Blog
Books
Search Hadith

رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر جھوٹ بولنے سے ترہیب اور اس بارے میں سختی کا بیان

445 Hadiths Found
۔ سیدنا خالد بن عرفطہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: یہ مختار جھوٹا آدمی ہے اور تحقیق میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا: جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولا، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔

Haidth Number: 9908
۔ سیدنا قیس بن سعد بن عبادہ انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے جان بوجھ کر مجھ پر ایک دفعہ جھوٹ بولا، پس وہ اپنا ٹھکانہ آگ سے یا گھر جہنم میں تیار کر لے۔

Haidth Number: 9909
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک مردار بکری کے پاس سے گزرے، جس کو اس کے مالکوں نے پھینک دیا تھا، اور فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جتنی اہمیت اس بکری کی اس کے مالکوں کے ہاں ہے، اللہ تعالیٰ کے ہاں دنیا کی اہمیت اس سے بھی کم ہے۔

Haidth Number: 10080
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک خارش زدہ بھیڑیا بکری کے بچے کے پاس سے گزرے، اس کے مالکوں نے اس کو گھر سے نکال دیا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس چیز کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے کہ یہ بچہ اپنے مالکوں کے ہاں حقیر ہو گا؟ لوگوںنے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جتنا یہ بچہ اپنے مالکوں کے ہاں حقیر ہے، اللہ تعالیٰ کے ہاں دنیا اس سے بھی زیادہ حقیر ہے۔

Haidth Number: 10081
۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بالائی علاقے میں تشریف لائے اور وہاں چھوٹے چھوٹے کانوں والے بکری کے ایک مردار بچے کے پاس سے گزرے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس بچے کو پکڑا اور بلند کیا اور پھر فرمایا: تم اس کو کتنی قیمت کے عوض لینا چاہو گے؟ لوگوں نے کہا: ہم اس کے عوض کوئی چیز دینا بھی گوارا نہیں کریں گے، بھلا ہم نے اس کو کیا کرنا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر فرمایا: تم اس کو کتنی قیمت کے عوض خریدنا چاہو گے؟ لوگوں نے کہا: اللہ کی قسم! اگر یہ زندہ ہوتا تو اس کو اس بنا پر معیوب سمجھا جاتا کہ اس کے کان چھوٹے چھوٹے ہیں، اب تو سرے سے ہے ہی مردہ، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پس اللہ کی قسم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں دنیا اس سے بھی زیادہ حقیر ہے۔

Haidth Number: 10082

۔ (۱۰۰۸۳)۔ عَنْ قَیْسِ بْنِ اَبِیْ حَازِمٍ، عَنِ الْمُسْتَوْرِدِ بْنِ شَدَّادٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ : ((وَاللّٰہِ (وَفِیْ لَفْظٍ: وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ)! مَاالدُّنْیَا فِیْ الْآخِرَۃِ اِلَّا کَرَجُلٍ وَضَعَ اِصْبَعَہُ فِیْ الْیَمِّ ثُمَّ رَجَعَتْ اِلَیْہِ (وَفِیْ لَفْظٍ: فَلْیَنْظُرْ بِمَا یَرْجِعُ اَشَارَ بِالسَّبَابَۃِ وَفِیْلَفْظٍ: یَعْنِیْ اَلَّتِیْ تَلِیْ الْاِبْھَامَ) قَالَ: وَقَالَ الْمُسْتَوْرِدُ: اَشْھَدُ اَنِّیْ کُنْتُ مَعَ الرَّکْبِ الَّذِیْنَ کَانُوْا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِیْنَ مَرَّ بِمَنْزِلِ قَوْمٍ قَدِ ارْتَحَلُوْا عَنْہُ فَاِذَا سَخْلَۃٌ مَطْرُوُحَۃٌ، فَقَالَ: ((اَتَرَوْنَ ھٰذِہٰ ھَانَتْ عَلٰی اَھْلِھَا حِیْنَ اَلْقَوْھَا؟)) قَالُوْا: مِنْ ھَوَانِھَا عَلَیْھِمْ اَلْقَوْھَا، قَالَ: ((فَوَاللّٰہِ! لَلدُّنْیَا اَھْوَنُ عَلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ مِنْ ھٰذِہِ عَلٰی اَھْلِھَا۔)) (مسند احمد: ۱۸۱۸۴)

