ہوئے تو عثمان بن طلحہ بن ابی طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی ان کے ساتھ مسلمان ہوئے تھے۔

Haidth Number: 11685

۔ (۱۲۲۱۴)۔ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ مُعَاوِیَۃَ الْکِنْدِیِّ، أَنَّہُ رَکِبَ إِلٰی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَسْأَلُہُ عَنْ ثَلَاثِ خِلَالٍ، قَالَ: فَقَدِمَ الْمَدِینَۃَ فَسَأَلَہُ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مَا أَقْدَمَکَ؟ قَالَ: لِأَسْأَلَکَ عَنْ ثَلَاثِ خِلَالٍ، قَالَ: وَمَا ہُنَّ؟ قَالَ: رُبَّمَا کُنْتُ أَنَا وَالْمَرْأَۃُ فِی بِنَائٍ ضَیِّقٍ، فَتَحْضُرُ الصَّلَاۃُ، فَإِنْ صَلَّیْتُ أَنَا وَہِیَ کَانَتْ بِحِذَائِی، وَإِنْ صَلَّتْ خَلْفِی خَرَجَتْ مِنَ الْبِنَائِ، فَقَالَ عُمَرُ: تَسْتُرُ بَیْنَکَ وَبَیْنَہَا بِثَوْبٍ، ثُمَّ تُصَلِّی بِحِذَائِکَ إِنْ شِئْتَ، وَعَنْ الرَّکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ، فَقَالَ: نَہَانِی عَنْہُمَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَعَنْ الْقَصَصِ فَإِنَّہُمْ أَرَادُونِی عَلَی الْقَصَصِ، فَقَالَ: مَا شِئْتَ کَأَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یَمْنَعَہُ، قَالَ: إِنَّمَا أَرَدْتُ أَنْ أَنْتَہِیَ إِلَی قَوْلِکَ، قَالَ: أَخْشٰی عَلَیْکَ أَنْ تَقُصَّ، فَتَرْتَفِعَ عَلَیْہِمْ فِی نَفْسِکَ، ثُمَّ تَقُصَّ فَتَرْتَفِعَ حَتّٰییُخَیَّلَ إِلَیْکَ أَنَّکَ فَوْقَہُمْ بِمَنْزِلَۃِ الثُّرَیَّا، فَیَضَعَکَ اللّٰہُ تَحْتَ أَقْدَامِہِمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِقَدْرِ ذٰلِکَ۔ (مسند احمد: ۱۱۱)

حارث بن معاویہ کندی سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں: میں تین باتیں دریافت کرنے کے لیے سوار ہو کر سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف گیا، جب میں مدینہ منورہ پہنچا تو سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھ سے کہا: تم کیوں آئے ہو؟ میں نے بتلایا کہ آپ سے تین امور کے بارے میں دریافت کرنا چاہتا ہوں، انہوں نے کہا: وہ کون سے امور ہیں؟ میں نے کہا: بسااوقات ایسا ہوتا ہے کہ میں اور میری اہلیہ کسی تنگ مکان میں ہوتے ہیں، اتنے میں نماز کا وقت ہو جاتا ہے، لیکن اگر میں نماز پڑھوں تو وہ میرے سامنے آ جاتی ہے اور اگر وہ میرے پیچھے نماز ادا کرے تو مکان سے باہر نکل جاتی ہے، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم اپنے اور ا س کے درمیان کپڑا لٹکا لیا کرو، پھر وہ تمہارے سامنے نماز پڑھتی رہے، اگر چاہے تو۔ پھر میں نے ان سے عصر کے بعد دورکعتیں ادا کرنے کے بارے میں پوچھا، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے ان دورکعتوں سے منع فرمایا تھا، پھر میں نے کہا: تیسری بات یہ ہے کہ میں آپ سے وعظ و تقریر کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں، لوگ چاہتے ہیں کہ میں ان کے سامنے وعظ و تقریر کیا کروں، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جو تم چاہتے ہو، کر لو۔ بس یوں لگا کہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس کو اس کام سے روکنے کو ناپسند کیا۔ اس آدمی نے کہا: میں آپ کی رائے جاننا چاہتا ہوں۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: مجھے ڈر ہے کہ تم ان کے سامنے وعظ و تقریر کرو گے اور تم دلی طو رپر اپنے آپ کو دوسروں سے اعلی اور برتر سمجھنے لگو، تم پھر وعظ و تقریر کرو گے اور تم اپنے آپ کو ان کے مقابلہ میں یوں سمجھنے لگو گے کہ گویا تم ثریا ستارے کی طرح اعلی و افضل ہو، لیکن تم اپنے آپ کو ان سے جس قدر برتر سمجھو گے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسی قدر تمہیں ان کے قدموں کے نیچے ڈالے گا۔

Haidth Number: 12214
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے لوگوں سے خطاب کیا اور کہا: بیشک اللہ تعالیٰ نے جو چاہا، اپنے نبی کو رخصتیں دیں اور نبی کریم دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں، لہٰذا تم حج و عمرہ کو اللہ تعالیٰ کے لیے اس طرح پورا کرو، جیسا کہ اس نے تمہیں حکم دیا ہے، نیز تم اپنی بیویوں کی شرم گاہوں کو پاکدامن رکھو۔

Haidth Number: 12215

۔ (۱۲۲۱۶)۔ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَمْرِو سَمِعَ بَجَالَۃَیَقُوْلُ: کُنْتُ کَاتِبًا لِجَزْئِ بْنِ مُعَاوِیَۃَ عَمِّ الْأَحْنَفِ بْنِ قَیْسٍ فَأَتَانَا کِتَابُ عُمَرَ قَبْلَ مَوْتِہِ بِسَنَۃٍ: أَنِ اقْتُلُوْا کُلَّ سَاحِرٍ، وَرُبَمَا قَالَ سُفْیَانُ: وَسَاحِرَۃٍ، وَفَرِّقُوْا بَیْنَ کُلِّ ذِیْ مَحْرَمٍ مِنَ الْمَجُوْسِ وَانْہَوْھُمْ عَنِ الْزَمْزَمَۃِ، فَقَتَلْنَا ثَلَاثَۃَ سَوَا حِرَ،وَجَعَلْنَا نُفَرِّقُ بَیْنَ الرَّجُلِ وَبَیْنَ حَرِیْمَتِہِ فِی کِتَابِ اللّٰہِ، وَصَنَعَ جَزْئٌ طَعَامًا کَثِیْرًا وَعَرَضَ السَّیْفَ عَلٰی فَخِذِہِ وَدَعَا الْمَجُوْسَ فَأَلْقَوْا وِقْرَ بَغْلٍ أَوْ بَغْلَیْنِ مِنْ وَرِقٍ فَأَکَلُوْا مِنْ غَیْرِ زَمْزَمَۃَ وَلَمْ یَکُنْ عُمَرُ أَخَذَ، وَرُبَمَا قَالَ سُفْیَانُ: قَبِلَ الْجِزْیَۃَ مِنَ الْمَجُوْسِ حَتّٰی شَہِدَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَخَذَھَا مِنْ مَجُوْسِ ھَجَرَ، وَقَالَ اَبِیْ: قَالَ سُفْیَانُ: حَجَّ بَجَالَۃُ مَعَ مُصْعَبٍ سَنَۃَ سَبْعِیْنَ۔ (مسند احمد: ۱۶۵۷)

بجالہ کہتے ہیں: میں جزء بن معاویہ کا کاتب تھا، وہ احنف بن قیس کے چچا تھے، ہمارے پاس سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا خط آیا، یہ ان کی وفات سے ایک سال پہلے کی بات ہے، اس میں یہ بات تحریر کی گئی تھی کہ ہر جادو گر اور جادو گرنی کو قتل کر دو اور مجوسیوں بجالہ کہتے ہیں: میں جزء بن معاویہ کا کاتب تھا، وہ احنف بن قیس کے چچا تھے، ہمارے پاس سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا خط آیا، یہ ان کی وفات سے ایک سال پہلے کی بات ہے، اس میں یہ بات تحریر کی گئی تھی کہ ہر جادو گر اور جادو گرنی کو قتل کر دو اور مجوسیوں

