Blog
Books
Search Hadith

اللہ کے نبی صالح علیہ السلام کا ذکر

612 Hadiths Found
۔ سیدنا عمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:میں اور سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ غزوۂ ذت العشیرہ میں رفیق تھے، پھر انھوں نے ایک قصہ بیان کیا، اس میں یہ ذکر بھی تھا کہ وہ دونوں مٹی پر سو گئے، اس دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اے ابو تراب کی کنیت سے پکارا، کیونکہ ان کے وجود پر مٹی نظر آ رہی تھی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا میں تمھارے لیے دو بدبخت ترین مردوں کی نشاندہی نہ کروں؟ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیوں نہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:احیمر ثمودی، جس نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ دی تھیں اور وہ آدمی جو (اے علی!) تیرے سر پر مارے گا، حتی کہ تیری (داڑھی) خون سے بھیگ جائے گی۔

Haidth Number: 10330
۔ سیدنا عبدا للہ بن زمعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خطاب کیا اور اونٹنی کا اور اس کی کونچیں کاٹنے والے کا ذکر کیا اور فرمایا: جب اس قوم کا بدبخت شخص اٹھا، … ایک خبیث، شریر، سردار اور اپنی قوم کا مطاع کھڑا ہوا، جیسے ابن زمعہ ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عورتوں کا ذکر کیا اور ان کے متعلق مردوں کو وعظ و نصیحت کی …۔

Haidth Number: 10331
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سفرِ حج میں وادیٔ عسفان کے پاس سے گزرے تو فرمایا: اے ابو بکر! یہ وادی کون سی ہے؟ انھوں نے کہا: وادیٔ عسفان ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہود علیہ السلام اور صالح علیہ السلام اس وادی کے پاس سے گزرے، وہ سرخ اونٹوں پر سوار تھے، ان کی لگامیں کھجور کے پتوں کی تھیں،ان کے ازار اوڑھنے والی چادر کے تھے، ان کی چادریں دھاری دار تھیں اور وہ اس پرانے گھر کا حج کرنے کے لیے تلبیہ پکارتے ہوئے جا رہے تھے۔

Haidth Number: 10332
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بے حضرت سلیمان بن داود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے تین چیزوں کا سوال کیا، اس نے دو چیزیں عطا کر دیں اور ہم تیسری کے بارے میں بھی امید رکھتے ہیں، انھوں نے یہ سوال کیا کہ ان کا حکم اور فیصلہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور فیصلے کے موافق ہو، پس اس نے ان کو یہ چیز عطا کر دی، انھوں نے ایسی بادشاہت کا سوال کیا، جو ان کے بعد کسی کے لیے لائق نہ ہو، پس اس نے ان کو یہ چیز بھی دے دی اور انھوں نے تیسرا سوال یہ کیا کہ جو آدمی اپنے گھر سے صرف نماز ادا کرنے کے لیے نکلے اور اس مسجد میں آئے تو وہ اپنے گناہوں سے اس دن کی طرح صاف ہو جائے، جس دن اس کی ماں نے اس کو جنم دیا تھا، پس ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ چیز بھی عطا کر دی ہو گی۔

Haidth Number: 10402
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک شیطان نے گزشتہ رات میری نماز کو کاٹنے کے لیے مجھ پر حملہ کیا، لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے قدرت دی اور میں نے اس کو دھکا دیا، پھر میں نے چاہا کہ اس کو مسجد کے ستونوں میں سے ایک ستون کے ساتھ باندھ دوں، تاکہ تم سارے صبح کے وقت اس کو دیکھ سکو، لیکن پھر مجھے اپنی بھائی سلیمان علیہ السلام کی دعا یاد آگئی: اے میرے ربّ! مجھے ایسی بادشاہت عطا فرما کہ جو میرے بعد کسی کے لیے لائق نہ ہو، پس اس کو ناکام و نامراد لوٹا دیا۔

Haidth Number: 10403

۔ (۱۰۴۳۷)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ اَنْ یَکُوْنَ مِثْلَ صَاحِبِ فَرَقِ الْاَرُزِّ فَلْیَکُنْ مِثْلَہُ۔)) قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! وَ مَا صَاحِبُ فَرَقِ الْاَرُزِّ؟ قَالَ: ((خَرَجَ ثَلَاثَۃٌ فَغَیَّمَتْ عَلَیْھِمُ السَّمَائُ فَدَخَلُوْا غَارًا فَجَائَتْ صَخْرَۃٌ مِنْ اَعْلَی الْجَبَلِ حَتّٰی طَبَّقَتِ البَابَ عَلَیْھِمْ فَعَالَجُوْھَا فَلَمْ یَسْتَطِیْعُوْھَا، فَقَالَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ: لَقَدْ وَقَعْتُمْ فِیْ أَمْرٍ عَظِیْمٍ فَلْیَدْعُ کُلُّ رَجُلٍ بِأَحْسَنِ مَا عَمِلَ لَعَلَّ اللّٰہَ تَعَالٰی أَنْ یُّنْجِیَنَا مِنْ ھٰذَا(فَقَالَ أَحَدُھُمْ:) اَللّٰھُمَّ أَنْتَ تَعْلَمُ أَنَّہُ کَانَ لِیْ أَبَوَانِ شَیْخَانِ کَبِیْرَانِ وَکُنْتُ أَحْلُبُ حِلَابَھُمَا فَأَجِْیْئُھُمَا وَقَدْ نَامَا، فَکُنْتُ أَبِیْتُ قَائِمًا وَحِلَابُھُمَا عَلٰییَدِیْ أَکْرَہُ أَنْ أَبْدَأَ بِاَحَدٍ قَبْلَھُمَا أَوْ أَنْ اُوْقِظَھُمَا مِنْ نَوْمِھِمَا، وَصِبْیَتِیْیَتَضَآغَوْنَ حَوْلِیْ، فَاِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنِّیْ اِنَّمَا فَعَلْتُہُ مِنْ خَشْیَتِکَ فَافْرُجْ عَنَّا، قَالَ: فَتَحَرَّکَتِ الصَّخْرَۃُ، قَالَ: وَقَالَ الثَّانِی: اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ تَعْلَمُ أَنَّہُ کَانَتْ لِیْ اِبْنَۃُ عَمٍّ لَمْ یَکُنْ شَیْئٌ مِمَّا خَلَقْتَ أَحَبَّ اِلَیَّ مِنْھَا، فَسُمْتُھَا نَفْسَھَا فَقَالَتْ: لَا، وَاللّٰہِ! دُوْنَ مِائَۃِ دِیْنَارٍ فَجَمَعْتُھَا وَدَفَعْتُھَا اِلَیْھَا حَتّٰی اِذَا جَلَسْتُ مِنْھَا مَجْلِسَ الرَّجُلِ، فَقَالَتْ: اِتَّقِ اللّٰہَ وَلَاتَفُضِّ الْخَاتَمَ اِلَّا بِحَقِّہِ، فَقُمْتُ عَنْھَا، فَاِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّمَا فَعَلْتُہُ مِنْ خَشْیَتِکَ فَافْرُجْ عَنَّا، قَالَ: فَزَالَتِ الصَّخْرَۃُ حَتّٰی بَدَتِ السَّمَائُ، وَقَالَ الثَّالِثُ: اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ تَعْلَمُ اَنَّیْ کُنْتُ اسْتَأْجَرْتُ أَجِیْرًا بِفَرَقٍ مِنْ أَرُزٍّ، فَلَمَّا أَمْسٰی عَرَضْتُ عَلَیْہِ حَقَّہُ فَأَبٰی أَنْ یَّأْخُذَہُ وَذَھَبَ وَتَرَکَنِیْ، فَتَحَرَّجْتُ مِنْہُ وَثَمَّرْتُہُ لَہُ وَأَصْلَحْتُہُ حَتَّی اشْتَرَیْتُ مِنْہُ بَقَرًا وَرَاعِیَھَا فَلَقِیَنِیْ بَعْدَ حِیْنٍ، فَقَالَ: اتَّقِ اللّٰہِ وَأَعْطِنِیْ أَجْرِیْ وَلَا تَظْلِمْنِیْ، فَقُلْتُ: انْطَلِقْ اَلٰی ذٰلِکَ الْبَقَرِ وَرَاعِیْھَا فَخُذْھَا، فَقَالَ: اتَّقِ اللّٰہَ وَلَاتَسْخَرْ بِیْ، فَقُلْتُ: اِنِّیْ لَسْتُ أَسْخَرُ بِکَ، فَانْطَلَقَ فَاسْتَاقَ ذٰلِکَ، فَاِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّیْ اِنَّمَا فَعَلْتُہُ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِکَ خَشْیَۃً مِنْکَ فَافْرُجْ عَنَّا، فَتَدَحْرَجَتِ الصَّخْرَۃُ فَخَرَجُوْا یَمْشُوْنَ۔)) (مسند احمد: ۵۹۷۳)