۔ سیدنا مستورد بن شداد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! دنیا آخرت کے مقابلے میں اس طرح ہے کہ آدمی اپنی انگلی دریا میں ڈالے اور پھر اس کو باہر نکالے اور دیکھے کہ وہ کتنے پانی کے ساتھ واپس آئی ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انگوٹھے کے ساتھ والی انگشت ِ شہادت کی طرف اشارہ کیا۔ سیدنا مستورد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اس قافلے کے ساتھ تھا، جو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک قوم کے مقام کے پاس سے گزرے، وہ وہاں سے کوچ کر چکے تھے، وہاں ایک بکری کا بچہ پڑا ہوا تھا، جس کو ان لوگوں نے پھینک دیا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے بارے میں پوچھا: کیا تمہارا یہی خیال ہے کہ اس کے مالکوں نے اس کو حقیر سمجھ کر ہی چھوڑ دیا ہو گا؟ لوگوں نے کہا: جی اس کی کم اہمیت کی وجہ سے وہ اس کو پھینک گئے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پس اللہ کی قسم ہے کہ دنیا اللہ تعالیٰ کے ہاں اس سے بھی زیادہ حقیر ہے۔

Haidth Number: 10083
۔ سیدنا ضحاک بن سفیان کلابی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: ضحاک! کون سی چیز تمہارا کھانا ہے؟ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! دودھ اور گوشت، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر پوچھا: بالآخر یہ کیا بن کر وجود سے نکلتا ہے ؟ انھوں نے کہا: جناب آپ جانتے ہی ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پس بیشک اللہ تعالیٰ نے ابن آدم سے خارج ہونے والی چیز کو دنیا کے لیے بطورِ مثال بیان کیا ہے۔

Haidth Number: 10084
۔ سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابن آدم کے کھانے کو دنیا کے لیے بطورمثال بیان کیا گیا ہے، ، اگرچہ کھانا مسالے دار اور نمکین ہو، پس دیکھو کہ وہ (بالآخر) کیا ہو جاتا ہے۔

Haidth Number: 10085
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کسی کو اس کا عمل نجات نہیں دلائے گا۔ لوگوں نے کہا: اور نہ آپ کو، اے اللہ کے رسول!؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اور نہ مجھے، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رحمت میں ڈھانپ لے، پس راہِ صواب پر چلو، میانہ روی اختیار کرو، دن کے شروع میں کچھ چل لو، دن کے آخر میں کچھ چل لو اور کچھ رات کو، اور میانہ روی اختیار کرو، اعتدال کو اپناؤ، اپنے مقصد کو پا لو گے۔

Haidth Number: 10196
۔ (دوسری سند) نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے، جس کو اس کا عمل نجات دلا سکے۔ لوگوں نے کہا: اور نہ آپ؟ اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اور نہ میں، الّا یہ کہ میرا ربّ مجھے اپنی طرف سے بخشش اور رحمت میں ڈھانپ لے، اور نہ میں، الّا یہ کہ میرا ربّ مجھے اپنی طرف سے بخشش اور رحمت میں ڈھانپ لے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دو یا تین بارے ایسے ارشاد فرمایا۔

Haidth Number: 10197
۔ (تیسری سند) اسی طرح کی حدیث مروی ہے، البتہ اس میں ہے: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کیا، وہب راوی نے وضاحت کرتے ہوئے ہاتھ کو بند کیا اور کھولا۔

Haidth Number: 10198
۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کوئی فرد جنت میں ہر گز داخل نہیں ہو گا، مگر اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ساتھ۔ ہم نے کہا: اورآپ بھی نہیں؟ اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اور نہ میں، الّا یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رحمت سے ڈھانپ لے۔ ساتھ ہی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے ہاتھ سے سر کے اوپر اشارہ کیا۔