Haidth Number: 12216

۔ (۱۲۲۱۷)۔ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ قَالَ: أَرْسَلَ إِلَیَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَبَیْنَا أَنَا کَذٰلِکَ إِذْ جَائَ ہُ مَوْلَاہُ یَرْفَأُ، فَقَالَ: ہٰذَا عُثْمَانُ وَعَبْدُ الرَّحْمٰنِ وَسَعْدٌ وَالزُّبَیْرُ بْنُ الْعَوَّامِ ، قَالَ: وَلَا أَدْرِی أَذَکَرَ طَلْحَۃَ أَمْ لَا، یَسْتَأْذِنُونَ عَلَیْکَ، قَالَ: ائْذَنْ لَہُمْ ثُمَّ مَکَثَ سَاعَۃً، ثُمَّ جَائَ فَقَالَ: ہٰذَا الْعَبَّاسُ وَعَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَسْتَأْذِنَانِ عَلَیْکَ، قَالَ: ائْذَنْ لَہُمَا فَلَمَّا دَخَلَ الْعَبَّاسُ قَالَ: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ! اقْضِ بَیْنِی وَبَیْنَ ہٰذَا، وَہُمَا حِینَئِذٍیَخْتَصِمَانِ فِیمَا أَفَائَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُولِہِ مِنْ أَمْوَالِ بَنِی النَّضِیرِ، فَقَالَ الْقَوْمُ: اِقْضِ بَیْنَہُمَایَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ! وَأَرِحْ کُلَّ وَاحِدٍ مِنْ صَاحِبِہِ، فَقَدْ طَالَتْ خُصُومَتُہُمَا، فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: أَنْشُدُکُمُ اللّٰہَ الَّذِی بِإِذْنِہِ تَقُومُ السَّمٰوَاتُ وَالْأَرْضُ، أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((لَا نُورَثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَۃٌ۔))؟ قَالُوْا: قَدْ قَالَ ذٰلِکَ، وَقَالَ لَہُمَا مِثْلَ ذٰلِکَ، فَقَالَا: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنِّی سَأُخْبِرُکُمْ عَنْ ہٰذَا الْفَیْئِ، إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ خَصَّ نَبِیَّہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْہُ بِشَیْئٍ لَمْ یُعْطِہِ غَیْرَہُ فَقَالَ: {وَمَا أَفَائَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُولِہِ مِنْہُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَلَا رِکَابٍ} وَکَانَتْ لِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَاصَّۃً، وَاللّٰہِ! مَا احْتَازَہَا دُونَکُمْ وَلَا اسْتَأْثَرَ بِہَاعَلَیْکُمْ، لَقَدْ قَسَمَہَا بَیْنَکُمْ وَبَثَّہَا فِیکُمْ حَتّٰی بَقِیَ مِنْہَا ہٰذَا الْمَالُ، فَکَانَیُنْفِقُ عَلٰی أَہْلِہِ مِنْہُ سَنَۃً، ثُمَّ یَجْعَلُ مَا بَقِیَ مِنْہُ مَجْعَلَ مَالِ اللّٰہِ، فَلَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: أَنَا وَلِیُّ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَہُ أَعْمَلُ فِیہَا بِمَا کَانَ یَعْمَلُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیہَا۔ (مسند احمد: ۴۲۵)

مالک بن اوس بن حدثان سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے بلوایا، ابھی تک میں وہیں تھا کہ ان کے خادم یرفا نے آکر بتلایا کہ سیدنا عثمان، سیدنا عبدالرحمن، سیدنا سعد اور سیدنا زبیر بن عوام آئے ہیں، مجھے یہ یاد نہیں کہ اس نے سیدنا طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا نام لیا تھا یا نہیں، یہ حضرات آپ کے ہاںآنے کی اجازت طلب کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا: جی ان حضرات کو آنے دو، کچھ دیر کے بعد غلام نے آکر کہا: سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے ہیں، وہ آپ کے پاس آنے کی اجازت طلب کر رہے ہیں،انہو ں نے کہا: جی ان کو بھی آنے دو۔ جب سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے تو انہو ں نے کہا: اے امیر المومنین! آپ اس کے اور میرے درمیان فیصلہ کر دیں، اس وقت وہ بنو نضیر کے اموال میں سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے مالِ فی ٔ کے بارے میں الجھ رہے تھے، ان کی بات سن کر سب لوگوں نے کہا: اے امیر المومنین! آپ ان کے درمیان فیصلہ کر دیں اور دونوں کو ایک دوسرے سے راحت دلائیں۔ ان کا یہ جھگڑا خاصا طو ل ہو چکاہے، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں تمہیں اس اللہ کا واسطہ دیتا ہوں، جس کے حکم سے یہ آسمان اور زمین قائم ہیں! کیاتم جانتے ہو کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا کہ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ ؟ سب نے کہا: جی واقعی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ فرمایا تھا، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جب یہی بات ان دونوں سے پوچھی تو انھوں نے بھی مثبت جواب دیا، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں تمہیں اس مالِ فی ٔ کے بارے میں بتلاتا ہوں، اللہ تعالیٰ نے مالِ فی ٔ کو اپنے نبی کے لیے مخصوص کیا ہے، اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے علاوہ یہ کسی دوسرے کو نہیں دیا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَمَا أَفَائَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُولِہِ مِنْہُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَلَا رِکَابٍ}… اور اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف سے اپنے رسول کو جو مال فے دیا ہے، اس کے حصول کے لیے تم نے گھوڑوں اور سواریوں کو نہیں بھگایا۔ یہ اموال اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے خاص تھے، اللہ کی قسم! ایسا نہیں ہو اکہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سارا مال خود رکھ لیا ہو اور تمہیں نہ دیا ہو اور نہ ہی آپ نے اس مال کے بارے میں دوسروںکو تمہارے ا وپر ترجیح دی ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ سارے اموال تمہارے درمیان تقسیم کر دیتے، پھر اس سے جو بچ جاتا، آپ اس میں سے سارا سال اپنے اہل خانہ پر خرچ کر تے تھے اور جو بچ جاتا، اس کو اللہ کے مال کے طور پر خرچ کردیتے تھے، جب اللہ کے رسول کا انتقال ہوا تو سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعد میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا خلیفہ ہوں، میں اس مال میں اسی طرح تصرف کروں گا، جیسے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تصرف کیا کرتے تھے۔

