Blog
Books
Search Hadith

{یَسْتَفْتُوْنَکَ قُلِ اللّٰہُ یُفْتِیْکُمْ فِی الْکَلَالَۃِ} کی تفسیر

12 Hadiths Found
۔ سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں بیمار ہو گیا اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پیدل چل کر میری تیمار داری کے لئے تشریف لائے، میں بیہوش تھا، سو آپ سے کوئی بات نہ کر سکا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وضو کیا اور مجھ پر پانی ڈالا، اس سے مجھے ہوش آ گیا، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اپنے مال کا کیا کروں، جبکہ میری بہنیں وارث ہیں؟ پس میراث سے متعلقہ یہ آیت نازل ہوئی {یَسْتَفْتُونَکَ قُلِ اللّٰہُ یُفْتِیکُمْ فِی الْکَلَالَۃِ} … لوگ آپ سے فتوی پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیں کہ اللہ تعالی تم کو کلالہ کے بارے میں فتوی دیتا ہے۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی اولاد نہیں تھی، صرف بہنیں تھیں، {إِنْ امْرُؤٌ ہَلَکَ لَیْسَ لَہُ وَلَدٌ وَلَہُ أُخْتٌ} … اگر مرد فوت ہو جائے اور اس کی اولاد نہ ہو اور اس کی ایک بہن ہو۔

Haidth Number: 8572
۔ (دوسری سند) سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے پاس تشریف لائے، جبکہ مجھے تکلیف تھی اور میں بیہوش تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وضو کیا اور مجھ پر پانی ڈالا، یا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا کہ اس پر پانی ڈال دو۔ پس میں ہوش میں آ گیا، میں نے کہا: میرا وارث صرف کلالہ ہیں،ایسی صورت میں میراث کی تقسیم کیسے ہو گی؟ پس وراثت والی آیت نازل ہوئی۔

Haidth Number: 8572
۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں بیمار پڑ گیا، جبکہ میری سات بہنیں تھیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے پاس تشریف لائے اور میرے چہرے پر پانی چھڑکا، میں ہوش میں آ گیا، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا میں اپنی بہنوں کے لئے اپنے دو تہائی مال کی وصیت کردوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: زیادہ کرو۔ میں نے کہا: نصف مال کی وصیت کردوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اور زیادہ کرو۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے پاس سے تشریف لے گئے اور پھر واپس آئے اورفرمایا: اے جابر! میرا خیال ہے کہ تم اس تکلیف کیوجہ سے فوت ہونے والے نہیں ہو، بہرحال اللہ تعالی نے قرآن نازل کر کے تیری بہنوں کا حصہ واضح کر دیا ہے اور ان کو دو تہائی دیا ہے۔ سیدنا جابر کہا کرتے تھے: یہ آیت میرے بارے میں نازل ہوئی ہے: {یَسْتَفْتُونَکَ قُلِ اللّٰہُ یُفْتِیکُمْ فِی الْکَلَالَۃِ}۔

Haidth Number: 8573
۔ سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کلالہ کے بارے میں دریافت کیا،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تجھے گرمیوں میں نازل ہونے والی آیت ہی کافی ہے۔

Haidth Number: 8574
سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خیبر کا علاقہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو عطا فرما دیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہودیوں کو وہاں حسب سابق آباد رہنے کی اجازت مرحمت فرمائی، اور وہاں کی زمین کو یہودیوں اور مسلمانوں میں تقسیم کر دیا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عبداللہ بن رواحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو وہاں بھیجا، انہوں نے وہاں جا کر باغات کے پھلوں کا تخمینہ لگایا اور کہا: اے یہودیو! تم میری نظر میں اللہ کی سب سے زیادہ نا پسندیدہ مخلوق ہو، تم نے اللہ کے نبیوں کو قتل کیا اور اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بھی باندھے، لیکن اس قدر بُغض کے باوجود میں تم پر ظلم وزیادتی نہیں کروں گا، اب میں نے بیس ہزار وسق کھجور کا تخمینہ لگایا ہے، اگر تم چاہو تو اپنے لیے اس فیصلہ کو قبول کر لو، اگر تمہیںیہ منظور نہ ہو تو میں قبول کر لیتا ہوں، یہودیوں نے کہا: اسی عدل کی بدولت تو زمین وآسمان قائم ہیں، ہم آپ کے تخمینہ کو قبول کرتے ہیں، آپ اس سے الگ رہیں۔