Haidth Number: 10199

۔ (۱۰۲۰۰)۔ عَنْ ضَمْضَمِ بْنِ حَوْسٍ الْیَمَانِیِّ، قَالَ: قَالَ لِیْ اَبُوْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ : یَایَمَامِیُّ! لَا تَقُوْلَنَّ لِرَجُلٍ : واللّٰہِ! لَا یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکَ، اَوْ لَا یُدْخِلُکَ اللّٰہُ الْجَنّۃَ اَبَدًا، قُلْتُ: یَا اَبَا ھُرَیْرَۃَ! اِنَّ ھٰذِہِ الْکَلِمَۃَیَقُوْلُھَا اَحَدُنَا لِاَخِیْہِ وَصَاحِبِہٖاِذَاغَضِبَ،قَالَ: فَـلَاتَقُلْھَا،فَاِنِّیْ سَمِعْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ : ((کَانَ فِیْ بَنِیْ اِسْرَئِیْلَ رَجُلَانِ کَانَ اَحَدُھُمَا مُجْتَھِدًا فِیْ الْعِبَادَۃِ، وَکَانَ الْآخَرُ مُسْرِفًا عَلٰی نَفْسِہِ، فَکَانَا مُتَآخِیَیْنِ، فَکَانَ الْمُجْتَھِدُ لَا یَزَالُیَرَی الْآخَرَ عَلٰی ذَنْبٍ، فَیَقُوْلُ: یَا ھٰذَا اَقْصِرْ، فَیَقُوْلُ : خَلِّنِیْ وَرَبِّیْ، اَبُعِثْتَ عَلَیَّ رَقِیْبًا؟ قَالَ: اِلٰی اَنْ رَآہُ یَوْمًا عَلٰی ذَنْبٍ اسْتَعْظَمَہُ فَقَالَ لَہُ: وَیْحَکَ اَقْصِرْ، قَالَ: خَلِّنِیْ وَرَبِّیْ، اَبُعِثْتَ عَلَیَّ رَقِیْبًا؟ قَالَ: فَقَالَ: وَاللّٰہِ! لَا یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکَ اَوْ لَا یُدْخِلُکَ اللّٰہُ الْجَنَّۃَ اَبَدًا، (قَالَ اَحَدُھَا) قَالَ: فَبَعَثَ اللّٰہُ اِلَیْھِمَامَلَکًا فَقَبَضَ اَرْوَاحَھُمَا وَاجْتَمَعَا فَقَالَ لِلْمُذْنِبِ: اذْھَبْ فَادْخُلِ الْجَنَّۃَ بِرَحْمَتِیْ، وَقَالَ لِلْآخَرَ: اَکُنْتَ بِیْ عَالِمًا؟ اَکُنْتَ عَلَیَّ مَا فِیْیَدِیْ خَازِنًا؟ اذْھَبُوْا بِہٖاِلَی النَّارِ، قَالَ: فَوَ الَّذِیْ نَفْسُ اَبِیْ الْقَاسِمِ بِیَدِہِ لَتَکَلَّمَ بِالْکَلِمَۃِ اَوْبَقَتْ دُنْیَاہُ وَآخِـرَتَہُ۔)) (مسند احمد: ۸۲۷۵)

