ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے كہتے ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے۔ ہم فقیری كا تذكرہ كر رہے تھے اور اس سے ڈررہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: كیا تم فقیری(محتاجی) سے ڈر رہے ہو؟ مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہےتم پر دنیا بے انتہا فراخ كر دی جائے گی حتی كہ یہ مال ہی تم میں سےکسی بھی شخص کا دل ٹیڑھا کرے گا اور اللہ كی قسم میں نے تمہیں ایك روشن راستے پر چھوڑا ہے، اس كے رات اور دن ایك جیسے ہیں، ابو درداءكہتے ہیں كہ اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےسچ فرمایا، اللہ کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں روشن راستے پر چھوڑا ۔ اس كے رات اور دن برابر ہیں
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ كو مكہ كی طرف بھیجا تو فرمایا: كیا تمہیں معلوم ہے كہ میں تمہیں كس طرف بھیج رہا ہوں؟ اللہ والوں كی طرف، جو كہ اہل مكہ ہیں، انہیں چار چیزوں سے منع كرنا:بیع سلف (قرض پر بیع)سے، ایک بیع میں دو شرطوں سے، ایسی (چیز کے)منافع سے جس کے نقصان کا ضامن نہ ہو، اور ایسی چیز کی فروخت سے جو تمہارے پاس نہ ہو۔( )
محمود بن لبید سے مرفوعا مروی ہے كہ دو چیزوں كو ابن آدم نا پسند كرتا ہے۔ موت كو حالانكہ موت مومن كے لئے فتنے سے بہتر ہے۔ اور مال كی كمی كو نا پسند كرتا ہے حالانكہ مال كی كمی حساب میں كمی كا باعث ہے۔( )
ایك انصاری سے مروی ہے اس نے كہا كہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے ساتھ ایك انصاری كے جنازے میں نكلے، جب ہم واپس لوٹے توہمیں ایك قریشی عورت كا پیامبرملا ،جس نے كہا كہ فلاں عورت آپ كو اور آپ كے ساتھیوں كو كھانے پر بلا رہی ہے۔ آپ آكر بیٹھ گئے ، ہم بھی آپ كے ساتھ بیٹھ گئے ،كھانا لایا گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تو لوگوں نےبھی اپنے ہاتھ آگے بڑھائے،لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم كی طرف دیكھاكہ آپ كےمنہ میں جو لقمہ ہے آپ اس کو نگل نہیں رہے۔انہوں نےاپنےہاتھ روك لئےتاكہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كو دیكھیں،آپ نےلقمہ پھینك دیااورفرمایا:میں اس میں ایسی بكری كا گوشت محسوس كررہا ہوں جواس كےمالكوں كی اجازت كےبغیر پكڑی گئی ہے۔یہ كھاناقیدیوں كو كھلادو۔
ابو حمید ساعدی سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا كو احسن طریقے سے حاصل كرو ۔كیوں كہ جو شخص جس چیز كے لئے پیدا كیا گیا ہے اس كے لئے اسے آسانی دی گئی ہے۔( )
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ ایك آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس آیا اور كہا: میری ماں فوت ہوگئی ہے اور اس نے كچھ زیورات چھوڑے ہیں لیکن وصیت نہیں كی، اگر میں اس كی طرف سے صدقہ كر دوں تو كیا اسے فائدہ ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنا مال روك كر ركھو۔( )
زیاد بن حصین اپنے والد حصین بن قیس سے بیان كرتے ہیں كہ وہ مدینے كی طرف غلہ لے كر آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے ملےاور فرمایا:اے اعرابی تم نے كیا اٹھا ركھا ہے؟ اس نے كہا: گندم، آپ نے پوچھا تمہارا كیا ارادہ ہے؟ اس نے كہا: میں اسے فروخت كرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا: اعرابی سے خرید نے (بیچنے) میں اچھا طریقہ اختیار كرو۔( )
جابر رضی اللہ عنہ كہتے ہیں کہ میری خالہ كو تین طلاقیں دے دی گئیں۔ وہ اپنا کھجور کا پھل اتارنے کے لئے نكلیں۔ ایك آدمی انہیں ملا تو انہیں اس كام سے منع كیا۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس آئیں اور ان سے اس بات كا تذكرہ كیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: جا کر اپنی کھجوریں اتار لو، شاید كہ تم اس میں سے صدقہ كرو، یا نیك كا م كرو۔( )