Haidth Number: 10823

۔ (۱۰۸۲۴)۔ عَنْ بُشَیْرِ بْنِ یَسَارٍ، عَنْ رِجَالٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَدْرَکَہُمْ یَذْکُرُونَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِینَ ظَہَرَ عَلٰی خَیْبَرَ، وَصَارَتْ خَیْبَرُ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَالْمُسْلِمِینَ، ضَعُفُوا عَنْ عَمَلِہَا، فَدَفَعُوہَا إِلَی الْیَہُودِ،یَقُومُونَ عَلَیْہَا وَیُنْفِقُونَ عَلَیْہَا عَلٰی أَنَّ لَہُمْ نِصْفَ مَا یَخْرُجُ مِنْہَا، فَقَسَمَہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی سِتَّۃٍ وَثَلَاثِینَ سَہْمًا، جَمَعَ کُلُّ سَہْمٍ مِائَۃَ سَہْمٍ، فَجَعَلَ نِصْفَ ذٰلِکَ کُلِّہِ لِلْمُسْلِمِینَ،وَکَانَ فِی ذٰلِکَ النِّصْفِ سِہَامُ الْمُسْلِمِینَ، وَسَہْمُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَعَہَا، وَجَعَلَ النِّصْفَ الْآخَرَ لِمَنْ یَنْزِلُ بِہِ مِنَ الْوُفُودِ وَالْأُمُورِ وَنَوَائِبِ النَّاسِ۔ (مسند أحمد: ۱۶۵۳۰)

بُشیر بن یسار سے مروی ہے کہ انھوں نے اصحاب ِ رسول میں سے بعض افراد کو اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے پایا کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خیبر کو فتح کر لیا اور خیبر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور مسلمانوں کی ملکیت ہو گیا، جبکہ مسلمان اس سرزمین کا سارا کام کاج کرنے سے عاجز تھے، تو انھوں نے اس کو یہودیوں کے ہی سپرد کر دیا کہ وہی اس کی ذمہ داری ادا کریں گے اور اس پر خرچ کریں گے، اس کے عوض ان کو نصف پیداوار ملے گی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے، اس کو چھتیس حصوں پر تقسیم کیا، ہر حصہ سو حصوں پر مشتمل تھا، خیبر کی زمین سے جو حصہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ملتا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے نصف کو مسلمانوں میں اس طرح تقسیم کر دیتے تھے کہ اس میں مسلمانوں کے حصے بھی ہوتے تھے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا حصہ بھی، باقی نصف کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وفود، دوسرے امور اور لوگوں کے دوسرے حوادث و مہمات میں خرچ کرتے تھے۔

Haidth Number: 10824
محمد بن ابی مجالد سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: مسجد میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے مجھے سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں بھیجا کہ ان سے پوچھ کر آؤں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خیبر کے پھلوں کے متعلق کیا فیصلہ فرمایا تھا، میں نے ان کی خدمت میں جا کر یہ بات ان سے دریافت کی اور میں نے یہ بھی پوچھا کہ آیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کا خمس(پانچواں حصہ) الگ کیا تھا، انہوں نے کہا : جی نہیں، وہ تو اس سے بہت کم تھا، ہم میں سے کوئی بھی آدمی جب چاہتا حسبِ ضرورت اس میں سے لے سکتا تھا۔

Haidth Number: 10825
حبیب عوذی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے سنان بن سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ مکران میں ایک غزوہ میں شرکت کی، سیدنا سنان بن سلمہ بن محبق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ میری ولادت غزوۂ حنین کے روز ہوئی تھی، جب میری ولادت کی میرے والد کو بشارت دی گئی تو انھوں نے کہا: تم نے مجھے جو خوشخبری دی ہے، اس کی بہ نسبت مجھے وہ تیر زیادہ محبوب ہے جس کے ساتھ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا دفاع کروں اور انہوںنے میرا نام سنان رکھا۔

Haidth Number: 11742

۔ (۱۲۲۶۸)۔ عَنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ أَنَّہُ دَخَلَ عَلٰی عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَہُوَ مَحْصُورٌ، فَقَالَ: إِنَّکَ إِمَامُ الْعَامَّۃِ، وَقَدْ نَزَلَ بِکَ مَا تَرٰی، وَإِنِّی أَعْرِضُ عَلَیْکَ خِصَالًا ثَلَاثًا اخْتَرْ إِحْدَاہُنَّ، إِمَّا أَنْ تَخْرُجَ فَتُقَاتِلَہُمْ، فَإِنَّ مَعَکَ عَدَدًا وَقُوَّۃً وَأَنْتَ عَلَی الْحَقِّ وَہُمْ عَلَی الْبَاطِلِ، وَإِمَّا أَنْ نَخْرِقَ لَکَ بَابًا سِوَی الْبَابِ الَّذِی ہُمْ عَلَیْہِ، فَتَقْعُدَ عَلٰی رَوَاحِلِکَ، فَتَلْحَقَ بِمَکَّۃَ فَإِنَّہُمْ لَنْ یَسْتَحِلُّوکَ وَأَنْتَ بِہَا، وَإِمَّا أَنْ تَلْحَقَ بِالشَّامِ، فَإِنَّہُمْ أَہْلُ الشَّامِ، وَفِیہِمْ مُعَاوِیَۃُ، فَقَالَ عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: أَمَّا أَنْ أَخْرُجَ فَأُقَاتِلَ فَلَنْ أَکُونَ أَوَّلَ مَنْ خَلَفَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی أُمَّتِہِ بِسَفْکِ الدِّمَائِ، وَأَمَّا أَنْ أَخْرُجَ إِلٰی مَکَّۃَ، فَإِنَّہُمْ لَنْ یَسْتَحِلُّونِی بِہَا، فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((یُلْحِدُ رَجُلٌ مِنْ قُرَیْشٍ بِمَکَّۃَیَکُونُ عَلَیْہِ نِصْفُ عَذَابِ الْعَالَمِ۔)) فَلَنْ أَکُونَ أَنَا إِیَّاہُ، وَأَمَّا أَنْ أَلْحَقَ بِالشَّامِ، فَإِنَّہُمْ أَہْلُ الشَّامِ، وَفِیہِمْ مُعَاوِیَۃُ، فَلَنْ أُفَارِقَ دَارَ ہِجْرَتِی، وَمُجَاوَرَۃَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (مسند احمد: ۴۸۱)