۔ سیدنا عبدا للہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو آدمی ایک فرق چاول والے آدمی کی طرح ہونے کی طاقت رکھتا ہے، پس چاہیے کہ وہ اس کی طرح ہو جائے۔صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ایک فرق چاول والے آدمی کا کیا قصہ ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تین افراد سفر پر نکلے، آسمان ابر آلودہوگیا، اس لیے وہ ایک غار میں داخل ہو گئے، لیکن ہوا یوں کہ پہاڑ کے اوپر والے حصے سے ایک چٹان گری اور اس نے غار کا منہ بند کر دیا، انھوں نے اس کو ہٹانے کی کوشش تو کی، لیکنیہ ان کے بس کا کام نہیں تھا، پھر بعض افراد نے بعض سے کہا: تم بڑی مصیبت میں پڑ گئے ہو، اب ہر آدمی سب سے بہترین عمل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو پکارے، ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم کو اس مصیبت سے نجات دے، پس ان میں ایک نے کہا: اے اللہ! تو جانتا ہے کہ میرے والدین بڑی عمر کے ہو گئے تھے، میں ان کے لیے دودھ دوہ کر ان کو پلاتا تھا، ایک دن جب میں ان کا دودھ لے کر آیا تو وہ سوچکے تھے، میںنے ان کے انتظار میں کھڑے ہو کر رات گزار دی، جبکہ ان کا دودھ اٹھایا ہوا تھا، میں اس چیز کو ناپسند کرتا تھا کہ ان سے پہلے کسی کو پلاؤں یا ان کو جگاؤں اور حال یہ تھا کہ میرے بچے بھوک کی وجہ سے میرے ارد گرد چلاتے رہے، اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ عمل تیری خشیت کی وجہ سے کیا تو اس چٹان کو ہم سے ہٹا دے، پس اس کا یہ کہنا تھا کہ چٹان کچھ حد تک سرک گئی، دوسرے شخص نے کہا: اے اللہ! تو جانتا ہے کہ میرے چچا کی ایک بیٹی تھی، وہ تیری مخلوق میں مجھے سب سے پیاری لگتی تھی، میں نے اس سے اس کے نفس کا سودا کرنے کی کوشش کی، لیکن اس نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! سو دیناروں سے کم پر کچھ نہیں ہو گا، پس جب میں نے یہ مقدار جمع کر کے اس کو دی اور اس سے برائی کرنے کے لیے خاوند کی طرح بیٹھ گیا تو اس نے کہا: اللہ سے ڈر جا اور اس مہر کو حق کے بغیر نہ توڑ، پس یہ سننا تھا کہ میں اس سے کھڑا ہو گیا، اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میں نے تیری خشیت کی وجہ سے کیا ہے تو اس چٹان کو ہم سے دور کر دے، پس چٹان تھوڑی سی مزید سرک گئی اور ان کو آسمان نظر آنے لگا، اب تیسرے فرد نے کہا: اے اللہ! بیشک تو جانتا ہے کہ میں ایک فرق چاول کے عوض ایک مزدور رکھا، جب شام ہوئی تو میں نے اس پر اس کا حق پیش کیا، لیکن اس نے کسی وجہ سے اپنا حق وصول کرنے سے انکار کر دیا اور مجھے چھوڑ کر چل دیا، پس میں نے اس سے حرج محسوس کیا اور اس کے اس سرمائے کو ثمر آور بنایا اور اس کی اصلاح کی،یہاں تک کہ میں نے اس سے گائیں اور ان کا چرواہا خرید لیا، جب وہ کچھ عرصے کے بعد ملا تو اس نے کہا: اللہ سے ڈر جا اور میری مزدوری مجھے دے دے اور مجھ پر ظلم نہ کر، میں نے کہا: ان گائیوں اور چرواہے کی طرف جا اور ان کو لے جا، اس نے کہا: اللہ تعالیٰ سے ڈر اور میرے ساتھ مذاق تو نہ کر، میں نے کہا: بیشک میں تجھ سے مذاق نہیں کر رہا، پس وہ چلا اور ان کو ہانک کر لے گیا، پس اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ میں نے تیری خوشنودی تلاش کرنے کے لیےیہ کام کیا تھا تو اس چٹان کو ہم سے ہٹا دے، پس چٹان لڑھک گئی اور وہ باہر نکل کر چلنے لگے۔

Haidth Number: 10437

۔ (۱۰۴۳۸)۔ عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: أَنَّہُ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَذْکُرُ الرَّقِیْمَ فَقَالَ: ((إِنَّ ثَلَا ثَۃً کَانُوْا فِیْ کَھْفٍ فَوَقَعَ الْجَبَلُ عَلٰی بَابِ الْکَھْفِ فَأَوْصَدَ عَلَیْھِمْ، قَالَ قَائِلٌ مِنْھُمْ: تَذَاکَرُوْا، أَیُّکُمْ عَمِلَ حَسَنَۃً لَعَلَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ بِرَحْمَتِہِ یَرْحَمُنَا! فَقَالَ رَجُلٌ مِنْھُمْ: قَدْ عَمِلْتُ حَسَنَۃً مَرَّۃً، کَانَ لِی أُجَرَآئٌ یَعْمَلُوْنَ، فَجَائَ عُمَّالٌ لِیْ، فَاسْتَأجَرْتُ کُلَّ رَجُلٍ مِنْھُمْ بِأَجْرٍ مَعْلُوْمٍ فَجَائَ نِیْ رَجُلٌ ذَاتَ یَوْمٍ وَسْطَ النَّھَارِ فَاسْتَأْجَرْتُہُ بِشَطْرِ أَصْحَابِہٖ،فَعَمِلَفِی بَقِیَّۃِ نَھَارِہِ کَمَا عَمِلَ کُلُّ رَجُلٍ مِنْھُمْ فِی نَھَارِہِ کُلِّہِ فَرَأَیْتُ عَلَیَّ فِی الذِّمَامِ أَنْ لاَّ أَنْقُصَہُ مِمَّا اسْتَأْجَرْتُ بِہٖأَصْحَابَہُ،لِمَاجَھِدَفِیْ عَمَلِہِ، فَقَال رَجُلُ مِنْھُمْ: أَتُعْطِی ھٰذَا مِثْلَ مَا أَعْطَیْتَنِیْ، وَلَمْ یَعْمَلْ اِلَّا نِصْفَ نَھَارٍ، فَقُلْتُ: یَا عَبْدَ اللّٰہِ! لَمْ أَبْخَسْکَ شَیْئًا مِنْ شَرْطِکَ وَ اِنَّمَا ھُوَ مَالِیْ، اَحْکُمُ فِیْہِ مَا شِئْتُ۔ قَالَ: فَغَضِبَ وَذَھَبَ وَتَرَکَ اَجْرَہٗ۔قَالَ: فَوَضَعْتُحَقَّہُفِی جَانِبٍ مِنَ الْبَیْتِ مَاشَائَ اللّٰہُ، ثُمَّ مَرَّتْ بِی بَعْدَ ذٰلِکَ بَقَرٌ،فَاشْتَرَیْتُ بِہٖفَصِیْلَۃً مِنَ البَقَرِ فَبَلَغْتْ مَاشَائَ اللّٰہُ فَمَرَّ بِی بَعْدَ حِیْنٍ شَیْخاً ضَعِیْفًا لَا أَعْرِفُہُ، فَقَالَ: إِنَّ لِیْ عِنْدَکَ حَقًّا، فَذَکَّرَنِیْہِ حَتّٰی عَرَفْتُہُ، فَقُلْتُ: إِیَّاکَ أَبْغِی، ھٰذَا حَقُّکَ فَعَرَضْتُہُ عَلَیْہِ جَمِیْعَھَا! فَقَالَ: یَا عَبْدَاللّٰہِ! لَا تَسْخَرْ بِی! إِن لَّمْ تَصَدَّقْ عَلَیَّ فَأَعْطِنِیْ حَقِّی، قُلْتُ: وَاللّٰہِ! لَا أَسْخَرُبِکَ، إِنَّھَا لَحَقُّکَ، مَا لِیْ مِنْھَا شَیْئٌ، فَدَفَعْتُھَا إِلَیْہِ جَمِیْعاً۔ اَللَّھُمَّ! اِنْ کُنْتُ فَعَلْتُ ذٰلِکَ لِوَجْھِکَ فَافْرُجْ عَنّا! قَالَ: فَانْصَدَعَ الْجَبَلُ حَتّٰی رَأَوْا مِنْہُ وَأَبْصَرُوْا۔ قَالَ الآخَرُ: قَدْ عَمِلْتُ حَسَنَۃً مَرَّۃً کَانَ لِی فَضْلٌ، فَأَصَابَتِ النَّاسَ شِدَّۃٌ، فَجَائَ تْنِی امْرَأَۃٌ تَطْلُبُ مِنِّی مَعْرُوْفاً، قَالَ: فَقُلْتُ: وَاللّٰہِ مَا ھُوَ دُوْنَ نَفْسِکِ! فَأَبَتْ عَلَیَّ فَذَھَبَتْ ثُمَّ رَجَعَتْ فَذَکَّرَتْنِیْ بِاللّٰہِ، فَأَبَیْتُ عَلَیْھَا وَقُلْتُ: لَا وَاللّٰہِ مَاھُوَ دُوْنَ نَفْسِکِ! فَأَبَتْ عَلَیَّ وَذَھَبَتْ، وَذَکَرَتْ لِزَوْجِھَا، فَقَالَ لَھَا: أَعْطِیْہِ نَفْسَکِ! وَاَغْنِیْ عِیَالَکِ فَرَجَعَتْ اِلَیَّ فَنَاشَدَتْنِیْ بِاللّٰہِ فَأَبَیْتُ عَلَیْھَا وَقُلْتُ: وَاللّٰہِ!مَاھُوَدُوْنَ نَفْسِکِ! فَلَمَّا رَأَتْ ذَالِکَ أَسْلَمَتْ إِلٰیَّ نَفْسَھَا، فَلَمَّا تَکَشَّفْتُھَا وَھَمَمْتُ بِھَا، اِرْتَعَدَتْ مِنْ تَحْتِی فَقُلْتُ: مَاشَأْنُکِ؟ قَالَتْ: أَخَافُ اللّٰہَ رَبَّ الْعَالَمِیْنَ! فَقُلْتُ لَھَا: خِفْتِہِ فِی الشِّدَّۃٍ، وَلَمْ أَخَفْہُ فِی الرَّخَائِ! فَتَرَکْتُھَا وَأَعْطَیْتُھَا مَا یَحُقُّ عَلَیَّ بِمَا تَکَشَّفْتُھَا، اَللّٰھُمَّ! إِنْ کُنْتُ فَعَلْتُ ذٰلِکَ لِوَجْھِکَ، فَافْرُجْ عَنَّاقَالَ: فَانْصَدَعَ حَتّٰی عَرَفُوْا وَتَبَیَّنَ لَھُمْ۔ قَالَ الآخَرُ: عَمِلْتُ حَسَنَۃً مَرَّۃً کَانَ لِی أبَوْانِِ شَیْخَانِ کَبِیْرَانِ، وَکَانَ لِی غَنَمٌ فَکُنْتُ أُطْعِمُ أَبَوَیَّ وَأَسْقِیْھِمَا، ثُمَّ رَجَعْتُ إِلٰی غَنَمِیْ قَالَ: فأَصَابَنِییَوْمُ غَیْثٍ حَبَسَنِیْ فَلَمْ أَبْرَحْ حَتّٰی أَمْسَیْتُ فَأَتَیْتُ أَھْلِیْ، وَأَخَذْتُ مَحْلَبِیْ، فَحَلَبْتُ غَنَمِیْ قَائِمَۃً فَمَضَیْتُ إِلٰی أَبَوَیَّ،فَوَجَدتُّھُمَا قَدْ نَامَا، فَشَقَّ عَلَیَّ أَنْ أُوْقِظَھُمَا، وَشَقَّ أَنْ أَتْرُکَ غَنَمِیْ، فَمَا بَرِحْتُ جَالِسًا، وَمَحْلَبِی عَلٰییَدِی حَتّٰی أَیْقَظَھُمَا الصُّبْحُ، فَسَقَیْتُھُمَا، اَللّٰھُمَّ! إِنْ کُنْتُ فَعَلْتُ ذٰلِکَ لِوَجْھِکَ فَافْرُجْ عَنَّا! قَالَ النُّعْمَانُ: لَکَاَنِّی أَسْمَعُ ھٰذِہِ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ قَالَ الْجَبَلُ: طَاقٌ، فَفَرَّجَ اللّٰہُ عَنْھُمْ فَخَرَجُوْا۔)) (مسند احمد: ۱۸۶۰۷)