Haidth Number: 12217

۔ (۱۲۲۱۸)۔ عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ قَالَ: حَدَّثَنِی شَیْخٌ مِنْ قُرَیْشٍ مِنْ بَنِی تَمِیْمٍ قَالَ: حَدَّثَنِی فُلَانٌ وَفُلَانٌ، وَقَالَ: فَعَدَّ سِتَّۃً أَوْ سَبْعَۃً کُلُّہُمْ مِنْ قُرَیْشٍ، فِیہِمْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الزُّبَیْرِ، قَالَ: بَیْنَا نَحْنُ جُلُوسٌ عِنْدَ عُمَرَ، إِذْ دَخَلَ عَلِیٌّ وَالْعَبَّاسُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، قَدِ ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُہُمَا، فَقَالَ عُمَرُ: مَہْ یَا عَبَّاسُ! قَدْ عَلِمْتُ مَا تَقُولُ، تَقُولُ ابْنُ أَخِی وَلِی شَطْرُ الْمَالِ، وَقَدْ عَلِمْتُ مَا تَقُولُیَا عَلِیُّ! تَقُولُ ابْنَتُہُ تَحْتِی وَلَہَا شَطْرُ الْمَالِ، وَہٰذَا مَا کَانَ فِییَدَیْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَدْ رَأَیْنَا کَیْفَ کَانَ یَصْنَعُ فِیہِ، فَوَلِیَہُ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِنْ بَعْدِہِ، فَعَمِلَ فِیہِ بِعَمَلِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ وَلِیتُہُ مِنْ بَعْدِ أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَأَحْلِفُ بِاللّٰہِ لَأَجْہَدَنَّ أَنْ أَعْمَلَ فِیہِ بِعَمَلِ رَسُولِ اللّٰہِ وَعَمَلِ أَبِی بَکْرٍ، ثُمَّ قَالَ: حَدَّثَنِی أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَحَلَفَ بِأَنَّہُ لَصَادِقٌ، أَنَّہُ سَمِعَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((إِنَّ النَّبِیَّ لَا یُورَثُ، وَإِنَّمَا مِیرَاثُہُ فِی فُقَرَائِ الْمُسْلِمِینَ وَالْمَسَاکِینِ۔)) و حَدَّثَنِی أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَحَلَفَ بِاللّٰہِ إِنَّہُ صَادِقٌ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((إِنَّ النَّبِیَّ لَا یَمُوتُ حَتّٰییَؤُمَّہُ بَعْضُ أُمَّتِہِ۔)) وَہٰذَا مَا کَانَ فِییَدَیْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَدْ رَأَیْنَا کَیْفَ کَانَ یَصْنَعُ فِیہِ، فَإِنْ شِئْتُمَا أَعْطَیْتُکُمَا لِتَعْمَلَا فِیہِ بِعَمَلِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَعَمَلِ أَبِی بَکْرٍ حَتّٰی أَدْفَعَہُ إِلَیْکُمَا، قَالَ: فَخَلَوَا ثُمَّ جَائَ ا فَقَالَ الْعَبَّاسُ: ادْفَعْہُ إِلٰی عَلِیٍّ فَإِنِّی قَدْ طِبْتُ نَفْسًا بِہِ لَہُ۔ (مسند احمد: ۷۸)

عاصم بن کلیب سے مروی ہے کہ قریش کے بنو تمیم کے ایک بزرگ نے ان کو بیان کیا اس نے چھ سات قریشی بزرگوںکا نام لے کر کہا کہ اس کو ان حضرات نے بیان کیا، ان میں سے ایک نام سیدنا عبد اللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بھی تھا، انہوں نے کہا: ہم سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے، ان کے جھگڑنے کی وجہ سے ان کی آوازیں بہت بلند ہورہی تھیں، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: عباس! ذرا رکو تو سہی، تم جو کچھ کہنا چاہتے ہو میں اسے جانتا ہوں، تم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے بھتیجے تھے، اس لیے مجھے آدھا مال ملنا چاہیے، اور علی! تم بھی جو کچھ کہنا چاہتے ہو، میں اس کو بھی جانتا ہوں، تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ آپ کی بیٹی تمہاری زوجیت میں ہے اور وہ نصف مال کی حقدار ہے۔ سنو! رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ میں جو کچھ تھا، وہ تو وہی ہے جو ہم سب دیکھ چکے ہیں،ہم جانتے ہیں کہ اللہ کے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس میں کیسے تصرف کیا کرتے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعد سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے خلیفہ بنے، انہوں نے بھی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرح تصرف کیا، سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بعد میں ان کا نگران مقرر ہوا ہوں، میں اللہ کی قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ جہاں تک ہو سکا میں اسی طرح عمل کروں گا۔ اس کے بعد سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے قسم اٹھا کر کہا کہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سچ بولنے والے تھے، ان سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کوئی آدمی نبی کاوارث نہیں ہوتا، ان کی میراث تو تنگ دست و نادار مسلمانوں میں تقسیم کیا جاتی ہے۔ او ر سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھ سے یہ بھی بیان کیا، جبکہ اللہ کی قسم ہے کہ وہ سچ بولنے والے تھے، یہ بیان کیا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نبی اس وقت تک فوت نہیں ہوتا، جب تک وہ اپنی امت میں سے کسی کی اقتدا میں نماز ادا نہ کر لے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس جو کچھ تھا، ہم سب دیکھ چکے ہیں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس میں کیسے تصرف کیا کرتے تھے، اب اگرتم دونوں چاہو تو میں یہ مال تمہیںدے دیتا ہوں تاکہ تم بھی اس میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرح تصرف کرتے رہو، پس وہ دونوں علیحدہ ہو گئے اور پھر آئے اور سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جی آپ یہ مال سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے حوالے کر دیں، میں اس بارے میں علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے حق میں دلی طور پر راضی ہوں۔

Haidth Number: 12218
سیدناانس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سفر سے واپسی پر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نظر جب مدینہ کی دیواروں پر پڑتی تو مدینہ سے محبت کی وجہ سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی اونٹنی کو تیز کردیتے اور اگر کسی دوسرے جانور پر سوار ہوتے تو اسے بھی تیز چلنے کے لیے حرکت دیتے۔

Haidth Number: 12660
سیدنا جابر بن سمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مسلمانوں یا مومنوں کی ایک جماعت آلِ کسری کے سفید محلات میں موجود خزانوں کو فتح کرے گی۔ نیز سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے بھی سنا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مدینہ منورہ کا نام طیبہ رکھا ہے۔

Haidth Number: 12661
سیدہ فاطمہ بنت قیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مدینہ منورہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: یہ طیبہ ہے۔

Haidth Number: 12662
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے ایسی بستی کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی یعنی اپنی فضیلت و مرتبہ کے لحاظ سے سب پر غالب آجائے گی، لوگ اسے یثرب کہتے ہیں، جبکہ یہ مدینہ ہے، یہ منافق اوربد کردار لوگوں کو یوں نکال دے گا، جیسے آگ کی بھٹی لوہے کی میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔

Haidth Number: 12663
سیدنابراء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے مدینہ منورہ کو یثرب کے نام سے ذکر کیا، وہ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے، یہ طابہ ہے، اس کانام طابہ ہے۔