۔ ضمضم بن ہوس یمانی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے کہا: اے یمامی! تو نے کسی آدمی کو ہر گز اس طرح نہیں کہنا: اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ تجھے نہیں بخشے گا، یا اللہ تعالیٰ تجھ کو کبھی بھی جنت میں داخل نہیں کرے گا۔ میں نے کہا: اے ابوہریرہ! ہم میں جب کوئی آدمی ناراض ہوتا ہے تو وہ اپنے بھائی اور ساتھی پر یہ جملے کستا ہے، انھوں نے کہا: پس تو نے اس طرح نہیں کہنا، کیونکہ میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: بنواسرائیل میں دو آدمی تھے، ان دونوں میں بھائی چارہ تھا، ان میں سے ایک عبادت میں بڑی محنت کرنے والا تھا اور دوسرا اپنی جان پر زیادتی کرنے والا تھا، عبادت گزار دوسرے آدمی کو گناہوں میںملوث دیکھتا رہتا تھا اور اس کو کہتا تھا: او فلاں! باز آ جا، لیکن وہ کہتا: تو رہنے دے مجھے اور میرے ربّ کو، کیا تجھے مجھ پر نگہبان بنا کر بھیجا گیا ہے، ایک دن اس عبادت گزار کو اس کو ایسے گناہ میں ملوث پایا، جس کو اس نے بڑا سمجھا، پس اس نے اس سے کہا: او تو ہلاک ہو جائے، باز آ جا، اس نے حسب ِ روٹین کہا: تو رہنے دے مجھے اور میرے ربّ کو، کیا تجھے مجھ پر نگہبان بنا کر بھیجا گیا ہے، لیکن اس بار اس نے یہ بھی کہہ دیا: اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ تجھے نہیں بخشے گا، یا اللہ تعالیٰ تجھے کبھی بھی جنت میں داخل نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کی طرف فرشتے کو بھیجا اور ان کی روحیں قبض کر لیں، پس وہ دونوں اللہ تعالیٰ کے ہاں جمع ہو گئے، اللہ تعالیٰ نے گنہگار سے کہا: تو جا اور میری رحمت کی وجہ سے جنت میں داخل ہو جا اور دوسرے سے کہا: کیا تو میرے بارے میںجاننے والا تھا؟ میرے ہاتھ میں جو کچھ ہے، کیا تو اس کا خزانچی تھا، لے جاؤ اس کو آگ کی طرف۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں ابو القاسم ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کی جان ہے! اس آدمی نے ایسی بات کر دی کہ جس نے اس کی دنیا اور آخرت کو تباہ کر دیا۔

Haidth Number: 10200
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: جب بھی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بادل نظر آتا تو میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرے میں خوف اور گھبراہٹ کے آثار دیکھتی، جب وہ بارش برساتا تو تب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سکون میں آتے۔

Haidth Number: 10249
۔ (دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب بادل دیکھتے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرہ بدل جاتا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم آنا جانا شروع کر دیتے تھے، جب بارش برسنا شروع ہوتی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کییہ کیفیت چھٹ جاتی، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس چیز کی وجہ دریافت کی گئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے اس بارے میں کوئی امن نہیں ہے کہ ممکن ہے کہ یہ وہی چیز ہو، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے کہا: {فَلَمَّا رَاَوْہُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ اَوْدِیَتِہِمْ قَالُوْا ھٰذَا عَارِض’‘ مُّمْطِرُنَا بَلْ ھُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُمْ بِہٖرِیْح’‘ فِیْھَا عَذَاب’‘ اَلِیْم’‘۔} پھر جب انھوں نے عذاب کو بصورت بادل دیکھا اپنی وادیوں کی طرف آتے ہوئے تو کہنے لگے، یہ بادل ہم پر برسنے والا ہے، (نہیں) بلکہ دراصل یہ وہ (عذاب) ہے، جس کی تم جلدی کر رہے تھے، ہوا ہے جس میں دردناک عذاب ہے ۔ (سورۂ احقاف: ۲۴)

Haidth Number: 10250
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا یہ بھی بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب آسمان کے کسی افق میں کوئی بادل اٹھتے ہوئے دیکھتے تو اپنا کام چھوڑ دیتے، اگرچہ آپ نماز ادا کر رہے ہوتے اور پھر فرماتے: اے اللہ! میں اس شرّ سے تیری پناہ میں آتا ہوں، جو اس میں ہے۔ پس اگر اللہ تعالیٰ اس کو صاف کر دیتا تو اس کی حمد بیان کرتے اور اگر وہ بارش برسانا شروع کر دیتی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرماتے: اے اللہ! نفع بخش بارش نازل کرنا۔

Haidth Number: 10251
۔ سیدنا معاویہ لیثی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب لوگ قحط زدہ ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ (بارش کی صورت میں) اپنا رزق نازل کرتا ہے تو وہ مشرک بن جاتے ہیں۔ کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ کیسے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگ کہتے ہیں کہ فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی ہے۔