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ جس شخص نے تمہارے پاس امانت ركھی ہے اسے امانت واپس كر دو، اور جس نے تم سے خیانت كی ہے اس سے خیانت نہ كرو۔( )
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس شخص كو جنت میں داخل كر ے گا جو خرید نےاور بیچنے میں یا قرض لینے اور واپس کرنے میں آسان (نرم خو) تھا۔( )
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ: جب خرید و فروخت کرنے والے دو آدمیوں میں اختلاف ہوجائے اور ان دونوں كے درمیان كوئی واضح دلیل یا گواہی نہ ہو تو سامان کے مالک کی بات کا اعتبار ہوگا۔ یا دونوں اسے چھوڑ دیں۔( )
محمد بن یحییٰ بن حبان نے كہا كہ منقذ بن عمرو میرے دادا تھے، ان كے سر میں كوئی چوٹ لگی تھی جس سے ان كی زبان كٹ گئی، اس كے باوجود وہ تجارت نہیں چھوڑ تے تھے اور ہمیشہ دھوكہ كھاتے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس آئے اور آپ سے اس بات كا تذكرہ كیا تو آپ نے ان سے كہا: جب تم خریدو فروخت كرو تو كہو: كوئی دھوكہ نہیں ،پھر تمہیں اپنے سارے سامان میں تین دن تك اختیار ہے، اگر تم راضی ہو جاؤ تو سامان ركھ لو اور اگر پسند نہ آئے تو اس كے مالك كو لوٹا دو۔( )
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:جب تم میں سے كوئی شخص بكری اور دودھیل اونٹنی بیچےتو ان کا دودھ تھنوں میں نہ روکے۔( )
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوعا مروی ہے كہ جب تم بیع عینہ کرو بیع عینہ سے مراد یہ ہے کہ آدمی کسی کو ادھار چیز بیچ کر پھر اس سے کم قیمت میں نقد خرید لے۔ اور بیلوں كی دمیں پكڑ لو، كھیتی باڑی میں مشغول ہو جاؤ اور جہاد كو چھوڑ دو تو اللہ تعالیٰ تم پر ذلت مسلط كر دے گا اور اس وقت نہیں ہٹائے گا جب تك تم اپنے دین پر واپس نہ لوٹ آؤ۔( )
) عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب كی قیمت، زانیہ كی كمائی اور كتے كی قیمت لینے سے منع فرمایا ،اور فرمایا كہ جب كوئی شخص تمہارے پاس كےس كی قیمت لینے آئے تو اس كے دونوں ہاتھ مٹی سے بھر دو۔( )
عكرمہ بن خالد سے مروی ہے كہ اسید بن حضیر انصاری رضی اللہ عنہ نے اسے بتایا: وہ یمامہ كا گورنر تھا۔ مروان نے اسے خط لكھا كہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے خط لكھا ہے کہ: جس شخص كی كوئی چیز چوری ہو جائے ،پھر اسے دیكھ لے تو وہ اس كا زیادہ حق دار ہے۔ پھر مروان نے مجھے خط لكھا ، اور اسید انصاری رضی اللہ عنہ نے مروان کو خط لكھا كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا: جب وہ شخص جس نے چوری شدہ مال اس شخص سے خریدا ہے جس نے چوری كی ہے اور وہ چوری میں بدنام نہیں تو اس كے مالك كو اختیار دیا جائے گا، اگر چاہے تو جس شخص كا مال چوری ہوا ہے اسے اختیار ہے چاہے تو اس کی قیمت دے کر وہ اپنی چیز لے لے۔ اور اگر چاہے تو چور كا پیچھا كرے۔ پھر ابو بكر،عمر اورعثمان رضی اللہ عنہم نے بھی یہی فیصلہ كیا۔ مروان نے میرا خط معاویہ تك پہنچایا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے مروان كو خط لكھا: تم اور اسید میرے حكم كے خلاف فیصلہ نہیں كر سكتے۔ لیكن مجھے یہ اختیار حاصل ہے كہ میں تم پر جس معاملےمیں ذمہ دار ہوں اس كے بارے میں فیلہس كر سكتا ہوں۔ اس لئے جو میں نے تمہیں حكم دیا ہے اسے نافذ كر دو۔ مروان نے معاویہ كا خط بھیجا تو میں نے كہا: مجھے جس معاملے كا ذمہ دار بنایا گیا ہے اس میں معاویہ رضی اللہ عنہ كے كہنے كے مطابق فیصلہ نہیں كروں گا۔( )
) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چار لوگوں سے اللہ تعالیٰ بغض ركھتا ہے۔ قسم كھا كر سودا بیچنےوالے سے، متكبر فقیر سے، بوڑھے زانی سے، اور ظالم حاكم سے۔( )
) سہل بن سعد ساعدی سے مروی ہے كہ ایك آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس آیا اور كہا: اے اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے كسی ایسے عمل كے بارےمیں بتایئے جب میں وہ عمل كروں تو اللہ تعالیٰ مجھ سے محبت كرے اور لوگ بھی مجھ سے محبت كریں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:دنیا سے بے رغبت ہو جاؤ اللہ تعالیٰ تم سے محبت كرے گا اور جو كچھ لوگوں كے ہاتھوں میں ہے اس سے بے پرواہ ہو جاؤ لوگ تم سے محبت كریں گے۔( )
انس رضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ ایك آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس آیا اور كہنے لگا: میں آپ سے محبت كرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فاقہ كے لئے تیار ہو جاؤ۔
سعید بن ابی سعید خدری اپنے والد ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے بیان كرتے ہیں كہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے سامنے اپنی ضرورت كا تذكرہ كیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابو سعید! صبر كرو، كیوں كہ تم میں سے جو شخص مجھ سے محبت كرتا ہے غربت اس كی طرف اس سے بھی زیادہ تیزی سے آتی ہے جتنا كہ سیلاب كسی وادی كے اوپر اور پہاڑ كے اوپر سے نیچے كی طرف آتا ہے۔( )
رافع بن خدیجرضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال كیا گیا: كون سی كمائی زیادہ پاكیزہ(حلال)ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے زیادہ پاكیزہ كمائی آدمی كے ہاتھ كی كمائی اور ہر صاف ستھری تجارت ہے ۔
) حرام بن سعد بن محیصہ سے مروی ہے كہ محیصہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے حجام (سینگی لگانے والے) كی كمائی كے بارے میں پوچھا، تو آپ نے اس سے منع فرمایا۔ وہ یہی بات كرتا رہا حتی كہ آپ نے فرمایا: اپنی اونٹنی كو چارہ كھلا دو، اور اپنے غلام كو دے دو ۔( )
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا قلیل بنائی ہے، اور جو دنیا باقی بچی ہے وہ قلیل میں سے بھی قلیل ہے۔ اور دنیا میں سے جو كچھ باقی بچا ہے وہ تالاب كی طرح ہے، جس كا صاف حصہ پی لیا گیا ہے، اور میل كچیل باقی رہ گیا ہے۔
ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہتے ہیں كہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل ہوتا تو ہم آپ كے پاس آتے اور آپ ہمیں بیان كرتے۔ایك دن آپ نے ہم سے فرمایا: اللہ عزوجل فرماتا ہے: ہم نے مال نماز قائم كرنے اور زكاۃ ادا كرنے كے لئے نازل كیا، اور اگر ابن آدم كے لئے كوئی وادی ہو تو وہ خواہش كرے گا كہ اس كے لئے دوسری وادی ہو، اگر اس كے لئے دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری كی خواہش كرے گا۔ سوائے مٹی كے ابن آدم كا پیٹ كوئی چیز نہیں بھر سكتی۔ پھر اللہ تعالیٰ اس شخص كی توبہ قبول كرتا ہے جو اللہ تعالیٰ سے توبہ كرتا ہے۔( )
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہےكہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:یقینا اللہ تعالیٰ بیچنےمیں خریدنے میں اور یا قرض کے تقاضے كرنےمیں نرمی كوپسندفرماتاہے۔
عبدالرحمن بن شبل رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ: تاجر ہی فاجر لوگ ہیں ۔پوچھا گیا: اے اللہ كے رسول كیا ایسی بات نہیں كہ اللہ تعالیٰ نےتجارت كو حلال كیا ہے؟ آپ نے فرمایا: كیوں نہیں لیكن یہ بات كرتے ہیں تو جھوٹ بولتے ہیں اور قسم كھاتے ہیں تو گنہگار ہوتے ہیں۔( )