Haidth Number: 12664

۔ (۱۳۰۱۲)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ حَدَّثَنِیْ اَبِیْ حَدَّثَنَا الْوَلِیْدُ بْنُ مُسْلِمٍ اَبُوالْعَبَّاسِ الدَّمِشْقِیُّ بِمَکَّۃَ اِمْلَائً قَالَ: حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ یَزِیْدَ بْنِ جَابِرٍ قَالَ: حَدَّثَنِیْیَحْیٰی بْنُ جَابِرِ نِ الطَّائِیُّ قَاضِی حِمْصَ قَالَ: حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرِ نِ الْحَضْرَمِیِّ عَنْ اَبِیْہِ اَنَّہُ سَمِعَ النَّوَاسَ بْنَ سَمْعَانَ الْکِلَابِیَّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: ذَکَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الدَّجَّالَ ذَاتَ غَدَاۃٍ فَخَفَضَ فِیْہِ وَرَفَعَ، حَتّٰی ظَنَنَّاہُ فِیْ طَائِفَۃِ النَّخْلِ، فَلَمَّا رُحْنَا اِلَیْہِ عَرَفَ ذٰلِکَ فِیْ وُجُوْھِنَا، فَسَاَلْنَاہُ فَقُلْنَا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! ذَکَرْتَ الدَّجَالَ الْغَدَاۃَ فَخَفَضْتَ فِیْہِ وَرَفَعْتَ، حَتّٰی ظَنَنَّاہُ فِیْ طَائِفَۃِ النَّخْلِ، قَالَ: ((غَیْرُالدَّجَّالِ اَخْوَفُ مِنِّیْ عَلَیْکُمْ، فَاِنْ یَّخْرُجْ وَاَنَا فِیْکُمْ فَاَنَا حَجِیْجُہُ دُوْنَکُمْ وَاِنْ یَّخْرُجْ وَلَسْتُ فِیْکُمْ فَامْرُؤٌحَجِیْجُ نَفْسِہٖ وَاللّٰہُ خَلِیْفَتِیْ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ، اِنَّہُ شَابٌّ جَعْدٌ قَطَطٌ، عَیْنُہُ طَافِیَۃٌ، وَاِنَّہُ یَخْرُجُ مِنْ خُلَّۃٍ بَیْنَ الشَّامِ وَالْعِرَاقِ فَعَاثَ یَمِیْنًا وَشِمَالًا، یَا عِبَادَ اللّٰہِ! اُثْبُتُوْا۔)) قُلْنَا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! مَا لَبْثُہٗ فِی الْاَرْضِ؟ قَالَ: ((اَرْبَعِیْنَیَوْمًا،یَوْمٌ کَسَنَۃٍ،وَیَوْمٌ کَشَہْرٍ،وَیَوْمٌ کَجُمُعَۃٍ، وَسَائِرُ اَیَّامِہِ کَاَیَّامِکُمْ۔)) قُلْنَا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! فَذٰلِکَ الْیَوْمُ الَّذِیْ ھُوَ کَسَنَۃٍ اَیَکْفِیْنَا فِیْہِ صَلَاۃُیَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ، قَالَ: ((لَا، اُقْدُرُوْا لَہُ قَدْرَہُ۔)) قُلْنَا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فَمَا اِسَرَاعُہُ فِی الْاَرْضِ؟ قَالَ: ((کَالْغَیْثِ اِسْتَدْبَرَتْہُ الرِّیْحُ، قَالَ: فَیَمُرُّ بِالْحَیِّ فَیَدْعُوْھُمْ فَیَسْتَجِیْبُوْنَ لَہُ فَیَاْمُرُ السَّمَائَ فَتُمْطِرُ وَالْاَرْضَ فَتُنْبِتُ وَتَرُوْحُ عَلَیْہِمْ سَارِحَتُہُمْ وَھِیَ اَطْوَلُ مَا کَانَتْ ذُرًی وَاَمَدُّہُ خَوَاصِرَ وَاَسْبَغُہُ ضُرُوْعًا وَیَمُرُّ بِالْحَیِّ فَیَدْعُوْھُمْ فَیَرُدُّوْا عَلَیْہِ قَوْلَہُ فَتَتَّبِعُہُ اَمْوَالُھُمْ، فَیُصْبِحُوْا مُمْحِلِیْنَ لَیْسَ لَھُمْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ شَیْئٌ، وَیَمُرُّ بِالْخَرِبَۃِ، فَیَقُوْلَ: لَھَا اُخْرُجِیْ کُنُوْزَکِ، فَتَتَّبِعُہُ کُنُوْزُھَا کَیَعَاسِیْبِ النَّخْلِ قَالَ: وَیَاْمُرُ بِرَجُلٍ فَیُقْتَلُ فَیَضْرِبُہُ بِالسَّیْفِ فَیَقْطَعُہُ جَزْلَتَیْنِ رَمْیَۃَ الْغَرَضِ، ثُمَّ یَدْعُوْ فَیُقْبِلُ اِلَیْہِیَتَہَلَّلُ وَجْہُہُ قَالَ: فَبَیْنَا ھُوَ عَلٰی ذٰلِکَ اِذْ بَعَثَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ الْمَسِیْحَ بْنَ مَرْیَمَ، فَیَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَۃِ الْبَیْضَائِ شَرْقِیِّ دِمَشْقَ بَیْنَ مَہْرُوْدَتَیْنِ وَاضِعًا یَدَہُ عَلٰی اَجْنِحَۃِ مَلَکَیْنِ فَیَتْبَعُہُ فَیُدْرِکُہُ فَیَقْتُلُہُ عِنْدَ بَابِ لُدٍّ الشَّرْقِیِّ، قَالَ: فَبَیْنَمَا ھُمْ کَذٰلِکَ اِذْ اَوْحَی اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اِلٰی عِیْسٰی بْنِ مَرْیَم علیہ السلام اَنِّیْ قَدْ اَخْرَجْتُ عِبَادًا مِنْ عِبَادِیْ لَایَدَانِ لَکَ بِقِتَالِھِمْ، فَحَوِّزْ عِبَادِیْ اِلٰی الطُّوْرِ فَیَبْعَثُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ یَاْجُوْجَ وَمَاْجُوْجَ وَھُمْ کَمَا قَالَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ {مِنْ کُلِّ حَدَبٍ یَّنْسِلُوْنَ} فَیَرْغَبُ عِیْسٰی وَاَصْحَابُہُ اِلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فَیُرْسِلُ عَلَیْہِمْ نَغْفًا فِیْ رِقَابِہِمْ فَیُصْبِحُوْنَ فَرْسٰی کَمَوْتِ نَفْسٍ وَاحِدَۃٍ فَیَہْبِطُ عِیْسٰی وَاَصْحَابُہُ فَلَا یَجِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ بَیْتًا اِلَّا قَدْ مَلَأَہٗزَھَمُہُمْوَنَتْنُہُمْ،فَیَرْغَبُ عِیْسٰی وَاَصْحَابُہُ اِلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فَیُرْسِلُ عَلَیْہِمْ طَیْرًا کَاَعْنَاقِ الْبُخْتِ، فَتَحْمِلُہُمْ فَتَطْرَحُہُمْ حَیْثُ شَائَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ۔)) قَالَ ابْنُ جَابِرٍ: فَحَدَّثَنِیْ عَطَائُ بْنُ یَزِیْدَ اَلسِّکْسَکِیُّ مِنْ کَعْبٍ اَوْ غَیْرِہِ قَالَ: فَتَطْرَحُہُمْ بِالْمُہَبَّلِ، قَالَ ابْنُ جَابِرٍ: فَقُلْتُ: یَا اَبَا یَزِیْدَ! وَاَیْنَ الْمُہَبَّلُ؟ قَالَ: مَطْلِعُ الشَّمْسِ قَالَ: ((وَیُرْسِلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ مَطَرًا لَایَکِنَّ مِنْہُ بَیْتُ وَبَرٍوَلَامَدَرٍ اَرْبَعِیْنَیَوْمًا فَیَغْسِلُ الْاَرْضَ حَتّٰییَتْرُکَھَا کَالزَّلَفَۃِ وَیُقَالُ لِلْاَرْضِ: اَنْبِتِیْ ثَمَرَتَکِ وَرَدِّیْ بَرَکَتَکِ، قَالَ: فَیَوْمَئِذٍیَاْکُلُ النَّفَرُ مِنَ الرُّمَّانَۃِ وَیَسْتَظِلُّوْنَ بِقِحْفِہَا وَیُبَارَکُ فِی الرِّسْلِ حَتّٰی اَنَّ اللِّقْحَۃَ مِنَ الْاِبِلِ لَتَکْفِی الْفِئَامَ مِنَ النَّاسِ وَاللِّقْحَۃَ مِنَ الْبَقَرِ تَکْفِی الْفَخِذَ وَالشَّاۃُ مِنَ الْغَنَمِ تَکْفِیْ اَھْلَ الْبَیْتِ قَالَ: فَبَیْنَا ھُمْ عَلٰی ذٰلِکَ اِذْ بَعَثَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ رِیْحًا طَیِّبَۃً تَحْتَ آبَاطِہِمْ فَتَقْبِضُ رُوْحَ کُلِّ مُسْلِمٍ اَوْقَالَ: کُلِّ مُوْمِنٍ وَیَبْقٰی شِرَارُ النَّاسُ یَتَہَارَجُوْنَ تَہَارُجَ الْحَمِیْرِ وَعَلَیْہِمْ اَوْقَالَ: وَعَلَیْہِ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ۔)) (مسند احمد: ۱۷۷۷۹)