۔ سیدنا نعمان بن بشیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے غار والوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: ایک غار میں تین آدمیوں نے پناہ لی، پہاڑ کا کچھ حصہ غار کے دروازہ پر گرا اور اس کا راستہ بند کر دیا۔ ایک نے کہا: یاد کرو، تم میں سے کس نے نیک عمل کیا ہے، ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے بسبب ہم پر رحم کر دے۔ ایک آدمی نے کہا: میں نے ایک دفعہ ایک نیکی کی تھی، (اس کی تفصیلیہ ہے کہ) میرے کچھ مزدور کام کرتے تھے، میرے عمال میرے پاس آئے، میں نے ہر ایک کو معین مزدوری دی۔ ایک دن ایک آدمی نصف النھار کے وقت میرے پاس آیا، میں نے اسے مزدوری پر تو لگا دیا، لیکن (نصف دن) کی وجہ سے دوسرے مزدوروں کی مزدوری کے نصف کے بقدردینے کا طے کیا ، لیکن اس نے اس نصف دن میں اتنا کام کیا، جو دوسروں نے پورے دن میں کیا تھا، اس لیے میں نے اپنی ذمہ داری سمجھی کہ اسے اس کے ساتھیوں کی طرح پوری اجرت دوں، کیونکہ اس نے اپنا کام کرنے میں پوری محنت کی ہے۔ ان میں سے ایک آدمی نے (اعتراض کرتے ہوئے) کہا: کیا تو اس کو وہی اجرت دے رہا ہے جو مجھے دی، حالانکہ اس نے نصف دن کام کیا ہے؟میں نے کہا: اللہ کے بندے! جو کچھ تجھ سے تیرے بارے میں طے ہوا تھا، اس میں میں نے کوئی کمی نہیں کی،یہ میرا مال ہے، میں جیسے چاہوں اس کے بارے میں فیصلہ کر سکتا ہوں۔ (میری اس بات سے) اسے غصہ آیا اور وہ اجرت چھوڑ کر چلا گیا۔ میں نے گھر کے ایک کونے میں اس کا حق رکھ دیا، پھر ایک دن میرے پاس سے گائے گزری، میں نے اس کی اجرت والے مال سے دودھ چھڑایا ہوا گائے کا بچہ خرید لیا، (اس کی نسل بڑھتی رہی اور) گائیوں میں اضافہ ہوتا رہا۔ ایکدن وہی مزدور میرے پاس سے گزرا، وہ بوڑھا اور کمزور ہو چکا تھا، اس لئے میں نے اسے نہیں پہچانا۔ اس نے کہا: میرا حق تیرے پاس ہے، جب اس نے مجھے یاد کرایا تو بات میری سمجھ میں آ گئی۔ میں نے کہا: میں تو تیری ہی تلاش میں تھا، میں نے اس پر (ساری گائیں) پیش کرتے ہوئے کہا: یہ تیرا حق ہے۔ اس نے کہا: او اللہ کے بندے! میرے ساتھ مذاق تو نہ کر، اگر میرے ساتھ ہمدردی نہیں کر سکتا تو میرا حق تو مجھے دے دے۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں تیرے ساتھ مذاق نہیں کر رہا، یہ تیرا ہی حق ہے، اس میں کوئی چیز میری نہیں ہے، سو میں نے وہ سارا مال اسے دے دیا۔ اے اللہ! اگر میں نے یہ نیکی تیری ذات کے لئے کی ہے تو اس سے ہمارے لئے گنجائش پیدا کر۔ (اس دعا کی وجہ سے) پتھر اتنا ہٹ (یا پھٹ) گیا کہ باہر کا ماحول انھیں نظر آنے لگ گیا۔ دوسرے نے کہا: میں نے بھی ایک دفعہ ایک نیکی کی تھی۔ (تفصیلیہ ہے کہ) میرے پاس زائد از ضرورت مال تھا، لوگ شدت میں مبتلا ہو گئے، ایک عورت میرے پاس کچھ مال طلب کرنے کے لئے آئی۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! تیری شرمگاہ کے علاوہ اس کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ اس نے (ایسا کرنے سے) انکار کر دیا اور وہ چلی گئی، پھر وہ لوٹ آئی اور مجھے اللہ تعالیٰ کا واسطہ دیا، لیکن میں انکار پر تلا رہا اور کہا: نہیں، اللہ کی قسم! تیری شرمگاہ کے علاوہ اس کی کوئی قیمت نہیں۔ اس نے میرے مطالبے کا انکار دیا اور چلی گئی۔ اس نے یہ بات اپنے خاوند کو بتلائی تو اس نے کہا: تو اسے اپنا نفس دے دے (یعنی اسے زنا کرنے دے) اور (کچھ لے کر) اپنے بچوں کی ضرورت پورا کر۔ وہ آئی اور مجھ پر اللہ تعالیٰ کی قسم کھائی، لیکن میں نے (پہلے کی طرح) انکار ہی کیا اور کہا: پہلے اپنا نفس فروخت کرنا ہو گا (یعنی اپنی عزت لٹانی ہو گی) ۔ جب اس نے یہ صورتحال دیکھی تو اپنے آپ کو میرے سپرد کر دیا۔ جب میں نے اسے ننگا کیا اور بدکاری کا ارادہ کر لیا تو اس پر میرے نیچے کپکپی طاری ہو گئی۔ میں نے اسے کہا: تجھے کیا ہو گیا ہے؟ اس نے کہا: میں جہانوں کے پالنہار اللہ سے ڈر رہی ہوں۔ میں نے اسے کہا: تو تنگدستی کے باوجود اس سے ڈرتی ہے اور میں تو خوشحالی میں بھی نہیں ڈرتا۔ پس میں نے اسے چھوڑ دیا اور اسے ننگا کرنے کے جرم میں جو کچھ مجھ پر عائد ہوتا تھا، میں نے اسے دے دیا۔ اے اللہ! اگر میں نے یہ نیکی تیری ذات کے لئے کی تھی تو آج اس (چٹان) کو ہٹا دے۔ (اس دعا کی وجہ سے) وہ مزید ہٹ گئی، حتی کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچاننے لگ گئے۔ تیسرے نے کہا: میں نے بھی ایک نیکی کی تھی۔ (اس کی تفصیلیہ ہے کہ) میرے والدین بوڑھے تھے اور میرے پاس بکریاں تھیں۔ میں اپنے والدین کو کھانا کھلاتا اور دودھ پلاتا تھا اور پھر اپنی بکریوں کی طرف لوٹ جاتا تھا۔ ایک دن بارش نے مجھے (وقت پر) لوٹنے سے روک لیا، وہیں شام ہو گئی۔ جب میں گھر پہنچا، برتن لیا، بکریوں کا دودھ دوہا اور اپنے والدین کے پاس لے کر گیا، لیکن وہ (میرے پہنچنے سے پہلے) سو چکے تھے۔ ایک طرف ان کو بیدار کرنا مجھ پر گراں گزر رہا تھا اور دوسری طرف بکریوں کو (یوں ہی بے حفاظت چھوڑ آنا) پریشان کر رہا تھا۔ بہرحال میں برتن تھامے ان کے انتظار میں بیٹھا رہا، حتی کہ وہ صبح کو بیدار ہوئے اور میں نے ان کو دودھ پلایا۔ اے اللہ! اگر میں نے یہ نیکی تیرے لئے کی تھی تو (اس چٹان کو) ہٹا دے۔ سیدنا نعمان کہتے ہیں: گویا کہ میں یہ الفاظ اب بھی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سن رہا ہوں، اللہ تعالیٰ نے اس (پتھر کو غار کے دہانے سے) ہٹا دیئے اور وہ نکل گئے۔