Haidth Number: 10252
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے عہد میں بارش ہوئی، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم باہر تشریف لے گئے، (اپنے جسم کے بعض حصے سے) کپڑا ہٹایا،یہاں تک کہ اس حصے پر بارش کا پانی لگا، کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیونکہیہ اپنے ربّ کی طرف سے نئی نئی آئی ہے۔

Haidth Number: 10253
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی مروی ہے، وہ کہتے ہیں: بارش میں اولے برسے، سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اولے کھانا شروع کر دیئے، جبکہ وہ روزے دار بھی تھے، کسی نے کہا: کیا تم روزے کی حالت میں یہ اولے کھاتے ہو؟ انھوں نے کہا: یہ تو برکت ہیں۔

Haidth Number: 10254
۔ سیدنا ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: موسم سرما، مؤمن کے لیے بہار ہے۔

Haidth Number: 10255
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک قحط سالییہ نہیں ہے کہ بارش نہ ہو، بلکہ قحط سالی تو یہ ہے کہ آسمان بارش برسائے، لیکن زمین کچھ نہ اگائے۔

Haidth Number: 10256
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: اے مخلوق میں سے بہترین؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ تو میرے باپ ابراہیم تھے۔

Haidth Number: 10336
۔ سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک ہر نبی کے انبیاء میں سے دوست ہوتے ہیں اور ان میں سے میرے دوست میرے باپ اور میرے ربّ کے خلیل ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت کی: بیشک سب لوگوں سے زیادہ ابراہیم سے نزدیک تر وہ لوگ ہیں، جنہوں نے ان کا کہا مانا اور یہ نبی اور جو لوگ ایمان لائے، مومنوں کا ولی اور سہارا اللہ ہی ہے۔(سورۂ آل عمران: ۶۸)

Haidth Number: 10337
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہم ابراہیم علیہ السلام کی بہ نسبت شک کرنے کے زیادہ حقدار ہیں، جب انھوں نے کہا: اے میرے ربّ! تو مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے، اس نے کہا: کیا ابھی تک تو ایمان نہیں لایا، ابراہیم نے کہا: جی کیوںنہیں، (میں اس لیے سوال کر رہا ہوں تاکہ) میرا دل مطمئن ہو جائے۔

Haidth Number: 10338
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگوں کو اس حالت میں اکٹھا کیا جائے گا کہ وہ ننگے پاؤں، ننگے جسم اور غیر مختون ہوں گے، سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کو لباس پہنایا جائے گا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت کی: جیسے ہم نے پہلی تخلیق کی ابتدا کی، ایسے ہی ہم اسے دوبارہ لوٹائیں گے۔

Haidth Number: 10339
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: رحمن کے خلیل ابراہیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اسی سال کی عمر میں تیشے کے ساتھ ختنہ کیا تھا۔

Haidth Number: 10340
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی مونچھیں کاٹتے تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پہلے تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام اپنی مونچھیں کاٹتے تھے۔

Haidth Number: 10341
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سلیمان بن داود علیہ السلام نے کہا: آج رات میں سو خواتین کے پاس جاؤں گا، ان میں سے ہر ایک ایک لڑکا جنم دے گی اور وہ اللہ کے راستے میں جہاد کرے گا، وہ ان شاء اللہ کہنا بھول گئے، پس سب خواتین کے پاس گئے اور حق زوجیت ادا کیا، لیکن صرف ایک خاتون کا بچہ پیدا ہوا اور وہ بھی ادھورا تھا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر انھوں نے ان شاء اللہ کہا ہوتا تو ان کی قسم بھی نہ ٹوٹتی اور ان کی حاجت بھی پوری ہو جاتی، ایک روایت میں ہے: اگر وہ ان شاء اللہ کہتے تو ہر خاتون نے لڑکا پیدا کرنا تھا، جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں تلوار سے جہاد کرتا۔