سیدنا نواس بن سمعان کلابی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک دن صبح کو دجال کا ذکر کیا، اس کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ کبھی اپنی آواز کو پست کر لیتے اور کبھی بلند، یہاں تک کہ ہم یہ سمجھنے لگے کہ وہ یہیں کھجوروں کے کسی جھنڈ میں موجود ہے، ہم اس سے اس قدر خوف زدہ ہوگئے کہ جب ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ہمارے چہروں پر دہشت سی محسوس کر لی، ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے دجال کے متعلق مزید دریافت کرتے ہوئے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آج دجال کا ذکر کیا اور اس دوران اپنی آواز کو کبھی پست کیا اور کبھی بلند، یہاں تک کہ ہم تو یہ سمجھنے لگے کہ وہ یہیں کہیںکھجوروں کے جھنڈ میں موجود ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے تمہارے متعلق دجال کے علاوہ دوسری بات کا اندیشہ زیادہ ہے، کیونکہ اگر میری موجودگی میں دجال آگیا تو میں تم سے آگے اس کا مقابلہ کر لوں گا اور اگر وہ میرے بعد ظاہر ہوا تو ہر آدمی اپنا دفاع خود کر لے گا اور ہر مسلمان پر اللہ تعالیٰ میری طرف سے خلیفہ ہے، (یعنی اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو فتنہ ٔ دجال سے محفوظ رکھے گا)، دجال نوجوان ہوگا، اس کے بال گھنگریالے ہوں گے، اس کی آنکھ خوشۂ انگور میں ابھرے ہوئے دانے کی طرح ہو گی،وہ شام اور عراق کے درمیان کے علاقوں میں ظاہر ہوگا اور دائیں بائیں (زمین پر) گھومے گا، اللہ کے بندو! تم اس وقت دین پر ثابت قدم رہنا۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول ! وہ زمین میں کتنا عرصہ رہے گا؟ آ پ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: چالیس دن، لیکن اس کا ایک دن ایک سال کے برابر ، ایک دن ایک مہینے کے برابر، ایک دن ایک ہفتے کے برابر اور باقی دن تمہارے عام دنوں کی طرح ہوں گے۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس کا جو دن ایک سال کے برابر ہوگا ،تو کیا اس میںہمیں ہمیں ایک ہی دن کی نمازیں کافی ہوں گی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ’جی نہیں،تم وقت کا اندازہ کر کے (وقفے وقفے سے نمازیں) ادا کرتے رہنا۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ زمین میں کس رفتار سے جائے گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کی رفتار اس بادل کی سی ہوگی، جسے ہوا آگے کو دھکیل رہی ہو۔ پھرآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دجال ایک قبیلے کے پاس سے گزرے گا اور انہیں (اپنی ربوبیت) کی دعوت دے گا، لوگ اس کی بات مان لیں گے، پھر وہ آسمان کو حکم دے گا تو وہ بارش برسائے گا اور زمین نباتات اگائے گی، جنگلوں میں چرنے والے ان کے جانور پہلے سے بڑی کوہانوں والے، بھری ہوئی کو کھوں والے اور بڑے تھنوں والے ہو کر واپس آئیں گے، اسی طرح جب وہ ایک دوسرے قبیلے کے پاس سے گزر ے گا اور ان کو (اپنی ربوبیت پر ایمان لانے کی) دعوت دے گا اور وہ اس کی بات کو ردّ کردیں گے، ان کے اموال (ان کو چھوڑ کر) دجال کے پیچھے چل پڑیں گے اور وہ لوگ تنگ دست ہو کر رہ جائیں گے، ان کے پاس ان کے مالوں میں سے کچھ بھی نہیں بچے گا۔ دجال ایک شور زدہ زمین سے گزرتے ہوئے اس سے کہے گا کہ کہ تو اپنے خزانے اُگل دے، تو اس زمین کے خزانے نکل کر اس کے پیچھے یوں چلیں گے، جیسے شہد کی مکھیوں کے لشکر جاتے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ دجال تلوار کی ضرب سے ایک آدمی کے یک لخت اس طرح دو ٹکڑے کر دے گا، جیسے تیر جلدی سے اور اچانک اپنے ہدف پر جا کر لگتا ہے، پھر وہ اس مقتول کو اپنی طرف بلائے گا تو وہ زندہ ہو کر اس کی طرف آ جائے گا اور اس کا چہرہ بے خوفی اور اطمینان کی وجہ سے خوب روشن ہوگا، دجال اسی طرح لوگوں کو شعبدے دکھا دکھا کر گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ مسیح بن مریم علیہ السلام کو مبعوث فرما دے گا، وہ دمشق کے مشرق میں سفید رنگ کی بلند جگہ پر اتریں گے، انھوں نے ورس اور زعفران کے ساتھ رنگے ہوئے دو کپڑے زیب ِ تن کیے ہوں گے اور فرشتوں کے پروں پر ہاتھ رکھے ہوئے ہوں گے، وہ اتر کر دجال کا پیچھا کر کے اسے لُدّ کے مشرقی دروازے کے قریب قتل کر دیں گے، اتنے میں اللہ تعالی، عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی طرف وحی کرے گا کہ اب میں ایسے بندے بھیجنے لگا ہوں کہ آپ ان کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے، لہٰذا آپ اہل ِ ایمان بندوں کو لے کر کوہِ طور کی طرف چلے جائیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ یا جوج ماجوج کو ظاہر کرے گا، ان کی وہی کیفیت اور حالت ہوگی جو قرآن میں اس طرح بیان ہوئی ہے: {مِنْ کُلِّ حَدَبٍ یَّنْسِلُوْنَ} (وہ ہر بلندی سے تیزی سے دوڑتے آئیں گے)۔ (سورۂ انبیائ: ۹۶) پھر عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں گے اور اللہ تعالیٰ یا جوج ماجوج کی گردنوں میں ایک کیڑا پیدا کر دے گا،اس سے وہ بہت جلد مر جائیں گے۔ اس کے بعد عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی کوہِ طور سے نیچے آئیں گیاور جب وہ دیکھیں گے کہ ان کی لاشیں اور بدبو زمین پر ہر ہر گھر میں پڑی ہوئی ہے، تو وہ اور ان کے ساتھی اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے اوراللہ تعالیٰ بختی اونٹوں کی گردنوں جیسے بڑے بڑے پرندے بھیج دے گا، جو ان کے لاشوں کو اٹھا اٹھا کر ادھر پھینک آئیں گے، جہاں اللہ کو منظور ہوگا۔ یحییٰ بن جابر کہتے ہیں: عطا ء بن یزید سکسکی نے مجھے سیدنا کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یا کسی اور صحابی کی روایت سے بیان کیا کہ وہ پرندے یا جوج ماجوج کی لاشوں کو مَھْبَل میں جا پھینکیں گے، میں نے ان سے پوچھا کہ یہ مَھْبَل کہاں ہے؟ انہوں نے بتلایا کہ جہاں سے سورج طلوع ہوتا ہے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ بارش برسائے گا، جو چالیس دن تک جاری رہے گی، اس بارش سے کوئی خیمہ یا کوئی گھر محروم نہیں رہے گا، اللہ تعالیٰ اس بارش کے ذریعے زمین کو اچھی طرح دھو دے گا اور زمین صاف چٹیل پتھر کی طرح صاف ہوجائے گی۔ پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے زمین کو حکم دیا جائے گا کہ تو وہ اپنے پھل اگا دے اور اپنی برکات اگل دے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا کہ ان دنوں میں پھلوں اور باقی چیزوں میں اس قدر برکت ہوگی کہ ایک انار کو لوگوں کی بڑی جماعت کھائے گی اور وہ لوگ اس کے چھلکے کے سائے میں بھی بیٹھ سکیں گے اور دودھ میں بھی اس قدر برکت ہوگی کہ ایک اونٹنی کا دودھ لوگوں کی بڑی بڑی جماعتوں کو کفایت کرے گی اور ایک گائے کا دودھ بھی ایک جماعت کی ضرورت پوری کرے گا اور ایک بکری کا دودھ ایک گھر والوں کے لیے کافی رہے گا، لوگ اسی طرح خوش حالی کی زندگی گزار رہے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی بغلوں کے نیچے سے ایک بہترین خوش بو دار قسم کی ہوا چلائے گا، جو ہر مسلمان کی روح قبض کر لے گی اور صرف بد ترین لوگ باقی رہ جائیں گے اور وہ اس قدر بے حیا ہوں گے کہ گدھوں کی مانند بر سرِعام عورتوں کو استعمال کریں گے، پھر ایسے لوگوں پر قیامت قائم ہو جائے گی۔