Haidth Number: 10438

۔ (۱۰۴۶۹)۔ عَنْ عُتْبَۃَ بْنِ عَبْدِ نِ السُّلَمِیِّ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: کَیْفَ کَانَ أَوَّلُ شَأْنِکَ؟ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((کَانَتْ حَاضِنَتِیْ مِنْ بَنِیْ سَعْدِ بْنِ کَعْبٍ فَأنْطَلَقْتُ أَنَا وَابْنٌ لَھَا فِیْبَھْمٍ لَنَا وَلَمْ نَأْخُذْ مَعَنَا زَادًا، فَقُلْتُ: یَا أَخِیْ! اذْھَبْ فَأْتِنَا بِزَادٍ مِنْ عِنْدِ أُمِّنَا، فَانْطَلَقَ اَخِیْ وَمَکَثْتُ عِنْدَ الْبُھْمِ فَاَقْبَلَ طَیْرَانِ أَبْیَضَانِ کَأَنَّھُمَا نَسْرَانِ، فَقَالَ اَحَدُھُمَا لِصَاحِبِہٖ: أَھُوَھُوَ؟قَالَ: فَأَقْبَلَایَبْتَدِرَانِیْ فَأَخَذَانِیْ فَبَطَحَانِیْ اِلَی الْقَفَا فَشَقَّا بَطْنِیْ ثُمَّّ اسْتَخْرَجَا قَلْبِیْ، فَشَقَّاہُ، فَأَخْرَجَا مِنْہُ عَلَقَتَیْنِ سَوْدَاوَیْنِ، فَقَالَ أَحَدُھُمَا لِصَاحِبِہٖ: اِئْتِنِیْ بِمَائِ ثَلْجٍ فَغَسَلَا بِہٖجَوْفِیْ، ثُمَّّ قَالَ: اِئْتِنِیْ بِمَائِ بَرَدٍ فَغَسَلَا بِہٖقَلْبِیْ، ثُمَّّ قَالَ: ائْتِنِیْ بِالسَّکِیْنَۃِفَذَرَّاھَا فِیْ قَلْبِیْ، ثُمَّّ قَالَ أَحَدُھُمَا لِصَاحِبِہٖ: حُصْہُ،فَحَاصَہُوَخَتَمَعَلَیِْہِ بِخَاتَمِ النَّبُوَّۃِ، (وَقَالَ حَیْوَۃُ فِیْ حَدِیْثِہِ: حِصْہُ، فَحَاصَہُ وَاخْتِمْ عَلَیْہِ بِخَاتَمِ النَّبُوَّۃِ) فَقَالَ اَحَدُھُمَا لِصَاحِبِہٖ: اجْعَلْہُ فِیْ کِفَّۃٍ وَاجْعَلْ اَلْفًا مِنْ أُمَّتِہِ فِیْ کِفَّۃٍ، فَاِذَا أَنَا أَنْظُرُ اِلَی الْاَلْفِ فَوْقِیْ أُشْفِقُ أَنْ یَخِرَّ عَلَیَّ بَعْضُھُمْ فَقَالَ: لَوْ اَنَّ أُمَّتَہُ وُزِنَتْ بِہٖلَمَالَبِھِمْ،ثُمَّّانْطَلَقَاوَتَرَکَانِیْ، وَفَرِقْتُ فَرْقًا شَدِیْدًا، ثُمَّّ انْطَلَقْتُ اِلَی أُمِّیْ اَخْبَرْتُھَا بِالَّذِیْ لَقِیْتُہُ فَاشْفَقَتْ عَلَیَّ اَنْ یَّکُوْنَ اُلْبِسَ بِیْ قَالَتْ: اُعِیْذُکَ بِاللّٰہِ فَرَحَلَتْ بَعِیْرًا لَھَا فَجَعَلَتْنِیْ (وَقَالَ یَزِیْدُ: فَحَمَلَتْنِیْ) عَلَی الرَّحْلِ وَرَکِبَتْ خَلْفِیْ حَتّٰی بَلَغْنَا اِلٰی أُمِّیْ، فَقَالَتْ: أَوَ أَدَّیْتُ أَمَانَتِیْ وَذِمَّتِیْ؟ وَحَدَّثَتْھَا بِالَّذِیْ لَقِیْتُ فَلَمْ یَرُعْھَا ذٰلِکَ فَقَالَتْ: إِنِّیْ رَأَیْتُ خَرَجَ مِنِّی نُوْرٌ أَضَاعَتْ مِنْہُ قُصُوْرُ الشَّامِ۔)) (مسند احمد: ۱۷۷۹۸)