سیدنا مغیرہ بن شعبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ محصور ہوچکے تھے، میں ان کی خدمت میں گیا اور کہا:آپ لوگوں کے امام اور حاکم ہیں اور آپ کے ساتھ جو حالات پیش آچکے ہیں، وہ بھی آ پ کے سامنے ہیں، میں آپ کے سامنے تین صورتیں پیش کرتا ہوں، آپ ان سے کسی ایک کا انتخاب کر لیں، یا تو آپ باہر نکل کر ان باغیوں سے لڑائی کریں، آپ کے پاس طاقت ہے اور بہت سے افرد آپ کے ساتھ ہیں، اس سے بڑھ کر یہ کہ آپ حق پر ہیں اور ان لوگوں کا موقف باطل ہے، دوسری صورت یہ ہے کہ وہ لوگ جس دروازے پر موجود ہیں، اسے چھوڑ کر آپ گھر کی کسی دیوار میں راستہ بنا کر باہر نکل جائیں اور اپنی سواری پر سوار ہو کر مکہ پہنچ جائیں، یہ وہاں آپ کو مارنے کی جسارت نہیں کریں گے، تیسری صورت یہ ہے کہ آپ بلا د شام کی طرف چلے جائیں، وہ لوگ اہل شام ہونے کی وجہ سے اچھے ہیں، سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی وہاں موجود ہیں، سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ باتیں سن کر کہا: رہا مسئلہ تمہارے بیان کردہ پہلی صورت کا کہ میں باہر نکل کر قتال کروں، تو یہ نہیں ہوسکتا کہ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعد سب سے پہلا خون بہانے والا بنو ں، دوسری صورت کہ میںمکہ مکرمہ چلا جاؤں، کیونکہ یہ لوگ وہاں مجھے قتل نہیں کریںگے، تو گزارش ہے کہ میںنے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ایک قریشی آدمی مکہ میں الحاد کامرتکب ہوگا، ساری دنیا کا نصف عذاب صرف اس ایک آدمی کو دیا جائے گا۔ پس میں وہ آدمی نہیں بنوں گا اور تمہاری بیان کردہ تیسری صورت کہ میں سرزمین شام کی طرف چلا جاؤں کہ شام والے لوگ اچھے ہیں اور سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی وہاں موجود ہیں ہیں، تو گزارش ہے کہ میں اپنی ہجرت گاہ اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پڑوس کو نہیں چھوڑوں گا۔

Haidth Number: 12268
ابن ابزیٰ سے روایت ہے کہ جب سیدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو محصور کر دیا گیا تو سیدنا عبداللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے کہا: میرے پاس عمدہ قسم کی اونٹنیاں ہیں، میں نے ان کو آپ کے لیے تیار کر رکھا ہے، اگر آپ چاہیں تو مکہ تشریف لے چلیں، اس کے بعد جو آپ کے پاس آنے کا ارادہ رکھتا ہوگا، وہ آ کر مل لے گا؟ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: نہیں، میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مکہ مکرمہ میں عبد اللہ نامی ایک قریشی آدمی الحاد کرے گا، اس پر تمام لوگوں کے گناہوں کے نصف کے بقدر گناہ ہوں گے۔

Haidth Number: 12269
ابو سہلہ سے روایت ہے کہ عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جب گھرمیں محصور کر دئیے گئے تو انہوں نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے ایک عہد لیا تھا، میں اسی پر کار بند رہو ں گا۔ قیس نے کہا: اس دن لوگ عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو حسرت سے دیکھ رہے تھے۔

Haidth Number: 12270
سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں لیہ سے واپس آرہے تھے، جب ہم بیری کے قریب پہنچے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کالے رنگ کے چھوٹے پہاڑ کے کونے میں بیری کے بالمقابل کھڑے ہو کر ایک وادی کی طرف غور سے دیکھا اور وہاں رکے رہے، یہاں تک کہ سب لوگ جمع ہوگئے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وادیٔ وج کا شکار اور جھاڑیاںبھی حرم ہیں اور اللہ کے لیے لوگوں پر حرام کی گئی ہیں۔ یہ واقعہ آپ کے محاصرہ طائف و ثقیف سے پہلے کا ہے۔

Haidth Number: 12752