Haidth Number: 13012

۔ (۱۳۰۱۳)۔ وَعَنْ اَبِی الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَخْرُجُ الدَّجَّالُ فِی خَفَقَۃٍ مِنَ الدِّیْنِ وَاِدْبَارٍ مِنَ الْعِلْمِ، فَلَہُ اَرْبَعُوْنَ لَیْلَۃًیَسِیْحُہَا فِی الْاَرْضِ، اَلْیُوْمُ مِنْہَا کَالسَّنَۃِ، وَالْیَوْمُ مِنْہَا کَالشَّہْرِ، وَالْیَوُمْ مِنْہَا کَالْجُمُعَۃِ، ثُمَّ سَائِرُ اَیَّامِہِ کَاَیَّامِکُمْ ہٰذِہِ، وَلَہُ حِمَارٌ یَرْکَبُہُ، عَرْضُ مَا بَیْنَ اُذُنَیْہِ اَرْبَعُوْنَ ذِرَاعًا، فَیَقُوْلُ لِلنَّاسِ: اَنَا رَبُّکُمْ وَھُوَ اَعْوَرُ وَاِنَّ رَبَّکُمْ لَیْسَ بِاَعْوَرَ، مَکْتُوْبٌ بَیْنَ عَیْنَیْہِ کَافِرٌ ک ف ر مُہَجَّأَۃٌیَقْرَؤُہُ کُلُّ مُوْمِنٍ کَاتِبٌ وَغَیْرُ کَاتِبٍ، یَرِدُ کُلَّ مَائٍ وَمَنْہَلٍ اِلَّا الْمَدِیْنَۃَ وَمَکَّۃَ، حَرَّمَہُمَا اللّٰہُ عَلَیْہِ وَقَامَتِ الْمَلَائِکَۃُ بِاَبْوَابِہَا وَمَعَہُ جِبَالٌ مِنْ خُبْزٍ وَالنَّاسُ فِیْ جَہْدٍ اِلَّا مَنْ تَبِعَہُ، وَمَعَہُ نَہْرَانِ اَنَا اَعْلَمُ بِہِمَا مِنْہُ، نَہْرٌ یَقُوْلُ الْجَنَّۃُ وَنَہْرٌ یَقُوْلُ النَّارُ، فَمَنْ اَدْخَلَ الَّذِیْیُسَمِّیْہِ الْجَنَّۃَ فَہُوَ النَّارُ، وَمَنْ اَدْخَلَ الَّذِیْیُسَمِّیْہِ النَّارَ فَہُوُ الْجَنَّۃُ قَالَ: وَیَبَعَثُ اللّٰہُ مَعَہُ شَیَاطِیْنَ تُکَلِّمُ النَّاسَ وَمَعَہُ فِتْنَۃٌ عَظِیْمَۃٌیَاْمُرُالسَّمَائَ فَتُمْطِرُ فِیْمَایَرَی النَّاسُ وَیَقْتُلُ نَفْسًا ثُمَّ یُحْیِیْہَا فِیْمَایَرٰی النَّاسَ لاَ یُسَلَّطُ عَلٰی غَیْرِھَا مِنَ النَّاسِ وَیَقُوْلُ: اَیُّہَاالنَّاسُ ھَلْ یَفْعَلُ مِثْلَ ہٰذَا اِلَّا الرَّبُّ عَزَّوَجَلَّ، قَالَ: فَیَفِرُّ الْمُسْلِمُوْنَ اِلٰی جَبَل الدُّخَانِ بِالشَّامِ فَیَاْتِیْہِمْ فَیُحَاصِرُھُمْ فَیَشْتَدُّ حِصَارَھُمْ وَیُجْہِدُھُمْ جَہْدًا شَدِیْدًا ثُمَّ یَنْزِلُ عِیْسٰی بْنُ مَرْیَمَ علیہ السلام فَیُنَادِیْ مِنَ السَّحَرِ، فَیَقُوْلُ: یَا اَیُّہَا النَّاسُ! مَا یَمْنَعُکُمْ اَنْ تَخْرُجُوْا اِلَی الْکَذَّابِ الْخَبِیْثِ؟ فَیَقُوْلُوْنَ: ہٰذَا رَجُلٌ جِنِّیٌّ، فَیَنْطَلِقُوْنَ فَاِذَا ھُمْ بِعِیْسٰی بْنِ مَرْیَمَ علیہ السلام فَتُقَامُ الصَّلاَۃُ، فَیُقَالُ لَہُ: تَقَدَّمْ یَا رُوْحَ اللّٰہِ! فَیَقُوْلُ: لِیَتَقَدَّمْ اِمَامُکُمْ فَلْیُصَلِّ بِکُمْ، فَاِذَا صَلّٰی صَلَاۃَ الصُّبْحِ خَرَجُوْا اِلَیْہِ قَالَ: فَحِیْنَیَرٰی الْکَذَّابُ، یَنْمَاثُ کَمَا یَنْمَاثُ الْمِلْحُ فِی الْمَائِ، فَتَمْشِیْ اِلَیْہِ فَیَقْتُلُہُ، حَتّٰی اِنَّ الشَّجَرَۃَ وَالْحَجَرَ یُنَادِیْ: یَا رُوْحَ اللّٰہِ! ھٰذَا یَہُوْدِیٌّ فَلَایَتْرُکُ مِمَّنْ کَانَ یَتَّبِعُہُ اَحَدًا اِلَّا قَتَلَہُ۔)) (مسند احمد: ۱۵۰۱۷)

سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دجال کا ظہور اس وقت ہوگا جب دینی حالت کمزور ہو گی اور علم اٹھ چکا ہوگا، وہ زمین میں چالیس دن گھومے گا، ان میں سے ایک دن ایک سال کے برابر، ایک دن ایک مہینے کے برابر، ایک دن ایک ہفتے کے برابر اور باقی دن عام دنوں کی طرح ہوں گے، وہ ایک ایسے گدھے پر سوار ہو گاکہ جس کے دو کانوں کے درمیان چالیس ہاتھ کا فاصلہ ہوگا۔ وہ لوگوں سے کہے گا: میں تمہارا رب ہوں، وہ کانا ہوگا، جب کہ تمہارا ربّ کانا نہیں، اس کی آنکھوں کے درمیان کَافِرٌ یعنی ک ف ر لکھا ہوگا، اس لفظ کو ہر پڑھا لکھا اور ان پڑھ مومن پڑھ لے گا، وہ ہر پانی اور ہر گھاٹ یعنی ہر جگہ پہنچے گا، ماسوائے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے، اللہ تعالیٰ نے اِن دونوں حرموں کو اس کے لیے حرام کر دیا ہے، ان دونوں کے دروازوں پر فرشتے حفاظت کے لیے مامور ہیں، دجال کے پاس روٹی کے پہاڑ ہوں گے، اس کی پیروی کرنے والے لوگوں کے علاوہ باقی تمام مسلمان سخت فقرو فاقہ کی حالت میں ہوں گے، اس کے پاس دو نہریں ہوں گی، میں اُن دونوں کو اچھی طرح جانتا ہوں، وہ ایک نہر کو جنت اور ایک نہر کو جہنم ظاہر کرے گا، لیکن وہ جسے جنت کہے گا اور اس میں جس کو بھی داخل کرے گا، وہ اس کے لیے جہنم ہوگی اور وہ جسے جہنم کہے گا اوراس میں جس کو بھی داخل کرے گا، وہ اس کے لیے جنت ہوگی، اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ شیاطین (جنات) کو بھی بھیجے گا، وہ لوگوں کے ساتھ ہم کلام ہوں گے، لوگوں کو آزمائش میں ڈالنے کے لیے اس کے پاس ایک بہت بڑا فتنہ ہوگا، وہ آسمان کو حکم دے گا تو لوگ دیکھ رہے ہوں گے کہ وہ بارش بر سائے گا اور وہ ایک آدمی کو قتل کر کے اسے زندہ بھی کرے گا اور لوگ یہ منظر دیکھ رہے ہوں گے، البتہ اللہ تعالیٰ اسے اس کے علاوہ کسی دوسرے آدمی کو قتل کر کے زندہ کرنے کی طاقت نہیں دے گا۔ وہ لوگوں کو گمراہ کرتے ہوئے کہے گا: لوگو! کیا اللہ کے سوا کوئی اور بھی ایسے کام کر سکتا ہے؟ مسلمان ان حالات میں شام میں واقع پہاڑ دخان کی طرف دوڑ جائیں گے، لیکن وہ بھی ادھر جا کر ان کا محاصرہ کرے گا اورسخت محاصرہ کرے گا، وہ لوگ شدید فقر و فاقہ سے دو چا ہوجائیں گے، پھر عیسیٰ بن مریم علیہ السلام آسمان سے اتریں گے اور صبح کے وقت یہ آواز دیں گے: لوگو! کیا بات ہے، تم بد ترین کذاب کے مقابلے کے لے کیوں نہیں نکلتے؟ پہلے تو لوگ سمجھیں گے کہ یہ کسی جن کی آواز ہے، لیکن جب جا کر دیکھیں گے تو وہ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام ہوں گے، اتنے نما زکی جماعت کھڑی ہو جائے گی اور ان سے کہا جائے گا: اے روح اللہ! آپ آگے تشریف لائیں اور نماز پڑھائیں، لیکن وہ فرمائیں گے: تمہارا امام ہی آگے آئے اور نماز پڑھائے، وہ فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد دجال کی طرف نکلیں گے،جب جھوٹا دجال ان کو دیکھے گا تو وہ پانی میں گھل جانے والے نمک کی طرح گھلنے لگ جائے گا، پھر عیسیٰ علیہ السلام اس کی طرف جا کر اسے قتل کر ڈالیں گے اور حالات مسلمانوں کے حق میں اس حد تک بہتر ہوجائیں گے کہ درخت اور پتھر پکار پکار کر کہیں گے: اے روح اللہ! یہ یہودی یہاں ہے، عیسیٰ علیہ السلام دجال کے ایک ایک پیروکار کو پکڑ پکڑ کر قتل کر دیں گے۔

Haidth Number: 13013

۔ (۱۳۰۱۴)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ حَدَّثَنِیْ اَبِیْ ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ثَنَا شُعْبَۃُ عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَالِمٍ سَمِعْتُ یَعْقُوْبَ بْنَ عَاصِمِ بْنِ عُرْوَۃَ بْنِ مَسْعُوْدٍ سَمِعْتُ رَجُلًا قَالَ لِعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (یَعْنِی ابْنَ الْعَاصِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌) اِنَّکَ تَقُوْلُ: اِنَّ السَّاعَۃَ تَقُوْمُ اِلٰی کَذَا وَکَذَا، قَالَ: لَقَدْ ھَمَمْتُ اَنْ لَّا اُحَدِّثَکُمْ شَیْئًا، اِنَّمَا قُلْتُ: اِنَّکُمْ سَتَرَوْنَ بَعْدَ قَلِیْلٍ اَمْرًا عَظِیْمًا کَانَ تَحْرِیْقَ الْبَیْتِ قَالَ شُعْبَۃُ: ہٰذَا اَوْ نَحْوَہُ ثُمَّ قَالَ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَخْرُجُ الدَّجَّالُ فِی اُمَّتِیْ فَیَلْبَثُ فِیْہِمْ اَرْبَعِیْنَ، لَا اَدْرِیْ اَرْبَعِیْنَیَوْمًا اَوْ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً اَوْ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً اَوْ اَرْبَعِیْنَشَہْرًا، فَیَبْعَثُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ عِیْسٰی بْنَ مَرْیَمَ علیہ السلام کَاَنَّہُ عُرْوَۃُ بْنُ مَسْعُوْدِ نِ الثَّقَفِیُّ فَیَظْہَرُ فَیُہْلِکُہُ ثُمَّ یَلْبَثُ النَّاسُ بَعْدَہُ سِنِیْنَ سَبْعًا، لَیْسَ بَیْنِ اثْنَیْنِ عَدَاوَۃٌ، ثُمَّ یُرْسِلُ اللّٰہُ رِیْحًابَارِدَۃً مِنْ قِبَلِ الشَّامِ، فَلَایَبْقٰی اَحَدٌ فِیْ قَلْبِہِ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ اِیْمَانٍ اِلَّا قَبَضَتْہُ حَتّٰی لَوْ اَنَّ اَحَدَھُمْ کَانَ فِیْ کَبِدِ جَبَلٍ لَدَخَلَتْ عَلَیْہِ، قَالَ: سَمِعْتُہَا مِنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَیَبْقٰی شِرَارُ النَّاسِ فِیْ خِفَّۃِ الطَّیْرِ وَاَحْلَامِ السِّبَاعِ لَایَعْرِفُوْنَ مَعْرُوْفًا وَلَایُنْکِرُوْنَ مُنْکَرًا قَالَ: فَیَتَمَثَّلُ لَھُمُ الشَّیْطَانُ فَیَقُوْلُ: اَلَا تَسْتَجِیْبُوْنَ فَیَاْمُرُھُمْ بِالْاَوْثَانِ، فَیَعْبُدُوْنَہَا وَھُمْ فِیْ ذٰلِکَ دَارَّۃٌ اَرْزَاقُہُمْ، حَسَنٌ عَیْشُہُمْ، ثُمَّ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ فَلَایَسْمَعُہُ اَحَدٌ اِلَّااَصْغٰی لَہُ وَاَوَّلُ مَنْ یَّسْمَعُہُ رَجُلٌ یَلُوْطُ حَوْضَہُ فَیَصْعَقُ، ثُمَّ لَا یَبْقٰی اَحَدٌ اِلَّا فَیَصْعَقُ، ثُمَّ یُرْسِلُ اللّٰہُ اَوْ یُنْزِلُ اللّٰہُ قَطَرًا کَاَنَّہُ الطَّلُّ اَوِ الظِّلُّ( نُعْمَانُ الشَّاکُ) فَتَنْبُتُ مِنْہُ اَجْسَادُ النَّاسِ ثُمَّ یُنْفَخُ فِیْہِ اُخْرٰی فَاِذَا ھُمْ قِیَامٌیَّنْظُرُوْنَ، قَالَ: ثُمَّ یُقَالُ: یَااَیُّہَا النَّاسُ! ھَلُمُّوْا اِلٰی رَبِّکُمْ {وَقِفُوْھُمْ اِنَّہُمْ مَسْئُوْلُوْنَ} قَالَ: ثُمَّ یُقَالُ: اَخْرِجُوْا بَعْثَ النَّارِ، قَالَ: فَیُقَالُ: کَمْ؟ فَیُقَالُ مِنْ کُلِّ اَلْفٍ تِسْعُمِائَۃٍ وَتِسْعَۃٌ وَّتِسْعِیْنَ، فَیَوْمَئِذٍیُبَعَثُ الْوِلْدَانُ شَیْبًا وَیَوْمَئِذٍیُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ۔)) قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ: حَدَّثَنِیْ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ شُعَبْۃُ مَرَّاتٍ وَعَرَضْتُ عَلَیْہِ۔ (مسند احمد: ۶۵۵۵)