۔ سیدنا عتبہ بن عبد سلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سوال کیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کے معاملے کی ابتدا کیسے ہوئی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری دائی کا تعلق بنو سعد بن کعب سے تھا، میں اور اس کا بیٹا بکریاں چرانے کے لیے باہر گئے اور اپنے ساتھ زاد لے کر نہیں گئے، میں نے کہا: اے میرے بھائی! تو جا اور ہماری ماں سے زاد لے آ، پس وہ چلا گیا اور میں بکریوں کے پاس ٹھہر گیا، میں نے دیکھا کہ گدھ کی طرح کے سفید رنگ کے دو پرندے آئے، (دراصل وہ دو فرشتے تھے)، ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: کیایہ وہی ہے؟ پھر وہ میری طرف لپکے، مجھے پکڑا اور گدی کے بل مجھ کو لٹا دیا، پھر انھوں نے میرا پیٹ چاک کیا، اس میں سے میرا دل نکالا، پھر اس کو چیرا دیا اور اس میں سے کالے رنگ کے خون کے دو لوتھڑے نکال دیئے، پھر ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: برف کا پانی لے آ، پس انھوں نے میرا پیٹ دھویا، پھر ایک نے کہا: اولوں کا پانی لے آ، پس انھوں نے میرا دل دھویا، پھر ایک نے کہا: اب سکینت لے آیا، پس انھوں نے اس کو میرے دل میں چھڑک دیا، پھر ایک نے دوسرے سے کہا: اب اس کو سلائی کر دے، پس اس نے اس کو سلائی کر دیا اور اس پر نبوت کی مہر لگا دی، ایک روایت میں ہے: ایک فرشتے نے کہا: تو اس کو سلائی کر دے، پس اس نے سلائی کر دیا، پھر اس نے کہا: اب اس پر نبوت کی مہر لگا دے، اس کے بعد ایک نے دوسرے سے کہا: اس کو ایک پلڑے میں رکھ اور دوسرے پلڑے اس کی امت کے ایک ہزار آدمی رکھ، (میں اتنا بھاری ثابت ہوا کہ) میں نے ان ہزار افراد کو اپنے اوپر اس طرح دیکھا کہ مجھے ڈر لگ رہا تھا کہ کوئی مجھ پر گر نہ جائے، پھر ایک فرشتے نے کہا: اگر اس ہستی کا اس کی پوری امت کے ساتھ وزن کیا جائے تو یہ بھاری ثابت ہو گی، پھر وہ دونوں مجھے چھوڑ کر چلے گئے، میں بہت زیادہ ڈرا اور گھبرا گیا، پھر میں اپنی ماں کی طرف گیا اور جو کچھ دیکھا، اس کو بتلایا، وہ بھی میرے بارے میں ڈرنے لگی کہ مجھ پر کوئی معاملہ مشتبہ ہو گیا ہے، اس نے کہا: میں تجھے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں دیتی ہوں، پھر اس نے اونٹ تیار کیا، مجھے پالان پر سوار کیا اور خود میرے پیچھے سوار ہو گئی،یہاں کہ ہم میری ماں کے پاس پہنچ گئے، اس دائی نے کہا: میں نے اپنی امانت اور ذمہ داری ادا کر دی ہے ، پھر جب میری ماں کو سارا واقعہ بیان کیا تو ان کو کوئی گھبراہٹ نہیں ہوئی، بلکہ انھوں نے کہا: میں نے دیکھا کہ مجھ سے ایک نور نکلا، جس سے شام کے محل روشن ہو گئے۔

Haidth Number: 10469
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بچوںکے ساتھ کھیل رہے تھے کہ ایک آنے والا آیا، اس نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا پیٹ مبارک چاک کیا اور اس سے خون کا لوتھڑا نکال کر پھینک دیا اور کہا: یہ آپ سے شیطان کا حصہ تھا،پھر اس نے اس کو سونے کے تھال میں موجود زمزم کے پانی سے دوھویا، بچے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دایہ کے پاس گئے اور کہا: محمد( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کو قتل کر دیا گیا ہے، محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کو قتل کر دیا گیا ہے، پس جب وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو لینے آئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا رنگ بدلا ہوا تھا، سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سینے میں سلائی کا نشان دیکھتے تھے۔

Haidth Number: 10470
سیّدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو وہ شدید قسم کی وبائی زمین تھی، پھر سیّدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیمار پڑ گئے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دعا کی: یا اللہ ! ہمارے لئے مدینہ منورہ، مکہ مکرمہ کی طرح یا اس سے بھی زیادہ محبوب بنا دے اور اس کی فضا کو صحت والا کر دے اور ہمارے لیے اس کے مد اور صاع میں برکت فرما اور اس کے بخار کو یہاں سے جُحفہ کے علاقے میں منتقل کر دے۔

Haidth Number: 10668

۔ (۱۰۶۶۹)۔ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: لَمَّا قَدِمَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْمَدِینَۃَ، اشْتَکٰی أَصْحَابُہُ، وَاشْتَکٰی أَبُو بَکْرٍ وَعَامِرُ بْنُ فُہَیْرَۃَ مَوْلٰی أَبِی بَکْرٍ وَبِلَالٌ، فَاسْتَأْذَنَتْ عَائِشَۃُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی عِیَادَتِہِمْ، فَأَذِنَ لَہَا، فَقَالَتْ لِأَبِی بَکْرٍ: کَیْفَ تَجِدُکَ؟ فَقَالَ: ((کُلُّ امْرِئٍ مُصَبَّحٌ فِی أَہْلِہِ، وَالْمَوْتُ أَدْنٰی مِنْ شِرَاکِ نَعْلِہِ، وَسَأَلَتْ عَامِرًا فَقَالَ: إِنِّی وَجَدْتُ الْمَوْتَ قَبْلَ ذَوْقِہِ، إِنَّ الْجَبَانَ حَتْفُہُ مِنْ فَوْقِہِ،وَسَأَلَتْ بِلَالًا فَقَالَ: یَا لَیْتَ شِعْرِی ہَلْ أَبِیتَنَّ لَیْلَۃً بِفَجٍّ، وَحَوْلِی إِذْخِرٌ وَجَلِیلُ، فَأَتَتِ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَخْبَرَتْہُ بِقَوْلِہِمْ، فَنَظَرَ إِلَی السَّمَائِ وَقَالَ: ((اللَّہُمَّ حَبِّبْ إِلَیْنَا الْمَدِینَۃَ، کَمَا حَبَّبْتَ إِلَیْنَا مَکَّۃَ اَوْ أَشَدَّ، اللَّہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِی صَاعِہَا وَفِی مُدِّہَا، وَانْقُلْ وَبَائَ ہَا إِلٰی مَہْیَعَۃَ۔)) وَہِیَ الْجُحْفَۃُ کَمَا زَعَمُوا۔ (مسند احمد: ۲۴۸۶۴)

سیّدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو سیدنا ابوبکر صدیق، ان کے غلام سیدنا عامر بن فہیرہ اور سیدنا بلال سمیت کچھ صحابۂ کرام بیمار پڑ گئے۔ سیّدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے ان کی عیادت کے لیے جانے کی خاطر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اجازت چاہی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں جانے کی اجازت مرحمت فرما دی۔ جب انھوں نے سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے دریافت کیا کہ آپ کیسے ہیں؟ تو انہوں نے یہ شعر پڑھ کر اپنی پریشانی کا اظہار کیا: ہر شخص کو اس کے اہلِ خانہ میں صبح بخیر کہا جاتا ہے، حالانکہ موت اس کے جوتے کے تسمے سے بھی اس کے قریب ہے۔ پھر جب انھوں نے سیدنا عامر بن فہیرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ان کا حال دریافت کیا تو انہوں نے کہا: میں موت کے آنے سے پہلے ہی موت سے دو چار ہو گیا ہوں، موت ہر وقت بزدل آدمی کے سر پرکھڑی ہوتی ہے۔ جب سیدہ نے سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ان کا حال دریافت کیا تو انہوں نے کہا: اے کاش میں جان سکوں کہ میں کوئی ایک رات اس وادی فج (جو کہ مکہ کی ایک وادی ہے) میں گزار سکوں گا، جہاں میرے گرد اذخر گھاس اور جلیل نامی گھاس ہو۔ جب عیادت کے بعد سیّدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں آئیں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ان حضرات کی باتوں کے متعلق بتلایا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آسمان کی طرف نظر اُٹھا کر فرمایا: یا اللہ ! ہمارے لیے مدینہ منورہ کے صاع اور مد میں برکت فرما اور اس کی وباء کو مہیعہیعنی حجفہ کی طرف منتقل کر دے۔

Haidth Number: 10669

۔ (۱۰۶۷۰)۔ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ عَنْ أَبِیہِ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: قَدِمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْمَدِینَۃَ وَہِیَ وَبِیئَۃٌ، ذُکِرَ أَنَّ الْحُمّٰی صَرَعَتْہُمْ فَمَرِضَ أَبُو بَکْرٍ، وَکَانَ إِذَا أَخَذَتْہُ الْحُمَّییَقُولُ: کُلُّ امْرِئٍ مُصَبَّحٌ فِی أَہْلِہِ، وَالْمَوْتُ أَدْنٰی مِنْ شِرَاکِ نَعْلِہِ، قَالَتْ: وَکَانَ بِلَالٌ إِذَا أَخَذَتْہُ الْحُمّٰییَقُولُ: أَلَا لَیْتَ شِعْرِی ہَلْ أَبِیتَنَّ لَیْلَۃً بِوَادٍ، وَحَوْلِی إِذْخِرٌ وَجَلِیلُ، وَہَلْ أَرِدْنَ یَوْمًا مِیَاہَ مَجَنَّۃٍ، وَہَلْیَبْدُوَنْ لِی شَامَۃٌ وَطَفِیلُ، اللَّہُمَّ الْعَنْ عُتْبَۃَ بْنَ رَبِیعَۃَ وَشَیْبَۃَ بْنَ رَبِیعَۃَ وَأُمَیَّۃَ بْنَ خَلَفٍ، کَمَا أَخْرَجُونَا مِنْ مَکَّۃَ، فَلَمَّا رَأٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا لَقُوا، قَالَ: ((اللَّہُمَّ حَبِّبْ إِلَیْنَا الْمَدِینَۃَ کَحُبِّنَا مَکَّۃَ أَوْ أَشَدَّ، اللَّہُمَّ صَحِّحْہَا، وَبَارِکْ لَنَا فِی صَاعِہَا وَمُدِّہَا، وَانْقُلْ حُمَّاہَا إِلَی الْجُحْفَۃِ۔)) قَالَ: فَکَانَ الْمَوْلُودُ یُولَدُ بِالْجُحْفَۃِ، فَمَا یَبْلُغُ الْحُلُمَ حَتّٰی تَصْرَعَہُ الْحُمّٰی۔ (مسند احمد: ۲۶۷۷۰)

سیّدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو مدینہ وبا والا علاقہ اور لوگ بخار میں مبتلا تھے، سیّدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیمار ہو گئے۔ انہیں جب شدت کا بخار ہوتا تو وہ یوں کہنے لگتے: ہر شخص اپنے اہلِ خانہ میں صبح کرتا ہے، حالانکہ موت اس کے جوتے کے تسمے سے بھی اس کے زیادہ قریب ہے۔ سیّدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں کہ سیّدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو شدید بخار ہوتا تو وہ یوں کہتے: اے کاش میں جان سکوں کہ میں کوئی ایک رات اس وادی میں گزار سکوں گا، جہاں میرے اردگرد اذخر اور جلیل نامی گھاس ہو، اور میں کبھی مجنہ کے چشموں پر جا سکوں گا اور کیا شامہ اور جلیل نامی پہاڑ میرے لیے ظاہر ہوں گے، اے اللہ !عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف پر لعنت فرما کہ انہوں نے ہمیں مکہ مکرمہ سے نکال دیا ہے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب ان صحابہ کییہ پریشانی دیکھی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یا اللہ ! ہمارے لئے مدینہ منورہ کو مکہ مکرمہ کی طرح یا اس سے بھی بڑھ کر محبوب بنا دے۔ اور اس کی فضا کو صحت والا بنا دے، اور ہمارے لئے یہاں کے صاع اور مد میں برکت فرما اور یہاں کے بخار کو جحفہ کی طرف منتقل کر دے عروہ کہتے ہیں آپ کی اس دعا کا نتیجہیہ ہوا کہ جحفہ کے علاقے میں جو بچہ بھی پیدا ہوتا وہ بلوغت کی عمر کو نہیں پہنچتا تھا حتی کہ اسے بخار چت گرا دیتا۔

Haidth Number: 10670

۔ (۱۱۵۷۶)۔ قَالَ نَافِعُ بْنُ عَبْدِ الْحَارِثِ: خَرَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتَّی دَخَلَ حَائِطًا (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: مِنْ حَوَائِطِ الْمَدِیْنَۃِ)، فَقَالَ لِی: أَمْسِکْ عَلَیَّ الْبَابَ، فَجَائَ حَتّٰی جَلَسَ عَلَی الْقُفِّ وَدَلّٰی رِجْلَیْہِ فِی الْبِئْرِ فَضُرِبَ الْبَابُ، قُلْتُ: مَنْ ہٰذَا؟ قَالَ: أَبُوبَکْرٍ، قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ ہٰذَا أَبُوبَکْرٍ؟ قَالَ: ((ائْذَنْ لَہُ وَبَشِّرْہُ بِالْجَنَّۃِ۔)) قَالَ: فَأَذِنْتُ لَہُ وَبَشَّرْتُہُ بِالْجَنَّۃِ، قَالَ: فَدَخَلَ فَجَلَسَ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی الْقُفِّ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: قُفِّ الْبِئْرِ) وَدَلّٰی رِجْلَیْہِ فِی الْبِئْرِ، ثُمَّ ضُرِبَ الْبَابُ فَقُلْتُ: مَنْ ہٰذَا؟ فَقَالَ: عُمَرُ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ ہٰذَا عُمَرُ؟ قَالَ: ((ائْذَنْ لَہُ وَبَشِّرْہُ بِالْجَنَّۃِ۔)) قَالَ: فَأَذِنْتُ لَہُ وَبَشَّرْتُہُ بِالْجَنَّۃِ، قَالَ: فَدَخَلَ فَجَلَسَ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی الْقُفِّ وَدَلّٰی رِجْلَیْہِ فِی الْبِئْرِ، قَالَ: ثُمَّ ضُرِبَ الْبَابُ، فَقُلْتُ: مَنْ ہٰذَا؟ قَالَ: عُثْمَانُ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ ہٰذَا عُثْمَانُ؟ قَالَ: ((ائْذَنْ لَہُ وَبَشِّرْہُ بِالْجَنَّۃِ مَعَہَا بَلَائٌ۔)) (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: وَسَیَلْقٰی بَلَائً)، فَأَذِنْتُ لَہُ وَبَشَّرْتُہُ بِالْجَنَّۃِ، فَجَلَسَ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی الْقُفِّ وَدَلَّی رِجْلَیْہِ فِی الْبِئْرِ۔ (مسند احمد: ۱۵۴۴۸)

سیدنا نافع بن عبدالحارث سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ گیا،یہاں تک کہ آپ مدینہ منورہ کے باغات میں سے ایک ایسے باغ میں داخل ہو گئے، اس کے باہر چار دیواری بنی ہوئی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: تم دروازے پر ٹھہرو ۔ اور آپ خود کنوئیں کی منڈیر پر جا بیٹھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے پائوں کنوئیں کے اندر لٹکالیے، کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ میں نے پوچھا: کون ہو؟آنے والے نے کہا: میں ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہوں۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ابوبکر آئے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: انہیں اندر آنے کی اجازت دو اور ساتھ جنت کی بشارت بھی سنا دو۔ میںنے انہیں اندر آنے کی اجازت دی اور جنت کی بھی بشارت دے دی۔ وہ آکر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس ہی اسی طرح کنوئیں میں پائوں لٹکا کر کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھ گئے، کچھ دیر بعد پھر دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔ میں نے پوچھا: کون ہو؟ اس نے کہا: میں عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہوں۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ عمرآئے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: انہیں اندر آنے کی اجازت دو اور جنت کی بشارت بھی سنا دو۔ میں نے انہیں اندر آنے کی اجازت دی اور جنت کی بھی بشارت سنا دی، وہ آکر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس کنوئیں کی منڈیر پر کنوئیں میں پائوں لٹکا کر بیٹھ گئے۔ پھر کچھ دیربعد دروازے پر دستک دی گئی۔ میں نے پوچھا: کون ہو؟ انہوںنے کہا: میں عثمان ہوں۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: انہیں اندر آنے کی اجازت دو اور جنت کی بشارت بھی سنا دو، لیکن کچھ آزمائش کے بعد۔ میں نے انہیں بھی اندر آنے کی اجازت دی اور جنت کی بھی بشارت سنائی۔ وہ بھی آکر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس (آپ کے سامنے) کنوئیں میں پائوں لٹکا کر کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھ گئے۔

Haidth Number: 11576
سیدنا عبداللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھا کہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لائے اور انہوںنے اندر آنے کی اجازت طلب کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: انہیں اندر آنے کی اجازت دو اور ساتھ جنت کی بشارت بھی دے دو۔ اس کے بعد سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے اور انہوںنے بھی آنے کی اجازت طلب کی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: انہیں بھی اندر کی اجازت دو اور جنت کی بشارت بھی سنا دو۔ اس کے بعد سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے اور انہوںنے بھی اندر آنے کی اجازت طلب کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: تم انہیں اندر آنے کی اجازت اور جنت کی بشارت دے دو۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا کہ میں کہاں ہوں گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اپنے باپ کے ساتھ ہو گے۔