Haidth Number: 10405

۔ (۱۰۴۴۰)۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ بَیْنَمَا رَجُلٌ فِیْمَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ کَانَ فِیْ مَمْلَکَتِہِ فَتَفَکَّرَ فَعَلِمَ أَنَّ ذٰلِکَ مُنْقَطِعٌ عَنْہُ وَاَنَّ مَا ھُوَ فِیْہِ قَدْ شَغَلَہُ عَنْ عِبَادَۃِ رَبِّہِ فَتَسَرَّبَ فَانْسَابَ ذَاتَ لَیْلَۃٍمِنْ قَصْرِہِ فَأَصْبَحَ فِیْ مَمْلَکَۃِ غَیْرِہِ، وَأَتَی سَاحِلَ الْبَحْرِ وَکَانَ بِہٖیَضْرِبُ اللَّبِنَ بِالْأَجْرِ فَیَأْکُلُ وَیَتَصَدَّقُ بِالْفَضْلِ، فَلَمْ یَزَلْ کَذٰلِکَ حَتّٰی رَقِیَ أَمْرُہُ اِلٰی مَلِکِھِمْ وَعِبَادَتُہُ وَفَضْلُہُ، فَأَرْسَلَ مَلِکُھُمْ اِلَیْہِ أَنْ یَأْتِیَہُ فَأَبٰی أَنْ یَأْتِیَہُ، فَأَعَادَ ثُمَّ أَعَادَ اِلَیْہِ فَأَبٰی أَنْ یَأْتِیَہُ وَقَالَ: مَا لَہُ وَمَا لِیْ؟ قَالَ: فَرَکِبَ الْمَلَکُ فَلَمَّا رَآہُ الرَّجُلُ وَلّٰی ھَارِبًا، فَلَمَّا رَأٰی ذٰلِکَ الْمَلِکُ رَکَضَ فِیْ أَثْرِہِ فَلَمْ یُدْرِکْہُ، قَالَ: فَنَادَاہُ یَا عَبْدَ اللّٰہِ! اِنَّہُ لَیْسَ عَلَیْکَ مِنِّیْ بَأْسٌ، فَأَقَامَ حَتّٰی أَدْرَکَہُ فَقَالَ لَہُ: مَنْ أَنْتَ رَحِمَکَ اللّٰہُ؟ قَالَ: أَنَا فَلَانُ بْنُ فَلَانٍ صَاحِب مُلْکِ کَذَا وَکَذَا، تَفَکَّرْتُ فِیْ أَمْرِیْ فَعَلِمْتُ أَنَّ مَا أَنَا فِیْہِ مُنْقَطِعٌ، فَاِنَّہُ شَغَلَنِیْ عَنْ عِبَادَۃِ رَبِّیْ فَتَرَکْتُہُ وَ جِئْتُ ھٰھُنَا أَعْبُدُ رَبِّیْ عَزَّ وَجَلَّ، فَقَالَ: مَا أَنْتَ بِِأَحْوَجَ اِلٰی مَا صَنَعْتَ مِنِّیْ، قَالَ: ثَمَّ نَزَلَ عَنْ دَابَّتِہِ فَسَیَّبَھَا ثُمَّّ نَزَلَ عَنْ دَابَّتِہِ فَسَیَّبَھَا ثُمَّّ تَبِعَہُ فَکَانَا جَمِیْعًایَعْبُدَانِ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ فَدَعَوَا اللّٰہَ أَنْ یُمِیْتَھُمَا جَمِیْعًا، قَالَ: فَمَاتَا، قَالَ عَبْدُاللّٰہِ: لَوْ کُنْتُ بِرُمَیْلَۃِ مِصْرَ لَأَرَیْتُکُمْ قُبُوْرَھُمَا بِالنَّعْتِ الَّذِیْ نَعَتَ لَنَا رَسُوْلُ اللّٰہُ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۴۳۱۲)

۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: تم سے پہلے ایک آدمی اپنی مملکت میں موجود تھا، اس نے سوچا اور پھر جان لیا کہ یہ سارا کچھ اس سے منقطع ہونے والا ہے اور اس مملکت نے مجھے اپنے ربّ کی عبادت سے روک رکھا ہے، پھر وہ گھسا (یعنی گھر میں الگ تھلک ہو گیا) اور ایک رات کو اپنے محل سے نکلا اور بے روک چلتا رہا، یہاں تک کہ صبح کے وقت کسی اور کی سلطنت میں پہنچ گیا، پھر وہ سمندر کے ساحل پر آیا،وہاں اجرت پر اینٹیں بناتا، اس طرح رزق حاصل کرتا اور زائد مال کا صدقہ کر دیتا، اس کا معاملہ اسی طرح رہا، یہاں تک کہ بادشاہ کو اس کے معاملے، عبادت اور فضیلت کا پتہ چل گیا، بادشاہ نے اس کو اپنے پاس آنے کا پیغام بھیجا، لیکن اس نے آنے سے انکار کر دیا، اس نے دوبارہ پیغام بھیجا، لیکن اس نے اس بار بھی انکار کر دیا اور اس نے کہا: اس کا مجھ سے کیا تعلق ہے؟ پھر ایک دن بادشاہ سوار ہوا اور اس کے پاس پہنچ گیا، لیکن جب اس نے بادشاہ کو دیکھا تو اس نے بھاگنا شروع کر دیا، جب بادشاہ نے اس کو اس طرح کرتے ہوئے دیکھا تو اس نے بھی سواری کو ایڑ لگائی، لیکن وہ اس کو نہ پا سکا، بالآخر بادشاہ نے کہا: او اللہ کے بندے! میری طرف سے تجھ پر کوئی حرج نہیں ہو گا، پس وہ کھڑا ہو گیا،یہاں تک کہ اس نے اس کو پا لیا اور کہا: اللہ تجھ پر رحم کرے، تو کون ہے؟ اس نے کہا: میں فلاں بن فلاں اور فلاں بادشاہت والا ہوں، میں نے اپنے معاملے میں غور کیا اور یہ جان لیا کہ جو کچھ میرے آس پاس ہے، یہ ختم ہونے والا ہے، لیکن اس نے مجھے اپنے ربّ کی عبادت سے مشغول کر رکھا ہے، اس لیے میں اُس چیز کو چھوڑ کر یہاں آگیا اور اب اپنے ربّ کی عبادت کر رہا ہوں، یہ سن کر بادشاہ نے کہا: جو کچھ تو نے کیا ہے، اس معاملے میں تو مجھ سے زیادہ محتاج نہیںہے، پھر وہ آدمی اپنی سواری سے اترا اور اس کو چھوڑ دیا اور وہ بادشاہ بھی اپنی سواری سے اترا اور اس کو چھوڑ دیا اور اس آدمی کی پیروی کرنے لگا، پس وہ دونوں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے اور ان دونوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی کہ وہ ان کو اکٹھا فوت کرے، پس پھر وہ وفات پا گئے۔ سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اگر میں مصر کے رُمیلہ میدان میں ہوتا تو تم کو ان دونوںکی قبریں ان صفات سے پہچان کر دکھاتا، جو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہم کو بیان کی تھیں۔