یعقوب بن عاصم کہتے ہیں: میں نے ایک آدمی کو سنا، وہ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہہ رہا تھا کہ آپ کہتے ہیں کہ قیامت فلاں وقت تک قائم ہوجائے گا؟ اس کی بات سن کر سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میرا جی چاہتا ہے کہ میں آپ لوگوں کو کوئی چیز بیان نہ کروں۔ میں نے تو کہا تھا کہ تم کچھ عرصہ بعد ایک بہت بڑا حادثہ دیکھو گے اور وہ بیت اللہ کی آتش زدگی کی صورت میں ظاہر ہو چکا ہے،اس کے بعد سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا کہ رسول اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میری امت میں دجال رونما ہوگا اور وہ چالیس رہے گا، یہ مجھے یاد نہیں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے چالیس دن کہا یا چالیس سال یا چالیس مہینے یا چالیس راتیں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے بعد اللہ تعالیٰ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو بھیجے گا، ان کا حلیہ عروہ بن مسعود ثقفی سے ملتا ہو گا، وہ آکر دجال کو قتل کریں گے، اس کے بعد مسلمان سات برس اس طرح گزاریں گے کہ کوئی سے دو مسلمانوں کے درمیان بھی عداوت نہیں ہوگی، پھر اللہ تعالیٰ شام کی طرف سے ایک ٹھنڈی ہوا بھیجے گا، جس آدمی کے دل میں ذرہ بھر ایمان ہوگا، وہ اس ہوا کی وجہ سے فوت ہو جائے گا، یہاں تک کہ اگر کوئی مومن مسلمان پہاڑوں کے اندر بھی ہوا تو وہ ہوا وہاں بھی جا پہنچے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ساری بات میں نے رسول اللہ تعالیٰ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے خود سنی ہیں، اس کے بعد شریر ترین اور بد ترین لوگ باقی بچ جائیں گے، جن کا طرز عمل اور عقل پرندوں اور درندوں کی سی ہوگی، جو کسی اچھائی اور برائی میں تمیز نہیں کرتے ہوں گے۔ شیطان ان کے لیے انسانی شکل میں نمودار ہو کر ان سے کہے گا: تم میری بات کیوں نہیں مانتے، پھر وہ انہیں بتوں کی پوجا پاٹ کا کہے گا، چنانچہ وہ لوگ بتوں کی پرستش شروع کردیں گے۔ ان دنوں ان کے پاس رزق وافر اور زندگی خوش حال ہوگی، اس کے بعد صور پھونکا جائے گا، اس کی دہشت اور اثر اس قدر ہو گا کہ جو بھی اس کی آواز سنے گا وہ وہیں ڈھیر ہوجائے گا، سب سے پہلے اس کی آواز سننے والا آدمی اپنے حوض کی مرمت کر رہا ہو گا اور وہ وہیں گر جائے گا، اس کے بعد سب لوگ گرتے چلے جائیں گے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ خوب بارش نازل فرمائے گا، اس کے اثر سے لوگوں کے اجسام اگیں گے، اس کے بعد پھر صور پھونکا جائے گا، لوگ دیکھتے بھالتے اٹھ کھڑے ہوں گے، پھر لوگوں سے کہا جائے گا: اپنے ربّ کی طرف آجاؤ، اور فرشتوں سے کہا جائے گا۔ {وَقِفُوْھُمْ اِنَّہُمْ مَسْئُوْلُوْنَ} (سورۂ صافات: ۲۴) (اور انہیں کھڑا کر دو، اب ان سے پوچھ گچھ ہوگی۔)۔ پھر کہا جائے گا کہ جہنم کا حصہ ایک طرف کردو۔ پوچھا جائے گا کہ وہ کتنا ہے؟ جواباً کہا جائے گا کہ ہر ایک ہزار میں سے نو سو ننانوے، اس وقت اس قدر دہشت ہو گی کہ کم سن بچے بوڑھے بن جائیں گے، اور اس دن (اللہ تعالیٰ کی) پنڈلی پر سے حجاب اٹھا لیا جائے گے۔ محمدبن جعفر کہتے ہیں: شعبہ نے یہ حدیث کئی مرتبہ مجھے بیان کی اور میںنے بھی اس کے سامنے اس کی قراء ت کی۔

Haidth Number: 13014

۔ (۱۳۰۱۵)۔ وَعَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: دَخَلَ عَلَیَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاَنَا اَبْکِیْ فَقَالَ لِیْ: ((مَایُبْکِیْکِ؟)) قَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! ذَکَرْتُ الدَّجَّالَ فَبَکَیْتُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنْ یَّخْرُجِ الدَّجَّالُ وَاَنَا حَیٌّ کَفَیْتُکُمُوْہُ وَاِنْ یَّخْرُجِ الدَّجَّالُ بَعْدِیْ، فَاِنَّ رَبَّکُمْ عَزَّوَجَلَّ لَیْسَ بِاَعْوَرَ، اِنَّہُ یَخْرُجُ فِیْیَہُوْدِیَّۃِ اَصْبَہَانَ، حَتّٰییَاْتِیَ الْمَدِیْنَۃَ فَیَنْزِلُ نَاحِیَتَہَا وَلَھَا یَوْمَئِذٍ سَبْعَۃُ اَبْوَابٍ، عَلٰی کُلِّ نَقْبٍ مِّنْہَا مَلَکَانِ، فَیَخْرُجُ اِلَیْہِ شِرَارُ اَھْلِہَا، یَأْتِی الشَّامَ مَدِیْنَۃً بِفَلَسْطِیْنَ بِبَابِ لُدٍّ۔)) وَقَالَ اَبُوْدَاوُدَ مَرَّۃً: حَتّٰییَاْتِیَ فِلَسْطِیْنَ بَابَ لُدٍّ) فَیَنْزِلُ عِیْسٰی علیہ السلام فَیَقْتُلُہُ ثُمَّ یَمْکُثُ علیہ السلام فِی الْاَرْضِ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً، اِمَامًا عَدْلًا وَحَکَمًا مُقْسِطًا۔)) (مسند احمد: ۲۴۹۷۱)

سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے ہاں تشریف لائے، میں اس وقت رو رہی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: تم کیوں رو رہی ہو؟ کیا بات ہے؟ میں نے کہا: اللہ کے رسول ! دجال کا فتنہ یاد آنے پر رو رہی ہوں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر میری زندگی میں دجال آ گیا تو میں اس کا مقابلہ کرنے کے لیے تمہاری طرف سے کافی ہوں گا اور اگر وہ میرے بعد نمودار ہوا تو اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت کرے گا اور یاد رکھو کہ تمہارا رب کانا نہیں ہے، وہ اصبہان کے یہودیوں میں ظاہر ہوگااور مدینہ منورہ کی طرف آ کر اس کے ایک کنارے پر اترے گا، ان دنوں مدینہ منورہ کے سات دروازے ہوں گے، اس کی حفاظت کے لیے ہر دروازے پر دو دو فرشتے مامور ہوں گے، مدینہ منورہ کے بد ترین لوگ نکل کر اس کے ساتھ جا ملیں گے، پھر وہ شا م میں فلسطین شہر کے بَابِ لُدّ کے پاس جائے گا، اتنے میں عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوکر اسے قتل کر دیں گے، اس کے بعد عیسیٰ علیہ السلام زمین پر ایک عادل اور مصنف حکمران کی حیثیت سے چالیس برس گزاریں گے۔

Haidth Number: 13015