Haidth Number: 11577

۔ (۱۱۵۷۸)۔ عَنْ أَبِی مُوسَی الْأَشْعَرِیِّ قَالَ: کُنْتُ مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَسِبْتُہُ، قَالَ: فِی حَائِطٍ، فَجَائَ رَجُلٌ فَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اذْہَبْ فَأْذَنْ لَہُ وَبَشِّرْہُ بِالْجَنَّۃِ۔)) فَذَہَبْتُ فَإِذَا ہُوَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ، فَقُلْتُ: ادْخُلْ وَأَبْشِرْ بِالْجَنَّۃِ، فَمَا زَالَ یَحْمَدُ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ حَتّٰی جَلَسَ، ثُمَّ جَائَ آخَرُ فَسَلَّمَ فَقَالَ: ((ائْذَنْ لَہُ وَبَشِّرْہُ بِالْجَنَّۃِ۔)) فَانْطَلَقْتُ فَإِذَا ہُوَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ، فَقُلْتُ ادْخُلْ وَأَبْشِرْ بِالْجَنَّۃِ، فَمَا زَالَ یَحْمَدُ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ حَتّٰی جَلَسَ، ثُمَّ جَائَ آخَرُ فَسَلَّمَ فَقَالَ: ((اذْہَبْ فَأْذَنْ لَہُ وَبَشِّرْہُ بِالْجَنَّۃِ عَلٰی بَلْوٰی شَدِیدَۃٍ۔)) قَالَ: فَانْطَلَقْتُ فَإِذَا ہُوَ عُثْمَانُ، فَقُلْتُ: ادْخُلْ وَأَبْشِرْ بِالْجَنَّۃِ عَلٰی بَلْوٰی شَدِیدَۃٍ، قَالَ: فَجَعَلَ یَقُولُ: اللَّہُمَّ صَبْرًا حَتّٰی جَلَسَ۔ (مسند احمد: ۱۹۷۳۸)

سیدنا ابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ایک باغ میں تھا کہ ایک آدمی نے آکر سلام کہا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم جا کر ان کو اندر آنے کی اجازت دو اور جنت کی بشارت بھی سنا دو۔ میں نے دروازے پر جا کر دیکھا تو وہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے۔ میں نے ان سے کہا: جی اندر آجائیں اور آپ کو جنت کی بشارت ہو۔ وہ اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا بیان کرنے لگے یہاں تک کہ بیٹھ گئے۔ اس کے بعد ایک اور آدمی نے آکر سلام کہا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: تم جا کر اسے بھی اندر آنے کی اجازت دو اور جنت کی بشارت بھی سنا دو۔ میں دروازے پر گیا تو وہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے۔ میں نے ان سے کہا: اندر آجائیں اور آپ کو جنت کی بشارت ہو۔ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کرتے ہوئے بیٹھ گئے۔ پھر ایک اور آدمی نے آکر سلام کہا تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: تم جا کر اسے بھی اندر آنے کی اجازت دو اور جنت کی بشارت بھی سنا، لیکنیہ جنت ایک سخت امتحان کے بعد ملے گی۔ میں گیا تو وہ عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے، میں نے ان سے کہا کہ اندر آجائیں اور آپ کو جنت کی بشارت ہو، لیکن ایک سخت امتحان اور آزمائش کے بعد ملے گی۔ تو وہ کہنے لگے: یا اللہ! مجھے اس وقت صبر کی توفیق سے نوازنا، وہ یہ دعا کرتے رہے، یہاں تک کہ وہ بھی بیٹھ گئے۔

Haidth Number: 11578
سیدنا سمرہ بن جندب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا آسمان سے ایک ڈول نیچے لٹکایا گیا، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آکر ڈول کو دونوں طرف سے پکڑ کر اس سے تھوڑا سا پانی پیا اور ان کے پینے میں کچھ کمزوری سی تھی۔ ان کے بعد سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے اور انہوںنے ڈول کو دونوں طرف سے پکڑ کر خوب سیراب ہو کر پیا، ان کے بعد سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے، انہوںنے بھی ڈول کو دونوں طرف سے تھام لیا، اس میں کچھ لرزہ سا تھا۔ اس میں سے کچھ چھینٹے عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر جا گرے۔

Haidth Number: 11579
سیدنا بریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کوہ حراء پر تشریف فرما تھے،سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدناعثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھے، اچانک کوہ حراء (خوشی سے) جھومنے لگا،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: حراء ٹھہر جا، تجھ پر نبی ہے، یا صدیق ہے، یا شہید ہے۔

Haidth Number: 11580
سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی زندگی میںہم ابو بکر، عمر اور عثمان کے نام اسی ترتیب سے لیا کرتے اور اس کے بعد ہم خاموش ہو جاتے تھے، جبکہ صحابۂ کرام کثیر تعداد میں تھے ۔

Haidth Number: 11581
سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک روز طلوع آفتاب کے بعدرسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے اور فرمایا: میں نے آج طلوع فجر سے کچھ دیر قبل یوں دیکھا کہ گویا مجھے چابیاں اور ترازو دیئے گئے، چابیاں تو یہی چابیاں ہیں، اور ترازو سے مراد بھییہی ترازو ہیں، جن سے تم اشیاء کا وزن کرتے ہو۔ مجھے ترازو کے ایک پلڑے میں اور میری امت کو دوسرے پلڑے میں رکھ کر میرا ان کے بالمقابل وزن کیا گیا تو میں بھاری رہا۔ پھر ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو لا کر ان کے بالمقابل وزن کیا گیا۔ تو وہ بھاری رہے، پھر سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو لایا گیا اور وزن کیا گیا تو وہ بھاری رہے، اس کے بعد ترازو کو اوپر اٹھا لیا گیا۔

Haidth Number: 11582
ابو الشماخ ازدی اپنے ایک چچا زاد بھائی، جو کہ صحابہ میں سے تھے، سے روایت کرتے ہیں کہ وہ سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں گئے اور کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جو آدمی لوگوں پر حاکم بنا اور اس نے مسکین، مظلوم یا ضرورت مند سے اپنا دروازہ بند کیا، اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت اور فقر کے موقع پر اس پر اپنی رحمت کے دروازے بند کر دے گا، جبکہ وہ اس کی رحمت کا شدید محتاج ہوگا۔

Haidth Number: 12053
سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس آدمی کو لوگوں پر حکمرانی حاصل ہو اور وہ کمزروں اور ضرورت مندوں سے الگ تھلگ ہو جائے (اور ان کی ضروریات پوری نہ کرے) تو روزِ قیامت اللہ تعالیٰ اس سے منہ موڑ لے گا۔

Haidth Number: 12054
ابو الحسن سے روایت ہے کہ عمروبن مرہ نے سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: اے معاویہ! میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو حاکم ضرورت مندوں اور مسکینوں کے سامنے اپنا دروازہ بند کر دیتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت، حاجت اورمسکینی کے وقت آسمان کے دروازے بند کر دیتا ہے۔ اس کے بعد سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ایک شخص مقرر کر دیا، جو لوگوں کی ضرورتوں کا خیال رکھتا تھا۔

Haidth Number: 12055
سیدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ سفر سے واپس ہوئے، ہمارا مسجد بنی معاویہ کے پاس سے گزر ہوا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسجد کے اندر تشریف لے گئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دو رکعت نماز ادا کی، ہم نے بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نماز ادا کی، اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کافی دیر تک اللہ سے مناجات کی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے اپنے رب سے تین دعائیں کی ہیں، میں نے ایک دعا یہ کی کہ اللہ میری امت کو غرق کے ذریعے ہلاک نہ کرے، اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول فرمائی، میں نے دوسری دعا یہ کی کہ وہ میری امت کو قحط کے ذریعے ہلاک نہ کرے،اللہ نے میری یہ دعا بھی قبول فرمائی، میں نے تیسری دعا یہ کی کہ ان کا آپس میں اختلاف نہ ہو، اللہ تعالیٰ نے میری یہ دعا قبول نہیںکی۔

Haidth Number: 12512
سیدناانس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سفر میں دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے چاشت کے وقت آٹھ رکعت نماز ادا کی، نماز سے فراغت کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آج میں نے انتہائی رغبت اور اللہ سے ڈرتے ہوئے نما ز پڑھی ہے، میںنے اپنے رب سے تین دعائیں کی ہیں،اس نے میری دو دعاؤں کو قبول اورایک کو قبول نہیں کیا، میں نے دعا کی کہ وہ میری امت کو قحط میں مبتلا نہ کرے،اس نے اسے قبول کر لیا، پھر میں نے دعا کی کہ ان کا دشمن ان پر غالب نہ آئے، اس نے یہ دعا بھی قبول کر لی اور میں نے دعا کی کہ ان کے آپس میں اختلافات نہ ہوں، تو اللہ تعالیٰ نے میری یہ دعا قبول نہیں کی۔