Haidth Number: 10440

۔ (۱۰۴۷۳)۔ عَنْ أَبَا ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌کَانَ جَرِیْئًا عَلَی أَنْ یَّسْأَلَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ أَْشْیَائٍ لَا یَسْأَلُہُ عَنْھَا غَیْرُہُ، فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! مَا أَوَّلُ مَا رَأَیْتَ فِی أَمْرِالنَّبُوَّۃِ؟ فَاسْتَوٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جَالِسًا وَقَالَ: ((لَقَدْ سَأَلْتَ، أَبَا ھُرَیْرَۃَ! اِنِّیْ لَفِیْ صَحْرَائَ ابْنُ عَشَرَ سِنِیْنَ وَأَشْھُرٍ وَاِذَا بِکَلَامٍ فَوْقَ رَأَسِیْ وَإِذَا رَجُلٌ یَقُوْلُ لِرَجُلٍ: أَھُوَ ھُوَ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَاسْتَقْبَلَانِیْ بِوُجُوْہٍ لَمْ أَرْھَا لِخَلْقٍ قَطُّ وَأَرْوَاحٍ لَمْ أَجِدْھَا مِنْ خَلْقٍ قَطُّ، وَثِیَابٍ لَمْ أَرَھَا عَلٰی أَحَدٍ قَطُّ، فَأَقْبَلَا اِلَیَّیَمْشِیَانِ حَتّٰی أَخَذَ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْھُمَا بِعَضُدِیْ لَا أَجِدُ لِأَحَدِ ھِمَا مَسًّا، فَقَالَ أَحَدُ ھُمَا لِصَاحِبِہٖ: أَضْجِعْہُ فَأَضْجَعَانِیْ بِلَا قَصْرٍ وَلَا ھَصْرٍ وَقَالَ أَحَدُ ھُمَا لِصَاحِبِہٖ: افْلِقْصَدْرَہُفَھَوٰی أَحَدُ ھُمَا اِلَی صَدْرِیْ فَفَلَقَھَا فِیْمَا أَرٰی بِلَا دَمٍ وَلَا وَجْعٍ، فَقَالَ لَہُ: وأَخْرِجِ الْغِلَّ وَالْحَسَدَ، فَأَخْرَجَ شَیْئًا کَھَیْئَۃِ الْعَلَقَۃِ ثُمَّّ نَبَذَھَا فَطَرَحَھَا، فَقَالَ لَہُ: أَدْخَلِ الرَّأْفَۃَ وَالرَّحْمَۃَ، فَإِذَا مِثْلُ الَّذِیْ أَخْرَجَ یُشْبِہُ الْفِضَّۃَ، ثُمَّّ ھَزَّ إِبْھَامَ رِجْلِی الْیُمْنٰی، فَقَالَ: أغْدُ وَاسْلَمْ، فَرَجَعْتُ بِھِمَا أغْدُوْ رِقَّۃً عَلَی الصَّغِیْرِ وَرَحْمَۃً لِلْکَبِیْرِ۔)) (مسند احمد: ۲۱۵۸۱)

۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، جبکہ وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ایسے امور کے بارے میں سوالا ت کرنے میں دلیر تھے، کہ کوئی اور اتنے سوالات نہیں کرتا تھا، انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے نبوت کے معاملے میںسب سے پہلی کون سی چیز دیکھی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم برابر ہو کر بیٹھے اور پھر فرمایا: ابو ہریرہ! تو نے سوال کیا ہے، میں صحراء میں تھا، میری عمر دس برس اور کچھ ماہ تھی، میں نے اپنے سر کے اوپر سے کلام سنا، پس وہ ایک آدمی تھا، جو دوسرے آدمی سے یہ کہہ رہا تھا؟ کیایہ وہی ہے؟ دوسرے نے کہا: جی ہاں، پھر وہ اپنے چہروں کے ساتھ میرے سامنے آئے، میں نے اس قسم کی مخلوق نہیں دیکھی تھی، وہ ایسی روحیں تھیں کہ میں نے کبھی بھی ایسی روحیں نہیں دیکھی تھیں، ان پر ایسے کپڑے تھے کہ میں نے ان کی طرح کے کپڑے نہیں دیکھے، وہ چل کر میری طرف متوجہ ہوئے، یہاں تک کہ ہر ایک نے میرا بازو پکڑ لیا، میں نے ان کا چھونا تک محسوس نہیںکیا، پھر ایک نے دوسرے سے کہا: اس کو لٹا دے، پس انھوں نے کسی قسم کے قہر اور زبردستی کے بغیر مجھے لٹا دیا، پھر ایک نے دوسرے سے کہا: ان کے سینے کو چاک کرو، پس ایک میرے سینے کی طرف جھکا اور میرے خیال کے مطابق اس کو چاک کر دیا، نہ خون نکلا اور نہ کوئی تکلیف ہوئی، پھر دوسرے فرشتے نے کہا: کینہ اور حسد نکال دے، پس اس نے خون کا لوتھڑا سا نکالا اور اس کو پھینک دیا، پھر اس نے کہا: دل میں رأفت و رحمت ڈال دے، جو چیز انھوں نے نکالی تھی، وہ چاندی کے مشابہ تھی، پھر اس نے میرے دائیں پائوں کا انگوٹھا ہلایا اور کہا: چلو اور سلامت رہو، پس میں ان دونوں کے ساتھ اس حال میں لوٹا کہ چھوٹے پر نرمی کر رہا تھا اور بڑے پررحمت۔

Haidth Number: 10473