Haidth Number: 12513

۔ (۱۲۵۱۴)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ خَبَّابٍ، عَنْ أَبِیہِ خَبَّابِ بْنِ الْأَرَتِّ مَوْلٰی بَنِی زُہْرَۃَ، وَکَانَ قَدْ شَہِدَ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَنَّہُ قَالَ: رَاقَبْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی لَیْلَۃٍ، صَلَّاہَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کُلَّہَا حَتّٰی کَانَ مَعَ الْفَجْرِ سَلَّمَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ صَلَاتِہِ، جَائَ ہُ خَبَّابٌ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی، لَقَدْ صَلَّیْتَ اللَّیْلَۃَ صَلَاۃً مَا رَأَیْتُکَ صَلَّیْتَ نَحْوَہَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَجَلْ إِنَّہَا صَلَاۃُ رَغَبٍ وَرَہَبٍ، سَأَلْتُ رَبِّی تَبَارَکَ وَتَعَالٰی ثَلَاثَ خِصَالٍ، فَأَعْطَانِی اثْنَتَیْنِ، وَمَنَعَنِی وَاحِدَۃً، سَأَلْتُ رَبِّی تَبَارَکَ وَتَعَالٰی أَنْ لَا یُہْلِکَنَا بِمَا أَہْلَکَ بِہِ الْأُمَمَ قَبْلَنَا فَأَعْطَانِیہَا، وَسَأَلْتُ رَبِّی عَزَّ وَجَلَّ أَنْ لَا ٔیُظْہِرَ عَلَیْنَا عَدُوًّا غَیْرَنَا فَأَعْطَانِیہَا، وَسَأَلْتُ رَبِّی تَبَارَکَ وَتَعَالٰی أَنْ لَا یَلْبِسَنَا شِیَعًا فَمَنَعَنِیہَا۔)) (مسند احمد: ۲۱۳۶۷)

سیدنا خباب بن ارت سے روایت ہے، یہ صحابی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ غزوۂ بدر میں شریک ہوئے تھے، وہ کہتے ہیں: ایک دفعہ میں نے ساری رات رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر نگاہ رکھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ساری رات نماز پڑھنے میں گزاردی، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فجر کا وقت سلام پھیرا، تو میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور کہا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، آج رات آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایسی نماز پڑھی ہے کہ میں نے قبل ازیں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس طرح نماز پڑھتے نہیں دیکھا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں یہ انتہائی رغبت اور اللہ سے ڈروالی نماز تھی،میں نے اپنے رب تعالیٰ سے تین دعائیں کیں تو اس نے دو کو قبول اور ایک کو رد کردیا، میں نے اپنے رب تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ ہمیں ان عذابوں کے ساتھ ہلاک نہ کرے جن کے ساتھ اس نے گزشتہ قوموں کو ہلاک کیا تھا، تو اس نے یہ دعا قبول کرلی اور میں نے اپنے رب عزوجل سے دعا کی کہ وہ ہمارے دشمنوں کو ہم پر غالب نہ کرے، اس نے میری یہ دعا بھی قبول کرلی اور میں نے اپنے رب عزوجل سے دعاکی کہ وہ ہمارے درمیان آپس میں اختلافات نہ ڈالے، تو اس نے میری دعا قبول نہیں کی۔

Haidth Number: 12514
صحابی ٔ رسول سیدنا ابو بصرہ غفاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے اپنے رب سے چار دعائیں کی ہیں، اس نے تین کو قبول کر لیا اور ایک کو قبول نہ کیا، میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ میری امت کو گمراہی پراکٹھا نہ کرے، اس نے میری یہ دعا قبول فرمائی، میں نے دوسری دعا یہ کی کہ اس نے جس طرح گزشتہ اقوام کو قحط کے ذریعے ہلاک کیا تھا، میری امت کو اس طرح ہلاک نہ کرے، اس نے اسے بھی قبول کر لیا اور میں نے یہ دعا بھی کی کہ وہ میری امت کو آپس کے اختلافات میں نہ ڈالے، لیکن اس نے میری یہ دعا قبول نہیں کی۔

Haidth Number: 12515
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! جو آدمی میری امت سے نرمی کا برتاؤ کرے تو بھی اس پرنرمی فرما اور جو آدمی ان سے سختی کرے اس پر تو بھی سختی فرما۔

Haidth Number: 12516
سیدناابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بھائی سیدنا ابوبردہ بن قیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! تو میری امت کی موت اس طرح بنا دیا کہ وہ تیرے راستے میں نیزے کے ذریعے موت پائیں یا طاعون کے ذریعے۔

Haidth Number: 12517

۔ (۱۲۵۱۸)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقَاہِرِ بْنُ السَّرِیِّ، قَالَ: حَدَّثَنِی ابْنٌ لِکِنَانَۃَ بْنِ عَبَّاسِ بْنِ مِرْدَاسٍ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّ أَبَاہُ الْعَبَّاسَ بْنَ مِرْدَاسٍ حَدَّثَہُ: أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دَعَا عَشِیَّۃَ عَرَفَۃَ لِأُمَّتِہِ بِالْمَغْفِرَۃِ وَالرَّحْمَۃِ فَأَکْثَرَ الدُّعَائَ، فَأَجَابَہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: أَنْ قَدْ فَعَلْتُ وَغَفَرْتُ لِأُمَّتِکَ إِلَّا مَنْ ظَلَمَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا، فَقَالَ: یَا رَبِّ! إِنَّکَ قَادِرٌ أَنْ تَغْفِرَ لِلظَّالِمِ، وَتُثِیبَ الْمَظْلُومَ خَیْرًا مِنْ مَظْلَمَتِہِ، فَلَمْ یَکُنْ فِی تِلْکَ الْعَشِیَّۃِ إِلَّا ذَا، فَلَمَّا کَانَ مِنْ الْغَدِ دَعَا غَدَاۃَ الْمُزْدَلِفَۃِ فَعَادَ یَدْعُو لِأُمَّتِہِ، فَلَمْ یَلْبَثِ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ تَبَسَّمَ، فَقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِہِ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی، ضَحِکْتَ فِی سَاعَۃٍ لَمْ تَکُنْ تَضْحَکُ فِیہَا، فَمَا أَضْحَکَکَ أَضْحَکَ اللّٰہُ سِنَّکَ؟ قَالَ: ((تَبَسَّمْتُ مِنْ عَدُوِّ اللّٰہِ إِبْلِیسَ حِینَ عَلِمَ أَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ اسْتَجَابَ لِی فِی أُمَّتِی وَغَفَرَ لِلظَّالِمِ، أَہْوٰییَدْعُو بِالثُّبُورِ وَالْوَیْلِ، وَیَحْثُو التُّرَابَ عَلٰی رَأْسِہِ، فَتَبَسَّمْتُ مِمَّا یَصْنَعُ جَزَعُہُ))۔ (مسند احمد: ۱۶۳۰۸)

سیدنا عباس بن مرداس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عرفہ کی شام کو اپنی امت کے حق میں مغفرت و رحمت کی بہت سی دعائیں کیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں نے آپ کی یہ دعائیں قبول کر لیں ہیں اور میں نے آپ کی امت کی مغفرت کر دی ہے، البتہ لوگوں میں سے کوئی کسی پر ظلم کرے تو یہ جرم معاف نہ ہوگا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے میرے رب! تو اس بات پر قادر ہے کہ ظالم کو معاف کر دے اور مظلوم کو اس کے ظلم کے بقدر بدلہ اپنی طرف سے عطا فرما دے۔ اس رات صرف اتنی با ت ہوئی،دوسرا دن ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مزدلفہ کو صبح کو دوبارہ امت کے حق میں دعائیں کیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اچانک مسکرانے لگ گئے، کسی صحابی نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، آپ نے ایک ایسے وقت میں تبسم فرمایا ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس وقت تبسم نہیں فرمایا کرتے تھے، اللہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مسکراتا رکھے، اس مسکراہٹ کی وجہ کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں اللہ کے دشمن ابلیس کی حالت دیکھ کر مسکرایا ہوں، جب اسے پتہ چلا کہ اللہ تعالیٰ نے امت کے حق میں میری دعا قبول کر لی ہے اور ظالم کو بھی بخشنے کا وعدہ کیا ہے تو وہ ہاتھ اٹھا اٹھا کر اپنی ہلاکت و تباہی کی باتیں کرنے لگا اور اپنے سر پر خاک ڈالنے لگا، تو میں اس کی پریشانی اور گھبراہٹ دیکھ کر مسکرا دیا۔

Haidth Number: 12518
یسیر بن عمرو سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:میں سہل بن حنیف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس گیا اور کہا کہ آپ مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا کوئی ایسا فرمان سنائیں جو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حروریہ کے بارے میں ارشاد فرمایا ہو۔ انہوں نے کہا: میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں اور اپنی طرف سے اس میں کوئی اضافہ نہیں کروں گا۔ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سنا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عراق کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا : ادھر سے کچھ لوگ نکلیں گے، وہ قرآن تو پڑھیں گے، لیکن وہ ان کے حلقوں سے نیچے نہیں اترے گا اور وہ دین سے یوں نکل جائیں گے، جیسے تیر شکار میں سے تیزی سے پار نکل جاتا ہے۔ میں نے پوچھا : آیا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان لوگوں کی کوئی علامت بھی ذکر فرمائی تھی؟ انھوں نے کہا: جی میں نے اتنا ہی سنا ہے، میں اس پر اضافہ نہیں کروں گا۔

Haidth Number: 12827